مصالح العرب (قسط ۴۴۳)
(عربوں میں تبلیغ احمدیت کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے مسیح موعود کی بشارات، گرانقدر مساعی اور ان کے شیریں ثمرات کا ایمان افروز تذکرہ )
مکرم علاء عثمان صاحب (1)
مکرم علاء عثمان صاحب کا تعلق دمشق کے نواحی گاؤں حُوش عرب سے ہے جہاں ان کی پیدائش 1978ء میں ہوئی۔ ان کے والد محمد عثمان صاحب (مرحوم) کو 1986ء میں بیعت کر نے کی توفیق ملی۔ مکرم محمد عثمان صاحب نے 2009ء میں وفات پائی۔ چونکہ ا س وقت ان کی عمر آٹھ سال تھی اس لئے والد صاحب کی بیعت میں یہ بھی شامل تھے۔گو ان کے ایک بھائی نے بڑے ہوکر سسرال کے دباؤ کی وجہ سے احمدیت سے رشتہ توڑ لیا لیکن انہوں نے بڑے ہوکرخود احمدیت کو سمجھا اوردل وجان سے اس کی حقانیت کے قائل ہوگئے۔
مکرم علاء عثمان صاحب کو اللہ تعالیٰ نے ویب ڈیزائننگ اوراپنی ذاتی ویب سائٹ چلانے کا خاص ملکہ عطا فرمایا ہے۔ انہو ں نے اپنی ویب سائٹ پر بہت بڑی تعداد میں جماعتی کتب ، لٹریچرآرٹیکلز او رویڈیوز ڈالی ہوئی ہیں۔
سیریا میں حالات خراب ہونا شروع ہوئے تو ان کے چھوٹے بھائی کو گرفتار کرلیا گیااور پھر اس کے بارہ میں انہیں کہیں سے خبر ملی کہ وہ فوت ہوگئے ہیں۔ اسی طرح ان کی والدہ اوروفات یافتہ چھوٹے بھائی کی فیملی ابھی بھی دمشق کے ایک علاقے میں محصور ہیں۔ مکرم علاء عثمان صاحب خودبھی لمبا عرصہ ایسی قید میں رہے جہاں سے بچ کے زندہ نکلنا بذات خود ایک معجزہ ہے۔پھر یہ ترکی کے راستے جرمنی پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔
ہماری درخواست پر انہوں نے اپنی کچھ کہانی ہمیں لکھ بھیجی ہے جو انہی کی زبانی پیش ہے۔ وہ کہتے ہیں:
قبول احمدیت سے قبل میرے والد صاحب ایک عام روایتی سنّی مسلمان تھے ۔ہماراخاندان بھی دیگر اہلِ بستی کے ساتھ روایتی عقائد کی ڈگر پر چل رہا تھا کہ 1986ء میں اس میں ایک بھونچال سا آگیا۔
ہوا یوں کہ اس سال ایک شخص مکرم محمد منیر ادلبی صاحب ہمارے گاؤں میں آئے۔ ان کی ہماری بستی کے ایک خاندان میں شادی ہوئی تھی۔انہیں 1982ء میں بیعت کی توفیق ملی جس کے بعد انہوں نے جماعتی عقائد اور افکار کو پھیلانے کے لئے کئی کتب بھی تالیف کیں۔ بہرحال ادلبی صاحب آئے تو انہوں نے بستی کے مولویوں اوربڑی بڑی شخصیات کو مکرم احمد خالد البراقی صاحب کے گھر میں جمع کر کے تبلیغ کی۔میرے والد محمد عثمان صاحب نے بھی جب یہ سنا کہ ایک نیا نبی ظاہر ہوا ہے تو اس کے بارہ میں سننے کی خواہش میںوہ بھی وہاں جا پہنچے۔
گو عمومی طور پر اس مجلس کا نتیجہ یہی نکلا کہ مولوی حضرات اور علماء دین نے منیر ادلبی صاحب کے ہر قول کی بغیر کسی دلیل کے تکذیب کردی۔ لیکن میرے والد صاحب نے ساری باتیں سنیں تواس یقین پر قائم ہو گئے کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے بلکہ اس میں بہت وزن ہے خصوصًا اس لئے بھی کہ منیر ادلبی صاحب نے قرآنی آیات اور احادیث نبویہ سے اپنے کلام کی صداقت پر دلائل دیئے تھے۔چنانچہ جب مجلس برخاست ہوئی اور سب لوگ اپنے اپنے گھرچلے گئے تو میرے والد صاحب نے منیرادلبی صاحب سے کہا کہ جس شخص کی نبوت کا پیغام لے کر آپ آئے ہیں کیا اس نے کوئی کتاب بھی لکھی ہے؟ منیر ادلبی صاحب نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ’’التبلیغ‘‘ دی۔والدصاحب گھر پہنچے اورکتاب کا مطالعہ شروع کردیا۔ہم اس وقت چھوٹے تھے لیکن مجھے یاد ہے کہ والد صاحب نے میری والدہ صاحبہ کو ساتھ بٹھاکر بلند آواز میں کتاب پڑھنی شروع کی۔ ابھی چند صفحات کا ہی مطالعہ کیا تھا کہ والد صاحب کو یقین ہوگیا کہ اس کتاب کا مؤلف کوئی عام آدمی نہیں ہے اور اس کا یہ کلام بھی کوئی عام کلام نہیں ہے بلکہ اس میں خدائی تائید او رغیر معمولی تاثیر پائی جاتی ہے۔ جوں جوں وہ اس کو پڑھتے جاتے تھے اس کے لکھنے والے کی صداقت کے قائل ہوتے جاتے تھے تا آنکہ وہ پکار اٹھے کہ یہ شخص سچا ہے۔ جس کے بعد ان کے لئے گھر میں بیٹھنا مشکل ہوگیا۔ رات کاکافی حصہ بیت چکا تھا لیکن والد صاحب صبح ہونے کا انتظار نہیں کرسکتے تھے چنانچہ وہ اسی وقت اٹھے اور مکرم احمد البراقی صاحب کے گھر کی جانب چل دیئے جہاں شام کے وقت منیرادلبی صاحب کے ساتھ مجلس ہوئی تھی۔احمد البراقی صاحب کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔انہوں نے دروازہ کھولا تو والد صاحب نے معذرت کرنے کے بعد پوچھا کہ کیا منیر ادلبی صاحب ابھی تک یہیں ہیں یا اپنے سسرال کے گھر چلے گئے ہیں؟ احمد البراقی صاحب نے بتایا کہ وہ تو چلے گئے ہیں لیکن رات کے اِس وقت ان کے بارہ میں پوچھنے کا سبب کیا ہے؟والد صاحب نے بتایاکہ میں امام الزمان اور مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرنا چاہتا ہوں۔یہ سن کر احمد البراقی صاحب حیران رہ گئے کیونکہ والد صاحب نے جو فیصلہ سنایا تھا وہ نہایت جذباتی تھا۔ مسیح موعودؑ کازمانہ پانے کے عظیم احساس کے بالمقابل والد صاحب کے خواب وخیال میں بھی نہیں تھا کہ اس فیصلہ کے نتیجہ میں ان کے بہن بھائی اورقریبی رشتہ دار ان کے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟
احمد البراقی صاحب نے میرے والد صاحب سے کہا کہ منیر ادلبی صاحب بیعت فارم اپنے ساتھ ہی لے گئے ہیں۔وہ کل صبح دوبارہ آئیں گے تب آپ بھی آجانا اور وہ آپ کا فارم پُر کردیں گے۔ لیکن والدصاحب کے دل میں حق ایسا راسخ ہوچکا تھا کہ وہ اس کو قبول کرنے میں ایک لمحہ بھی تاخیر نہیں کرنا چاہتے تھے۔چنانچہ انہوں نے کہاکہ وہ صبح تک انتظار نہیں کرسکتے اوراسی وقت بیعت کرنا چاہتے ہیں۔احمد البراقی صاحب نے ان کے اصرار کا سبب پوچھا تو والد صاحب نے کہا کہ اگر چہ موت فوت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن اگر میں گھر جاکر سو گیا اور صبح ہونے سے پہلے فوت ہوگیا تو خدا تعالیٰ کو کیا منہ دکھاؤں گا؟ کہ تیرے بھیجے ہوئے کو سچا جان کر بھی اس کی بیعت نہ کرسکا۔
اس صورت حال کے سامنے احمد البراقی صاحب لاجواب ہوگئے اوربالآخر یہ طے پایا کہ ایک کاغذ پر تحریرکے ذریعہ بیعت کا اقرار لکھ کر والد صاحب نے دستخط کر دیئے اور احمد البراقی صاحب نے بطور گواہ اس پر دستخط کردیئے۔
اس کے بعد والد صاحب گھر آگئے اوروہ اس بات سے خوش تھے کہ میں خدا تعالیٰ سے یہ تو کہہ سکوں گا کہ تیرے مسیح کی صداقت روشن ہونے کے بعد میں نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر اس کی بیعت کرنے کی کوشش کی تھی۔پھراگلی صبح بیعت فارمز آگئے اوروالد صاحب نے باقاعدہ طور پر انہیں پُر کر کے پوسٹ کردیا ۔
بیعت کے بعد والد صاحب نے شام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی میسر کتب کا مطالعہ شروع کردیا اوردوسری جانب اہل بستی اور رشتہ داروں کی جانب سے مخالفت کی شدید لہر اٹھی ۔والد صاحب کے دلائل کے بالمقابل دھونس اورانکار کے ساتھ ساتھ دھمکی آمیز رویہ بھی دیکھا گیا۔لیکن والد صاحب بفضلہ تعالیٰ ثبات قدم کے ساتھ سب کو دعوت ِ ایمان دیتے رہے۔
والد صاحب کے علاوہ بستی میں اور لوگوں نے بھی احمدیت قبول کی او ریوں وہاں پر ایک چھوٹی سی جماعت بن گئی اور ہمارے ہفتہ وار اجلاسات ہونے لگے۔ ان اجلاسات میں والد صاحب ہمیں بھی ساتھ لے جاتے تھے۔ مجھے آج بھی ان اجلاسات میں شرکت کرنے کی لذت یاد آتی ہے۔ ان میں نئے علوم و اخلاق اور آداب سیکھنے کو ملتے تھے اور پیارومحبت کی ایسی فضاکا احساس ہوتا تھا کہ جس سے روح بھی معطر ہوجاتی تھی۔ حقیقت یہی ہے کہ ان ہفتہ وار اجلاسات نے ہمیں لڑکپن کے زمانے میں دنیا اور اس کی چمک کی طرف مائل ہونے سے روکے رکھا۔
میری اپنے والد صاحب کے ساتھ بہت زیادہ وابستگی تھی۔ ان کے احمدی احباب کی مجالس میں جانے اور ملنے ملانے میں میں ان کے ساتھ ہی رہتا تھا۔ا س طرح میری احمدی احباب کے بچوں کے ساتھ بھی دوستی ہوگئی جو خدا کے فضل سے ا ب تک قائم ہے۔
میرے والد صاحب کو تبلیغ کا جنون کی حد تک شوق تھا اور ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے کئی احباب کومسیح الزمان کی بیعت کرنے کی توفیق عطافرمائی۔جب میں بڑا ہوا تو مجھے بھی والد صاحب کی طرح تبلیغ کا شوق تھا لیکن میرا طریق مختلف تھا۔ میری لائن ویب پروگرامنگ اور صحافت تھی چنانچہ میں نے اس کے ذریعہ تبلیغ کا کام شروع کیا۔ اس کے لئے میں نے سب سے پہلے2003ء میں ’’أنا مسلم‘‘ کے نام سے ایک ویب سائٹ کھولی جوعربی زبان میں پہلی احمدی ویب سائٹ تھی۔ 2008ء میں مَیں نے کچھ عرصہ کے لئے یہ ویب سائٹ ختم کردی اور پھر Alahmadiyya کے نام سے ایک اور ویب سائٹ کھولی جو آج تک خدا کے فضل سے چل رہی ہے۔
خدا تعالیٰ کے فضل سے میری اہلیہ بھی احمدی ہے اور میرا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں۔سیریا میں حالات کی خرابی کے باعث جب وہاں رہنا مشکل ہوگیا تو دیگر لاکھوں اہل وطن کی طرح ہم بھی وہاں سے نکلے اورجرمنی پہنچ گئے۔
شام میں فسادات کی ابتدا سے لے کرجرمنی پہنچنے تک کا سفر نہایت شاق، کٹھن اور دشوار گزار رہا۔اس میں قدم قدم زخم اور الم ہیں،لمحہ لمحہ تکلیفیں او رغم ہیں۔اس طویل کہانی کا لفظ لفظ لہو میں ڈوبا ہواہے اوردکھوں کی اس کتھا کا ہرباب دکھوں کا ایک جہان اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ لیکن مَیں اسے آپ کے لئے بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔
2011ء میں جب سیریا میں فسادات شروع ہوئے تو میرے بہت سے رشتہ دار بھی حکومت خلاف مظاہروں میں شامل ہوگئے۔ ان میں میرا چھوٹا بھائی محمود بھی شامل تھا۔وہ دو یا تین مرتبہ ہی ایسے مظاہروں میں شامل ہواتھا کہ میں نے اسے روکا کیونکہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے ارشاد فرمایا تھا کہ خواہ تم پر ظلم بھی ہورہا ہو تب بھی حکومت کے خلاف ایسے مظاہروں میں شامل نہ ہو کیونکہ یہ بالآخر فتنہ وفساد پر منتج ہوگااور قتل و غارت گری وتباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا او رمیرے بھائی پر حکومتی اداروں کی نظر پڑچکی تھی چنانچہ اسے مئی2011ء میں گرفتار کرلیا گیا۔ دوسال تک ہمیں اس کی کوئی خبر نہ ملی۔ پھر 2013ءمیں پتہ چلا کہ وہ ایک دوردراز مقام پر جیل میں ہے۔ ہم وہاں گئے اور اس سے ملاقات ہوگئی۔اس کے بعد اسے وہاں سے کسی او رجگہ منتقل کردیا گیا اور پھر ہمیں اس کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد یہ خبر موصول ہوئی کہ وہ فوت ہوچکا ہے۔ غالب امکان ہے کہ اسے ٹارچر کرکے مار دیا گیا۔ اس کی بیوی اور دو بچے ابھی تک دمشق میں ہی محصور ہیں۔
یہ دکھوں کے دن تھے۔سمجھ نہیں آتی تھی کہ کس دکھ پر روئیں اور کس پر ملال کا اظہارکریں۔میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے معاشرے کو خدا تعالیٰ کی طرف سے اجتماعی سزا دی گئی تھی۔ کیونکہ جب یہ فسادات بڑھے تو میں نے اپنی آنکھوں سے یہ منظر بھی دیکھا کہ راستوں میں لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ مرے ہوئے بے ضرر انسان کی بھی اس قدر بے حرمتی میں نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔بے کسی اور بے بسی کے ساتھ ساتھ بے حسی بھی بڑھتی جارہی تھی۔ ہم ان بکھری لاشوں کے درمیان گاڑی چلاتے ہوئے نکل جاتے تھے۔ کہیں پر رکنا موت کو آواز دینے کے مترادف ہوتا تھا۔ کیونکہ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ کسی نے اپنے جاننے والے کی لاش دیکھ کر گاڑی روکی اور جونہی لاش کے قریب گیا اس پر فائرنگ ہوگئی اور وہ بھی وہیں ڈھیر ہوگیا۔
ان دنوں میں ویب ڈیزائننگ کے کام سے منسلک تھالیکن حالات کی خرابی کی وجہ سے یہ کام ٹھپ ہو کر رہ گیا تھا۔اس لئے میں نے کسی آفس میں کا م کرنے کی بجائے گھر سے ہی یہ کام شروع کردیا۔ہم دمشق میں رہتے تھے جبکہ میرے والدین او رسسرال ہماری آبائی بستی حُوش عرب میں رہائش پذیر تھے۔میں ہردوہفتوں کے بعدبیوی بچوں کو لے کر بستی کا چکر لگاتاتھا۔یہ بستی حکومت مخالف گروہ کے زیر تسلط آگئی تھی اور اس گروہ کے بڑے سرغنوں میں میرا بڑا بھائی بھی تھا جو ہوش کی عمر سے ہی جماعت سے علیحدہ ہوگیا تھا۔
(باقی آئندہ)