خطبہ جمعہ 16؍دسمبر2016ء
ربیع الاوّل کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی۔لیکن افسوس ہے مسلمانوں کی حالت پر کہ یہ دن مناتے تو محسن انسانیت اور رحمۃ للعالمین کی پیدائش کی خوشی میں ہیںلیکن آپس میں مسلمان قُلُوْبُھُمْ شَتّٰی (الحشر:15) کہ ان کے دل پھٹے ہوئے ہیں، کے مصداق بنے ہوئے ہیں۔ اکثرایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں ۔ روزانہ خبریں آتی ہیں سینکڑوں مسلمان مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہو رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے نام پر یہ سب کچھ انتہائی ڈھٹائی اور بے شرمی سے کیا جا رہا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حالت کا نقشہ کھینچ کر بتایا تھا کہ اس حالت میں اسلام کا درد رکھنے والے مسلمان مایوس نہ ہوں ایسے وقت میں مسیح موعود اور مہدی معہود آئے گا جو اپنے آقا و مطاع کے کامل غلام کی حیثیت سے مسلمانوں کو بھی، غیر مسلموں کو بھی،اسلام کی حقیقی تعلیم سے آگاہ کرے گا اور اسلام کی خوبصورت اور روشن تعلیم سے دنیا کو روشن کرے گا اور پھر سے اُمّت واحدہ بنائے گا۔
ہر مسلمان کا یہ عقیدہ ہے اور اس پر کامل ایمان کے بغیر کوئی مسلمان مسلمان کہلا ہی نہیں سکتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور آپ پر شریعت مکمل ہو چکی ہے۔لیکن یہ فتنہ پرداز مولوی عوام الناس کے جذبات کو اس بات سے انگیخت کرتے ہیں کہ احمدی عقیدہ ختم نبوت پر ایمان نہیں رکھتے۔ اس پر سوائے اِنَّا لِلّٰہِ پڑھ کر لَعْنَتُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ کہا جائے اس کے علاوہ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ جو احمدی کہلاتے ہوئے پھر اس بات پر ایمان نہیں رکھتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں وہ فاسق، فاجر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے اور جماعت احمدیہ مسلمہ کا ایسے شخص سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ احمدی ختم نبوت کی وہ تعریف کرتے ہیں جو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی اور جس کو قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ اب کوئی نبی نہیں آ سکتا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی اور آپ کی لائی ہوئی شریعت سے باہر ہو۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات، علماء و بزرگان کے حوالے اور بالخصوص حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کےپُر معارف، بصیرت افروز ارشادات کی روشنی میں ختم نبوت کی تشریح اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عالی مقام کا تذکرہ
12؍ربیع الاوّل کے حوالے سے ناموس رسالت اور ختم نبوت کے نام پر پاکستان میں چند دن پہلے دوالمیال میں اوباشوں اور مولویوں نے جمع ہو کر جلوس نکالا اور ہماری مسجد پر حملہ کیا۔
دنیا بھر میں جماعت احمدیہ کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت طیبہ کے متعلق کانفرنسوں کے انعقاد اور مسلم و غیر مسلم افراد کورحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات سے آگاہ کرنے کی مہم اور اس کے نیک اثرات کا تاریخی حوالہ سے تذکرہ
(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔
ہم آجکل اسلامی مہینہ ربیع الاوّل سے گزر رہے ہیں۔ اسلامی دنیا خاص طور پر پاک و ہند میں اس مہینہ کی اہمیت اس لئے ہے ویسے تو ساری اسلامی دنیا میں ہے لیکن یہاں خاص طور پر اسے بڑا منایا جاتا ہے کہ بارہ تاریخ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی۔ ایک تحقیق یہ کہتی ہے۔ پھر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ’’سیرت خاتم النبیین ‘‘ میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک مصری سکالر کی تحقیق کے مطابق 9؍ربیع الاوّل بنتی ہے۔
(سیرت خاتم النبیین از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 93)
ربیع الاوّل کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی۔ لیکن افسوس ہے مسلمانوں کی حالت پر کہ یہ دن مناتے تو محسن انسانیت اور رحمۃ للعالمین کی پیدائش کی خوشی میں ہیں لیکن آپس میں مسلمان قُلُوْبُھُمْ شَتّٰی (الحشر:15) کہ ان کے دل پھٹے ہوئے ہیں، کے مصداق بنے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو مسلمانوں کے آپس کے تعلقات میں یہ خصوصیت بیان فرماتا ہے کہ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ (الفتح:30) کہ آپس میں بہت زیادہ رحم کرنے والے ہیں لیکن یہ رحم تو دُور کی بات ہے اکثر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں ۔ روزانہ خبریں آتی ہیں سینکڑوں مسلمان مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہو رہے ہیں اور یہ چیز ایسی ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو سخت ناپسند ہے۔ اگر اپنے طور پر ظلم کررہے ہیں تو کریں لیکن یہی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے نام پر ہو رہی ہے۔ مسلمان مسلمان کو قتل کر رہا ہے اور اللہ اور رسول کے نام پر قتل کر رہا ہے۔ وہ خدا جو ربّ العالمین ہے اور رحمان ہے، رحیم ہے، وہ رسول جو رحمۃ للعالمین ہے ان کے نام پر ظلم و بربریت کی مثالیں قائم کر کے بیکسوں، عورتوں، بچوں، معصوموں کو گھروں سے بے گھر کیا جا رہا ہے۔ ننگ اور بھوک میں مبتلا کیا جا رہا ہے۔ قتل کیا جا رہا ہے۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے نام پر یہ سب کچھ انتہائی ڈھٹائی اور بے شرمی سے کیا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ ایک مسلمان کا عمداً قتل تمہیں جہنم میں لے جائے گا۔ کسی بھی معصوم کے قتل سے تم جہنم کی آگ سے بچ نہیں سکتے لیکن یہ مذہبی ٹھیکیدار اور مفاد پرست لیڈر سادہ اور کم علم مسلمانوں کو جنّت کا لالچ دے کر اس قسم کے کام میں جھونکتے چلے جا رہے ہیں۔ اسلام کو اس قدر ان لوگوں نے بدنام کر دیا ہے کہ آج غیر مسلم دنیا میں اسلام کے نام سے پہلا تصور جو غیر مسلموں کے ذہنوں میں ابھرتا ہے وہ ظلم و بربریت ہے۔ ہاں ایک بات ہے جس پر یہ نام نہاد مسلمان لیڈر جمع ہو کر یا علماء جمع ہو کر ایک دوسرے سے تعاون کی باتیں اور تلقین کرتے ہیں اور وہ بات وہ ہے جس کے خلاف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے حکم دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب مسلمانوں کی ایسی حالت ہو جائے گی، جب مسلمانوں کے دل آپس میں پھٹ جائیں گے، قُلُوْبُھُمْ شَتّٰی کی حالت ہو گی، مسلمان ایک دوسرے کے گلے کاٹیں گے۔ نام نہاد علماء جن کے پاس مسلمان لوگ یہ سمجھ کر کہ ان کے پاس ہدایت ہے ہدایت کے لئے جائیںگے تو ان علماء کی بھی یہی حالت ہو گی کہ وہ بھی انہی کاموں میں مصروف ہوں گے جو خدا تعالیٰ سے دُور لے جانے والے ہیں بلکہ عام لوگوں سے بھی بدتر ان کی حالت ہو گی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ عُلَمَآئُھُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ اَدِیْمِ السَّمَآء۔یعنی علماء آسمان کے نیچے بسنے والی مخلوق میں سے بدترین مخلوق ہوں گے۔ (الجامع لشعب الایمان للبیہقی جلد 3 صفحہ 317-318 حدیث 1763 مطبوعہ مکتبۃ الرشد بیروت 2004ء)۔ کیوں؟ فرمایا اس لئے کہ یہ فتنے پیدا کرنے والے ہوں گے۔ ان میں سے فتنے پھوٹیں گے۔ اور یہی ہم آج علماء کی اکثریت میں دیکھ رہے ہیں کہ بجائے آگ بجھانے کے یہ لوگ آگ لگانے والے ہیں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حالت کا نقشہ کھینچ کر بتایا تھا کہ اس حالت میں اسلام کا درد رکھنے والے مسلمان مایوس نہ ہوں ایسے وقت میں مسیح موعود اور مہدی معہود آئے گا جو اپنے آقا و مطاع کے کامل غلام کی حیثیت سے مسلمانوں کو بھی، غیر مسلموں کو بھی اسلام کی حقیقی تعلیم سے آگاہ کرے گا اور اسلام کی خوبصورت اور روشن تعلیم سے دنیا کو روشن کرے گا اور پھر سے اُمّت واحدہ بنائے گا۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا اسی بات سے یہ علماء انکاری ہیں اور لوگوں کو بھی، عامۃ المسلمین کو بھی غلط باتیں بتا کر فساد کی صورت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لوگوں کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔ اور انہیں وہ باتیں فساد پیدا کرنے کے لئے بتاتے ہیں کہ جن کا وجود ہی نہیں ہے۔
ہر مسلمان کا یہ عقیدہ ہے اور اس پر کامل ایمان کے بغیر کوئی مسلمان مسلمان کہلا ہی نہیں سکتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور آپ پر شریعت مکمل ہو چکی ہے۔ لیکن یہ فتنہ پرداز مولوی عوام الناس کے جذبات کو اس بات سے انگیخت کرتے ہیں کہ احمدی عقیدہ ختم نبوت پر ایمان نہیں رکھتے۔ اس پر سوائے اِنَّا لِلّٰہِ پڑھ کر لَعْنَتُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ کہا جائے اس کے علاوہ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ جو احمدی کہلاتے ہوئے پھر اس بات پر ایمان نہیں رکھتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں وہ فاسق، فاجر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے اور جماعت احمدیہ مسلمہ کا ایسے شخص سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ احمدی ختم نبوت کی وہ تعریف کرتے ہیں جو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی اور جس کو قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ اب کوئی نبی نہیں آ سکتا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی اور آپ کی لائی ہوئی شریعت سے باہر ہو۔
ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر اس امّت میں سب سے افضل ہیں سوائے اس کے کہ کوئی نبی مبعوث ہو۔ (کنز العمال جلد 11 صفحہ 251 کتاب الفضائل ذکر الصحابۃ وفضلھم ؓحدیث 32575مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)
پس آپ نے نبوت کا راستہ بند نہیں فرمایا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائرے سے باہر نکل کر کوئی نبی نہیں آ سکتا۔ کوئی نئی شریعت نہیں آ سکتی۔ اور ہم اگر حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مسیح و مہدی ہونے کی حیثیت سے نبی بھی مانتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل غلامی میں رکھتے ہوئے مانتے ہیں اور یہی پرانے علماء کا بھی مسلک تھا۔
چنانچہ شاہ ولی اللہ دہلوی اپنی کتاب ’’تفہیمات الٰہیہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’مجھ پر نبی ختم کئے گئے‘‘ (یہ قول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے) کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایسا کوئی شخص نہیں آئے گا جس کو اللہ سبحانہٗ لوگوں کے لئے شریعت دے کر بھیجے۔ (التفہیمات الالٰہیہ از شاہ ولی اللہ دہلویؒ جلد 2 صفحہ 85 مکتبہ حیدری لاہور 1967ء)۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ کوئی ایسا نبی نہیں آئے گا جو شریعت لے کر آئے۔ اس کے بغیر آ سکتا ہے۔
اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء تو کہو لیکن یہ نہ کہو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ (الدر المنثور جلد 5 صفحہ 204 تفسیر سورۃ الاحزاب مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت)
پس ہم اگر مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو مسیح موعود مانتے ہوئے نبی کا درجہ دیتے ہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کے طفیل۔ پس علماء جو وقتاً فوقتاً عوام الناس کو اس حساس بات پر ابھارتے رہتے ہیں کہ احمدی یا وہ جو یہ لوگ کہتے ہیں کہ قادیانی مرزا غلام احمد علیہ السلام کو نبی مانتے ہیں تو ان کی یہ باتیں سوائے فتنہ کے کچھ نہیں ہیں۔
حکومت پاکستان کو یہ بڑا فخر ہے کہ انہوں نے اُس زمانے میں جب قانون پاس ہوا تھا اور اب اس کو 125 سال ہو گئے ، نوّے سالہ مسئلہ، یہ ختم نبوت کا مسئلہ تھا اس کو حل کر دیا اور اس بات پر پاکستان میں علماء بھی اور بعض حکومتی کارندے بھی لوگوں کے جذبات کو ابھارتے رہتے ہیں۔ تو یہ تو ان کی وہ حالت ہے جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی۔ عامّۃ المسلمین بجائے اپنے ان علماء کی باتیں سننے کے یہ دیکھیں اور ان کو یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا یہ زمانہ اس بات کو نہیں چاہتا کہ ایک مصلح آئے جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی اور مسلمانوں کو اُمّت واحدہ بنائے۔ یقینا یہ زمانہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا بھی کر دیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی مکمل اور پوری ہو چکی ہے۔ لیکن ان علماء نے نہیں ماننا کیونکہ ان کے منبر اور ان کی جو روٹی لگی ہوئی ہے وہ ان کے ہاتھ سے جاتی ہے۔ یہ مسلمانوں کو بھی بھڑکاتے رہیں گے اور پاکستان میں جیسا کہ مَیں نے کہا کہ ملکی قانون بھی ان کو کھلی چھٹی دیتا ہے اس لئے وقتاً فوقتاً احمدیوں کے خلاف اس الزام کی وجہ سے جلسے جلوس اور گالم گلوچ بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ بداخلاق اور یہ رویّے ان مولویوں کو ہی مبارک ہوں۔ یہ تو یہ کر سکتے ہیں لیکن احمدی ایسی بیہودگیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
12؍ربیع الاوّل کے حوالے سے ناموسِ رسالت اور ختمِ نبوت کے نام پر پاکستان میں چند دن پہلے (یہ چار دن پہلے تھا) دوالمیال میں اوباشوں اور مولویوں نے جمع ہو کر جلوس نکالا۔ہماری مسجد پر حملہ کیا۔ مسجد کے اندر احمدی تھے۔ احمدیوں نے اندر آنے نہیں دیا۔ دروازے بند تھے۔ لیکن پولیس کے کہنے پر جب احمدیوں نے دروازے کھولے اور پولیس کی اس ضمانت پر دروازے کھولے کہ وہ مسجد کی حفاظت کریں گے اُس وقت یہ بلوائی مسجد میں داخل ہو گئے اور پولیس ایک طرف ہو گئی۔ اور پھر انہوں نے مسجد کا سامان باہر نکال کر جلایا اور یوں انہوں نے اپنے زعم میں اسلام کی بہت بڑی خدمت کی۔
بہرحال ہم نے قانون سے نہیں لڑنا نہ ہم لڑتے ہیں جہاں تک مادی چیزوں کا سوال ہے ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ ٹھیک ہے نقصان کیا، کر دیں۔ ہاں اپنے عقیدے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کامل ایمان لانے کا اور توحید کو اپنے دلوں میں گاڑنے کا جہاں تک سوال ہے اس کے لئے ہم اپنی جانیں قربان کر سکتے ہیں لیکن اس سے ہٹنے والے نہیں اور ہمیشہ ہم یہی کہتے آئے ہیں اور اس کی خاطر قربانیاں بھی دیتے آئے ہیں کہ لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہ کے اعلان سے ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
یہ لوگ تو رسمی میلاد مناتے ہیں، رسماً اکٹھے ہوتے ہیں۔ تقریریں کیں اور ان کی جو تقریریں ہیں وہ بھی اکثریت پاکستان میں سوائے احمدیوں کو گالیاں دینے کے اور کچھ نہیں ہوتیں۔ یہ مغلّظات بک کر وقتی طور پر ایک جوش نکال لیتے ہیں۔ اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے انہوں نے اسلام کی بہت بڑی خدمت کر لی۔ لیکن جماعت احمدیہ نے اصل خدمت کا بیڑا پہلے تو اُس وقت اٹھایا تھا جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعویٰ کیا اور آپ نے یہی فرمایا کہ میں توحید کو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو قائم کرنے کے لئے آیا ہوں۔ اسلام کی نشأۃ ثانیہ میرے ذریعہ سے ہونی ہے۔ اور پھر خلافت ثانیہ میں اُس وقت جب ایک وقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف غیر مسلمانوں نے اخباروں اور کتابوں میں بیہودہ گوئیاں کیں، انتہائی غلیظ زبان استعمال کرتے ہوئے لکھنا شروع کیا تو اس وقت حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے بڑے پیمانے پر ہندوستان میں سیرت کانفرنسیں منعقد کیں اور احمدیوں اور غیر احمدیوں، سب مسلمانوں کو کہا کہ اب یہ وقت ہے کہ اختلافات چھوڑ کر اکٹھے ہو کر، جمع ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اور اسلام کا دفاع کرو اور وسیع پیمانے پر اس کا آپ نے ان کانفرنسوں کا آغاز فرمایا بلکہ جو غیر مسلم شرفاء تھے آپ نے ان غیر مسلموں کو بھی دعوت دی۔ مسلمانوں کے تو ایمان کا حصہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کامل ایمان لائیں اور آپ کی عزت و ناموس کی حفاظت کریں لیکن حضرت مصلح موعود نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات تو تمام دنیا پر ہیں۔ آپ تو رحمت للعالمین ہیں اس لئے جو غیرمسلم شرفاء ہیں وہ بھی آپ کی سیرت بیان کریں۔ چنانچہ بہت سے غیر مسلم پڑھے لکھے لوگوں نے جن میں ہندو بھی شامل تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر اپنے مضامین پڑھے۔ 1928ء میں جب قادیان میں پہلا جلسہ ہوا تو اس میں ہندو شعراء کی دو نعتیں بھی پڑھی گئیں۔ (تاریخ احمدیت جلد 5 صفحہ 43)
تمام ہندوستان میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی تحریک پر سیرت کانفرنسیں منعقد ہوئیں جیسا کہ مَیں نے کہا اور باوجود نظریاتی اور عقیدے کے اختلاف کے اس وقت کے غیر احمدیوں نے علماء سمیت، (بعضوں نے اس مہم کی مخالفت بھی کی تھی) لیکن ان میں بہت سارے ایسے تھے جنہوں نے اس منصوبے کو اور اس کوشش کو کامیاب بنایا۔ چنانچہ اخباروں نے اس پر تبصرے بھی کئے اور خبریں بھی شائع ہوئیں۔
ایک اخبار ’’مشرق‘‘ گورکھ پور ہے۔ 21؍جون 1928ء میں اس نے لکھا کہ ہندوستان میں یہ تاریخ ہمیشہ زندہ رہے گی۔ اس لئے کہ اس تاریخ میں اعلیٰ حضرت آقائے دوجہان سردارِ کون و مکاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرِ خیر کسی نہ کسی پیرائے میں مسلمانوں کے ہر فرقے نے کیا اور ہر شہر میں یہ کوشش کی گئی کہ اول درجے پر ہمارا شہر رہے۔ جن اصحاب نے اس موقع پر تفرقہ اور فتنہ پردازی کے لئے پوسٹر لکھے۔ (کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے مخالفت کرنی ہی کرنی ہوتی ہے) اور تقریریں لکھ کر ہمارے پاس بھیجیں۔( یعنی اخبار کے پاس) وہ بہت احمق ہیں۔ اخبار لکھنے والا کہتا ہے وہ بہت احمق ہیں جو ہمارے عقیدے سے واقف نہیں۔ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ جو شخص لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہ پر ایمان رکھے وہ ناجی ہے۔ آگے لکھتا ہے کہ بہر حال 17؍جون کو جلسہ کی کامیابی پر ہم امام جماعت احمدیہ جناب مرزا محمود احمد کو مبارکباد دیتے ہیں۔ اگر شیعہ و سنی اور احمدی اسی طرح سال بھر میں دو چار مرتبہ ایک جگہ جمع ہو جایا کریں گے تو پھر کوئی قوت اسلام کا مقابلہ اس ملک میں نہیں کرسکتی۔ (تاریخ احمدیت جلد 5 صفحہ 36-37)
پھر ایک اخبار ’سلطان‘ کلکتہ سے شائع ہوتا ہے۔ یہ بنگالی اخبار ہے۔ اس نے 21؍ جون میں لکھا کہ جماعت احمدیہ نے 17؍جون کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بیان کرنے کے لئے ہندوستان بھر میں جلسے منعقد کئے۔ ہمیں اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ تقریباً سب جگہ کامیاب جلسے ہوئے اور یہ تو ایک حقیقت ہے کہ اس نواح میں احمدیوں کو ایسی عظیم الشان کامیابی ہوئی ہے کہ اس سے قبل کبھی نہیں ہوئی اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت احمدیہ روز بروز طاقتور ہو رہی ہے اور لوگوں کے دلوں میں جگہ حاصل کر رہی ہے۔ ہم خود بھی اس طاقت کا اعتراف کرتے اور ان کی کامیابی کے متمنی ہیں۔(تاریخ احمدیت جلد 5 صفحہ 37-38)
تو یہ اس وقت اخباروں نے بھی لکھا اور غیروں نے ساتھ بھی دیا۔ اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کا سوال تھا۔ جماعت احمدیہ کو کسی سے خراج تحسین لینے کی ضرورت نہیں۔ یہ کوشش تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس لئے کی تھی کہ اسلام دشمنوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہنسی ٹھٹھا کرنے والوں کو یہ پتا چلے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام کیا تھا اور یہ کہ اس بات پر مسلمان ایک ہیں۔ قادیان میں بعض ہندوؤں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر تقریریں کیں۔ الفضل نے خاص طور پر اس وقت خاتم النبیین نمبر شائع کیا۔(تاریخ احمدیت جلد 5 صفحہ 33) ۔ اور اس کے بعد سے جماعت احمدیہ مسلمہ تو باقاعدہ سیرت النبی کے جلسے منعقد کرتی ہے۔ آپ نے جو چار پانچ نکات دئیے تھے ان میں ایک یہ بھی تھا کہ بجائے صرف 12؍ربیع الاول کے، سارا سال مختلف وقتوں میں سیرت کے جلسے ہونے چاہئیں۔ (تاریخ احمدیت جلد 5 صفحہ 31)
بہرحال یہ جماعت احمدیہ کی تاریخ ہے اور جلسے منعقد ہوتے ہیں اور اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے دو سو سے زائد ممالک میں جہاں جماعت احمدیہ قائم ہو چکی ہے یہ جلسے منعقد کئے جاتے ہیں اور انشاء اللہ احمدی ہی ہیں اور ہمیشہ رہیں گے جو مقام ختم نبوت کا صحیح ادراک رکھتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح مقام سے دنیا کو روشناس کروا رہے ہیں۔ یہ اس لئے کہ ہمیں اس زمانے کے امام مسیح موعود اور مہدی معہود علیہ السلام نے بتایا کہ اگر خدا تعالیٰ تک پہنچنا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن کو پکڑو کہ آپ ہی اب راہِ نجات ہیں۔ کوئی اَور ذریعہ نہیں۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا۔ ’’وہ ہے مَیں چیز کیا ہوں‘‘۔
(قادیان کے آریہ اور ہم، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 456)
آپ نے کبھی اپنے آپ کو بڑا نہیں ثابت کیا۔ ہمیشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑائی ہی بیان فرمائی۔
پھر اس الزام کو ردّ کرتے ہوئے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہیں مانتے، آپ علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ مجھ پر اور میری جماعت پر جو یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہیں مانتے یہ ہم پر افترائے عظیم ہے۔ ہم جس قوّت، یقین، معرفت اور بصیرت کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء مانتے اور یقین کرتے ہیں اس کا لاکھواں حصہ بھی دوسرے لوگ نہیں مانتے اور ان کا ایسا ظرف ہی نہیں ہے۔ وہ اس حقیقت اور راز کو جو خاتم الانبیاء کی ختم نبوت میں ہے، سمجھتے ہی نہیں ہیں۔ انہوں نے صرف باپ دادا سے ایک لفظ سنا ہوا ہے مگر اس کی حقیقت سے بے خبر ہیں اور نہیں جانتے کہ ختم نبوت کیا ہوتا ہے اور اس پر ایمان لانے کا مفہوم کیا ہے؟ مگر ہم بصیرت تام سے (جس کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء یقین کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ نے ہم پر ختم نبوت کی حقیقت کو ایسے طور پر کھول دیا ہے کہ اس عرفان کے شربت سے جو ہمیں پلایا گیا ہے ایک خاص لذّت پاتے ہیں جس کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا بجز ان لوگوں کے جو اس چشمہ سے سیراب ہوں۔‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ 342۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس جو ہمیں ختم نبوت کا منکر سمجھتے ہیں وہ خود اندھے ہیں اور ان کے دل کھوکھلے ہیں۔ سوائے نعرہ بازی اور فتنہ و فساد کے اور توڑ پھوڑ کے ان کے پاس اور ہے ہی کیا۔ کیا اسلام کا جو پیغام اس وقت جماعت احمدیہ دنیا میں پھیلا رہی ہے وہ اس بات کی کافی دلیل نہیں ہے کہ حضرت خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی امت کے لئے مانگی گئی دعاؤں سے مسیح موعود کی جماعت ہی حصہ لے رہی ہے۔
پھر ختم نبوت کی حقیقت بیان فرماتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں کہ:
’’ہمیں اللہ تعالیٰ نے وہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) دیا جو خاتم المومنینؐ، خاتم العارفینؐ اور خاتم النبیینؐ ہے۔ اور اسی طرح پر وہ کتاب اُس پر نازل کی جو جامع الکتب اور خاتم الکتب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو خاتم النبیین ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) پر نبوت ختم ہو گئی تو یہ نبوت اس طرح پر ختم نہیں ہوئی جیسے کوئی گلا گھونٹ کر ختم کردے۔ ایسا ختم قابلِ فخر نہیں ہوتا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہونے سے یہ مراد ہے کہ طبعی طور پر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) پر کمالات نبوت ختم ہو گئے۔ یعنی وہ تمام کمالات متفرقہ جو آدم سے لے کر مسیح ابن مریم تک نبیوں کو دئیے گئے تھے۔ کسی کو کوئی اور کسی کو کوئی۔ وہ سب کے سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں جمع کر دئیے گئے اور اس طرح پر طبعاً آپ خاتم النبیین ٹھہرے۔ اور ایسا ہی وہ جمیع تعلیمات، وصایا اور معارف جو مختلف کتابوں میں چلے آتے ہیں وہ قرآن شریف پر آ کر ختم ہو گئے اور قرآن شریف خاتم الکتب ٹھہرا۔ ‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 341-342۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کو بیان فرماتے ہوئے کہ زندہ رسول ابدالآباد کے لئے صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’کیا بنی اسرائیل کے بقیہ یہود یا حضرت مسیح علیہ السلام کو خداوند خدا پکارنے والے عیسائیوں میں کوئی ہے جو ان نشانات میں میرا مقابلہ کرے۔ مَیں پکار کر کہتا ہوں کہ کوئی بھی نہیں۔ ایک بھی نہیں۔ پھر یہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداری معجزہ نمائی کی قوت کا ثبوت ہے۔ کیونکہ یہ مسلّم مسئلہ ہے کہ نبی متبوع کے معجزات ہی وہ معجزات کہلاتے ہیں جو اس کے کسی متبع کے ہاتھ پر سرزد ہوں۔ پس جو نشانات خوارق عادات مجھے دئیے گئے ہیں، جو پیشگوئیوں کا عظیم الشان نشان مجھے عطا ہوا ہے یہ دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زندہ معجزات ہیں۔ اور کسی دوسرے نبی کے متّبع کو یہ آج فخر نہیں ہے کہ وہ اس طرح پر دعوت کر کے ظاہر کر دے کہ وہ بھی اپنے اندر اپنے ہی متبوع کی قوت قدسی کی وجہ سے خوارق دکھا سکتا ہے۔ یہ فخر صرف اسلام کو ہے اور اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ زندہ رسول ابدالآباد کے لئے صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہو سکتے ہیں جن کے انفاس طیبہ اور قوت قدسیہ کے طفیل سے ہر زمانہ میں ایک مردِ خدا خدانمائی کا ثبوت دیتا رہتا ہے۔ ‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 413-414۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ، آپ کے عجز و انکسار اور اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے لئے آپ کی محبت میں سرشار ہونے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :
’’حدیث میں آیا ہے کہ اگر فضل نہ ہوتا تو نجات نہ ہوتی‘‘۔ (یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کی وجہ سے نجات ہوتی ہے۔) ’’ایسا ہی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ سے سوال کیا (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دفعہ سوال کیا) کہ یا حضرت کیا آپ کا بھی یہی حال ہے۔‘‘ (یہ جو آپ نے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہو تو نجات نہیں ہوتی تو آپ کا بھی یہی حال ہے؟) ’’ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے سر پر ہاتھ رکھا اور فرمایا ’ہاں‘۔‘‘ آپ فرماتے ہیں ’’یہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی کمال عبودیت کا اظہار تھا جو خدا تعالیٰ کی ربوبیت کو جذب کر رہا تھا۔‘‘ پھر آپ بیان فرماتے ہیں کہ ’’ہم نے خود تجربہ کر کے دیکھا ہے اور متعدد مرتبہ آزمایا ہے بلکہ ہمیشہ دیکھتے ہیں کہ جب انکسار اور تذلّل کی حالت انتہا کو پہنچی ہے اور ہماری روح اس عبودیت اور فروتنی میں بَہ نکلتی ہے اور آستانہ حضرت واہب العطایا پر پہنچ جاتی ہے تو ایک روشنی اور نور اوپر سے اترتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ایک نالی کے ذریعہ سے مصفّٰی پانی دوسری نالی میں پہنچتا ہے۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت جس قدر بعض مقامات پر فروتنی اور انکساری میں کمال پر پہنچی ہوئی نظر آتی ہے وہاں معلوم ہوتا ہے کہ اسی قدر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) روح القدس کی تائید اور روشنی سے مؤیّد اور منوّر ہیں جیسا کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی اور فعلی حالت سے دکھایا ہے۔ یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے انوار و برکات کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ ابدالآباد تک اس کا نمونہ اور ظل نظر آتا ہے۔ چنانچہ اس زمانہ میں بھی جو کچھ خدا تعالیٰ کا فیض اور فضل نازل ہو رہا ہے وہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) ہی کی اطاعت اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) ہی کی اتباع سے ملتا ہے۔‘‘ فرمایا ’’مَیں سچ کہتا ہوں کوئی شخص حقیقی نیکی کرنے والا اور خدا تعالیٰ کی رضا کو پانے والا نہیں ٹھہر سکتا اور ان انعام و برکات اور معارف اور حقائق اور کشوف سے بہرہ ور نہیں ہو سکتا جو اعلیٰ درجہ کے تزکیہ نفس پر ملتے ہیں جبتک کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں کھویا نہ جائے اور اس کا ثبوت خود خدا تعالیٰ کے کلام سے ملتا ہے‘‘۔ (اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ) ’’قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہ‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 203-204۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)۔ اگر اللہ تعالیٰ کی محبت چاہتے ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہلوایا کہ آپ کی اتباع کرو تو پھر اللہ کی محبت ملے گی۔
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید نازل کرنے کی غرض بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ:
’’ مَیں نے کئی دفعہ اس سے پہلے بھی بیان کیا ہے اور اب بھی اس کا بیان کرنا فائدہ سے خالی نہیں ہے اس لئے مَیں پھر کہنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ جو انبیاء کو بھیجتا ہے اور آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نے دنیا کی ہدایت کے واسطے بھیجا اور قرآن مجید کو نازل فرمایا تو اس کی غرض کیا تھی؟ ہر شخص جو کام کرتا ہے اس کی کوئی نہ کوئی غرض ہوتی ہے۔ ایسا خیال کرنا کہ قرآن شریف نازل کرنے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجنے سے اللہ تعالیٰ کی کوئی غرض اور مقصد نہیں ہے کمال درجہ کی گستاخی اور بے ادبی ہے کیونکہ اس میں (معاذ اللہ)، اللہ تعالیٰ کی طرف ایک فعل عبث کو منسوب کیا جائے گا‘‘۔ (پھر اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا فضول بات ہو گی) حالانکہ اس کی ذات پاک ہے (سبحانہ وتعالیٰ شانہٗ)۔ پس یاد رکھو کہ کتاب مجید کے بھیجنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا ہے کہ تا دنیا پر عظیم الشان رحمت کا نمونہ دکھاوے جیسے فرمایا۔ وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ (الانبیاء:108) اور ایسا ہی قرآن مجید کے بھیجنے کی غرض بتائی کہ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْن (البقرہ:3)۔ یہ ایسی عظیم الشان اغراض ہیں کہ ان کی نظیر نہیں پائی جاسکتی۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 340۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر قرآن کریم کی بلند شان ہونے اور اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ قرآن مجید میں متفرق کتابوں کے تمام کمالات جمع ہیں اور صرف بطور قصہ کے نہیں بلکہ ایک مومن کے لئے عمل کرنے کے لئے ہیں آپ فرماتے ہیں:
’’ اللہ تعالیٰ نے چاہا ہے کہ جیسے تمام کمالات متفرقہ جو انبیاء میں تھے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں جمع کر دئیے۔ اسی طرح تمام خوبیاں اور کمالات جو متفرق کتابوں میں تھے وہ قرآن شریف میں کر دئیے اور ایسا ہی جس قدر کمالات تمام اُمّتوں میں تھے وہ اس اُمّت میں جمع کر دئیے۔ پس خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم ان کمالات کو پا لیں اور یہ بات بھی بھولنی نہیں چاہئے کہ جیسے وہ عظیم الشان کمالات ہم کو دینا چاہتا ہے اسی کے موافق اس نے ہمیں قُویٰ بھی عطا کئے ہیں کیونکہ اگر اس کے موافق قویٰ نہ دئیے جاتے تو پھر ہم ان کمالات کو کسی صورت اور حالت میں پا ہی نہیں سکتے تھے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی شخص ایک گروہ کی دعوت کرے تو ضرور ہے کہ اس گروہ کی تعداد کے موافق کھانا تیار کرے اور اسی کے موافق ایک مکان (یعنی دعوت کی جگہ بھی) ہو۔ یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ دعوت تو ایک ہزار آدمی کی کرے اور ان کے بٹھانے کے واسطے ایک چھوٹی سی کُٹیا بنا دے‘‘۔ (دعوت کرے ہزار آدمی کی اور جگہ بالکل تھوڑی سی رکھے۔)’’ نہیں بلکہ وہ اس تعداد کا پورا لحاظ رکھے گا۔ (ان کے بیٹھنے کی جگہ بھی اتنی ہی رکھنی پڑے گی۔) اسی طرح پر خدا تعالیٰ کی کتاب بھی ایک دعوت اور ضیافت ہے۔ (قرآن کریم ایک دعوت اور ضیافت ہے) جس کے لئے کُل دنیا کو بلایا گیا ہے۔ (یہ دعوت، یہ شریعت تمام دنیا کے لئے ہے)۔ اس دعوت کے لئے خدا تعالیٰ نے جو مکان تیار کیا ہے وہ انسانی قویٰ ہیں‘‘۔ (انسان میں جو طاقتیں وہ بنائی گئی ہیں وہ بیٹھنے کے لئے مکان ہے اس لئے ہر انسان کے لئے یہ کہنا کہ ہم قرآن کریم کے فلاں حکم پر عمل نہیں کر سکتے یہ بڑا مشکل ہے یہ غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو وہ طاقتیں دی ہیں کہ ان پر عمل ہو سکے۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ) ’’جو اُن لوگوں کو دئیے گئے ہیں جو اس امّت میں ہیں‘‘۔ (مسلمانوں میں ان حقیقی مسلمانوں میں جو خالص ہو کر اپنے ایمان پر قائم ہیں ان کو یہ قویٰ دئیے گئے ہیں۔) پھر فرمایا کہ ’’قُویٰ کے بغیر کوئی کام نہیں ہوسکتا‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’اَب اگر بَیل، کتّے یا کسی اور جانور کے سامنے قرآن کی تعلیمات کو پیش کریں تو وہ نہیں سمجھ سکتے۔ اس لئے کہ ان میں وہ قُویٰ نہیں ہیں کہ جو قرآن کریم کی تعلیمات کو برداشت کر سکیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہم کو وہ قُویٰ دئیے ہیں کہ ہم ان سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں‘‘۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ 340-341۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس اگر انسان اپنے آپ کو یہ کہہ کر جانور نہ سمجھے کہ ہمیں قویٰ نہیں، ہمیں طاقتیں نہیں کہ قرآن کریم پر عمل کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک حقیقی مسلمان کو وہ طاقتیں دی ہیں اور ان کو نکھارنا پھر انسان کا کام ہے تا کہ قرآن کریم کے حکموں پر عمل کرے۔
مسلمانوں کے رویّے کیا ہیں؟ اور آپ کس طرح اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غیرت رکھتے ہوئے نصیحت فرماتے ہیں۔ اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ اس زمانے میں سب سے بڑی عبادت کیا ہے؟ فرمایا کہ:
’’ ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ اس زمانہ کے درمیان جو فتنہ اسلام پر پڑا ہوا ہے اس کے دُور کرنے میں کچھ حصہ لے۔ بڑی عبادت یہی ہے کہ اس فتنہ کے دُور کرنے میں ہر ایک مسلمان کچھ نہ کچھ حصہ لے۔ اس وقت جو بدیاں اور گستاخیاں پھیلی ہوئی ہیں چاہئے کہ اپنی تقریر اور علم کے ذریعہ سے اور ہر ایک قوت کے ساتھ جو اس کو دی گئی ہے مخلصانہ کوشش کے ساتھ ان باتوں کو دنیا سے اٹھاوے۔ اگر اسی دنیا میں کسی کو آرام اور لذت مل گئی تو کیا فائدہ۔ اگر دنیا میں بھی درجہ پا لیا تو کیا حاصل۔ عقبیٰ کا ثواب لو جس کی انتہا نہیں۔ ہر ایک مسلمان کو خدا تعالیٰ کی توحید و تفرید کے لئے ایسا جوش ہونا چاہئے جیسا کہ خود اللہ کو اپنی توحید کا جوش ہے۔ غور کرو کہ دنیا میں اس طرح کا مظلوم کہاں ملے گا جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ کوئی گند اور گالی اور دشنام نہیں جو آپ کی طرف نہ پھینکی گئی ہو۔ کیا یہ وقت ہے کہ مسلمان خاموش ہو کر بیٹھ رہیں؟ اگر اس وقت کوئی شخص کھڑا نہیں ہوتا اور حق کی گواہی دے کر جھوٹے کے منہ کو بند نہیں کرتا اور جائز رکھتا ہے کہ کافر لوگ بے حیائی سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اتہام لگاتے جائیں اور لوگوں کو گمراہ کرتے جائیں تو یاد رکھو کہ وہ بیشک بڑی بازپُرس کے نیچے ہے۔ چاہئے کہ جو کچھ علم اور واقفیت حاصل ہے وہ اس راہ میں خرچ کرو۔‘‘ (تمہارا اپنا دین کا جتنا علم ہے اس راہ میں خرچ کرو) ’’اور لوگوں کو اس مصیبت سے بچاؤ۔ حدیث شریف سے ثابت ہے کہ اگر تم دجّال کو نہ مارو تب بھی وہ تو مر ہی جائے گا۔ مثل مشہور ہے۔ ’ہر کمالِ راز والے‘۔ تیرھویں صدی سے یہ آفتیں شروع ہوئیں اور اب وقت قریب ہے کہ اس کا خاتمہ ہو جائے۔ اس لئے ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ جہاں تک ہو سکے پوری کوشش کرے۔ نور اور روشنی لوگوں کو دکھائے۔‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ 394-395۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
اور اس نور اور روشنی کو دکھانے کے لئے اور پھیلانے کے لئے جیسا کہ پہلے بھی مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا اور ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم آپ کی بیعت میں آئے ہیں اب اس مشن کو آگے چلانا بھی ہمارا کام ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام براہین احمدیہ میں اپنے ایک الہام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’’جو الہام ہے وہ یہ ہے صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَاٰلِ مُحَمَّدٍ سَیِّدِ وُلْدِ اٰدَمَ وَخَاتَمِ النَّبِیِّیْن۔ اور درود بھیج محمدؐ اور آل محمدؐ پر جو سردار ہے آدم کے بیٹوں کا اور خاتم الانبیاء ہے صلی اللہ علیہ وسلم‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ سب مراتب اور تفضّلات اور عنایات اسی کے طفیل سے ہیں اور اسی سے محبت کرنے کا یہ صلہ ہے۔ سبحان اللہ اُس سرور کائنات کے حضرت احدیّت میں کیا ہی اعلیٰ مراتب ہیں اور کس قسم کا قُرب ہے کہ اُس کا مُحب خدا کا محبوب بن جاتا ہے اور اس کا خادم ایک دنیا کا مخدوم بن جاتا ہے۔
ہیچ محبوبے نماند ہمچو یار دلبرم
مہر و مہ را نیست قدرے در دیارِ دلبرم
آں کجا رُوئے کہ دارد ہمچو رُویش آب و تاب
واں کُجا باغے کہ مے دارد بہارِ دلبرم
(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول صفحہ 597-598 حاشیہ)
کہ میرے محبوب جیسا کوئی نہیں ہے۔ اس کے ہاں چاند اور سورج کی بھی کوئی قیمت نہیں۔ ایسا چہرہ کہاں کہ اس جیسی آب و تاب رکھتا ہو اور ایسا باغ کہاں جو میرے محبوب جیسی بہار رکھتا ہو۔
اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ درود کس غرض سے پڑھنا چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔
’درود شریف… اس غرض سے پڑھنا چاہئے کہ تا خداوند کریم اپنی کامل برکات اپنے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل کرے اور اس کو تمام عالَم کے لئے سرچشمہ برکتوں کا بنا وے اور اُس کی بزرگی اور اُس کی شان و شوکت اِس عالَم اور اُس عالَم میں ظاہر کرے۔ یہ دعا حضور تام سے ہونی چاہئے جیسے کوئی اپنی مصیبت کے وقت حضور تام سے دعا کرتا ہے‘‘۔ (اسی طرح درود شریف پڑھتے ہوئے دعا ہونی چاہئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے لئے دعا ہونی چاہئے جس طرح اپنی کسی مشکل میں گرفتار ہو کر انسان دعا کرتا ہے) ’’بلکہ اس سے بھی زیادہ تضرّع اور التجا کی جائے اور کچھ اپنا حصہ نہیں رکھنا چاہئے۔ (فرمایا کہ اس سے کچھ اپنا حصہ نہیں رکھنا چاہئے) ’’کہ اس سے مجھ کو یہ ثواب ہو گا یا یہ درجہ ملے گا بلکہ خالص یہی مقصود چاہئے کہ برکات کاملہ الٰہیہ حضرت رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل ہوں اور اُس کا جلال دنیا اور آخرت میں چمکے۔ ‘‘ (مکتوبات احمدؑ جلد 1 صفحہ 523۔ ایڈیشن 2008ء)
پس دشمن ہمیں جو چاہے کہتا رہے۔ ہم پر جو بھی الزام لگاتے ہیں لگاتے رہیں۔ ہمارے دلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہے اور ہمیں سب سے بڑھ کر آپ کے خاتم النبیین ہونے کا اِدراک ہے اور یہ سب ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم دشمن کے ہر حملے اور ہر ظلم کے بعد پہلے سے بڑھ کر اپنے ایمان میں بڑھتے چلے جانے والے ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پہلے سے بڑھ کر بھیجنے والے ہوں تا کہ مسلمانوں کو بھی آپ کے اس مقام کا صحیح اِدراک حاصل ہو اور یہ بھٹکے ہوئے مسلمان بھی صحیح رستے پر آ جائیں اور دنیا میں بھی اسلام کی خوبصورت تعلیم پھیلے۔