خطاب حضور انور

خطبہ جمعہ 23؍دسمبر 2016ء

جماعت احمدیہ کی مخالفت اور افراد جماعت پر مخالفین جماعت کی طرف سے کئے جانے والے مظالم کوئی نئی چیز نہیں اور نہ ہی انبیاء کی جماعتوں کی مخالفت کوئی نئی بات ہے۔ سب شیاطین اکٹھے ہو کر یہ مخالفت کرتے ہیں۔ علماء اور لیڈر عوام الناس کے سامنے عجیب و غریب قسم کی باتیں انبیاءاور ان کے ماننے والوں کی طرف منسوب کر کے بیان کرتے ہیں، انہیں بھڑکاتے ہیں۔ نفرتوں کی آگیں سلگانے کی کوشش کرتے ہیں۔

بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ اب ہم احمدیوں پر ظلم کی انتہا ہو گئی ہے اور اب ہمیں سختی کا جواب سختی سے دینا چاہئے۔

کتنا عرصہ ہم تکلیفیں برداشت کریں گے۔ بعض ایسے نوجوانوں کے ذہنوں کو زہرآلود کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے مطالبات منوانے کے لئے اور اپنی آزادی کے لئے دنیاوی طریق اختیار کرنے چاہئیں۔ یہ جہالت کی باتیں ہیں اور انتہائی غلط سوچ ہے۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فتح و نصرت اور ترقی کے وعدے کئے ہیں لیکن سختی کا جواب سختی سے دینے سے نہیں بلکہ پیار اور محبت اور دعاؤں کی طرف توجہ کرنے سے اور یہی بات آپ علیہ السلام نے ہمیں بار بار سمجھائی ہے کہ جماعت کی ترقی اور دشمن کی تباہی دعاؤں سے ہونی ہے۔ انشاء اللہ۔ اس لئے اپنی حالتوں کو اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق ڈھالتے ہوئے اپنے اندر تقویٰ پیدا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے آگے جھکو۔

اگر کوئی ایک آدھ شخص بھی ایسی بات کرے جو جماعتی تعلیم کے خلاف ہے تو فتنہ پیدا کرنے والی بات ہے اور دشمن کو اپنے خلاف مزید مخالفت کا موقع دینا ہے۔ خاص طور پر جب کہ ایسی باتیں واٹس اَیپ پر یا ٹوئٹر پہ یا فیس بُک پہ یا کسی اور ذریعہ سے کی جائیں۔

ہم نے تو اس تعلیم پر عمل کرنا ہے اور اس ہدایت پر چلنا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں دی ہے۔ ہم نے گالیوں کا جواب نہ گالی سے دینا ہے، نہ فساد کا جواب فساد پیدا کر کے دینا ہے اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر دینا ہے۔ ملک میں فساد کرنا ہماری تعلیم نہیں ہے۔ پس ایک ہی راستہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دَر کو پکڑیں اور دعاؤں کی انتہا کر دیں۔

ہم میں سے ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا مَیں نے دعا کے وہ معیار حاصل کر لئے ہیں جو اللہ تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے۔

کیا ہم دنیاوی اسباب کی طرف نظر رکھنے کی بجائے اپنی روح کو گدازش کے اس معیار پر لے گئے ہیں جہاں قبولیت دعا ہوتی ہے۔

پس ہمارا کام صبر اور دعا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے دامن کو پکڑے رکھنا ہے۔ اگر کوئی بھی ہم میں سے بے صبری دکھائے گا تو اپنا نقصان کرے گا۔

دوسرے مسلمان تو بغیر رہنما کے ہیں اور اس وجہ سے ان میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے اور تقویٰ سے دوری ہو رہی ہے لیکن ہم جو احمدی مسلمان ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صورت میں ایک رہنما عطا فرمایا ہے، ہمارا ہر عمل اسلامی تعلیم کے مطابق ہونا چاہئے
اور ہماری ہر بات تقویٰ پر مبنی ہونی چاہئے۔ عارضی اور وقتی جوشوں سے ہمیں ہمیشہ بچنا چاہئے۔

نامساعد حالات میں اگر ہم زمانے کے امام کی بتائی ہوئی نصائح اور ہدایات پر عمل نہیں کر رہے تو ہم اس نور سے دُور چلے جائیں گےجو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس اطاعت کی وجہ سے ہمیں ملنا ہے۔ پس ہمیں پہلے اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ اگر ہمارے تقویٰ کے معیاراتنے بلند ہو چکے ہیں کہ جہاں ہمیں اللہ تعالیٰ کا نور نظر آئے تو پھر ہمیں اس بات پہ یقین ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت قریب ہے۔

یہ ابتلا کا دَور یقینا ختم ہونے والا دَور ہے لیکن اس میں تیزی پیدا کرنے کے لئے ہمیں اپنے تقویٰ کے معیاروں کو بڑھانے اور بڑھاتے چلے جانے کی ضرورت ہے۔

مکرم ملک خالد جاوید صاحب ابن مکرم ملک ایوب احمد صاحب (دوالمیال) کی وفات۔ مرحوم کا ذکرِ خیر اور نماز جنازہ غائب

خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 23دسمبر 2016ء بمطابق 23فتح1395 ہجری شمسی بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن

(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔


جماعت احمدیہ کی مخالفت اور افراد جماعت پر مخالفین جماعت کی طرف سے کئے جانے والے مظالم کوئی نئی چیز نہیں اور نہ ہی انبیاء کی جماعتوں کی مخالفت کوئی نئی بات ہے۔ سب شیاطین اکٹھے ہو کر یہ مخالفت کرتے ہیں۔ علماء اور لیڈر عوام الناس کے سامنے عجیب و غریب قسم کی باتیں انبیاء اور ان کے ماننے والوں کی طرف منسوب کر کے بیان کرتے ہیں، انہیں بھڑکاتے ہیں۔ نفرتوں کی آگیں سلگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ بیان کر کے واضح فرما دیا کہ ہر رسول کی مخالفت ہوتی ہے۔ کوئی نبی نہیں جس کی مخالفت نہ ہوئی ہو۔ انبیاء سے استہزاء بھی کیا جاتا ہے۔ ان کے کاموں میں روکیں ڈالنے کی شیطان کوشش بھی کرتا ہے۔ تو یہ کوئی نئی چیز نہیں جس کا جماعت احمدیہ کو سامنا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اس بات کو بیان فرماتے ہوئے ایک جگہ فرماتا ہے کہ وَکَذَالِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا۔ (الانعام:113) اور ہم نے انسانوں اور جنّوں میں سے سرکشوں کو اس طرح ہر ایک نبی کا دشمن بنا دیا تھا۔ ان میں سے بعض بعض کو ملمّع کی ہوئی باتیں دھوکہ دیتے ہوئے وحی کرتے ہیں۔ یعنی دھوکے والے خیالات لوگوں کے دلوں میں ڈالتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کی یہ بات آج بھی سچ ہے۔ یہ سرکش علماء دین کے نام پر دھوکہ دیتے ہیں اور دھوکہ دیتے ہوئے عوام الناس کو بھڑکاتے ہیں اور مختلف جگہوں پہ بعض لیڈر بھی ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کی جماعت کی طرف ایسی باتیں منسوب کی جاتی ہیں جن کا کوئی وجود ہی نہیں، حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں۔ اسی طرح دوسری باتیں بھی جو یہ لوگ جماعت کے بارے میں کرتے ہیں یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا استہزاء کرتے ہیں یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمائی ہیں کہ انبیاء کے ساتھ یہی کچھ ہوتا ہے۔ جھوٹ بھی ان پہ بولا جاتا ہے۔ ان کا استہزاء بھی کیا جاتا ہے، مذاق بھی اڑایا جاتا ہے۔ پس یہ مخالفت اور ہمیں تکالیف دینا ایک حقیقی سچے، ایمان پر قائم احمدی کے ایمان میں زیادتی کا باعث بنتا ہے۔ لیکن بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ اب ہم احمدیوں پر ظلم کی انتہا ہو گئی ہے اور اب ہمیں سختی کا جواب سختی سے دینا چاہئے۔ کتنا عرصہ ہم تکلیفیں برداشت کریں گے۔ یہ چاہے ایک دو یا چند ایک ہوں لیکن بعض ایسے لوگ نوجوانوں کے ذہنوں کو زہرآلود کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے مطالبات منوانے کے لئے اور اپنی آزادی کے لئے دنیاوی طریق اختیار کرنے چاہئیں۔ یہ جہالت کی باتیں ہیں اور انتہائی غلط سوچ ہے۔ یا تو ایسے لوگ جذبات میں آ کر یہ بھول گئے ہیں کہ ہماری بنیادی تعلیم کیا ہے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم سے کیا چاہتے ہیں۔ آپ نے اپنی جماعت کو ان سختیوں اور تکالیف کو برداشت کرنے کے لئے کیا نصائح فرمائی ہیں۔ یا پھر ایسے لوگ ہمدرد بن کر جماعت میں تفرقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ جوں جوں جماعت بڑھتی ہے مخالفین مختلف ذریعوں سے حملے کرتے ہیں۔ مختلف طریقے آزمائے جاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ بھی ایک طریقہ ہو۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فتح و نصرت اور ترقی کے وعدے کئے ہیں لیکن سختی کا جواب سختی سے دینے سے نہیں بلکہ پیار اور محبت اور دعاؤں کی طرف توجہ کرنے سے اور یہی بات آپ علیہ السلام نے ہمیں بار بار سمجھائی ہے کہ جماعت کی ترقی اور دشمن کی تباہی دعاؤں سے ہونی ہے۔ انشاء اللہ۔ اس لئے اپنی حالتوں کو اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق ڈھالتے ہوئے اپنے اندر تقویٰ پیدا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے آگے جھکو۔ مسیح موعود نے تو امن کا شہزادہ بن کر آنا تھا اور آیا۔ آپ نے تو اپنے ماننے والوں کو پہلے دن سے ہی کہہ دیا تھا کہ میرے راستے آسان راستے نہیں ہیں۔ ان میں بڑی سختیاں ہیں۔ یہاں جذبات کو بھی مارنا ہو گا اور جانی و مالی نقصان کو بھی برداشت کرنا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے افراد جماعت اس راہ میں ہر قسم کی قربانی کرتے چلے جا رہے ہیں اور جیسا کہ مَیں نے گزشتہ خطبوں میں ذکر بھی کیا تھا کہ مجھے لکھتے ہیں کہ دشمن کے حملوں سے ہم ڈرتے نہیں۔ ہمارے ایمان پہلے سے مضبوط ہو رہے ہیں۔ لیکن اگر کوئی ایک آدھ شخص بھی ایسی بات کرے جو جماعتی تعلیم کے خلاف ہے تو فتنہ پیدا کرنے والی بات ہے اور دشمن کو اپنے خلاف مزید مخالفت کا موقع دینا ہے۔ خاص طور پر جب کہ ایسی باتیں واٹس اَیپ پر یا ٹوئٹر پہ یا فیس بُک پہ یا کسی اور ذریعہ سے کی جائیں۔ پس ہم تو اس تعلیم پر عمل کرتے آئے ہیں کہ مخالفین کے ظلم اور بربریت کے مقابلہ پر ہم نے ظلم و بربریت نہیں دکھانی۔ ویسے اظہار ہم نے نہیں کرنے اور نہ ہی حکومتوں سے ہم نے ہتھیاروں سے مقابلہ کرنا ہے۔ ہمارا مقابلہ دعاؤں کے ہتھیار سے ہے جیسا کہ مَیں نے کہا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کی مدد اور اس کے پیار کو حاصل کرنا ہے تو دشمن کے حملوں اور زیادتیوں کا جواب اس طرح نہیں دینا بلکہ صبر اور دعا سے کام لینا ہے تبھی ہم کامیابیوں کو دیکھیں گے۔ چنانچہ ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔ پہلے آپ نے ایک فارسی کا شعر فرمایا کہ

عزیزاں بے خلوص و صدق نہ کشایند راہے را

مصفّا قطرۂ باید کہ تا گوہر شود پیدا

کہ اے عزیزو! بغیر خلوص اور صدق کے مقام حاصل نہیں ہوتا۔ صاف اور شفاف قطرہ بنو کہ وہی صاف اور شفاف قطرہ ہے جس سے گوہر اور موتی پیدا ہوتا ہے۔

آپ فرماتے ہیں کہ:

’’ اے میرے دوستو! جو میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو خدا ہمیں اور تمہیں ان باتوں کی توفیق دے جن سے وہ راضی ہو جائے۔ آج تم تھوڑے ہو اور تحقیر کی نظر سے دیکھے گئے ہو اور ایک ابتلا کا وقت تم پر ہے اُسی سنّت اللہ کے موافق جو قدیم سے جاری ہے۔ ہر یک طرف سے کوشش ہو گی کہ تم ٹھوکر کھاؤاور تم ہر طرح سے ستائے جاؤ گے اور طرح طرح کی باتیں تمہیں سننی پڑیں گی اور ہر یک جو تمہیں زبان یا ہاتھ سے دکھ دے گا وہ خیال کرے گا کہ اسلام کی حمایت کر رہا ہے۔ ‘‘

اکثر ہمارے مخالفین عوام الناس جو ہیں کم علمی کی وجہ سے مخالفت کرتے ہیں۔ مولویوں نے ان کے دماغوں میں یہ ڈال دیا ہے کہ احمدیوں کی جو مخالفت ہے یہ اسلام کی بہت بڑی خدمت ہے۔

آپ نے فرمایا یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلام کی حمایت کر رہے ہیں فرماتے ہیں کہ:

’’اور کچھ آسمانی ابتلا بھی تم پر آئیں گے تا تم ہر طرح سے آزمائے جاؤ۔ سو تم اس وقت سن رکھو کہ تمہارے فتحمند اور غالب ہو جانے کی یہ راہ نہیں کہ تم اپنے خشک منطق سے کام لو یا تمسخر کے مقابل پر تمسخر کی باتیں کرو۔ یا گالی کے مقابل پر گالی دو۔ کیونکہ اگر تم نے یہی راہیں اختیار کیں تو تمہارے دل سخت ہو جائیں گے اور تم میں صرف باتیں ہی باتیں ہوں گی جن سے خدا تعالیٰ نفرت کرتا ہے اور کراہت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ سو تم ایسا نہ کرو کہ اپنے پر دو لعنتیں جمع کر لو۔ ایک خلقت کی اور دوسری خدا کی بھی‘‘۔

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 546-547)

پس ہم نے تو اس تعلیم پر عمل کرنا ہے اور اس ہدایت پر چلنا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں دی ہے۔ ہم نے گالیوں کا جواب نہ گالی سے دینا ہے، نہ فساد کا جواب فساد پیدا کر کے دینا ہے اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر دینا ہے۔ اور پھر پاکستان اور مسلمان ممالک میں تو اگر جائز طور پر بھی اپنا دفاع کریں تو اکثر یہی دیکھا گیا ہے کہ قانون بجائے ہمارا ساتھ دینے کے ظالم کا ساتھ دیتا ہے۔ مظلوم احمدی اسیران کی ضمانت بھی اس وجہ سے نہیں لی جاتی کہ عدالتیں مولوی کے سامنے بے بس ہیں۔ عدالت کے باہر کھڑا مولوی عدالت کو پیغام بھیج دیتا ہے کہ اگر ضمانت دی تو پھر تم اپنا حال دیکھ لینا اور پھر اکثر جج خوف سے اگلی تاریخیں دے دیتے ہیں اور فیصلہ نہیں کرتے۔ پس نہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ہمارا ساتھ دینے کو تیار ہیں، نہ قانون انصاف کرنے کو تیار ہے۔ ملک میں فساد کرنا ہماری تعلیم نہیں ہے۔ پس ایک ہی راستہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دَر کو پکڑیں اور دعاؤں کی انتہا کر دیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’دعا اور اس کی قبولیت کے زمانہ کے درمیانی اوقات میں بسا اوقات ابتلا پر ابتلا آتے ہیں اور ایسے ایسے ابتلا بھی آ جاتے ہیں جو کمر توڑ دیتے ہیں۔ مگر مستقل مزاج سعید الفطرت ان ابتلاؤں اور مشکلات میںبھی اپنے رب کی عنایتوں کی خوشبو سونگھتا ہے اور فراست کی نظر سے دیکھتا ہے کہ اس کے بعد نصرت آتی ہے۔ ان ابتلاؤں کے آنے میں ایک سرّ یہ بھی ہوتا ہے کہ دعا کے لئے جوش بڑھتا ہے کیونکہ جس جس قدر اضطرار اور اضطراب بڑھتا جاوے گا اسی قدر روح میں گدازش ہوتی جائے گی اور یہ دعا کی قبولیت کے اسباب میں سے ہیں۔‘‘ اتنا ہی انسان کا دل پگھلے گا، روئے گا، چِلّائے گا اور جب یہ حالت ہو تو یہ اللہ تعالیٰ خود قبولیت دعا کے لئے سبب پیدا کر رہا ہوتا ہے۔ پس فرمایا: ’’ پس کبھی گھبرانا نہیں چاہئے اور بے صبری اور بے قراری سے اپنے اللہ پر بدظن نہیں ہونا چاہئے۔‘‘

(ملفوظات جلد 4 صفحہ 434,435۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس یہ ہے ہمارا فرض۔ یقینا اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے گئے وعدے سچے ہیں اور یقینا اللہ تعالیٰ دعاؤں کو بھی سنتا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا مَیں نے دعا کے وہ معیار حاصل کر لئے ہیں جو اللہ تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے۔ کیا ہم دنیاوی اسباب کی طرف نظر رکھنے کی بجائے اپنی روح کو گدازش کے اس معیار پر لے گئے ہیں جہاں قبولیت دعا ہوتی ہے۔ ان معیاروں کو صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ ہم کوشش بھی کریں تو جان نہیں سکتے۔ اس لئے کوئی کہہ نہیں سکتا کہ ہاں ہم نے یہ معیار حاصل کر لئے ہیں پھر بھی کچھ حاصل نہیں ہوا، دعا قبول نہیں ہوئی کیونکہ معیار اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔

پس ہمارا کام صبر اور دعا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے دامن کو پکڑے رکھنا ہے۔ اگر کوئی بھی ہم میں سے بے صبری دکھائے گا تو اپنا نقصان کرے گا۔ جن ملکوں میں جو تکلیف میں ہیں، خاص طورپر پاکستان میں ان کی اکثریت تو صبر ہی کر رہی ہے اور دعائیں بھی کر رہی ہے اور ایمان بھی مضبوط ہیں اور جو دُور بیٹھے ہیں اور ظاہری تکلیفوں سے بچے ہوئے ہیں وہی زیادہ تر باتیں بھی کرتے ہیں۔پس ان کو بھی چاہئے کہ اگر اپنے بھائیوں سے ہمدردی ہے تو اللہ تعالیٰ کا دامن پکڑیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا کہ :

’’اگر کوئی گالیاں دے تو ہمارا شکوہ خدا کی جناب میں ہے نہ کسی اور عدالت میں۔ اور بایں ہمہ نوع انسان کی ہمدردی ہمارا حق ہے۔‘‘ (سراج منیر، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 28)

گالیاں سن کے بھی ہم نے ہمدردی ہی کرنی ہے۔ پس ہم میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ وہ براہ راست تکلیف کے دور سے گزر رہا ہے یا نہیں گزر رہا اس نے صبر اور دعا کے دامن کو پکڑنا ہے اور یہی ایمان کی نشانی ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ آپ کے ساتھ چلنا کوئی آسان بات نہیں ہے فرماتے ہیں :

’’پس اگر کوئی میرے قدم پر چلنا نہیں چاہتا تو وہ مجھ سے الگ ہو جائے۔ مجھے کیا معلوم ہے کہ ابھی کون کون سے ہولناک جنگل اور پُرخار بادیہ پیش ہیں جن کو مَیں نے طے کرنا ہے۔ پس جن لوگوں کے نازک پیر ہیں وہ کیوں میرے ساتھ مصیبت اٹھاتے ہیں۔ جو میرے ہیں وہ مجھ سے جدا نہیں ہو سکتے۔ نہ مصیبت سے، نہ لوگوں کے سبّ و شتم سے، نہ آسمانی ابتلاؤں اور آزمائشوں سے۔ اور جو میرے نہیں وہ عبث دوستی کا دم مارتے ہیں کیونکہ وہ عنقریب الگ کئے جائیں گے اور اُن کا پچھلا حال ان کے پہلے سے بدتر ہو گا۔ کیا ہم زلزلوں سے ڈر سکتے ہیں؟ کیا ہم خدا تعالیٰ کی راہ میں ابتلاؤں سے خوفناک ہوجائیں گے؟ کیا ہم اپنے پیارے خدا کی کسی آزمائش سے جدا ہو سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں ہو سکتے مگر محض اس کے فضل اور رحمت سے۔ پس جو جدا ہونے والے ہیں جدا ہو جائیں اُن کو وداع کا سلام۔ لیکن یاد رکھیں کہ بدظنی اور قطع تعلق کے بعد اگر پھر کسی وقت جھکیں تو اس جھکنے کی عند اللہ ایسی عزت نہیں ہو گی جو وفادار لوگ عزت پاتے ہیں۔ کیونکہ بدظنی اور غداری کا داغ بہت ہی بڑا داغ ہے‘‘۔ (انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 23-24)

پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ ایک مومن کے تقویٰ کا معیار بہت بلند ہوتا ہے اور دشمنوں کی طرف سے تکلیفوں کے باوجود وہ ہر قسم کے شر کا مقابلہ کرتے ہیں اور دشمنوں کی تکلیفوں کی پرواہ نہیں کرتے۔ دوسروں کی طرف سے دکھوں کے باوجود وہ ان کی غلطیاں بخشنے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ فساد نہیں پھیلاتے بلکہ امن کے سفیر ہی بنے رہتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ :

’’یقینا یاد رکھو کہ مومن متقی کے دل میں شر نہیں ہوتا۔ مومن جس قدر متقی ہوتا جاتا ہے اسی قدر وہ کسی کی نسبت سزا اور ایذا کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ تقویٰ بڑھتا ہے تو ہمدردی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ دشمن کے لئے بھی سزا کو اور تکلیف کو پسند نہیں کرتا۔ فرمایا کہ ’’مسلمان کبھی کینہ ور نہیں ہو سکتا۔‘‘ حقیقی مسلمان جو ہے وہ کینہ ور نہیں ہو سکتا ہاں ’’دوسری قومیں ایسی کینہ پرور ہوتی ہیں کہ ان کے دل سے دوسرے کی بات کینے کی کبھی نہیں جاتی اور بدلہ لینے کے لئے ہمیشہ کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے مخالفوں نے ہمارے ساتھ کیا کیا ہے۔ کوئی دکھ اور تکلیف جو وہ پہنچاسکتے تھے انہوں نے پہنچایا ہے لیکن پھر بھی ان کی ہزاروںخطائیں بخشنے کو ہم اب بھی تیار ہیں۔ پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو یاد رکھو کہ تم ہر شخص سے خواہ وہ کسی مذہب کا ہو ہمدردی کرو اور بلا تمیز مذہب و قوم ہر ایک سے نیکی کرو۔ ‘‘ (ملفوظات جلد 7 صفحہ 285)

دوسرے مسلمان تو بغیر رہنما کے ہیں اور اس وجہ سے ان میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے اور تقویٰ سے دوری ہو رہی ہے لیکن ہم جو احمدی مسلمان ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے ایک رہنما حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صورت میں عطا فرمایا ہے ہمارا ہر عمل اسلامی تعلیم کے مطابق ہونا چاہئے اور ہماری ہر بات تقویٰ پر مبنی ہونی چاہئے۔ عارضی اور وقتی جوشوں سے ہمیں ہمیشہ بچنا چاہئے۔ اپنے دلوں کو ہمیں ٹٹولنا چاہئے کہ ان میں کتنا تقویٰ ہے۔

پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ تقویٰ کیا ہے اور حقیقی تقویٰ کی نشانی کیا ہے اور ایک نیک اور متقی سے کس طرح کے اظہار ہونے چاہئیں، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :

’’حقیقی تقویٰ کے ساتھ جاہلیت جمع نہیں ہو سکتی۔ حقیقی تقویٰ اپنے ساتھ ایک نور رکھتی ہے جیسا کہ اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہییٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا وَّیُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ (الانفال:30) وَیَجْعَلْ لَّکُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِہٖ۔ (الحدید:29)یعنی اے ایمان لانے والو! اگر تم متقی ہونے پر ثابت قدم رہو اور اللہ تعالیٰ کے لئے اتقاء کی صفت میں قیام اور استحکام اختیار کرو تو خدا تعالیٰ تم میں اور تمہارے غیروں میں فرق رکھ دے گا۔ وہ فرق یہ ہے کہ تم کو ایک نور دیا جائے گا جس نور کے ساتھ تم اپنی تمام راہوں میں چلو گے۔ یعنی وہ نور تمہارے تمام افعال اور اقوال اور قویٰ اور حواس میں آجائے گا‘‘۔ (ہر عمل اور قول کو، ہر کام کو اور ہر بات کو پھر نور عطا ہو گا۔) ’’تمہاری عقل میں بھی نور ہو گا۔ اور تمہاری ایک اَٹکل کی بات میں بھی نور ہو گا۔ اور تمہاری آنکھوں میں بھی نور ہو گا۔ اور تمہارے کانوں اور تمہاری زبانوں اور تمہارے بیانوں اور تمہاری ہر ایک حرکت اور سکون میں نور ہو گا۔ اور جن راہوں میں تم چلو گے وہ راہ نورانی ہو جائیں گی۔ غرض جتنی تمہاری راہیں، تمہارے قویٰ کی راہیں، تمہارے حواس کی راہیں ہیں وہ سب نور سے بھر جائیں گی‘‘۔ (یعنی کہ اپنے ہاتھ پیر جسم جو بھی تم ہلاؤ گے وہ نور کے حاصل کرنے کے لئے یا نور پھیلانے کے لئے ہی ہوں گے۔ تمہاری سوچیں صرف نور پھیلانے والی ہوں گی اور نور سے بھر جائیں گی) اور تم سراپا نور میں ہی چلو گے۔ ‘‘ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 177-178)

پس اگر ہماری باتوں میں دوسروں کی طرح عقل سے ہٹ کر صرف جوش ہے تو یہ تقویٰ نہیں ہے۔ ہمارے عمل اگر اسلامی تعلیم کے مطابق نہیں تو یہ تقویٰ نہیں ہے۔ ہمارے قول و فعل میں اگر اللہ تعالیٰ کے نور کا اظہار نہیں تو ہمیں اپنے تقویٰ کی فکر کرنی چاہئے۔ نامساعد حالات میں اگر ہم زمانے کے امام کی بتائی ہوئی نصائح اور ہدایات پر عمل نہیں کر رہے تو ہم اس نور سے دُور چلے جائیں گے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس اطاعت کی وجہ سے ہمیں ملنا ہے۔ پس ہمیں پہلے اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے اگر ہمارے تقویٰ کے معیار اتنے بلند ہو چکے ہیں کہ جہاں ہمیں اللہ تعالیٰ کا نور نظر آئے۔ اور ہماری دعائیں گدازش کی اُن حدود کو چھو رہی ہیں جو ایک صحیح دعا کرنے والے کے لئے چاہئیں اور جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے تو پھر ہمیں اس بات پہ یقین ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت قریب ہے اور اللہ تعالیٰ ہی ہمارے لئے ملک بھی بنائے گا اور ہمارے لئے زمینیں بھی ہموار کرے گا۔ انشاء اللہ۔ اور اگر اس سے ہٹ کر ہم کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں یا چاہیں گے تو کچھ نہیں ملے گا۔ ہمارے سامنے ان تنظیموں کی مثالیں ہیں جو اسلام کے نام پر اور بے شمار وسائل کے ساتھ ملینز بلینز ڈالرز اور پاؤنڈ خرچ کر کے اسلامی حکومتیں قائم کرنا چاہتی ہیں لیکن سوائے فساد ظلم بربریت کے انہیں کچھ نہیں ملا۔ عارضی قبضے بھی ہوئے تو بھی ہاتھ سے نکل گئے۔ اسلام کو بدنام کرنے والے تو یہ کہلاتے ہیں اور دنیا میں اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔ اسلام کی خدمت کرنے والے ان کو کوئی نہیں کہتا۔ اسلام کی خدمت اور اسلام کی اشاعت اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے اور آپ کی جماعت کے ذریعہ سے مقدر ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے اس فرستادے کے نقش قدم پر چلیں ورنہ دنیاوی لحاظ سے ہم جتنی کوشش کر لیں نہ ہمارے پاس طاقت ہے نہ وسائل ہیں کہ ہم کچھ حاصل کریں۔ لیکن اگر ہم تقویٰ پیدا کر لیں گے، اگر ہم اپنے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا کر لیں گے، اگر ہم اپنی دعاؤں کو انتہا تک پہنچانے والے ہوں گے تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کے حوالے سے فرمایا ہے کہ ہمیں وہ نور اور طاقتیں عطا ہوں گی جس کا کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی مقابلہ نہیں کر سکتی اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے کہ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ (الحجرات:14) کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ تو کیا اللہ تعالیٰ غلط کہتا ہے؟ ایک طرف تو وہ متقی کو معزز کہے اور دوسری طرف دنیا والوں کے سامنے انہیں ذلیل کر کے چھوڑ دے۔ یقینا نہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ انبیاء اور ان کی جماعتوں کو دنیا داروں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس طرح کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود بیان فرمایا ہے مگر کیا ہر موقع پر دشمن خود خائب و خاسر نہیں ہوا۔ کیا ہر ایک جو جماعت کی ترقی میں روک ڈالنے کے لئے کھڑا ہوا یا ہر روک جو جماعت کی ترقی میں ڈالی گئی اس سے جماعت مزید پھیلی اور پھولی نہیں؟ اندرونی حربے بھی مخالفین نے آزمائے اور بیرونی حملے بھی لیکن جماعت ترقی کی شاہراہوں پر قدم مارتے ہوئے آج دو سو نو(209) ممالک میں نفوذ کر چکی ہے۔ اگر ایک جگہ سے دباتے ہیں تو دس دوسری جگہوں میں پہلے سے بڑھ کر پھیلنے کا اللہ تعالیٰ سامان اور موقع عطا فرما دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ میں ایک عام شخص کو جو تقویٰ میں بڑھا ہوا ہے بغیر عزت دینے کے نہیں چھوڑتا تو کیا جس شخص کو خود خدا تعالیٰ نے بھیجا ہے اور گزشتہ سوا سو سال سے ہم جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائیدات دیکھ رہے ہیں آج اللہ تعالیٰ اس کی جماعت کو باقی وعدے پورے کئے بغیر چھوڑ دے گا بغیر عزت کے چھوڑ دے گا کبھی یہ نہیں ہو سکتا لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ سب کچھ ثبات قدم اور مستقل مزاجی سے ملے گا۔ یہ شرط ہے۔ اگر ہم مستقل مزاجی سے اللہ تعالیٰ کا دامن پکڑے رہیں گے تو ہم دشمن کی خاک اڑتے بھی انشاء اللہ دیکھیں گے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :

’’اگر تمہاری زندگی اور تمہاری موت اور تمہاری ہر ایک حرکت اور تمہاری نرمی اور گرمی‘‘ (یعنی خوش مزاجی بھی اور غصہ بھی) ’’محض خدا کے لئے ہو جائے گی۔‘‘ (ذاتی اغراض کے لئے کسی پہ غصہ نہ ہو، نہ کسی دنیاوی چیز کو دیکھ کر خوش ہو جاؤ، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے یہ چیزیں ہوں) تو پھر فرمایا ’’اور ہر ایک تلخی اور مصیبت کے وقت تم خدا کا امتحان نہیں کرو گے اور تعلق کو نہیں توڑو گے بلکہ آگے قدم بڑھاؤ گے تو مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ تم خدا کی ایک خاص قوم ہو جاؤ گے۔ تم بھی انسان ہو جیسا کہ مَیں انسان ہوں اور وہی میرا خدا تمہارا خدا ہے۔ پس اپنی پاک قوتوں کو ضائع مت کرو۔ اگر تم پورے طور پر خدا کی طرف جھکو گے تو دیکھو مَیں خدا کی منشاء کے موافق تمہیں کہتا ہوں کہ تم خدا کی ایک قوم برگزیدہ ہو جاؤ گے۔ خدا کی عظمت اپنے دلوں میں بٹھاؤ اور اس کی توحید کا اقرار نہ صرف زبان سے بلکہ عملی طور پر کرو تا خدا بھی عملی طور پر اپنا لطف و احسان تم پر ظاہر کرے۔ ‘‘ (رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 308)

پس ہم میں سے ہر ایک کو اپنی حالتوں میں تبدیلیاں پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ جو کمزور ہیں وہ اپنے جائزے لیں۔ جو اپنے آپ کو بہتر سمجھتے ہیں وہ بھی نیکیوں میں بڑھنے کے مزید راستے تلاش کریں کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ بہتر کون ہے اور جو ہمارے مقاصد ہیں کہاں تک ہم نے حاصل کئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایک جگہ ٹھہرا ہوا نہیں دیکھنا چاہتا۔ یہ خیال کسی کو نہیں ہونا چاہئے کہ مَیں اب بہتر ہو گیا اور نیکیوں میں بڑھ رہا ہوں یا نیکیوں کو حاصل کر لیا ہے۔ ہمیں اپنے معیاروں کو اونچا کرنے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں اپنی جماعت کو اطلاع دوں کہ جو لوگ ایمان لائے ایسا ایمان جو اس کے ساتھ دنیا کی ملونی نہیں اور وہ ایمان نفاق یا بزدلی سے آلودہ نہیں اور وہ ایمان اطاعت کے کسی درجہ سے محروم نہیں ایسے لوگ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں اور خدا فرماتا ہے کہ وہ وہی ہیں جن کا قدم صدق کا قدم ہے۔ ‘‘ (رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 309)

پس اس صدق کے قدم پر ہمیں چلنے کی ضرورت ہے تا کہ ان فتوحات کے نظارے ہم کر سکیں جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ وابستہ ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے مقدر کی ہوئی ہیں۔ یہ ابتلا کا دور یقینا ختم ہونے والا دَور ہے لیکن اس میں تیزی پیدا کرنے کے لئے ہمیں اپنے تقویٰ کے معیاروں کو بڑھانے اور بڑھاتے چلے جانے کی ضرورت ہے۔ یقینا اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں یہ جماعت اس لئے قائم فرمائی ہے کہ اسلام کا دنیا میں بول بالا ہو اور اسلام دنیا میں پھیلے اور سب دینوں پر اسلام کو غلبہ حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ اس جماعت نے بڑھنا ہے، پھلنا ہے اور پھولنا ہے اور کوئی دنیاوی طاقت اسے ختم نہیں کر سکتی۔

آپ فرماتے ہیں کہ:

’’یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا‘‘۔ (یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا۔) ’’تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا۔ خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا۔ ‘‘

(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 309)

اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم میں سے ہر ایک اس درخت کی پھلنے پھولنے والی شاخ بن جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اپنی جماعت سے جو توقعات ہیں ان پہ ہم پورا اترنے والے ہوں۔ تقویٰ میں ترقی کرنے والے ہوں اور صبر اور دعا کے ساتھ دشمن کے ہر حملے کو ناکام و نامراد کرتے چلے جانے والے ہوں۔

نمازوں کے بعد مَیں ایک غائب جنازہ بھی پڑھاؤں گا جو مکرم ملک خالد جاوید صاحب ابن مکرم ملک ایوب احمد صاحب دوالمیال ضلع چکوال کا ہے۔ ملک خالد جاوید صاحب بعمر 69سال مؤرخہ 12 دسمبر 2016ء کو دارالذکر دوالمیال ضلع چکوال میں حرکت قلب بند ہوجانے کی وجہ سے وفات پا گئے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ تفصیلات کے مطابق مؤرخہ 12؍دسمبر 2016ء (بارہ ربیع الاول) کو مخالفین نے دوالمیال ضلع چکوال میں بہت بڑا جلوس نکالا اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اپنا مقررہ رُوٹ تبدیل کرتے ہوئے احمدیہ دارالذکر پر حملہ کیا۔ احمدیہ مسجد پر حملہ کیا اور مسجد کے باہر آ کر اشتعال انگیز نعرے بازی اور پتھراؤ شروع کر دیا۔ نیز مسجد کے گیٹ کو توڑنا شروع کیا۔ دوسری طرف ہمارے لوگ بھی تھے ان میں یہ خالد صاحب بھی شامل تھے۔ مرحوم کی فیملی کے مطابق مرحوم کو قبل ازیں دل کی تکلیف کبھی نہیں تھی اور نہ کبھی دل کی کوئی دوا لیتے تھے اور نہ ہی کبھی زیر علاج رہے۔ وفات سے قبل یہ مسجد کے اندر تھے اور جب یہ مخالفین حملہ کررہے تھے تو یہ ایک ہی بات مسلسل دہرا رہے تھے کہ مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف اس قدر گندی اور ناپاک زبان برداشت نہیں کر سکتا۔ ان الفاظ کے ساتھ ہی وہ بیہوش ہو گئے۔ باہر ہزاروں کی تعداد میں موجود مشتعل ہجوم اور کشیدہ حالات کی وجہ سے خالد جاوید صاحب کو طبی معائنہ کے لئے یا طبی امداد کے لئے لے جایا نہیں جا سکا۔ اس حالت میں مکرم خالد جاوید صاحب کی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کی دادی مکرمہ مانو بی صاحبہ کے ذریعہ سے ہوا جو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت مولوی کرم داد صاحب کی بھانجی تھیں جو دوالمیال جماعت کے بانی احمدیوں میں سے تھے۔

پاکستان میں تو پابندیاں ہیں تو لکھنے والے اس طرح رپورٹ بھیجتے ہیں کہ صحابی کو رفیق لکھتے ہیں اور مسجد کو دارالذکر۔ ان کی یہ رپورٹ جو دفتر مجھے ٹائپ کر کے دیتا ہے تو اس میں اصلاح کر دیا کرے اور جو صحیح اسلامی الفاظ ہیں وہ استعمال کئے جائیں۔

مرحوم بفضلہ تعالیٰ پیدائشی احمدی تھے۔ اعلیٰ اوصاف کے مالک تھے۔ اطاعت اور فرمانبرداری کے ساتھ ساتھ خلافت سے والہانہ محبت اور اخلاص کا وصف نمایاں تھا۔ پنجگانہ نماز کے علاوہ تہجد اور بلند آواز میں تلاوت قرآن کریم کرنے کے عادی تھے۔ ایک بڑا لمبا عرصہ، بیس سال یہ روز گار کے سلسلہ میں شارجہ میں مقیم رہے۔ پھر گزشتہ بیس سال سے دوالمیال واپس آ گئے تھے اور ان کا اکثر وقت کئی سالوں سے مسجد میں ہی گزرتا تھا۔ اس دوران جماعتی امور کی انجام دہی اور مسجد کی سیکیورٹی اور دیگر جماعتی معاملات میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔ قرآن کریم سے خاص عشق تھا۔ اپنے ایک بیٹے سبحان ایوب صاحب کو بھی قرآن حفظ کروایا۔ مرحوم اس وقت سیکرٹری تعلیم القرآن کی حیثیت سے خدمت کی توفیق پا رہے تھے اور اس کے علاوہ بھی مختلف حیثیتوں سے ان کو جماعت کی خدمت کی توفیق ملی۔ پسماندگان میں اہلیہ محترم عذرا بیگم صاحبہ کے علاوہ دو بیٹے سلمان خالد جو یہاں یوکے میں رہتے ہیں اور حافظ سبحان ایوب اور دو بیٹیاں ہیں ندا مریم اور حرامریم۔ یہ سوگوار چھوڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اولاد میں بھی یہ نیکیاں جاری فرمائے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button