سَعْیِ عمل بھی چاہئے
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’یاد رکھو منہ کا دعویٰ جس کے ساتھ عمل نہ ہو اگر کچھ ثابت کرسکتا ہے تو یہ کہ ایسا انسان پاگل ہے کیونکہ پاگل بھی بڑے بڑے دعوے کرتا ہے مگر اس میں حقیقت نہیں ہوتی۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ مَیں پاگل خانہ دیکھنے گیا۔ وہاں مجھے کئی قسم کے پاگل دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ ان میں سے ایک کو مَیں نے دیکھا کہ اُس نے اپنے اردگرد ٹھیکریوں کا ڈھیر لگایا ہوا تھا، اور سمجھ رہا تھا کہ اس کے پاس بہت بڑا خزانہ ہے اور وہ دنیا کا بادشاہ ہے۔ اس کے مقابلہ میں ہم ایک بادشاہ کو دیکھتے ہیں وہ بھی سمجھتا ہے کہ اس کے پاس خزانہ ہے اور وہ دنیا کا بادشاہ ہے۔ مگر دونوں میں کتنا عظیم الشان فرق ہے۔ پاگل بھی کہتا ہے کہ مَیں بادشاہ ہوں اور بادشاہ بھی کہتا ہے کہ مَیں بادشاہ ہوں۔ ان دونوں میں اگر کچھ فرق ہے تو یہ کہ ایک خالی منہ سے دعویٰ کرتا ہے اور دوسرا صرف دعویٰ ہی نہیں، اس کا ثبوت بھی پیش کرتا ہے۔ غرض جب پاگل کے معنے ہی یہ ہوتے ہیں کہ وہ ایسا دعویٰ کرتا ہے جس میں حقیقت نہیں ہوتی تو اسی طرح اگر واقعہ میں ہم کہتے ہیں کہ ہم خداتعالیٰ کے بندے ہیں مگر اس کی بندگی کا ثبوت پیش نہیں کرتے تو ہمارا یہ دعویٰ بھی ہمیں پاگل نہیں تو اور کیا ثابت کرے گا۔ غلام کبھی آقا کے حکم کا انکار نہیں کرسکتا بلکہ جو بھی حکم دیا جائے اسے بجالاتا ہے۔ یہی امر ہمیں مدّنظر رکھنا چاہئے اور ہماری ہر حرکت و سکون اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ہونی چاہئے ورنہ اگر یہ حقیقت ہمارے اعمال میں موجود نہیں اور نہ عبودیت ہمارے چہرہ پر ظاہر ہوتی ہے تو یقینا ہمارا بے بنیاد دعویٰ ہمیں پاگلوں میں شمار کرے گا۔ لیکن جب یہ حالت نہ ہو اور دعوے صرف زبان تک محدود نہ ہوں بلکہ عملی ثبوت اس کے ساتھ موجود ہوں تو انسان کی حالت بالکل بدل جاتی ہے اور وہ حقیقی عبودیت کے اظہار کے لئے بے اختیار ہو جاتا ہے۔‘‘
(خطبات محمود جلد 15 صفحہ 162-163)