میرے محسن، میرے مربی محترم مولانا بشیر احمد قمر صاحب (مرحوم)
ایک عرصہ سے تمنّا تھی کہ اپنے ایک مُحسن محترم مولانا بشیر احمد قمر صاحب (مرحوم) کا ذکرخیر کروں تا اپنے آقا و مولا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کہ اُذْکُرُوْا مَوْتٰکُمْ بِالْخَیْرِ کی تعمیل ہوجائے۔
یہ 1971ء کی ایک خوبصورت صبح تھی جب ہماری پوری کلاس اپنی مادرِ علمی جامعہ احمدیہ ربوہ سے ’’شاھد‘‘ کی ڈگری حاصل کرکے فارغ التحصیل ہوئی اور ضابطہ کی کارروائی کے لئے وکالتِ دیوان میں حاضر ہوئی۔ اِس وکالت میں ضروری کارروائی کے بعد ہمیں نظارت اصلاح و ارشاد مقامی، صدر انجمن احمدیہ میں رپورٹ کرنے کی ہدائت ہوئی تاکہ اس نظارت کے تحت ہم میدانِ عمل میں قدم رکھیں۔ حضرت مولانا احمد خان صاحب نسیم (مرحوم) اس کے ناظر تھے۔ بہت بارعب شخصیت کے مالک تھے۔ زندگی میں اُن کے ساتھ اِس سے پہلے صرف سلام دعا، علیک سلیک اور مصافحہ کرنے تک ہی تعلق رہا۔ خاکسار کے دل پر اُن کا ایک رعب اور دبدبہ تھا۔ گھبرائے ہوئے دل کے ساتھ ان کے دفتر میں پوری کلاس کے ہمراہ خاکسار بھی حاضرِ خدمت ہوا۔ آپ نے سب سے مصافحہ فرمایا اور خوش آمدید کہا۔ نہائت ہی پیار اور محبت کے ساتھ بہت سی نصائح فرمائیں۔ لطائف بھی سنائے اور میدانِ عمل میں پیش آنے والی مشکلات اور ساتھ ہی ان کا حل بھی بیان فرمایا۔ قریباً ڈیڑھ گھنٹہ ہم ان کے دفتر میں رہے۔ آپ نے اتنی بے تکلّفی سے گفتگو فرمائی کہ سارا رعب جاتا رہا اور اس کی جگہ محبت اور احترام نے لے لی۔ اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں ان کے درجات بلند فرمائے۔
اسی دوران ہمارے ہاتھوں میں پروانے پکڑا دیئے گئے اور ہدائت دی گئی کہ اپنے اپنے مربی صاحب ضلع کو رپورٹ کریں اور اُن سے ہدایات لے کر اپنے مرکز میں پہنچ جائیں۔ خاکسار کو سرگودھا ضلع کے قصبہ ساہیوال میں تقرر کا پروانہ ملا۔ خاکسار نے اپنا سامان اٹھایا اور بذریعہ بس سرگودھا روانہ ہوگیا۔ سارا راستہ اِسی سوچ میں رہا کہ نمعلوم مربی صاحب ضلع کس مزاج کے ہوں گے اور کیسے کیسے لوگوں سے واسطہ پڑے گا۔ چنانچہ جب خاکسار نے محترم مربی صاحب ضلع سرگودھا کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے ایک فرشتہ نما شخص، سر پر سفید عمامہ سجائے اور سفید قمیص شلوار زیبِ تن کئے، اور اوپر اچکن پہنے، چہرے پر مسحورکُن مسکراہٹ لئے تشریف لائے اور یوں گلے ملے جیسے وہ برسوں سے مجھے جانتے ہوں اور میرا ہی انتظار فرما رہے ہوں۔ انہوں نے محبت سے میرا ہاتھ پکڑا اور گھر کے سٹنگ روم میں لے گئے اور مشروبات پیش فرمائے اور ساہیوال کے اردگرد چھ جماعتوں کی نگرانی عاجز کے سپرد فرمائی اور فرمایا کہ ساہیوال میں سَیٹ ہوجائیں تو دو ایک روز میں مَیں خود آکر آپ کو جماعتوں میں لے جاکر تعارف کرواؤں گا۔ چنانچہ آپ نے ایک لمبی پُرسوز دعا کرواکر عاجز کو رخصت کیا۔ یہ تھی عاجز کی پہلی ملاقات اپنے افسر اور انچارج، مربی ضلع مکرم محترم مولانا بشیر احمد قمر صاحب (مرحوم) کے ساتھ۔ گفتگو کے انداز میں مٹھاس، نرمی، پیار اور محبت، ہمدردی اور نصیحت تھی۔
دو دنوں کے بعد محترم مولانا قمر صاحب ساہیوال تشریف لائے۔ خاکسار کے قیام کا جائزہ لیا اور احبابِ جماعت سے ملے اور خاکسار کے بارہ میں مقامی جماعت کو ہدایات دیں اور پھر چار پانچ دن خاکسار کے ساتھ رہے، چھ جماعتوں کا دورہ کیا اور عملاً خاکسار کو بتایا کہ جماعتوں میں کام کیسے کرنا ہے اور احباب جماعت کے ساتھ ذاتی رابطہ کیسے رکھنا ہے۔ ان چار پانچ دنوں میں آپ نے عمل کرکے (بغیر کچھ کہے) خاکسار کی ایسی تربیت کی جو زندگی بھر خاکسار کے لئے استفادہ کا باعث رہی۔ نماز تہجد، تلاوت قرآن کریم، باجماعت نمازوں کا التزام، احباب جماعت کے ساتھ مسکراتے چہرے کے ساتھ محبت، پیار اور احترام کے ساتھ ملنا، ان کی باتوں کو بڑی توجہ سے سننا اور صائب مشوروں سے نوازنا وغیرہ بے شمار حسین خصائل تھے ان کے اندر، جن کا خاکسار نے بغور مطالعہ کیا اور زندگی بھر اپنانے کی کوشش کی۔ وہ خاکسار کے محسن اور مربی تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ کسی جماعت میں جانے سے پہلے دعا ضرور کرلینی چاہئے اور آپ کو ہر موقع کی دعائیں زبانی یاد تھیں۔
خاکسار کے سپرد چھ جماعتوں میں سے سب سے بڑی جماعت چک منگلا تھی۔ وہاں آپ نے ایک بڑا جلسہ رکھا ہوا تھا۔ آپ کا مطالعہ بہت گہرا تھا اور تقریر کا انداز نہائت پُراثر تھا۔ ایک ایک لفظ دل میں اترتا جاتا تھا۔ آپ کی تقریر اتنی مؤثر تھی کہ اپنے تو اپنے، غیر بھی عش عش کراٹھے۔ وہ تقریر خاکسار کے دل پر نقش ہوگئی اور موضوع تھا ’’کلمۂ شہادت‘‘ ۔ آپ نے بتایا کہ ہم ’’اَشْھَدُ‘‘ اس وقت کہہ سکتے ہیں جب ہم نے اپنے ربّ کو بچشمِ خود دیکھا ہو ورنہ گواہی قابلِ قبول کیونکر ہوگی۔ آج صرف ہم احمدی ہی ہیں جنہوں نے زندہ خدا کے جلوے دیکھے، جن کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور جن سے اللہ ہمکلام ہوتا ہے۔ آج ایک احمدی ہی ہے جو گواہی دے سکتا ہے کہ سیّدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ پیشگوئیوں کے عین مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبعوث ہوئے اور تائید میں اللہ تعالیٰ نے کسوف و خسوف کے نشان ظاہر فرمائے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ صدیاں پہلے پیشگوئی کے طور پر بیان فرمایا تھا۔
آپ کا یہ خطاب قریباً ایک گھنٹہ جاری رہا اور مجمع وجد کی کیفیت میں تھا۔ بہرحال محترم مولانا صاحب کا طرز خطابت بھی دلکش تھا اور گفتگو کا انداز بھی شیریں اور دِل کو موہ لینے والا تھا۔ چہرہ پر ہمیشہ خوبصورت مسکراہٹ رہتی تھی جو ملنے والوں کو آپ کے مزید قریب کھینچ لیتی تھی۔ خاکسار نے ان چار پانچ دنوں کی قربت میں آپ سے بہت کچھ سیکھا۔ آپ فرماتے تھے کہ جامعہ احمدیہ سے سات آٹھ سال کی تربیت لے کر جب کوئی میدان عمل میں قدم رکھتا ہے اور اگر خلوص سے کام کرے گا تو اللہ تعالیٰ اُس کے کام میں برکت رکھ دیتا ہے۔ خلافت کے ساتھ اُن کو بے انتہا عقیدت تھی اور گفتگو میں اکثر خلفاء عظام کے ارشادات اور واقعات بیان فرماتے تھے۔ مطالعہ کا انہیں بہت شوق تھا اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین فرماتے تھے۔
خاکسار چند ماہ ہی ساہیوال رہا اور یہی چار پانچ دن تھے کہ خاکسار کو اُن کی راہنمائی میدانِ عمل میں حاصل رہی۔ مگر اُن کے ساتھ مودّت کا رشتہ ہمیشہ کے لئے قائم رہا۔ جب بھی ملتے، بڑے ہی پیار اور خندہ پیشانی سے ملتے۔
محترم مولانا قمر صاحب نظام کے بہت پابند تھے۔ آپ 2003ء میں مرکزی نمائندہ کی حیثیت سے جلسہ سالانہ یوکے میں شرکت کے لئے لندن تشریف لائے۔ جلسہ کے بعد مرکزی مہمانوں کو سکاٹ لینڈ سیر کے لئے بھیجا جاتا ہے۔ چنانچہ اس سال محترم قمر صاحب مرحوم بھی قافلہ میں شریک تھے۔ خاکسار نے عرض کیا کہ آپ مسجد کی بجائے مربی ہاؤس میں قیام فرمائیں (اس وقت خاکسار گلاسگو میں بطور مربی سلسلہ خدمات بجا لا رہا تھا) تو آپ نے فرمایا کہ مَیں ایک قافلہ میں آیا ہوں اور اس قافلہ کے ایک امیر ہیں۔ مَیں فیصلہ کرنے کا خودمختار نہیں ہوں۔ اس لئے جو فیصلہ امیرِ قافلہ فرمائیں گے، اس کے مطابق قیام کروں گا۔ چنانچہ خاکسار نے محترم امیرِ قافلہ سے اجازت حاصل کرکے محترم مولانا بشیر احمد قمر صاحب کی خدمت کی سعادت پائی (یہ بھی عرض کردوں کہ عمر کے لحاظ سے امیرِ قافلہ صاحب اُن کے پوتوں، نواسوں سے بھی کم عمر تھے۔ اس واقعہ سے آپ کی اطاعتِ امیر واضح نظر آتی ہے)۔
ایک موقع پر ایک لطیفہ ہوا جس کو خاکسار یاد کرکے بہت محظوظ ہوتا ہے۔ غالباً 1985ء کی بات ہے کہ فیصل آباد کے ایک گاؤں میں جماعت کا جلسہ ہو رہا تھا۔ محترم محمداعظم اکسیر صاحب (مرحوم) مربی ضلع نے خاکسار کو مدعو فرمایا اور تقریر کرنے کا ارشاد فرمایا۔ خاکسار نے ضمناً ان سے پوچھا کہ مرکز سے اَور کون دوست جلسہ میں شریک ہوں گے۔ تو انہوں نے بتایا کہ مولانا بشیر احمد قمر صاحب بھی مدعو ہیں۔ چنانچہ مقررہ دن خاکسار لاری اڈّہ پہنچا تو محترم مولانا قمر صاحب کو وہاں موجود پایا۔ سڑک کی دوسری طرف سے انہوںنے خاکسار سے دریافت کیا کہ کہاں جارہے ہو؟ (انہیں معلوم نہ تھا کہ خاکسار بھی اسی جلسہ کے لئے مدعو ہے)۔ خاکسار نے عرض کیا کہ جہاں آپ فرمائیں۔ کہنے لگے کہ آؤ فیصل آباد چلیں۔ خاکسار نے سڑک پار کی، سلام دعا کے بعد عام گفتگو شروع ہوگئی۔ بس آئی تو وہ بس میں سوار ہوگئے۔ خاکسار بھی اُن کے پیچھے بس میں سوار ہوگیا اور ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گیا تو محترم قمر صاحب متعجّب ہوئے اور فرمایا کہ مَیں صرف اپنا کرایہ دوں گا۔ بہرحال فیصل آباد پہنچے تو وہ رکشا میں بیٹھے تو خاکسار بھی اُسی رکشا میں بیٹھ گیا اور اپنا کرایہ ادا کیا۔ مسجد پہنچے تو محترم اکسیر صاحب کو منتظر پایا اور کار تیار تھی جس میں دو سیٹیں خالی تھیں۔ محترم قمر صاحب فرنٹ سیٹ پر تشریف فرما ہوئے اورمحترم اکسیر صاحب کے ساتھ پچھلی سیٹ پر خاکسار بیٹھ گیا اور کار چل پڑی۔ محترم قمر صاحب بار بار مُڑ کر خاکسار کو دیکھتے اور کچھ کہنا چاہتے مگر حجاب مانع رہا۔ غالباً وہ گمان کر رہے تھے کہ گویا میزبان کی اجازت کے بغیر انہوں نے مجھے دعوت دینے کی غلطی کی ہے۔ بہرحال جلسہ گاہ پہنچے ۔ مولانا قمر صاحب سے صدارت کی درخواست کی گئی اور پروگرام ان کے حوالہ کیا تو مقررین میں خاکسار کا نام پڑھ کر بہت مسکرائے اور کہنے لگے کہ بعد میں تم سے نمٹ لوں گا۔ ان کے صدارتی خطاب سے پہلے خاکسار کی تقریر تھی اور خاکسار نے ’’کلمۂ شہادت‘‘ پر تقریر کی جو محترم مولانا صاحب نے 1971ء میں چک منگلا میں کی تھی۔ جب تقریر کرکے خاکسار اُن کے ساتھ بیٹھا تو ہنس کر میرے کان میں کہنے لگے: شرارتی! تم نے میری تقریر کردی!!۔ بہرحال محترم مولانا صاحب نے شانِ قرآن پر عظیم الشان خطاب فرمایا جو بہت پسند کیا گیا۔
محترم مولانا بشیر احمد قمر صاحب کو قرآن کریم سے بہت عشق تھا۔ بڑی ہی ترتیل کے ساتھ آپ تلاوت قرآن کریم کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ربوہ کے محلہ جات کی مساجد میں آپ کے لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا جس کا عنوان عظمتِ قرآن تھا۔ جب خاکسار نے ابتدا میں ان کے ہمراہ اپنی چھ جماعتوں کا دورہ کیا تو خاکسار نے دیکھا کہ آپ اس امر کو یقینی بناتے تھے کہ ہر جماعت میں قرآن کریم کے پڑھانے کا باقاعدہ انتظام ہے۔ اور بالخصوص بچوں کو قرآن کریم پڑھایا جا رہا ہے۔ اور غالباً یہی پاک جذبہ اور عشق کلام الٰہی تھا کہ جب آپ کو اس دنیائے فانی سے واپسی کا بلاوا آیا تو آپ بحیثیت ناظر تعلیم القرآن و وقف عارضی، صدر انجمن احمدیہ پاکستان خدمات بجا لارہے تھے۔
ایک دفعہ کسی ملک کے ویزہ کے حصول کے لئے اسلام آباد گئے۔ خاکسار بھی ہمراہ تھا۔ صبح ایمبسی جانے لگے تو انہیں بہت پریشان پایا اور کسی چیز کی تلاش میں سرگردان۔ خاکسار کے دریافت کرنے پر فرمایا کہ گھڑی نہیں مل رہی اور بار بار اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھ رہے تھے۔چونکہ ایمبسی جانے میں تاخیر ہو رہی تھی تو خاکسار نے پوچھا کہ کیا گھڑی بہت قیمتی تھی؟ فرمانے لگے کہ قیمتی تھی یا نہیں مگر یہ ایک امانت تھی۔ اپنی بیگم سے امانتاً لے کر آیا تھا۔ بالآخر کچھ ہی دیر بعد جبکہ دعائیں کر رہے تھے تو فرمانے لگے کہ گھڑی مل گئی۔ گھڑی اصل میں کلائی سے ذرا اوپر اچکن کے بازو کے نیچے پھنس گئی تھی۔ گھڑی ملنے پر بہت خوش ہوئے۔ اس سے اُن کی امانت کی حفاظت کی فکر اور ذمہ داری کے احساس کا پتہ چلتا ہے۔
محترم مولانا قمر صاحب بہت سادہ مزاج تھے مگر لباس ہمیشہ صاف ستھرا، اُجلا اور دُھلا ہوا پہنتے تھے۔ ہرایک کے ساتھ خندہ پیشانی اور مسکراہٹ نیز پیار اور محبت سے ملتے تھے خواہ عمر میں ان سے چھوٹا ہو، ان کے ساتھ بھی احترام سے ملتے۔ بلکہ خاکسار نے خود دیکھا ہے کہ اپنے بچوں کو بھی آداب اور احترام کے ساتھ پکارتے تھے۔
مرحوم بے شک عالم باعمل تھے۔ نماز باجماعت کے پابند اور شریعت کے مطابق اعمال بجالانے والے تھے۔ دعوت الی اللہ کا جنون تھا۔ صاحبِ علم تھے ۔ بہت گہرا مطالعہ تھا۔ تقاریر بغیر نوٹس کے کرتے تھے مگر تقریر کی تیاری بھرپور کرتے تھے۔ اندازِ خطابت بھی نرالا تھا۔ ایک ایک لفظ واضح اور دل میں اُترنے والا ہوتا تھا۔
اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔ آمین