رپورٹ دورہ حضور انور

امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ کینیڈا 2016ء

میئر آف مسی ساگا کی حضور انور سے ملاقات اور باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو۔ عرب سیرین خواتین کی حضور انور سے اجتماعی ملاقات۔ ٹورانٹو میں ماریشس کے آنریری کونسلرکی حضور انور سے ملاقات۔
کینیڈا کے اخبار Globe and Mail کی جرنلسٹ کو انٹرویو۔ جیوئش کمیونٹی کے ایک وفد کی
حضور انور ایدہ اللہ سے ملاقات۔ انفرادی و فیملی ملاقاتیں۔ تقریبات آمین۔

(رپورٹ مرتّبہ: عبدالماجد طاہر۔ ایڈیشنل وکیل التبشیر لندن)


24؍اکتوبر بروز سوموار 2016ء

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح ساڑھے چھ بجے ’’مسجد بیت الاسلام‘‘ میں تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دفتری ڈاک ملاحظہ فرمائی اور ہدایات سے نوازا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ مختلف دفتری امور کی ادائیگی میں مصروف رہے۔

میئر آف مسی ساگا کی حضور انور سے ملاقات

ایک بجکر بیس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ایوان طاہر میں، میٹنگ روم میں تشریف لائے جہاں میئر آف Mississauga ، Bonnie Crombie صاحبہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کے لئے آئی ہوئی تھیں اور حضور انور کی آمد کی منتظر تھیں۔

مئیر نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا ۔حضور سے مل کر بہت اچھا لگا۔ میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ آپ سے ملاقات ہوئی۔

اس پر حضور انور نے فرمایا۔ بہت شکریہ آپ یہاں آئی ہیں۔

مئیرنے عرض کیا: میں معذرت چاہتی ہوں کہ میں آپ سے Thanks giving Weekendپر نہیں مل سکی جب کہ دوسرے سیاست دان ملنے آئے تھے۔ کیونکہ میں اپنی فیملی کے ساتھ تھی۔ میں سوچ رہی تھی کہ میں نے آپ سے ملنے کا یہ بہترین موقع کھو دیا تھا۔

اس پر حضور انور نے فرمایا: فیملی سے ملنے کا پلان بھی ضروری ہوتا ہے۔

مئیرنے کہا: خاص طور پر سیاست کی زندگی میں ضروری ہو جاتا ہے ، نہیں تو ہمیں باقی دنوں میں فیملی سے ملنے کا موقع نہیں ملتا۔ میں معذرت چاہتی ہوں کہ میرا پلان آپ کی ملاقات کے ساتھ مکس (Mix) ہو گیا۔ اس دفعہ کینیڈا میں آکر آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں؟

اس پر حضور انور نے فرمایا: بہت اچھا لگ رہا ہے۔

مئیرنے کہا: ہم بہت خوش قسمت ہیں۔ کیونکہ ہمارے شہر کے علاقہ میں سب سے زیادہ اردو بولنے والے لوگ رہتے ہیں۔ اور اس میں مختلف رنگ و نسل کے لوگ رہتے ہیں۔ لیکن ہم خوش ہیں کہ یہاں سب سے بڑی مسلم کمیونٹی رہتی ہے۔

حضور کے استفسار پرمئیرنے کہا: میں نے تھوڑی بہت اردو اور پنجابی بھی سیکھ لی ہے۔ ہمارا یہ پُر زور طریق پر ماننا ہے کہ ہر ایک کو آزادی کے ساتھ برابر موقع ملنا چاہئے تاکہ ہم آگے بڑھ کر کامیاب ہو سکیں۔ یہی قانون سب پر ایک طرح ہی لاگو ہو۔ میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ میرے پاس ناانصافی کے لئے صبر کا کوئی مادہ نہیں ہے۔ جب کبھی ناانصافی کی بات ہوتی ہے تو ہم اسی وقت اس کا مقابلہ کرتے ہیں۔ دوسرے لوگ بھی ہماری اس بات کے بارہ میں کہتے ہیں کہ ہم نے صحیح قدم اٹھایا ہے۔ میں یہ کہنا پسند کروں گی کہ ہمارے جتنے بھی مختلف روایات اور طریق ہیں ان کے ساتھ ہمیں آگے بڑھنا چاہئے۔ مسی ساگا میں تمام سال بہت سے پروگرام ہوتے ہیں اور ہم ان سب میں شریک ہوتے ہیں۔

اس پر حضور انور نے فرمایا: جس طرح آپ نے بتایا ہے تو یہ ایک ملٹی کلچرل سوسائٹی ہے۔

مئیرنے کہا: بہت زیادہ ملٹی کلچرل ہے۔ ہم بہت خوش قسمت ہیں۔ ہمارے ان تمام پروگراموں میں الگ الگ مذاہب کے لوگ شریک ہوتے ہیں، جیسے ہندو، سکھ ، عیسائی یہاں تک کہ یہودی کمیونٹی بھی۔ جیسا کہ ہم ابھی اردو زبان کے بارہ میں بات کر رہے تھے اسی طرح ہمارے ہاں اردو،پنجابی، پولش اور تھوڑی سی ہندی ، مگر عربی بہت زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے اپنے شہر میں بہت سارے سیرین پناہ گزین کو شامل کیا ہے۔

اس پر حضور انور نے فرمایا:کافی احمدی ریفیوجی ہیں اِن کا تعلق بھی مسی ساگا شہر سے ہے۔

مئیرنے عرض کیا: ہمارے ہاں کافی زیادہ احمدی ہیں۔ ہمارے پاس ایک یا دو احمدی مساجد ہیں یا ایک مسجد اور ایک سینٹر ہے۔

اس پر حضور انور نے فرمایا: ہم مسی ساگا شہر میں ایک مسجد ضرور بنائیں گے۔ اس وقت وہاں ہماری باقاعدہ مسجد نہیں ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ آپ کے بطور مئیر ہوتے ہی وہاں مسجد بن جائے۔

اس پرمئیرنے کہا: میں بھی یہی امید رکھتی ہوں۔ ہم کمیونٹی کے ساتھ اس میں بھرپور حصہ لیں گے۔ ہم اس بارہ میں بات کر رہے تھے کہ لوگوں کو کس طرح کینیڈین کلچر میں شامل کرنا ہے۔ اور یہ بات کہ جماعت احمدیہ کس قدر وطن کی محبت اور وفا کے بارہ میں تعلیم دیتی ہے۔ بے شک یہ ایک مشکل امر ہے کیونکہ دونوں میاں بیوی کام کر رہے ہوتے ہیں اور اکثر ان کے پاس وقت نہیں ہوتا۔ بعض دفعہ خاوند دوسرے ملک میں ہونے کی وجہ سے فیملی کی مشکلات اور بھی بڑھ جاتی ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو اچھے رنگ میں تربیت کر سکیں۔

مسی ساگا شہر کے حوالہ سے بات ہوئی تو امیر صاحب کینیڈا نے عرض کیا: جلسہ سالانہ بھی وہاں ہوتا ہے اور انٹرنیشنل سینٹر بھی مسی ساگامیں ہے۔

اس پر حضور انور نے فرمایا: لیکن اب ہمیں جلسہ سالانہ کے لئے اس سے زیادہ بڑی جگہ کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ جگہ ہمارے آنے والے جلسوں کے لئے چھوٹی ہو جائے گی۔

مئیرصاحبہ نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: اتنے لوگ آپ کے جلسہ پر آنے لگے ہیں ۔ مجھے پہلے جلسہ پر ا ٓنے کا موقع اس وقت ملا تھا جب میں فیڈرل ممبر تھی۔ جب سٹیون ہارپر کی حکومت ا ٓ گئی تو میں نے early retirement لے لی لیکن میں خدمت کا شوق رکھتی تھی اس لئے کونسلر بن گئی۔ شاید آپ Hazel McCallion سے ملے ہوں جو مسی ساگا کی سب سے زائد عرصہ کے لئے مئیر رہی ہے۔ 36 سال کے لئے وہ مئیر کے عہدہ پر فائز تھی۔ اس کے بعد مَیں مئیر بنی۔

اس پر حضور انور نے فرمایا: میری دعا ہے کہ اب آپ سب سے زائد عرصہ کے لئے مئیر بنیں۔

مئیرنے کہا:میں بھی اسی طریق پر کام کر رہی ہوں جس طریق پر ہیزل نے کام کیا۔ نیز، میں مختلف قسم کے لوگوں کے ساتھ کام کرنا پسند کرتی ہوں۔ شہر کو بہتر بنانے کے لئے transportation پر خوب کام ہو رہا ہے، خاص کر اس لئے کہ لوگوں کی تعداد بہت بڑھ رہی ہے اس لئے اس نظام کوجدید کرنا اور وسعت دینا بہت ضروری ہے۔ اس طرح ہم ترقی کر رہے ہیں۔ ہم کیا کر سکتے ہیں جس سے شہر کی بہتری ہو؟

اس پر حضور انور نے فرمایا: میرے خیال سے آپ اچھا کام کر رہی ہیں۔

میئر نے بتا یا کہ ہم اپنے آپ کو edge شہر کہتے ہیں، کیونکہ ہم ٹورانٹو کے کونے پر واقع ہیں۔ ہم کینیڈا کے چھٹے نمبر پر بڑا شہر ہیں۔

اس پر حضور انور نے فرمایا: کیا آپ کا شہر ٹورانٹو میں merge ہو گا یا ٹورانٹو آپ کے شہر میں؟

مئیرنے کہا: ہم کسی صورت میں بھی ٹورانٹو میں شامل نہیں ہوں گے۔ مسی ساگا اور ٹورانٹو کے اچھے تعلقات ہیں۔

مئیرنے عرض کیا: ہمیں نہایت اعزاز ہے کہ آپ کینیڈا ہمارے پاس تشریف لائے ہیں۔ آپ اس دورہ میں کافی مصروف رہے ہیں۔ کیا آپ کو دوسرے شہر اور صوبے دیکھنے کا موقع ملا ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا: میں آٹوا گیا تھا اور وہاں کافی مصروفیت تھی۔

مئیرنے کہا: آپ جسٹن ٹروڈو وزیر اعظم سے بھی ملے تھے۔ یہ بھی مجھے پتہ لگا ہے کہ آپ نے بہت سارے انٹرویو دیئے ہیں؟ Peter Mansbridge نے بھی ایک انٹر ویوکیا جو نشر ہونے والا ہے۔ اُس انٹرویو کو پورا کینیڈا دیکھے گا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کی باتوں سے سب لطف اندوز ہوں گے۔

حضور انور کے استفسار پر امیر صاحب کینیڈا نے بتایا کہ مسی ساگا میں جماعت کی تعداد دو ہزار کے قریب ہے۔

اس پر حضور انور نے فرمایا: کیا ہم مسی ساگا میں پِیس ویلج نما کچھ بنا سکتے ہیں اور وہاں ابھی باقاعدہ مسجد بھی نہیں ہے؟

اس پر مئیرنے کہا: اگر زمین مل جائے ، تعمیر کی اجازت تو مل جائے گی۔ مذہبی اداروں کی تعمیر کے لئے میں ہمیشہ مستعد ہوں۔

حضور انور کو بتایا گیا کہ مئیر نے ہمارے پچاس سالہ جشن کے سلسلہ میں خوب مدد کی تھی اور سٹی ہال کے پروگرام میں شامل ہوئی تھیں۔

اس پرمئیرنے کہا:میں نے ایک تقریر بھی کی تھی جس میں بتایا تھا کہ آپ کی جماعت مسی ساگا اور کینیڈا میں خوب خدمات بجالا رہی ہے اور ہم خوشی سے آپ کا جشن مناتے ہیں۔ ہمارے تمام کونسلرز اور مسی ساگا کے دیگر معززین اور مہمان بھی آئے تھے، اس حد تک لوگ آئے تھے کہ سٹی ہال بھر گیا۔

مئیرنے عرض کیا کہ آپ کی جماعت رفاہ عام کے کاموں میں ہماری مدد کرتی ہے۔ہم آپ کی جماعت کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے دس ہزار پاؤنڈ وزن میں ضرورت مند لوگوں کے لئے کھانا جمع کیا۔

اس پر حضور انور نے جماعت کو ہدایت فرمائی کہ اگلے سال آپ اس کو بھی بڑھائیں۔ کم سے کم دگنا کردیں۔

مئیرنے بتایا: ہم نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ ملازمتیں دے رہے ہیں۔

اس پر حضور انور نے فرمایا: اگر آپ اپنے نوجوانوں کو مصروف رکھیں گے اور کام دیں گے تو کم خدشہ ہے کہ وہ انتہا پسند بنیں گے۔

مئیرنے کہا: بالکل ٹھیک ہے۔ نہ صرف کام کے لحاظ سے بلکہ سکولوں میں بھی ہم کوشش کرتے ہیں کہ ان کو مصروف رکھیں او ران کے والدین سے اچھے تعلق قائم کریں اور اس طرح ان کو دیگر کاموں میں مصروف رکھیں۔ میں جانتی ہوں کہ آپ کی جماعت اس لحاظ سے بہت اچھا کام کر رہی ہے۔ humanity firstبھی بہت اچھا کام کر رہی ہے۔ نہ صرف کینیڈا میں بلکہ تمام دنیا میں۔

مئیر نے عرض کیا کہ ہمیں آپ کے دورے کا شرف کب تک حاصل رہے گا۔

اس پر حضور انور نے فرمایا: اس ماہ کے آخر تک میں ٹورانٹو سے ویسٹرن کینیڈا چلا جاؤں گا۔مئیرنے عرض کیا: جتنی دیر کے لئے آپ آئے ہیں آپ کو کینیڈا کاصحیح پتہ لگے گا۔ کیا آپ نے البرٹا اور وینکوور دیکھے ہیں۔ وہاں کی خوبصورتی ٹورانٹو سے بہت الگ ہے۔ یہاں کی زمین فلیٹ ہے اور وہاں بہت سے پہاڑ ہیں۔ وینکوور میں جماعت احمدیہ کے لوگ کتنے ہیں؟

اس پر آصف خان سیکرٹری امور خارجہ نے بتایا کہ ایک ہزار سے زیادہ ہیں۔

اس پرمئیرنے کہا: مجھے بہت خوشی ہے کہ مسی ساگا میں یہاں سے دوگنی جماعت ہے۔

اس پر حضور انور نے بتایا کہ کیلگری میں تین ہزار سے زیادہ تعدادہے۔ مسی ساگا میں ٹورانٹو کے بعد سب سے زیادہ احمدی ہونے چاہئیں۔

مئیر نے کہا: بالکل ٹھیک ہے۔ میں نے آپ کی جماعت کی ہاؤس آف کامن آٹوا میں بھی بات کی ہے۔ آپ بہت زیادہ انسانیت کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں۔ یہی جذبہ ہم مسی ساگا کے لوگ رکھتے ہیں۔ کچھ مدت پہلے ایک واقعہ ہوا تھا جو مذہبی آزادی کے خلاف تھا۔ میں اس واقعہ کے خلاف کھڑی تھی۔ اس کی نفی کی تھی۔ میرے خیال سے ایسے واقعات ڈونلڈ ٹرمپ کی وجہ سے ہیں۔ intoleranceکا واقعہ ہوا تھا اور میں اس کے خلاف پریس میں خوب بولی تھی۔ پولیس کو بھی بلایا گیا تھا۔

حضور انور کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ ایک مضمون چھپا تھا جس میں مسی ساگا کی مئیر پر الزام لگایا گیا تھا کہ پاکستانیوں کے بہت قریب ہے۔ اس طرح ہم لوگوں کو خراب کر رہے ہیں اور انتہا پسندی کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔

مئیرنے کہا: یہ باتیں مسی ساگا میں برداشت نہیں کی جا سکتیں۔ ہم سب کو خوش آمدید اور عید مبارک اور دیوالی مبارک اور مَیری کرسمس کہتے ہیں۔

مئیرنے عرض کیا: میں آپ کے پاس خاص وقت نکال کر آئی ہوں کیونکہ مجھے پتہ لگا کہ میں ایک واحد سیاست دان ایسٹرن کینیڈا کی ہوں جو آپ سے نہیں ملی۔ میں نے آپ سے ضرور ملنا تھا۔ باقی سب کام چھوڑ کر آئی ہوں۔ میرے لئے یہ بہت اعزاز کی بات ہے کہ میں آج آپ سے مل سکی اورمیں مسی ساگا اور تمام کاؤنسلرز کی طرف سے سلام کا تحفہ پیش کرتی ہوں۔

حضورانور کے استفسار پرمئیر نے بتایا کہ ہمارے کونسلرز بعض لبرل اور بعض کنزرویٹو کے ہیں۔

حضور نے استفسار فرما یا کہ مئیر کا انتخاب کیسے کیاجاتا ہے؟

اس پرمئیرنے بتایا میں براہ راست منتخب کی گئی ہوں۔ میرے خیال سے مجھے تریسٹھ فیصد ووٹ ملے تھے۔ انشاء اللہ اگلی دفعہ اس سے زائد ہوگا۔ ہماری کوشش ہے کہ ہر لحاظ سے تجارتی طور پریا فیملی کے طور پر مسی ساگا کا شہر کامیاب ہو۔ اس لئے ہم نے اپنی کمیونٹی کے لئے بہت پارک اور دیگر چیزیں تیار کی ہیں اور مزید بناتے رہیں گے۔

اس کے بعد مئیرصاحبہ نے حضور انور کی خدمت میں ایک سرٹیفکیٹ پیش کیا اور شکریہ کے جذبات کا اظہار کیا۔

………………………

میئر آف Mississauga کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ یہ ملاقات بارہ بج کر پچاس منٹ پر ختم ہوئی۔

بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور حضرت بیگم صاحبہ مدّظلّہاالعالی صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب مرحوم کی اہلیہ محترمہ اصمحہ خلیل صاحبہ کی عیادت کے لئے Humber River Hospital تشریف لے گئے۔ محترمہ اصمحہ خلیل صاحبہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ممانی جان ہیں۔

یہ ہسپتال پِیس ویلیج سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے محترمہ موصوفہ کے علاج اور رابطہ رکھنے کے حوالہ سے ڈاکٹر تنویر احمد صاحب کو ہدایات دیں۔ (ڈاکٹر تنویر احمد صاحب امریکہ سے آئے ہوئے ہیں اور اس وقت قافلہ کے ساتھ ڈیوٹی پر ہیں)۔

بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز واپس تشریف لے آئے۔ سوا دو بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ’’مسجد بیت الاسلام‘‘ تشریف لا کر نماز ظہر وعصر جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

پچھلے پہر بھی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دفتری ڈاک اور خطوط، رپورٹس ملاحظہ فرمائے اور ہدایات سے نوازا۔

عرب سیرین خواتین کی حضور انور سے اجتماعی ملاقات

آج پروگرام کے مطابق عرب سیرین خواتین کا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ اجتماعی ملاقات کا پروگرام تھا۔ اس پروگرام میں 56 خواتین اور 25 بچیاں شامل تھیں۔ پانچ بجکر پچاس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ایوان طاہر میں تشریف لائے۔

حضور انور کی آمد سے قبل ہی ان سب کی آنکھیں اشکوں سے تَر تھیںا ور زبان سے خدا کے شکر کا اظہار ہو رہا تھا۔ جونہی حضور انور ہال میں داخل ہوئے۔ سب نے کھڑے ہوکر عربی قصیدہ پڑھا جس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سوالات کرنے کا موقع عطا فرمایا۔ اکثر خواتین نے اسی بات کا اظہار کیا کہ حضور انور کو بالمشافہ دیکھنا ہمارا خواب تھا اور آج حضور انور کو اپنے سامنے پاکر ہمارا خواب پورا ہوگیا ہے۔

ایک خاتون نے عرض کیا کہ پہلے تو حضور انور سے صرف خواب میں ہی ملاقات ہوتی تھی اور جس رات حضور انور کو خواب میں دیکھتے تھے اس سے اگلا سارا دن ایک عجیب خوشی اور سرور کی کیفیت میں گزرتا تھا۔ اب حضور انور کو سامنے دیکھا ہے تو ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں ہے۔

ایک خاتون نے عرض کیا کہ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ حضور انور ہمارے گھر آئے ہیں۔ کھانا تناول فرمایا ہے اور ہمارے گھر میں نماز پڑھائی ہے۔

ہم نے یہ خط قبل ازیں حضور انور کی خدمت میں تحریر کیا تھا جس کے جواب میں حضور انور نے فرمایا تھا کہ مَیں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کا خواب پورا فرمائے۔ اس لئے درخواست ہے کہ حضور انور ہمارے گھر تشریف لائیں۔

حضور انور نے فرمایا کہ سب کی ہی یہ خواہش ہے اور سب کی طرف جانا ممکن نہیں ہے لیکن آپ کی خواب کا مطلب یہ ہے کہ ہم سب نے جماعت احمدیہ کے مادی اور روحانی مائدہ پر مل کر کھانا کھایا ہے۔ اس طرح آپ کا خواب پورا ہوگیا ہے۔

اس پروگرام کے آخر پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت قلم، چاکلیٹ اور حجاب عطا فرمائے۔

انفرادی و فیملی ملاقاتیں

بعدازاں ساڑھے چھ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لے آئے اور پروگرام کے مطابق فیملیز ملاقاتیں شروع ہوئیں۔

آج شام کے اس سیشن میں چالیس فیملیز کے 195 افراد نے اپنے پیارے آقا سے شرف ملاقات پایا۔ یہ فیملیز کینیڈا کی جماعتوں Brampton, Vaughan, Peace Village, Abode of Peace, Windsor, Richmond Hill اور Mississauga سے آئی تھیں۔ اس کے علاوہ پاکستان سے آنے والے بعض احباب نے بھی اپنے پیارے آقا کی ملاقات کی سعادت حاصل کی۔

ان سبھی نے حضور انور کے ساتھ تصویر بنوانے کا شرف بھی پایا۔ حضور انور نے ازراہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلباء اور طالبات کو قلم عطا فرمائے اور چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائے۔

ملاقاتوں کا یہ پروگرام 9 بجے تک جاری رہا۔

تقریب آمین

بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نو بجکر بیس منٹ پر ’’مسجد بیت الاسلام‘‘ تشریف لائے اور تقریب آمین کا انعقاد ہوا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 40 بچوں اور بچیوں سے قرآن کریم کی ایک ایک آیت سنی اور آخر پر دعا کروائی۔

درج ذیل بچوں اور بچیوں نے اس تقریب میں شمولیت کی سعادت پائی:

حیّان احمد، رحمان اسد جنجوعہ، آفتاب احمد، ہاشم احمد بلوچ، فارس شاد، دانیال بشارت، عارف مسعود، نصر رضوان رشید، ثاقب احمد نورالدین، ساغر احمد، ذکریا ولی احمد، آدم احمد بھٹی، جہان الدین، یاسر احمد، محمد امان افضل شیرخان، لبید احمد راشد۔

ماہ نور خولہ حسین، نائمہ خلود خان، بشری رحمان، حدیقہ احمد، علیشاہ شکیل، یمنا نوید چوہدری، صباحہ طارق، مدیحہ ملک، تانیہ باجوہ، لونہ عودہ، ایشال عطا، عنایہ نور، ھبۃالشکور خان، ایمان ابراہیم، عروش عطیۃالشافی بلال، ضوحیٰ بلال، زُبدہ احمد جاوید، دریشا احمد، لجین سعادت، مدیحہ احمد، نادیہ بی خان، خدیجہ علی، یُسریٰ ماہم اور عطیۃالاسلام چٹھہ۔

تقریب آمین اور دعا کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نماز مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے آئے۔

25؍اکتوبر بروز منگل 2016ء

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح ساڑھے چھ بجے ’’مسجد بیت الاسلام‘‘ میں تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دفتری ڈاک، خطوط اور رپورٹس ملاحظہ فرمائیں اور ان رپورٹس پر اپنے دست مبارک سے ہدایات سے نوازا۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دو بجے ’’مسجد بیت الاسلام‘‘ میں تشریف لاکر نماز مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے آئے۔

ٹورانٹو میں ماریشس کے آنریری کونسلرکی حضور انور سے ملاقات

پروگرام کے مطابق پانچ بج کر 45 منٹ پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ایوان طاہر میں میٹنگ ہال میں تشریف لے آئے جہاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی آمد سے قبل، ٹورانٹو میں ماریشس کے آنریری کونسلر Mr. Banwarilal Sennik اپنی اہلیہ کے ساتھ حضور انور کی ملاقات کے لئے آئے ہوئے تھے اور حضور انور کی آمد کے منتظر تھے۔

موصوف نے بتایا کہ مَیں نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا پِیس سمپوزیم کا ایڈریس سنا تھا اور ویڈیو دیکھی تھی۔ مجھے حضور انور کو ملنے کا شوق پیدا ہوا۔ حضورانور کا خطاب بہت مؤثر تھا۔ آپ کے خیالات بہت اچھے ہیں۔ آپ دنیا میں امن، رواداری اور انسانی اقدار کے قیام کے لئے بڑے اخلاص اور سچائی سے کام کر رہے ہیں اور لوگ آپ کی بات کو توجہ سے سنتے ہیں۔ اس بات سے ہمیں آپ سے ملنے کی خواہش پیدا ہوئی ہے۔ ہم نے حضور کو ٹی وی پر دیکھا تھا۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم حضور سے مل رہے ہیں۔

پاکستان میں رہ کر کام کرنے کے حوالہ سے موصوف کے استفسار پر حضور انور نے فرمایا: پاکستان میں ہمارے خلاف قانون بنا ہوا ہے۔ نہ نماز پڑھ سکتے ہیں، مسجد کو ’’مسجد‘‘ نہیں کہہ سکتے، اذان نہیں دے سکتے اور نہ مَیں اپنی کمیونٹی سے بات کرسکتا ہوں۔ یہاں لندن میں تو مَیں ہر جمعہ کے دن خطبہ دیتا ہوں۔ ہمارے ٹی وی چینل MTA انٹرنیشنل کے ذریعہ ساری دنیا میں Live نشر ہوتا ہے اور ساتھ مختلف اہم زبانوں میں اس کا ترجمہ بھی Live نشر ہوتا ہے۔ پاکستان میں قیام کی صورت میں مجھے بند کمرے میں رہنا پڑے گا اور اگر اپنی ذمّہ داریاں ادا کروں تو پھر جیل میں رہنا پڑے گا۔ دونوں صورتوں میں اپنے فرائض ادا نہیں کرسکتا۔

موصوف کے ایک سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام قادیان میں پیدا ہوئے اور وہیں مدفون ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ آخری زمانہ میں اسلام کی حالت بگڑ جائے گی اور اسلام کا صرف نام رہ جائے گا اور مسلمان بگڑ جائیں گے تو اس وقت خداتعالیٰ ایک مصلح اور ریفارمر کو بھیجے گا۔ اُس وقت ایک نبی، ایک اوتار آئے گا جو مسیح اور مہدی کہلائے گا اور اسلام کی حقیقی تعلیم سے مسلمانوں کو آشنا کرے گا اور دنیا کو بتائے گا کہ اسلام کی اصلی اور حقیقی تعلیم کیا ہے۔

حضور انور نے فرمایا کہ ہر مذہب میں کسی کے آخری زمانے میں آنے کی پیشگوئی موجود ہے اور یہ آنے والا شخص ایک ہی ہوسکتا ہے، دو نہیں ہوسکتے۔ جس اوتار اور نبی کے آنے کی پیشگوئی تھی، اُس ایک نے ہی آنا تھا تاکہ وحدت قائم ہو اور امّت واحدہ کا قیام عمل میں آئے۔

ہمارا یہ ایمان اور عقیدہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس پیشگوئی کے مطابق حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے اور آپؑ نے مسیح اور مہدی ہونے کا دعویٰ کیا اور 1889ء میں جماعت احمدیہ کی بنیاد رکھی۔

قرآن کریم میں آپؑ کی آمد کے جو نشانات تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؑ کے آنے اور دعویٰ کے لئے جو نشانیاں بیان فرمائی تھیں وہ سب پوری ہوچکی ہیں۔

ایک نشان چاند اور سورج گرہن کا بھی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ جب آنے والا مسیح و مہدی کا دعویٰ کرے گا تو اُس کی صداقت کے لئے رمضان کے مہینہ میں چاند اور سورج کو مخصوص ایام میں گرہن لگے گا۔ آپؐ نے فرمایا تھا کہ چاند کے گرہن کی جو تین تاریخیں ہیں ان میں سے پہلی تاریخ کو چاند گرہن لگے گا اور اسی طرح سورج کے گرہن کی جو تین تاریخیں ہیں ان میں سے درمیانی تاریخ کو سورج گرہن ہوگا۔ چنانچہ اس پیشگوئی کے مطابق آپؑ کے دعویٰ کے بعد ایسا ہی وقوع میں آیا۔ 1894ء میں ایشیا میں یہ گرہن لگا اور پھر 1895ء میں دنیا کے دوسرے حصہ امریکہ وغیرہ میں یہ گرہن لگا۔

حضور انور نے فرمایا کہ یہ ایک ظاہری نشان تھا جو پورا ہوا۔ اسی طرح اور بھی بہت سے ظاہری نشانات تھے جو سب پورے ہوگئے۔

حضور انور نے فرمایا: ہم مسلمانوں کو کہتے ہیں کہ آنے والا آچکا ہے اس کو قبول کرو اور ایک ہو جاؤ لیکن وہ کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے آنا ہے، لیکن ابھی تک آیا نہیں ہے۔

حضور انور نے فرمایا: حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی وفات 1908ء میں ہوئی اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق خلافت کا سلسلہ شروع ہوا اور مَیں پانچواں خلیفہ ہوں۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ مَیں دو مقاصد لے کر آیا ہوں۔ ایک یہ کہ انسان اپنے پیدا کرنے والے ربّ کو پہچانے اور اس کے حقوق ادا کرے اور دوسرے یہ کہ ایک انسان دوسرے انسان کے حقوق ادا کرے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی ہو۔ بعض دفعہ انسان کا حق ایسا ہوتا ہے کہ حق ادا کرنے والے کی عبادت سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ پس ہر انسان کو چاہئے کہ وہ دوسرے انسان کا حق ادا کرنے کی کوشش کرے۔

کونسلر صاحب کی اہلیہ کہنے لگیں کہ آپ کا طریق بہت اچھا ہے کہ آپ وقت کے ساتھ ساتھ Mould ہوتے جاتے ہیں۔

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ ہم کہیں بھی اور کسی جگہ بھی Mould نہیں ہورہے۔ ہم تو اسلام کی اصل اور حقیقی تعلیم پر عمل پیرا ہیں اور ہمارا ہر عمل اسلام کی حقیقی تعلیم کے مطابق ہے۔

حضور انور نے فرمایا جب مسلمانوں اور مخالفین کے درمیان جنگیں ہوئیں تو تاریخ ثابت کرتی ہے کہ مسلمانوں نے کبھی بھی پہلے حملہ نہیں کیا اور مسلمانوں نے کبھی بھی پہل نہیں کی۔ مسلمانوں نے ہمیشہ اپنا دفاع کیا ہے اور اپنے اوپر ہونے والے حملہ کا جواب دیا ہے۔

قرآن کریم میں اس بات کا ذکر ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنے دفاع کی اجازت دی ہے اور بعض شرائط کے ساتھ دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا کہ اب اگر تمہیں اپنے دفاع کی اجازت نہ دی جاتی تو پھر کوئی عبادتخانہ، ٹمپل، چرچ، Synagogues اور مساجد باقی نہ رہتیں۔ یہ سب تباہ کردی جاتیں۔ تو ہم کہتے ہیں کہ جنگ کی اجازت اس صورت میں ہے کہ جب مذہب کو بچانا ہے اور انسانیت کو بچانا ہے۔ ایک مسلمان کا فرض ہے کہ جہاں اس نے مسجد کی حفاظت کرنی ہے وہاں چرچ کی بھی حفاظت کرنی ہے اور Synagogues کی بھی حفاظت کرنی ہے۔

حضور انور نے فرمایا کہ ہم مسلمانوں کو کہتے ہیں کہ اس وقت جو لڑائیاں ہو رہی ہیں اور ایک مسلمان ملک دوسرے مسلمان ملک پر حملہ آور ہے۔ مسلمان ہی آپس میں ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ یہ ہرگز جہاد نہیں ہے۔ جہاد کی کوئی شرط بھی یہاں پوری نہیں ہورہی۔ تمہارے مذہب پر تو کوئی بھی حملہ آور نہیں ہے۔

موصوف کونسلر کا تعلق ہندوستان سے ہے۔ حضرت کرشن علیہ السلام کا ذکر ہوا تو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ مَیں کرشنؑ کے رنگ میں بھی آیا ہوں اور کرشن علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں۔

حضور انور نے فرمایا کہ امن کے قیام اور انسانیت کی اقدار اور معاشرہ میں رواداری قائم کرنے کے حوالہ سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ہندو مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچائیں اور مسلمان ہندوؤں کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچائیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ مَیں ہندوؤں کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے اِس حد تک جانے کے لئے تیار ہوں کہ مَیں اپنے ماننے والوں کو کہوں گا کہ گائے کا گوشت نہیں کھانا تاکہ ہندوؤں کے جذبات مجروح نہ ہوں اور سب امن سے رہیں اور امن برباد نہ ہو۔

حضور انور نے فرمایا کہ یہ اسلام کی اصل اور حقیقی تعلیم ہے اور حوصلہ کے ساتھ برداشت کرنے کی تعلیم ہے۔

قرآن کریم کی تو یہ تعلیم ہے کہ دوسروں کے بتوں کو بھی بُرا نہ کہو ورنہ وہ تمہارے خدا کو بُرا کہیں گے۔ تو قرآن کریم کی یہ تعلیم تو چودہ سو سال سے ہے اس لئے ہم تو Mould نہیں ہورہے۔

موصوف کونسلر کی اہلیہ صاحبہ کہنے لگیں کہ خدا ہر جگہ نظر آتا ہے، ہر مذہب میں نظر آتا ہے۔

اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ ایک ہی خدا ہے، کوئی اسے اللہ کہتا ہے اور کوئی God کہتا ہے اور کوئی بھگوان کہتا ہے۔ ہر نبی ایک ہی تعلیم لایا ہے۔ حضرت بدھاؑ، حضرت زرتشتؑ، حضرت کرشنؑ، حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ سب خدا کے نبی تھے۔ قرآن کریم تو کہتا ہے کہ ہر قوم میں نبی بھیجا تاکہ لوگوں کو ایک خدا کا پتہ لگے۔ہم کہتے ہیں کہ ہر قوم کا نبی سچّا ہے اور ہم نبی کو سچّا مانتے ہیں۔ اللہ سب کا ایک ہے۔

حضور انور نے فرمایا کہ انسان کو اخلاق مذہب نے سکھائے اس سے پہلے انسان جانوروں کی طرح زندگی گزارتا تھا۔

موصوفہ کہنے لگیں کہ حج پر مسلمان لوگ جاتے ہیں اور وہاں سے انگوٹھیاں لے کر آتے ہیں اور ان پر ’اللہ‘ لکھا ہوتا ہے اور ہم بھی پہن لیتے ہیں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا خدا تو سب کا ایک ہی ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ مَیں غانا میں رہا ہوں۔ میرے پاس ایک انڈین دوست جو وہاں انجینئر تھے بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک غانین دوست آئے اور کہنے لگے کہ پاکستان اور انڈیا میں کیا فرق ہے۔ تو ہمارے انڈین دوست نے جواب دیا کہ ہم میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ہمارے بڑوں نے فرق کردیا ہے۔ پس اصل یہی ہے کہ ایک ہی خدا ہے اور باقی سب اس کی مخلوق ہے۔ ہم سب کو آپس میں مل جُل کر رہنا چاہئے تاکہ معاشرہ میں امن اور رواداری اور انسانیت کی اعلیٰ اقدار کا قیام ہو اور اِسی کے لئے ہم کوشاں ہیں۔

ماریشس کے کونسلر کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ یہ ملاقات چھ بجکر پانچ منٹ تک جاری رہی۔ آخر پر موصوف نے حضور انور کے ساتھ تصویر بنوانے کا شرف پایا۔

انفرادی و فیملی ملاقاتیں

بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزاپنے دفتر تشریف لے گئے اور پروگرام کے مطابق فیملی ملاقاتیں شروع ہوئیں۔ آج شام کے اس سیشن میں 42 فیملیز کے 254 افراد نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے شرف ملاقات پایا۔ ملاقات کرنے والی یہ فیملیز کینیڈا کی جماعتوں Brampton, Vaughan, Peace Village, Abode of Peace اور Mississauga ، بریڈفورڈ کی جماعتوں سے آئی تھیں۔

ان سبھی نے حضور انور کے ساتھ تصویر بنوانے کا شرف پایا۔ حضور انور نے ازراہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلباء اور طالبات کو قلم عطا فرمائے اور چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائے۔

ملاقاتوں کا یہ پروگرام آٹھ بج کر 40 منٹ تک جاری رہا۔

تقریب آمین

بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ’’مسجد بیت الاسلام‘‘ میں تشریف لائے او ر پروگرام کے مطابق آمین کی تقریب ہوئی۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل 40 بچوں اور بچیوں سے قرآن کریم کی ایک ایک آیت سنی اور آخر پر دعا کروائی:

سلمان علیانہ، میکائیل مبشر خان، سجیل احمد، زین احمد، وجاہت احمد چوہدری، ابراہیم حسین، سیّد جلیس احمد مسرور، عیان احمد شیخ، دانیال ضیاء، یوسف احمد صابر، توحید منگلا، احیان احمد چغتائی، رفیع احمد خان، خاقان سعدی، موحد اسلام عمران، جلیس حسین، مسرور احمد، علیان خان، ایقان عبداللہ، مطہر احمد۔

عنایہ ہدیٰ چودھری، عریج رمضان، شمائلہ وہاب، صوفیہ ارم، شافیہ احمد، فوزیہ احمد کاہلوں، یسریٰ رؤوف، عطیہ شہزاد، فییلہ عفّت، ہانیہ عمر مرزا، سیّدہ انوشہ افتخار، فاتحہ ندرت، مدیحہ نعیم، عطیۃالحئی محمود، ماہم احمد، کاشفہ بشیر باجوہ، زویا چوہدری، مریم ہدیٰ سیّد ، ہدیٰ عرفان، کنزا احمد۔

تقریب آمین اور دعا کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نماز مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے آئے۔

26؍اکتوبر بروز بدھ 2016ء

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح ساڑھے چھ بجے ’’مسجد بیت الاسلام‘‘ میں تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے لندن مرکز، ربوہ اور قادیان اور دنیا کے مختلف ممالک کی جماعتوں سے موصول ہونے والی ڈاک، خطوط اور رپورٹس ملاحظہ فرمائیں اور ہدایات سے نوازا۔ روزانہ اسی طرح ڈاک باقاعدہ موصول ہوتی ہے اور حضور انور باقاعدگی سے روزانہ ساتھ کے ساتھ ملاحظہ فرماکر ہدایات عطا فرماتے ہیںا ور پھر یہ ہدایات متعلقہ جماعتی اداروں اور جماعتوں کو ساتھ ساتھ بھجوادی جاتی ہیں۔

اس کے علاوہ کینیڈا کے احباب جماعت کی طرف سے، جن میں یہاں مقیم سیرین عرب احباب بھی شامل ہیں، بڑی تعداد میں روزانہ خطوط موصول ہوتے ہیں۔ حضور انور ان خطوط کو بھی ملاحظہ فرماتے ہیں۔

کینیڈا کے اخبار Globe and Mail کی جرنلسٹ کو انٹرویو

پروگرام کے مطابق ایک بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ایوان طاہر میں میٹنگ روم میں تشریف لائے جہاں کینیڈا کی ایک بڑی اخبار گلوب اینڈ میل (Globe and Mail) کی جرنلسٹ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا انٹرویو لینے کے لئے پہلے سے موجود تھی۔ اس اخبار کی روزانہ ایک ملین سرکولیشن ہے۔

٭ جرنلسٹ نے پہلا سوال یہ کیا کہ میں آپ سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ پاکستان میں آپ کو کس قدر تکلیف دی جا رہی ہے؟

اس پر حضورانور نے فرمایا: مسلمانوں کا عمومی طور پر یہ عقیدہ ہے کہ جس شخص نے مسلمانوں اور تمام دنیا کی اصلاح کے لئے آنا تھا وہ ابھی تک نہیں آیا۔ لیکن ہم مانتے ہیں کہ وہ شخص آ چکا ہے۔ اس شخص کا لقب جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی مسیح اور مہدی اور نبی کا ہے۔ یہی تنازعہ کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ اسی لئے مسلمان ہم سے نفرت کرتے ہیں اور اسی وجہ سے 1974ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں حکومت نے ایک قانون پاس کیا تھا جس میں احمدیوں کو ملکی قانون میں غیر مسلم قرار دیا گیا۔ اس کے باوجود ہم وہاں رہتے تھے۔ ہم اسلام پر مسلمانوں کی طرح ہی عمل کر رہے تھے۔ مسجدوں میں اذان دیتے تھے۔ چہ جائیکہ دوسرے مسلمان ہمیں مسلمان سمجھیں یا نہ سمجھیں۔ ہم اسلام کی تعلیمات پر پوری طرح عمل کر رہے تھے۔

پھر ضیاء الحق کے دور حکومت میں 1984ء میں یہ قانون مزید زور کے ساتھ reinforced کروایا گیااور یہ مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی طرف سے تھا کہ احمدی اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہہ سکتے۔ وہ مسلمانوں کی طرح عبادت نہیں کر سکتے۔ وہ اپنے بچوں کو مسلمانوں والے نام بھی نہیں دے سکتے۔ اذان بھی نہیں دے سکتے، یہاں تک کہ السلام علیکم بھی نہیں کہہ سکتے۔ اگر ایسا کروگے تو تین سال کیلئے جیل کی سزا ہوگی۔ تو اس مسئلے کا یہی پس منظر ہے۔

ہر ایک احمدی پاکستان میں اس تکلیف کا شکار نہیں ہے۔ بعض احمدی جو زیادہ فعال نہیں ہیں یا دور دراز علاقے میں رہتے ہیں یا اپنے ہمسایہ کے ساتھ اچھا سلوک رکھتے ہیں وہ عام زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن پھر بھی ان کے سروں پر قانونی تلوار لٹکی ہوئی ہے۔ کسی وقت بھی قانون انہیں پکڑ سکتا ہے۔

2010ء کے سانحہ میں جب دو احمدی مساجد پر انتہاپسندوں کی طرف سے حملہ کیا گیااور تقریباً 85 احمدیوں کو شہید کیا گیا۔ تو اس واقعہ کے بعد ہمدردی کرنے کی بجائے دشمنی اور نفرت اور مزید بڑھ گئی۔ مسلمان علماء نے اس کو مزید ہوا دی۔ اس وجہ سے دور دراز علاقوں میں رہنے والے احمدی بھی جو آرام سے زندگی گزار رہے تھے ان کو بھی اب مشکلات کا سامنا ہے۔تکلیفیں مزید بڑھ رہی ہیں۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ جب تک یہ قانون موجود ہے احمدی کچھ نہیں کر سکتے۔ پولیس یا قانون جاری کرنے والے یا حکومت جس کے پاس بھی احمدی جائیں قانون ساتھ نہیں دیتا۔ تم نے سلام کہا تو تم کو سزا ملے گی۔ قانون والے کہتے ہیں کہ لوگوں سے یہ برداشت نہیں ہوتا کہ تم مسلمانوں جیسے عمل کرو۔

ایک وقت تھا کہ بہت سے قصبے اور شہر تھے جہاں احمدی امن سے رہتے تھے۔ لیکن اب مولوی اور انتہا پسند گروپ ہر قصبہ اور شہر میں پہنچ جاتے ہیں اور عوام کو کہتے ہیں کہ تم احمدیوں کا قتل کرو۔ بے شک ان دور دراز علاقوں میں مخالفین کا خاص زور نہ ہو۔ پھر بھی ایک خوف ہے کسی وقت بھی کوئی لوگوں کے بیچ آکر حملہ نہ کردے۔ مسلمانوں کی نفرت احمدیوں کے لئے بڑھتی جا رہی ہے۔

٭ جرنلسٹ نے سوال کیا: حکومت نے ایسا قانون کیوں پاس کیا جس سے احمدی اتنی مشکلات میں پڑگئے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا: یہی تو بات ہے۔ حکومت کو مذہب کے معاملات میں دخل انداز نہیں ہونا چاہئے۔ حکومت کو سیکولر اور جمہوری ہونا چاہئے۔ لیکن جمہوریت کے نام پر یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ لوگوں کا مطالبہ ہے کہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے تو یہ قانون پاس کر دیا۔ تم یہ کہہ لو کہ ہم غیر مسلم ہیں لیکن ہمیں اس بات پر کیسے مجبور کر سکتے ہو کہ ہم اپنے آپ کو غیر مسلم کہیں۔ جو بھی مَیں مانتا ہوں مجھے یہ حق حاصل ہونا چاہئے کہ وہ مانوں ۔ یا کم از کم اس پر عمل کروں۔ میں جو چاہوں اپنے بچے کا نام رکھ سکوں۔ بے شک وہ Johnہو یا احمد۔ یاکرشن ہو۔ حکومت کو ان معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہئے۔ جو نام مجھے پسند ہے مجھے حق ہے کہ میں اپنے بچے کا نام رکھوں۔ یہ سب فضولیات ہیں۔ علماء کے پاس پاکستان میں کوئی سیاسی طاقت نہیں ہے۔ پارلیمنٹ میں علماء کے پاس زیادہ سیٹس نہیں ہیں۔ لیکن لوگوں کو بھڑکانے کی ان کے پاس طاقت ہے۔ وہ لوگوں کو اکٹھا کرکے سڑکوں پر لے آتے ہیں۔ جو چاہے وہ کرتے ہیں۔ یہ ایک چیز ہے جس سے حکومت ڈرتی ہے۔ وہ نہیں چاہتی کہ ان لوگوں کے خلاف کوئی ایکشن لے۔ اس صورت میں اگر وہ سخت اقدام اٹھائیں تو میرا نہیں خیال کہ دو ماہ سے زائد انہیں لگیں گے کہ سب کچھ نارمل ہو جائے گا۔

٭ جرنلسٹ نے سوال کیا: اب میں آپ سے کینیڈا کے متعلق پوچھنا چاہتی ہوں؟ احمدیہ جماعت کے پاس کینیڈامیں رہتے ہوئے کون کونسی آزادی حاصل ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا: یہاں پر تو ہمیں آزادی حاصل ہے۔ ہم اپنے مذہب پر عمل کر سکتے ہیں۔ دوسروں کو تبلیغ بھی کر سکتے ہیں۔ یہاں اچھی نوکریاں بھی مل جاتی ہیں۔ ہر چیز کی آزادی ہے۔ یہ حقوق سب سیکولر حکومتوں میں ہونے چاہئیں جو جمہوریت کا دعویٰ کرتی ہیں۔ پاکستان میں ضیاء الحق کے دَور کے بعد ایسا ہوا کہ احمدی ووٹ بھی نہیں ڈال سکتا۔ اگرووٹ ڈالنا ہے تو اپنے آپ کو پہلے غیرمسلم قرار دینا ہوگا اس کے بعد ووٹ ڈالنے کی اجازت ملے گی۔ ہم اپنے آپ کو مسلمان مانتے ہیں۔ ہم اپنے آپ کو کیسے غیر مسلم قرار دے دیں۔ اس کی وجہ سے ہم نیشنل الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے۔ نہ ہی لوکل الیکشن یا کسی اور الیکشن میں حصہ لیتے ہیں۔ یہ ایک وجہ ہے کہ اسمبلی یا سیاسی اقتدار کی جگہوں پر ہماری کوئی آواز نہیں ہے۔ مغربی ممالک کے لوگ جو ہم سے کہتے ہیں کہ ہم آپ کے لئے کیا کریں تو ہم انہیں بتاتے ہیں کہ ہمیں کسی سے کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ پاکستانی حکومت کو احساس دلا دو کہ ایک عام شہری ہونے کے ناطے احمدیوں کے پاس برابر حقوق ہونے چاہئیں۔ کم از کم ووٹ ڈالنے کا حق ہونا چاہئے۔ ٹھیک ہے تم نے ہمیں غیر مسلم قرار دے دیا لیکن پاکستان کے شہری ہونے کی بنا پر ووٹ کا حق تو دو ۔

٭ جرنلسٹ نے سوال کیا: آپ کے خیال سے یہ مسئلہ عنقریب کہیں بدلے گا۔ یا کوئی بہتری آئے گی؟

اس پر حضور انور نے فرمایا: میرا نہیں خیال کہ اس قانون کو کبھی کوئی حکومت ختم کرنے کی جرأت کرے گی۔

جرنلسٹ نے سوال کیا: اس کا کیا مطلب ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا: اگر اللہ ایسی طاقتور حکومت لے آئے جو اس کو بدل سکے، یا کوئی معجزہ ہو تو تبدیلی آئے گی۔ ہم بس معجزہ کا انتظار کر سکتے ہیں۔

٭ جرنلسٹ نے سوال کیا: امریکا میں الیکشن ہونے والا ہے۔ ایک شخص کہتا ہے کہ تمام مسلمانوں پر امریکہ میں بَین لگا دینا چاہئے۔ کیا آپ کا پیغام ’محبت سب کے لئے، نفرت کسی سے نہیں‘ اُس کے لئے بھی ہو گا جو کہ کلیتاً، مَیں کہوں گی، نفرت پھیلا رہا ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا: بالکل۔ آپ کا کیا مطلب ہے کہ ہم ڈانلڈ ٹرمپ سے نفرت کرتے ہیں یا نہیں؟

٭ جرنلسٹ نے سوال کیا: مَیں جاننا چاہتی ہوں کہ آپ کا اس کے بارہ میں کیا خیال ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا: وہ تو بس امریکن لوگوں میں نفرتیں پیدا کر رہا ہے۔ ہم پہلے ہی اتنے مسائل اور مشکل وقت سے گزر رہے ہیں۔ اگر کوئی انسان اور مصیبتیں اَور نفرتیں پیدا کرنا چاہتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اُسے انسانیت کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ ایسا شخص تو انسانیت کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔

٭ جرنلسٹ نے سوال کیا: ایسے انسان کو آپ کیا پیغام دیں گے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا: میرے مسلمان ہونے کے باوجود کیا اسے میرا پیغام پہنچ جائے گا؟ وہ تو یہی کہے گا کہ میں تمہاری بات نہیں سننا چاہتا۔ ابھی دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ میرے خیال سے وہ اپنے لوگوں میں بھی اپنی شہرت کھو رہا ہے۔ نفرتیں پیدا کر کے انسان حاصل ہی کیا کر سکتا ہے؟مجھے پتہ چلا ہے کہ کنزرویٹو لیڈر کا بھی یہاں کینیڈا میں انتخاب ہونے والا ہے۔کل ایک امیدوار نے اعلان کیا کہ ایک شخص یہاں بھی ہے اگر وہ منتخب کیا گیا تو وہ مسلمانوں پر پابندیاں لگانے کی کوشش کرے گا۔ وہ حجاب اور مسجدوں کی تعمیر پر پابندی لگا دے گا۔ مسجدوں کے مینار بننے پر بھی پابندی لگا دے گا۔ پس ڈانلڈ ٹرمپ سے کوئی سبق سیکھنے کے بجائے یہاں پر بھی اس کے نظریات لائے جا رہے ہیں۔ آپ کے ایک لیڈر نے یہ بات کرنی شروع کر دی۔ نفرت پیدا کرنے کی بجائے ہم سب کو مل کر کوشش کرنی چاہئے کہ انسانیت کی بہتری پر کام کریں اور وہ صرف آپس میں امن پیدا کرنے سے ہو سکتی ہے۔

٭ جرنلسٹ نے سوال کیا: عجیب بات یہ ہے کہ امریکا میں لوگوں کی ایک بھاری تعداد اس کا ساتھ دے رہی ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ وہ اس کو سپورٹ کیوں کر رہے ہیں؟

اس پر حضور انور نے فرمایا: ہو سکتا ہے ان میں سے بعضوں کو مسلمانوں کے ساتھ ذاتی تجربات ہوئے ہوں ۔ جس کی وجہ سے ان کو مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا ہوگئی۔ لیکن میرے خیال سے ان میں سے اکثریت کو معلوم ہے کہ اگر وہ منتخب کیا گیا تو وہ سب کچھ نہیں کرے گا جس کا وہ دعویٰ کر رہا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا قدم ہے۔ میرا نہیں خیال کہ ایک امریکن صدر جس کی ذہنی حالت قائم ہے وہ مسلمانوں کو بَین کرنے کا ایسا کوئی قدم اٹھائے گا۔ اگر مسلمانوں کو امریکا میں آنے پر پابندی لگا دی جائے تو جو لاکھوں مسلمان امریکا میں رہ رہے ہیں تو ان کا کیا کروگے۔ وہ مسلمان معاشرے میں اچھی طرح راسخ ہیں، لوگوں کو جانتے ہیں۔ غیر مسلمان بھی ان سے ہمدردی کرتے ہیں۔ بس مَیں ان کے لئے دعا کروں گا۔

٭ جرنلسٹ نے سوال کیا: آپ کینیڈا کے مسلمانوں کے سلوک کے بارہ میں کیا کہیں گے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا: کینیڈا ایک ملٹی کلچرل ملک ہے۔ اس میں مختلف رنگ و نسل کے لوگ رہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے آپ بھی ہجرت کرکے آئی ہوں۔

اس پر جرنلسٹ نے عرض کیا: میرے والد یہاں ہجرت کرکے آئے تھے۔

اس پر حضور انور نے فرمایا: یہی مَیں کہہ رہا ہوں۔ اصل کینیڈین تو وہ ہیں جو لوکل ہیں۔ باقی سب خود یا ان کے آباؤاجداد ہجرت کرکے ایک وقت میں یہاں آئے تھے۔ اس معاشرہ میں میرے خیال سے اتنی قابلیت ہے یا یہ کہہ لو عادت ہو گئی ہے کہ دوسرے لوگوں کے ساتھ رہ لیتے ہیں یا کینیڈین لوگوں کو دوسرے لوگوں کو اپنے معاشرے میں شامل کرنے کی صلاحیت ہے۔یہ لوگ مختلف قوموں اور ملکوں سے ہیں۔ مختلف مذاہب کے ہیں۔ یہاں پر بہت سارے کلچر شہریت اور مذاہب اور زبانیں ہیں۔ تو کس کو تم ہاتھ لگاؤگے۔ کس کے خلاف اقدام اٹھاؤگے۔

جرنلسٹ نے عرض کیا: بے شک ہم ہر قسم کے لوگوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم کسی سے نفرت نہیں کرتے۔

اس پر حضور انور نے فرمایا: میں امید کرتا ہوں کہ چونکہ آپ ملٹی نیشنل ہیں اس لئے آپ اس نفرت میں نہیں بڑھیں گے۔

٭ جرنلسٹ نے سوال کیا: Islamophobia کے خلاف لڑنے میں آپ ہمارے ساتھ ہیں۔ اس کے بارہ میں آپ کا کیا خیال ہے؟

اس پر حضور نے فرمایا یہ حرکتیں اور فساد انتہاپسند گروپ یا دہشتگرد گروپ کر رہے ہیں۔ وہ مذہب کو نہیں جانتے اور دوسروں کو اسلام سے ڈرا رہے ہیں۔ اگر تم اسلام کی تعلیم اور تاریخ کا مطالعہ کرو تو تمہیں کو معلوم ہوگا کہ کبھی بھی اس طرز پر لوگوں نے عمل نہیں کیا۔ جہاد کیا ہے؟ آج کل مسلمان دنیا سب سے زیادہ تکلیف جھیل رہی ہے۔ جہاں مسلمان مسلمان کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ حکومتیں اپنے لوگوں کے خلاف اور باغیانہ گروپ حکومتوں کے خلاف لڑ رہی ہیں۔ اس وجہ سے بڑے انتہا گروپ جیسا کہ داعش اور طالبان اور دیگر گروپ نکل آئے ہیں۔ وہ سب اسلام کی حقیقی تعلیم سے منہ پھیر رہے ہیں۔ میں ہمیشہ یہی کہا کرتا ہوں کہ صرف ان لوگوں کے عمل دیکھ کر یا کسی ایک شخص کے عمل دیکھ کر جیسا کہ فرانس اور بیلجیم میں حادثات ہوئے تھے بعض گروپ مغرب میں کہتے ہیں کہ سب مسلمان ایک ہی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس لئے ہمیں مسلمانوں سے ڈرنا چاہئے کیونکہ ان کا یہی اسلام ہے۔ یہ بات غلط ہے۔ اسلام کی اصل تعلیم کو دیکھنا ہوگا۔ یہ انتہا پسند گروپ مسلمانوں کی کُل آبادی کے مقابل پر نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہ یہ سب صرف اپنے ذاتی مقاصد حاصل کرنے کے لئے کر رہے ہیں۔ اسی لئے ہم احمدی کہتے اور تبلیغ کرتے ہیں کہ اسلام کی حقیقی تعلیم کامل انصاف ہے۔ قرآن میں لکھا ہے کہ ایک ملک کی دشمنی تمہیں اس بات سے نہ روکے کہ تم انصاف نہ کرو۔ تمہیں انصاف ضرور کرنا ہوگا۔ اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی انصاف کرنا ہو گا۔ تو یہ ہے اصل تعلیم۔ جب مسلمانوں کو پہلی مرتبہ جنگ کی اجازت دی گئی تھی۔ اور وہ ایک لمبے عرصہ کے بعد دی گئی تھی اس عرصہ میں مسلمانوں کو مکہ میں طرح طرح کی اذیت دی گئی تھی پھر بانیٔ اسلام ہجرت کرکے مدینہ آ گئے تھے۔ پھر مکہ کے کافروں نے وہاں پر بھی آکر آپ پر حملہ کیا۔ تو پھر اللہ تعالیٰ نے آ پ کو دفاع کی اجازت دی۔ قرآن کریم میں لکھا ہے کہ اب تمہیں اجازت دی جاتی ہے کہ اپنا دفاع کرو کیونکہ یہ مخالف لوگ صرف دنیاوی مقاصد کے لئے نہیں لڑرہے بلکہ یہ مذہب کو ہی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اب اگر وہ مخالفین نہ روکے جاتے پھرآج کوئی چرچ یا مندر یا یہودی معبد نہ ہوتا۔پس خدا تعالیٰ کی برف سے جو دفاع کی اجازت دی گئی وہ اس بات کی اجازت دی گئی تھی کہ تمام مذاہب کو بچایا جائے۔ اس لئے اسلام کہتا ہے کہ تم نے چرچ مندر اور یہودی معبداور مسجد کا دفاع کرنا ہے۔ صرف یہ نہیں کہا کہ مسجد کا۔ تو یہ ایک دلیل ہے کہ مسلمانوں کو مذہب کے دفاع کے لئے لڑنا چاہئے۔ ہمیں تمام عبادتگاہوں کو بچانا ہوگا۔ اس پیغام کے سننے کے بعد میرا نہیں خیال کہ کوئی اسلام سے نفرت ہونی چاہئے۔

جرنلسٹ نے سوال کیا: یعنی ساتھ دینے سے آپ کی مراد ہے کہ آپ تمام مذاہب کا دفاع کریں گے۔

اس پر حضور انور نے فرمایا: ہاں بالکل، ہم کر رہے ہیں اگر تم کسی احمدی کو بلاؤ کہ میرے چرچ کی حفاظت کرو تو وہ ضرور آئے گا۔

آخر پر جرنلسٹ نے عرض کیا: آپ کا شکریہ کہ آپ نے ہمیں یہاں بلایا اور یہ موقع فراہم کیا۔

٭ اخبار Globe and Mail کے ساتھ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ انٹرویو ایک بج کر تیس منٹ پر ختم ہوا۔ بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لے آئے۔ مکرم ہادی علی چوہدری صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ کینیڈا نے دفتری ملاقات کی سعادت حاصل کی۔

جیوئش کمیونٹی کے ایک وفد کی حضور انور ایدہ اللہ سے ملاقات

اس کے بعد ایک بج کر 40 منٹ پر جیوئش (Jewish) کمیونٹی کے چار افراد پر مشتمل وفد نے حضورانور سے ملاقات کی۔

اس وفد میں Greator Toronto کی جیوئش کمیونٹی کی نائب صدر Sara Lefton صاحبہ، ڈپٹی ڈائریکٹر کمیونیکیشن اینڈ پبلک ریلیشن Steve Mcdonald صاحب اور انٹرفیتھ امور کی ذمّہ دار Kimmel Ariella صاحبہ شامل تھیں۔

وفد کے ممبران نے اس بات کا اظہار کیا کہ ہمیں بہت خوشی ہوئی ہے کہ ہم خلیفۃالمسیح سے مل رہے ہیں۔

حضور انور کے استفسار پر وفد کے ممبران نے بتایا کہ کینیڈا میں یہودیوں کی تعداد تین لاکھ ساٹھ ہزار ہے۔ ٹورانٹو ریجن میں دو لاکھ سے زائد ہے۔ یہودیوں کی تعداد کے لحاظ سے اسرائیل اور امریکہ کے بعد کینیڈا میں تیسری بڑی یہودی کمیونٹی ہے۔

حضور انور نے فرمایا کہ ہمارا ایک مرکز حیفا میں بھی ہے۔ مذہبی آزادی کے حوالہ سے حضور انور نے فرمایا کہ مذہبی آزادی کے حق کو دنیابھر میں تسلیم کیا جانا چاہئے۔ ہم قرآن کریم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ اسلامی تعلیم میں جہاد وغیرہ کا حکم ہے لیکن اس کے لئے بعض حالات کا ہونا ضروری ہے اور اس کے لئے بعض شرائط ہیں تب وہ جائز ہوتاہے۔ دراصل آجکل کے نام نہاد علماء اسلامی تعلیمات کو غلط انداز میں پیش کرتے ہیںا ور یہ اپنے مقاصد کے لئے ایسا کرتے ہیں۔ جہاں تک اسلامی تعلیم کا تعلق ہے اسلام صرف امن و سلامتی کا پیغام دیتاہے۔ ہر ایک کے ساتھ اچھے طریق سے پیش آنے اور عدل و انصاف کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔

وفد کے ممبران نے بتایا کہ ہم اسرائیل اینڈ جوئش افیئر کے لئے کام کرتے ہیں۔ پچاس سے پچپن ربائی ہمارے بورڈ میں شامل ہیں اور ہمارے سب کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور دوسری تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔

وفد نے حضور انور کے استفسار پر بتایا کہ ٹورانٹو ریجن میں مجموعی طور پر یہود کے دو سو سے زائد Synagogues ہیں۔

حضور انور نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ ہم اسلامی تعلیمات کی روشنی میں انسانی اقدار کو اہمیت دیتے ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ تمام مذاہب خداتعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ ربّ العالمین ہے اور وہ سب کا رازق ہے چہ جائیکہ وہ یہودی، مسلمان، عیسائی، ہندو، سکھ یا کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتا ہو۔ سب کا رازق خدا ہے۔ پس اگر ہم یہ بات مانتے ہیں تو ہمیں خوشی سے آپس میں مل کر رہناچاہئے۔ پس ہمیشہ انسانی قدروں کا خیال رکھیںا ور ایک ہوکر ان کے لئے کام کریں تاکہ ہمارے معاشرہ میں امن قائم رہے۔

حضور انور نے فرمایا کہ ہمیں محبت اور امن کی تعلیم کو بغور سمجھنا چاہئے اور اپنے لوگوں کو بھی سمجھانا چاہئے۔ ہم تو یہی کرتے آئے ہیں۔ ہم سب ایک خدا کی عبادت کرتے ہیں۔

قرآن کریم فرماتا ہے: تَعَالَوْا اِلَی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍ بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ یعنی سب ایک ہی بات پر اکٹھے ہوجاؤ جو تم سب کے لئے برابر ہو اور وہ ایک بات واحد اور قادرمطلق خدا ہے۔ وہ ہر مذہب کا، ہر قوم کا خدا ہے۔ پس اگر ہم اپنے آپ کو سچے مومن مانتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر بھی ایمان ہے تو پھر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتاکہ یہودی ہو یا مسلمان ہو یا عیسائی ہو۔ سب کو باہم مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ ہم سب کا ایمان بڑھے تاکہ ہم اُس خدا کا مقصد پورا کریں جو قادر مطلق ہے اور چاہتا ہے کہ اُس کی مخلوق اس دنیا میں امن سے رہے۔

اس پر وفد کے ممبران نے عرض کیا کہ یہودیت میں بھی ہم اسی چیز کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم اس دن کے منتظر ہیں کہ یہ تمام باتیں پوری ہوںاور ہم سب امن سے رہیں۔ ہمارا بھی یہی ایمان ہے کہ ہم سب ایک آدم کی نسل ہیں۔ ہمارا آغاز ایک ہے اس لئے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میرے والدین کسی کے والدین پر فوقیت رکھتے ہیں۔

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ ہم سب آدم کی اولاد ہیں۔ اِس طرح ہم سب بھائی بہن ہیں۔ پس ہمیں امن سے رہنا چاہئے۔ اگر ہم اس قول کا پاس کرلیں کہ تمام انسان آدم اور حوّا کی اولاد ہیں تو تمام انسانیت اخوّت کے رشتہ میں بندھ جائے اور دنیا امن کا گہوارہ بن جائے۔

حضور انور نے ایک یہودی عالم کا دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے امریکہ کے ایک ربائی کے بارہ میں یاد ہے جو مجھے لندن میں ملے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ جب مَیں پہلی دفعہ مسجد اقصیٰ کے اس حصہ میں گیا جو مسلمانوں کے پاس ہے۔ اس مسجد میں یہودیوں کو جانے کی اجازت نہیںہے لیکن مَیں یہودی ہوتے ہوئے بھی وہاں گیا تو مسجد کے مسلمان خادم نے میرے سے پوچھا کہ تم مسلمان ہو، تمارا دین کیا ہے؟ مَیں نے جواب دیاکہ لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہ۔ یہی میرا ایمان ہے۔ اس پر وہ مجھے لے گیا اور مسجد دکھائی۔ لیکن پھر کہا کہ مجھے ابھی بھی شک ہے کہ تم مسلمان نہیںہو۔ مَیں نے کہا تمہیں اَور کیا بتاؤں۔ پھر اُس نے کہا پورا کلمہ سناؤ۔ مَیں نے کہا ’’محمد رسول اللہ‘‘۔ تو اس نے پھر کچھ مسجد کا حصہ دکھایا۔ پھر وہ کہنے لگا کہ مجھے ابھی بھی آپ کے مسلمان ہونے پر یقین نہیں آرہا۔ یہ کیا ماجرا ہے؟ اس پر مَیں نے اُسے کہا کہ دراصل مَیں یہودی ہوں۔ لیکن کلمہ کے پہلے حصہ پر تو مجھے مذہبی ایمان ہے اور دوسرے حصہ یعنی ’’محمد رسول اللہ‘‘ پر میرا ذاتی ایمان ہے کیونکہ اگر انصاف کی نظر سے تاریخ کو دیکھا جائے تو عرب کی جو حالت حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت تھی اس کی اصلاح کوئی نبی ہی کرسکتا تھا۔ اس لئے مجھے تو یقین ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے سچے نبی تھے جنہوں نے وحشی عربوں کی حالت کو بدل ڈالا۔

پس ایک خدا کو مانیں اور ہر مذہب کے بانیوں اور لیڈروں کا احترام کریں تو دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے۔

حضور انور نے فرمایا کہ پس اگر ہم نے انسانی قدروں کا پاس نہ کیا اور امن و سکون کے ساتھ زندگی گزارنے کی کوشش نہ کی تو پھر تباہی ہمارے راستہ پر ہوگی۔ اب تو بعض چھوٹی چھوٹی قوموں نے بھی نیوکلیئر ہتھیاروں تک رسائی حاصل کرلی ہے اور کسی بھی وقت ایک بٹن دبانے سے آدھی دنیا آناً فاناً تباہ ہوجائے گی۔ اس لئے امن کے قیام کے لئے بہت زیادہ محنت اور کوشش کی ضرورت ہے۔

آخر پر حضور انور نے فرمایا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بانی جماعت احمدیہ نے فرمایا تھا کہ مَیں دو کاموں کے لئے آیا ہوں۔ ایک یہ کہ لوگ اپنے پیدا کرنے والے ربّ کو پہچانیں اور اس کے حقوق ادا کریںا ور دوسرے ہر انسان دوسرے انسان کے حقوق ادا کرے۔

حضور انور نے فرمایا: پس اگر ان دونوں باتوں پر عمل کرلیا جائے تو دنیا امن کا گہوارہ بن جائے گی۔

یہودی وفد کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ یہ ملاقات دو بجے تک جاری رہی۔ آخری وفد کے ممبران نے حضور انور کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔

بعدازاں نیشنل صدر لجنہ اماء اللہ کینیڈا نے حضور انور ایدہ اللہ کے ساتھ دفتری ملاقات کا شرف پایا۔

اس کے بعد سوا دو بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ’’مسجد بیت الاسلام‘‘ میں تشریف لاکر نماز ظہر و عصر جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

پچھلے پہر بھی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دفتری ڈاک ملاحظہ فرمائی اور ہدایات سے نوازا اور دفتری امور میں مصروفیت رہی۔

انفرادی و فیملی ملاقاتیں

پروگرام کے مطابق چھ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لے آئے اور فیملیز ملاقاتوں کا پروگرام شروع ہوا۔

آج شام کے اس پروگرام میں 35 فیملیز کے 160 افراد نے اپنے پیارے آقا سے شرف ملاقات پایا۔ یہ فیملیز کینیڈا کی درج ذیل جماعتوں سے آئی تھیں:

Brampton, Vaughan, Woodbridge, Peace Village, Hamilton، نیومارکیٹ، Mississauga ، ایمری ویلیج۔

اس کے علاوہ پاکستان سے آنے والے بعض احباب نے بھی اپنے پیارے آقا سے ملاقات کی سعادت پائی۔ ان سبھی نے حضور انور کے ساتھ تصویر بنوانے کا شرف بھی پایا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلباء اور طالبات کو قلم عطا فرمائے اور چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائے۔

ملاقاتوں کا یہ پروگرام 9 بجے تک جاری رہا۔

بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد بیت الاسلام جانے کے لئے جونہی ’’ایوان طاہر‘‘ سے باہر تشریف لائے تو راستہ کے دونوں اطراف مردو خواتین اور بچوں بچیوں کا ایک بڑا ہجوم تھا۔ یہ لوگ سردی کے اس موسم میں قریباً دو گھنٹے اس راہ پر محض اس لئے کھڑے تھے کہ یہاں سے کسی وقت حضور انور کا گزر ہونا ہے اور وہ اپنے پیارے آقا کا دیدار کریں گے اور حضور انور کی خدمت میں سلام عرض کریں گے۔ سبھی اپنے ہاتھ ہلاتے ہوئے اپنے پیارے آقا کو السلام علیکم کہہ رہے تھے اور اپنی سعادت اور خوش نصیبی پر بے حد خوش تھے کہ ان کا پیارا آقا ان کے اتنا قریب ہے۔

حضور انور ان کے درمیان سے گزرتے ہوئے اپنا ہاتھ بلند کرکے سب کو السلام علیکم کہتے تو ان کے چہرے خوشی سے تمتما اٹھتے اور یوں ہر ایک ان بابرکت لمحات سے فیض پاتا۔

تقریب آمین

’’مسجد بیت الاسلام‘‘ تشریف آوری کے بعد آمین کی تقریب ہوئی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل 40 بچوں اور بچیوں سے قرآن کریم کی ایک ایک آیت سنی اور آخر پر دعا کروائی:

نبیل احمد، صہیب منگلا، ابرار احمد اعجاز، حسیب احمد کاہلوں، ہاشم شہزاد چوہدری، حمزہ احمد سعید شیخ، زیان علی، اویس عثمان، عبدالسلام دانش، معیز وسیم، ثمر احمد خان، عطاء الشافی، علی احمد، فاران محمود، کامران افضل، شایان احمد قریشی، ماحد محمود، تاشف ندیم، حزقیل احمد، اوصاف احمد مرزا، معیز احمد طاہر، محب احمد طاہر، تعظیم خلیفہ۔

عریبہ کھوکھر، ثناء رؤوف، ھبہ ظفر، زویا سیّد، امۃالسبوح باجوہ، عروسہ صابر، شافیہ خان، شافیہ احسن، درّثمین احمد، درّعدن مہک، مریم احمد، شمائلہ علیشاہ مسعود، رضیہ سراء، کاشفہ مسعود، عدیلہ احمد، شانزے ملک، زارہ احمد۔

تقریب آمین اور دعا کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نماز مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے آئے۔

27؍اکتوبر بروز جمعرات 2016ء

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح ساڑھے چھ بجے ’’مسجد بیت الاسلام‘‘ میں تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دفتری خطوط، ڈاک اور رپورٹس ملاحظہ فرمائیں اور اپنے دست مبارک سے ہدایات سے نوازا۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ مختلف دفتری امور کی انجام دہی میں مصروف رہے۔

انفرادی و فیملی ملاقاتیں

پروگرام کے مطابق چھ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لے آئے اور فیملیز ملاقاتیں شروع ہوئیں۔

آج شام کے اس پروگرام میں 58 فیملیز کے 218 افراد نے اپنے پیارے آقا سے شرف ملاقات پایا۔ یہ فیملیز کینیڈا کی درج ذیل تیرہ جماعتوں سے آئی تھیں:
Brampton, Vaughan, Woodbridge, Peace Village, Hamilton, Abode of Peace

Mississauga, Toronto, Weston ، بریڈفورڈ، وڈ سٹاک، مارکھم اور سینٹ کیتھرین۔

سبھی احباب نے حضور انور کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی اور ہر ایک ان میں سے برکتیں سمیٹتے ہوئے باہر آیا، بیماروں نے اپنی شفایابی کے لئے دعائیں حاصل کیں، پریشانیوں اور تکالیف اور مسائل میں گھرے ہوئے لوگوں نے اپنی تکالیف دُور ہونے کے لئے اپنے آقا سے دعائیں حاصل کیں اور تسکین قلب پاکر مسکراتے ہوئے چہروں کے ساتھ باہر نکلے۔ طلباء اور طالبات نے اپنے امتحانات میں کامیابی کے لئے اپنے پیارے آقا سے دعائیں حاصل کیں۔ غرض ہر ایک نے اپنے محبوب آقا کی دعاؤں سے حصہ پایا اور یہ بابرکت لمحات اُن کی زندگیوں کو راحت اور سکون عطا کرگئے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلباء اور طالبات کو قلم عطا فرمائے اور چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائے۔

ملاقاتوں کا یہ پروگرام 8 بج کر بیس منٹ پر ختم ہوا۔

آج موسم سرد تھااور بارش بھی تھی لیکن اس کے باوجود اس احمدیہ بستی کے مکین ہزاروں کی تعداد میں اُس راہ پر کھڑے تھے جہاں سے اُن کے پیارے آقا نے گزرتے ہوئے مسجد بیت الاسلام تک جانا تھا۔ مرد احباب کے علاوہ خواتین اور بچوں اور بچیوں کا ایک بڑا ہجوم تھا جو اس راہ پر کھڑا تھا۔ ان میں بوڑھی عورتیں بھی تھیں جو ویل چیئر پر تھیں، ماؤں نے اپنے بچوں کو گودوں میں اٹھایا ہوا تھا اور اپنے آقا کی آمد کی منتظر تھیں۔ جونہی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ایوان طاہر سے باہر تشریف لائے تو حضور انور کے چہرہ پر نظر پڑتے ہی اُن کے ہاتھ بلند ہوگئے اور حضور! السلام علیکم کی آوازوں کا ایک تلاطم برپا ہوا۔ حضور انور بار بار اپنا ہاتھ بلند کرکے السلام علیکم کہتے۔ ایک ایک قدم پر سینکڑوں کیمرے چل رہے تھے اور ان چند لمحات میں ہزاروں تصویریں بن گئیں جو اُن مکینوں کے لئے اور اُن کی آئندہ نسلوں کے لئے ایک انمول خزانہ ہیں۔ ان کے گھروں کی بھی رونق ہیں اور ان کے دلوں کی بھی زینت ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ یہ لوگ اپنے گھروں کو بھول گئے ہیں اور سارا سارا دن ان راہوں پر کھڑے گزار دیتے ہیں جہاں سے کسی وقت ان کے پیارے آقا اور محبوب امام کا گزر ہونا ہے۔ یہ برکتوں اور سعادتوں کے حصول کے دن ہیں اور اِس امن کی بستی کا ہر مکین ان برکتوں سے فیضیاب ہو رہا ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ’’مسجد بیت الاسلام‘‘ تشریف لاکر نماز مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button