خطبہ نکاح 14؍دسمبر 2014ء
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 14 دسمبر 2014ء بروز اتوار مسجد فضل لندن میں درج ذیل نکاحوں کا اعلان فرمایا:
خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعدحضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
اس وقت مَیں تین نکاحوں کے اعلان کروں گا جن میں سے دو تو ہمارے مربیان کے نکاح ہیں اور ایک نکاح جس میں دلہن، لڑکی واقفۂ نو ہے۔مربیان کا کل جامعہ احمدیہ میں فنکشن تھا،جس میں Convocation تھی۔ جس میں ان کو سندات دی گئیں۔ یہ دونوں اسی سال فارغ ہوئے ہیں، ان کو تو کل میں نے کافی واضح کر کے ان کی ذمہ داریوں کے متعلق بتا دیا تھا کہ کیا کیا ذمہ داریاں ہیں۔ اور ان ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے ان کو اپنے نمونے بنانے ہوں گے۔ اپنی مثالیں پیش کرنی ہوں گی۔اور یہ مثالیں گھر کے جو رشتے ہیں ان سے شروع ہوتی ہیں۔ اپنے اہل و عیال سے، اپنے والدین سے، اپنے بہن بھائیوں سے اور اس نئے قائم ہونے والے رشتہ سے( جو میں نے پہلے کہہ دیا ہے) بیوی سے جو عائلی تعلقات ہیں ان سے ذمہ داریا ں شروع ہوتی ہیں۔ ان میں یہ نمونہ دکھانے کا آغاز ہوتا ہے۔ پس اپنی عائلی زندگی میں، گھریلو زندگی میں اپنے نمونے ایسے قائم کریں جو ایک مربی کی، ایک مبلغ کی شایان شان ہوں۔ لیکن مربیان سے شادی کرنے والی لڑکیاں اور بچیاں جو ہیں ان کو بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ وہ مربی کی اور مبلغ کی بیوی بننے والی ہیں یا بننے جا رہی ہیں اور اس لحاظ سے وہ بھی چاہے واقف زندگی ہوں یا نہ ہوں لیکن مربی کی بیوی بننے کے بعد واقف زندگی بن جاتی ہیں اور ان کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہئے۔ جہاں انہیں اپنی گھریلو ذمہ داریوں کو نبھانا ہے وہاں جس جگہ بھی مربی کو کام پہ لگایا جاتا ہے، مبلغ کو کام پہ لگایا جاتا ہے، وہاں جو اس کی جماعتی ذمہ داریاں ہیں ان میں بھی ہاتھ بٹانا ہے اور جو نمونے جماعت کے سامنے جس طرح مربی نے پیش کرنے ہیں اسی طرح ان کی بیویوں کو بھی اپنے نمونے پیش کرنے چاہئیں۔ جب یہ نمونے قائم ہوں گے تو تبھی یہ گھریلو مثالیں جو ہیں جماعت میں بھی ایک عزت اور وقار قائم کرنے والی ہوں گی اور جماعت میں بھی تربیت کا ذریعہ بنیں گی۔پس اس لحاظ سے دونوں فریقین کو اپنی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہیے۔
لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا ایک نکاح مربی سلسلہ کا تو نہیں لیکن بچی واقفۂ نو ہے۔ ایک عام احمدی کو بھی ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ نکاح کے موقع پر جب دو رشتے قائم ہو رہے ہوتے ہیں تو لڑکا اور لڑکی دونوں کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہئے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں جو تلاوت کی جاتی ہیں کافی نصیحت فرمائی ہے جس کا خلاصہ یہی ہے کہ تقویٰ سے کام لیتے ہوئے سچائی پر قائم رہو۔ایک دوسرے کا اعتماد حاصل کرو۔ ایک دوسرے کے رِحمی رشتوں، ماں باپ،بہن بھائیوں کا خیال رکھو اور آپس میں بھی محبت اور تعلق کو بڑھاؤ اور اس لئے بڑھاؤ کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔اس لئے بڑھاؤ کہ آئندہ نسلیں جو تمہارے سے پیدا ہونی ہیں انشاء اللہ تعالیٰ وہ نیکیوں پر قائم رہنے والی ہوں اور اللہ تعالیٰ کے دین پر چلتے ہوئے اپنی زندگیاں گزارنے والی ہوں۔ پس ان باتوں کو ہمیشہ نئے قائم ہونے والے رشتوں کو سامنے رکھنا چاہئے۔ ان الفاظ کے بعد اب مَیں نکاحوں کا اعلان کرتا ہوں۔
پہلا نکاح عزیزہ دُرّثمین رانا بنت مکرم داؤد احمد رانا صاحب مرحوم کا ہے جو عزیزم عبدالخبیر رضوان مربی سلسلہ کے ساتھ، تین ہزار پاؤنڈ حق مہر پر طے پایا ہے جو مکرم عبدالکبیر صاحب (جرمنی) کے بیٹے ہیں۔دلہن کے بھائی مکرم بہزاد احمد رانا صاحب ان کے وکیل ہیں۔
اس کے بعد حضور انور نے فریقین کے درمیان ایجاب و قبول کروایا اور مکرم عبدالخبیر رضوان صاحب کے آہستہ بولنے پر فرمایا:
اونچا کہو ناں۔اتنی آواز ابھی نہیں نکل رہی تو میدان عمل میں جا کر کس طرح آواز نکلے گی۔
اس کے بعد حضور انور نے فرمایا:
اگلا نکاح عزیزہ نبافہ انعم بنت مکرم محمد امجد صاحب (بہاولپور) کا ہے جو عزیزم رضا احمد مربی سلسلہ کے ساتھ تین ہزار یورو حق مہر پر طے پایا ہے جو مکرم مظفر علی صاحب کے بیٹے ہیں۔ دلہن کے وکیل ان کے خالو محمد امجد صاحب ہیں۔
حضور انور نے فریقین کے درمیان ایجاب و قبول کروایا اور دریافت فرمایا:خالو اور والد دونوں کا نام امجد ہے؟جس پر اثبات میں جواب عرض کیا گیا۔
پھر حضور انور نے اگلے نکاح کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:
اگلا نکاح عزیزہ دُرّعدن بھٹی واقفۂ نو کا ہے جو مکرم ڈاکٹر شبیر بھٹی صاحب کی بیٹی ہیں۔ یہ عزیزم نوید عمر ان مغل ابن مکرم منور احمد مغل صاحب (کارڈف)کے ساتھ دس ہزار پاؤنڈ حق مہر پر طے پایا ہے۔
حضور انور نے فریقین کے درمیان ایجاب و قبول کروایا ۔ اور پھر فرمایا:۔
ان رشتوں کے ہر لحاظ سے بابرکت ہونے کے لئے دعا کر لیں۔
(مرتبہ:۔ظہیر احمد خان مربی سلسلہ۔انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)