متفرق مضامین

مصالح العرب (قسط 436)

(محمد طاہر ندیم۔مربی سلسلہ عربک ڈیسک یوکے)

جلسہ سالانہ قادیان 2016ء میں عرب احباب کی شرکت (2)

قسطِ گزشتہ میں ہم نے جلسہ سالانہ قادیان 2016ء میں عرب احباب کی شرکت کے حوالے سے چند امور کا تذکرہ کیا تھا۔ اس قسط میں اس سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے دو عرب بہنوںکے اس بارہ میں تأثرات نقل کرتے ہیں ۔

ناروے میں مقیم ہماری ایک عراقی کردی بہن محترمہ بریفان سعید صاحبہ نے 2011ء میں بیعت کی تھی اورامسال یہ پہلی بار قادیان کی زیارت کے لئے تشریف لائی تھیں ۔ وہ اپنے تأثرات بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں:

قادیان کی بستی کی زیارت سے پہلے ہی اس کے بارہ میں میرے جذبات و احساسات اس قدر غیر معمولی تھے کہ میں سمجھتی تھی کہ میں ان کوقلمبند کرنے سے قاصر رہوں گی لیکن جب قادیان کی بستی اور یہاں کے مقامات مقدسہ کی زیارت نصیب ہوئی تو محسوس کیا کہ یہاں پر گزرے جانے والے دنوں کی یادوں کے بارہ میں لکھنا تواس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔

اس بستی کی فضاؤں میںکچھ ایسا امن وامان اور ایسی راحت وسکینت پھیلی ہوئی ہے جسے محسوس کیا جاسکتا ہے، الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ میں کچھ دیر کے لئے اس احساس میں اس قدر کھوئی کہ دنیا وما فیہا سے بے خبر ہوگئی اورمیں نے بے اختیار ہوکر کہاکہ کاش میں ہمیشہ کے لئے یہیں رہ جاؤں۔

قادیان پہنچتے ہی میں نے سیدی وحبیبی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار مبارک پر حاضری دی، آپؑ کو سیدناومولانا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام پہنچایااور بہت دیر تک وہاں دعائیں کرنے کے بعدٹکٹکی باندھ کر اس مبارک مزار کو دیکھتی رہی۔ وہاں سے لَوٹنے کو دل ہی نہیں چاہتا تھا۔

اَلدَّار کی زیارت اور دعا

پھر ہم دار المسیح کی زیارت کے لئے گئے۔ اس کے بیرونی دروازے سے داخل ہوتے وقت میرے ذہن میں حضور علیہ السلام کا یہ الہام آرہا تھا: إِنِّیْ أُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِیْ الدَّارِ إِلَّا الَّذِیْنَ عَلَوْا مِن اسْتِکْبَار ، اور میرے دل سے دعا نکل رہی تھی کہ خدایا ہمیں بھی اس الہام میں دیئے گئے وعدہ ٔحفاظت کے حصار میںداخل فرما لے ۔اس وقت میرا دل چاہتا تھا کہ اس گھر کے درودیوار کے بوسے لوں جن کے درمیان خدا کے مسیح نے اپنی زندگی گزاری ۔ ان مقامات کی زیارت کے دوران آپ ؑکی سیرت کے واقعات میری آنکھوں کے سامنے آتے جارہے تھے اور میں تصورات اور احساسات کی ایک عجیب دنیا میں پہنچ چکی تھی۔یہ تمام حالت پُرسوز دعاؤں میں ڈھل رہی تھی اورالحمد للہ کہ ان مقدس مقامات کی زیارت کے دوران ہرمقام پر ہمیں نوافل ادا کرنے اور پُر سوزدعاؤں کی توفیق بھی مل گئی۔

چند روز قبل ہی قادیان سے عربی زبان میں دعا کے موضوع پر نہایت خوبصورت اور پُرتاثیر پروگرام پیش کیا گیا تھااور ابھی تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں او رطریقِ دعا کا طبیعت پر بہت گہرااثر تھا۔ آپؑ کے اَلدَّار اورمقامات کی زیارت کے دوران مجھے اپنے اہل واقارب کا بھی بہت خیال آیااور میں نے ان کے لئے بھی بہت دعائیں کیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی ہدایت دے تا وہ اس روحانی چشمہ سے اپنی پیاسی روحوں کو سیراب کرکے نئی زندگی پاجائیں۔

مجاہدہ صحابیہ کی قبر پر

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار مبارک پر حاضری کے دو دن بعد میں نے بہشتی مقبرہ کا تفصیلی دورہ کیا۔ اس دوران جہاں مختلف صحابہ اور جماعت کے علماء وبزرگان کی قبور پر کھڑے ہونے اور دعائیں کرنے کا موقعہ ملا وہاںمیں ایک ایسی قبر کی تلاش میں بھی کامیاب ہوگئی جس کی جگہ دیکھنے کی میرے دل میں بڑی خواہش تھی۔یہ حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحبؓ کی والدہ ماجدہ کی قبر تھی۔ جس کے بار ہ میں انہوں نے لکھا تھاکہ:

’’والد صاحب کی وفات کے بعد والدہ صاحبہ نے حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ اگر ممکن ہو تو اُن کے قریب قریب میری قبر کی جگہ مقرر فرما دیں۔حضور نے فرمایا کہ عام طو رپر ایسا کرنا تو پسندیدہ نہیں لیکن استثنائی صورت میں ایسا ہو سکتا ہے۔ چنانچہ حضور نے والد صاحب کی قبر کے دائیں طرف والدہ صاحبہ کے لئے جگہ مقرر فرما دی۔ لیکن ایسا اتفاق ہوا کہ جب حضرت تائی صاحبہ فوت ہوئیں تو انہیں اس جگہ دفن کر دیا گیا۔ والدہ صاحبہ نے جب حضرت صاحب کی خدمت میں اس امر کا ذکر کیا تو حضو ر نے فرمایا کہ مقبرہ بہشتی کے منتظمین کے سہو سے ایسا ہوگیا ہے۔ اب ہم نے اور جگہ آپ کے لئے تجویز کر دی ہے۔یہ ہے تو اسی قطعہ میں، لیکن چوہدری صاحب کے پاؤں کی طرف ہے۔ والدہ صاحبہ نے عرض کی: حضو رمیں ہوں بھی ان کے پاؤں کی جگہ کے ہی لائق۔لیکن اب ایسا انتظام فرمائیے کہ پھر میری جگہ کسی اور کو نہ مل جائے۔ حضورؓ نے فرمایا اب ہم نے مقبرہ بہشتی کے محکمہ کوہدایت دے دی ہے کہ وہ اپنے رجسٹروں میں اس کا اندارج کردیں اور اخبار میں اعلان بھی کرادیا جائے گا۔‘‘ (میری والدہ صفحہ 64تا65)

جب سے میں نے یہ پڑھا تھا اس مجاہدہ صحابیہ کی قبر کی جگہ دیکھنے اور اس کے لئے دعا کرنے کی شدید خواہش تھی جسے اللہ تعالیٰ نے پورا فرمادیا۔

ہوشیار پور اور لدھیانہ کا سفر

ہم نے ہوشیار پور اور لدھیانہ کا سفر بھی اختیارکیا اور اس مقام کی زیارت کی توفیق ملی جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چلّہ کشی کی تھی اور جہاں اپنے اصحاب سے پہلی بیعت لی تھی ۔ اگرچہ ان دونوں مقامات پر وسیع پیمانے پر تعمیری کام جاری تھا اس کے باوجودبوقتِ زیارت اس مقام کی روحانی تاثیر اوربرکت کا احساس نمایاں تھااور میرا تصور مجھے زمانے کی حدوں کو عبور کرواتے ہوئے ان ایام اور لمحات کی جانب لئے جارہا تھا جن میں حضور علیہ السلام نے ان مقامات پر قیام فرمایا تھا۔

اخوّت ومحبت کے رشتے اور دعائیں

قادیان کی ناقابل فراموش باتوں میں سے ایک وہاں کے رہائشی احمدی احباب ہیں جن سے ملتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ جیسے ہمارے مابین یہ محبت اوراخوت کا تعلق صدیوں پراناہے۔یہ پیارے لوگ اپنے محدود وسائل کے باوجود مسکراتے چہروں اور بشاشت قلبی کے ساتھ مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کے لئے سب کچھ پیش کرنے کے لئے تیار بیٹھے تھے۔اہل دنیا میں یہ باتیں کہاں ملتی ہیں؟!

میرا گھر میں بھی عمومًا یہی طریق ہے کہ ہر وقت ایم ٹی اے لگا رہتا ہے اور مَیں اس میں کام کرنے والوں اور دیگر احمدیوں کے لئے دعائیں کرتی رہتی ہوں۔ قادیان میں قیام کے دوران میں اس روحانی فضا سے بہت متأثر ہوئی تھی اور اکثر اوقات جلسہ کے انتظامات کرنے والوں کے لئے دعائیں کرتی رہی۔ سرائے وسیم میں ہماری خدمت پر مامور خدّام کے جذبۂ خدمت کو دیکھ کر ان کے لئے دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔ ان ماؤں کو مبارک ہو جنہوں نے اپنے بچوں کی ایسی تربیت کی ہے۔ان کے لئے بھی دل سے دعا نکلتی ہے۔

آغوش ِ امن وآشتی

ہماری دوسری بہن مکرمہ سماح عبد الجلیل صاحبہ آف فلسطین ہیں۔ انہوںنے2003ء میں بیعت کی تھی۔ 2015ء میں انہیں پہلی بار اپنی دو بہنوں کے ہمراہ قادیان کی زیارت کی توفیق ملی تھی، اوراب دوسری بار یہ تشریف لائی تھیں۔وہ اپنے تأثرات کے بارہ میں تحریر کرتی ہیں :

قادیان پہنچتے ہی ہم نے سال گزشتہ کی طرح سامان رکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار مبارک کا رخ کیا۔ ہماری کیفیت بالکل ویسی ہی تھی جیسے کوئی ہجر کا مارالمبے سفر کے بعد محبوب کے دیس پہنچ جائے تو پھر اسے دیکھنے اور اس سے ملنے کی آرزو اَور بڑھ جاتی ہے۔حضور علیہ السلام کی قبر پر کھڑے ہوکر جذبات کی کیفیت اَورہی ہوجاتی ہے۔بہشتی مقبرہ کی فضا میں ایک عجیب سکون ہے لیکن یہ محبت کی آگ کو بھڑکانے والا ہے ۔

جلسہ کے ایام نہایت مبارک تھے۔جلسہ کا انتظام اورخدمت کا جذبہ دیکھ کر دل سے دعا نکلتی ہے کہ اے سرزمین قادیان تُو برکت والی ہے۔ کتنے انسانوں کی روحیں تیری طرف کھنچتی چلی آرہی ہیںاور تُو انہیں اپنی آغوش میں لے کر محبت اور امن وآشتی کے پیغام دیتی جارہی ہے۔

ایک پیشگوئی کا پورا ہونا

جلسہ کے موقعہ پر انڈونیشین احمدیوں کا جہاز آیا اور یوں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی پیشگوئی پوری ہوئی ۔ جہاں مجھے اس پیشگوئی کے پورا ہونے کی خوشی تھی وہاں اس بات پر بھی خدا کا شکر اداکررہی تھی کہ میںاس جلسہ میں شامل تھی اور اپنی آنکھوں سے اس پیشگوئی کو پورا ہوتے دیکھا۔ جب حضور انور نے اپنے خطاب میں اس بات کا ذکر فرمایا تومیں خطاب کے فورًا بعد اپنی دونوں بہنوں کو لے کر انڈونیشین احمدیوں سے ملنے کے لئے چلی گئی۔ انہیں مل کر ہمیں احساس ہوا کہ وہ کس قدر محبت کرنے والے ، عاجزی وانکساری کا نمونہ اورکس قدر منظّم لوگ ہیں۔ یقینایہ اس اعزاز کے اہل تھے۔ اللہ تعالیٰ یہ اعزاز ان کے لئے مبارک فرمائے ۔آمین۔

خوبصورت پھول ولذیذ پھل

گزشتہ برس بہت سی پاکستانی بہنوں کے ساتھ ہماری جان پہچان ہوگئی تھی اور اس بار ان سے ملنے کی توقع تھی لیکن حالات کی خرابی کے باعث ان کے نہ آسکنے کا سن کر بہت افسوس ہوا۔ زیادہ افسوس مجھے ان پاکستانیوں کے بارہ میں سوچ کر ہوا جن کا زندگی میں پہلی مرتبہ قادیان کا ویزہ لگا تھا لیکن اس باربھی وہ آنے سے رہ گئے۔خلیفہ وقت کی ایک آواز پر وہ سب لبّیک کہتے ہوئے ٹھہر گئے اوران میںسے ایک بھی جلسہ پر نہ آیا۔اطاعت کی یہ مثال دیکھ کر میرے دل نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آکر جو بیج بویا تھا وہ کیسا عظیم درخت بن گیا ہے اور اس کی چار سُو پھیلنے والی شاخوں پر اخلاص ووفا کے کیسے خوبصورت پھول اور طاعت ومحبت کے کیسے لذیذ پھل لگے ہوئے ہیں۔

ملاقاتیں

قادیان میں ہماری ملاقات کرغیزستان سے آئی ہوئی حفیظہ نامی ایک بہن سے ہوئی ۔ اگرچہ ہم ایک دوسرے کی زبان سے ناواقف تھے پھر بھی اس کے ساتھ ہم نے بہت سی باتیں کیں اور ایک دوسرے کی باتوں کو اشاروں سے سمجھ کر بہت محظوظ ہوئے۔ اس بہن نے بتایا کہ قادیان آنے سے قبل اس نے خواب میں دیکھا تھا کہ وہ جہاز پر قادیان آئی ہے اور حضو رانو رنے خود اس جہاز کا استقبال کیا تھا۔یہ بہن ہرجگہ ہمارے ساتھ ساتھ رہی۔ اس دوران یہ بہن چلتے چلتے اچانک ٹھہر کر رونا شروع کردیتی اور پھر کچھ کہتی جس میں سے ہمیں ’’حضور، حضور‘‘ کے الفاظ ہی سمجھ آتے۔شاید اس کی مراد یہ تھی کہ اگر حضو رانور تشریف لائے ہوتے تو ہماری بھی حضورانور سے ملاقات ہوجاتی۔ واللہ اعلم بالصواب۔

قادیان میں ہمارا تعارف ایک درویش مکرم بشیر احمد ناصر صاحب کی دو بیٹیوں سے بھی ہوا۔انہوں نے بتایا کہ جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی طرف سے درویشی کے لئے خود کو پیش کرنے کی تحریک ہوئی اوراس کا ’’ترگڑی‘‘ میں جماعت کی مسجد میں اعلان ہوا تو یکدم سنّاٹا چھاگیا اور پھر ایک کونے سے ایک نوجوان کھڑا ہوا اور اس نے خود کو اس کام کے لئے پیش کیا۔اتنے میں مسجد کے دوسرے کونے سے ایک اور شخص کھڑا ہوا اوراس نے بھی خود کو پیش کیا۔ یہ دونوں باپ بیٹا تھے۔نوجوان بشیر احمد ناصر صاحب تھے اور ان کے والد صاحب عبد الکریم صاحب تھے۔ جب یہ دونوں مسجد سے گھر پہنچے تو والد نے بیٹے سے کہا کہ تم گھر میں رہو اور مَیں قادیان جاتا ہوں۔ بیٹے نے کہا کہ مَیں نوجوان ہوں مَیں اس کام کے لئے زیادہ موزوں ہوں۔ بشیراحمد ناصر صاحب کی والدہ جلدی فوت ہوگئی تھیں اور انہیں ان کی دادی نے پالا تھا۔باپ بیٹے میں یہ تکرار بشیر احمدناصر صاحب کی دادی کے سامنے ہورہی تھی۔ انہوں نے یہ سنا تواپنے بیٹے عبد الکریم سے کہا کہ تم رُک جاؤ اور بشیر کو جانے دو کیونکہ یہ پُھرتیلا ہے اوراس کام کے لئے موزوں ہے۔ اور پھرایک سو ایک روپیہ دے کر دعاؤں بھرے آنسوؤں کے ساتھ بشیر احمد ناصر صاحب کو درویشی کے لئے روانہ کیا۔

پھر انہوں نے زمانۂ درویشی کے بعض واقعات بھی سنائے اور اس بات کا بھی تذکرہ کیا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان معمولی قربانیوں کے عظیم الشان پھل عطا فرمائے ہیں۔

یہ واقعات سن کر ہمارے دل سے اس درویش اور اس کے والد کے لئے بہت سی دعائیں نکلیں ۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بار بار اس بستی کی زیارت کی سعادت بخشے، ہماری ساری دعائیں قبول فرمائے اور اس زیارت سے جو روحانی استفادہ کیاہے اس کو اپنی زندگیوں کی حصہ بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button