امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ کینیڈا 2016ء
یہ نہایت ہی پُر معارف اور دلکش خطاب اُن تمام خطابات میں سے نمایاں تھا جو میں نے مذاہبِ عالم کے پروفیسر کے طور پر سنے ہیں۔…ز… جس اسلام کو میں جانتا تھا وہ اس سے بالکل ہی مختلف ہے جس کا آج مجھے یہاں پتہ چلا۔…ز… آج کا پیغام امید اور باہم اتحاد کا پیغام ہے۔ …ز… حضور کا پیغام نہایت واضح ، حقیقی اور دل سے نکلا ہؤا پیغام تھا۔ بہت ہی واضح ، سچا اور حقیقی پیغام تھا۔ جس انداز سے خلیفۃ المسیح نے مسلم دنیا کے مسائل بیان فرمائے وہ میرے لئے حیران کن تھا۔…ز… خلیفۃالمسیح ایک بہت ہی طاقتور سفیر ہیں ۔جماعت احمدیہ بہت ہی مثبت، تعمیری اور اچھا کام کرنے والی ہے ۔ یہ سوچ اور اس قسم کا کردار قوموں کو ترقی دینے والا کردار ہے جس کی بنیاد باہمی احترام اور تعلقات پر ہے۔…ز… جس طرح خلیفۃ المسیح نے آج شدت پسندی اور دیگر خدشات پر روشنی ڈالی ہے ، ہم سمجھ سکتے ہیں کہ جو باقی دنیا میں ہو رہا ہے، اس کا اس جماعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔…ز… خلیفۃ المسیح نے عظیم الشان خطاب فرمایا ہے۔ خلیفہ کا پیغام بین الاقوامی تھا اور ہر ایک پر لاگو ہوتا تھا خواہ کوئی کسی بھی مذہب یا عقیدہ سے تعلق رکھنے والا ہو۔…ز… جماعت احمدیہ بہت اچھی جماعت ہے۔ اس کے لوگ بہت ہی عاجز، ہمدرد ، کمیونٹی کا خیال رکھنے والے اور اچھانمونہ دکھانے والے ہیں۔…ز… خلیفۃ المسیح کا خطاب نہایت خوبصورت تھا۔ خلیفہ کی آواز میں ایک ٹھہراؤ، تسلّی اور تحمّل نظرآرہا تھا جس سے تمام حاضرین پر ایک عجیب رعب طاری تھا۔ آپ کے وجود سے عاجزی ٹپک رہی تھی ۔…ز… خلیفۃ المسیح نے اُن اقدار کی نشاندہی کی ہے جن پرہم سب کو چلنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ …ز… میں سمجھتا ہوں کہ جو پیغام انہوں نے دیا، وہ ایسا پیغام ہے جو سرحدوں اور ملکوں (کی حدود)سے بالا ہے۔ …ز… خلیفۃ المسیح کی شخصیت میں ایک رعب اور دبدبہ ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ا ن میں جاذبیت بھی ہے۔ وہ ایک ایسے انسان ہیں جنہیں سننے کو دل چاہتا ہے
(مسجد محمود ریجائنا (کینیڈا) کی افتتاحی تقریب میں شامل ہونے والے مہمانوں کے تأثرات)
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے دورہ ریجائنا اور مسجد محمود کے افتتاح کے حوالہ سے کینیڈا کے ڈیڑھ ملین سے زائد لوگوں تک خبر پہنچی اور انہیں اسلام احمدیت کا تعارف ہوا۔
ز… ہم دیکھ سکتے ہیں اور ہمیں احساس ہے کہ یہاں کے احمدی کس طرح خلیفۃ المسیح کی قیادت میں انسانیت کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔ …ز…جماعت احمدیہ ایک ایسی جماعت ہے جوintegration کے لئے ایک نمونہ کے طور پر پیش کی جاسکتی ہے۔ …ز… جماعت احمدیہ کا نعرہ ’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘ ہرقسم کی نفرت، فساد، تعصب اور شدت پسندی کا تریاق ہے۔ یہ جماعت اس نعرے میں سچے طور پر یقین رکھتی ہے اور اس کا روزمرہ کی زندگی میں ثبوت بھی دیتی ہے ۔ …ز… جماعت کی دنیا کے مختلف حصوں میں مخالفت ہو رہی ہے لیکن اس کے باوجود احمدی اس ملک کے باسی ہونے کی حیثیت سے اس کو بہتر کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور یہ ہم سب کے لئے ایک نمونہ ہے
(مسجد بیت الامان لائیڈمنسٹر کی تقریب میں شامل بعض معزز مہمانوں کے استقبالیہ ایڈریسز)
ز… مسلمان ممالک میں امن کا فقدان اور فساد کسی بھی طرح اسلامی تعلیمات کے ساتھ منسلک نہیں۔ یہ فسادات دراصل مقامی حکومتوں اور باغی گروہوں کی ایک دوسرے پر غلبہ پانے کی احمقانہ روش اور ذاتی مفادات کو ہر چیزپر ترجیح دینے کے نتیجہ میں ہورہے ہیں۔ …ز… یہ مساجد تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کی غرض سے امن ،ہم آہنگی اور اتحاد کی آماجگاہ کے طور پر تعمیرکی جاتی ہیں۔ …ز… مسلمانوں کو اپنے ہمسایوں سے پیا رکرنے، ان کی حفاظت کرنے اور ان کا احترام کرنے کی تعلیم دی گئی ہے اور اسلامی تعلیمات کے مطابق ہمسائیگی کا دائرہ کاربھی نہایت وسیع ہے۔ …ز… ہماری مساجد اس مقصد کو لے کر تعمیر کی جاتی ہیں کہ لوگوں کو متحد کیاجائے، ہمسایوں اور مقامی لوگوں کی خدمت کی جائے۔ ہماری مسجدیں وہ روشن مشعلیں ہیں جن سے امن، محبت اور انسانیت کی کرنیں پھوٹتی ہیں۔
(مسجد بیت الامان لائیڈمنسٹر (کینیڈا) کے افتتاح کے موقع پر حضورانور ایدہ اللہ کا بصیرت افروز خطاب)
04؍نومبر 2016ء بروز جمعۃ المبارک
(حصہ دوم)
مہمانوں کے تأثرات
مسجد محمود کی افتتاحی تقریب میں شامل ہونے والے مہمانوں پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطاب کا گہرا اثرہوا۔ بہت سارے مہمان تاثرات اور جذبات کا اظہار کئے بغیر نہ رہ سکے۔ ان میں سے چند مہمانوں کے تاثرات ذیل میں درج کئے جاتے ہیں
٭ مذاہبِ عالم کے ایک پروفیسر صاحب جو اس تقریب میں شامل تھے وہ بیان کرتے ہیں: میرے خیال میں یہ نہایت ہی پُر معارف اور دلکش خطاب اُن تمام خطابات میں سے نمایاں تھا جو میں نے مذاہبِ عالم کے پروفیسر کے طور پر سنے ہیں۔ خلیفۃ المسیح کی جو بات مجھے بہت اچھی لگی وہ آپ کا واضح اور قابلِ عمل پیغام تھا کہ اگر دنیا میں سب امن چاہتے ہیں، تویہ اُن غریبوں کو نظر انداز کرکے نہیں حاصل ہو سکتا جو تکالیف میں مبتلا ہیں۔ میرے خیال میں یہ پیغام بہت ہی واضح تھا۔
میرے خیال میں موجودہ حالات کے پیشِ نظر جبکہ دنیا کے مسائل کے اسلامی حل پر لوگ کچھ غلط فہمیوں میں الجھے ہوئے ہیں، اُن کا پیغام بہت ہی ضروری اور مناسب تھا۔ انہوں نے ان خدشات کو دُور کرنے کا ذمہ لیا اور ان کا پیغام ہمارے اس ملٹی کلچرل اور ملٹی ریلیجس سوسائٹی میں باہمی تعاون، اتفاق اور احترام کو ترویج دینے کے لئے اہم تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے عظیم پیغام دیا ہے۔
٭ ایک مہمان خاتون بیان کرتی ہیں: مجھے بہت اچھا لگا کہ خلیفۃ المسیح نے جہاد کے موضوع پر بات کی۔ اس کا مطلب کوشش کرنا ، دوسروں سے محبت کرنا ، امن کو پھیلانا اور کمیونٹی کی مدد کرنا ہے۔ مجھے بہت اچھا لگا جب انہوں نے کہا کہ ہر ایک دوسروں کے لئے وہی چاہے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے۔
میں نے احمدیت کے متعلق اس سے پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔ لیکن اب خلیفۃ المسیح اور سارے لوگوں سے مل کر مجھے علم ہوا کہ احمدی بہت ہی پیار کرنے والے ہیں۔
٭ ریجائنا ملٹی فیتھ فورم کے چیئرمین گگن دیپ سنگھ صاحب نے اپنے تأثرات کا اظہارکرتے ہوئے کہا: مجھے ان کا خطاب بہت پسند آیا۔ اس کا مرکزی نکتہ انسانیت سے تعلق رکھنے والے امور تھے، جو ہر مذہب کے عقائد کا حصہ ہیں۔ کئی مشترک باتیں ہیں مثلاً انسانیت کے لئے کام کرنا، غریبوں کے لئے کام کرنا، سکولوں اور ہسپتالوں کو قائم کرنا۔ ہمیں یہ سب کچھ کرنا چاہئے اور اسی بات نے مجھے گھائل کیا۔
٭ ایک سیاستدان بیان کرتے ہیں: خلیفۃ المسیح کا پیغام نہایت مؤثر تھا اور میں سمجھتا ہوں کہ کینیڈین اور Saskatchewan باشندہ ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ پیغام سننا چاہئے ، اسے دل میں اپنانا چاہئے اور اس میں اطمینان محسوس کرنا چاہئے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے صوبے میں مسلمانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور ہم اس بات سے خوش ہیں۔ جو مسلمان Saskatchewan میں آئے ہیں، انہوں نے اپنی ثقافت ہمارے ساتھ shareکی ہے اوریقیناً وہ ہمارے بہترین شہریوں میں سے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی گورنمنٹ اور انتخابی نظام کے ساتھ وفادارہیں۔ ہم ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے کینیڈا اور Saskatchewan کا انتخاب کیا۔ میں ہمیشہ بہت خوش ہوتا ہوں کہ جماعت ہم سے رابطہ کرتی ہے اور Canada Dayپر ہمیں مسجد میں بلاتی ہے۔ جب Saskatoonمیں نئی مسجد کی تعمیر کا کام شروع ہوا تو ہمیں بھی مدعوکیاگیا۔ بہت ہی مہمان نواز اور فراخ دل ہیں اور میں انہیں نہ صرف اپنے حلقہ بندی بلکہ اپنے دوست کہنے پر فخر محسوس کرتا ہوں اور اپنے تعلقات کو مزید بڑھانے کے لئے امید وار ہوں۔
٭ ایک مہمان نے بیان کیا کہ خلیفۃ المسیح کے ساتھ ایک کمرہ میں موجود ہونا اور ان کے الفاظ کو سننا میرے لئے ایک اعزاز تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ خلیفۃ المسیح کے الفاظ ہمارے صوبہ Saskatchewan میں بھی ویسے ہی حق ہیں جیسا کہ ساری دنیا میں ہیں۔ میں خوش قسمت ہوں کہ یہاں اپنے دوستوں اور ساتھیوں کے ہمراہ موجود ہوں۔
دنیا میں مثبت باتیں سننے میں نہیں آتیں جن سے یہ معلوم ہو سکے کہ اچھائی بھی موجود ہے۔لیکن آج ان مثبت باتوں میں سے بعض ایسی باتیں سامنے آئیں جنہیں میں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ پیغام دل میں بیٹھ جاناچاہئے کہ محبت سب کے لئے، نفرت کسی سے نہیں ۔
دنیا میں ہمیشہ ہی مشکلات رہیں گی اور ہر مذہب میں بھی مشکلات در پیش ہیں۔ جو بات مجھے نمایاں لگی، وہ یہ تھی کہ اگرچہ دنیا کے دوسرے علاقوں میں بحران اور بے امنی ہے، وہ اس جماعت کی طرف سے نہیں جو آج یہاں موجود ہے۔ جس اسلام کو میں جانتا تھا وہ اس سے بالکل ہی مختلف ہے جس کا آج مجھے یہاں پتہ چلا۔ بد قسمتی سے دنیا کے ہر مذہب میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو اپنے مذہب کو ہتھیار بناکر لڑائی جھگڑا اور فتنہ پھیلانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن وہ تو شدت پسندی ہے اور میرے خیال میں اتنی بھی نہیں جتنا خبروں میں اچھالا جاتا ہے۔
عموماً آج کا پیغام امید اور باہم اتحاد کا پیغام ہے۔ میں Saskatoon سے آیا ہوں جو کہ ریجائنا سے تقریباً 250 کلومیٹر دُور ہے ۔ مجھے یہ بات بہت اچھی لگی ہے کہ اتنی دور سے لوگ یہاں weekend پر کام کرنے کے لئے آتے رہے ہیں۔ یہ بات اس صوبہ کے ابتدائی باشندوں کے نمونے کی طرح ہے ، جو یکجا ہو کر مساجد تو نہیں بلکہ فارمز اور کمیونٹی سینٹرز اور سکول بناتے تھے۔
٭ ایک خاتون مہمان نے بیان کیا: میں سمجھتی ہوں کہ خلیفۃ المسیح کا خطاب بہت ہی عمدہ تھا۔ میں نے ہرلفظ کو سنا اور اپنے دل میں بٹھایا اور محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں کا پیغام بہت ہی شاندار ہے۔ اگر ساری دنیا اس طرح ہوتی تو کیا ہی خوب دنیا ہوتی۔ میں ساری شام وہاں بیٹھ کر خلیفۃ المسیح کو سن سکتی تھی۔ مجھے جو بات بہت نمایاں لگی وہ یہ تھی کہ آپ کو اپنے ہمسائے سے محبت کرنی چاہئے اور یہ کہ اگر کچھ حاصل کرنا ہے تو اتفاق سے ایک دوسرے کے ساتھ کام کرنا بہت ہی ضروری ہے ۔
حضور کا پیغام نہایت واضح ، حقیقی اور دل سے نکلا ہؤا پیغام تھا اور میرا خیال ہے کہ یہ پیغام ہر شخص کے دل میں بیٹھ گیا ہو گا جو وہاں کمرے میں موجود تھا۔ اور اس سے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے ۔ اس تقریب میں شامل ہونا اور محض اس پروگرام میں شرکت کے لئے Saskatoon سے میرا یہاں آنا میرے لئے اعزاز کی بات ہے۔
٭ ریجائنا شہر کے سٹی مینجر Chris Holden صاحب نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا: بہت ہی واضح ، سچا اور حقیقی پیغام تھا۔ جس انداز سے خلیفۃ المسیح نے مسلم دنیا کے مسائل بیان فرمائے وہ میرے لئے حیران کن تھا۔خلیفۃ المسیح کا محبت اور اپنائیت پر زور دینا، مسجد کی ضرورت کو واضح کرنا، اور یہ بتانا کہ مسجد کے دروازے ہرشخص اور ہر مذہب کے لئے ہمیشہ کھلے ہیں ، ان باتوں سے مجھے بہت تسلّی ہوئی۔ دنیا میں بہت ہی بدامنی رہی ہے لیکن ریجائنا میں بننے والی یہ مسجد ہر ایک کے لئے کھلی ہے۔ اس تقریب سے میں نے بہت کچھ سیکھاہے۔
٭ ایک مہمان بیان کرتے ہیں: خلیفۃ المسیح کا پیغام بہت شاندار ہے۔ یہ ایک ایسا پیغام ہے جس نے نہ صرف Regina بلکہ دنیابھر کے لوگوں کو متأثر کیا ہے۔ خلیفۃ المسیح ایک بہت ہی طاقتور سفیر ہیں ۔جماعت احمدیہ بہت ہی مثبت، تعمیری اور اچھا کام کرنے والی ہے ۔ یہ سوچ اور اس قسم کا کردار قوموں کو ترقی دینے والا کردار ہے جس کی بنیاد باہمی احترام اور تعلقات پر ہے۔ زندگی میں ہم سب مختلف کردار ادا کرتے ہیں لیکن ہم ایک کامیاب معاشرہ اور دنیا تبھی بناتے ہیں جب ایک دوسرے سے اتفاق کر تے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہر انسان قیمتی ہے اور ہم اکٹھے ہو کر ہی زیادہ مضبوط ہیں۔
٭ پروفیسر Brenda Anderson صاحبہ (University of Regina) بیان کرتی ہیں: مجھے یہاں آکر بہت خوشی ہوئی اور میں جماعت کو مبارکباد دیتی ہوں۔ میں سمجھتی ہوں کہ Regina اور صوبہ کی کمیونٹی کے لئے آپ کے الفاظ سننے بہت ہی ضروری تھے۔ میرا خیال ہے کہ اس خطاب نے بہت سے ایسے لوگوں کو آگاہ کیا ہو گا جنہیں اسلام کے متعلق کچھ علم نہیں اور جنہیں شاید کچھ خدشات ہیں۔ افسوس ہے کہ ہمیں جہاد کے متعلق بات کرنی پڑتی ہے اور اس کا صحیح مفہوم سمجھانا پڑتا ہے۔ میں امید کرتی ہوں کہ لوگ امن کے پیغام کے ساتھ واپس گئے ہوں گے ۔ پس میں جماعت کو اس سنگِ میل پر مبارکباد دینا چاہتی ہوں۔
٭ ایک مہمان نے اپنے تاثرات کا اظہاراس طرح کیا: میں نے جماعت احمدیہ میں یہ بات دیکھی ہے کہ جوںجوں اس جماعت نے Saskatoonمیں ترقی کی، اس نے مقامی لوگوں کے ساتھ تعلقات قائم کئے ہیں اور ان کو محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں کا پیغام سمجھانے کی کوشش کی ہے ۔ جس طرح خلیفۃ المسیح نے آج شدت پسندی اور دیگر خدشات پر روشنی ڈالی ہے ، ہم سمجھ سکتے ہیں کہ جو باقی دنیا میں ہو رہا ہے، اس کا اس جماعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔
Saskatoon میں جو درخت لگانے کے منصوبے بنائے گئے ہیں اور جس طرح ہم نے ہاتھ میں ہاتھ دے کرکمیونٹی کے کارکنان کے ساتھ مل کر کام کیا ہے ، میں دیکھتا ہوں کہ یہ ہمارے ملک کا مستقبل ہے اور اس معاشرہ کا عکس ہے جس کی میں امید رکھتا ہوں، جس میں مختلف مذاہب کے لوگ مشترک اقدار کو پہچانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم تفرقہ کی بجائے متفق ہو کر زیادہ بہتر حال ہیں اور پھر ہم ایک دوسرے سے سیکھ بھی سکتے ہیں۔
موصوف نے کہا: میں سمجھتا ہوں کہ اسلام کو چھوٹے گروہوں نے بگاڑا ہے جس کی وجہ سے کئی کینیڈینز اور مغرب میں رہنے والوں میں الجھنیں پیدا ہوئی ہیں۔ احمدیہ جماعت کے لوگوں کو جان کر میں نے سیکھا ہے کہ بھائی چارہ اور ہمسایوں کے حقوق ادا کرنا ایک نہایت ہی اہم اصول ہے ، اور یہ کہ ہمیں ایک دوسرے سے ہمسایوں کی طرح پیش آنا چاہئے اور ہمسایوں کے ساتھ رشتہ داروں جیسا سلوک کرنا چاہئے ۔ یا جس طرح خلیفۃ المسیح نے آج فرمایا کہ دوسروں سے اسی طرح پیش آؤ جیسے تم چاہتے ہو کہ دوسرے تم سے پیش آئیں۔ یہ اسلام کا ایک بنیادی عقیدہ ہے اور ہم سب کو اسے اپنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس عقیدہ پر عمل کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ پس ہم سب کو محنت کر کے اس عقیدہ پر عمل کرتے ہوئے زندگی بسر کرنی چاہئے۔ یہ جاننا کہ یہ تعلیم جماعت احمدیہ کینیڈا کی بنیادی تعلیم ہے اور ایمان کا لازمی حصہ ہے نہایت ہی اہم پیغام ہے ۔
٭ ریجائنا کے سٹی کونسلر Bob Hawkins صاحب نے اپنے تاثرات کااظہارکرتے ہوئے کہا:۔ خلیفۃ المسیح نے عظیم الشان خطاب فرمایا ہے۔ خلیفہ کا پیغام بین الاقوامی تھا اور ہر ایک پر لاگو ہوتا تھا خواہ کوئی کسی بھی مذہب یا عقیدہ سے تعلق رکھنے والا ہو۔ خلیفہ نے محبت، رواداری اور احترام کا پیغام دیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس میں ہم سب کے لئے بہت بڑا سبق ہے۔
میرے خیال میں خلیفۃ المسیح کا یہ خطاب اس زمانہ میں نہایت اہم ہے۔ بہت سے ایسے لوگ ہیں جو فساد کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں اور بد قسمتی سے ان میں سے بعض لوگوں نے اسلام کو فساد کرنے کا آلہ بنایا ہوا ہے۔ میرے خیال میں خلیفۃ المسیح نے واضح کردیا کہ اسلام کا پیغام محبت اور لوگوں کے باہمی احترام کا پیغام ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ جو کچھ آپ نے فرمایا بہت ضروری تھا اور میں آپ کی ان باتوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔
٭ ریجائنا کے ایک اور سٹی کونسلر Johnathan Findura صاحب نے اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے کہا؛۔ خلیفۃ المسیح کا خطاب شاندار اور بہت ہی متأثر کن تھا۔ ہر ایک اس کو سمجھ سکتا تھا۔ اس کے لئے مسلمان ہونا ضروری نہیں تھا۔ ہمیں اس طرح کے مزید خطابات سننے کی ضرورت ہے کیونکہ بعض لوگ دلوں میں خوف پیدا کرنا چاہ رہے ہیں ۔ لیکن حقیقت میں کوئی خوف نہیں۔
خلیفۃ المسیح کا یہاں سفر کر کے تشریف لانا بہت ہی اہم موقع ہے۔ اس سے مسجد کی اہمیت واضح ہوتی ہے اور Regina کے لوگوں کی اہمیت بھی ۔
٭ ایک مہمان خاتون بیان کرتی ہیں: آج مجھے حضرت عیسیٰ ؑ کی یاد آ گئی۔ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے کے باوجودہم ایک دوسرے سے محبت اور شرافت سے پیش آ سکتے ہیں۔ اگر ہم سچائی کی پیروی کررہے ہوتے تو دنیا کتنی بہتر ہوتی اور ہم سب امن ، اتفاق اور باہمی احترام کے ساتھ رہتے۔ جماعت احمدیہ بہت اچھی جماعت ہے۔ اس کے لوگ بہت ہی عاجز، ہمدرد ، کمیونٹی کا خیال رکھنے والے اور اچھانمونہ دکھانے والے ہیں۔ میں عیسائی ہوں اور حضرت عیسیٰ کو مانتی ہوں اور حضرت عیسیٰ ؑ بھی ایسے ہی رہتے تھے۔ پس اگر ہم سب ان باتوں پر عمل کریں جن کا خلیفۃ المسیح نے ذکر کیا ہے تو دنیا بہترین جگہ بن جائے۔
٭ ایک مہمان نے بیان کیا: جس طرح خلیفۃ المسیح نے اسلام کے متعلق پائے جانے والے غلط تصورات دور فرمائے میں اس سے بہت متأثر ہوا ہوں کیونکہ میڈیا میں انہیں منفی رنگ میں دکھایا جاتا ہے اور اسی طرح لوگ انہیں سمجھتے ہیں۔ خلیفۃ المسیح کا خطاب سن کر مجھے پتہ چلا کہ جو میڈیا بیان کرتا ہے وہ مکمل صورتحال نہیں ہے۔
میں نے خلیفۃ المسیح کے متعلق بہت کچھ سنا تھا۔ پس آج انہیں بنفسِ نفیس دیکھنا، ان سے مصافحہ کرنا اور یہاں میرا موجود ہونا میرے لئے ایک اعزاز ہے۔
٭ ایک مہمان بیان کرتے ہیں: ہم دیکھتے ہیں کہ آجکل کوئی اچھی چیز نہیں ملتی۔ خبروں اور میڈیا میں تو منفی اور بری باتوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں رہا۔ آج کسی کو اچھی بات کہتے ہوئے سننا اور بھلائی کو پھیلانے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھنا ایک تازہ ہوا کی طرح محسوس ہوا ہے ۔
٭ اس صوبہ سے تعلق رکھنے والے ایک سیاستدان نے اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے کہا: آج اس صوبہ کے لئے ایک عظیم دن ہے۔ بے شک آج یہ کمیونٹی خوشی منا رہی ہے لیکن یہ خوشی ہمارے صوبہ کے لئے بہت بڑا دن ہے ۔ ہمارا motto ، کئی لوگوں کی طاقت سے ہے۔ آج اس مسجد کی تعمیر کے ذریعہ ہم اپنے اس motto پر عمل کر رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ خلیفۃ المسیح کاپیغام جہاں ساری دنیا کے لئے ضروری ہے وہاں ہمارے لئے بھی بہت اہم ہے۔
کئی سال پہلے میرا جماعت سے تعارف ایک ایسے وقت میں ہوا جب Saskatchewan میں بہت بڑا سیلاب آیا اور ایک محلہ پانی کی وجہ سے بالکل الگ ہو گیا تھا اور دوسرے لوگ evacuation سینٹرز کی طرف جا رہے تھے۔ اس وقت جبکہ ابھی مدد کی اپیل بھی نہیں کی گئی، احمدی مسلمان کئی وینوں پر مدد کے لئے Saskatoon سے Regina آئے ۔ وہاں ہماری بات چیت ہوئی اور یہ ان کے outreach کی بہترین مثال ہے کہ فوراً تعلق قائم ہو گیا۔ اس جماعت نے ایسے لوگوں کو اکٹھے ملا دیا جو شاید عام حالات میں نہ ملتے۔
مجھے خلیفۃ المسیح کا خطاب سن کر اب سمجھ آئی ہے کہ احمدی مسلمان اتنے پُر عزم کیسے ہوتے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ یہ خطاب ساری دنیا میں نشر کیا گیا لیکن کاش کہ Saskatchewan میں ہر شخص اس کو دیکھ سکتا۔آج خلیفۃ المسیح سے میں نے جو کچھ بھی سیکھا وہ حتی المقدور ہر ایک کو بتاؤں گا لیکن کاش کہ دوسرے لوگ بھی براہِ راست خلیفۃ المسیح کی یہ باتیں سن سکتے۔
شمالی امریکہ میں ہم کافی تفرقہ دیکھ رہے ہیں۔ یہ امریکہ کے انتخابات سے بھی نمایاں ہے ، جسے دیکھ کر ہمیں پریشان ہونا چاہئے، لیکن ہمارے ملک میں بھی موجود ہے۔ میرے خیال میں ہمارے صوبہ میں اس پیغام کی ضرورت ہے خواہ لوگ یہاں نئے آباد ہونے والے ہوں، پرانے یورپین مہاجرین ہوں یا First Nations کے لوگ ہوں۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ پیغام نہایت ہی موزوں ہے۔ میں اس بات سے خوش ہوں کہ حضور جیسے بین الاقوامی لیڈر ہمارے صوبہ میں تشریف لائے۔
٭ Paul Merryman صاحب جو کہ سسکاٹون میں Legislative Assembly کے ممبر ہیں ، انہوں نے کہا: خلیفۃ المسیح کا خطاب نہایت خوبصورت تھا۔ خلیفہ کی آواز میں ایک ٹھہراؤ، تسلّی اور تحمّل نظرآرہا تھا جس سے تمام حاضرین پر ایک عجیب رعب طاری تھا۔ آپ کے وجود سے عاجزی ٹپک رہی تھی ۔ خلیفۃ المسیح کی خدمت میں حاضر ہونا اور ان کی باتیں سننا بہت ہی اچھا تجربہ تھا۔
سیاسی اور دنیاوی فنکشنز مختلف ہوتے ہیں۔ وہاں پر لوگ زور لگا کر اپنے خیالات کو ظاہر کرتے ہیں اور لوگوں پر اثر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن خلیفۃ المسیح میں ایسی کوئی بات نظر نہیں آئی۔ مجھے لگا کہ وہ بہت ہی محبت سے اپنی طرف بلا رہے ہیں اور سب سے محبت کرنے کے لئے تیّار اور مستعد ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ مذہب اور روحانیت اصل میں اِسی بات کا نام ہے۔ یعنی اپنے ہمسایوں سے محبت کرنا اور دوسروں کی مدد کرنا۔
میرے خیال میں یہ نہایت ضروری ہے کہ ایک ایسی جماعت مساجد بنائے جو اسلام کی حقیقی تعلیم کو پھیلانے والی ہو کیونکہ Saskatchewan کے تمام لوگ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے ہیں اور سب کو ایک دوسرے سے احترام اور رواداری کا سلوک اختیار کرنا چاہئے۔ اگر سب لوگوں کو ایک صحیح نکتے پر جمع کیا جائے تو یہ بہت اچھی بات ہے۔
میرے خیال میں یہ بہت ضروری ہے کہ تمام کینیڈین خلیفۃ المسیح کے پیغام کو سنیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ کینیڈا ایک بہت ہی پُر امن اور رواداری اختیار کرنے والا متحمّل ملک ہے۔ اور ہمیں اس پیغام کو، بطور کینیڈین، دوسرے ملکوں میں بھی پھیلانا چاہئے جس طرح ہمارے peacekeeper soldiers نے مشن کئے ہیں۔ انہیں اس رنگ میں بھی استعمال کرنا چاہئے۔ میرے خیال میں ہم ساری دنیا کے سامنے یہ بات پیش کر سکتے ہیں کہ ہمیں اِن باتوں کو سیکھنا چاہئے اور سننا چاہئے اور نہ صرف یہ، بلکہ ان پر عملی جامہ بھی پہنانا چاہئے۔
٭ ایگریکلچرل ریسرچر Claire Burkett صاحبہ نے اپنے تاثرات کا اظہارکرتے ہوئے کہا: میں جو بات لے کر جا رہی ہوں وہ حضور کی عاجزی اور ہمدردی اور مسلم مذہب کا تعارف ہے۔ دنیا کے تمام لوگوں کے لئے اسلام کی سچی حقیقت کو جاننا ضروری ہے۔
خلیفۃ المسیح کے پیغام کو سننا بہت ہی ضروری ہے۔ میں Saskatoon میں رہتی ہوں۔ میں نے خلیفۃ المسیح کو دیکھاہے اور جماعت کے لوگوں سے ملی ہوں اور مجھے اب بہتر طورپر سمجھ آئی ہے اور میں گھر جا کر اپنی فیملی اور اپنے بہن بھائیوں کو یہ پیغام پہنچانے کی کوشش کروں گی کہ ٹیلیویژن پر جو چیزیں ہم دیکھتے ہیں، اُن سے ہٹ کر بھی بہت ساری باتیں ہیں۔
٭ Saskatchwean کے لیڈرآف دی آفیشل اپوزین Trent Weatherspoon صاحب بیان کرتے ہیں: یہ ایک خوبصورت اور اہم اجتماع ہے۔ خلیفۃالمسیح کا نہایت طاقتوراور ضروری پیغام تھا جس نے ہمارے مذاہب میں قدرِ مشترک باتوں کی نشاندہی کی اور ہمیں بتایا کہ کینیڈا کے احمدی انسانیت کو ترجیح دینے کے عقیدہ کو فوقیت دیتے ہیں ۔ خلیفۃ المسیح کا پیغام کہ ہم دوسروں کے لئے وہی پسند کریں جو ہم اپنے لئے پسند کرتے ہیں ہم سب کے لئے اہم ہے ۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ سچائی پر مشتمل بہت ہی ضروری پیغام تھا جس میں کافی معلومات تھیں تا کہ باہمی رواداری اور امن قائم ہو ۔خلیفۃ المسیح نے اُن اقدار کی نشاندہی کی ہے جن پرہم سب کو چلنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ یہ اقدار نہ صرف ہمارے شہر Regina یا ہمارے صوبہ Saskatchewan کو مضبوط کرنے کے لئے بلکہ ہمارے ملک اور ہماری دنیا کو مضبوط کرنے کے لئے ہیں۔ جن اقدارپر عمل کرنے کا خلیفۃ المسیح نے ہمیں چیلنج دیاہے ، اگر ہم سب ان کے مطابق زندگی بسر کریں اور ان پر عمل کریں تو ہمارے ملک اور دنیا میں بہتری آئے گی۔
٭ ڈاکٹر فخری زَل الحلیم جو University of Saskatchewan میں Islamic Studies کے پروفیسر ہیں، بیان کرتے ہیں: خلیفۃ المسیح نے جو پیغام دیاوہ بہت اہم تھا۔ وہ در اصل انسانیت کا ہی پیغام دے رہے تھے جس کی ہمیں آجکل ضرورت ہے، خصوصاً مسلم کمیونٹی میں۔ہمیں اختلافات کے باوجود اکٹھے مل کر کام کرنا چاہئے ۔ میں نے خلیفۃ المسیح کے خطاب میں ایک رعب دیکھاہے۔
٭ ریجائنا پولیس سروس کے چیف Evan Bray صاحب جنہوں نے ایڈریس بھی کیا تھا اپنے تاثرات کا اظہارکرتے ہوئے کہا: یہ ایک شاندار شام تھی۔ سب سے پہلے تو مجھے فخر ہے کہ Regina Police Service یہاں موجود تھی اور اس تقریب کا حصہ تھی۔ حضور نے نہایت تحمل سے اور دھیمے لہجہ میں لیکن پرشوکت انداز میں خطاب فرمایا۔
میں سمجھتا ہوں کہ جو پیغام انہوں نے دیا، وہ ایسا پیغام ہے جو سرحدوں اور ملکوں (کی حدود)سے بالا ہے اور خواہ کوئی Regina شہر میں ہو یا کینیڈا کے ملک میں یا دنیا کی کسی بھی جگہ میں ہو، یہ پیغام سمجھ سکتا ہے اور ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔میرے خیال میں یہ بہت ضرور ی ہے کہ ریجائنا اور کینیڈا کے لوگ اسلام کے سچے پیغام کو سنیں۔ اور یہی بات ہے جو ہمارے ملک اور صوبہ کو ممتاز بناتی ہے۔ ہماری کمیونٹی اس بات پر مبنی ہے کہ ایک دوسرے کی انفرادیت کو قبول کیا جائے ۔
٭ تقریب میں شامل ایک اور مہمان نے کہا: یہ امن، دوستی ، محبت اور تفہیم کا عظیم پیغام تھا جس کی دنیا کو اشدّ ضرورت ہے۔ خلیفۃ المسیح ایک عظیم سفیر ہیں، عظیم مقرّر اور ایک عظیم انسان ہیں۔ میں نے ان کی تقریر کو بہت پسند کیا۔
یہ نہایت ضروری ہے کہ اسلام کی حقیقی تعلیم لوگوں تک پہنچے۔ اسلام کے متعلق غلط فہمیاں شمالی امریکہ اور باقی دنیا میں مسائل پیدا کر رہی ہیں۔ لیکن یہ پیغام بہت ہی واضح، آسان اور بہترین پیغام ہے جسے ہم سب کو سننا چاہئے۔ مجھے خلیفہ کی باتیں سن کر بہت خوشی ہوئی۔ میں جانتا ہوں کہ Regina کی مسلم کمیونٹی بہت ہی دوستانہ اور روشن خیال ہے اور ہماری شہری زندگی میں ہمیشہ اچھا کردار ادا کرنے والی ہے۔ خلیفۃ المسیح کے شخصیت میں ایک رعب اور دبدبہ ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ا ن میں جاذبیت بھی ہے۔ وہ ایک ایسے انسان ہیں جنہیں سننے کو دل چاہتا ہے۔
ہم خلیفۃ المسیح اور اسلام کو یہاں خوش آمدید کہتے ہیں۔ہم بہت خوش ہیں کہ خلیفۃ المسیح یہاں تشریف لائے۔
٭ رومن کیتھولک پادری Glenn Zwimmer صاحب بیان کرتے ہیں: میں بہت عرصہ سے خلیفۃ المسیح کو سننے کے لئے منتظر تھا۔ میں کئی سالوں سے اُن کی بعض تحریرات پڑھ رہا ہوں اور تقاریر سنتا رہا ہوں خصوصاً پچھلے چند دنوں میں انٹرویوز بھی دیکھے ہیں۔ لیکن انہیں دیکھ کر مجھے اندازا ہوا کہ ان کا پیغام ایک حقیقت ہے۔ خدا تعالیٰ کے حقوق کو ادا کرنا، لوگوں کے حقوق ادا کرنا اور لوگوں کا خیال رکھنا در اصل ایک عبادت ہے۔ پس مسجد عبادت کرنے کی ایسی جگہ ہے جہاں ہم سب مل کر عبادت کرتے ہیں اور جہاں سے لوگوں کی خدمت کی جاتی ہے ۔
ہم اسلام کے اس حقیقی پیغام کو جتنا بھی سنیں، اتنا ہی کم ہے۔ جو باتیں خلیفۃ المسیح نے بیان فرمائیں اور جو ہم اپنی روز مرہ زندگی میں خبروں میں دیکھتے ہیں وہ بالکل مختلف ہیں۔ لیکن عالمی امن کا پیغام محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں ہماری انسانیت کا بنیادی جزو ہے۔ اور یہ مذہب سے بالا ہے۔ یہ قومیت، زمانہ اور جنس سے بالاہے
٭ ایک مہمان Allan Kirk صاحب جو کہ sociologist ہیں ، نے اپنے تاثرات کا اظہارکرتے ہوئے کہا: میں اس بات سے بہت متأثر ہوا ہوں کہ آپ کے خلیفہ نے نہایت توجہ اور یکسوئی سے عقائد کو پیش کیا۔ میرے لئے خاص طور پر تین پہلو بہت نمایاں تھے: پہلی بات یہ تھی کہ اسلام رواداری کا مذہب ہے جو اختلافِ رائے کو قبول کرتا ہے۔ دوسری بات یہ تھی کہ خلیفہ نے ذکر کیا کہ ملک میں نئے آنے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے نئے ملک سے، اس کے لوگوں سے اور اس کے کلچر سے محبت کریں ۔اور میں سمجھتا ہوں کہ جوں جوں ہجرت کر کے یہاں نئے لوگ آ رہے ہیں ، یہ بات آئندہ نہایت اہم ہو جائے گی ۔ کیونکہ باہمی اقدار کو اپنانا اور تفہیم بھی ضروی ہے۔ تیسری بات یہ تھی کہ خلیفہ نے بہت ہی واضح طور پر اُن مسائل کا ذکر کیا جو شدت پسند اسلام کی وجہ سے ہمیں در پیش ہیں۔ دوسرے مسلمانوں کو بھی شدت پسندوں اور اسلام کی تشدّد پسند تشریح کے خلاف آواز اٹھانی چاہئے ۔
Regina کے لوگوں کے لئے اس نئی مسجد میں آنا اور اسے دیکھنا بہت ضروری ہے۔ میں خود اس میں نماز میں شامل ہونے کے لئے منتظر ہوں۔ میرے خیال میں اس رواداری اور باہمی تعاون کی ہمیں بہت ضرورت ہے۔
میڈیا میں دورہ کی کوریج
اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ریجائنا کے دورہ کے دوران متعدد ٹی وی و ریڈیو چینلز، اخبارات اور دیگر میڈیا کے ذرائع سے پورے شہر اور صوبہ میں جماعت احمدیہ کا پیغام پہنچا۔ جن ٹی وی و ریڈیو چینلز اور اخبارات میں اس حوالہ سے خبریں نشر ہوئیں ان کا اختصار کے ساتھ ذکر ذیل میں درج ہے:
٭ CTV News Saskatchewan جو کینیڈا کا سب سے بڑا پرائیویٹ نیوز نیٹ ورک ہے ان کی سسکاچوان اور نیشنل ٹی وی کی ٹیم نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا انٹرویو لیا تھا۔ اس حوالہ سے انہوں نے اسی روز شام کی خبروں میں اس کو دکھایا اور انفرادی انٹرویو مکمل شائع کیا۔اس کے
تین لاکھ سے زائد کینیڈین افراد تک خبر پہنچی۔
٭ گلوبل ٹی وی نیوز کینیڈا کا تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ دیکھاجانے والا نیٹ ورک ہے۔ انہوں نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا انفرادی انٹرویو لیاجس کے کچھ حصے آن لائن نشر کئے ۔ نیز انٹرویوکے ساتھ وڈیوکے ساتھ ایک آرٹیکل بھی شائع کیا۔ نیز اس ٹی وی چینل نے Ramada Hotel میں مسجد کی افتتاحی تقریب میں بھی شرکت کی اوروہاں سے لائیونشریات پیش کیں جس کے ذریعہ سے 60ہزار سے زائد احباب تک پیغام پہنچا۔
٭ سی بی سی نیوز کینیڈا کا سب سے زیادہ دیکھاجانے والا ٹیلیویژن نیوز نیٹ ورک ہے۔ انہوں نے بھی اس پروگرام میں شمولیت اختیارکی اور افتتاحی تقریب سے براہِ راست نشریات پیش کیں جو اڑھائی لاکھ سے زائد کینیڈین افراد تک پہنچیں۔
٭ ریجائنا لیڈر پورسٹ (Regina Leader Post) ریجائنا کا سب سے بڑا روزنامہ اخبار ہے۔ ان کا نمائندہ بھی اس پروگرام میں شامل ہوا اور اگلے اخبار میں بھی اور آن لائب ویب سائٹ پر بھی ایک آرٹیکل شائع کیاجس کے ذریعہ 2 لاکھ 35 ہزار سے زائد افراد خبر پہنچی۔
٭ CJME Radio 89 ریجائنا میں خبروں کا سب سے زیادہ سناجانے والا ریڈیو اسٹیشن ہے۔ ان کے نمائندہ نے ریڈیو کی ویب سائٹ پر آن لائن آرٹیکل شائع کیا جس میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دورہ ریجائنا نیز مسجد کے افتتاح، پریس کانفرنس اور صوبہ کے وزیرِ اعلیٰ کے ساتھ ہونے والی میٹنگ کا ذکرکیا۔ اس کے علاوہ دن بھر پریس کانفرنس کے مختلف حصہ ریڈیو پر نشر کرتے رہے جس کے ذریعہ دس ہزار سے زائد لوگوں تک خبر پہنچی۔
٭ ریڈیو کینیڈا کے نمائندہ بھی حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ہونے والی پریس کانفرنس میں شامل ہوئے۔ انہوں نے بھی اس حوالہ سے ایک آن لائن آرٹیکل شائع کیا اور ریڈیو پر خبر نشر کی جس کے ذریعہ 2 لاکھ سے زائد لوگوں تک پیغام پہنچا۔
٭ CKRM 620 بھی ریجائنا کا مشہور ریڈیو سٹیشن ہے۔ ان کے نمائندہ بھی پریس کانفرنس میں شامل ہوئے تھے۔ انہوں نے بھی ایک آرٹیکل آن لائن شائع کیا اور دن بھر ریڈیو پر مختلف اوقات میں خبریں نشر کرتے رہے۔ یہ نشریات دس ہزار سے زائد لوگوں تک پہنچیں۔
٭ اس کے علاوہ بھی بعض دیگر میڈیا کے outlets جن کے نمائندگان ازخود تو اس موقع پر موجود نہ تھے لیکن انہوں نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دورہ ریجائنا اور مسجد کے افتتاح کے حوالہ سے خبریں نشرکیں۔ ان میں Brandon Sun اور Winnipeg Free Press شامل ہیں جن کے ذریعہ ایک لاکھ 22ہزار سے زائد احباب تک پیغام پہنچا۔
اس طرح مجموعی طور پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دورہ ریجائنا اور مسجد کے افتتاح کے حوالہ سے کینیڈا کے ڈیڑھ ملین سے زائد لوگوں تک خبر پہنچی اور انہیں اسلام احمدیت کا تعارف ہوا۔
5 نومبر 2016ء بروز ہفتہ
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح چھ بجکر پینتالیس منٹ پر مسجد محمود میں تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ واپس اپنی قیامگاہ پر تشریف لے آئے۔
صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دفتری ڈاک، خطوط اور رپورٹس ملاحظہ فرمائیں اور ہدایات سے نوازا۔
ریجائنا (Regina) سے روانگی اور لائیڈ منسٹر (Lloydminister) میں ورودمسعود
آج پروگرام کے مطابق ریجائنا سے لائیڈ منسٹر کے لئے روانگی تھی۔
ساڑھے گیارہ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے رہائشی اپارٹمنٹ سے ہوٹل کی لابی (Lobby) میں تشریف لے آئے۔ جہاں ریجائنا جماعت کی عاملہ کے ممبران اور مختلف جماعتی عہدیداران اور کارکنان نے حضور انور کے ساتھ درج ذیل آٹھ گروپس کی صورت میں تصاویر بنوانے کی سعادت پائی۔
1۔نیشنل مجلس عاملہ جماعت ریجائنا2۔مجلس عاملہ انصاراللہ ریجائنا
3۔مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ ریجائنا
4۔مجلس عاملہ Winnipeg جماعت
5۔مجلس عاملہ انصاراللہ Winnipeg جماعت
6۔مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ Winnipeg جماعت
7۔مسجد محمود تعمیراتی پراجیکٹ کی مینیجمنٹ ٹیم
8۔ مسجد محمود کی تعمیر میں کام کرنے والے والنٹیئرز
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو الوداع کہنے کے لئے احباب جماعت ریجائنا مردوخواتین ہوٹل کے باہر جمع تھے۔ گیارہ بجکر چالیس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کروائی اور بعدازاں اپنا ہاتھ بلند کرکے سب کو السلام علیکم کہا اور قافلہ پولیس کے Escort میں لائیڈ منسٹر کے لئے روانہ ہوا۔
پولیس شہر کی حدود سے باہر تک قافلہ کے ساتھ رہی۔ بعدازاں موٹروے پر سفر شروع ہوا۔ ریجائنا سے لائیڈ منسٹر کا فاصلہ 495 کلومیٹر ہے۔
پروگرام کے مطابق راستہ میں سسکاٹون (Saskatoon) شہر میں کچھ دیر کے لئے رک کر نماز ظہر وعصر کی ادائیگی اور دوپہر کے کھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔ مقامی جماعت نے یہ انتظام ہوٹل Comfort Suites کے ایک حصہ میں کیا ہوا تھا۔ قریباً 260 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد موٹروے پر سسکاٹون شہر کی پولیس موجود تھی جس نے قافلہ کو Escort کیا اور پولیس کا یہ اسکواڈ ہوٹل پہنچنے تک ساتھ رہا۔
دوبجکر بیس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی یہاں تشریف آوری ہوئی۔ ہوٹل کے ایک ہال میں نمازوں کی ادائیگی کا انتظام کیا گیا تھا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے نماز ظہر و عصر جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی اور کھانے کے پروگرام کے بعد تین بجکر پینتیس منٹ پر یہاں سے آگے لائیڈ منسٹر کے لئے روانگی ہوئی۔ یہاں سے لائیڈ منسٹر کا فاصلہ 235 کلومیٹر ہے۔
قریباً دو گھنٹے کے سفر کے بعد جب قافلہ لائیڈ منسٹر شہر کی حدود میں داخل ہوا تو موٹروے پر شہر کی مقامی پولیس کی گاڑیاں قافلہ کو Escrot کرنے کے لئے موجود تھیں۔ یہاں سے پولیس نے قافلہ کو Escort کیا اور پانچ بجکر پینتالیس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہوٹل Meridian Inn تشریف آوری ہوئی۔ جہاں نائب امیر کینیڈا عبدالباری ملک صاحب، مقامی صدر جماعت مکرم انور منگلا صاحب اور جماعتی عہدیداران نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو خوش آمدید کہا اور شرف مصافحہ حاصل کیا۔
بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے رہائشی اپارٹمنٹ میں تشریف لے گئے۔
لائیڈ منسٹر (Lloyd Minister) شہر کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس شہر کا نصف حصّہ صوبہ البرٹا (Alberta) میں ہے اور دوسرا نصف حصہ صوبہ Saskatchewan میں واقع ہے۔ اس شہر کی آبادی 31 ہزار سے زائد ہے۔ اس علاقہ میں بڑی کثرت سے تیل کے کنویں ہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سال 2005ء میں اپنے دورۂ کینیڈا کے دوران 20 جون کو ایڈمنٹن سے سسکاٹون جاتے ہوئے لائیڈ منسٹر بھی تشریف لے گئے تھے اور قریباًچار گھنٹے یہاں قیام فرمایا تھا۔ جماعت نے یہاں مسجد کی تعمیر کے لئے ایک عمارت خریدی۔ جولائی 2014ء میں Land Title جماعت کے نام منتقل ہوا۔ مئی 2015ء میں تعمیراتی کام شروع کیا گیا۔ فروری 2016ء میں مسجد کی Renovation مکمل کی گئی۔
Renovation سے قبل جب دوسرے کنٹریکٹر سے تخمینہ لگوایا گیا تو چار لاکھ چالیس ہزار ڈالر تھا۔ لیکن مسجد کی تعمیر میں رضاکاروں نے حصہ لیا۔ جس کی وجہ سے دو لاکھ ڈالر سے زائد رقم بچائی گئی اور دو لاکھ 40ہزار ڈالر میں Renovation کا کام مکمل کرلیا گیا۔ لوکل جماعت کے رضاکاروں کے علاوہ سسکاٹون سے بھی کچھ خدام خدمت کے لئے آتے رہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس مسجد کا نام مسجد بیت الامان رکھا۔ آج اس مسجد کے افتتاح کا پروگرام تھا۔
سات بجکر پچاس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہوٹل سے پولیس Escort میں مسجد بیت الامان کے لئے روانہ ہوئے۔ دس منٹ کے سفر کے بعد آٹھ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مسجد بیت الامان تشریف آوری ہوئی۔ احباب جماعت نے اپنے پیارے آقا کا پُرجوش استقبال کیا اور نعرے بلند کئے۔ بچوں نے خیرمقدمی گیت پیش کئے۔ جونہی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز گاڑی سے باہر تشریف لائے تو مربی سلسلہ لائیڈ منسٹر طارق عظیم صاحب نے حضور انور کو خوش آمدید کہا اور شرف مصافحہ حاصل کیا۔ بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد کی بیرونی دیوار میں نصب تختی کی نقاب کشائی فرمائی اور دعا کروائی۔ اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ مسجد کے اندر تشریف لے آئے اور پروگرام کے مطابق تقریب آمین کا انعقاد ہوا۔
تقریب آمین
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل بارہ بچوں اور بچیوں سے قرآن کریم کی ایک ایک آیت سنی اور آخر پر دعا کروائی:
حسن احمد، محمد طلحہ اٹھوال، تفرید احمد منگلا، عشیل حبیب قریشی، محمد روحان، ہاشم عیان شہزاد، عامر اختر مرزا، بازل احمد، نبیل احمد ملک۔
ماہ نور ملک، مقیط ہارون ملک، تحسین ناصر شیخ۔
حضور انور نے فرمایا یہاں کے بچوں اور بچیوں نے اچھا قرآن کریم پڑھا ہے۔ باقی جگہوں پر بھی ایسا ہی معیار ہونا چاہئے۔
تقریب آمین اور دعا کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نماز مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں جس کے ساتھ باقاعدہ مسجد کا افتتاح عمل میں آیا۔
لائیڈ منسٹر میں حضور انور کے استقبال اور مسجد کے افتتاح کے موقع پر ایڈمنٹن (Edmonton) سے بھی بڑی تعداد میں احباب اور فیملیز یہاں پہنچی تھیں۔ مسجد کا ہال مرد احباب سے بھرا ہوا تھا۔ خواتین کے لئے مسجد کے قریب ہی ایک E.Slaird سکول میں ایک ہال حاصل کرکے نمازوں کی ادائیگی کا انتظام کیا گیا تھا۔
نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کچھ دیر کے لئے خواتین کی طرف تشریف لے گئے۔ جہاں خواتین نے شرف زیارت حاصل کیا اور بچیوں نے استقبالیہ گیت پیش کئے۔
بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی قیامگاہ ہوٹل واپس تشریف لے آئے۔
6 نومبر2016ء بروز اتوار
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح ساڑھے چھ بجے مسجد بیت الامان میں تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز واپس اپنی قیامگاہ پر تشریف لے آئے۔
مسجد بیت الامان کے افتتاح کے موقع پر منعقدہ تقریب
آج مسجد بیت الامان کے افتتاح کے حوالہ سے Agriculture Exhibition Association سنٹر میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ گیارہ بجکر پینتالیس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہوٹل سے روانہ ہوئے اور بارہ بجے مذکورہ Exhibition سنٹر میں آمد ہوئی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز میٹنگ روم میں تشریف لے آئے۔ جہاں درج ذیل مہمان حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی آمد کے منتظر تھے۔
1۔ممبر صوبائی اسمبلی صوبہ Mrs. Colleen Young Saskatchewan
2۔سابق ممبر پارلیمنٹ John Gormley
3۔سابق ممبر پارلیمنٹ Jason Kenney
4۔ میئر لائیڈ منسٹر Gerlad Aalbers
5۔پروونشل کورٹ جج Kim Young
ان مہمانوں نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو خوش آمدید کہا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے باری باری سب سے تعارف حاصل کیا اور گفتگو فرمائی۔
اس موقع پر الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے نمائندے بھی موجود تھے۔
مسجد نور کیلگری کے افتتاح کے حوالہ سے بات ہوئی تو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اس مسجد کا افتتاح 2008ء میں ہوا تھا اور کینیڈا کے سابق پرائم منسٹر Stephen Harper بھی مسجد کی افتتاحی تقریب میں شامل ہوئے تھے۔ زراعت کے حوالہ سے بھی بات چیت ہوئی کہ اس علاقہ میں کون کون سے فصلیں کاشت کی جاتی ہیں۔
بعدازاں بارہ بجکر پندرہ منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہال میں تشریف لے آئے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی آمد سے قبل جملہ مہمان اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے تھے۔ آج کی اس تقریب میں 49 غیرمسلم اور غیرازجماعت مہمان شامل ہوئے۔ جن میں صوبائی اسمبلی کے ممبر، سابق ممبران پارلیمنٹ، میئر لائیڈ منسٹر، میئر نارتھ Battlefords، ڈپٹی میئر، کونسلرز، چرچ کے نمائندے، صوبائی کورٹ کے جج، ڈاکٹرز، Fire Chief اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے۔
تقریب کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو عطاء اللہ علیم صاحب نے کی اور اس کا انگریزی ترجمہ محمدسلمان صاحب نے پیش کیا۔
اس کے بعد مکرم امیرصاحب جماعت احمدیہ کینیڈا نے اپنا تعارفی استقبالیہ ایڈریس پیش کیا جس میں انہوں نے آنے والے مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔
تقریب میں شامل بعض معزز مہمانوں کے استقبالیہ ایڈریسز
٭ بعدازاں لائیڈ منسٹر کے میئر Gerald Aalbers نے اپنا ایڈریس پیش کیا۔ موصوف نے اپنے ایڈریس میں کہا:
میں بحیثیت میئر لائیڈ منسٹر کے سارے شہر کی طرف سے حضور انور کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ میں امید کرتا ہوں کہ کینیڈا میں جماعت کی پچاس سالہ جوبلی اوریہاں مسجد کے افتتاح کے حوالہ سے آپ نے ہمارے ساتھ اچھا وقت گزاراہوگا۔ میں خلیفۃ المسیح کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے اس شہر کو رونق بخشی۔ مجھے امید ہے کہ آپ لائیڈ منسٹر میں گزرے ہوئے وقت سے محظوظ ہوئے ہوں گے۔ اور مجھے امید ہے کہ دوبارہ بھی یہاں تشریف لائیں گے۔
٭ اس کے بعد Legislative Assembly کی ممبر Collen Young صاحبہ نے اپنا ایڈریس پیش کیا۔ موصوفہ نے اپنے ایڈریس میں کہا:
سب سے پہلے میں احمدیہ مسلم جماعت کی شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھے مسجد بیت الامان کے افتتاح پر دعوت دی ہے ۔ یہ ایک بہت اچھا موقع ہے جہاں ہم دوسرے مذاہب کے ماننے والوں، سیاستدانوں اور معاشرے کے دیگر افراد کو اکٹھا کر سکتے ہیں ۔
موصوفہ نے کہا:میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے اس افتتاح کے موقع پرصوبہ سسکاچوان کے وزیراعلیٰ BRAD WAL کی طرف سے آپ سب لوگوں کو خوش آمدید کہنے کا موقع ملا رہا ہے۔ صوبہ Saskatchewan کی ایک صد گیارہ سالہ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ لوگوں کو خوش آمدید کہنے والا صوبہ ہے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ یہ معاشرے کو مضبوط کرنے کاذریعہ ہے۔
موصوفہ نے کہا: ہمارے صوبہ کی بنیاد ہی مل جل کر کام کرنے اور ایمان داری ، محنت ، عزم اور جدّت پسندی جیسی اقدار پر رکھی گئی ہے ۔ ہم امن سے محبت کرنے والے لوگوں کے طور پر جانے جاتے ہیں اور جہاں بھی مدد کی ضرورت ہو ہم پیش پیش ہوتے ہیں۔ اور احمدی مسلمانوں نے یہاں آکر ان اقدار کو مزید مضبوط کیا ہے ۔ ہم دیکھ سکتے ہیں اور ہمیں احساس ہے کہ یہاں کے احمدی کس طرح خلیفۃ المسیح کی قیادت میں انسانیت کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔
موصوفہ نے کہا:جماعت احمدیہ کی کئی چیزوں کی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ مجھے پتہ ہے کہ جماعت احمدیہ نے دنیا بھر میں اور کینیڈا میں بھی بھوک کو ختم کرنے کے لئے ایک پروگرام شروع کیا ہے جس کے ذریعہ ایک ملین پاؤنڈ کا کھانا اکٹھا کیاگیا ہے اور مختلف فلاحی اداروں میں اس کو تقسیم کیا ہے ۔ آپ لوگوں نے بہت سے اولڈ پیپلز ہومز (old people’s homes) میں وقت گزارا ہے اور کئی ہسپتالوں میں خون کے عطیات دئیے ہیں۔ اور مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ آپ لوگوں نے ہائی وے کی صفائی کا بھی پروگرام کیا ۔ آپ نے لوگوں کو اکٹھا کیا اور انہیں اسلام کی سچی تعلیمات سے آگاہ کرنے کے لئے مختلف مذاہب کی کانفرنسز منعقد کیں۔
موصوفہ نے کہا: آپ کی جماعت جو کام کرتی ہے مجھے اس پر فخر ہے اور میں امید کرتی ہوں کہ آپ آئندہ بھی یہ کام اس شہر لائیڈ منسٹر اور صوبہ سسکاچوان میں کرتے رہیں گے۔ مجھے اس بات پر بھی بہت فخر ہے کہ اس صوبہ کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک احمدی مسلمان، محمد فیاض صاحب، قانون ساز کمیٹی کے ممبر بنے ہیں جو آج اس پروگرام میں بھی شامل ہیں۔ فیاض صاحب میرے ساتھ کام کرتے ہیں اور اسمبلی میں میری سیٹ کے ساتھ ہی بیٹھتے ہیں ۔ یہ روزانہ بہت محنت اور ایمان داری سے کام کرتے ہیں تا کہ ریجائنا پاسکوئیل کے لوگوں کے لئے مزید بہتری پیداکر سکیں۔
موصوفہ نے کہا:آج ہم کینیڈا میں احمدیہ مسلم جماعت کا 50 واں سال منا رہے ہیں اور اس شہر میں مسجد کی تعمیر بھی اسی کا حصہ ہے۔ میں آپ کو مسجد کی تعمیر پر مبارکباد دیتی ہوں۔ یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ اس مسجد میں جہاں لوگ خدا تعالیٰ کی عبادت کرسکیں گے وہیں یہ مسجد تعلیم بھی مہیاکرے گی اور اس کے ذریعہ معاشرے کی خدمت کے کام بھی ہوں گے۔
موصوفہ نے کہا: میں ایک مرتبہ پھر خلیفۃ المسیح کو خوش آمدید کہتی ہوں اور شکریہ ادا کرتی ہوں کہ وہ اس شہر میں آئے اور روحانی لحاظ سے لوگوں کی رہنمائی کی۔ خلیفۃ المسیح کی یہاں تشریف آوری ہمارے شہر کے لئے بہت بابرکت ہے ۔ یہاں سیسکیچوان میں بھی ہم اسی تحریک کو اپناتے ہیں کہ ’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘۔ ہم بہت خوش ہیں کہ ہماراتعلق ہر مذہب اور ثقافت سے ہے ۔ ہم متحد ہوکر ایک مضبوط صوبہ اور ملک بنا رہے ہیں ۔
موصوفہ نے اپنے ایڈریس کے آخر میں کہا: آپ سب کا شکریہ کہ آپ سب یہاں آئے اور آپ نے مجھے یہ موقع دیا کہ میں سیسکیچوان کی حکومت کی طرف سے بول سکوں۔ آپ سب کو بہت مبارک ہو۔
٭ بعد ازاں Jason Kenney سابق ممبر آف پارلیمنٹ نے اپنا ایڈریس پیش کیا۔موصوف نے بسم اللہ الرحمان الرحیم اور السلام علیکم کے ساتھ اپنے ایڈریس کا آغاز کیا۔
موصوف نے کہا: میں خلیفۃ المسیح کو ایک مرتبہ پھر کینیڈا میں خوش آمدید کہتاہوں۔ یہ بہت اچھی بات ہے کہ امام جماعت احمدیہ نے ہمارے ساتھ کچھ ہفتے کینیڈا میں گزار رہے ہیں جو کینیڈا میں احمدیہ مسلم جماعت کی جڑیں مزید مضبوط کرنے کا باعث بنے ہیں۔ جماعت احمدیہ ایک ایسی جماعت ہے جوintegration کے لئے ایک نمونہ کے طور پر پیش کی جاسکتی ہے۔ اس جماعت نے کینیڈا کے اندر کثرت کے ساتھ پائی جانے والی دیگر کمیونیٹیز کے باوجود اپنے مذہب اور اپنی شناخت کو قائم رکھا ہے ۔ یہ ایک ایسی جماعت ہے جو ہر طرح سے اسلام پر عمل پیرا ہے اوراس کے ساتھ ساتھ مکمل طور پر کینیڈین بھی ہے ۔ یہی وجہ ہے یہ جماعت نئے آنے والوں کے لئے لئے ایک بہت اچھی مثال ہے ۔
موصوف نے کہا: شاید ہمارے بہت سے کینیڈین لوگوں کو یہ نہیں پتا کہ احمدیہ مسلم جماعت کی مختلف ملکوں میں روزانہ مخالفت کی جاتی ہے ۔ ان کو یہ بھی نہیں معلوم ہو گا کہ اکثر احمدی مسلمان جو کینیڈا میں آئے ہیں وہ ریفیوجی بن کر آئے ہیں، اوران میں کچھ تو پاکستان اور انڈونیشیا میں اور دوسرے ممالک میں سخت مخالفت جھیل کریہاں کینیڈا پہنچے ہیں جوکہ بہت پر امن ،خوشحال اور آزاد ملک ہے۔اس لئے احمدیوں اور کینیڈا کا آپس میں ایک پیار کا تعلق ہے۔ جماعت احمدیہ اس موجودہ دور کی شدت پسندی کے مسئلہ کا تریاق ہے ۔
موصوف نے کہا: احمدی خود شدت پسندی کا شکار ہیں لیکن اس کے باوجود اسلام کی ایسے رنگ میں تبلیغ کرتے ہیں کہ اسلام ایک پُر امن مذہب ہے ۔ جماعت احمدیہ کا نعرہ ’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘ ہرقسم کی نفرت، فساد، تعصب اور شدت پسندی کا تریاق ہے۔ یہ جماعت اس نعرے میں سچے طور پر یقین رکھتی ہے اور اس کا روزمرہ کی زندگی میں ثبوت بھی دیتی ہے ۔
موصوف نے کہا: خلیفۃ المسیح کی یہاں موجودگی کینیڈا کے لئے ایک خوش خبری کے طور پر ہے ۔ لائیڈ منسٹر میں حضرت مرزا مسرور احمدصاحب جیسی شخصیات بہت کم آتی ہیں۔ اس لئے یہ لائیڈ منسٹر کے لئے ایک تاریخی دن ہے ۔ میرے خیال میں تو یہ البرٹا اور سسکاچوان دونوں صوبوں کے لئے ایک تاریخی دن ہے۔ میں خلیفۃ المسیح کا شکریہ اداکرتاہوں کہ آپ یہاں تشریف لائے۔ اسی طرح جماعت احمدیہ کا بھی شکریہ اداکرتاہوں جس نے کینیڈا کو بہت کچھ دیاہے۔ خدا آپ سب پر اورہمارے ملک کینیڈاپر اپنی برکتیں اور فضل نازل کرے ۔ آپ سب کا شکریہ۔
٭ اس کے بعد میڈیا کے نمائندہ John Gormeley جوکہ John Gormley Show کے میزبان ہیں نے اپنا ایڈریس پیش۔ ان کا یہ پروگرام بہت مشہور ہے اور سسکاچوان میں بڑی باقاعدگی سے ہر صبح دیکھاجاتاہے۔
موصوف نے اپنے ایڈریس کا آغاز السلام علیکم سے کیا اور کہا: میں خلیفۃ المسیح کا شکریہ اداکرتا ہوں اور سسکاچوان کے ایک براڈکاسٹر اور جماعت کے دوست ہونے کی حیثیت سے اپنی کمیونٹی کی طرف سے خلیفۃ المسیح کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ مجھے خلیفۃ المسیح کا انٹرویو لینے کا اعزاز ملا۔ اور کچھ دیر پہلے میں نے ایک دلچسپ نشان دیکھا کہ دنیا کے بڑے مذاہب میں سے ایک مذہب کا سربراہ کھیتی باڑی کرنے والوں سے کھیتی باڑی کے بارے میں سوال کر رہاتھا۔میرے خیال میں دنیا کا شاید ہی کوئی مذہبی لیڈر ایسا ہو جولوگوں سے کھیتی باڑی کے مسائل مثلا گندم اگانے وغیرہ کے بارے میں بات چیت کرے۔
موصوف نے کہا: مجھے گزشتہ سال ٹورونٹو میں ہونے والے جلسہ سالانہ میں بھی شامل ہونے کا موقع ملاتھا تب مجھے اندازا ہواکہ جماعت احمدیہ کے مقامی لوگوں کے ساتھ کتنے اچھے تعلقات ہیں۔ Jasson Kenney نے بھی اس بات کا ذکر کیا کہ جماعت کی دنیا کے مختلف حصوں میں مخالفت ہو رہی ہے لیکن اس کے باوجود احمدی اس ملک کے باسی ہونے کی حیثیت سے اس کو بہتر کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور یہ ہم سب کے لئے ایک نمونہ ہے۔
موصوف نے کہا: پس اپنی طرف سے اور اپنے دوستوں کی طرف سے مَیں آپ کی دعوت کا شکریہ اداکرتاہوں اورلائیڈ منسٹر کی طرف سے آپ لوگوں کو اس غیر معمولی ترقی پر مبارکباد دیتا ہوں۔
ان مہمانوں کے مختصرایڈریسز کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 12 بجکر 40 منٹ پر حاضرین سے انگریزی زبان میں خطاب فرمایا۔
اس خطاب کا اردو ترجمہ یہاں پیش کیاجارہاہے۔
حضورانور ایدہ اللہ کا خطاب
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطاب کا آغاز بسم اللہ الرحمان الرحیم سے فرمایا اور تمام مہمانوں کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہا۔ اس کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
سب سے پہلے میں اس موقع پر اپنے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتاہوں جو آج سہ پہرہماری نئی مسجد کے افتتاح کے موقع پر ہمارے ساتھ شامل ہیں۔ آج کی یہ تقریب کوئی سیاسی یا دنیاوی تقریب نہیں ہے اور نہ ہی اس کے انعقاد کا مقصد دنیاوی معاملات پر بحث کرناہے۔ بلکہ یہ خالصتاً ایک مذہبی تقریب ہے جوایک اسلامی جماعت کی طرف سے بنائی جانے والی ایک مذہبی عبادتگاہ یعنی ’مسجد بیت الامان‘ کے افتتاح کی تقریب ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: یہ ایک مسلّم حقیقت ہے کہ ہم اس وقت ایک مشکل دورسے گزر رہے ہیں اور دنیا کا مستقبل بتدریج غیریقینی ہوتاچلاجارہاہے۔ بہت سے ملکوں بالخصوص مسلمان ممالک میں تنازعات میں اضافہ ہوتاچلاجارہاہے۔ جسے ذرہ بھر بھی حالاتِ حاضرہ میں دلچسپی ہے وہ شاید مسلمانوں اور مساجد کے بارہ میں منفی تاثر ہی رکھتاہو اور انہیں خوف وخدشہ کی نظر سے دیکھتاہو۔تقریباً ہر خبرنامہ میں قتل و غارت اورتشدد کی رپورٹیں آرہی ہوتی ہیں کہ حکومتیں مقامی باغیوں سے لڑ رہی ہیں اور خانہ جنگی کی شکل میں گھناؤنے ظلم ڈھائے جارہے ہیں جن کے ذریعہ ہزاروں معصوم لوگ نشانہ بن رہے ہیں اور قتل ہورہے ہیں۔ یہ درندگی نہایت لرزہ انگیز اور انسانیت کے لئے شرم کا مقام ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ہم دیکھ رہے ہیں کہ چھوٹے موٹے اسلحہ کی بجائے نہایت خوفناک اور دہشتناک میزائل اور بھاری بم چلائے جارہے ہیں اور فضائی حملے معمول بن چکے ہیں۔ شہر اور قصبے ملیامیٹ ہورہے ہیں۔ گلیوں میں خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔ اَن گنت لوگ بے گھر ہوچکے ہیں اور اپنے عزیزوں کوکھوچکے ہیں ۔ میڈیاساری دنیا میں ان مظالم کے حوالہ سے مسلسل خبریں نشر کررہاہے۔ اس لئے یہ کوئی حیرانی والی بات نہیں ہے کہ بعض غیر مسلموں کے اندر خوف اور خدشات پیداہوچکے ہیں۔ بعض ملکوں میں تو یہ خدشات بڑھ رہے ہیں اور مسلمانوں سے نفرت اور تعصب میں اضافہ نظرآنا شروع ہوگیاہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: پس ان باتوں کی روشنی میں آپ کا ایک مسجد کی افتتاحی تقریب جو کہ خالصتاً اسلامی تقریب ہے میں شرکت کرنا آپ کی جرأت کی اعلیٰ مثال ہے۔ یہ اس بات کی بھی علامت ہے کہ آپ کا شمار ان لوگوں میں نہیں ہوتاجو اس غلط فہمی کا شکارہوگئے ہیں کہ اسلام انتہاپسندی یا شدت پسندی کا مذہب ہے۔ بلکہ آپ کو اس بات کی سمجھ بوجھ ہے کہ مسلمان ممالک میں امن کے فقدان اور فساد کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔مسلمان ممالک میں امن کا فقدان اور فساد کسی بھی طرح اسلامی تعلیمات کے ساتھ منسلک نہیں۔ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ آپ کو اس بات کا احساس ہے کہ یہ فسادات دراصل مقامی حکومتوں اور باغی گروہوں کی ایک دوسرے پر غلبہ پانے کی احمقانہ روش اور ذاتی مفادات کو ہر چیزپر ترجیح دینے کے نتیجہ میں ہورہے ہیں۔ اس کے برعکس آپ کو احمدی مسلمانوں سے مل کر پتہ چل گیاہوگاکہ ہمارے عقائد اور اعمال تو مسلم دنیا میں ہونے والے ظلم اور ناانصافی سے کلیۃً منافی ہیں ۔ دنیا کے کسی بھی قصبہ، شہر اور ملک میں رہنے والا ہر احمدی ہر قسم کی انتہاپسندی کی مذمت کرتاہے اور چند مسلمان ملکوں میں ہونے والے فساد اور کشت و خون پر شدید غم اور دُکھ محسوس کرتاہے۔ اسی طرح جب ہم خود کش اور دیگر سفاکانہ حملے دیکھتے ہیں جوکہ نہ صرف مسلمان ممالک بلکہ اب مغربی ممالک میں بڑھ رہے ہیں تو ہمیں شدید دکھ ہوتاہے ۔ ہم تہہ دل سے اس ظلم و بربریت کی مذمت کرتے ہیں اور اسے مکمل طور پر اسلامی تعلیمات کے برعکس سمجھتے ہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ممکن ہے کہ آپ میں سے بعض جو یہاں موجود ہیں یابعض مقامی لوگوں کو اس مسجد کے کھلنے پر تحفظات ہوں باوجود اس کے کہ احمدی مسلمان فطرتی طور پر امن پسند اور روادار ہیں۔ دنیا کے موجودہ حالات کو مدِ نظررکھتے ہوئے ان کے یہ تحفظات کچھ حد تک جائز ہیں اس لئے میں ایک مرتبہ پھر کہتاہوں کہ آپ کا اس تقریب میں شامل ہوناآپ کی بے انتہا بہادری اور وسعت قلبی کی علامت ہے۔ آپ کے اس نیک اور قابلِ تعریف عمل پر میں آپ کا شکرگزار ہوں۔ میرے شکرکے یہ جذبات محض رسمی یا دکھاوا نہیں ہیں بلکہ یہ جذبات خالص اور میرے مذہب اور عقیدہ کے عین مطابق ہیں۔ کیونکہ بانی اسلام رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ جو شخص اپنے ساتھی کا شکرگزار نہیں ہوتاوہ خدا تعالیٰ بھی شکر گزار نہیں بن سکتا۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: پیغمبراسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تعلیم دی ہے کہ دوسروں کا شکرگزاربننا وصلِ الٰہی کا ذریعہ ہے۔ لہٰذا یہ شکر گزاری دراصل ایک حقیقی مسلمان کے لئے نہایت اہم اصول ہے اور اسلام کی کامل اور پرامن تعلیمات کی خوبصورت مثال ہے۔مزید یہ کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایاکہ مسلمانوں کو صرف مسلمانوں کا ہی شکر اداکرنا چاہئے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ مسلمان کو ہر ایک کا شکریہ اداکرنا چاہئے خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب یا عقیدہ سے ہو۔ پس جہاں میرے یہ شکر کے جذبات دل کی گہرائیوں سے ہیں وہیں یہ میرا مذہبی فریضہ بھی ہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ان چند تعارفی کلمات کے ساتھ میں آپ کے سامنے مساجد اور ان کے مقاصد کے حوالہ سے بات کروں گا۔ اسلامی عبادتگاہ کے لئے عربی لفظ مسجد استعمال ہوتاہے جس کے لفظی معانی ایک ایسی جگہ کے ہیں جہاں لوگ مکمل انکساری اور اطاعت کامظاہرہ کرتے ہوئے خداتعالیٰ کی عبادت کے لئے جمع ہوں۔اگر کوئی شخص اس کسرِ نفسی کے ساتھ مسجد میں داخل ہو جبکہ وہ اپنے آپ کو ایک انتہائی معمولی خیال کررہا ہو تووہ کبھی نہیں چاہے گا کہ دوسروں کو نقصان پہنچائے یاکسی دشمنی یا فساد کی وجہ بنے۔ ایک مسلمان جو اپنی نمازیں انکساری کے ساتھ اداکرتاہو وہ ایک رحم دل، شفیق اور دوسروں کا خیال رکھنے والا ہوگا اور غیراخلاقی و غیر قانونی سرگرمیوں اورہر قسم کی بدی سے پرہیز کرنے والا ہوگا۔ اس لئے مساجد فتنہ و فساد کو پھیلانے کی بجائے لوگوں کو اپنے خالقِ حقیقی کی عبادت کے لئے عاجزی کے ساتھ اکٹھا کرنے کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم کی سورۃ المائدہ کی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اور ایک قوم کی (تمہارے ساتھ یہ) عداوت کہ انہوں نے تمہیں مسجد حرام سے روکا تھا تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ تم زیادتی کرو۔ اور تم نیکی اور تقویٰ (کے کاموں) میں باہم (ایک دوسرے کی) مدد کرو اور گناہ اور زیادتی (کی باتوں) میں (ایک دوسرے کی) مدد نہ کیا کرو۔ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ اللہ کی سزا یقیناً سخت (ہوتی) ہے۔
یہ آیت بتاتی ہے کہ ہمیشہ امن کے ساتھ رہنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان ابتدائی مسلمانوں کو، جن پر نہایت سفاکانہ ظلم ہوئے، بے انصافی کا مرتکب ہونے اور ظالم لوگوں کے خلاف ایک حد سے زیادہ تجاوز کرنے سے منع فرمایاہے باوجوداس کے کہ اِن ظالموں نے مسلمانوں کو خانہ کعبہ جو کہ اسلام کی سب سے زیادہ مقدس جگہ ہے میں داخل ہونے سے روکا تھا۔ لہٰذا قرآن کریم نے مسلمانوں کے لئے ایک فقید المثال انصاف، رواداری اور برداشت کا معیار قائم کردیا جس کے مطابق ان کا فرض ہے کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ بھی تقویٰ ، رحم اور نیک نیتی سے کام لیں جنہوں نے مسلمانوں کی مذہبی آزادی سلب کرنے کی کوشش کی تھی۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: قرآن کریم مسلمانوں کو حکم دیتاہے کہ وہ کشیدہ ترین حالات میں بھی بدلہ یا انتقام کی بجائے شرافت اور ہر ممکن اعلیٰ اخلاقی اقدار کا مظاہرہ کریں ۔ اس لئے یہ واضح ہو کہ حقیقی مساجد سے خائف ہونے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ یہ کوئی نفرت یا انتقام لینے کی جگہ نہیں بلکہ یہ مساجد تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کی غرض سے امن ،ہم آہنگی اور اتحاد کی آماجگاہ کے طور پر تعمیرکی جاتی ہیں۔
قرآن کریم سورۃ النساء کی آیت میں اللہ تعالیٰ مزید فرماتاہے کہ : اور تم اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ بناؤ اور والدین کے ساتھ(بہت) احسان (کرو) اور (نیز) رشتہ دار ہمسایوں اور بے تعلق ہمسایوں اور پہلو(میں بیٹھنے)والے لوگوں اور مسافروں اور جن کے تم مالک ہو (ان کے ساتھ بھی)۔ اور جو متکبر اور اترانے والے ہوں انہیں اللہ ہر گز پسند نہیں کرتا۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیاہے کہ وہ تمام لوگوں کے ساتھ ہرموقع پر بہترین اخلاق اور اعلیٰ اقدار کا مظاہرہ کریں۔ یہ آیت مسلمانوں سے تقاضاکرتی ہے وہ رنگ ونسل اور ذات پات سے بالا ہوکر پیارمحبت سے انسانیت کی خدمت کریں اور اس کا دائرہ کار قریبی عزیزوں جس میں ان کے والدین ، رشتہ دار اوردوست احباب آتے ہیں سے شروع ہوکر غریب ، ضرورتمند، یتامیٰ اور معاشرے کے دیگر محروم لوگوں تک جاپہنچے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اسی طرح مسلمانوں کو اپنے ہمسایوں سے پیا رکرنے، ان کی حفاظت کرنے اور ان کا احترام کرنے کی تعلیم دی گئی ہے اور اسلامی تعلیمات کے مطابق ہمسائیگی کا دائرہ کاربھی نہایت وسیع ہے۔ ہمسایوں میں صر ف وہ لوگ شمار نہیں ہوتے جو آپ کے قریب رہتے ہوں بلکہ بہت سے لوگ یعنی آپ کے ساتھ کام کرنے والے اور آپ کے ساتھ سفر کرنے والے بھی ہمسائے ہی کہلاتے ہیں۔ پس اسلام میں محبت کا دائرہ لامتناہی ہے۔ اس لئے ایک حقیقی مسلمان کیونکر دوسروں نقصان پہنچا نے یا معاشرہ میں بدامنی پھیلانے کی وجہ بن سکتاہے؟مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ مسلمان ہرگزتکبر اور غرور کا شکار نہ بنیں بلکہ ہمیشہ عاجز ی اور انکساری اختیارکریں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: یہ اسلام کا طریق ہے اور یہ حقیقی مسلمان کا طریق ہے۔ جس کا مغز یہی ہے کہ اسلام ہر مسلمان سے تمام بنی نوع انسان کے لئے محبت اور ہمدردی کا مظاہر ہ کرنے کا تقاضہ کرتاہے۔ اسلام مسلمان پر فرض قرار دیتاہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ خوشیاں بانٹے اور دوسروں کی تکلیف اور دکھ کو اپنی تکلیف اور دکھ سمجھے۔ مختصر یہ کہ ایک حقیقی مسلمان ایسا شخص ہے جو رحمدل اور غمخوار ہے اور ایک حقیقی مسجدایسی جگہ ہے جو تمام انسانیت کے لئے امن اور تحفظ کا گہوارہ ہے۔ پس ان نیک اور کامل تعلیمات کی روشنی میں کیسے ممکن ہے کہ ایک مسجد کو خطرہ یا خوف کی جگہ سمجھاجائے؟ یقیناً جب بھی اور جہاں بھی احمدی مسلمان مساجد تعمیر کرتے ہیں ان کے دوہی مقاصد ہوتے ہیں۔ ایک تو اللہ تعالیٰ کے حقوق کی دائیگی کی جائے اور دوسرا انسانیت کے حقوق کی ادائیگی کی جائے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ہماری مساجد اس مقصد کو لے کر تعمیر کی جاتی ہیں کہ لوگوں کو متحد کیاجائے، ہمسایوں اور مقامی لوگوں کی خدمت کی جائے۔ ہماری مسجدیں وہ روشن مشعلیں ہیں جن سے امن، محبت اور انسانیت کی کرنیں پھوٹتی ہیں۔جہاں کہیں بھی ہم نے مساجد تعمیر کی ہیں یا جماعتیں قائم کی ہیں وہاں ہم نے مقامی لوگوں کی تکالیف دور کرنے کی کوشش کی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حقوق کی ادائیگی کو بنی نوع انسان کے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ وابستہ کر رکھاہے۔ ہمارا دین ہمیں تعلیم دیتاہے کہ اگر ہم اپنے گردو پیش بسنے والوں کے ساتھ پیار، محبت ہمدردی کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو ہماری عبادتیں اور دعائیں بے معنی ہیں۔ چنانچہ اس تعلیم کی روشنی میں ہم معاشر ہ کے کمزوراور غریب افراد کو بہترین مستقبل مہیاکرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طو پر افریقہ اور دنیا کے بعض دوسرے حصوں میں جماعت احمدیہ مسلسل مقامی لوگوں کی خدمت کررہی ہے اور مذہب، عقیدہ اور رنگ و نسل سے بالا ہوکر ان کی ضروریات پوری کررہی ہے۔ ہم دنیا کے پسماندہ ترین علاقوں میں ہسپتال اور سکول تعمیر کرکے انہیں طبی سہولیات اور تعلیم مہیاکررہے ہیں۔ ہم ان لوگوں کو صاف پینے کا پانی بھی مہیا کررہے ہیں ۔ یہاں مغربی ملکوں میں پانی کی اصل قدر کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ ہمارے نلوں اور ٹوٹیوں سے مسلسل پانی بہتارہتاہے۔ جب آپ افریقہ کے دوردراز علاقوں میں جائیں اور اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ کس طرح پانی بھرنے کے لئے چھوٹے چھوٹے بچے سخت گرمی میں اپنے سروں پر رکھے کئی کئی میل پیدل سفر کرتے ہیں تو تب آپ کو اندازا ہوتاہے کہ پانی دراصل کس قدر بیش قیمت نعمت ہے۔ اور وہ پانی جس کے لئے یہ بچے اپنی
جوکھوں میں ڈالتے ہیں شاذ ہی صاف ہوتاہے بلکہ عموماً ایساپانی آلودہ اور بیماریوں کا موجب ہوتاہے۔حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: پس ہم ان لوگوں کی مشکلات دور کرنے کے لئے وہاں پانی کے کنویں اور نلکے لگاتے ہیں جو ان کی دہلیزپر انہیں پینے کا صاف پانی مہیاکرتے ہیں۔ یہ محروم لوگ جب پہلی مرتبہ پینے کا صاف پانی دیکھتے ہیں تو ان کے چہروں پر آنے والی خوشی ناقابل بیان ہوتی ہے۔ یہ بچے اپنے سروں پر مٹی کے برتن رکھ کر گھنٹوں چلنے کی بجائے اُن سکولوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں جو ہماری جماعت تعمیر کرتی ہے۔ ہم انہیں ان کے غربت کے طوق سے نجات دلانے کی کوشش کررہے ہیں اور انہیں اپنے پاؤں پر کھڑاکرنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ یہ بچے بڑے ہوکر نہ صرف اپنے خاندانوں بلکہ اپنی قوم کی بھی خدمت کرسکیں ۔ہم احمدی مسلمان اپنے ہمسایوں اورحاجتمندوں کی خدمت کرکے راحت اور سرور حاصل کرتے ہیں کیونکہ اس طرح ہم اپنے مذہب کی تعلیمات پر عمل کرنے کے قابل بنتے ہیں۔ ہم ان محرومی کاشکارلوگوں کے کندھوں سے مایوسی کا بوجھ اتار کر اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتے ہیں۔ یہی حقیقی اسلام ہے جس میں مسلمان اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے علاوہ یکسوئی سے دوسروں کو فائدہ پہنچانے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اس محدود وقت میں مَیں آپ لوگوں کو مختصراً اسلام کی حقیقی تعلیمات سے متعارف کرواسکاہوں لیکن مجھے یقین ہے کہ میرے ان الفاظ کو سن کر آپ کی ڈھارس بندھی ہوگی۔ اگر کسی کے ذہن میں پہلے کوئی تحفظات تھے تومجھے یقین ہے کہ وہ اب دور ہوچکے ہوں گے۔ مجھے کامل یقین ہے کہ انشاء اللہ آپ لوگ خود دیکھیں گے کہ یہ مسجد صرف احمدیوں کی عبادتگاہ نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان کے لئے امن کا مرکز ہے۔ آپ خود اس بات کا مشاہدہ کریں گے کہ اس علاقہ میں رہنے والے احمدی مسلمان پہلے سے زیادہ اپنے ہمسایوں اور معاشرہ کی خدمت کرنے کی کوشش کرنے والے ہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: میری دعاہے کہ ہمارے ہمسائے اور معاشرے کے تمام افراد خود مشاہدہ کریں گے کہ یہاں کے مقامی احمدی دوسروں کو فائدہ پہنچانے ، ان کا خیال رکھنے اور ان کی خدمت کرنے کے اعلیٰ معیارقائم کرنے والے ہوں گے۔ اور میری دعاہے کہ ہم کبھی کسی کو تکلیف یا دکھ دینے والے نہ ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ یہاں کے مقامی احمدی اس پر عمل کریں گے اور بے غرض ہوکر کشادہ دلوں کے ساتھ انسانیت کی خدمت کرنے والے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ انہیں ایسا کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ ان الفاظ کے ساتھ میں ایک مرتبہ پھر آپ سب کا آج اس پروگرام میں شامل ہونے پر شکریہ اداکرتاہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب فضل فرمائے۔ آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ خطاب ایک بجکر پانچ منٹ تک جاری رہا۔ جونہی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا خطاب ختم ہوا۔ مہمانوں نے کھڑے ہو کر اپنے دلی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کافی دیر تک تالیاں بجائیں۔
بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کروائی۔
اس کے بعد مہمانوں نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی معیت میں کھانا کھایا۔
بعدازاں اس تقریب میں شامل ہونے والے مہمانوں نے باری باری حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کی، ہر ایک نے شرف مصافحہ حاصل کیا اور حضور انور کے ساتھ تصویر بنوائی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت مہمانوں سے گفتگو فرمائی۔
مہمانوں سے ملاقاتوں کے پروگرام کے بعد یہ تقریب دو بجکر پانچ منٹ پر ختم ہوئی۔
(باقی آئندہ)