متفرق مضامین

وہ جس پہ رات ستارے لئے اترتی ہے (قسط دہم)

(آصف محمود باسط)

غالباً 2008ء کا جلسہ سالانہ تھا۔ جلسہ سے کچھ روز پہلے ارشاد موصول ہوا کہ خاکسار ایک پروگرام کرے جس کا سلسلہ تینوں دنوں پر محیط ہو۔اس کے لئے ربوہ سے آئے ہوئے کچھ بزرگان کے نام بھی حضور نے پیغام میں ارشاد فرمائے تھے کہ پروگرام ان سب کے ساتھ ہو۔نیز یہ بھی حکم تھا کہ حاضر ہوکر مزید ہدایات لوں۔ حاضر ہواتو فرمایا کہ ان بزرگوں کے پاس جو معلومات ہیں وہ دنیا تک بھی پہنچیں، اس لئے ان بزرگان کے ساتھ پروگرام کر لینا۔ مَیں نے تجویزکے طور پر عرض کی کہ یہ دو صاحب ایک پروگرام میں، اور یہ دو دوسرے میں اور یہ دو تیسرے پروگرام میں رکھ لئے جائیں۔ فرمایا کہ پہلے پروگرام میں جن دو بزرگوں کو ایک ساتھ رکھ لیا ہے، ان میں سے ایک ہی بولے گا دوسرے صاحب تو بیٹھ کر سنتے رہیں گے اورتم سے ناراض ہوں گے کہ مجھے ویسے ہی بٹھا لیا۔ لیکن ٹھیک ہے، اسی طرح کر لو۔

اب جب یہ پروگرام کیا گیا توتقریباً وہی صورتحال بنتے بنتے بچی۔ مگر بچی بھی کیا، ایک صاحب کی بات اس قدر لمبی ہو گئی کہ دوسرے بزرگ چُپ چاپ ان کی بات سنتے رہے۔ پھر مَیں نے کسی مناسب وقفہ کا انتظار کیا کہ جب بھی توقّف ہو، مَیں دوسرے بزرگ سے سوال پوچھ لوں۔ میں بہ دقّت ایسا کرنے میں کامیاب تو ہوگیا مگر پروگرام کے بعددونوں بزرگ تشنگی کی شکایت لے کر سٹوڈیو سے نکلے ۔پھر اگلے روز کے پروگرام میں کچھ ترمیم کی اور جو صاحب کم بول پائے تھے، انہیں مزید وقت دیا گیا۔جلسہ کے بعد ساری صورتحال عرض کی تو فرمایا کہ میں نے تو بتا دیا تھا کہ ایسا ہی ہوگا، لیکن پھر مَیں نے سوچا تمہیں تجربہ بھی ہو جائے۔اب بظاہر یہ معمولی بات نظر آتی ہے، مگر اس میں بھی مجھ ناتجربہ کار کو ایک ایسا سبق دیا جس کا خیال میں نے اس دن کے بعد سے ہمیشہ رکھا۔ کیونکہ سبق یہ تھا کہ پروگرام کے میزبان کو اپنے مہمانوں کی طبائع کا بھی کچھ علم ہونا ضروری ہے۔ ورنہ پروگرام اس کے قابو سے نکل جاتا ہے اور مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اس کے بعد سے خود میں نے بھی یہ اہتمام کیااور کرتا ہوں اور اپنے رفقا ءکار میں سے جس کے سپرد بھی کسی پروگرام کی میزبانی کی ذمہ داری ہوئی، ان کے لئے بھی اہتمام کیا ہےکہ وہ اپنے شرکاء گفتگو سے پہلے مل کر شناسائی حاصل کر لیں اور اس موضوع پر پہلے گفتگو بھی کر لیں تاکہ اندازہ ہو کہ کون کتنی گفتگو کر ے گا۔

’راہِ ہُدیٰ‘ جب ’’پرسیکیوشن نیوز‘‘ اور پھر ’’پرسیکیوشن‘‘ کی منازل سے گزرتا ’’راہِ ہُدیٰ‘‘ تک پہنچا تو اس پروگرام کاset وہی رہا۔ چہرے بھی کم و بیش وہی تھے جو پروگرام کے نام اور نوعیت کی تبدیلی سے پہلے آیا کرتے تھے۔ اس کے باعث تاثر پرانے پروگرام کا ہی رہا جو کہ لائیو نہیں ہوا کرتے تھے۔ایک روز حضور انور نے فرمایا کہ ’’تمہارا سیٹ تو وہی پرانا ہے، وہ نہیں بدلنا؟‘‘ ۔ ظاہر ہے کہ یہ سوال ہاں یا نہ کا متقاضی توتھا نہیں۔ منشاء مبارک معلوم ہوگیا تھا سو جو میز کرسیاں میسر تھیں انہی کو ملاجلا کر نئے سیٹ کی شکل دے دی۔ اس کے کچھ روز بعد حضور انور بیت الفتوح میں کسی جلسہ سالانہ سے بذریعہ ایم ٹی اے خطاب فرما کر ازراہِ شفقت ایم ٹی اے میں تشریف لائے۔ سٹوڈیو میں تشریف لے جاکر دریافت فرمایا کہ ’راہِ ہدیٰ ‘کہاں ہوتا ہے؟ وہاں پروگرام کے نئے سیٹ کی ادنیٰ سی کوشش رکھی تھی۔ حضور انور نے معیّن طور پر ہدایات ارشاد فرمائیں کہ اس پروگرام کا سیٹ یوں ہو۔ پھر کاغذ اور قلم منگوا کر نقشہ بنا کر دکھایا کہ کچھ یوں ہو۔ ارشاد کی تعمیل میں پروگرام کا سیٹ حضور انور کے منشاء کے مطابق بنانے کی کوشش کی گئی اور آج تک لندن سٹوڈیوز کا سیٹ وہی ہے جو حضور کے ارشاد پر بنایا گیا تھا۔اس باریکی سے حضور کی توجہ دیکھ کر دل میں ایم ٹی اے کے پروگراموں کی اہمیت بھی کئی گنا بڑھ گئی، اور دل سے حضور کے لئے دعا بھی نکلی ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس توجہ اور محبت کا حق ادا کرنے والا بنائے۔آمین۔

………………………………..

دسمبر 2009 میں راہِ ہُدیٰ کو لائیو نشر ہوتے کوئی چھ ماہ کا عرصہ گزر چکا تھا۔ حضور کی شفقت اور نگرانی میں پروگرام مستحکم ہو چکا تھا اور اس سے متعلق ابتدائی مسائل جنہیں انگریزی میں teething problems کہتے ہیں، حل ہو چکے تھے۔ پروگرام سے متعلق معاملات ایک معمول پر آچکے تھے۔ایک روز ’راہِ ہُدیٰ ‘میں جماعت احمدیہ کی تاریخ سے متعلق سوال آیا تو پروگرام کا رُخ جماعت کی تاریخ کی طرف مُڑ گیا۔ ایک روز ملاقات میں حضور انور نے پروگرام کا احوال سنتے ہوئے فرمایا کہ جماعت احمدیہ کی تاریخ پر ایک الگ پروگرام شروع ہونا چاہیے۔ نوجوان نسل کو جماعت کی تاریخ سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔

یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ نئےپروگراموں کی تیاری کے تعلق میں بھی حضور کی رہنمائی حاصل رہی۔ جس طرح ایک ماہر طبیب کو معلوم ہوتا ہے کہ میری دی ہوئی دوا سے جسم میں کیسے عمل اور ردِّ عمل ہوسکتے ہیں، حضور کو بھی بڑا معین طور پر معلوم ہوتا ہے کہ جس کو حضور کی طرف سے حوصلہ افزائی مل رہی ہے، اس کی امنگیں آسمان پر جا پہنچتی ہیں۔ وہ طرح طرح کے خواب سجاتا ہے اور دل کرتا ہے کہ سب کچھ ابھی اور اسی وقت ہو جائے۔ ایسے میں اس سے غلطیاں بھی سرزدہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ سو حضور نے آغاز ہی سے یہ بھی سکھا دیا کہ کام جوش سے نہیں بلکہ ہوش سے کرنا ہے۔ میرا تجربہ ہے کہ حضور کو کسی کام میں غیر ضروری عجلت ہرگز پسند نہیں۔ اس لئے جب بھی جوش اور جذبہ سے کوئی تجویز پیش کی گئی، حضور کی طرف سے ہمیشہ اس پر غور و خوض کی تلقین ہوئی۔ اور کون کون سے شعبے اس کام میں شامل ہوں گے، ان سے بھی پوچھو۔ جہاں ٹیکنیکل معاملات ہیں وہاں ٹیکنیکل شعبوں سے رابطہ کرو۔ کس دن یہ پروگرام کرنا مناسب ہے، شرکاء سے پہلے پوچھ لو، وغیرہ۔ یہ اور ایسے اَن گنت ارشادات ہیں جنہوں نے ایک تڑپتے، پھڑکتے ، اچھلتے، کودتے نوجوان کو آرام ، سکون، غور، تدبر، تفکر ، صبر اور تحمل کا درس دیا۔ اس سے فائدہ میں کس قدر اٹھا سکا، یہ معاملہ خدائے ستّار کے سپرد کرتے ہوئے اتنا عرض کردیتا ہوں کہ یہ ادنیٰ غلام اپنے آقا کا اس احسان پر بےحد ممنون ہے۔ ورنہ ہمیں یہ سبق کہاں سے ملتا کہ ہر بار عشق کا بے خطر کود جانا ہی برمحل نہیں ہوتا، بلکہ عقل کی طرح کچھ دیر لبِ بام رک کر صورتحال کو سمجھ لینا بھی مفید ہوتا ہے۔ یہی متوسط راہیں ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے پسند فرمائیں اور یہی راہیں آج ہم حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی رہنمائی میں دیکھ رہے ہیں۔

………………………………….

اب واپس آتے ہیں اس نئے پروگرام کی طرف جو جماعت احمدیہ کی تاریخ پر شروع کرنے کا ارشاد تھا۔ خاکسارنے ٹیکنیکل ڈیپارٹمنٹ سے مشورہ کیا۔ شرکاء کے نام تجویز کرنے سے پہلے شرکا ءسے متعلق معلومات حاصل کیں۔میزبان کی تلاش کی اور پھر حضور انور کی خدمت میں جب اگلی دفعہ حاضر ہوا، پروگرام کا خاکہ پیش کیا۔حضور انور نے ازراہِ شفقت رہنمائی فرماتے ہوئے اسے منظور فرمایا اور یہ پروگرام بھی شروع ہو گیا۔ اس پروگرام کا نام ’’تاریخی حقائق‘‘ حضور انور ہی کی عطا تھا۔ آغاز میں یہ پروگرام عزیزم شاہد محمود صاحب (واقفِ نو) ، برادرم اعجاز احمد طاہر صاحب اور برادرم مشہود اقبال صاحب وقتاً فوقتاً پیش کرتے رہے۔بعد کے کچھ پروگرام محترم عزیز بلال صاحب نے بھی پیش کئے۔ منشاء حضور انور کا یہ تھا کہ زیادہ لوگ پیش کریں تاکہ ہمارے پاس ہر وقت اردو پروگراموں کے میزبان تیار ہوں اور جب ضرورت پڑے، ان سے پروگرام پیش کروا لیا جائے۔ ابتدائی پروگراموں میں محترم منور احمد خورشید صاحب اور محترم نصیر احمد حبیب صاحب مہمان کے طورپر شامل ہوئے۔

یہ پروگرام جاری تھا اور ہر ہفتہ اس کی ریکارڈنگ نشر ہوتی تھی۔ جب گفتگو حضرت مصلح موعودؓ کے دَور تک پہنچی تو میرے دل میں تو آیا کہ اپنے والد محترم عبدالباسط شاہد صاحب کا نام پیش کروں کہ انہیں ’سوانح فضل عمر‘ کی آخری تین جلدیں مرتب کرنے کے توفیق ملی تھی، مگر اپنے والد کا نام پیش کرنے میں انقباض تھا کہ کہیں نامناسب نہ لگے۔ لیکن ایک روز ملاقات میں حضور انور نے فرمایا کہ ’’اپنے ابّا کو کیوں نہیں بلاتے۔ انہوں نے تو ’سوانح فضل عمر‘ پر بھی کام کیا ہوا ہے اور حضرت مصلح موعودؓ سے متعلق اپنی ذاتی یادداشتیں بھی ہوں گی‘‘۔ میرے والد کو ریٹائر ہوئےاس وقت دس برس کا عرصہ بیت چکا تھا۔ مگر حضور انور کو نہ صرف وہ خود یاد تھے بلکہ ان کا کیا ہوا کام بھی اچھی طرح یاد تھا۔ اور بات صرف میرے والد ہی کی نہیں۔پروگرام ’’تاریخی حقائق‘‘ کے لئے حضور انور نے وقتاً فوقتاًمحترم بشیر احمد خان رفیق صاحب (مرحوم) کے بارہ میں بھی فرمایا کہ انہیں بلاؤ۔ پھر ایک مرتبہ محترم کمال یوسف صاحب کےبارہ میں اجازت مرحمت فرمائی کہ انہیں ناروے سے بلا لیاجائے ۔ وہ جب آئے تو ہم نے ان کے ساتھ ایک سے زیادہ پروگرام ریکارڈ کئے۔مجھے یہ دیکھ کر معلوم ہوا کہ حضور کو صرف اپنے ’’حاضرسروس‘‘ ہی نہیں، بلکہ وہ علماء بھی یاد ہیں جو قواعد کی رُو سے تو ریٹائر ہوچکے ہیں،مگر موجود ہیں۔حضور نے ان کی خدمات کا پاس بھی رکھ لیا اورہمارے پروگرام کے لئے بہت اچھے علماء بھی میسر آگئے۔

…………………………………..

اس پروگرام کو جاری ہوئے کچھ وقت گزر گیا اور پروگرام معمول کے مطابق ریکارڈ ہونے اور چلنے لگا، توحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک اور پروگرام کی بنیاد نصب فرمائی۔ یہ غالباً 2010ء کی بات ہے۔ مغربی ممالک میں بہت سے چینل شروع ہو چکے تھے جواسلامی چینل کہلاتے تھے۔ ان میں سے بعض لائیو کال کی سہولت بھی دیتے تھے۔ اس وقت اگرچہ راہِ ہُدیٰ ایم ٹی اے پر شروع ہو چکاتھا اور لائیو کالز کی سہولت بھی میسر تھی مگر چونکہ پروگرام کا مقصد اختلافی مسائل پربحث کرنا تھا، سو فقہی نوعیت کے سوالات پوچھنے والوں سے معذرت کرنا پڑتی ۔ خدشہ یہ ہوتا کہ جونہی موضوع سے ہٹا ہوا سوال لیں گے، بات اصل موضوع سے ہٹ کر کہیں کی کہیں نکل کھڑی ہوگی اور پھر دوبارہ پروگرام کی شیرازہ بندی کرتے کرتے وقت بہت لگ جائے گا۔

اب ہو یہ رہا تھا کہ غیر ازجماعت چینلز پر بیشتر سوالات فقہی نوعیت کے پوچھے جا رہے تھے۔ حضور انور کے علم میں جب یہ بات آئی کہ بعض احمدی حضرات غیرازجماعت نام نہاد مسلم چینلز سے فقہی نوعیت کے مسائل سن رہے ہیں اور احتمال ہے کہ وہ وہاں بتائی جانے والی طرح طرح کی باتوں کو اپنا لیں گے تو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فوری طور پر اجازت مرحمت فرمائی کہ فقہی مسائل پر ایک پروگرام کا آغاز کیا جائے۔ اس پروگرام کا نام بھی ’’فقہی مسائل‘‘ ہی طے پایا۔ برادرم محترم وسیم احمد فضل صاحب اس پروگرام کے میزبان قرار پائےاور ساتھ لندن سٹوڈیو سے برادرم محترم ظہیر احمد خان صاحب اور پاکستان سٹوڈیو سے مکرم ومحترم مبشر احمد کاہلوں صاحب(مفتیٔ سلسلہ) شریک گفتگو ہوتے ۔ ناظرین بذریعہ ای میل اپنے سوالات ارسال کرنے لگے اور ان کے جوابات دئیے جانے لگے۔یوں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خاص توجہ سے دنیا بھر کے احمدی ناظرین کو فقہ احمدیہ کی روشنی میں مسائل کو سمجھنے کا موقع میسر آیا۔ قارئین جانتے ہی ہوں گے کہ فقہ ایک پیچیدہ نوعیت کا علم ہے۔ اس میں بحث کی گنجائش تو رہتی ہی ہے، مگر کج بحثی کا دامن بھی اس علم کے لئے خاصا وسیع ہے۔

اب یہاں ان چینلز کا احوال بھی سنتے چلیں جو خود کو اسلامی چینلز کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ وہاں فقہی نوعیت کے مسائل پر گفتگو ہوتی اور دن رات ہوتی کہ یہ عامّۃ الناس کا من پسند موضوع ہے۔ اگر نماز کی پہلی رکعت جماعت کے ساتھ نہ ملے تو کیا کرنا ہے، روزہ میں تیزابی ڈکار آجائے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے یا قائم رہتا ہے، اگر پاؤں کی چھنگلی پہ چوٹ لگی ہو تو وضو کرتے ہوئے پاؤں دھونا ہوگا یا نہیں، اور دونوں دھونے ہوں گے یا صرف مجروح انگلی والاپاؤں نہ دھویا جائے وغیرہ وغیرہ۔ اب ان چینلز پر بیٹھے علماء میں سے کوئی ایک جواب دیتا تو دوسراوہیں اختلاف کرتا، کبھی تیسرا کہتا کہ دونوں موقف ہی درست نہیں، اصل بات یہ ہے جو مَیں پیش کرنے لگا ہوں۔ کبھی ایک چینل دوسرے چینل پر الزام لگاتا کہ انہوں نے فلاں مسئلہ کا جواب درست نہ دیا اور اصل بات یہ ہے جو آج ہمارے علماء یہاں پیش کریں گے اور وہاں بھی علماء باہم الجھ جاتے۔

تو یہاں ایم ٹی اے پر جب پروگرام فقہی مسائل شروع ہوا تو خلافت کی اہمیت اور برکات کا ایک اورپہلو بھی روشن ہو کر سامنے آیا۔ اگر کہیں محسوس ہوتا کہ ہمارا موقف اتنا واضح اور تسلی بخش نہیں جتنا ہونا چاہیے تو اس مسئلہ کو لے حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں حاضر ہوتا۔ یا تو حضور اسی وقت رہنمائی فرما دیتے یا پھر فرماتے کہ اس پر دارالافتاء کو کہوکہ مجھے رپورٹ بھیجیں۔ دارالافتاء کی طرف سے رپورٹ پیش ہوتی۔ کبھی حضور اس کی بنا پر فیصلہ فرماتے کبھی ملاحظہ فرما کر فرماتے کہ یوں نہیں بلکہ بات کو یوں بیان کیا جائے۔بعض مسائل پروگرام میں بیان ہوئے اور ناظرین میں سے کسی نے حضور انور کی خدمت میں خط لکھ دیا کہ بات واضح نہیں ہوسکی۔ حضور انور نے اس پر ازخود نوٹِس لے کر مسئلہ کا حل بیان فرمایا اور ہمیں عطا کیا کہ اسے اس طرح پروگرام میں بیان کر دیا جائے۔

اس پروگرام کے مسائل حضور کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے بڑے ایمان افروز تجربات بھی ہوئے جن سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضور انورکوفقہ کے علم کا بھی ایک خاص درک عطافرما رکھا ہے۔ خلافت کے منصب پر فائز ہونے سے قبل حضور انور کو قضا کے معاملات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ پھر ایک طویل عرصہ فقہ احمدیہ کا ارتقاء خلافت سے بھی پہلےحضور کے سامنے ہوتا رہا ہے۔ قرآن، حدیث، فرمودات حضرت مسیح موعودؑ اور ارشادات خلفاء حضرت مسیح موعودؑ آپ کے سامنے یا تو مستحضر ہوتے ہیں یا پھر یہ معلوم ہوتا ہے کہ کہاں اس کا سراغ مل سکتا ہے۔ مگر جو ادارہ یا شعبہ جس مقصد کے لئے قائم ہے، اسے حضور خدمت کا موقع ضرور عطا فرماتے ہیں اور ان کی طرف سے تجاویز منگوانے کا اہتمام بھی دیکھا اور اس اہتمام کے ذریعہ ان ادارہ جات اور شعبہ جات کی تربیت ، پرورش اور نشو و نما کا کا م ہوتا بھی دیکھا۔

اب اس پروگرام کو شروع ہوئے کچھ ماہ کا عرصہ گزرا تھا کہ ماہِ رمضان آگیا۔اب یہاں یہ دلچسپ بات بھی بیان کرتا چلوں کہ اس وقت تک میرا خیال یہی رہا کہ پروگرام فقہی مسائل کا آغاز اس دن ہوا جس دن اس نام سے پہلا پروگرام نشر ہوا۔ مگر جونہی ماہِ رمضان آیا تو مجھے یاد آیا کہ اس پروگرام کا سنگِ بنیاد تو حضور پہلے نصب فرماچکے تھے۔ ہوا یوں تھا کہ گزشتہ رمضان میں حضور انور کی اجازت سے ناظرین کے سوالات کے جوابات دینے کے لئے ایک لائیو پروگرام ’’الصیام‘‘ کے نام سے نشر کیا گیا تھا۔ یہ پروگرام صرف رمضان کے مہینہ کے لئے ہفتہ وار تھا اور اس میں ناظرین کو رمضان سے متعلق مسائل دریافت کرنے کا موقع ملا تھا۔ یہ پروگرام برادرم محترم ظہیر احمد خان صاحب نے پیش کیا تھا اور ساتھ ان دنوں محترم مبشر کاہلوں صاحب تشریف لائے ہوئے تھے، وہ بطور مہمان شامل ہوئے۔

تو اب کے جب رمضان آیا تو حضورانورکی خدمت میں درخواست کی گئی کہ’’فقہی مسائل‘‘ کو لائیو نشر کرنے کی اجازت مرحمت فرمائیں۔ حضور کی اجازت سے تب سے یہ پروگرام ہر رمضان میں لائیو نشر ہونے لگا اور لوگ ماہِ رمضان سے متعلق اپنے مسائل پوچھ کر جوابات حاصل کرنے لگے۔

(اس سے قبل بھی گاہے گاہے فقہی نوعیت کے سوالات پر مبنی پروگرام رمضان المبارک میں نشر ہوتے رہے جن میں محترم نصیر احمد قمر صاحب، عبدالماجد طاہر صاحب اور منیرالدین شمس صاحب شریکِ گفتگو ہوا کرتے تھے)۔

ہر پروگرام کی ایک طبعی عمر ہوتی ہے۔ اس پروگرام میں بھی کچھ سال بعد محسوس ہونے لگا کہ اب سوالات میں یکسانیت سی آرہی ہے۔ معاملہ حضور انور کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ حضور کی رہنمائی سے اس پروگرام کا scope بڑھایا اور اس کانام ’’دینی و فقہی مسائل‘‘ کردیا گیا، اس گنجائش کے ساتھ کہ لوگ عام دینی نوعیت کے سوالات بھی پوچھ سکیں۔ یوں پروگرام کی نئی شکل بنی جو آج کل آپ ایم ٹی اے پر ملاحظہ فرماتے ہیں۔اس نئی شکل میں برادرم محترم داؤد احمد عابد صاحب، برادرم منصور احمد ضیاء صاحب اور ربوہ سے محترم انتصار احمد نذر صاحب بھی شامل ہونے لگے۔

تو 2010 ءمیں یہ پروگرام شروع ہوکر مستحکم ہوچکا تھا۔ معمول کے مطابق اس کی ریکارڈنگ ہوتی اور بدھ کے روز نشر ہوجاتا۔

۔۔۔۔۔۔۔(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button