وہ جس پہ رات ستارے لئے اترتی ہے (قسط یازدہم)
اب تک جن تین پروگراموں کا ذکر کیا گیا ہے، وہ تمام اردو زبان کے پروگرام تھے۔ جب بھی پروگراموں کی بات ہوئی، حضور کے ارشادات سے ہمیشہ نوجوان نسل کے لئے توجہ اور فکر نظرآئی۔ اس وقت تک برادرم عمر سفیر صاحب Real Talk کے نام سے پروگرام شروع کر چکے تھے۔ اس پروگرام میں سماجی مسائل اور ان پر جماعت احمدیہ مسلمہ کے نقطۂ نظر پر گفتگو ہوتی۔ اس پروگرام کی معراج وہ اقساط تھیں جو سیدنا حضور اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ کے قیام غانا پر تیار کی گئیں۔ غانا سیریز نے وہ پذیرائی حاصل کی کہ کم کسی پروگرام کو حاصل ہوئی ہوگی۔ پھر پروگرام Faith Matters کا ظہوربھی ہوچکا تھا جس میں ہمارے علماء دنیا بھر سے آئے ہوئے سوالات کے جوابات انگریزی میں پیش کرتے تھے۔ یہ پروگرام بھی بہت مقبول تھا اور آج بھی ہے۔
مگر ایسا انگریزی پروگرام جس میں جماعت احمدیہ کے عقائد پر نوجوانوں کے سوالات کے جوابات نوجوان ہی دیں، موجود نہیں تھا۔ اور یہی سبب Beacon of Truth نامی پروگرام کے ظہور میں آنے کا باعث بنا۔ اس کی کچھ تفصیل گزشتہ مضمون میں آچکی ہے۔
تاہم یہ پروگرام حضور انور کی رہنمائی میں یوں شروع ہوا کہ اس میں شرکاء گفتگو صرف جامعہ احمدیہ یوکے کے طلباء ہوں۔ پروگرام انگریزی میں ہو ،تاکہ مغربی ممالک میں سکونت رکھنے والے احمدی نوجوان اپنی زبان میں اپنی طرز پر سوالات کے جوابات حاصل کر سکیں۔پہلا پروگرام ریکارڈ ہو کر حضور انور کی خدمت میں پیش ہوا تو حضور انور نے بڑی شفقت فرمائی اور پروگرام کو پسند فرمایا۔ یہ نوجوان جو حضور کی گود میں مثلِ طفلِ شیر خوار پل بڑھ کر جوان ہوئے تھے، اپنی نسل کو جماعت احمدیہ مسلمہ کے عقائد سے روشناس کروانے لگے۔ ان کے ساتھ ساتھ سوالات کو ای میل وغیرہ سے یکجا کرنے کا کام بھی طلبا جامعہ کے سپرد ہوا۔ پروگرام آغاز میں ریکارڈکر کے پیش کیا جاتا تھا اور اس میں حاضرین یعنی سٹوڈیو آڈیئینس (audience) بھی ہوتی تھی۔ اس آڈیئینس کے لئے حضور انور نے رہنمائی فرمائی کہ مجلس خدام الاحمدیہ یوکے کے تعاون سے مختلف مجالس کو دعوت دی جائے۔یوں مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ کے تعاون سے سٹوڈیو آڈیئینس میں ایک تنوع آیا اور پروگرام نے بہت دلچسپ رنگ اختیار کر لیا۔
حضور انور کی رہنمائی سے ایک تدبیر یہ بھی کی گئی کہ اس آڈیئینس کو موقع دیا جاتا کہ وہ پروگرام کے دوران اپنے سوالات پینل میں شامل نوجوانوں سے براہِ راست پوچھیں۔ خاکسار آڈیئینس سے الگ میٹنگ کرتا اور انہیں بتاتا کہ پروگرام کا موضوع کیا ہے تا کہ وہ سوالات اس کے مطابق تیار کرلیں۔ مگر ان سوالات سے پینل کو آگاہی نہ دی جاتی تاکہ وہ اسی وقت سوال سن کر فی البدیہہ اس کا جواب پیش کریں۔ یوں پروگرام میں نیچرل رنگ اور ناظرین کی دلچسپی برقرار رہتی۔
خدا کے فضل سےمیرا ہمیشہ سے یہ ایمان رہا ہے کہ خلیفۂ وقت کی نظر بھی اپنے اندر ایک کرشماتی فیض رکھتی ہے۔ اس نظر سے ہی دلوں کی بہت سی مَیل اتر جاتی اور زندگی کی رمق پیدا ہو جاتی ہے۔اگر انسان اپنے کام میں بہتری چاہتا ہے تو اپنے رفقاءکار کا تعلق حضرت خلیفۃ المسیح سے استوار کروانے کے لئے اسے خود بھی کوشش کرنی چاہیے اور انہیں بھی اس طرف توجہ دلاتے رہنا چاہیے۔ اگر ایسانہیں ہوگا تو آپ کے رفقاء کار اس چشمۂ فیض سے محروم رہیں گے اور کام آپ کا اپنا ہی متأثر ہوگا۔ اس لئے ان کے لئے بھی اور اپنے کام کی بہتری کے لئے بھی ضروری ہے کہ انہیں بھی اس نور سے حصہ دلایا جائے جس کی نرم اور دلگیر روشنی میں ہم سب راستہ دیکھنے اور اس پر چلنے کے قابل ہیں۔’بیکن آف ٹروتھ‘ کی اس ٹیم کے لئے خاکسارنے حضور انور سے درخواست کی کہ میں انہیں لے کر حضورکی خدمت میں حاضرہونا چاہتا ہوں۔ حضور انور نے ازراہِ شفقت اجازت مرحمت فرمائی اورملاقات کا شرف بخشا۔ یہ نوجوان حضور انور سے براہِ راست رہنمائی حاصل کر کے پھولے نہیں سماتے تھے۔ اس ایک ملاقات کے بعد ان سب نوجوانوں کےکام میں اللہ نے بہت برکت عطا فرمائی۔ یہ سب اس وقت جامعہ احمدیہ یوکے کے طلبا تھے، مگر اس پروگرام کے باعث کبھی ان کے معمول اوران کے حصولِ تعلیم میں کوئی خلل واقع نہ ہوا۔
یہی پروگرام حضور انور کی شفقت کے نتیجہ میں لائیو پیش ہونے لگا۔ جس روز پہلی مرتبہ یہ پروگرام لائیو پیش ہونا تھا، اس سے ایک روز پہلے پروگرام کے میزبان کی طبیعت شدید خراب ہو گئی۔ پیٹ خراب اور تیز بخار۔اگلے دن لائیو پروگرام کی تیاری تھی اور ادھر یہ مشکل آن کھڑی ہوئی۔ اگلے روز صبح ملاقات تھی۔ اس وقت تک بھی طبیعت بہتر نہ ہوئی تھی۔ میں نے ملاقات میں عرض کردی کہ میزبان صاحب تو اسہال سے نڈھال ہوئے بیٹھے ہیں، اگر اجازت ہو تو کسی متبادل پریزینٹر سے پروگرام پیش کروا لیا جائے۔
حضور انور نے بڑی شفقت سے فرمایا کہ اب اس وقت متبادل پریزینٹر کہاں ڈھونڈو گے۔ تیاری کا بھی وقت نہیں۔ اُس کو کہنا یہ ہومیو پیتھی کی دوائی استعمال کرے، ٹھیک ہو جائے گا۔ اور یہ بھی فرمایا کہ جس طرح امتحانوں کی گھبراہٹ سے لوگوں کی طبیعت خراب ہوجاتی ہے، اسی طرح اس نے بھی پریشر لے لیا ہے۔ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
ملاقات سے نکلا اور دوائی لے کر میزبان صاحب کو پہنچائی۔ ساتھ حضور انور کا پیغام بھی۔ دونوں چیزوں نے اللہ کے خاص فضل سے ایسا رنگ دکھایا کہ ہمارا میزبان شام کو ریکارڈنگ تک بالکل تندرست ہوچکا تھا۔عزیزم قاصد معین احمد صاحب نے صرف اُسی روز ہی نہیں، بلکہ ایک لمبے عرصہ تک پروگرام پیش کیا اور بہت اچھا پیش کرنے کی توفیق پائی۔ یوں اس پروگرام کی لائیو سیریز کے آغاز کے ساتھ ہی حضور کی توجہ اور دعا کا ایک ایسا رنگ وابستہ ہو کر رہ گیا کہ آج تک ہر پروگرام سے پہلے مجھے یہ بات ضرور یاد آتی ہے اور دل سے حضور کے لئے دعا نکلتی ہے کہ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی جماعت کا اما م جس کے شب و روز کا ہر ہرلمحہ طرح طرح کی مصروفیات سے معمور ہے، وہ ایم ٹی اے کے پروگراموں کے لئے اس قدر توجہ اور محبت سے وقت نکالتا ہے۔
اَللّٰھُمَّ اَیَّدْ اِمَامَنَا بِرُوْحِ الْقُدُس۔
ابتدا میں اس پروگرام کو منصور احمد کلارک صاحب پیش کرتے، پھر یہ ذمہ داری قاصد معین صاحب کے سپرد ہوئی ، پھر اس کے بعد کچھ دیر رضا احمد صاحب ، پھر عطاء الفاطر طاہر صاحب (حال متعلم جامعہ احمدیہ یوکے)اور اب اس پروگرام کی میزبانی دانیال کاہلوں صاحب (حال متعلم جامعہ احمدیہ یوکے) کے سپردہے۔
…………………………………..
’راہِ ہدیٰ ‘کو چلتے ہوئے جب کچھ سال کا عرصہ ہو گیا تو ایک روز حضور نے فرمایا کہ ’’راہِ ہُدیٰ وہاں سے کیوں نہیں کرتے جہاں سے راہِ ہُدیٰ کا آغاز ہواتھا۔ قادیان جاؤ اور وہاں سے کرو‘‘۔ اس ارشاد سے محترم فاتح احمد ڈاہری صاحب وکیل تعمیل و تنفیذ (بھارت، نیپال، بھوٹان) کو مطلع کیا گیا۔ (تب یہ وکالت نہیں بنی تھی بلکہ انڈیا ڈیسک کے نام سے یہ شعبہ کام کر رہا تھا اور محترم فاتح صاحب انچارج انڈیا ڈیسک تھے)۔ قادیان میں پروگرام کی تیاری شروع ہو گئی اور یہاں ویزا کی کارروائی۔ پاکستان سے وابستگی یوں بھی کئی مواقع پر یاد آتی رہتی ہے مگر انڈیا کے ویزے کے حصول کے وقت ہر پاکستانی کو اپنی پاکستانیت ویزافارم پُر کرنے سے لے کراس کارروائی کے ہر مرحلہ پر یوں یاد آتی ہے کہ ہوش ٹھکانے آجاتے ہیں۔ ویزا کے حصول کا مرحلہ طول پکڑتا گیا، ادھر قادیان میں پروگرام کی تیاری مکمل تھی۔ یہ تیاری مکرم فاتح صاحب کی نگرانی میں قادیان کے شعبہ ایم ٹی اے نے بڑی سرعت کے ساتھ مکمل کرلی۔ وہاں سے پروگرام ویب سٹریم کے ذریعہ سے لائیو نشر ہونا تھا۔ سو حضور انور نے ارشاد فرمایا کہ پروگرام شروع کر لیا جائے۔ یوں اس پروگرام نے ایک تاریخ ساز مرحلہ دیکھا کہ یہ پروگرام حضرت مسیح موعودؑ کے خلیفہ کے ارشاد پر حضرت مسیح موعودؑ کے مولد و مسکن سے لائیو نشر ہونے لگا۔ وہاں سے محترم ’کے۔ طارق‘ صاحب اسے پیش کرتے اور ساتھ قادیان کے علماء پروگرام میں شریک ہوتے اور آج بھی ہوتے ہیں۔ یوں ایم ٹی اے کی سکرین کو علماء کرام کی ایک نئی کھیپ میسر آئی۔ قادیان میں مقیم جماعت احمدیہ کے علماء کی قابلیت بھی دنیا کے سامنے آئی اور پروگرام نے ایک نیا رنگ اختیار کرلیا۔ ابتدا میں حضور انور کے ارشاد پر قادیان سے چار پروگرام نشر ہوتے، پھر لندن سے چھ پروگرام پیش کئے جاتے۔ پھر چھ وہاں سے چھ یہاں سے، اور اب آٹھ وہاں سے اور چار پروگرام یہاں لندن سے پیش کئے جاتے ہیں۔
یہاں لندن میں اس پروگرام کی میزبانی خاکسار کے سپرد تھی، پھر محترم راجا برہان احمد صاحب اور محترم حافظ محمد ظفراللہ صاحب اور محترم ظافرمحمود ملک صاحب نے بھی اس پروگرام کو پیش کیا۔ وسیم احمد فضل صاحب اور حسیب احمد (پاکستان) بھی اس کے میزبانوں میں شامل رہے۔ ان دنوں محترم ایاز محمود خان صاحب اس پروگرام کی میزبانی کےفرائض ادا کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں ایک اور حیرت انگیز بات کا ذکر ضروری ہے۔ ایم ٹی اے کے بیرونِ ملک سٹوڈیوز امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا جیسے ترقی یافتہ ممالک میں قائم ہیں۔ مگر حضور انور کے ارشاد کی برکت دیکھئے کہ لندن کے علاوہ کہیں اور سے باقاعدہ لائیو پروگرام پیش کرنے کی سعادت قادیان کے حصہ میں آئی۔یہ پروگرام ہفتہ وار ویب سٹریم یعنی انٹرنیٹ کے ذریعہ قادیان سے نشر ہوتا ہے، اس کا signal یہاں لندن میں موصول ہوتا ہے، اور پھر یہاں سے ایم ٹی اے کا مواصلاتی نظام اس سگنل کو سیٹیلائٹس تک بھیج دیتا ہے، اور یوں قادیان دارالامان سے نشر ہونے والا یہ پروگرام براہِ راست دنیا بھر میں دیکھا جاتا ہے۔انٹرنیٹ پر سگنل کے موصول ہونے کے باوجودتصویر اور آواز کا معیار بہت عمدہ ہے۔ سیٹیلائٹ سے بھیجے گئے سگنل سے ذرہ بھی مختلف نہیں۔میرا ایمان ہے حضرت مسیح موعود ؑ کی مقدس بستی سے نشر ہونے والے اس پروگرام کے سگنل قادیان کی مقدس بستی سے ایم ٹی اےکے مواصلاتی نظام کے لئے خیروبرکت لے کرآتے ہیں۔ کیسے نہیں لاتے ہوں گے؟ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ؓ کے الفاظ میں یہ وہ زمین ہے جسے مسیحؑ کے قدم حرم بنا چکے ہیں۔ اس کی پہرہ داری پر فرشتہ نازکرتے ہیں،جو لوگ سکرین پر نظر آتے ہیں اور جو کنٹرول روم سے اس پروگرام کو ممکن بناتے ہیں، انہیں ’’اَلدّار‘‘ کی نگہبانی کا کام بھی سپرد ہے۔ یوں حضور انور کے ارشاد پر راہِ ہُدیٰ وہاں سے نشر ہونے لگا جو جماعت احمدیہ کا نقطۂ آغاز ہے۔ اور حضور کے اس ارشاد کی برکت سے قادیان کی خوشبو ہر ہفتہ ایم ٹی اے کے ذریعہ دنیا بھر میں پہنچنے لگی۔
…………………………………..
اور بہت سے پروگرام ہیں۔ آپ جو ان سطور کے قارئین ہیں، ایم ٹی اے کے ناظرین بھی ہیں۔ اس قدر عرض کردیتا ہوں کہ آپ کو ایم ٹی اے کے وسیع canvas پر پھیلے ہوئے جو رنگا رنگ پروگرام نظر آتے ہیں، ان میں جو بھی خیر کا پہلو ہے وہ حضور ہی کی رہنمائی کا مرہونِ منت ہے۔جو چیز آپ کوکہیں پسند نہ آتی ہو، وہ ہماری کوتاہی ہے اور اس کے لئے میں اپنی کوتاہی کا اعتراف کرتے ہوئے آپ سے معذرت بھی کرتا ہوں اور دعا کی درخواست بھی۔
………………………………
آج موقع ہے تو کچھ ایسے امور بھی بتاتا چلوں جو قارئین کے لئے دلچسپی کا باعث ہوں گے۔حضور کی نظر پروگراموں کے مواد پر تو رہتی ہی ہے، مگر یہ سبق بھی حضور ہی سے حاصل ہوا کہ جو آدمی ایم ٹی اے پر بیٹھا ہے، وہ جماعت کا نمائندہ ہے۔ اس کا حلیہ بھی ایسا ہونا چاہیے کہ جماعتی وقار پر کوئی آنچ نہ آئے۔
محترم شہزاد احمد صاحب ، جو اب مربی بن چکے ہیں ریویوآف ریلیجنز میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں حضور کی خدمت میں اپنی فیملی کی ملاقات کی غرض سے حاضر ہوئے۔ کچھ روز پہلے وہ ’بیکن آف ٹروتھ‘ میں شریکِ گفتگو ہوئے تھے۔ وہ خاصے خوش لباس بھی ہیں۔ مگر ملاقات میں حضور نے انہیں فرمایا کہ پروگرام لگا ہوا تھا تو میری نظر اتفاقاً ٹی وی پر پڑی۔ تم نے بغیر کالر کی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ اگرچہ اوپر blazer بھی تھا مگر بغیر کالر کے آدمی informal لگتا ہے۔ اگر ٹائی نہ بھی لگانی ہو تو قمیص کالر والی ہونی چاہیے۔ یہ بھی فرمایا کہ اگر ٹائی کے بغیر کالر والی شرٹ ہو تو اس میں بھی یہ احتیاط ہو کہ چھاتی کے بال نہ نظر آتے ہوں۔انہوں نے یہ بات ہمیں آکر بتائی تو ہم نے تمام شرکاء پروگرام، بلکہ تمام پروگراموں کے لئے یہ پالیسی بنا لی کہ اگر پتلون قمیص پہننی ہو تو یا تو ٹائی استعمال ہو، یا پھر قمیص کالر والی ہو۔
محترم مولانا مبشر احمد کاہلوں صاحب مفتیٔ سلسلہ ہیں۔ مگر مجال ہے کہ ان کے حلیہ سے کوئی بتا سکے کہ بلندپایہ عالمِ دین ہیں۔ عام زبان میں اسے سادگی کہتے ہیں ، سو مولانا کمال درجہ کے سادہ آدمی ہیں۔ نہ لباس میں کوئی تکلّف، نہ بول چال کے انداز میں۔بول چال کا اپنا ہی ایک انداز ہے، اچانک رسمی اختتامیہ کے بغیر بات کو ختم کرکے فیض کا مصرعہ یاد دلاتے ہیں کہ ’’…… جو رُکے تو کوہِ گراں تھے ہم‘‘۔ایک مرتبہ آپ لندن آئے ہوئے تھے تو اپنی تمام تر سادگی کے ساتھ راہِ ہُدیٰ کے سٹوڈیو گیسٹ بنے۔انہوں نے ایک پھولدار سا، مگر نہایت سادہ سویٹر پہن رکھا تھا۔ اگلے ہفتہ جب سٹوڈیو میں پروگرام کے لئے تشریف لائے تو آتے ساتھ وہ سویٹر اتار کر سائڈ پر رکھ دیا۔ مجھے تو نہ تب اعتراض کرنے کی مجال تھی اور نہ اب یہ پوچھنے کی ہمت کہ آج یہ سویٹر اتارکر رکھنے کے پیچھے کیا حکمت ہے۔ خود ہی بتانے لگے کہ پروگرام کے کچھ دن بعد میری ملاقات تھی۔ میں گیا ہی ہوں تو حضور نے فرمایا کہ’ ’تُسی بڑا پُھل دار سویٹر پا کے بیٹھے سی‘‘(آپ بڑا پھول دار سویٹر پہن کر بیٹھے ہوئے تھے)۔ کہنے لگے کہ حضور نے منع تو نہیں فرمایا، مگر شاید اس میں اشارہ ہو کہ لباس پروگرام کے لئے مناسب نہ تھا۔ اللہ انہیں صحت والی زندگی دے۔ ہمارے ایسے بزرگوں کے طفیل ہمیں وہ سبق قول و فعل دونوں سے ملتا ہے کہ خلیفۂ وقت کے اشارہ کو بھی یونہی خیال نہ کرو۔ ہر اشارہ ہمارے لئے واجب الاطاعت ہے۔ اگر کسی اشارہ میں بظاہرکوئی حکم نہیں بھی ہے تو اس میں سے ممکنات کو تلاش کرو اور ان پرعمل کرو۔
…………………………………..
پروگرام ’’راہِ ہُدیٰ‘‘ ہفتہ کی شام نشر ہوتا ہے۔ ایک روز ہفتہ کی صبح خط بنانے اور داڑھی کو تراشنے لگا تو مشین کی کنگھی ایسی تھی کہ ذرا زور سے دباؤ تو دب کر چھوٹے نمبر پر چلی جاتی تھی۔ میں نے بڑے اعتماد سے ٹھوڑی کے بالکل درمیان میں جو مشین چلائی تو کنگھی کا نمبر بالکل آخری نمبر پر چلا گیا۔ عجیب حادثہ تھا۔ داڑھی بالکل بیچ میں سے تقریباً غائب ہو گئی تھی ۔ کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ کیا کروں۔ کبھی مشین کو کوستا کبھی اپنی حماقت کو۔ اب پروگرام یوں تو نہیں کیا جاسکتا تھا کہ ڈاکوؤں جیسی لمبی لمبی قلمیں رکھ کرپروگرام میں بیٹھ جاؤں۔ واحد حل یہی تھا کہ تمام داڑھی کو برابر کر لیا جائے، سو یہی کیا۔ مگر اب داڑھی بہت چھوٹی ہوجانے کے باعث مونچھیں بھی اپنی چادر سے زیادہ پاؤں پھیلائے ہوئے لگتی تھیں۔ پروگرام ہوگیا۔ اگلے روز جب حاضر ہوا تواندر جاتے ہی بڑی محبت سے ارشاد فرمایا کہ’’ میں نے پروگرام کا تھوڑا سا حصہ دیکھ لیا تھا، اور یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ مشین کچھ زیادہ چل گئی ہے‘‘۔ شرمندگی اور ندامت کے ساتھ پورا قصہ بیان کردیا۔ حضور تبسم فرماتے رہے، مگر میں سخت شرمندہ ہوتا رہا کہ حضور نے سب سے پہلے اس بات کا ذکر فرمایا ہے تو یہ عام نہیں خاص بات ہے۔ یعنی جو لوگ ایم ٹی اے پر آئیں،ان کے حلیے ایسے نہ ہوں کہ جماعتی وقار کے خلاف دکھائی دیں۔ اگرچہ داڑھی بالکل غائب تو نہ ہوئی تھی مگر اچانک اتنی نمایاں تبدیلی سے لوگ چونک ضرور گئے ہوں گے۔
………………………………..
ایک مرتبہ حضور انور کی طرف سے کچھ تحقیق کا کام سپرد ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کام میں ایسے جیسے غیب سے مدد فرمائی۔ حکم ملنے کے اگلے ہی روز نکل کھڑا ہوا اور چند گھنٹوں میں جس مواد کی تلاش تھی، حاصل ہو گیا۔میں نے لائبریری ہی سے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو فون کرکے درخواست کی کہ اگر موقع مناسب ہو تو حضور انور سے پوچھ لیں کہ میں شام کی ملاقاتوں کے وقت حاضر ہو جاؤں اور یہ مواد پیش کردوں۔ حضور انور نے ازراہِ شفقت اجازت مرحمت فرمائی کہ شام کی آخری ملاقات کے بعد حاضر ہو جاؤں۔ حاضر ہوا۔ مغرب کی اذان ہو رہی تھی اور حضور اپنی کرسی پر سے اٹھنے ہی والے تھے۔ میرے ہاتھ میں کاغذات دیکھ کر فرمایا ’‘کیا لائے ہو؟‘‘ اور اپنے پاس یعنی جدھر حضور کی کرسی ہوتی ہے، ادھر بلالیا۔ میں پاس کھڑا ہوکر حضور کو تحقیق کے بارہ میں بتاتا رہا، حضور سنتے رہے۔ حضور نے پوری بات سن کر میری حوصلہ افزائی بھی فرمائی۔ پھر اچانک میں نے دیکھا کہ حضور میرے جوتوں کی طرف دیکھ کر مسکرا رہے ہیں۔ میں گھبرا سا گیا تو فرمایا ’’یہ جوتے کہاں سے لئے ہیں؟‘‘ ۔ میں نے عرض کر دی۔ بات یہ تھی کہ جوتے سادہ سے ہی تھے مگر ان کا ڈیزائن کچھ نامانوس قسم کا تھا۔ فرمایا ’’یہ جوتے پروگرام میں تو نہیں پہن کر بیٹھتے؟‘‘۔ عرض کی کہ جی نہیں حضور۔ اس کے بعد آپ نے کچھ نہ فرمایا اوردفتر سے تشریف لے جانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ساتھ میری گھبراہٹ دیکھ کر مسکراتے اور ہنستے بھی جاتے۔ میں باہر آکر بھی اس بات سے لطف لیتا رہا کہ حضور کس باریکی سے مشاہدہ فرماتے ہیں۔ میں عرض تو نہ کر سکا کہ حضور میں تو آپ سے ملاقات کے لئے بھی کبھی یہ جوتے پہن کر حاضر نہ ہوتا اگر بسوں ٹرینوں میں سفر کرتا سیدھانہ آرہا ہوتا، مگر یہ عرض بھی کس لئے کرتا۔ حضورکے در سے ایک اور سبق اٹھا لانے اور اپنے رفقاء کار تک بھی پہنچانے کا سبب اللہ نے پیدا فرمایا تھا۔یعنی یہ کہ پروگرام میں ایسی باتوں کا بھی خیال کیا جائے جو عام طور پر نظر انداز ہوجاتی ہیں۔ حضور ہماری ہی نہیں ناظرین کی نفسیات کا بھی خوب علم رکھتے ہیں۔ نفسیات میں پڑھ رکھا تھا کہ اچھے ادارے جب ملازمت کے لئے امیدواروں کا انٹرویو لیتے ہیں تو ایک ماہرِ نفسیات کو بھی بلاتے ہیں۔ وہ ماہرِ نفسیات باہر جاکر اگلے امیدوار کا نام پکارتا ہے اور اسے انٹرویو کے کمرہ تک چلنے کا کہتا ہے۔ امیدوار آگے چلتاہے اور ماہرِ نفسیات پیچھےپیچھے۔ مگر پیچھے چلتے وہ دیکھ رہا ہوتا ہے کہ امیدوار نے بال صرف سامنے سے سنوارے ہیں یا پیچھے سے بھی۔ جوتے صرف سامنے سے چمکا لئے ہیں یا پیچھے سے بھی صاف کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ اس سےمعلوم ہوجاتا ہے کہ امید وار صرف ظاہرداری کا قائل ہے یا کام میں گہرائی بھی ہوگی۔ ہمارے پیارے امام نے اس باریکی سے ان باتوں کا خیال رکھا تاکہ ناظرین پر کسی بھی طرح کا کوئی منفی تاثر پیدا نہ ہو۔
یہ تو تھے سلسلہ وار پروگرام جن میں ہمیں حضور انور کی طرف سے بڑی باریکی، بڑی گہرائی کے ساتھ توجہ اور رہنمائی حاصل رہی۔ حضور کی توجہ ایم ٹی اے کے دیگر پروگراموں پربھی کس طرح حاصل رہتی ہے، اس پر بات انشا اللہ آئندہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(باقی آئندہ)