تقریر جلسہ سالانہحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزخطاب حضور انورمضامین

جماعت احمدیہ کینیڈا کے جلسہ سالانہ کے موقع پر اختتامی خطاب

(جماعت احمدیہ کینیڈا کے40ویں جلسہ سالانہ کے موقع پر09؍اکتوبر2016ء کو سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا انٹرنیشنل سینٹر Mississauga میں اختتامی خطاب)

آج کی دنیا کا خیال ہے کہ مذہب کی حیثیت ثانوی حیثیت ہے اور اگر ہم نے ترقی کرنی ہے تو اس کے لئے مذہب سے ہٹ کر سوچنے کی ضرورت ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں اکثریت کا یہ خیال ہے کہ دنیا میں جو فساد برپا ہے اس کی وجہ مذہب ہے جبکہ خود یہ بھی تسلیم کرتے ہیں ا ور سکولوں میں پڑھایا بھی جاتا ہے کہ انسان نے بنیادی اخلاق مذہب سے سیکھے۔ انسان کو متمدّن اور بااخلاق بنانے میں مذہب کا ہاتھ ہے، کسی فلسفہ دان کا نہیں۔ گویا کہ خود بھی یہ لوگ جو ایسے خیالات رکھتے ہیں ایک مخمصہ میں پھنسے ہوئے ہیں۔

اس زمانے میں اسلام پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ مسلمانوں کی وجہ سے دنیا کی اس وقت فساد کی حالت ہے جس کا حقیقت سے دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ اسلام کی تعلیم کی وجہ سے یہ حالت نہیں ہے۔ ہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بعض مسلمانوں کے عمل کی وجہ سے بعض جگہ یہ حالت ہوئی ہو گی۔

اگر مسلمان ممالک لڑائیوں اور فساد کی جگہ بنے بھی ہوئے ہیں تو اس میں بڑی طاقتوں کا بھی ہاتھ ہے کیونکہ اسلحہ یا تو اُن سے خریدا جاتا ہے یا اسلحہ مشرقی یورپ کے ممالک سے خریدا جاتا ہے اور سب کو پتا ہے لیکن نہیں روکتے۔ اسلام یہ کہتا ہے کہ کوئی بھی کام چاہے وہ جائز ہو، اگر غلط موقع پر ہور ہا ہے تو وہ ناجائز ہو جاتا ہے۔ اگر حقیقی امن قائم کرنا ہے تو پھر اسلام کی تعلیم کہتی ہے کہ انتہائی اعلیٰ معیار کے انصاف پر قائم ہو جاؤ۔

مختلف آیات قرآنی کے حوالہ سے انصاف کے اعلیٰ معیار کا تذکرہ

ہم اس زمانے میں خوش قسمت ہیں جنہوں نے زمانے کے امام کو مانا ہے، جنہوں نے ہماری صحیح رہنمائی کی ہے، جنہوں نے ہمیں بتایا کہ فسادوں کی بنیاد مذہب اور اس کی تعلیمات نہیں بلکہ فسادوں کی بنیاد مذہب اور خدا تعالیٰ سے دُوری ہے۔

یہ طاقتور قوموں کے مظالم ہی تھے جن کی وجہ سے لیگ آف نیشنز(League of Nations) ناکام ہوئی تھی اور دوسری جنگ عظیم لڑی گئی اور یہی حرکتیں اب یواین او(UNO) بڑی حکومتوں کے دباؤ پر کر رہی ہے اور یو این او(UNO) کی ناکامی بھی شروع ہو چکی ہے اور اب خود بھی یو این او(UNO) کے بعض سابق عہدیدار لکھنے لگ گئے ہیں کہ بے انصافی کی وجہ سے یو این او(UNO) اپنے مقصد میں ناکام ہو چکی ہے۔ پس اگر دیرپا امن قائم کرنا ہے تو انصاف کے یہ اصول قائم کرنے ہوں گے ورنہ لکھنے والے صحیح لکھنا بھی شروع ہو گئے ہیںاور مَیں عرصے سے اس بات کی طرف توجہ بھی دلا رہا ہوں کہ عالمی جنگ منہ پھاڑے کھڑی ہے اور اس کے نتیجہ میں دنیا تباہی کے کنارے پر کھڑی ہے۔

دنیا میں عدل و انصاف اور امن قائم کرنے اور مخصوص حالات میں بعض شرائط کے ساتھ جنگوں کی اجازت دینے اور حالت جنگ میں بھی عدل و انصاف پر مبنی اصول و ضوابط پر مشتمل اسلام کی نہایت خوبصورت اور اعلیٰ تعلیمات کا تذکرہ

یہ وہ خوبصورت تعلیم ہے جسے ہمیں آجکل دنیا کو بتانے کی ضرورت ہے۔ یہ کام یہاں کے رہنے والے ہر احمدی کا ہے کہ دنیا کو بتائیں کہ اسلام تو محبت، پیار اور بھائی چارہ سکھاتا ہے اور اگر اسلام کے نام پر کوئی ظلم ہوتا ہے تو وہ اس کی تعلیم کے خلاف چل کر ہو رہا ہے۔ آج اگر دنیا کے بچاؤ کے لئے کوئی حل ہے تو اسلام کے پاس ہے۔ نہ ہی اسلام سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت ہے، نہ ہی اس خیال کو دل میں جگہ دینے کی ضرورت ہے کہ مذہب فتنہ و فساد کی وجہ ہے یا دنیا کا امن و سکون مذہب کی وجہ سے برباد ہو رہا ہے۔ کسی مذہب نے فساد کی اجازت نہیں دی۔

آج اگر دنیا امن چاہتی ہے، اپنی بقا چاہتی ہے، اپنے بچوں کو اپاہج ہونے سے بچانا چاہتی ہے اور معذور پیدا ہونے سے بچانا چاہتی ہے تو اسلام احمدیت ہی اس کا حل ہے اور اس زمانے کے امام کے ساتھ تعلق جوڑنے میں ہی دنیا کی بقا ہے۔ خدا تعالیٰ کا حق ہم نے ان کو بتانا ہے کہ تم خدا تعالیٰ کا حق ادا کرو تو تمہاری بقا ہے۔ پس اس کے لئے بہت محنت کی ضرورت ہے۔ ہر احمدی کو بہت کوشش کی ضرورت ہے۔ بہت دعاؤں کی ضرورت ہے۔ لیکن کوششیں بھی اس وقت کامیاب ہوتی ہیں، دعائیں بھی اس وقت قبول ہوتی ہیں جب ہمارے عمل بھی اس کے مطابق ہوں ۔ پس ہر احمدی کو اپنے گھروں میں بھی انصاف کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی ضرورت ہے اور اپنے کام کی جگہوں پر بھی انصاف اور عدل قائم کرنے کی ضرورت ہے اور اپنے محلے اور شہر میں بھی اعلیٰ معیار انصاف اور عدل کے قائم کرنے کی ضرورت ہے تا کہ دنیا دیکھے کہ یہ ہیں وہ لوگ جو دنیا کے حقیقی نجات دہندہ حضرت محمد رسول اللہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی پیرو کار ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ


آج کی دنیا کا خیال ہے کہ مذہب کی حیثیت ثانوی حیثیت ہے اور اگر ہم نے ترقی کرنی ہے تو اس کے لئے مذہب سے ہٹ کر سوچنے کی ضرورت ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں اکثریت کا یہ خیال ہے کہ دنیا میں جو فساد برپا ہے اس کی وجہ مذہب ہے جبکہ خود یہ بھی تسلیم کرتے ہیں ا ور سکولوں میں پڑھایا بھی جاتا ہے کہ انسان نے بنیادی اخلاق مذہب سے سیکھے۔ انسان کو متمدّن اور بااخلاق بنانے میں مذہب کا ہاتھ ہے، کسی فلسفہ دان کا نہیں۔ گویا کہ خود بھی یہ لوگ جو ایسے خیالات رکھتے ہیں ایک مخمصہ میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایک طرف تو مذہب کے خلاف ہیں دوسری طرف یہ بھی تسلیم ہے کہ انسان کو بااخلاق بنانے میں ان لوگوں(یعنی انبیاء) کا ہاتھ ہے جنہوں نے کہا کہ ہمیں اس تعلیم اور ان اخلاق کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے۔ پس حقیقت یہی ہے کہ دنیا کو اخلاقی اقدار دینے میں مذہب کا بہت بڑا ہاتھ ہے یا انبیاء کا ہاتھ ہے۔ گو کچھ عرصہ بعد ان انبیاء کی تعلیم بھلائی جاتی رہی۔ کچھ اخلاق اور قواعد کو لوگوں نے یا ان کے سرداروں نے اختیار کر لیا، کچھ کو چھوڑ دیا۔ لیکن بہرحال اللہ تعالیٰ نے ہر قوم میں انبیاء بھیجے جنہوں نے ان کی روحانی اور اخلاقی ترقی کے ساتھ ساتھ تمدّنی ترقی میں بھی کردار ادا کیا اور انہی بنیادوں پر پھر عقل رکھنے والوں نے، سرداروں نے، لیڈروں نے، بعض اخلاق اور اصولوں کو تو اپنا لیا لیکن روحانیت کو چھوڑ دیا۔ نتیجۃً مذہبی اور روحانی حالت میں ترقی کے بجائے تنزل ہوتا چلا گیا۔ اور یہ تنزل ہر قوم میں مذہب کی تعلیم میں مذہبی علماء اور قوم کے سرداروں کے اپنے مفادات کی ترجیح کی وجہ سے آیا۔ انہوں نے مذہب کی تعلیمات کو ایک طرف کر دیا، اپنی ترجیحات اوپر لے آئے، نتیجۃً مذہبی تعلیم میں گراوٹ آ گئی ورنہ اللہ تعالیٰ کی تعلیم تو ہر قوم کے لئے مختلف نہیں ہو سکتی۔ اللہ تعالیٰ جب فرماتا ہے کہ میں نے ہر قوم میں نبی بھیجے تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے انبیاء تو ایک ہی تعلیم لے کر آئے ہوں گے کہ خدا تعالیٰ کی عبادت اور آپس کے تعلقات کی بہتری۔

اکثر صحافی یا غیر مسلم لوگ اسلام کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو انہیں میں یہی کہا کرتا ہوں کہ اسلامی تعلیم کا خلاصہ بھی یہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خلاصۃً ہمیں بیان فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ کا حق ادا کرو اور اس سے محبت کرو اور اس کے بندوں کے حق ادا کرو اور ان سے شفقت کا سلوک کرو(ماخوذ از ملفوظات جلد 3 صفحہ 119۔ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان) اور ہر مذہب نے یہی تعلیم دی ہے اور اسلام کی تعلیم اس معاملے میں سب سے بڑھی ہوئی اور اعلیٰ ہے۔ پس جب مذہب یہ ہے اور اسلام سب سے زیادہ اس تعلیم کا علمبردار ہے تو پھر ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کے فسادوں کی وجہ مذہب ہے اور خاص طور پر اس زمانے میں اسلام پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ مسلمانوں کی وجہ سے دنیا کی اس وقت فساد کی حالت ہے جس کا حقیقت سے دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ اسلام کی تعلیم کی وجہ سے یہ حالت نہیں ہے۔ ہاں ہم کہہ سکتے ہیں کہ بعض مسلمانوں کے عمل کی وجہ سے بعض جگہ یہ حالت ہوئی ہو گی۔

گزشتہ صدی میں دنیا نے دو بڑی عالمی جنگیں دیکھیں۔ کیا ان کی وجہ مذہب تھا یا لیڈروں کی خواہشات اور سیاسی اور جغرافیائی حالات اور لالچیں تھیں؟ اس موجودہ زمانے میں بھی کون سا مسلمان ملک ہے جو انتہائی اعلیٰ قسم کے ہتھیار اور اسلحہ تیار کرتا ہو؟ یہ ترقی یافتہ ملک اور بڑی طاقتیں ہی ہیں جو انتہائی اعلیٰ پائے کے، اعلیٰ معیار کے ہتھیار تیار کرتی ہیں اور پھر تیسری دنیا کے ملکوں کو اور مسلمان ممالک کو یہ بیچے جاتے ہیں۔ حکومتوں کو بھی یہ سامان بیچا جاتا ہے اور حکومت مخالف گروہوں کو بھی یہ سامان بیچا جاتا ہے۔ میں نے تو جب بھی کبھی سیاستدانوں سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے مجھے یہی جواب دیا کہ تم ٹھیک کہتے ہو۔ لیکن پھر وہ خاموش ہو جاتے ہیں کہ اس کی کوئی justification نہیں۔

پس اگر مسلمان ممالک لڑائیوں اور فساد کی جگہ بنے بھی ہوئے ہیں تو اس میں بڑی طاقتوں کا بھی ہاتھ ہے کیونکہ اسلحہ یا تو اُن سے خریدا جاتا ہے یا اسلحہ مشرقی یورپ کے ممالک سے خریدا جاتا ہے اور سب کو پتا ہے لیکن نہیں روکتے۔ روک بھی کس طرح سکتے ہیں کیونکہ خود بھی بیچتے ہیں۔ اور جب کہو کہ فلاں حکومت کو تم اسلحہ بیچ رہے ہو اور وہ اسلحہ ایک چھوٹے سے ملک کے خلاف استعمال ہو رہا ہے، ظلم کی وجہ بن رہا ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں اس سے غرض نہیں ہے۔ ہمارا جو کاروبار ہے یہ قانونی ہے چُھپ کے نہیں بیچ رہے۔ مگر اسلام کہتا ہے کہ یہ جواب غلط ہے۔ الزام تو اسلام پر لگایا جاتا ہے لیکن اسلام کا معیار کیا ہے؟

اسلام یہ کہتا ہے کہ کوئی بھی کام چاہے وہ جائز ہو، اگر غلط موقع پر ہور ہا ہے تو وہ ناجائز ہو جاتا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے عمل صالح پر بہت زور دیا کہ حقیقی مومن وہی ہے جو جائز کام جائز موقع پر اور نیک نیت سے کرے۔

چند دن ہوئے مجھے یہاں ایک صحافی نے پوچھا کہ ہم نہ تو اسلام کی تعلیم جانتے ہیں، نہ اس کی تفصیلات کا پتا ہے۔ تم کہتے ہو کہ اسلام ہی دنیا کے امن کی ضمانت ہے اور آجکل تو بالکل اس کے خلاف نظر آتا ہے۔ یہ کس طرح ضمانت ہے؟ مَیں نے کہا کہ تم نے سارے دنیاوی حربے استعمال کر لئے ہیں لیکن امن قائم نہیں کر سکے۔ مسلمان بھی اسلام کی تعلیم پر عمل نہیں کر رہے اس لئے وہ بھی فساد کی حالت میں سے گزر رہے ہیں۔ اگر حقیقی امن قائم کرنا ہے تو پھر اسلام کی تعلیم کہتی ہے کہ انتہائی اعلیٰ معیار کے انصاف پر قائم ہو جاؤ۔ اور انصاف پر قائم ہونے کا ایک معیار قرآن کریم میں ان الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ سورۃ نساء کی آیت 136ہے کہ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِالْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ۔ اِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا اَوْفَقِیْرًا فَاللّٰہُ اَوْلٰی بِھِمَا۔ فَلاَ تَتَّبِعُوا الْھَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُوْا ۔ وَاِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا(النساء136:)اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہواللہ کی خاطر گواہ بنتے ہوئے انصاف کو مضبوطی سے قائم کرنے والے بن جاؤ خواہ خود اپنے خلاف گواہی دینی پڑے یا والدین اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف۔ خواہ کوئی امیر ہو یا غریب دونوں کا اللہ ہی بہترین نگہبان ہے۔ پس اپنی خواہشات کی پیروی نہ کرو مبادا عدل سے گریز کرو۔ اور اگر تم نے گول مول بات کی یا پہلوتہی کرگئے تو یقینا اللہ جو تم کرتے ہو اس سے بہت باخبر ہے۔

پس یہ وہ معیار ہے جو ذاتی مفادات سے بالا ہو کر عدل و انصاف کرواتا ہے کہ صرف اپنے مفادات نہ دیکھو بلکہ حق بات کے لئے اگر اپنوں کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے تو پرواہ نہ کرو۔ یہ ایک اصولی بات ہے جسے صرف انفرادی اور گھریلو سطح تک ہی محدود نہیں سمجھا جانا چاہئے بلکہ انسانیت کے وسیع تر مفادات کے لئے یہ اصول ہے اور اس کا پھیلاؤ ہے اور ہونا چاہئے۔ ملکوں اور حکومتوں تک بھی اس کا پھیلاؤ ہونا چاہئے۔ یہاں کیا ہوتا ہے؟اس وقت دنیا میں کیا ہو رہا ہے؟ وہ لوگ جو انصاف کے نام پر بڑے بڑے لیکچر دیتے ہیں وہ کیا کرتے ہیں کہ اپنے مفادات کے لئے سب کام ہو رہے ہیں۔ ایک بڑی طاقت حکومت کی مدد کرتی ہے تو دوسری طاقت حکومت مخالف گروہوں کی مدد کرتی ہے تاکہ علاقے میں اپنی برتری قائم رہے۔ مثلاً سعودی عرب کو کئی بلین ڈالرز کا اسلحہ مختلف ممالک کی طرف سے پہنچایا گیا، بیچا گیا اور یہ بھی پتا ہے کہ وہ یمن کے خلاف، ایک چھوٹے سے ملک کے خلاف صرف ان کو تباہ کرنے کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔ پس یہاں مسلمان بھی باوجود اسلام کا دعویٰ کرنے کے خواہشات کی پیروی کے لئے عدل سے دور ہٹ رہے ہیں اور غیر مسلم طاقتیں بھی اپنے مفادات اور خواہشات کی تسکین کے لئے عدل سے دور جا رہی ہیں، انصاف سے دور جا رہی ہیں اور بدامنی پیدا کر رہی ہیں اور یہی وجہ ہے جو دنیا میں فساد کی حالت ہے۔ جن کو انصاف کی کرسی پر بٹھایا گیا ہے وہی انصاف کی دھجیاں اڑا رہے ہیں تو پھر مذہب کو اور خاص طور پر اسلام کو کیوں الزام دیتے ہیں۔

مَیں اکثر جب بھی موقع ملے ان لوگوں کو کہتا ہوں کہ اگر تم انصاف کرو تو دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے۔ اسلام تو انصاف اور عدل کی اتنی تلقین کرتا ہے کہ اس جیسے معیار تو کہیں دیکھے ہی نہیں جا سکتے۔ اس وقت اسلامی تعلیم کے ہر پہلو کو تو بیان نہیں کیا جا سکتا تاہم مَیں قرآن کریم کی بعض آیات اِس وقت پیش کروں گا جن میں اللہ تعالیٰ نے عدل و انصاف کے معیار قائم کرنے، بے چینیاں دور کرنے، امن قائم کرنے کے معیار مقرر فرمائے ہیں اور یہی وہ تعلیم ہے جو دنیا کے امن کی ضمانت ہے۔

سورۃ مائدہ کی آیت 9میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ۔وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَـاٰ نُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا۔ اِعْدِلُوْا ۔ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی۔وَاتَّقُوا اللّٰہَ۔ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۔(المائدۃ9:)کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو!اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے۔ اور اللہ سے ڈرو۔ یقینا اللہ اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو۔

یہ ہے وہ انتہاؤں کو پہنچا ہوا معیار۔ دشمنوں کی بات تو ایک طرف رہی دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ حکومتیں تو اپنے معاہدوں کا بھی پاس نہیں کرتیں۔ ایک طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتی ہیں تو دوسری طرف اگر مفادات حاصل نہ ہوں تو نقصانات پہنچانے کے لئے منصوبہ بندی کرتی ہیں۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ ملکی مفادات بہرحال پہلے ہیں اور ضروری ہیں۔ بیشک اس میں کوئی شک نہیں کہ ملکی مفادات مقدم ہونے چاہئیں لیکن پھر عدل کا تقاضا یہ ہے کہ جو بات ہے کھل کر دوسرے کو بتائی جائے اور واضح کیا جائے کہ اب ہمارا معاہدے پر قائم رہنا ممکن نہیں۔ یہ عدل ہے۔ نہ کہ ظاہری دوستی کا نام ہو اور چھپ کے حملے بھی ہو رہے ہوں۔ نقصان پہنچانے کے منصوبے بھی کئے جا رہے ہوں۔ اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ عہد ایک امانت ہے اور اس کو پورا کرنا بھی ضروری ہے۔ ہم اس زمانے میں خوش قسمت ہیں جنہوں نے زمانے کے امام کو مانا ہے، جنہوں نے ہماری صحیح رہنمائی کی ہے، جنہوں نے ہمیں بتایا کہ فسادوں کی بنیاد مذہب اور اس کی تعلیمات نہیں بلکہ فسادوں کی بنیاد مذہب اور خدا تعالیٰ سے دوری ہے۔ دینی تعلیمات کے حصول کے لئے اپنے مفادات سے بالا تر ہو کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔یہ نہیں کہ اپنے مفادات کے حصول کے لئے عدل و انصاف سے ہٹی ہوئی حرکتیں کرو۔ اگر یہ کرو گے تو پھر تباہی ہے۔ چنانچہ اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :

’’حق اور انصاف پر قائم ہو جاؤ اور چاہئے کہ ہر ایک گواہی تمہاری خدا کے لئے ہو اور چاہئے کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں سچی گواہی سے نہ روکے۔ ‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 361)

پھر ذرا تفصیل بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ:

’’ خدا تعالیٰ نے عدل کے بارے میں جو بغیر سچائی پر پورا قدم مارنے کے حاصل نہیں ہو سکتی فرمایا ہے۔‘‘ یعنی اگر صحیح طرح تم سچائی پر نہیں چلو گے تو عدل حاصل نہیں ہو سکتا۔ فرمایا کہ’’ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَـاٰ نُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا۔ اِعْدِلُوْا ۔ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی یعنی دشمن قوموں کی دشمنی تمہیں انصاف سے مانع نہ ہو‘‘ انصاف کرنے سے نہ روکے۔ فرمایا کہ ’’ انصاف پر قائم رہو کہ تقویٰ اسی میں ہے۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’اب آپ کو معلوم ہے کہ جو قومیں ناحق ستاویں، دکھ دیویں اور خون ریزیاں کریں اور تعاقب کریں اور بچوں اور عورتوں کو قتل کریں جیسا کہ مکّہ والے کافروں نے کیا تھا اور پھر لڑائیوں سے باز نہ آویں ایسے لوگوں کے ساتھ معاملات میں انصاف کے ساتھ برتاؤ کرنا کس قدر مشکل ہوتا ہے۔ مگر قرآنی تعلیم نے ایسے جانی دشمنوں کے حقوق کو بھی ضائع نہیں کیا ۔‘‘ ان جانی دشمنوں کے حقوق کو بھی قائم کیا ہے۔ فرمایا ’’اور انصاف اور راستی کے لئے وصیت کی ہے۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ دشمن سے مدارات سے پیش آنا آسان ہے۔‘‘ یہ تو ٹھیک بات ہے کہ کوئی دشمن ہو اس سے آدمی کہیں موقع ملے تو اخلاق سے پیش آ جائے یا ظاہری اخلاق سے پیش آ جائے ’’مگر دشمن کے حقوق کی حفاظت کرنا اور مقدمات میں عدل و انصاف کو ہاتھ سے نہ دینا یہ بہت مشکل ہے اور فقط جواں مردوں کا کام ہے۔ اکثر لوگ اپنے شریک دشمنوں سے محبت تو کرتے ہیں اور میٹھی میٹھی باتوں سے پیش آتے ہیں مگر ان کے حقوق دبا لیتے ہیں۔ ایک بھائی دوسرے بھائی سے محبت کرتا ہے اور محبت کے پردہ میں دھوکہ دے کر اس کے حقوق دبا لیتا ہے۔ مثلاً اگر زمیندار ہے تو چالاکی سے اس کا نام کاغذات بندوبست میں نہیں لکھواتا اور یوں اتنی محبت کہ اس پر قربان ہؤا جاتا ہے۔ پس خدا تعالیٰ نے اس آیت میں محبت کا ذکر نہ کیا بلکہ معیار محبت کا ذکر کیا ہے۔‘‘ یہ نہیں کہ تم محبت کرو بلکہ یہ کہ تمہاری محبت کا معیار کیا ہونا چاہئے اس کا ذکر کیا ہے ’’کیونکہ جو شخص اپنے جانی دشمن سے عدل کرے گا اور سچائی اور انصاف سے درگزر نہیں کرے گا وہی ہے جو سچی محبت بھی کرتا ہے۔‘‘(نور القرآن نمبر 2، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 409-410) سچائی اور انصاف کو پیچھے نہیں چھوڑے گا تو وہی سچی محبت ہے۔

چھوٹے پیمانے پر دنیا دار انسان اپنے دائرے میں عدل سے دور جا کر یہ حرکتیں کرتا ہے اور بڑے پیمانے پر جیسا کہ میں نے کہا کہ حکومتیں یہ حرکتیں کر رہی ہوتی ہیں اپنے مخالف قوموں کو اس قدر دبایا جاتا ہے کہ جس کی کوئی انتہا نہیں۔ ویسے ظاہری تعلقات بھی ہوتے ہیں۔ ملکوں سے تعلقات اگر خراب ہو جائیں تو ان پر معاشی پابندیاں، اقتصادی پابندیاں لگا کر عوام پر اس کی وجہ سے ظلموں کی انتہا کی جاتی ہے۔ بچے بھوکے مرتے ہیں۔ کسی بھی قوم پر اگر اقتصادی پابندی لگائیں گے تو اس قوم کے بچے بھوکے مریں گے۔ اس قوم کے لوگ بیروز گار ہوں گے۔ ہسپتالوں میں علاج کی سہولتیں یا کم ہو جائیں گی یا بہت مہنگی ہو جائیں گی ۔ مریض مرنے شروع ہو جائیں گے۔ حالانکہ انصاف کا تقاضا یہ تھا اور یہ ہے کہ اگر کسی حکومت کو ظلم سے روکنا ہے تو حکومت کے خلاف کارروائی کی جائے جس کا پھر قرآن کریم نے حل بتایا ہے۔

اگر کوئی حکومت ظلم کر رہی ہے یا بین الاقوامی قوانین کو توڑ رہی ہے یا ہمسایوں کو تنگ کر رہی ہے، ان پہ حملے کر رہی ہے یا اور معاہدات کو توڑ رہی ہے تو اس کے خلاف کس طرح کارروائی کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا فَاِنْ بَغَتْ اِحْدٰ ھُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِی حَتّٰی تَفِیْٓئَ اِلٰٓی اَمْرِاﷲِ۔ فَاِنْ فَآءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا بِا لْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْا۔اِنَّ ﷲَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ (الحجرات10:)اور اگر مومنوں میں سے دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرواؤ۔ پس اگر ان میں سے ایک دوسری کے خلاف سرکشی کرے تو جو زیادتی کررہی ہے اس سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے فیصلہ کی طرف لوٹ آئے۔ پس اگر وہ لوٹ آئے تو ان دونوں کے درمیان عدل سے صلح کرواؤاور انصاف کرو۔ یقینا اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

پس یہ ہے طریقہ ظلموں سے ہاتھ روکنے کا۔ نہ یہ کہ بڑی حکومتیں صرف اپنی برتری حاصل کرنے کے لئے معاشی پابندیاں لگا دیں۔ یہ طاقتور قوموں کے مظالم ہی تھے جن کی وجہ سے لیگ آف نیشنز(League of Nations) ناکام ہوئی تھی اور دوسری جنگ عظیم لڑی گئی اور یہی حرکتیں اب یواین او(UNO) بڑی حکومتوں کے دباؤ پر کر رہی ہے اور یو این او(UNO) کی ناکامی بھی شروع ہو چکی ہے اور اب خود بھی یو این او(UNO) کے بعض سابق عہدیدار لکھنے لگ گئے ہیں کہ بے انصافی کی وجہ سے یو این او(UNO) اپنے مقصد میں ناکام ہو چکی ہے اور اس کے ثبوت میں ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کی حالت ہمارے سامنے ہے۔ روس کی فوجیں شام میں موجود ہیں اور عالمی جنگ کے خطرے بڑھتے چلے جا رہے ہیں بلکہ دو دن ہوئے لندن کے ایک مشہور اخبار ٹائمز نے یہ بھی لکھا تھا غالباً اڈیٹوریل میں کہ عالمی جنگ اور ایٹمی جنگ منہ پھاڑے کھڑی ہے۔

اس آیت میں بیشک مومنوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ ظلم کے ہاتھ کو کس طرح روکنا ہے لیکن اصولی طور پر یہ ہدایت تمام قوموں کے لئے رہنما ہے کہ صلح کرواتے وقت اپنے فوائد اور مفادات کو سامنے نہ رکھا کرو بلکہ اصل مسئلہ کا فیصلہ کرواؤ۔ شاید یو این(UN) نے جب سے یہ قائم ہوئی ہے ایک آدھ معاملہ میں اس کی مثال قائم کی ہو کہ عدل سے اور انصاف سے فیصلہ قائم کیا ہولیکن عموماً یواین(UN) بھی بڑی حکومتوں کے ہاتھوں میں کھلونا ہی بنی رہی ہے۔

پس اگر دیرپا امن قائم کرنا ہے تو انصاف کے یہ اصول قائم کرنے ہوں گے ورنہ لکھنے والے صحیح لکھنا بھی شروع ہو گئے ہیں اور مَیں عرصے سے اس بات کی طرف توجہ بھی دلا رہا ہوں کہ عالمی جنگ منہ پھاڑے کھڑی ہے اور اس کے نتیجہ میں دنیا تباہی کے کنارے پر کھڑی ہے اور اگر وہ ایٹمی جنگ ہوئی جس کا غالب امکان ہے کہ ایٹمی جنگ ہو گی تو پھر اللہ تعالیٰ پناہ دے۔ اپاہج بچوں کی المناک نسل ہم پیچھے چھوڑ کر جائیںگے۔ پس مذہب اور خاص طور پر اسلام تو یہ بتا کر ہوشیار کر رہا ہے کہ ہوش میں آؤ ورنہ یہ فتنہ و فساد تمہیں تباہ کر دیں گے۔

لوگوں سے کیا سلوک ہونا چاہئے اور دنیا کو انصاف سے بڑھ کر کیا دینے اور کیسا سلوک کرنے کی ضرورت ہے تا کہ دنیا میں مکمل انصاف قائم ہو؟ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں:

’’اعمال کے متعلق یہ آیت جامع قرآن شریف میں ہے۔‘‘ کچھ حصہ پڑھ رہاہوں اس آیت کاکہ’’ اِنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآیِٔ ذِی الْقُرْبیٰ(النحل91:)…یعنی خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ انصاف کرو اور عدل پر قائم ہو جاؤ اور اگر اس سے زیادہ کامل بنناچاہو تو پھر احسان کرو ۔یعنی ایسے لوگوں سے سلوک اور نیکی کرو جنہوں نے تم سے کوئی نیکی نہیں کی اور اگر اس سے بھی زیادہ کامل بننا چاہو تو محض ذاتی ہمدردی سے اور محض طبعی جوش سے بغیر نیت کسی شکریہ ممنون منت کرنے کے بنی نوع سے نیکی کرو۔‘‘ یعنی بغیر اس نیت کے کہ کوئی ہمارا شکریہ ادا کرے، ہمارا شکر گزار ہو تب بھی ان سے نیکی کرو۔ فرمایا ’’جیسا کہ ماں اپنے بچے سے فقط اپنے طبعی جوش سے نیکی کرتی ہے‘‘ ایسی نیکی ہونی چاہئے ’’اور فرمایا کہ ’’خدا تمہیں اس سے منع کرتا ہے کہ کوئی زیادتی کرو یا احسان جتلاؤ‘‘۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے احسان نہ جتلاؤ اگر کوئی نیکی کی ہے بلکہ قرآن شریف میں فرمایا کہ ایسی مدد سے جس میں احسان جتایا جائے بہتر ہے کہ تم مدد نہ کرو۔ فرمایا کہ ’’زیادتی کرو یا احسان جتلاؤ یا سچی ہمدردی کرنے والے کے کافر نعمت بنو اور اسی آیت کی تشریح میں ایک اور مقام میں فرماتا ہے وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا۔ اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللّٰہِ لَا نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآئً وَّ لَا شُکُوْرًا(الدھر10-9:)یعنی کامل راستباز جب غریبوں اور یتیموں اور اسیروں کو کھانا دیتے ہیں تو محض خدا کی محبت سے دیتے ہیں۔ نہ کسی اور غرض سے دیتے ہیں۔ اور وہ انہیں مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ یہ خدمت خاص خدا کے لئے ہے۔ اس کا ہم کوئی بدلہ نہیں چاہتے اور نہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارا شکر کرو۔‘‘

(لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 155-156)

لوگ کہتے ہیں یا کہہ سکتے ہیں کہ اگر اسلام کی ایسی ہی اعلیٰ تعلیم ہے اور امن قائم کرنے اور عدل کے قائم کرنے کے اتنے اعلیٰ معیار ہیں تو پھر اسلام میں جنگیں کیوں لڑی گئیں یا اتنا فتنہ و فساد کیوں ہو رہا ہے۔ اس بارے میں تو پہلے ہی مَیں کہہ چکا ہوں کہ آجکل کے جو حالات ہیں وہ فتنہ و فساد مسلمان ملکوں میں اس لئے ہے کہ اسلام کی تعلیم پر عمل نہیں ہے۔ اس کا بھی جواب میں پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں ہی دیتا ہوں۔

آپ فرماتے ہیں بعض لوگ یعنی غیر مسلموں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’بعض لوگ جن کو حق کے ساتھ دشمنی ہوتی ہے‘‘۔ ایسے مخالفین جو مسلمانوں کے مخالف ہیں یا اعتراض کرنا چاہتے ہیں ان کے بارے میں فرمایا کہ ’’بعض لوگ جن کو حق کے ساتھ دشمنی ہوتی ہے جب ایسی تعلیم سنتے ہیں تو اور کچھ نہیں تو یہی اعتراض کر دیتے ہیں کہ اسلام میں اگر ہمدردی کی تعلیم ہوتی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لڑائیاں کیوں کرتے۔ وہ نادان اتنا نہیں سمجھتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جنگ کئے وہ تیرہ برس تک خطرناک دکھ اور تکالیف پر تکالیف اٹھانے کے بعد کئے اور وہ بھی صرف مدافعت کے طور پر‘‘۔وہ دفاع تھا۔ تیرہ برس تک آپ مخالفین اور دشمنوں کے ہاتھ سے تکالیف اٹھاتے رہے۔ ’’ان کے عزیز دوست اور یاروں کو سخت عذاب دیا جاتا رہا اور جور و ظلم کا کوئی بھی ایسا پہلو نہ رہا جو کہ مخالفوں نے ان کے لئے نہ برتا ہو یہاں تک کہ کئی مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ان کے ہاتھ سے شہید بھی ہو گئے۔ اور ان کے ہر وقت کے ایسے شدید ظلموں سے تنگ آ کر بحکم الٰہی شہر ہی چھوڑنا پڑا جب مدینہ منورہ کو تشریف لے گئے اور وہاں بھی ان ظالموں نے پیچھا نہ چھوڑا۔ جب ان کے ظلموں اور شرارتوں کی بات انتہا تک پہنچ گئی تو خدا تعالیٰ نے مظلوم قوم کو اس مظلومانہ حالت میں مقابلہ کا حکم دیا اور وہ بھی اس لئے کہ شریر اپنی شرارت سے باز آ جاویں اور ان کی شرارت سے مخلوق خدا کو بچایا جاوے اور ایک حق پرست قوم اور دین حق کے لئے ایک راہ کھل جائے۔ ‘‘ (ماخوذ از ملفوظات جلد 7صفحہ 284۔ایڈیشن1985ء امطبوعہ انگلستان)

پس اگر اسلام میں جنگوں کی اجازت ہوئی تو کسی ظلم کے لئے نہیں۔ اگر آج کوئی مسلمان لیڈر یا لوگ اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ غلط ہے۔ ظلموں کے لئے کہیں جنگ کی اجازت نہیں ہے بلکہ ظلم کو ختم کرنے کے لئے ہے۔

آجکل بھی دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ ظلم کو ختم کرنے کے نام پر جنگیں ہوتی ہیں اور ان کو بڑا پسند کیا جاتا ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ عراق میں ظلم کو ختم کرنے کے لئے جنگ کی گئی تھی۔ اب کہتے ہیں کہ جنگ تو اسی لئے کی گئی تھی لیکن ہمیں غلطی لگی تھی اور وہ ہمارے سے غلط کام ہو گیا۔ پھر لیبیا میں کہتے ہیں کہ ظلم کو ختم کرنے کے لئے جنگ لڑی گئی۔ اب کہتے ہیں یہ بھی غلطی تھی۔ اب شام میں جنگ لڑی جا رہی ہے تو اب دیکھتے ہیں اس کے ختم ہونے پر کیا جواب دیتے ہیں۔میں یہ نہیں کہہ رہا کہ حکومت صحیح ہو گی یا دوسرے صحیح ہیں۔ لیکن جو بھی ہے اس ظلم کو ختم کرنے کا جو طریق کار اختیار کیا گیا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ لیکن بہرحال یہ ظاہر ہو گیا کہ جو کام ظلم کے ختم کرنے کے لئے کیا گیا تھا وہ اصل ظلم سے بڑھ کر ظلم ثابت ہوا۔ اسلام نے اگر کبھی جنگ کی اجازت دی تو تمام انسانیت کے حقوق قائم کرنے کے لئے دی۔ پہلی اجازت جو اللہ تعالیٰ نے جنگ کی دی وہ ان الفاظ میں دی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرُ(الحج40:) ان لوگوں کو جن کے خلاف قتال کیا جا رہا ہے قتال کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ ان پر ظلم کئے گئے ہیں اور یقینا اللہ ان کی مدد پر پوری قدرت رکھتا ہے۔

پس تیرہ سال کے ظلموں کے بعد بھی جب دشمن باز نہیں آیا اور دوسری جگہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ ہجرت کر لی تو وہاں جا کر بھی اپنے بڑے سازو سامان کے ساتھ ایک بڑی فوج لے کر حملہ آور ہوا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اب بہت ہوگیا۔ اب تم مسلمانوں کو بھی جنگ کا جواب، ظلم کا جواب جنگ سے دینے کی اجازت ہے تا کہ ظلم ختم ہو۔ تلوار کا جواب تلوار سے دینے کی اجازت ہے۔ ابھی تم تھوڑے ہو اور دشمن طاقتور ہے لیکن خدا تعالیٰ یہ بھی قدرت رکھتا ہے کہ باوجود اس کے کہ تم تھوڑے ہو اور تم شاید ظاہری سامان کے حساب سے طاقت نہیں رکھتے کہ دشمن سے لڑو لیکن اللہ تعالیٰ سب قدرتوں کا مالک ہے وہ تمہاری مدد کرے گا۔ اور اللہ تعالیٰ نے مدد کی۔ لیکن اس اجازت کے بعد بھی کھلی چھٹی نہیں دے دی بلکہ وجہ بھی بتا دی کہ جنگ اس وقت تک ہو گی جب تک یہ وجہ قائم ہے کہ جب تک تم پر ظلم ہو رہا ہے اور پھر یہ بھی کہ جنگ کر کے صرف تم نے اپنے حقوق قائم نہیں کرنے بلکہ دوسروں کے حقوق بھی قائم کرنے ہیں۔ غیر مسلموں کے حقوق بھی قائم کرنے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَلَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّا ٓاَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَااللّٰہُ ۔وَلَوْ لَادَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ یُذْکَرُ فِیْھَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًا۔ وَلَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ ۔اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ (الحج41:)کہ وہ لوگ جنہیں اُن کے گھروں سے ناحق نکالا گیا محض اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ اللہ ہمارا رب ہے۔ اور اگر اللہ کی طرف سے لوگوں کا دفاع ان میں سے بعض کو بعض دوسروں سے بِھڑا کر، لڑا کر نہ کیا جاتا تو راہب خانے منہدم کر دیئے جاتے اور گرجے بھی اور یہود کے معابد بھی اور مساجد بھی جن میں بکثرت اللہ کا نام لیا جاتا ہے۔ اور یقینا اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کرتا ہے۔ یقینا اللہ بہت طاقتور اور کامل غلبہ والا ہے۔

پس جنگ آزادیٔ حقوق کے لئے کرنے کی اجازت دی گئی۔ جنگ کی اجازت آزادیٔ مذہب کے قائم کرنے کے لئے دی گئی اور وہ بھی اس صورت میں جب دشمن حملہ کرے تو اس کا جواب دو۔ عیسائیوں کے گرجوں کی حفاظت کے لئے بھی کہا گیا۔ اسی آیت میں یہودیوں کے معابد کی حفاظت کے لئے بھی کہا گیا، راہب خانوں کی حفاظت کے لئے بھی کہا گیا اور مساجد کی حفاظت کے لئے بھی کہا گیا۔ صرف یہ نہیں کہا گیا کہ مسلمان اپنی مسجدوں کی حفاظت کریں بلکہ ہر عبادتگاہ جو کسی بھی مذہب کی ہے مسلمان اس کی حفاظت کریں۔ یہ نہیں کہ ہزاروں میل دور بیٹھے ہوئے ہیں اور ملکوں پر فوجیں چڑھا دو۔ پس یہ اسلام کی خوبصورتی ہے۔ اور اس کی وضاحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ اس طرح فرمائی ہے کہ

’’ چونکہ مسلمان اسلام کے ابتدائی زمانے میں تھوڑے تھے اس لئے ان کے مخالفوں نے بباعث اس تکبر کے جو فطرتاً ایسے فرقوں کے دل اور دماغ میں جاگزیں ہوتا ہے جو اپنے تئیں دولت میں، مال میں، کثرت جماعت میں، عزت میں، مرتبت میں، دوسرے فرقہ سے برتر خیال کرتے ہیں اس وقت کے مسلمانوں یعنی صحابہ سے سخت دشمنی کا برتاؤ کیا‘‘ لوگ حملے کرتے ہیں۔ کیوں؟ وہ سمجھتے ہیں ہم بڑے دولت مند ہیں، بڑی امیر قوم ہیں۔ ہم بڑی طاقت والے ہیں۔ ہمارے پاس مال بہت زیادہ ہے۔ ہم نے بڑی ترقی کر لی ہے۔ ہمارے بڑے کارخانے ہیں۔ ہمارے دنیا میں کاروبار سب سے زیادہ ہیں۔ ہمارے بنک بہت بڑے بڑے ہیں جنہوں نے دنیا کی معیشت پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ ہماری تعداد بہت زیادہ ہے۔ ہمارا عزت اور مقام بہت زیادہ ہے۔ فرمایا یہ ایسے لوگ ہیں جو اپنے آپ کو برتر خیال کرتے ہیں اُس وقت بھی ایسے لوگ تھے جو کافر تھے اس لئے انہوں نے اس وقت کے مسلمانوں یعنی صحابہ سے ’’سخت دشمنی کا برتاؤ کیا اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ آسمانی پودہ زمین پر قائم ہو۔‘‘ یعنی اسلام پھیلے۔ ’’بلکہ وہ ان راستبازوں کے ہلاک کرنے کے لئے اپنے ناخنوں تک زور لگا رہے تھے اور کوئی دقیقہ آزار رسانی کا اٹھا نہیں رکھا تھا۔‘‘ ہر کوشش کر رہے تھے کس طرح ان کو نقصان پہنچایا جائے ’’اور ان کو خوف یہ تھا کہ ایسا نہ ہو کہ اس مذہب کے پیر جم جائیں اور پھر اس کی ترقی ہمارے مذہب اور قوم کی بربادی کا موجب ہو جائے۔ سو اسی خوف سے جو ان کے دلوں میں ایک رعب ناک صورت میں بیٹھ گیا تھا نہایت جابرانہ اور ظالمانہ کارروائیاں ان سے ظہور میں آئیں اور انہوں نے دردناک طریقوں سے اکثر مسلمانوں کو ہلاک کیا اور ایک زمانہ دراز تک جو تیرہ برس کی مدت تھی ان کی طرف سے یہی کارروائی رہی اور نہایت بے رحمی کی طرز سے خدا کے وفادار بندے اور نوع انسان کے فخر ان شریر درندوں کی تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور یتیم بچے اور عاجز اور مسکین عورتیں کو چوں اور گلیوں میں ذبح کئے گئے اس پر بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے قطعی طور پر یہ تاکید تھی کہ شر کا ہر گز مقابلہ نہ کرو ۔‘‘یہ شرارتیں کر رہے ہیں، شر پھیلا رہے ہیں، فساد پیدا کر رہے ہیں ان کا مقابلہ نہ کرو ’’چنانچہ ان برگزیدہ راستبازوں نے ایسا ہی کیا۔ ان کے خونوں سے کوچے سرخ ہو گئے پر انہوں نے دم نہ مارا۔ وہ قربانیوں کی طرح ذبح کئے گئے پر انہوں نے آہ نہ کی۔ خدا کے پاک اور مقدس رسول کو جس پر زمین اور آسمان سے بے شمار سلام ہیں بارہا پتھر مار مار کر خون سے آلودہ کیا گیا مگر اس صدق اور استقامت کے پہاڑ نے ان تمام آزاروں کی دلی انشراح اور محبت سے برداشت کی اور ان صابرانہ اور عاجزانہ روشوں سے مخالفوں کی شوخی دن بدن بڑھتی گئی اور انہوں نے اس مقدس جماعت کو اپنا ایک شکار سمجھ لیا۔ تب اُس خدا نے جو نہیں چاہتا کہ زمین پرظلم اور بے رحمی حد سے گذر جائے اپنے مظلوم بندوں کو یاد کیا اور اس کا غضب شریروں پر بھڑکا اور اس نے اپنی پاک کلام قرآن شریف کے ذریعہ سے مظلوم بندوں کو اطلاع دی کہ جو کچھ تمہارے ساتھ ہو رہا ہے مَیں سب کچھ دیکھ رہا ہوں۔ میں تمہیں آج سے مقابلہ کی اجازت دیتا ہوں اور مَیں خدائے قادر ہوں، ظالموں کو بے سزا نہیں چھوڑوں گا۔ یہ حکم تھا جس کا دوسرے لفظوں میں جہاد نام رکھا گیا اور اس حکم کی اصل عبارت جو قرآن شریف میں اب تک موجود ہے یہ ہے کہاُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرُ۔ اَلَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ۔یعنی خدا نے ان مظلوم لوگوں کی جو قتل کئے جاتے ہیں اور ناحق اپنے وطن سے نکالے گئے فریاد سن لی اور ان کو مقابلہ کی اجازت دی گئی اور خدا قادر ہے جو مظلوم کی مدد کرے….مگر یہ حکم مختص الزمان والوقت تھا ‘‘(اس وقت کے لئے مختص تھا۔ ایک محدود زمانے کے لئے تھا جب یہ ظلم ہو رہے تھے۔ ہمیشہ کے لئے نہیں تھا۔) فرمایا ’’ہمیشہ کے لئے نہیں تھا بلکہ اس زمانہ کے متعلق تھا جبکہ اسلام میں داخل ہونے والے بکریوں اور بھیڑوں کی طرح ذبح کئے جاتے تھے۔ ‘‘ (گورنمنٹ انگریزی اور جہاد، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 5-6)

پس آج اگر مسلمان بھی جہاد کے نام پر حملے کر رہے ہیں، خود کش حملے کر رہے ہیں تو یہ سب ظلم ہیں۔ اس کی قطعاً کوئی اجازت اسلام نہیں دیتا۔

پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیںکہ ’’یعنی اگر خدا تعالیٰ کی یہ عادت نہ ہوتی کہ بعض کو بعض کے ساتھ دفع کرتا ‘‘یعنی کہ ختم کرتا’’ تو ظلم کی نوبت یہاں تک نہ پہنچتی کہ گوشہ گزینوں کے خلوت خانے ڈھائے جاتے اور عیسائیوں کے گرجے مسمار کئے جاتے اور یہودیوں کے معبد نابود کئے جاتے اور مسلمانوں کی مسجدیں جہاں کثرت سے ذکر خدا ہوتا ہے منہدم کی جاتیں۔‘‘ اگر ظلم اس حد تک پہنچتا، اگر ظلم کو روکا نہ جاتا تو پھر یہی ہونا تھا کہ اس ظلم کی وجہ سے عیسائیوں کے گرجے بھی گرائے جاتے۔ یہودیوں کے معبد بھی گرائے جاتے۔ مسجدیں بھی گرائی جاتیں۔ یہ ساری عبادتگاہیں اور مسلمانوں کی مسجدیں جہاں کثرت سے ذکر خدا ہوتا ہے منہدم کی جاتیں۔ فرمایا کہ ’’ اس جگہ خدا تعالیٰ یہ ظاہر فرماتا ہے کہ ان تمام عبادت خانوں کا مَیں ہی حامی ہوں اور اسلام کا فرض ہے کہ اگر مثلاً کسی عیسائی ملک پر قبضہ کرے تو ان کے عبادت خانوں سے کچھ تعرض نہ کرے۔‘‘ (ان کو نہ چھیڑو) ’’اور منع کر دے کہ ان کے گرجے مسمار نہ کئے جائیں۔‘‘ (گرجے گرائے نہ جائیں) ’’اور یہی ہدایت احادیث نبویہ سے مفہوم ہوتی ہے۔ کیونکہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جبکہ کوئی اسلامی سپہ سالار کسی قوم کے مقابلہ کے لئے مامور ہوتا تھا تو اس کو یہ حکم دیا جاتا تھا کہ وہ عیسائیوں اور یہودیوں کے عبادت خانوں اور فقرا ء کے خلوت خانوں سے تعرض نہ کرے۔‘‘ (ان کو نہ چھیڑے) ’’اس سے ظاہر ہے کہ اسلام کس قدر تعصب کے طریقوں سے دُور ہے کہ وہ عیسائیوں کے گرجاؤں اور یہودیوں کے معبدوں کا ایسا ہی حامی ہے جیسا کہ مساجد کا حامی ہے۔ ہاں البتہ اس خدا نے جو اسلام کا بانی ہے یہ نہیں چاہا کہ اسلام دشمنوں کے حملوں سے فنا ہو جائے بلکہ اس نے دفاعی جنگ کی اجازت دی ہے اور حفاظت خود اختیاری کے طور پر مقابلہ کرنے کا اِذن دیا ہے۔‘‘ (چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 393-394)دفاعی جنگ کی اجازت ہے اور حفاظت کے لئے اجازت ہے۔

پس یہ خوبصورتی ہے اسلام کی جنگوں کی اجازت کی لیکن اس اجازت میں بھی جو اصول و ضوابط اللہ تعالیٰ نے رکھے ہیں وہ بھی ایک سنہرا لائحہ عمل ہے۔ مذہبی آزادی کے قائم رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ مزید فرماتا ہے کہ وَقَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ فَاِنِ انْتَھَوْا فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَی الظّٰلِمِیْنَ (البقرۃ194:) اور ان سے قتال کرتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اختیار کرنا اللہ کی خاطر ہو جائے۔ پس اگر وہ باز آ جائیں تو زیادتی کرنے والے ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیں کرنی۔ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیں کرنی۔ یعنی وہ زیادتی کرنے والے باز آجائیں تو پھر زیادتی نہیں کرنی۔ یعنی مذہبی آزادی کی اجازت ہے جو بھی دین کو اختیار کرنا چاہتا ہے وہ اختیار کرنے کی اس کو اجازت ہے۔ اگر دین کو اختیار کرنے سے کوئی روکتا ہے تو وہاں اس ظالم کے ہاتھ کو روکنا ضروری ہے۔ فرمایا کہ ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیں کرنی یعنی اس حد تک اس کا مقابلہ کرو کہ ان کی بغاوت دور ہو جائے اور دین کی روکیں اٹھ جائیں اور حکومت اللہ کے دین کی ہو جائے۔(جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 255) پھر آپ علیہ السلام فرماتے ہیں ’’یعنی عرب کے ان مشرکوں کو قتل کرو یہاں تک کہ بغاوت باقی نہ رہ جاوے اور دین یعنی حکومت اللہ تعالیٰ کی ہو جائے۔ اس سے کہاں جبر نکلتا ہے۔ اس سے تو صرف اس قدر پایا جاتا ہے کہ اس حد تک لڑو کہ ان کا زور ٹوٹ جائے اور شرارت اور فساد اٹھ جائے اور بعض لوگ جیسے خفیہ طور پر اسلام لائے ہوئے ہیں ظاہر بھی اسلامی احکام ادا کر سکیں۔‘‘ بعض خوف کے مارے ان ظالموں کے خوف کی وجہ سے اسلام کا اظہار نہیں کر سکتے تھے تو اس لئے ان کے ظلموں کو روکو تا کہ دینی آزادی ان میں قائم ہو جائے، اگر کوئی مسلمان ہونا چاہتا ہے تو ہو جائے ۔ ’’اگر اللہ جلّ شانہٗ کا ایمان بالجبر منشاء ہوتا… تو پھر جزیہ اور صلح اور معاہدات کیوں جائز رکھے جاتے۔‘‘ قرآن کریم میں جو حکم ہیں غیر مسلموں کے لئے جزیہ کے لئے، جنگوں میں صلح کے لئے، معاہدات کے لئے ان کو کیوں رکھا جاتا۔ ’’اور کیا وجہ تھی کہ یہود اور عیسائیوں کے لئے یہ اجازت دی جاتی کہ وہ جزیہ دے کر امن میں آجائیں‘‘ جو مسلمان حکومتوں کے اندر آتے تھے ’’ اور مسلمانوں کے زیر سایہ امن کے ساتھ( زندگی) بسر کریں۔‘‘(جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 263)

پھر ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِہٖ۔ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَھُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ(النحل127:)۔اور اگر تم سزا دو تو اتنی ہی سزا دو جتنی تم پر زیادتی کی گئی تھی اور اگر تم صبر کرو تو یقینا صبر کرنے والوں کے لئے یہ بہتر ہے۔ زیادتی پر صبر اور بات چیت کے ذریعہ سے مسئلہ کا حل کرنے کا حکم ہے۔ لیکن اگر دشمن اپنی انتہا پر پہنچ گیا ہے تو پھر اس اصول کو مدّنظر رکھو کہ سزا اصلاح کے لئے دو، ظلم کے لئے نہیں۔ سختی کا جواب سختی سے اصلاح کے لئے دو۔ لیکن جب معاملہ ختم ہو جائے تو پھر اپنا زیر نگیں کر کے پھر سینکشن(sanction) لگا کر ان پر ظلم نہ کرو کیونکہ اس کے نتیجہ میں پھر بدامنی پیدا ہو گی، frustration پیدا ہو گی، بے چینیاں پیدا ہوں گی اور پھر ایک فساد برپا ہو گا۔

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ(البقرۃ191:)اور اللہ کی راہ میں ان سے قتال کرو جو تم سے قتال کرتے ہیں اور زیادتی نہ کرو۔ یقینا اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

ایک مومن کو اللہ تعالیٰ کی محبت سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہیں ہے۔ اللہ اکبر کا نعرہ جب ہم لگاتے ہیں تو وہ اسی محبت کا اظہار ہے جو ایک مومن کو اللہ تعالیٰ سے ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر میری محبت چاہتے ہو تو حد سے زیادہ نہ بڑھو کیونکہ زیادتی سے پھر ظلم بچے دینے شروع کر دیتا ہے۔ ایک زیادتی کے بعد دوسری زیادتی شروع ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ پھر اگلا بھی مقابلہ کرتا ہے اور دنیا کا امن برباد ہوتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس آیت کی مختلف جگہوں پر وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’یعنی خدا کی راہ میں ان لوگوں کے ساتھ لڑو جو لڑنے میں سبقت کرتے ہیںا ور تم پر چڑھ چڑھ کر آتے ہیںمگر ان پر زیادتی نہ کرو اور تحقیقاً یاد رکھو کہ خدا زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا‘‘۔ پھر آپ نے فرمایا ’’اس آیت کا ماحصل یہ ہے کہ جو لوگ تمہیں قتل کرنے کے لئے آتے ہیں ان کا دفع شر کے لئے مقابلہ تو کرو مگر کچھ زیادتی نہ کرو‘‘۔(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 392)

پھر فرماتے ہیں کہ ’’خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ جس طرح اور جن آلات سے کفار لوگ تم پر حملہ کرتے ہیں انہی طریقوں اور آلات سے تم ان لوگوں کا مقابلہ کرو۔ اب ظاہر ہے کہ ان لوگوں کے حملے (جو آجکل ہیں) اسلام پر تلوار سے نہیں ہیں بلکہ قلم سے ہیں‘‘( اس زمانے میں جہاد کی باتیں کرتے ہیں۔ اسلام کو ختم کرنے کے لئے اسلام پر تلوار سے حملہ نہیں ہو رہا بلکہ دوسرے ذرائع سے ہو رہا ہے۔ لٹریچر ہے، دوسرے ذریعہ سے ہیں، میڈیا ہے۔) ’’لہٰذا ضرور ہے کہ ان کا جواب قلم سے دیا جائے۔‘‘ (یا جو طریقے اختیار کئے جا رہے ہیں اس طریقے سے دیا جائے۔) ’’اگر تلوار سے دیا جاوے گا تو یہ اعتداء ہو گا‘‘۔( یہ ناجائز ہو گا، یہ زیادتی ہو گی) ’’جس سے خدا تعالیٰ کی صریح ممانعت قرآن شریف میں موجود ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ۔ ‘‘

(ملفوظات جلد 7 صفحہ 300۔ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس یہ ہے اسلام کے احکامات کی خوبصورتی۔ بہت ساری باتوں میں سے یہ چند باتیں ہیں جومَیں نے بیان کی ہیں۔ اسلام کی عدل اور انصاف اور دنیا میں امن قائم کرنے اور قائم رکھنے اور جنگوں کی اجازت اور ان کو روکنے کے مقصد اور جنگوں کے اصول و ضوابط کی کچھ تفاصیل جو ہمیں قرآن کریم نے جیسا کہ مَیں نے کہا بتائی ہیں اور جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر عمل سے ثابت ہوتی ہیں۔جب بھی دشمن شرارتیں کرتا تھا تو آپؐ ہر فوج جو دشمن کی سرکوبی کے لئے بھیجتے تھے اسے یہ ہدایت فرما دیتے تھے کہ راہبوں کو، عورتوں کو، بچوں کو اور پادریوں کو اور ہر اس شخص کو کچھ نہیں کہنا جو تمہارے ساتھ براہ راست جنگ نہیں کر رہا۔ کوئی درخت نہیں کاٹنا۔ قیدیوں سے نرمی کا سلوک کرنا ہے۔ اور یہی عمل خلفائے راشدین سے ثابت ہے۔(السنن الکبریٰ للبیھقی جلد 9 صفحہ 154 جماع ابواب السیر باب ترک قتل من لا قتال فیہ …حدیث 18666 مکتبۃ الرشد الناشرون ریاض 2004ء) (المعجم الکبیر للطبرانی جلد22 صفحہ 393 من یکنی ابا عزیز حدیث 977 دار احیاء التراث العربی بیروت 2002ء) لیکن آج کل بمبارمنٹ جب ہوتی ہے تو بلا امتیاز ہسپتالوں میں مریضوں کو بھی مارا جا رہا ہوتا ہے، عمارتوں کے نیچے بچوں کو مارا جا رہا ہوتا ہے۔ کوئی کسی طرف سے ظلم ہو رہا ہے، کوئی کسی طرف سے ظلم ہو رہا ہے۔ اب کھنڈرات میں سے جب یہ جو گرے ہوئے مکانوں کا ملبہ ہے ان میں سے نکالتے ہیں تو بعض دفعہ چھوٹے چھوٹے بچے، دو دو تین تین مہینے کے بچے نکل رہے ہوتے ہیں۔ یہ ظلم کی انتہا ہے جو ہو رہی ہے۔ لیکن اسلام اس بات سے منع کرتا ہے۔

پس یہ وہ خوبصورت تعلیم ہے جسے ہمیں آجکل دنیا کو بتانے کی ضرورت ہے۔جیسا کہ مَیں نے کہا یہاں صحافی نے مجھے سوال کیا تھا کہ کس طرح کینیڈین قوم کو پتا چلے کہ اسلام شدت پسند مذہب نہیں ہے اور کس طرح پتا چلے کہ آج دنیا کی اس بھیانک صورتحال کا حل اسلام میں ہے۔ تو یہ کام یہاںکے رہنے والے ہر احمدی کا ہے کہ دنیا کو بتائیں کہ اسلام تو محبت پیار اور بھائی چارہ سکھاتا ہے اور اگر اسلام کے نام پر کوئی ظلم ہوتا ہے تو وہ اس کی تعلیم کے خلاف چل کر ہو رہا ہے۔ آج اگر دنیا کے بچاؤ کے لئے کوئی حل ہے تو اسلام کے پاس ہے۔ نہ ہی اسلام سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت ہے نہ ہی اس خیال کو دل میں جگہ دینے کی ضرورت ہے کہ مذہب فتنہ و فساد کی وجہ ہے یا دنیا کا امن و سکون مذہب کی وجہ سے برباد ہو رہا ہے۔ کسی مذہب نے فساد کی اجازت نہیں دی۔ آج اگر دنیا امن چاہتی ہے، اپنی بقا چاہتی ہے، اپنے بچوں کو اپاہج ہونے سے بچانا چاہتی ہے اور معذور پیدا ہونے سے بچانا چاہتی ہے تو اسلام احمدیت ہی اس کا حل ہے اور اس زمانے کے امام کے ساتھ تعلق جوڑنے میں ہی دنیا کی بقا ہے۔ خدا تعالیٰ کا حق ہم نے ان کو بتانا ہے کہ تم خدا تعالیٰ کا حق ادا کرو تو تمہاری بقا ہے۔ پس اس کے لئے بہت محنت کی ضرورت ہے۔ ہر احمدی کو بہت کوشش کی ضرورت ہے۔ بہت دعاؤں کی ضرورت ہے۔ لیکن کوششیں بھی اس وقت کامیاب ہوتی ہیں، دعائیں بھی اس وقت قبول ہوتی ہیں جب ہمارے عمل بھی اس کے مطابق ہوں ۔ پس ہر احمدی کو اپنے گھروں میں بھی انصاف کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی ضرورت ہے اور اپنے کام کی جگہوں پر بھی انصاف اور عدل قائم کرنے کی ضرورت ہے اور اپنے محلے اور شہر میں بھی اعلیٰ معیار انصاف اور عدل کے قائم کرنے کی ضرورت ہے تا کہ دنیا دیکھے کہ یہ ہیں وہ لوگ جو دنیا کے حقیقی نجات دہندہ حضرت محمد رسول اللہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی پیرو کار ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور دنیا کو پتا لگے کہ یہی ہمارے حقیقی خیر خواہ ہیں اور دنیا کے امن کا مستقبل اب انہی لوگوں سے وابستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی آپ کو توفیق دے۔

(احباب نعرے لگا رہے تھے کہ حضور انور نے فرمایا:)

السلام علیکم۔ ابھی پہلے دعا کر لیں۔ خاموش۔ ذرا دعا کر لیں۔ پہلے دعا کر لیں۔ (دعا)

دعا کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:پہلے ذرا اپنی یہ حاضری بھی سن لیں۔ ایک منٹ ذرا جوش میں نعرے بند کر دیں۔ حاضری سن لیں۔ امیر صاحب نے جو حاضری کی فگر(figure) دی ہے وہ اس وقت پچیس ہزار نو سو ساٹھ( 25960) ہے۔ تیرہ ہزار دو سو اکاون (13251) مرد، بارہ ہزار سات سو نو (12709) عورتیں اور اس وقت یہاں بتیس ممالک کی نمائندگی ہو رہی ہے۔ اور بیرون کینیڈا سے آئے ہوئے مہمانوں کی تعداد چار ہزار تین سو انیس( 4319) ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ جلسہ مبارک کرے اور آپ لوگوں نے جو کچھ یہاں سنا اور دیکھا اور سیکھا اس کو اللہ تعالیٰ آپ کے دل اور دماغ میں قائم بھی رکھے اور عمل کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے اور خیریت سے اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو اپنے گھروں میں واپس بھی لے کر جائے۔

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ۔

٭٭٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button