جماعت احمدیہ یوکے کے زیر اہتمام واقفات نَو کے نیشنل اجتماع کا کامیاب و بابرکت انعقاد متفرق علمی مقابلہ جات، کھیلوں اور مختلف موضوعات پر مذاکرات کے دلچسپ اور مفید پروگرام حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کیاختتامی اجلاس میں بابرکت شمولیت اور نہایت اہم اور زرّیں ہدایات پر مشتمل خطاب
اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ یوکےکے زیر اہتمام 25؍فروری 2017ء کو واقفاتِ نَوکا نیشنل اجتماع بیت الفتوح لندن میں منعقد ہوا۔اس اجتماع میں واقفات نَو کے سالانہ امتحان کے علاوہ مختلف علمی مقابلہ جات، گیمز اورمختلف موضوعات پر مشتمل مذاکرات کا انعقاد کیا گیا۔ ان مذاکرات میں’’ایک احمدی لڑکی آجکل کے معاشرے میں کِس طرح خود مختار ہو سکتی ہے‘‘کے موضوع پر خاص طور پربات کی گئی۔امسال واقفات نَو کی ماؤں کے لئے بھی workshopsکا انعقاد کیا گیا ۔
حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت بیگم صاحبہ مدّ ظلہا العالی کے ہمراہ اختتامی اجلاس میں رونق افروز ہوئے۔ اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ عقیلہ شانزے ظفر صاحبہ نے سورہ آل عمران کی آیات 36 تا 38 کی تلاوت کی اور فرحانہ خان صاحبہ نے اس کا انگریزی ترجمہ پڑھ کر سنایا۔ بعدازاں سعدیہ آیت اللہ صاحبہ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے منظوم کلام ’’خدمت دین کو اک فضل الٰہی جانو‘‘میں سے چند اشعار خوش الحانی کے ساتھ پیش کئے۔
اس کے بعد مکرمہ ساجدہ ظفر صاحبہ سیکرٹری واقفاتِ نَو یوکے نے مختصر کارگزاری رپورٹ اور اجتماع کی رپورٹ پیش کی۔ آپ نے بتایا کہ اجتماع کے انعقاد کے سلسلہ میں سال بھر یوکے کے 12 ریجنز میں Regional Coordinatorکے ذریعہ سے کام ہوتا رہا ہے۔ہر مجلس میں اجلاسات کا انعقاد ہوتا رہا۔ جولائی 2016 ء میں تقریباً ہر ریجن نے ایک سے تین روزہ تربیتی کلاس کا انعقاد کیا جس کا مرکزی موضوع کتاب ’لائف آف محمد‘‘ صلی اللہ علیہ وسلم تھا۔ ان کلاسز کے بعد امتحانات بھی ہوئے۔ اس کے علاوہ ہر ریجن نے اپنے ریجنل اجتماعات کا بھی انعقاد کیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے نیشنل واقفاتِ نو کی ٹیم کو سات ریجنز کا وزٹ کرنے اور واقفاتِ نَو کے لئے تین کتب شائع کرنے کی توفیق ملی۔اجتماع میں واقفات کی حاضری 984 رہی۔ مہمانوں کو ملا کر کُل حاضری 1556 رہی۔الحمد للہ۔
اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے دستِ مبارک سے عزیزہ عرشیہ باجوہ واقفۂ نَو اور عزیزہ عافیہ نصیر واقفۂ نَو کو قرآن کریم حفظ کرنے پر انعام سے نوازا۔نیز کارگزاری کے لحاظ سے اوّل، دوم اور سوئم پوزیشن حاصل کرنے والی ریجنز کو بھی انعامات تقسیم فرمائے۔امسال ایسٹ ریجن نے سوئم پوزیشن حاصل کی،لندن ریجن نے دوم پوزیشن اور اسلام آباد ریجن نے اوّل پوزیشن حاصل کی۔
بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے انگریزی زبان میں اختتامی خطاب فرمایا۔
تشہد، تعوذ اور تسمیہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ سب نیشنل واقفاتِ نَو اجتماع میں شامل ہو رہی ہیں جو ہماری جماعت میں اُن لڑکیوں کے لئے ہے جنہیں اُن کے والدین نے اُن کی پیدائش سے پہلے دین کی خاطر وقف کیا تھا۔ اور 15سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد (اُن واقفاتِ نَو لڑکیوں) نے اپنی مرضی سے تجدید عہد کیا ہے۔ پس آپ نے اپنی مرضی سے جماعت کی خدمت کے لئے اپنی زندگیاں وقف کی ہیں اور اس وجہ سے یہ ضروری ہے کہ آپ مسلسل اپنے اخلاقی معیاروں اور دینی تعلیم کا جائزہ لیتی رہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تفصیل کے ساتھ عورتوں کے حقوق اور اسلام میں اُن کے علیٰ مقام پر بات کی اور بتایا کہ اسلام کے مخالفین کا یہ دعویٰ کہ اسلام عورتوں کے مقام کو گِراتا ہے بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔
تعلیم کے حوالہ سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے عورتوں کی تعلیم پر بہت زور دیا ہے لیکن انیسویں صدی کے آخر پراور بیسویں صدی عیسوی کے آغاز میں لڑکیوں اور عورتوں کو تعلیم حاصل کرنے کی سہولت بمشکل مہیّا تھی اور خاص طور پر مسلمان لڑکیوں میں سےمعدودے چند کو اپنی دنیاوی اور دینی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملتا۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اسلام کی تعلیمات کے برخلاف اُس وقت کے نام نہاد علماء عورتوں کو گھر کی چار دیواری میں قید کرنا چاہتے تھے۔ لیکن جماعت احمدیہ کے بانی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے اسلام کی حقیقی تعلیمات کو دنیا پر واضح کیا اور احمدی عورتوں کودنیاوی اور دینی تعلیم حاصل کرنے کی تلقین کی۔ چنانچہ احمدی مسلمان لڑکیاں حصول تعلیم میں آگے بڑھ رہی ہیں اور کئی ملکوں میں لڑکوں کو پیچھے چھوڑ رہی ہیں۔
حضور انور نے اس بات کا ذکر فرمایا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نےہندوپاک میں سکولز اور کالجز کا اجراء فرمایا تھا جن میں گاؤں کی لڑکیوں کو بھی تعلیم حاصل کرنے کی سہولت فراہم کی گئی۔
حضور انور نے اس بات کا بھی ذکر فرمایا کہ اسلام میں مرد اور عورت کو مختلف ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں لیکن یہ بات درست نہیں کہ اسلام عورتوں کو دبا کر رکھتا ہے ۔ حضور انور نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں عورتوں کی مثالیں دیں کہ وہ جنگوں کے دوران نَرسز کے طور پر کام کرتیں اور زخمیوں کی مدد کرتی تھیں۔اور بعض حالات میں وہ خود جنگوں میں لڑتیں اور عظیم الشان نمونہ اور بہادری کا مظاہرہ کرتی تھیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ وہ عورتیں جو ڈاکٹرز اور استانیاں بن سکتی ہیں انہیں یہ پیشے اپنانے چاہئیں جو انسانیت کے لئے بہت مفید ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہیں اپنے بچوں اور فیملی کی ذمہ داریوں میں کوئی کوتاہی نہیں برتنی چاہئے۔ایسی عورتوں کومؤثر انداز میں اپنا وقت manageکرنا چاہئے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ ان کے بچوں پر اس کا کوئی منفی اثر نہ ہو۔
حضور انور نےفرمایا کہ ایسی لڑکیاں جو اعلیٰ تعلیم کی حامل ہیں لیکن کسی پیشے کے لئے باہر نہیں جاتیں انہیں کسی قسم کی شرم نہیں آنی چاہئے کہ وہ اپنا talentضائع کر رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ گھربار اور بچوں کی دیکھ بال کرنا انتہائی درجہ کی اہمیت رکھتا ہے ۔
حضور انور نے فرمایا کہ وہ مائیں جو اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلواتی ہیں وہ انسانیت، اخلاقیات اور امن کے ایک ایسے سلسلے کی بنیاد رکھ رہی ہوتی ہیں جو نسلاً بعد نسلٍ جاری رہے گا۔ یہ بات یاد رکھیں کہ کسی بھی قوم کی ترقی ، فلاح و بہبود اُس قوم کی ماؤں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔
حضور انور نے فرمایا کہ احمدی مسلمان عورتوں کو بلا جھجک اور بلا خوف لازماً اسلام پر کئے گئے بے بنیاد اور غلط الزامات کا جواب دیناچاہئے۔حضور انور نے اسے ’’Intelectual Jihad‘‘ کا نام دیا۔
خطاب کے آخر پر حضور انور نے پنجوقتہ نماز کی باقاعدہ ادائیگی اور قرآن کریم کی باقاعدگی سے تلاوت کرنے اور حضور کے خطبات جمعہ باقاعدگی سے سننے کی تلقین کی۔
خطاب کے بعد حضورا نور نے دعا کروائی اور اس کے ساتھ پروگرام اپنے اختتام کو پہنچا