سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اکابرین عالم کے نام تبلیغی مکتوبات
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا مقام و مرتبہ ایک عالمگیر رسول کا ہے کیونکہ پہلے انبیاء محدود قوموں اور محدود زمانوں تک کے لیے مبعوث کیے گئے تھے لیکن حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا دائرہ تا قیامت تمام اقوام عالم کے لیے ہےاس وجہ سے آپؐ عالمگیر تبلیغ کے لیے مبعوث ہوئے تھے اور آپؐ نے اپنے زمانے کے ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے اس فریضہ کو بخوبی سرانجام دیا یہاں تک کہ اپنے وقت کی ذی مقتدرت ہستیوں قیصر روم، کسریٰ شاہِ فارس، شاہ مصر اور شاہ حبشہ کو تبلیغی خطوط لکھے۔ لیکن جیسا کہ خود قرآن کریم اور احادیث نبویہ سے یہ بات ثابت ہے کہ دنیا کی مختلف اقوام کے باہم آپس میں ملنے، اونٹنیوں کے بے کار ہونے اور صحیفوں کی بکثرت نشر و اشاعت کا زمانہ ابھی آگے آنا تھا اسی دنیاوی انقلاب والے زمانے میں ہی اسلامی انقلاب کے برپا ہونے کی خوشخبری دیتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مسیح موعود و امام مہدی کی آمد کی خبر دی چنانچہ مسیح موعود کی علامات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے علاوہ اور کے یہ بھی بیان فرمایا:
’’عَن النواس بن سَمعان اَنّ رَسول اللّٰہ ﷺ قال: أُرِیت ان ابْن مَرْیم یَخْرُج مِن تَحت المِنارَۃِ البَیضاء شرقی دمشق وَاضِعًا یَدہٗ علیٰ اَجْنِحَۃ المَلَکین …. یَمْشی و عَلَیہ السّکِیْنَۃ وَ الاَرْضُ تُقْبَضُ لَہٗ….. ومَنْ مَسَّ ابْن مَرْیَم کَانَ مِنْ اَرْفَع النَّاسِ قَدْرًا……‘‘
(کنزالعمال کتاب القیامہ ذکر یاجوج ماجوج ۔قسم الافعال حدیث نمبر 39725 )
ترجمہ:حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: مجھے دکھایاگیا کہ عیسیٰ ابن مریم دمشق سے شرقی جانب اپنے ہاتھ دو فرشتوں کے کندھوں پر رکھے ہوئے سفید منارہ سے نکلیں گے …. وہ اس حال میں چلیں گے کہ ان پر سکینت طاری ہوگی اور زمین ان کے لیے سمیٹی جائے گی …. اور جو اس وقت عیسیٰ ابن مریم کا دامن پکڑے گا لوگوں میں بڑی مرتبت والا ہوگا۔
مسیح موعود کے متعلق زمین سمٹنے کی علامت واضح بتلا رہی ہے کہ اُس زمانے میں نت نئی ایجادات کی بدولت تمام دنیا گویا سمٹ کر ایک گاؤں کا رنگ اختیار کر لے گی اور اقوام عالم کا آپس میں میل میلاپ نہایت آسان امر ہوگا۔ اسی زمانہ کا ذکر کرتے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’یہ زمانہ اشاعت دین کے لئے ایسا مددگار ہے کہ جو امر پہلے زمانوں میں سو سال تک دنیا میں شائع نہیں ہو سکتا تھا، اب اِس زمانہ میں وہ صرف ایک سال میں تمام ملکوں میں پھیل سکتا ہے۔ اس لئے اسلامی ہدایت اور ربّانی نشانوں کا نقارہ بجانے کے لئے اس قدر اس زمانہ میں طاقت و قوت پائی جاتی ہے جو کسی زمانہ میں اس کی نظیر نہیں پائی جاتی….. سو بلا شبہ معقولی اور روحانی طور پر دین اسلام کے دلائل حقیقت کا تمام دنیا میں پھیلنا ایسے ہی زمانہ پر موقوف تھا اور یہی با سامان زمانہ اس مہمان عزیز کی خدمت کرنے کے لئے من کل الوجوہ اسباب مہیا رکھتا ہے۔پس خداوند تعالیٰ نے اس احقر عباد کو اس زمانہ میں پیدا کرکے اور صد ہا نشان آسمانی اور خوارق غیبی اور معارف و حقائق مرحمت فرما کر اور صدہا دلائل عقلیہ قطعیہ پر علم بخش کر یہ ارادہ فرمایا ہے کہ تا تعلیمات حقہ قرآنی کو ہر قوم اور ہر ملک میں شائع اور رائج فرماوے اور اپنی حجت ان پر پوری کرے ۔‘‘
(براہین احمدیہ ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 596,597 حاشیہ در حاشیہ)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے زمانے کی ایجادات کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور انہیں خدمت دین میں استعمال کر کے اسلام کی صداقت کا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا۔ آپؑ نے ’’ہر طرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج‘‘ پر عمل کرتے ہوئے ہر سطح پر حق تبلیغ ادا کیا یہاں تک کہ سنت نبویؐ کی پیروی میں اپنے وقت کی برسر اقتدار اور نامی گرامی ہستیوں تک بھی پیغام حق پہنچایا اور اس اہم اور مشکل کام کا آغاز آپؑ نے براہین احمدیہ کی اشاعت کے ساتھ ہی کر دیا تھا۔
آپؑ نے 1884ء میں دنیا کے نام ایک اشتہار (مطبوعہ مرتضائی پریس لاہور) میں فرمایا:
’’اصل مدعا خط جس کے ابلاغ سے میں مامور ہوا ہوں یہ ہے دین حق جو خدا کی مرضی کے موافق ہے صرف اسلام ہے اور کتاب حقانی جو منجانب اللہ محفوظ اور واجب العمل ہے، صرف قرآن ہے۔ اس دین کی حقانیت اور قرآن کی سچائی پر عقلی دلائل کے سوا آسمانی نشانوں (خوارق و پیشین گوئیوں) کی شہادت بھی پائی جاتی ہے جس کو طالب صادق اس خاکسار (مؤلف براہین احمدیہ) کی صحبت اور صبر اختیار کرنے سے بمعاینہ چشم تصدیق کر سکتا ہے۔ آپ کو اس دین کی حقانیت یا اُن آسمانی نشانوں کی صداقت میں شک ہو تو آپ طالب صادق بن کر قادیان میں تشریف لاویں اور ایک سال تک اس عاجز کی صحبت میں رہ کر اُن آسمانی نشانوں کا بچشمِ خود مشاہدہ کر لیں….. اور اگر آپ آویں اور ایک سال رہ کر کوئی آسمانی نشان مشاہدہ نہ کریں تو دو سو روپیہ ماہوار کے حساب سے آپ کو ہر جانہ یا جرمانہ دیا جائے گا….‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 21)
اسی اشتہار میں پہلے آپؑ نے اس بات کا بھی اظہار فرمایا:
’’….. بالفعل بغرض اتمام حجت یہ خط (جس کی 240کاپی چھپوائی گئی ہے) معہ اشتہار انگریزی (جس کی آٹھ ہزار کاپی چھپوائی گئی ہے) شایع کیا جائے اور اس کی ایک ایک کاپی بخدمت معزز پادری صاحبان پنجاب و ہندوستان و انگلستان وغیرہ بلاد جہاں تک ارسال خط ممکن ہو….ارسال کی جاوے۔ ….‘‘
اس کے ساتھ ہی حضرت اقدس علیہ السلام نے اسی مضمون کا ایک اور اشتہار بھی شائع فرمایا جس کی پشت پر ہی اس کا انگریزی ترجمہ بھی شائع کیا گیا۔ یہ اشتہار بعدازاں حضرت اقدس علیہ السلام کی کتب سرمہ چشم آریہ (روحانی خزائن جلد 2صفحہ 319-320)، آئینہ کمالات اسلام (روحانی خزائن جلد 5صفحہ 657) اور برکات الدعا (روحانی خزائن جلد 6صفحہ 38-40)میں بھی شائع کیا گیا۔ اس کا انگریزی ترجمہ آپؑ نے منشی الٰہی بخش اکاؤنٹنٹ لاہور سے کروایا تھا۔ اس اشتہار کی طباعت ، ترجمہ اور ترسیل کا کام آپؑ نے اپنی نگرانی میں نہایت توجہ اور اہتمام کے ساتھ کروایا۔ اس کام کی طرف آپؑ کی کتنی توجہ اور انہماک تھا اس کا کچھ اندازہ آپؑ کے درج ذیل مکتوب بنام حضرت منشی عبداللہ سنوری صاحب رضی اللہ عنہ (بیعت:23مارچ 1889ء۔ وفات: اکتوبر 1927ء) سے ہوتا ہے، آپؑ تحریر فرماتے ہیں:
’’مشفقی مکرمی میاں عبداللہ صاحب
بعد السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ
چونکہ خطوط کے چھپنے میں ابھی دیر ہے اس لئے مناسب ہے کہ آپ دو ہزار اشتہار انگریزی لے کر قادیان چلے آویں اور جس روز یہ خط پہنچے اسی روز روانہ ہو آویں کہ میاں فتح محمد خاں انبالہ کی طرف جائیں گے اور اسی انتظار میں بیٹھے ہیں مگر توقف نہ ہو۔ فی الفور چلے آویں اور دو ہزار اشتہار لے آویں۔
والسلام
خاکسار غلام احمد از قادیان‘‘
(مکتوبات احمد جلد نمبر 3صفحہ 195، مکتوب نمبر 5۔ نیوایڈیشن)
حضرت منشی عبداللہ سنوری صاحب رضی اللہ عنہ حضرت اقدس علیہ السلام کی اسی محنت کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں:
’’ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام الٰہی کے ذریعہ یہ معلوم ہوا کہ آپ اس صدی کے مجدّد ہیں (ابھی تک آپ کو مسیحیت و مہدیت کا دعوٰی نہ تھا) تو آپ نے ایک اشتہار کے ذریعہ جو اردو اور انگریزی ہر دو زبانوں کے لئے شائع کیا گیا تھایہ اعلان فرمایا کہ خدا نے مجھے اس زمانہ کا مجدّد مقرّر فرمایا ہے ….. یہ اشتہار بیس ہزار کی تعداد میں شائع کیا گیا اور ….. پھر بڑے اہتمام کے ساتھ تمام دنیا کے مختلف حصوں میں بذریعہ رجسٹرڈ ڈاک اس کی اشاعت کی گئی۔ چنانچہ تمام بادشاہوں و فرماں روایان دول و وزراء ومدبرین و مصنفین وعلماء دینی ونوابوں و راجوں وغیرہ وغیرہ کو یہ اشتہار ارسال کیا گیا اور اس کام کے لئے بڑی محنت کے ساتھ پتے حاصل کئے گئے اور حتیّٰ الوسع دنیا کا کوئی ایسا معروف آدمی نہ چھوڑا گیا جو کسی طرح کوئی اہمیت یا اثر یا شہرت رکھتا ہو اور پھر اسے یہ اشتہار نہ بھیجا گیا ہو کیونکہ حضرت صاحب نے فرمایا تھا کہ جہاں جہاں ہندوستان کی ڈاک پہنچ سکتی ہے وہاں وہاں ہم یہ اشتہار بھیجیں گے نیز میاں عبد اللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس کا اردو حصہ پہلے چھپ چکا تھا اور انگریزی بعد میں ترجمہ کراکے اس کی پشت پرچھاپا گیا۔
(سیرت المہدی جلد اول حصہ دوم صفحہ 296۔ روایت نمبر 321۔ مطبوعہ قادیان 2008ء)
حضرت چوہدری رستم علی صاحب رضی اللہ عنہ کے نام مکتوبات میں بھی ان مکتوبات کا کچھ احوال ملتا ہے۔
(مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ 464۔ مطبوعہ قادیان 2009ء)
یہ مکتوبات کن کے نام لکھے گئے ان کا کچھ تذکرہ تو خود حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات سے ملتا ہے، آپؑ اپنی کتاب ’’ازالہ اوہام‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’یہ عاجز اسی قوتِ ایمانی کے جوش سے عام طور پر دعوت اسلام کے لئے کھڑا ہوا اور بارہ ہزار کے قریب اشتہارات دعوت اسلام رجسٹری کراکر تمام قوموں کے پیشواؤں اور امیروں اور والیانِ ملک کے نام روانہ کئے یہاں تک کہ ایک خط اور ایک اشتہار بذریعہ رجسٹری گورنمنٹ برطانیہ کے شہزادہ ولی عہد کے نام بھی روانہ کیا اور وزیر اعظم تخت انگلستان گلیڈ سٹون کے نام بھی ایک پرچہ اشتہار اور خط روانہ کیا گیا۔ ایسا ہی شہزادہ بسمارک کے نام اور دوسرے نامی امراء کے نام مختلف ملکوں میں اشتہارات و خطوط روانہ کئے گئے جن سے ایک صندوق پُر ہے اور ظاہر ہے کہ یہ کام بجز قوت ایمانی کے انجام پذیر نہیں ہو سکتا۔‘‘
(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 156حاشیہ)
اسی طرح آپ ؑ نے منشی مظہر حسین صاحب نامی ایک شخص کے نام ایک مکتوب میں بھی اس بات کا ذکر فرمایا ہے، حضور علیہ السلام اپنے دعویٰ مجدد کے متعلق فرماتے ہیں:
’’یہ دعویٰ ایسا نہیں کہ وجودیوں کے پُر تزویر مشائخ کی طرح صرف چند سادہ لوح اور بے وقوف مریدوں میں کیا گیا ہو بلکہ یہ دعویٰ بفضلہٖ تعالیٰ و توفیقہٖ میدانِ مقابلہ میں کروڑ ہا مخالفوں کے سامنے کیا گیا ہے اور قریب تیس ہزار کے اس دعویٰ کے دکھلانے کے لئے اشتہارات تقسیم کئے گئے اور آٹھ ہزار انگریزی اشتہار اور خطوط انگریزی رجسٹری کرا کر ملک ہند کے تمام پادریوں اور پنڈتوں اور یہودیوں کی طرف بھیجے گئے اور پھر اس پر اکتفا نہ کر کے انگلستان اور جرمن اور فرانس اور یونان اور روس اور روم اور دیگر ممالک یورپ میں بڑے بڑے پادریوں کے نام اور شہزادوں اور وزیروں کے نام روانہ کئے گئے چنانچہ ان میں سے شہزادہ پرنس آف ویلز ولی عہد تخت انگلستان اور ہندوستان، اور گلیڈ سٹون وزیر اعظم اور جرمن کا شہزادہ بسمارک ہے۔ چنانچہ تمام صاحبوں کی رسیدوں سے ایک صندوق بھرا ہوا ہے۔ پس کیا ایسی کارروائی مکر و فریب میں داخل ہو سکتی ہے؟ کیا کسی مکّار کو یہ جرأت ہے کہ ایسا کام کر کے دکھلاوے؟‘‘
(مکتوبات احمد جلد اول صفحہ 649۔ مطبوعہ قادیان 2009ء)
یہ تینوں شخصیات یعنی پرنس آف ویلز Edward VII (1841-1910)جو 1841ء سے 1901ء تک پرنس آف ویلز تھے اور بعد ازاں تا وفات یو کے کے بادشاہ رہے۔
دوسرے William Ewart Gladstone (1809-1898) ہیں جو مختلف وقتوں میں چار دفعہ برطانیہ کے وزیر اعظم رہے اور تیسرے Otto Eduard Leopold (1815-1898)ہیں جوOtto von Bismarckکے لقب سے مشہور ہیں یہ جرمنی کے پہلے چانسلر تھے۔ ان تینوں شخصیات کے نام مکتوبات کا ذکر حضرت اقدسؑ نے خود فرمایا ہے۔
ان کے علاوہ مندرجہ ذیل دو شخصیات کے نام بھی حضرت اقدسؑ کے اشتہار پہنچنے کا ذکر ملتاہے:
برطانوی سیاست کی تاریخ میں Charles Bradlaugh(1833-1891) ایک معروف نام ہے، یہ صاحب Northamptonسے ممبر آف پارلیامنٹ تھے۔ مذہب کو نہیں مانتے تھے خاص طور پر بائبل کے خلاف مضامین لکھے اور مناظرے بھی کیے۔ اس بات پر زور دیا کہ سٹیٹ کے کاموں میں مذہب کا دخل نہیں ہونا چاہیے۔ اسی بنا پر 1866ء میں the National Secular Society کی بھی بنیاد رکھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے نام بھی مکتوب روانہ فرمایا جس کا ثبوت ایک برطانوی اخبار سے ملتا ہے، اخبار لکھتا ہے:
"Mr. Bradlaugh has received a curious invitation which many people will probably hope he may accept. Mirza Gulam Ahmad, who says that he has been commissioned by the Almighty, has sent the junior member of Northampton, by registered letter, an invitation to visit the Punjab, there to be converted to Islamism, and he offers to guarantee Mr. Bradlaugh 200 rupees per month, with food and lodging. Mr. Bradlaugh has the invitation under consideration.”
(The Western Daily Press, Bristol, United Kindom, Saturday, June 06, 1885, page 3 column 4)
امریکہ کے الیگزینڈر ڈیل مار (Alexander Del Mar) (1836-1926) ایک مشہور ماہر اقتصادیات، ماہر علم سکہ (Numismatist) اور مؤرخ و مصنف تھے، انہوں نے اپنی ایک کتاب میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر کیا ہے جس میں آپؑ کے اس تبلیغی اشتہار کا بھی حوالہ دیا ہے، وہ لکھتے ہیں:
"Manifestation of Mirza Ghulam Ahmad, who signed himself "Chief of Qadian, Gurdaspur District, Panjab.” …. A letter written by him in Pali was translated into English, published in 1886 or 1887, and addressed to the ministers of religion everywhere. It offered to forfeit to them 200 rupees a month if he. Mirza, failed to perform miracles in proof of his divine mission. A further proclamation from him in English and signed as above, with March 23rd, 1894, the original of which is before the writer, offered to forfeit 5000 rupees to any one who should write "an Arabic book equal to mine in beauty of language and size.” His own composition (in Arabic and Urdu( is entitled "Nurr-ul-Haqq "(Divine Light(.”
)The Worship of Augustus Caesar by Alexander Del Mar page 233. published by the Cambridge Encyclopedia Co. 62 Reade Street, New York. 1900(
حضرت اقدس علیہ السلام کا یہ کام نہایت ہی عظیم الشان اور حیرت انگیز ہےکہ ایک دور افتادہ بے سر و سامان گاؤں میں بیٹھے آپؑ نے ہندوستان کے بعد یورپ و امریکہ کی بعض مشہور شخصیات تک بھی اسلام کی صداقت کا پیغام پہنچایا، بعد میں تو حضرت اقدس علیہ السلام نے خود ہی اپنی تحریرات میں اس کام کو ظاہر فرما دیا لیکن اس سے قبل غیروں میں بھی آپؑ کے اس کام کا اظہار ملتا ہے، مثلًا پیشگوئی مصلح موعود کے پس منظر میں ہندوؤں کی طرف سے مطالبہ نشان والے خط میں انہوں نے یہ لکھا:
’’جس حالت میں آپ نے لنڈن اور امریکہ تک اس مضمون کے رجسٹری شدہ خط بھیجے ہیں کہ …..‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 92)
اسی طرح مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نےحضور علیہ السلام کے ساتھ عقیدت کے زمانے میں لکھا:
’’اسی امید پر ہم مؤلف براہین احمدیہ کو یہ صلاح دیتے ہیں کہ جیسے آپ نے پادریوں اور برہم سماج و آریہ سماج کے سر گروہ و اعیان کے نام خطوط متضمن وعدہ مشاہدہ خوارق تحریر کیے ہیں ویسے ہی سر گروہ فرقہ نیچریہ کے نام بھی ایک خط تحریر فرمائیں….‘‘
(اشاعۃ السنۃ النبویہ جلد 7نمبر 10۔ 1884ءصفحہ 287)
ابھی تک تو اُن مکتوبات کا ذکر ہوا ہے جو آپؑ نے اپنے دعویٰ ماموریت سے قبل اسلام کی صداقت ثابت کرنے کی غرض سے ارسال فرمائے۔ بعد ازاں جب اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو خلعت ماموریت سے نوازا تو اس کا پیغام بھی آپؑ نے دنیا کے اکابرین تک پہنچانے کا انتظام فرمایا۔
1892ء میں آپؑ نے احتشام الملک ناصر الدولہ جناب نواب احمد علی خان صاحب (1854-1902) کے نام خط لکھا، جو ریاست بھوپال کی والیہ نواب سلطان شاہجہاں بیگم صاحبہ(1838-1901) کے داماد تھے جن کی شادی فروری 1874ء میں نواب سلطان جہان بیگم صاحبہ کے ساتھ ہوئی۔ آپ بھوپال کے آخری والی جناب نواب سر محمد حمید اللہ خان صاحب کے والد تھے۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے تحریر فرمایا:
’’سو آپ پر واضح ہو کہ یہ عاجز خدا تعالیٰ سے مامور ہوکر اس صدی چار دہم کی اصلاح اور دین کی تجدید اور اس زمانہ کے ایمان کو قوی کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے اور بہت سے آسمانی نشان مجھ کو دیے گئے ہیں جو منجملہ اُن کے تین ہزار کے قریب اب تک ظاہر ہو چکے ہیں اور مجھے حکم ہے کہ میں لوگوں پر ظاہر کروں کہ اُس کی طرف سے مسیح ابن مریم علیہ السلام کے نمونہ پر رحمت کے نمونے دکھلانے کے لیے آیا ہوں جو شخص دل اور جان سے میرا ساتھ کرے گا اُس کا ایمان قوی کیا جائے گا اور گناہوں کی زنجیروں سے مخلصی پائے گا اور دنیا کی مشکلات اُس پر آسان کی جائیں گی اور خدا تعالیٰ کا خاص فضل اُس پر ہوگا۔
سو یہ میری طرف سے تبلیغ ہے اور محض پیغام ہے جو میں نے آپ کو پہنچا دیا ہے اور بطور نمونہ ایک کتاب رسالۂ آسمانی فیصلہ بھی اس کے ہمراہ بھیجتا ہوں اور اثر نصیحت خدا تعالیٰ کے سپرد کرتا ہوں۔
(اخبار الحکم قادیان 14 دسمبر 1919ء صفحہ 3)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دعویٰ کے متعلق 1895ء میں امیر افغانستان عبدالرحمٰن خان (وفات: اکتوبر 1901ء) کے نام ایک مکتوب ارسال فرمایا جس کا اردو ترجمہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔ یہ مکتوب مکرم ڈاکٹر غلام احمد صاحب آئی ایم ایس ابن حضرت شیخ نیاز محمد صاحب رضی اللہ عنہ کی وساطت سے دستیاب ہوا، وہ بیان کرتے ہیں کہ یہ مکتوب مجھے میرے دادا میاں محمد بخش صاحب ڈپٹی انسپکٹر پولیس بٹالہ کے کاغذات سے ملا، یہ اُردو ترجمہ میرے دادا نے کیا یا کرایا تھا اور یہ ترجمہ شاید گورنمنٹ ریکارڈ کے لئے تھا۔ اس مکتوب کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے رضی اللہ عنہ نے اپنی کتاب سیرت المہدی حصہ سوم میں درج فرمایا ہے جہاں سے یہاں نقل کیا جاتا ہے۔ ( اصل مکتوب فارسی زبان میں تھا جو قبل ازیں اخبار الحکم 17 فروری 1907ء صفحہ 8-12پر شائع شدہ ہے۔)
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمد و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
از عاجز عائذ باللہ الصمد غلام احمد عافا اللہ و ایّد۔ بحضرت امیر ظل سبحانی مظہر تفضلات یزدانی شاہ ممالک کابل سلمہ اللہ عزّ وجل۔….اور اللہ کی قسم مَیں اللہ کی طرف سے مامور ہوں۔ وہ میرے باطن اور ظاہر کو جانتا ہے اور اُسی نے مجھے اس صدی کے سر پر دین کے تازہ کرنے کے لئے اٹھایا ہے، اس نے دیکھا کہ زمین ساری بگڑ گئی ہے اور گمراہی کے طریقے بہت پھیل گئے ہیں اور دیانت بہت تھوڑی ہے اور خیانت بہت۔ اور اس نے اپنے بندوں میں سے ایک بندہ کو دین کے تازہ کرنے کے لئے چُن لیا اور اسی نے اس بندہ کو اپنی عظمت اور کبریائی اور اپنے کلام کا خادم بنایا اور خدا کے واسطے خلق اور امر ہے جس طرح چاہتا ہے کرتا ہے، اپنے بندوں سے جس پر چاہتا ہے روح نازل کرتا ہے۔ پس خدا کے کام سے تعجب مت کرو اور اپنے رخساروں کو بدظنی کرتے ہوئے اُونچا نہ اٹھاؤ اور حق کو قبول کرو اور سابقین میں سے بنو۔ اور یہ خدا کا ہم پر اور ہمارے بھائی مسلمانوں پر فضل ہے۔ پس ان لوگوں پر حسرت ہے جو وقتوں کو نہیں پہچانتے اور اللہ کے دنوں کو نہیں دیکھتے اور غفلت اور سُستی کرتے ہیں اور ان کا کوئی شغل نہیں سوائے اس کے کہ مسلمانوں کو کافر بنائیں اور سچے کو جھٹلائیں اور اللہ کے لیے فکر کرتے ہوئے نہیں ٹھہرتے اور متقیوں کے طریق اختیار نہیں کرتے۔ پس یہ وہ لوگ جنھوں نے ہم کو کافر بنایا اور ہم پر لعنت کی اور ہماری طرف نسبت کیا جھوٹا دعویٰ نبوت کا۔ اور انکار معجزہ اور فرشتوں کا۔ اور جو کچھ ہم نے کہا اس کو نہیں سمجھا اور نہ اس میں تدبر یعنی فکر کرتے ہیں اور انھوں نے جلدی سے اپنے منہ کھولے اور ہم ان امور سے بری ہیں جو انھوں نے ہم پر افتراء کئے اور ہم خدا کے فضل سے مومن ہیں اور اللہ پر اور اس کی کتاب قرآن پر اور رسول خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور ہم ان سب باتوں پر ایمان رکھتے ہیں جو ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم لائے اور ہم تمام انبیاء پر ایمان رکھتے ہیں اور ہم تہِ دل سے گواہی دیتے ہیں کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ۔
یہ ہیں ہمارے اعتقاد اور ہم
ان ہی عقائد پر اللہ تعالیٰ کے پاس جائیں گے اور ہم سچے ہیں، تحقیق خدا تمام عالم پر فضل کرنے والا ہے، اس نے اپنے ایک بندہ کو اپنے وقت پر بطور مجدد پیدا کیا ہے، کیا تم خدا کے کام سے تعجب کرتے ہو اور وہ بڑا رحم کرنے والا ہے۔ اور نصاریٰ نے حیات مسیح کے سبب فتنہ برپا کیا اور کفر صریح میں گر گئے۔ پس خدا نے ارادہ کیا کہ ان کی بنیاد کو گِرا دے اور ان کے دلائل کو جھوٹا کرے اور ان پر ظاہر کر دے کہ وہ جھوٹے ہیں۔ پس جو کوئی قرآن پر ایمان رکھتا ہے اور خدا کے فضل کی طرف رغبت کرتا ہے پس اُسے لازم ہے کہ میری تصدیق کرے اور بیعت کرنے والوں میں داخل ہو۔ اور جس نے اپنے نفس کو میرے نفس سے ملایا اور اپنا ہاتھ میرے ہاتھ کے نیچے رکھا، اس کو خدا دنیا میں اور آخرت میں بلند کرے گا اور اس کو دونوں جہان میں نجات پانے والا بنائے گا۔ پس قریب ہے کہ میری اس بات کا ذکر پھیلے اور مَیں اپنے کام کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں اور میرا شکوہ اپنے فکر و غم کا کسی سے نہیں سوائے اللہ کے، وہ میرا رب ہے مَیں نے تو اسی پر توکّل کیا ہے، وہ مجھے بلند کرے گا اور مجھے ضائع نہیں ہونے دے گا اور مجھے عزت دے گا اور ذلّت نہیں دے گا۔ اور جن لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے ان کو جلد معلوم ہو جائے گا کہ وہ خطا پر تھے اور ہماری آخری دعا یہ ہے کہ ہر قسم کی تعریف خدا کے واسطے ہے اور وہ تمام عالموں کا پالنے والا ہے۔
الملتمس عبد اللہ الصمد غلام احمد ماہ شوال 1313ھ
(سیرت المہدی جلد اول حصہ سوم صفحہ 579-587 روایت نمبر 617)
تیسرا مکتوب حضرت اقدس علیہ السلام نے 1897ء میں ملکہ برطانیہ Alexandrina Victoria (1819-1901)کے نام تحریر فرمایا جو ’’تحفہ قیصریہ‘‘ کے نام سے معروف ہے، آپؑ نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کی:
’’اے قادر توانا! ہم تیری بے انتہا قدرت پر نظر کرکے ایک اور دعا کے لیے تیری جناب میں جرأت کرتے ہیں کہ ہماری محسنہ قیصرہ ہند کو مخلوق پرستی کی تاریکی سے چھڑا کر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ پر اس کا خاتمہ کر۔ اے عجیب قدرتوں والے! اے عمیق تصرفوں والے! ایسا ہی کر۔‘‘
(تحفہ قیصریہ، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 290)
پس یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ مسلمانان عالم میں سے یہ سعادت و جرأت صرف اور صرف حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو نصیب ہوئی کہ اکابرین عالم کو یہاں تک کہ اس وقت کی سب سے بڑی سلطنت کے سربراہ کو پیغام اسلام پہنچایا۔ آپؑ فرماتے ہیں:
’’دنیا کے بادشاہوں کو اپنی بادشاہیاں مبارک ہوں، ہمیں ان کی سلطنت اور دولت سے کچھ غرض نہیں، ہمارے لئے آسمانی بادشاہت ہی ہے ہاں نیک نیتی سے، سچی خیر خواہی سے بادشاہوں کو بھی آسمانی پیغام پہنچانا ضروری ہے۔‘‘
(تحفہ قیصریہ، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 265)
مجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جُدا
مجھ کو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوانِ یار
ہم تو بستے ہیں فلک پر اس زمیں کو کیا کریں
آسماں کے رہنے والوں کو زمیں سے کیا نقار