خطبہ جمعہ ۱۰ مارچ ۲۰۱۷ء
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 10مارچ 2017ء بمطابق10؍امان 1396 ہجری شمسی بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے
اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب دنیا کے کئی ممالک میں جامعہ احمدیہ کا قیام ہو چکا ہے جہاں سے مربیان اپنی تعلیم مکمل کر کے میدان عمل میں آ چکے ہیں اور آ رہے ہیں۔
جماعت کو مربیان اور مبلغین کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت بہت بڑھ رہی ہے بلکہ بڑھ گئی ہے اس لئے زیادہ سے زیادہ واقفین نَو کو جامعہ احمدیہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آنا چاہئے۔ والدین بچپن سے ہی لڑکوں کو اس طرف توجہ دلائیں اور ان کی تربیت کریں۔ ایسی تربیت کریں کہ ان کو جامعہ احمدیہ میں داخل ہونے کا شوق پیدا ہو۔
مربیان کو پہلی بات تو یہ یاد رکھنی چاہئے کہ انہوں نے انتظامی لحاظ سے جو بھی ان پر مقرر کیا گیا ہے اس کی اطاعت کرنی ہے اور اپنی اطاعت کا نمونہ دکھانا ہے
صدران اور امراء سے بھی مَیں یہ کہتا ہوں کہ مربیان کی عزت و احترام قائم کرنا ان کا کام ہے اور کسی بھی جماعت میں سب سے زیادہ مربی کی عزت و احترام کرنے والا اور تعاون کے ساتھ اور مشورے کے ساتھ چلنے والا صدر جماعت اور امیر جماعت کو ہونا چاہئے۔ اور اسی طرح باقی عہدیداران بھی اپنے اپنے دائرے میں مربی کے ساتھ تعاون کرنے والے ہوں۔ اور مربی بھی کامل عاجزی اور تقویٰ کے ساتھ صدر جماعت یا امیر جماعت سے بھرپور تعاون کرے۔
جماعت کی خدمت میں تو تقویٰ ہی ہے جو حقیقی اور مقبول خدمت کی توفیق دے سکتا ہے۔
صدر اور امیر اور تمام جماعتی عہدیداران کا کام بلکہ ذمہ داری ہے کہ مبلغین بلکہ جتنے بھی واقفین زندگی ہیں ان کا ادب اور احترام اپنے دل میں بھی پیدا کریں اور افراد جماعت کے دلوں میں بھی پیدا کریں۔ ان کی عزت کرنا اور کروانا آپ لوگوں کا کام ہے تا کہ مربی اور مبلغ اور واقف زندگی کے مقام کی اہمیت واضح ہو اور زیادہ سے زیادہ نوجوان جماعتی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں ۔
واقفین نَو نوجوانوں کو اور میدان عمل میں نوجوان مربیان کو بھی مَیں یہ کہنا چاہوں گا کہ دنیا چاہے آپ کے مقام کو سمجھے یا نہ سمجھے۔ کوئی صدر، امیر یا عہدیدار بلکہ کوئی فرد جماعت بھی آپ کی عزت اور احترام کرے یا نہ کرے آپ نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ قربانی کرنے کا جو عہد کیا ہے اسے نیک نیتی سے نبھاتے رہیں۔
عہدیداران اور خاص طور پر صدران اور امراء یہ بھی یاد رکھیں کہ افراد جماعت کے لئے بھی ہمیشہ پیار اور محبت کے پَر پھیلائیں۔ جماعت کا کوئی عہدہ بھی کسی قسم کی بڑائی پیدا کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ عاجزی میں بڑھانے کے لئے ہے۔ اس لئے ہر فیصلہ اور ہر کام اللہ تعالیٰ کا خوف دل میںرکھتے ہوئے اور انتہائی عاجزی سے انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔اسی طرح ذیلی تنظیموں کے عہدیدار بھی اپنی ذمہ داریاں سمجھیں۔ ذیلی تنظیمیں بھی، انصار بھی لجنہ بھی خدام بھی، ہر سطح پر فعال ہوں۔ہر عہدیدار جو ہے، خدمت دین کو اللہ تعالیٰ کا احسان سمجھتے ہوئے کرے اور ایک دوسرے سے تعاون بھی کریں۔ نظام جماعت صدران، امراء اور ذیلی تنظیموں کا بھی ایک دوسرے سے باہمی تعاون ہونا چاہئے۔ اگر یہ باہمی تعاون ہو اور تمام ذیلی تنظیمیں اور جماعتی نظام بھی فعال ہو تو جماعت کی ترقی کی رفتار کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔
افراد جماعت سے مَیں یہ کہنا چاہوں گا کہ وہ بھی اپنے تقویٰ کے معیار بڑھائیں۔ نیکی اور تقویٰ میں تعاون کا انہیں بھی حکم ہے۔ اگر افراد جماعت کے معیار نیکی اور تقویٰ کے زیادہ ہوں گے تو عہدیدار خود بخود نیکی اور تقویٰ پر چلنے والے ملتے جائیں گے۔
ہر فرد جماعت کو اپنا فرض بھی پورا کرنا چاہئے جو اس کے ذمہ اطاعت کے حوالے سے کیا گیا ہے۔ آپ کی اطاعت کے نمونے جہاں آپ کو جماعت سے تعلق میں بڑھائیں گے، وہاں آپ کی نسلوں کو بھی جماعت سے منسلک رکھیں گے۔اگر نسلوں کے تقویٰ کے نیکی کے معیار بلند ہوں اور بڑھتے چلے جائیں تو پھر آئندہ نسلوں میں تقویٰ پر چلنے والے عہدیدار بھی ملتے چلے جائیں گے۔
قرآن مجید، احادیث نبویہﷺ اور حضرت اقدس مسیح موعود؈ کے ارشادات کے حوالہ سے امراء، صدران، جماعتی ذیلی تنظیموں کے عہدیداران اور مربیان و مبلغین کو نہایت اہم نصائح
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب دنیا کے کئی ممالک میں جامعہ احمدیہ کا قیام ہو چکا ہے جہاں سے مربیان اپنی تعلیم مکمل کر کے میدان عمل میں آ چکے ہیں اور آ رہے ہیں۔ پہلے صرف ربوہ اور قادیان کے جامعات ہی تھے جہاں سے شاہدین مربیان مہیا ہوتے تھے۔ گزشتہ دنوں میں یہاں یوکے(UK) کے جامعہ احمدیہ میں بھی جامعہ احمدیہ سے پاس ہونے والوں کی convocation ہوئی جو کینیڈا اور یوکے(UK) کے جامعات کے پاس ہونے والے طلباء کی مشترکہ convocationتھی۔ شاہد کی ڈگری لے کر اپنے آپ کو بطور مربی خدمت کے لئے پیش کرنے والے یہ لوگ وہ ہیں جو یہاں مغربی ماحول میں پلے بڑھے اور اپنے سکول کی تعلیم مکمل کر کے اپنے آپ کو جامعہ کی تعلیم کے لئے پیش کیا اور کامیاب ہوئے۔ ان کی اکثریت بلکہ تقریباً تمام ہی وہ ہیں جو وقف نو کی تحریک میں شامل ہیں۔ مغربی ممالک میں رہتے ہوئے جہاں دنیاداری اور دنیاوی چمک دمک عروج پر ہے، اپنے آپ کو وقف کر کے اللہ تعالیٰ کے دین کے سپاہیوں میں شامل ہونے کے لئے پیش کرنا یقیناً ان کی سعادتمندی اور دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے عہد کو پورا کرنے کا اظہار ہے۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لئے ان کو بھی اور جو اس وقت مغربی ممالک کے جامعات میں پڑھ رہے ہیں اُن کو بھی یا عام جامعات میں، عام سے مراد کہ دوسرے ممالک میں، جو پڑھ رہے ہیں اُن کو بھی اپنے اندر عاجزی پیدا کرتے ہوئے خالصۃً اسے اللہ تعالیٰ کے فضل کا باعث سمجھنا چاہئے اور اس کے آگے جھکتے ہوئے اس کے فضل کی تلاش ہمیشہ کرتے رہنا چاہئے۔
اسی طرح مَیں نے جامعہ احمدیہ کی convocation میں بھی کہا تھا کہ جماعت کو مربیان اور مبلغین کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت بہت بڑھ رہی ہے بلکہ بڑھ گئی ہے اس لئے زیادہ سے زیادہ واقفین نَو کو جامعہ احمدیہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آنا چاہئے۔ والدین بچپن سے ہی لڑکوں کو اس طرف توجہ دلائیں اور ان کی تربیت کریں۔ ایسی تربیت کریں کہ ان کو جامعہ احمدیہ میں داخل ہونے کا شوق پیدا ہو۔
اس وقت ربوہ اور قادیان کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یوکے(UK) اور جرمنی میں بھی جامعہ ہیں جن میں یورپ کے رہنے والے تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ کینیڈا میں جامعہ احمدیہ ہے جو وہاں باقاعدہ حکومتی ادارے سے منظور ہو چکا ہے۔ وہاں بعض دوسرے ممالک سے بھی طلباء آ سکتے ہیں اور آئے ہوئے ہیں، پڑھ رہے ہیں۔ غانا میں جامعہ احمدیہ ہے۔ اس سال وہاں بھی اُس کی شاہد کی پہلی کلاس نکلے گی جہاں اس وقت مختلف ممالک سے آئے ہوئے طلباء زیر تعلیم ہیں۔ بنگلہ دیش میں بھی جامعہ احمدیہ ہے۔ انڈونیشیا میں بھی جامعہ احمدیہ کو شاہد کے کورس تک بڑھا دیا گیا ہے۔
پس واقفین نَو بچوں کو کوشش کرنی چاہئے کہ جامعات میں داخل ہوں اور جیسا کہ میں نے کہا اس کے لئے ان کے والدین کو تیار کرنا چاہئے۔ہمارے جامعات میں جتنی بھی گنجائش ہے کم از کم وہ پوری ہونی چاہئے۔ تبھی ہم اس وقت جو مبلغین کی اور مربیان کی ضرورت ہے اسے پورا کر سکتے ہیں۔
اس وقت مَیں میدان عمل میں آنے والے مربیان کے ذہنوں میں جو بعض سوالات آتے ہیں، ان کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ اس کا وہ تذکرہ بھی کر دیتے ہیں یا پوچھتے ہیں ان مربیان اور مبلغین کو تو مَیں بتاتا ہی رہتا ہوں۔ ان کے سوالوں کے جواب دیتا ہوں۔ اس لئے یہاں ذکر ضروری ہے تا کہ جو جماعتی نظام کے عہدیدار ہیں ان کو بھی پتا چل جائے کہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون سے کس طرح انہوں نے کام کرنا ہے۔ یعنی مربیان و مبلغین اور عہدیداروں کا تعاون۔ اس میں خاص طور پر صدران، امراء ہیں کیونکہ بعض دفعہ عہدیداروں کے ساتھ غلط فہمی کی وجہ سے بعض کھچاوٹ پیدا ہوجاتی ہے۔ آپس کے تعلقات پوری طرح تعاون کے نہیں رہتے یا یہ احساس ایک فریق میں پیدا ہو جاتا ہے کہ تعاون نہیں ہے۔
مربّیان کے یہ سوال ہوتے ہیں کہ ہمارے کاموں میں صدر جماعت کس حد تک دخل اندازی کر سکتا ہے؟ ہماری کیا حدود ہیں اور ان کی کیا حدود ہیں؟ بعض دفعہ مربی ایک بات کو تربیت کے لحاظ سے بہتر سمجھتا ہے اور بہتر سمجھ کر جماعت میں رائج کرنے کی کوشش کرتا ہے تو صدر جماعت کہتا ہے کہ مَیں نہیں سمجھتا کہ اس کو اس طرح کرنا چاہئے۔ یا بعض صدران اپنے مزاج کے لحاظ سے اور ایک لمبا عرصہ صدر جماعت رہنے کی وجہ سے سمجھتے ہیں کہ جو وہ کہتے ہیں وہ ٹھیک ہے اور مربی کو ان کی مرضی کے مطابق چلنا چاہئے۔ اور پھر بعض دفعہ لوگوں کے سامنے ہی، ایک مجلس کے سامنے مربی سے ایسے انداز میں جواب طلبی کرتے اور بات کرتے ہیں جو نہیں کرنی چاہئے۔ اور نوجوان مربی اس بات پر پھر پریشان ہوتے ہیں یا برا مناتے ہیں یا سُبکی محسوس کرتے ہیں یا ہو سکتا ہے کہ آگے سے کوئی جواب بھی دے دیں۔مربیان کو پہلی بات تو یہ یاد رکھنی چاہئے کہ انہوں نے انتظامی لحاظ سے جو بھی ان پر مقرر کیا گیا ہے اس کی اطاعت کرنی ہے اور اپنی اطاعت کا نمونہ دکھانا ہے اور اگر ایسے حالات پیدا ہوں تو خاموش رہنا ہے، تا کہ افراد جماعت پر کسی قسم کا منفی اثر نہ پڑے اور جماعت میں کوئی بے چینی پیدا نہ ہو۔ اگر کوئی زیادتی کی بات ہے تو اپنے نیشنل امیر، صدر کو بتائیں یا مرکز میں بتائیں۔ مجھے بھی لکھ سکتے ہیں۔
اسی طرح صدران اور امراء سے بھی مَیں یہ کہتا ہوں کہ مربیان کی عزت و احترام قائم کرنا ان کا کام ہے اور کسی بھی جماعت میں سب سے زیادہ مربی کی عزت و احترام کرنے والا اور تعاون کے ساتھ اور مشورے کے ساتھ چلنے والا صدر جماعت اور امیر جماعت کو ہونا چاہئے۔ اور اسی طرح باقی عہدیداران بھی اپنے اپنے دائرے میں مربی کے ساتھ تعاون کرنے والے ہوں۔ اور مربی بھی کامل عاجزی اور تقویٰ کے ساتھ صدر جماعت یا امیر جماعت سے بھرپور تعاون کرے۔
مقصد تو ہمارا ایک ہے کہ افراد جماعت کی تعلیم و تربیت، نظام جماعت کا احترام قائم کرنا، خلافت سے وابستگی پیدا کرنا اور توحید کا قیام کرنا۔ اسلام کی حقیقی تعلیم کو دنیا میں پھیلانا۔ اس میں حدود اور اختیارات کا کیا سوال ہے۔ آپس میں ایک ہو کر کام کرنا چاہئے۔ اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ کے اس بنیادی ارشاد کو سامنے رکھنا چاہئے کہ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی(المائدۃ3:)۔ یعنی نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔ ہر ایک جانتا ہے کہ جماعت کی خدمت چاہے وہ کسی رنگ میں بھی کرنے کی توفیق مل رہی ہو اس سے بڑی اور کوئی نیکی نہیں ہے اور خدمت کے بجا لانے کے لئے تقویٰ بھی ضروری ہے۔ جماعت کی خدمت میں تو تقویٰ ہی ہے جو حقیقی اور مقبول خدمت کی توفیق دے سکتا ہے۔ یہ کام تو ہے ہی اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے اس کی رضا حاصل کرنے کا۔ پس مربیان کے لئے بھی اور عہدیداران کے لئے بھی جو حدود قائم کی گئی ہیں وہ نیکی کا حصول اور تقویٰ پر چلنا ہے تا کہ جہاں آپس میں محبت اور اخوّت کے رشتے قائم ہوں وہاں جماعت کی علمی اور روحانی ترقی میں بھی دونوں اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک دفعہ فرمایا کہ:
’’تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰیکا مطلب ہے کمزور بھائیوں کا بار اٹھاؤ۔ عملی، ایمانی اور مالی کمزوریوں میں بھی شریک ہو جاؤ۔ بدنی کمزوریوں کا بھی علاج کرو‘‘ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب جماعت کے افراد کا درد رکھتے ہوئے جماعتی عہدیدار بھی اور مربیان بھی مل جل کر کام کریں۔ عملی کمزوریوں یا ایمانی کمزوریوں میں شریک ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خود بھی ویسے ہو جاؤ۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ عملی اور ایمانی کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے جو صدر جماعت اور عہدیداروں کا دائرہ ہے وہ اس کے مطابق کرے اور جو مربیان کا دینی علم میں بہتر ہونے اور تربیت کے لئے خلیفۂ وقت کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے کام ہے وہ اسے بجا لائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مزید یہ وضاحت فرمائی کہ:’’کوئی جماعت جماعت نہیں ہو سکتی جب تک کمزوروں کو طاقت والے سہارا نہیں دیتے‘‘۔ پس نظام جماعت اس لئے بنایا جاتا ہے کہ افراد جماعت کی روحانی علمی اور جسمانی بہتری کے لئے پروگرام بنایا جائے۔
آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’بڑا چھوٹے کی خدمت کرے اور محبت ملائمت کے ساتھ برتاؤ کرے۔‘‘ یہ جہاں عہدیداروں اور خاص طور پر صدران اور امراء کے افراد جماعت کے ساتھ تعلق میں ضروری چیز ہے وہاں صدر جماعت اور مربی کے تعلق کے لئے بھی بڑا ضروری ہے۔ نیکی اور تقویٰ کے ساتھ ایک دوسرے سے برتاؤ کی وجہ سے افراد جماعت کے سامنے نیک نمونے قائم ہوں گے جو افراد جماعت کی علمی اور روحانی ترقی کے لئے ضروری ہیں۔
یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض دفعہ جہاں ذرا سا بھی صدر یا عہدیداران یا مربیان کے تعلقات میں کمی ہے یا کوئی ہلکا سا بھی شکوہ آپس میں پیدا ہوا ہے تو وہاں شیطان اندر گھسنے کی کوشش کرتا ہے اور نیکی اور تقویٰ کی جڑیں ہلنی شروع ہو جاتی ہیں۔ کچھ مربی کے ہمدرد بن کر اسے کہتے ہیں کہ تمہارے ساتھ صدر جماعت نے اچھا سلوک نہیں کیا اور کچھ لوگ صدر جماعت کو کہتے ہیں کہ مربی کو یہ رویہ نہیں اپنانا چاہئے تھا۔ جن لوگوں کی اصلاح صدر جماعت اور مربی کا کام تھا ان میں سے ہی بعض صدر اور مربی کے درمیان خلیج اور دوری پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور نتیجۃً لوگو ں میں پھر بے چینی پیدا ہو جاتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’دیکھو وہ جماعت جماعت نہیں ہو سکتی جو ایک دوسرے کو کھائے اور جب چار مل کر بیٹھیں تو ایک اپنے غریب بھائی کا گلہ کریں اور نکتہ چینیاں کرتے رہیں۔‘‘ فرمایا ’’ایسا ہرگز نہیں چاہئے بلکہ اجماع میں چاہئے قوت آ جاوے۔‘‘ (اکٹھے ہو جاؤ۔ ایک بن جاؤ تا کہ طاقت پیدا ہو۔ اس میں قوت پیدا کرو) ’’اور وحدت پیدا ہو جاوے جس سے محبت آتی ہے اور برکات پیدا ہوتے ہیں‘‘۔
فرمایا کہ’’ اخلاقی قوتوں کو وسیع کیا جاوے اور یہ تب ہوتا ہے کہ جب ہمدردی، محبت، عفو اور کرم کو عام کیا جاوے اور تمام عادتوں پر رحم، ہمدردی اور پردہ پوشی کو مقدم کر لیا جاوے‘‘۔ انسان میں اور خاص طور پر عہدیداروں اور مربیان میں جتنی عادتیں ہیں جن کے ذمہ بہت بڑے کام ہیں ان کا یہ کام ہے۔ فرمایا کہ رحم، ہمدردی اور پردہ پوشی کو ہر عادت پر حاوی کر لو۔ رحم سب سے زیادہ تمہارے اندر ہو ۔دوسروں کی ہمدردی سب سے زیادہ تمہارے اندر ہو۔ پردہ پوشی ایک دوسرے کی سب سے زیادہ تمہارے اندر ہو۔ فرمایا کہ ’’ذرا ذرا سی بات پر ایسی سخت گرفتیں نہیں ہونی چاہئیں جو دل شکنی اور رنج کا موجب ہوتی ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد3 صفحہ348-347۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
یہ حوالہ دینے کا یہ مطلب نہیں کہ خدانخواستہ جماعتی عہدیداروں اور خاص طور پر صدر یا امیر اور مربی کے درمیان جماعت میں عموماً اختلافات پائے جاتے ہیں۔ نہیں، ہرگز یہ بات نہیں ہے۔ شاید اِکّا دُکّا ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ کم از کم میرے علم میں سال میں ایک آدھ دفعہ ہی آتے ہیں۔یہ تمام باتیں میں نے کھول کر اس لئے بتا دی ہیں کہ صدر، امیر اور مربیان کو پتا ہو کہ ان کا کام بڑا وسیع ہے اور ایک اہم مقصد ہمارے سامنے ہے اور اگر کبھی خدانخواستہ آپس میں اختلاف پیدا ہو تو پھر وہ فوری طور پہ حل ہونا چاہئے۔ کیونکہ بعض دفعہ دیکھنے میں آیا ہے کہ آپس کا اختلاف آپس تک نہیں رہتا بلکہ افراد جماعت پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے اور شیطان، جیسا کہ پہلے بھی میں نے کہا، اس سے ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے۔ اس لئے ہمیشہ دونوں یہ بڑا مقصد اپنے سامنے رکھیں کہ جماعت کی علمی، روحانی اور انتظامی تربیت کی جو ذمہ داری ان پہ ڈالی گئی ہے وہ دونوں نے مل جل کر ادا کرنی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی بڑا واضح یہ فرمایا ہے کہ صحیح نتائج اسی وقت حاصل ہو سکتے ہیں جب آپس میں مل جل کر کام کرو۔ آپ نے فرمایا کہ ’’جو کام دو ہاتھ کے ملنے سے ہونا چاہئے وہ محض ایک ہی ہاتھ سے انجام نہیں ہو سکتا‘‘ اور فرمایا کہ ’’جس راہ کو دو پاؤں مل کر طے کرتے ہیں وہ فقط ایک ہی پاؤں سے طے نہیں ہو سکتا‘‘۔ فرمایا کہ’’ اسی طرح تمام کامیابی ہماری معاشرت اور آخرت کے تعاون پر ہی موقوف ہو رہی ہے۔ کیا کوئی اکیلا انسان کسی کام دین یا دنیا کو انجام دے سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ کوئی کام دینی ہو یا دنیاوی بغیر معاونت باہمی کے چل ہی نہیں سکتا۔‘‘ (براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد1 صفحہ59)
پھر آپ نے یہ بھی فرمایا کہ خاص طور پر وہ کام جس کا بہت بڑا اور عظیم مقصد ہے اس کے لئے تو آپس کا تعاون انتہائی ضروری ہے۔ (ماخوذ از براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد1 صفحہ59)
پس نہ ہی صدر یا امیر کو تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھ کر اپنی مرضی چلانے کی کوشش کرنی چاہئے اور نہ ہی مربیان کو اپنی رائے صحیح سمجھ کر اس پر عمل کرنے یا کروانے کی کوشش کرنی چاہئے بلکہ تعاون سے کام کریں اور کیونکہ مربی کے ذمہ جماعت کی تربیت کی ذمہ داری ہے اور جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اس کا دینی علم بھی زیادہ ہے یا عموماً ہوتا ہے اور ہونا چاہئے اور اسے دینی علم کو بڑھاتے بھی رہنا چاہئے اور روحانیت کو بڑھاتے رہنے کی بھی کوشش کرتے رہنا چاہئے۔ اس لئے اس کے تقویٰ کا معیار عام لوگوں سے زیادہ ہونا چاہئے۔ جب اس بات کو مربیان سمجھ لیں گے اور اس کے مطابق عمل کریں گے تو عہدیداروں اور افراد جماعت کے درمیان خود بخود مربیان کا ایک مقام بن جائے گا۔
صدر جماعت یا امیر جماعت کو یاد رکھنا چاہئے کہ جہاں انتظامی سربراہ ہونے کی وجہ سے جماعت کے انتظامی نظام کو صحیح طور پر چلانے کی ان کی ذمہ داری ہے اور اس کام میں خلیفۂ وقت نے ان کو اپنا نمائندہ بنایا ہوا ہے۔ اسی طرح جماعت کی دینی اور روحانی بہتری اور ترقی اور اس کے لئے ممکنہ ذرائع استعمال میں لانے کی ذمہ داری مربیان کی ہے اور وہ اس معاملہ میں خلیفۂ وقت کے نمائندے ہیں۔ پس دونوں امراء بھی، صدران بھی، یعنی امراء اور صدران اور مربیان کا آپس کا تعاون ہونا چاہئے اور ایک سکیم کے تحت کام کرنا چاہئے تبھی جماعت کو انتظامی لحاظ سے وہ مضبوط کر سکیں گے اور روحانی اور علمی معیار بھی ترقی کرتے چلے جانے والے ہوں گے۔
پہلے بھی مَیں مختصر ذکر کر آیا ہوں دوبارہ کہہ دیتا ہوں کہ صدر اور امیر اور تمام جماعتی عہدیداران کا کام بلکہ ذمہ داری ہے کہ مبلغین بلکہ جتنے بھی واقفین زندگی ہیں ان کا ادب اور احترام اپنے دل میں بھی پیدا کریں اور افراد جماعت کے دلوں میں بھی پیدا کریں۔ ان کی عزت کرنا اور کروانا آپ لوگوں کا کام ہے تا کہ مربی اور مبلغ اور واقف زندگی کے مقام کی اہمیت واضح ہو اور زیادہ سے زیادہ نوجوان جماعتی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں ۔
بیشک خدمت دین کے لئے وقف کرنا اور مربی اور مبلغ بننا خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ہے لیکن یہ سمجھ بوجھ جو ہے، یہ فہم و اِدراک جو ہے، یہ تدریجاً بڑھتا ہے۔ نوجوان واقفین نَو کو مکمل طور پر اپنے آپ کو اس خدمت کے لئے پیش کرنے کے لئے ظاہری محرک بھی چاہئے جو اُن کے شوق کو ابھارے۔ یہ انسانی فطرت ہے اس سے انکار نہیں ہو سکتا۔ اور جب وقف اور جماعتی خدمت کا اِدراک پیدا ہو جائے، (شروع میں تو محرک چاہئے،) لیکن جب یہ اِدراک پیدا ہو جائے، جب اللہ تعالیٰ کی خاطر ہر کام کرنے کی سمجھ آ جائے تو پھر وقف کے ساتھ روحانی ترقی بھی ہوتی رہتی ہے۔ پھر ایک واقف زندگی دنیا کی طرف یا دنیاداروں اور دنیا والوں کے سلوک کی طرف نہیں دیکھتا اور نہ دیکھنا چاہئے اور یہی ایک حقیقی وقف کی روح ہے۔
پس صدران اور امراء اور عہدیداران مربیان کے ساتھ اور واقفین زندگی کے ساتھ رویّوں میں انتہائی عاجزی اور تعاون کے جذبے کو بڑھائیں تا کہ آئندہ مربیان کا حصول آسان ہو اور نوجوانوں کے دلوں میں زیادہ سے زیادہ مربی اور مبلغ بننے اور زندگی وقف کرنے کی تحریک پیدا ہو۔جیسا کہ مَیں نے کہا ہمیں بہت بڑی تعداد میں مربیان چاہئیں۔
واقفین نَو نوجوانوں کو اور میدان عمل میں نوجوان مربیان کو بھی مَیں یہ کہنا چاہوں گا کہ دنیا چاہے آپ کے مقام کو سمجھے یا نہ سمجھے۔ کوئی صدر، امیر یا عہدیدار بلکہ کوئی فرد جماعت بھی آپ کی عزت اور احترام کرے یا نہ کرے آپ نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ قربانی کرنے کا جو عہد کیا ہے اسے نیک نیتی سے نبھاتے رہیں۔ آپ کی نظر اس بات پر ہو کہ پہلے میرے ماں باپ نے پیدائش سے پہلے مجھے وقف کیا اور پھر جوانی میں قدم رکھ کر مَیں نے اپنے وقف کی تجدید کی اس لئے میں نے دنیا کی طرف نہیں دیکھنا بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف دیکھنا ہے اور خدا تعالیٰ کی جماعت کی ضرورت کو دیکھنا ہے۔ اس لئے میں جامعہ میں جانے کے لئے اپنے آپ کو پیش کروں گا۔ اور جب مربی بن گئے تو پھر ہر معاملے میں خدا تعالیٰ کے آگے ہی جھکنا ہے اور لوگوں کے رویّوں کی کچھ پرواہ نہیں کرنی۔ یعنی انسان تو ویسے ہی ہمیشہ خدا تعالیٰ کے آگے ہی جھکتا ہے اور جھکنا چاہئے لیکن یہاں مراد یہ ہے کہ پھر یہ نہیں دیکھنا کہ عہدیدار کیا کہہ رہے ہیں۔ اگر کوئی شکوے اور ایسی باتیں پیدا بھی ہو جائیں تب بھی بجائے بندوں سے اظہار کرنے کے خدا تعالیٰ کے آگے جھکنا ہے۔ لوگوں کے رویّوں کی پرواہ نہیں کرنی۔
ایک واقف زندگی زندگی بھر کا وقف کرتا ہے۔ اس نے اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر کام کرنے کے لئے پیش کر دی جبکہ ایک عہدیدار چند سال کے لئے عارضی طور پر عہدیدار بنایا جاتا ہے۔ پس اگر وہ یعنی عہدیدار جماعت کے لئے مفید وجود نہیں بنتا اور تعاون کی بجائے مسائل پیدا کرتا ہے تو خدا تعالیٰ سے دعا مانگیں کہ ایسے عہدیدار سے اللہ تعالیٰ جان چھڑا دے۔کیونکہ مربیان کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ عہدیداروں کے لئے دعا بھی کیا کریں کہ وہ صحیح رستے پر چلنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ عالم الغیب بھی ہے اور سب طاقتوں کا مالک بھی ہے۔ اس کے نزدیک اگر عہدیدار کو اس کے عہدہ سے ہٹانا بہتر ہو تو یہ کر دے گا اور اگر اللہ تعالیٰ کی نظر میں اس عہدیدار کی بعض دوسری خوبیوں کی وجہ سے خدمت میں رہنا بہتر ہے تو یہ کمزوریاں جو بعض مسائل پیدا کرتی ہیں اللہ تعالیٰ اس دعا کو قبول کرتے ہوئے ان کی اصلاح کر دے گا۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ مربی نے تو ہر جگہ تعاون کرنا ہے اور دعا کرنی ہے۔
اسی طرح میں عہدیداروں اور مربیان دونوں کو یہ بات بھی کہنا چاہتا ہوں کہ جب ہم افراد جماعت سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ ان کے گھروں میں عہدیداروں کے متعلق باتیں نہ ہوں یعنی منفی باتیں تو پھر صدران اور امراء اور عہدیداران اور اسی طرح مربیان کو بھی ہمیشہ اس بات کی پابندی کرنی چاہئے کہ ان کے گھروں میں بھی ایک دوسرے کے متعلق کسی قسم کی منفی باتیں نہ ہوں۔ ہاں مثبت باتیں بیشک ہوں تا کہ مربیان کی نسلوں میں بھی اور عہدیداران کی نسلوں میں بھی نظام جماعت اور واقفین زندگی اور کسی بھی رنگ میں جماعت کی خدمت کرنے والوں کا احترام پیدا ہو۔
عہدیداران اور خاص طور پر صدران اور امراء یہ بھی یاد رکھیں کہ افراد جماعت کے لئے بھی ہمیشہ پیار اور محبت کے پَر پھیلائیں۔ کسی قسم کا عہدہ ملنا آپ کا کوئی حق نہیں تھا، نہ ہے۔ یہ خالصۃً اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے اس فضل کی بڑی عاجزی سے قدر کریں اور خلیفۂ وقت نے آپ پر جو اعتماد کیا ہے اور اعتماد کرتے ہوئے اس پیاری جماعت کی نگرانی کا کام سپرد کیا ہے اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں۔ صدر اور عہدیدار اپنی جماعت کے ہر فرد بڑے اور چھوٹے کو یہ احساس دلائیں کہ وہ محفوظ پَروں کے نیچے ہے جس طرح مرغی اپنے بچوں کو پَروں میں لے لیتی ہے۔ ہمیشہ ہر ایک سے نرمی سے اور مسکراتے ہوئے بات کریں۔ دفتر کی کرسی آپ میں تکبر کے بجائے عاجزی پیدا کرنے والی ہو۔ ہر عہدیدار کے بھی اور ہر مربی کے بھی دروازے ہر شخص کے لئے کھلے ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ ہمیں ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ روایت میں آتا ہے کہ آپ ہمیشہ مسکرا کر ملا کرتے تھے۔
(صحیح البخاری کتاب الادب باب التبسم والضحک حدیث 6089)
اسی طرح بعض لوگوں کو یہ بھی شکوہ ہوتا ہے کہ ہمارا کوئی معاملہ جماعتی نظام کے پاس جاتا ہے تو پھر مہینوں اس کا پتا نہیں چلتا حالانکہ مَیں گزشتہ سال میں بھی کئی دفعہ خطبہ میں اس بارے میں یاددہانی کرا چکا ہوں۔ معاملات کو نپٹانے میں جلدی کیا کریں۔ لٹکایا نہ کریں۔ دوسرے اگر معاملہ کسی وجہ سے مجبوراً لمبا ہو رہا ہے جس کی بعض دفعہ جائز وجہ ہوتی ہے تو جو ضروری تحقیق تھی اگر وہ مکمل نہیں ہو رہی تو پھر متأثرہ فریق کو یا شکایت کنندہ کو یا اگر دونوں فریقین ہیں تو ان کو بتا دیں کہ کچھ دیر لگے گی۔ ان کے خط کو بہرحال acknowledge کرنا چاہئے۔ اگر متاثرین کو جواب دے کر تسلی کروا دی جائے اور عہدیدار خاص طور پر صدر اور امراء مسکراتے چہرے کے ساتھ لوگوں کو ملیں تو متأثرہ فریق کی آدھی کوفت دور ہو جاتی ہے اور آدھے شکوے ختم ہو جاتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ہمیں چھوٹی سے چھوٹی بات سمجھا دی کہ کیسے ہمارے اخلاق ہونے چاہئیں۔ اگر ان پر عمل کریں تو صدران، امراء اور عہدیداران سے جو لوگوں کو یہ شکوہ ہوتا ہے کہ ان کے رویّے سے بے چینیاں پیدا ہوتی ہیں، وہ بے چینیاں پیدا نہ ہوں۔ دوسروں سے خوش خلقی سے پیش آنے کے بارے میں ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ معمولی نیکی کو بھی حقیر نہ سمجھو چاہے وہ اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے پیش آنے کی نیکی ہو۔
(صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ والآداب باب استحباب طلاقۃ الوجہ عند اللقاء حدیث 2626)
اللہ تعالیٰ تو ہر عمل کی جزا دیتا ہے۔ خوش خلقی سے پیش آنا بھی انسان کی نیکیوں میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ پس ہر ایک کو ہر ذریعہ سے اپنی نیکیوں کے پلڑے کو بھاری رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
عہدیداروں کو ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جماعت کا کوئی عہدہ بھی کسی قسم کی بڑائی پیدا کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ عاجزی میں بڑھانے کے لئے ہے۔ اس لئے ہر فیصلہ اور ہر کام اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے اور انتہائی عاجزی سے انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صاحب اختیار اور حاکموں کو جو تنبیہ فرمائی ہے اگر ہر عہدیدار اسے سامنے رکھے تو یقیناً اپنے کام کے معیار اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں کئی گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔ ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کا نگران اور ذمہ دار بنایا ہے وہ اگر لوگوں کی نگرانی اور اپنے فرائض کی ادائیگی اور ان کی خیر خواہی میں کوتاہی کرتا ہے تو اس کے مرنے پر اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت حرام کر دے گا۔ (صحیح البخاری کتاب الاحکام باب من استرعی رعیۃ فلم ینصح حدیث 7151)
یہ دیکھیں کتنا سخت انذار ہے اور انسان کو ہلا دینے والا ہے۔
اگر خدا تعالیٰ اور آخرت پر یقین ہو تو ہر عہدیدار اپنا ہر کام انتہائی خوف کی حالت میں کرے۔
ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کو لوگوں میں سے زیادہ محبوب اور اس کے زیادہ قریب انصاف پسند حاکم ہو گا اور سخت ناپسندیدہ اور سب سے زیادہ دور ظالم حاکم ہوگا۔ (سنن الترمذی ابواب الاحکام باب ما جاء فی الامام العادل حدیث 1329)
پس اپنی ذمہ داریوں کو انتہائی باریکی سے ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تبھی انصاف کے تقاضے بھی پورے ہو سکتے ہیں۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ جو حاجتمندوں، ناداروں، غریبوں کے لئے اپنا دروازہ بند رکھتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کی ضروریات کے لئے آسمان کا دروازہ بند کر دیتا ہے۔
(سنن الترمذی ابواب الاحکام باب ما جاء فی امام الرعیۃ حدیث 1332)
پس امیر سے لے کر ایک چھوٹے سے حلقے کے عہدیدار تک ہر ایک عہدیدار کا کام ہے کہ نظام جماعت جو خلیفۂ وقت کے گرد گھومتا ہے اور عہدیدار اس کی نمائندگی میں ہر جگہ مقرر کئے گئے ہیں اپنے فرائض پورے کریں۔ خدا تعالیٰ سے ہمیشہ اس کا فضل مانگتے رہیں۔
اسی طرح ذیلی تنظیموں کے عہدیدار بھی اپنی ذمہ داریاں سمجھیں۔ ذیلی تنظیمیں بھی، انصار بھی، لجنہ بھی، خدام بھی، ہر سطح پر فعّال ہوں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقصد تنظیموں کے قیام کا یہ تھا کہ جماعت کا ہر طبقہ فعّال ہو جائے اور مختلف ذرائع سے جماعت کی ترقی کی کوشش ہوتی رہے اور افراد جماعت کے ہر طبقہ تک پہنچا جا سکے۔ عورتوں تک بھی، بچوں تک بھی، نوجوانوں تک بھی، بوڑھوں تک بھی تا کہ خلیفۂ وقت کو ہر ذریعہ سے خبر بھی پہنچتی رہے۔ اس بارے میں بھی اس کو علم ہوتا رہے کہ جماعت کی کیا حالت ہے۔ پس ہر عہدیدار جو ہے، وہ خدمت دین کو اللہ تعالیٰ کا احسان سمجھتے ہوئے کرے اور ایک دوسرے سے تعاون بھی کریں۔ نظام جماعت صدران، امراء اور ذیلی تنظیموں کا بھی ایک دوسرے سے باہمی تعاون ہونا چاہئے۔ اگر یہ باہمی تعاون ہو اور تمام ذیلی تنظیمیں اور جماعتی نظام بھی فعال ہو تو جماعت کی ترقی کی رفتار کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔پس اس بات کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے۔
ایک بات یہ بھی ہر عہدیدار یاد رکھے کہ اگر کسی کے اپنے خلاف بھی شکایت ہو، کسی عہدیدار کے خلاف اس کو یا اس کے خلاف اس کو شکایت پہنچے یا اس کے خلاف کوئی اس کے سامنے بات کرے تو اس کو سننے کا حوصلہ ہونا چاہئے۔ عہدیداروں میں سب سے زیادہ برداشت ہونی چاہئے اور بات کرنے والے سے بدلہ لینے کی بجائے سب سے پہلے اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے، اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ کہیں میرے میں یہ برائی ہے تو نہیں۔ یہ ٹھیک کہہ رہا ہے یا صحیح کہہ رہا ہے۔ یہ بات بھی انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے ضروری ہے۔
افراد جماعت سے مَیں یہ کہنا چاہوں گا کہ وہ بھی اپنے تقویٰ کے معیار بڑھائیں۔ نیکی اور تقویٰ میں تعاون کا انہیں بھی حکم ہے۔ اگر افراد جماعت کے نیکی اور تقویٰ کے معیار زیادہ ہوں گے تو عہدیدار خود بخود نیکی اور تقویٰ پر چلنے والے ملتے جائیں گے۔ پس ہر شخص کو اپنا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے کہ اس کی نیکی اور تقویٰ کے کیا معیار ہیں اور کیا وہ اس میں اضافے کی کوشش کر رہا ہے یا نہیں۔ ہر فرد جماعت کو اپنا فرض بھی پورا کرنا چاہئے جو اس کے ذمہ اطاعت کے حوالے سے کیا گیا ہے۔ یہ ایک بڑا فرض ہے جو ہر فرد جماعت کے سپرد بھی ہے کہ تم اطاعت کرو۔ آپ کی اطاعت کے نمونے جہاں آپ کو جماعت سے تعلق میں بڑھائیں گے، وہاں آپ کی نسلوں کو بھی جماعت سے منسلک رکھیں گے۔اگر نسلوں کے تقویٰ کے، نیکی کے معیار بلند ہوں اور بڑھتے چلے جائیں تو پھر آئندہ نسلوں میں تقویٰ پر چلنے والے عہدیدار بھی ملتے چلے جائیں گے۔
پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی اپنے دلوں میں قائم کریں اور اپنی نسلوں کے دلوں میں بھی بٹھا دیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کرنا ہے اور تنگدستی اور خوشحالی اور خوشی میں اور ناخوشی اور حق تلفی اور ترجیحی سلوک غرض ہر حالت میں حاکم وقت کے حکم کو سننا اور اطاعت کرنی ہے۔
(ماخوذ از صحیح البخاری کتاب الفتن باب قول النبی ﷺ سترون بعدی اموراً تنکرونھا حدیث 7056)
جماعت میں کوئی دنیاوی حاکم تو ہے نہیں لیکن نظام جماعت کی اطاعت بھی اسی روح سے ہونا ضروری ہے کہ چاہے ہمارے خلاف بات ہے یا ہمارے حق میں ہے ہم نے اطاعت کرنی ہے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی ہے، اور اگر سمجھتے ہیں کہ انصاف نہیں ہے تو یہ کوشش کرنی ہے کہ اگر خلیفۂ وقت تک یا بالا حکام تک پہنچایا جا سکتا ہے تو بات پہنچانی ہے۔ لیکن کسی بھی طرح کی بغاوت نہیں ہونی چاہئے۔
ہمیشہ ہر وقت یہ دعا کرتے رہیں کہ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق دینی طور پر بھی اور دنیاوی طور پر بھی ایسے نگران عہدیدار اور حاکم ملیں جو ہم سے محبت کا سلوک کرنے والے ہوں اور جن سے ہم محبت رکھتے ہوں۔ وہ ہمارے لئے دعائیں کرنے والے ہوں اور ہم ان کے لئے دعائیں کرنے والے ہوں اور پھر ہم اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے موجب بنیں جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا کہ کہاں ہیں وہ لوگ جو میرے جلال اور میری عظمت کے لئے ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ آج جبکہ میرے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں مَیں انہیں اپنے سایہ رحمت میں جگہ دوں گا۔ (صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ والآداب باب فی فضل الحب فی اللہ تعالیٰ حدیث 2566) پس جس کو اللہ تعالیٰ کے سائے میں جگہ مل جائے اس کو تو دونوں جہان کی نعمتیں مل گئیں۔
اللہ تعالیٰ کرے کہ ہمارا ہر کام خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ہو۔ ہم اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کی جماعت میں شمولیت کا حق ادا کرنے والے ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اپنی جماعت کے افراد سے جو توقعات تھیں ان کے مطابق عمل کرنے والے ہوں۔
ان کے بارے میں ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ :
’’خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمہیں ایک ایسی جماعت بنا دے کہ تم تمام دنیا کے لئے نیکی اور راستبازی کا نمونہ ٹھہرو‘‘۔ فرمایا ’’سو تم ہوشیار ہو جاؤ اور واقعی نیک دل اور غریب مزاج اور راستباز بن جاؤ‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلد3 صفحہ48 اشتہار نمبر188 اپنی جماعت کو متنبہ کرنے کے لئے ایک ضروری اشتہار) (سچائی کے معیار بہت بلند ہو جائیں۔)
فرمایا ’’تمہاری مجلسوں میں کوئی ناپاکی اور ٹھٹھے اور ہنسی کا مشغلہ نہ ہو۔‘‘ (یعنی وہ ہنسی جو استہزاء کے رنگ میں کی جاتی ہے۔ لوگوں کے مذاق اڑائے جاتے ہیں۔) ’’اور نیک دل اور پاک طبع اور پاک خیال ہو کر زمین پر چلو۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد3 صفحہ47 اشتہار نمبر188 اپنی جماعت کو متنبہ کرنے کے لئے ایک ضروری اشتہار) ۔ انتہائی عاجزی ہونی چاہئے۔
اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم اپنی حالتوں کو اس طرح بناتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سائے میں آنے والے ہوں