امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ کینیڈا 2016ء
کینیڈا کے Indigenous باشندوں کی تنظیم کے وفد کی حضور انور سے ملاقات۔
ز… خلیفۃالمسیح کا آج کاخطاب معرکۃ الآراءتھا جس میں انہوں نے بڑی جرأت کے ساتھ اسلام کی پُرامن تعلیم کو پیش کیا ۔ …ز… میں نے خلیفۃالمسیح کو متعدد مقامات پر خطاب کرتے ہوئے سنا ہے۔ اور انہوں نے ہمیشہ اسلام کا پُر امن پیغام دنیا تک پہنچایا ہے اور آج شام بھی یہی کیا۔یہ ایک عظیم الشان پیغام ہے جو اُن کی جماعت کے تمام ممبران کا عکس بھی ہے۔ …ز… یہ بہت ہی حوصلہ افزا بات ہے کہ آج کی خوفزدہ دنیا میں اتنا پُرامن ، پُرامید اور دانشمندانہ پیغام سننے کو ملا ۔ …ز… خلیفہ کی شخصیت بہت ہی بارعب ہے اورجرأتمندانہ لیڈرشپ ہے جو کھل کے دنیا کو حقائق سے آگاہ کررہی ہے۔…ز… مجھے پہلے کبھی قرآن پڑھنے کا موقع نہیں ملا تھا اور جس طرح خلیفہ نے قرآن کریم کے حوالہ جات بتائے وہ مجھے بہت اچھے لگے۔ مجھے احساس ہواکہ قرآن کریم تو دانائی اور حکمت کی کتاب ہے۔ …ز… خلیفہ کے الفاظ نہایت سیدھے سادے لیکن جرأت اورحکمت سے بھرے ہوئے ہیں۔
(کیلگری (کینیڈا) میں منعقدہ پِیس سمپوزیم میں شامل مہمانوں کے تأثرات)
انفرادی و فیملی ملاقاتیں۔ اعلانات نکاح و خطبۂ نکاح۔ واقفاتِ نَو کی حضور انور ایدہ اللہ کے ساتھ کلاس۔
حضور انور ایدہ اللہ کے ساتھ دلچسپ مجلس سوال و جواب۔ واقفات کے سوالات کے جواب، اہم نصائح اور زرّیں ہدایات۔
11 نومبر2016ء بروز جمعہ
(حصہ دوم)
کھانے کے اختتام پر بعض مہمانوں نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کی سعادت حاصل کی اور شرف مصافحہ حاصل کیا۔ حضور انور نے ان مہمانوں سے گفتگو فرمائی۔ مہمانوں نے حضور انور کے ساتھ تصاویر بھی بنوائیں۔
آج کی اس تقریب میں کینیڈا کے Indigenous باشندوں کی تنظیم First Nation کا 16 افراد پر مشتمل وفد بھی شامل ہوا۔
اس وفد کے ممبران نے میٹنگ روم میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ملاقات کی سعادت حاصل کی۔
ملاقات کرنے والوں میں!
Mr. Alvin Manitopyes
Elder of the Cree and Saulteaux Nation
Mr. Jason GoodStriker
سابق نائب چیف برائے اسمبلی آف نیشن
Mr. Henry Holloway
Stony Nation کے ایلڈر اور سابق کونسلر
Mr. Gilbert Francis
Elders of Stony Nation
Lowa Beebe of First Nation
ریجنل چیف آف اسمبلی کے ایگزیکٹو اسسٹنٹ
Dan Crane
Tsuu Tina Nation کے چیف
Mr. Lee Crowchild
Tsuu Tina Nation کے ڈائریکٹرز فار پبلک ورکس
اور بعض دیگر ایلڈرز شامل تھے۔
اس وفد نے اپنے روایتی انداز میں حضور انور کو خوش آمدید کہا اور وفد کے لیڈر نے کہا کہ ہم خلیفۃالمسیح کو اپنی سرزمین پر خوش آمدید کہتے ہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے وفد کے ممبران سے مختلف امور پر گفتگو فرمائی اور ان کے رہن سہن، رہائش، تعلیم کی سہولیات اور ذرائع آمد کے بارہ میں دریافت فرمایا۔ وفد کے ممبران نے بتایا کہ کینیڈا کی تاریخ میں پہلی بار ہماری قوم کے چند لوگ کینیڈا کی پارلیمنٹ میں آئے ہیں۔
حضور انور نے فرمایا: میں جب دوبارہ آؤں گا تو انشاء اللہ آپ کے علاقہ میں بھی آؤں گا۔ اس پر وفد کے ممبران نے کہا ہمیں بہت خوشی ہوگی۔ ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
وفد کے ایک ممبر نے عرض کیا کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطاب نے ہماری آنکھیں کھول دی ہیں۔
وفد کے ممبران نے عرض کیا کہ یہاں کینیڈا میں جماعت کے ممبران نے ہم سے رابطہ کیا۔ اپنا ہاتھ ہمارے لئے آگے بڑھایا تو اس سے ہم بہت خوش ہوئے ہیں۔
حضور انور کے استفسار پر وفد کے سربراہ نے بتایا کہ ہم اپنی قبائلی روایات پر بھی عمل کرتے ہیں اور مذہبی لحاظ سے عیسائیت پر عمل کرتے ہیں۔
اس وفد کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ یہ ملاقات آٹھ بجے تک جاری رہی۔
بعدازاں اس تقریب میں شامل ہونے والے بعض دوسرے مہمانوں نے بھی حضور انور سے ملاقات کی اور شرف مصافحہ حاصل کیا اور درخواست کرکے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تصویر بنوائی۔ حضور انور نے ازراہ شفقت ان مہمانوں سے گفتگو بھی فرمائی۔
آٹھ بجکر دس منٹ پر یہاں سے روانگی ہوئی اور آٹھ بجکر بیس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد بیت النور کیلگری تشریف لے آئے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نماز مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔
مہمانوں کے تأثرات
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اس خطاب نے اس تقریب میں شامل ہونے والے سب مہمانوں پر گہر ااثر چھوڑا۔ بعض مہمانوں نے برملا اپنے دلی جذبات اور تأثرات کا اظہارکیا۔ یہاں ان مہمانوں میں سے بعض کے تأثرات پیش کئے جارہے ہیں۔
٭ ایک مہمان ’Cole Smith‘ جوکہ Jubilee 286 Legion کی نمائندگی کرتے ہیں انہوں نے اپنے تأثرات بیان کرتے ہوئے کہا:۔ خلیفۃالمسیح کا خطاب سن کر مجھے لگاکہ خلیفہ لوگوں کو متحد کرنے کے لیے کوشاں ہیں قطع نظراس کے کہ کون کہاں سے آیا ہے اوراس کا مذہب کیا ہے۔میرے خیال میں دنیا میں امن کے قیام کا یہی سب سے بہترین طریقہ ہے۔
٭ کیلگری شہر کے میئر ’ناہید نینشی‘ (Naheed Nenshi) صاحب نے کہا:۔ خلیفۃالمسیح کا آج کاخطاب معرکۃ الآراءتھا جس میں انہوں نے بڑی جرأت کے ساتھ اسلام کی پُرامن تعلیم کو پیش کیا اورکہاکہ اسلام میں کسی بھی قسم کی شدت پسندی کی گنجائش نہیں۔مسلمانوں کی نمائندگی میں ایسی بات سننا خوش آئند ہے۔
میں نے خلیفۃ المسیح کو بتایا کہ جماعت احمدیہ کا اپنی تعداد سے بہت بڑھ کرمعاشرہ میں اثرورسوخ ہے۔ آج کا پروگرام بہت شاندار تھا اور میں امید کرتا ہوں کہ جماعت کے لیے اگلے 50 سال اس سے بھی بہترہوں گے۔
٭ ایک مہمان Moe Aymri صاحب جو کہ سابق ممبر آف Legislative اسمبلی ہیں وہ بھی اس تقریب میں شامل تھے۔ انہوں نے اپنے تاثرات کا اظہارکرتے ہوئے کہا:۔ میں نے خلیفۃ المسیح کا آج پیغام سنا اورمجھے یہ کہنا پڑے گا کہ یہ بالکل صحیح پیغام ہے۔یہی اصل اسلام ہے۔میں بھی ایک مسلمان ہوں اورمجھے پتہ ہے کہ اسلام شدت پسندی کی تعلیم ہرگز نہیں دیتا۔اورجولوگ ایسے ہیں ان کا اسلام سے قطعاً کوئی واسطہ نہیں ہے۔
٭ ایک نجی کمپنی کےCEO’کوری لینٹرمین‘ (Corey Lanterman) بھی اس تقریب میں شامل تھے۔ انہوں نے اپنے تاثرات کا اظہارکرتے ہوئے کہا:۔ مجھے خوشی ہے کہ میں نے اس پروگرام میں شرکت کی اور خلیفۃ المسیح کا خطاب سنا۔ کیونکہ میرے اسلام کے بارہ میں جوغلط تصورات تھے ان کی اصلاح ہوئی۔لوگوں کوچاہئے کہ خلیفۃ المسیح کی آواز کو سنیں تاکہ انہیں پتہ چلے کہ اسلام ایک پُرامن مذہب ہے۔اسی طرح سوشل میڈیااوردیگرمیڈیامیں بھی اس پیغام کووسعت ملنے کی ضرورت ہے۔
٭ ایک مہمان Yogi Schultz اپنی اہلیہ کے ساتھ پروگرام میں شامل ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا؛۔ میں جماعت کی کاوشوں پر حیران ہوں کہ کس طرح اتنے شاندارپروگرام منعقدکرتی ہےجس سے خلیفہ کی آواز بااثرطورپرلوگوں تک پہنچتی ہے اور انتہاپسندی کاقلع قمع ہوتاہے۔
ان کی اہلیہ نے کہا:۔ موجودہ حالات اور میڈیا میں مختلف قسم کی منفی باتیں سننے کے بعد خلیفہ کا پرامن پیغام سنا تو بہت اچھا لگا۔مجھے خوشی ہے کہ میں اس پروگرام میں شامل ہوئی۔
٭ ایک ممبر آف پارلیمنٹ درشن سنگھ صاحب نے اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے کہا:۔ میرے خیال میں خلیفۃ المسیح نے جو پیغام دیا ہے اسے مزید پھیلانا چاہئے۔ اس پیغام کی آج سخت ضرورت ہے۔جو کام خلیفۃالمسیح کررہے ہیں اس کی دنیا کو بہت ضرورت ہے۔ انہوں نے اسلام کی اصل تعلیم بیان کرنے کے ساتھ بڑی جرأت کے ساتھ حق کوحق کہا۔
٭ البرٹا کے منسٹر آف ہیومن سروسز اور Legislative Assembly کے ممبر عرفان صابر صاحب نے اپنے تاثرات کا اظہارکرتے ہوئے کہا:۔ آج کا پروگرام نہایت خوبصورت اوربہت منظم تھا۔ خلیفۃالمسیح ’ محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں‘ کا جو پیغام دنیا کودے رہے ہیں یہ بہت ہی زبردست اوروقت کی ضرورت کے عین مطابق ہے۔یہاں یہ دیکھ کربھی اچھا لگا کہ زندگی کے ہرشعبہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی نمائندگی تھی۔
٭ کینیڈین ٹرانسپلانٹ آرگنائزیشن کے پروونشل ڈائریکٹر Shawna Reeve نے اپنے تأثرات کا اظہارکرتے ہوئے کہا:۔ خلیفۃ المسیح کا پیغام بہت ہی خوبصورت اوروقت کی ضرورت کے مطابق تھا۔ مجھے اچھالگاکہ ایک مختلف مذہب سے تعلق رکھنے کے باوجود مجھے اس پروگرام میں مدعوکیاگیا۔خلیفۃ المسیح کا خطاب سن کر میر ی سوچ بدل گئی ہے اور اب میں ایک مثبت سوچ کے ساتھ یہاں سے جارہاہوں۔
٭ ایک وکیل Fraser صاحب بھی اس تقریب میں شامل ہوئے۔ موصوف نے اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے کہا:۔ خلیفۃ المسیح کا یہ پیغام یقیناً بہت ضروری تھا۔کینیڈا کے رہنے والوں کے لئے یہ پیغام اس لیے بھی اہم ہے کہ ہم ایک ایسے ملک کے باسی ہیں جہاں مختلف قوموں اورمذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ بستے ہیں ۔اورایک دوسرے کو سننااورایک دوسرے کو جاننا یقیناً ہمارے لیے بہترہے۔
٭ کینیڈا کے سابق وزیر اعظم سٹیفن ہارپر (Stephen Harper) بھی اس تقریب میں شامل تھے۔ انہوں نے کہا:۔ میں نے خلیفۃ المسیح کو متعدد مقامات پر خطاب کرتے ہوئے سنا ہے۔ اور انہوں نے ہمیشہ اسلام کا پر امن پیغام دنیا تک پہنچایا ہے اور آج شام بھی یہی کیا۔یہ ایک عظیم الشان پیغام ہے جو ان کی جماعت کے تمام ممبران کا عکس بھی ہے۔
میرے خیال میں خلیفہ کے ریمارکس بہت ہی ضروری اور اہم ہیں اور ہر ایک کو ان کو سننے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ آج کے دور میں انتہاپسند عناصر اسلام کو بدنام کرنے پر تُلے ہوئے ہیں اور عام لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ یہی اصل اسلام ہے۔ اس لئے ایسے وقت میں خلیفۃ المسیح کا یہ خطاب نہایت ہی موزوں ہے۔ اسلام کا مطلب ہی امن ہے ، اسلام کا مطلب اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق ہے۔
خلیفہ نے ان تمام مسائل پر اور دنیا کے دیگر مسائل خاص طور پر مشرق وسطیٰ کے موضوع پر نہایت پُرحکمت روشنی ڈالی۔ یہ بہت ہی مشکل امر تھا لیکن انہوں نے بڑی ہی دانشمندی کے ساتھ اس پر بحث کی۔ میں ان تمام لوگوں کو اس بات کی تلقین کروں گا کہ اگر انہوں نے حضور کا خطاب نہیں سنا تو وہ ضرور اسے سنیں۔
٭ تقریب میں شامل ایک اور مہمان نے کہا:۔ یہ ایک زبردست اور منظم پروگرام تھا ۔ اس کے ذریعہ ہم نے بہت معلومات حاصل کیں ۔ آج دنیا کو اس پیغام کی اشد ضرور ت ہے اور میں جماعت احمدیہ کو مبارکباد دیتا ہوں کہ انہوں نے یہ بابرکت کام کیا اور میری دعا ہے کہ اللہ اس جماعت کو آئندہ بھی ایسے اچھے کام کرنے کی توفیق دے۔
٭ تقریب میں شامل ایک اور مہمان نے اپنے خیالات کااظہارکرتے ہوئے کہا:۔ جب خلیفۃ المسیح مسجد کے افتتا ح کے لئے تشریف لائے تومیری ان سے ملاقات ہوئی ۔ بہت ہی کم لوگ ہوتے ہیں جنہیں مل کر ہم ایک اطمینان محسوس کرتے ہیں اور ایک خوبصورت احساس دل میں پیدا ہوتا ہے اور یہی میری کیفیت ہے اور اس سے زیادہ اپنے جذبا ت کو الفاظ میں ڈھالنا مشکل ہے۔
٭ کالج کے لیکچرار وقار راجہ صاحب اوران کی اہلیہ شازیہ تسنیم صاحبہ بھی اس تقریب میں شامل ہوئیں۔ پروگرام کے بعد انہوں نے اپنے تاثرات کا اظہارکرتے ہوئے کہا:ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ آج کا پروگرام اتنا زبردست ہوگا۔ جب خلیفۃ المسیح کا خطاب سنا تو ہم نے اپنے دلوں میں امن محسوس کیا ۔ ان کا سارا پیغام امن پر مشتمل تھا ۔ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں ۔ انہوں نے واقعتا ًاسلام کی اصل تصویر پیش کی نہ کہ وہ تصویر جو داعش اور دیگر تنظیمیں بگاڑ کر پیش کرتے ہیں۔خلیفہ نے پیغام دیا کہ اسلام صرف اور صرف امن کا مذہب ہے ۔
٭ ساؤتھ ایشین کمیونٹی کے سیکرٹری ’رسپال سنگھ‘ صاحب نے کہا:۔ میں نے قادیان میں اپنی تعلیم حاصل کی ہے۔ ہمارا کالج قادیان کی مسجد سے بہت قریب تھا۔ اور میں اس جماعت کو بہت قریب سے جانتا ہوں۔ اور یہ بہت ہی اچھی جماعت ہے۔ میں جب سے یہاں کیلگری آیا ہوں ۔ ہمیشہ جماعت کے ساتھ ایک زندہ تعلق رکھا ہے۔ آج کا پروگرام بھی بہت عمدہ رہا۔
٭ Red Deer College کے CEO ’جَو وارڈ‘ (Joe Ward) بھی اس تقریب میں شامل ہوئے۔ انہوں نے اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے کہا:۔ میں بہت خوش قسمت ہوں کہ میری خلیفۃ المسیح سے انفرادی ملاقات ہوئی۔ حضور ایک باکمال شخصیت اور لیڈر ہیں۔ میری عمر کا بیشتر حصہ پاکستان میں گزرا ہے۔ اس وجہ سے اسلام کا مجھے شروع سے ہی خاصہ تعارف تھا۔ خلیفۃالمسیح کا پیغام ہمارے کالج کے لئے بہت ضروری ہے جہاں دس ہزار طالبعلم اور 1400 کے قریب کارکنان ہیں۔ ان سب کے لئے یہ پیغام انتہائی موثر ہے۔
٭ Eura West Investment کے صدر Sam Seebo صاحب نے کہا: ۔ میں انتہائی خوشقسمت ہوں کہ اس میں شامل ہوئی۔ اور میرا یہ یقین ہے ہم سب کو اللہ تعالیٰ کی اور اس کی مخلوق کی خدمت کرنی چاہئے۔ اور مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ جماعت احمدیہ اسی مقصد کے لئے کوشاں ہے۔
٭ کیلگری پولیس کے چیف Roger Chef صاحب نے کہا:۔ یہ بہت ہی حوصلہ افزا بات ہے کہ آج کی خوفزدہ دنیا میں اتنا پر امن ، پرامید اور دانشمندانہ پیغام سننے کو ملا ۔ یہ ہماری روایات سے بہت مطابقت رکھتا ہے ۔ اس لئے میں بہت خوش ہوں کہ آج کی رات میں نے بہت کچھ سیکھا۔
٭ سکھ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ایک مہمان Sanjeev Khair نے کہا:۔ میرے لئےیہ ایک انتہائی عاجز کردینے والا تجربہ تھا۔ خلیفۃ المسیح محض ایک مذہب کی راہنمائی اور نمائندگی نہیں کر رہے تھے بلکہ یہ تمام مذاہب کی نمائندگی کر رہے تھے۔ اور یہ بڑے اعزاز کی بات ہے۔ خلیفۃ المسیح نے واضح کردیاکہ بعض لوگ مذہبی کتابوں کی مختلف تشریحات کرتے ہیں لیکن کسی مذہب میں شدت پسندی کی تعلیم نہیں ملتی۔ جولوگ بھی ایسا کرتے ہیں انہیں یا تو صحیح معلومات نہیں ہوتیں یا وہ غیراراد ی طور پر یا وہ اپنی جہالت کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔
٭ سکھ کمیونٹی کے ایک دوست ’ایاب سنگھ‘ صاحب نے کہا:۔ میں نے قرآن پاک سے بہت سی اچھی چیزیں سیکھی ہیں۔ لیکن میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ مسلمان ممالک آپس میں کیوں لڑتے ہیں۔ جب اتنی واضح تعلیمات ہیں تو پھر جھگڑا کیسا؟ میری خواہش ہےکہ تمام مسلمان راہنما متحد ہوکر مشرق وسطی میں قیام امن کی کوشش کریں۔ خلیفۃ المسیح کا خطاب بہت شاندار تھا۔ دنیا کو ایسی آواز کی شدت سے ضرورت ہے۔لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے۔کسی ایک گروپ کی وجہ سے اسلام کواس کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا۔بلکہ بہت سی اورقوتیں بھی اس میں شامل ہیں۔ خلیفۃ المسیح نے بڑے اچھے رنگ میں اسلام کی پُرامن تعلیم کے بارہ میں بتایا کیونکہ میں نے بہت سے مخالف لوگوں سے اس کے برعکس سن رکھا تھا۔ اور میرا ذہن آج اسلام کے بارہ میں مزید کھلا ہے۔ امید ہے کہ یہ زینہ کی پہلی سیڑھی ثابت ہوگی اور ’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں‘ ایک شاندار پیغام ہے۔
٭ Royal Mountain Police کے چیف سپرنٹنڈنٹ Tony Hemry صاحب نے کہا:۔ خلیفۃ المسیح کا خطاب سننا میرے لیے ایک اعزازکی بات تھی۔خلیفہ نے جو پیغام دیا وہ عقل کے مطابق تھا اورعالمگیرتھا۔ جیساکہ خلیفہ نے خود بھی بتایا کہ پوری دنیا پر اس کا اطلاق ہوتاہے۔ کینیڈا کی عوام کے لئے بھی یہ پیغام بہت ضروری ہے کیونکہ اس سے ان کی غلط فہمیاں دور ہوں گی۔مجھے تو پہلے سے ہی کسی حدتک تعارف تھا لیکن دوسروں تک بھی یہ پیغام پہنچنابہت ضروری ہے۔ خلیفہ کا کسی اورکے ساتھ موازنہ کرناحقیقتاًمیرے لیے مشکل ہے۔وہ ایک منفرد شخصیت ہیں۔
٭ تقریب میں شامل ایک اورمہمان نے اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے کہا:۔ خلیفۃ المسیح کا خطاب بہت مؤثر تھا اورانگریزی بہت عمدہ تھی۔خلیفہ نے کافی اچھے نکات اٹھائے اورعالمی سطح کے حوالہ سے بھی روشنی ڈالی اور جو دنیا میں اس وقت اسلام یا انتہاپسندی کے حوالہ سے ہورہاہے اس بارے میں بھی بات کی۔عام طورسے ایسی باتیں سامنے نہیں آتیں لیکن حضورنے کھل کربات کی جو کہ بہت اچھا تھا۔ میرے خیال میں کینیڈین لوگوں کے لئے یہ پیغام سننابہت ضروری ہے۔
٭ یونیورسٹی آف کیلگری کے Dean مسٹر Richard Cigertson صاحب نے اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے کہا:۔ خلیفہ کا خطاب بہت ہی عمدہ تھا۔ اس طرح کے لیڈرکی موجودگی دنیا کے لئے باعث رحمت ہے۔
٭ یونیورسٹی آف کیلگری کی وائس چانسلر Elizabette Kennon نے کہا:۔ خلیفہ کا خطاب بہت ہی شاندارتھا۔ ہماری آئندہ نسلیں جو ہمارے اداروں میں تیارہورہی ہیں ان کے لئے اس پیغام کا سننابہت ضروری ہے۔یہ پیغام وقت کا تقاضہ ہے۔
ہمارےپاس بہت سے مسلمان اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے شاگردبھی ہیں۔اس لیے ایک دوسرے کی قدر کرنا، اور ایک دوسرے کو نہ صرف برداشت کرنابلکہ ایک دوسرے سے اچھی باتیں لے کر معاشرہ تشکیل دینا بہت ضروری ہے۔ اس پیغام کی آواز مزیدبلند ہونی چاہئے اوردنیا میں پھیلنا چاہئے۔ یہ آج کی دنیاکی ضرورت ہے!
٭ لیڈرآف دی البرٹا پارٹی اور کیلگری Elbow کی Legislative Assembly کے ممبر Gren Clark نے کہا:۔ خلیفۃ المسیح کا خطاب بہت ہی متأثرکن اوربروقت اور دنیا کے موجودہ حالات کے مطابق تھا۔کیلگری اورکینیڈاکے لوگوں کوپتہ چلا ہے کہ اسلام ایک پُرامن مذہب ہے۔اوریہ بات ہمیں دوسروں تک بھی پہنچانی چاہئے۔یہ پیغام باقی کینیڈین تک بھی پہنچنا انتہائی ضروری ہےکہ اسلام ایک پُرامن مذہب ہے کیونکہ حقیقت یہی ہے۔ میری درخواست ہے کہ خلیفہ اپنے اس پیغام کوجاری رکھیں کیونکہ یہ محبت کوفروغ دینے اورنفرت کو مٹانے کاپیغام ہے۔
٭ یونیورسٹی آف کیلگری کے ایک پروفیسر بھی اپنی اہلیہ کے ساتھ اس تقریب میں شامل تھے۔ انہوں نے کہا:۔ خلیفۃ المسیح کا پیغام امن کاپیغام تھا جوبہت ضروری ہے۔ہم بنیادی طور ڈچ ہیں اور ہمارے ہاں کہاوت ہے کہ ] Unknown is Unloved] یعنی جس چیز کا علم ہی نہیں اس سے محبت کیسے ہوسکتی ہے ؟ یہی حال اسلام کا ہے۔ جب اسلام کی حقیقت کا پتہ چلتا ہے تو وہ اچھا لگنے لگتاہے۔ہمیں آج حضورکوسننے کاموقع ملا ہے۔آج سے اسلام کوہم بہترسمجھیں گے اوراسلام سے پہلے سے زیادہ محبت کریں گے۔
٭ ایک عیسائی پادری بھی اس تقریب میں شامل تھے۔ انہوں نے کہا:۔ احمدیوں کایہ عقیدہ ہے کہ قرآن خداتعالیٰ کاکلام ہے اوریہ پرامن پیغام پرمشتمل ہے۔میرے خیال میں آج خلیفۃ المسیح نے اس کی اچھی تشریح کی۔اوریہ بہت اچھا کام ہے جو کہ ایک دوسرے سے تعلقات پختہ کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ میرا جماعت کے لیے یہی پیغام ہے کہ اس کام کو جاری رکھیں اورباہرنکل کربھی یہ پیغام پہنچائیں اور معاشرہ میں تعلقات کوبڑھائیں اورمضبوط ترکرتے چلے جائیں۔
٭ ایک مہمان خاتون Lila Sherin جوکہ Legislative Assembly کی ممبر ہیں انہوں نے اپنے تأثرات بیان کرتے ہوئے کہا:۔ میرے لیے یہ بڑے اعزاز کی بات ہے کہ مجھے اس پروگرام میں شرکت کرنے کا موقع دیاگیا۔خلیفۃ المسیح نے جو وقت یہاں ہمارے ملک میں گزارا ہے اس کا ہمارے ملک پر بہت خوشکُن اثر ہورہاہے۔ میرے لیے بہت خوشی کی بات ہے کہ مجھے ایک ایسے عقلمنداورعاجزانسان سے ملنے کا موقع ملا جن کاپوری دنیا میں چرچا ہے جو اسلام کی اصل تعلیم کو اجاگرکرنے میں کوشاں ہیں۔یہ ہے تو اسلام کا پیغام مگر ہر کلچراس کو اپنا سکتاہے۔
٭ سابق ممبر آف البرٹااسمبلی شیراز شفیق صاحب نے کہا:۔ خلیفۃ المسیح کا پیغام عین وقت کا تقاضا ہے جبکہ دنیا میں دوریاں پیداہورہی ہیں ۔لیکن جماعت احمدیہ ایک ایسی جماعت ہے جودوریاں ختم کرتی ہے اورتعلقات بڑھاتی ہےجواپنا ہاتھ آگے بڑھاتی ہے۔
خلیفہ نے آج جو پیغام دیا وہ انتہائی سادہ مگرانتہائی اہم تھا۔ہمیں ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہے جہاں امن پھیلے۔
٭ کیلگری کی Legislative Assembly کے ممبر Bob Gill صاحب نے اپنے تأثرات کا اظہارکرتے ہوئے کہا:۔ خلیفۃ المسیح کا خطاب بہت مؤثر تھااور اپنے اندر ایک رُعب لئے ہوئے تھا جس میں انہوں نے اسلام کی اصل تصویر دکھائی۔ خلیفہ کی شخصیت بہت ہی بارعب ہے اورجرأت مندانہ لیڈرشپ ہے جو کھل کے دنیا کو حقائق سے آگاہ کررہی ہے۔ جس دن خلیفہ کیلگری تشریف لائے میں بھی انہیں لینے گیا ہواتھا اور تب زندگی میں پہلی بار میری خلیفہ سے ملاقات ہوئی۔میں ان کی بارعب شخصیت کو دیکھ کر گنگ ساہوگیا تھا۔
٭ تقریب میں شامل کونسلر Andre Shabot صاحب نے اپنے تاثرات کا اظہارکرتے ہوئے کہا:۔ آج کی یہ تقریب بہت اچھا تجربہ تھا۔ میں تسلیم کرتاہوں کہ آج سے پہلے مجھے نہ تو اسلام اور نہ ہی قرآن کا صحیح علم تھا۔ خلیفہ نے آج مجھے بتایاکہ اصل اسلام کیاہے اور ابتدائی مسلمانوں نے جنگ کیوں کی تھی؟ خلیفہ نے مجھ پر واضح کردیاہے کہ اسلامی تعلیمات حکمت سے پُر ہیں۔
عیسائی تعلیمات کے مطابق تو ایک گال پر طمانچہ کھانے کے بعد دوسرا آگے کردینا چاہئے۔ اس لئے میرا نہیں خیال کہ حضرت عیسیٰ پر خواہ کتنا بھی ظلم ہوتاوہ دفاعی جنگ کرنے کی اجازت دیتے۔ لیکن اسلام کے نبی حضرت محمد ﷺ نے تیرہ سال تک مظالم برداشت کئے اور اس کے بعد قرآن کریم نے انہیں دفاعی جنگ کی اجازت دے دی۔ اس سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیاہے کہ عیسائیت حد سے زیادہ پُرامن مذہب ہے لیکن ’اسلام‘ انسانی فطرت سے مطابقت رکھنے والا مذہب ہے اور اس کی تعلیمات میں عیسائیت کی نسبت زیادہ حکمت نظر آتی ہے۔
میرا ذاتی خیال یہی ہے کہ ہر وقت مار کھانے کے لئے تیاررہنے میں کوئی حکمت نہیں ۔ ایک وقت ایسا آتاہے جب انسان کو اپنا دفاع کرنا پڑتاہے۔ اگر کوئی مجھ پر ایک یا دو دفعہ حملہ کرے تو شاید میں اپنا دوسرا گال بھی پیش کردوں لیکن جب وہ مجھ پر تیسری بار حملہ آور ہوگا تو میں اس کے آگے کھڑا ہوجاؤں گا اور اپنا دفاع کروں گا۔ اور بنیادی طور پر یہی اسلامی تعلیم ہے۔
٭ ایک غیر احمدی مسلمان خاتون صائمہ صاحبہ نے کہا:۔ میں نے اب تک کینیڈا میں جتنی بھی تقاریب میں شرکت کی ہے ، ان میں سے آج کی تقریب سب سے زیادہ شاندار تھی۔ آج کی یہ تقریب امن، برداشت ، محبت اور وقار کا عکس پیش کررہی تھی۔ کاش کہ مسلم کونسل کے ممبران بھی اس تقریب میں شامل ہوتے تاکہ انہیں احمدیت کے بارہ میں پتہ چلتااور ان کا تعصب ختم ہوتا۔ خلیفہ کا ہر لفظ اپنے اندر عجیب شان رکھتاتھا۔
٭ کیلگری پولیس کے ایک آفیسر Bob Richie نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا:۔ خلیفہ کا یہ خطاب نہایت دلچسپ تھا۔ خلیفہ نے بتایاکہ اسلام کس طرح ملٹی کلچرازم کو فروغ دیتاہے۔ ایک عظیم مسلمان لیڈر سے امن کا پیغام سن کر بہت ہی اچھا لگا۔ ہماری سوسائٹی میں اسی چیز کی ضرورت ہے۔ خلیفہ تمام لوگوں کو یکجاکررہے ہیں اور بین المذاہب ڈائیلاگ کو فروغ دے رہے ہیں۔ خلیفہ کی باتیں سیدھی میرے دل کو جاکر لگیں بالخصوص جب انہوں نے عالمی تعلقات کے حوالہ سے بات کی اور بتایاکہ ان مسائل کا کیسے حل نکل سکتا ہے۔ اور انہوں نے قرآن کریم کے حوالے دے کر ثابت کیا کہ اسلام امن کا مذہب ہے اور مسلمانوں کو ہر حال میں صلح کی طرف ہاتھ بڑھانے کی تعلیم دی گئی ہے خواہ دوسرے فریق کی نیت خراب ہی کیوں نہ ہو۔
٭ تقریب میں شامل ایک معمر دوست David Gaskin صاحب نے حضورانور کے خطاب کے حوالہ سے اپنے جذبات کا اظہارکرتے ہوئے کہا:۔ یہ تو صرف امن اور امن کا ہی پیغام تھا۔ خلیفہ نے یہ ثابت کردیاکہ اسلام سے خائف ہونا سراسر بیوقوفی ہے۔ انہوں نے بتایاکہ قرآن کسی قسم کے تشدد کی تعلیم نہیں دیتابلکہ ہمیں انصاف کی تعلیم دیتاہے۔ خلیفہ نے یہ ثابت کردی کہ 98 فیصد مسلمان اچھے لوگ ہیں اور اسلامی تعلیمات کی پیروی کرتے ہیں مگر صرف 2 فیصد ایسے ہیں جو اسلامی تعلیمات کے خلاف کام کررہے ہیں۔اور اس چیز کو صرف اسلام کے ساتھ جوڑا نہیں جاسکتابلکہ ہر مذہب میں 2 فیصد کے قریب ایسے لوگ ہوتے ہیں جو دوسروں کو برابھلاکہتے ہیں۔ شمالی آئرلینڈ کی تاریخ کو دیکھ سکتے ہیں جہاں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ عیسائیوں نے کئی دہائیوں تک ایک دوسرے کی خونریزی کی۔ کیا وہ عیسائیت کا قصور تھا؟
خلیفہ کے الفاظ حکمت سے پُر تھے۔مجھے خاص طور پر خلیفہ کی یہ بات بہت پسند آئی کہ سیاستدانوں کو تفریق ڈالنے کی بجائے لوگوں کو متحد کرناچاہئے۔ خلیفہ نے جس جنگ کے حوالہ سے خبردار کیامیں اب اس پر ضرور غور کروں گا۔
٭ کینیڈا کے indigenous لوگوں کے ایک راہنما Jason Goodstriker نے اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے کہا:۔ مجھے پہلے کبھی قرآن پڑھنے کا موقع نہیں ملا تھا اور جس طرح خلیفہ نے قرآن کریم کے حوالہ جات بتائے وہ مجھے بہت اچھے لگے۔ مجھے احساس ہواکہ قرآن کریم تو دانائی اور حکمت کی کتاب ہے جو وہی تعلیمات دیتی ہے جو ہم نے اپنے بڑوں سے سیکھی ہے۔ گو کہ ہم لوگ دنیا کے ایک دوسرے حصہ سے ہیں لیکن ہم بھی وہی زبان بولتے ہیں جو آپ لوگ بولتے ہیں۔ یعنی امن کی زبان۔
٭ کینیڈا کی indigenous کمیونٹی کے ایک ممبر Lee Crowchild نے کہا:۔ مجھے بہت اچھا لگاکہ خلیفہ وقت نے نہایت ایمانداری اور جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلام پر لگائے جانے والے اعتراض کہ ’اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتاہے ‘ کا مقابلہ کیا۔ مجھے یہ بھی بہت اچھالگاکہ خلیفہ نے اسلامی صحیفہ سے حوالہ جات دے کر ثابت کیاکہ ایسے اعتراضات غلط ہیں۔ پھر خلیفہ نے جس طرح مغربی ممالک کو کہاکہ وہ مشرق وسطیٰ میں ہتھیار مہیا کررہے ہیں وہ بھی بالکل سچ ہے۔ خلیفہ نے اسلامی جنگوں کی حکمت بیان کرتے ہوئے ایک فقرہ کہا کہ "to stop hand of oppression” یہ فقرہ مجھے بہت پسند آیا۔ میں اسے ہمیشہ یاد رکھوں گا۔
میں جانتاہوں کہ آپ کے خلیفہ ’ظلم اور تشدد ‘ کا مطلب بڑی اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ اس لئے میں نے محسوس کیا کہ خلیفہ ہماری تکلیف کو بڑی اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔
٭ ایک مہمان Anila Lee Yeun صاحبہ نے کہا:۔ مجھے بہت اچھا لگاکہ خلیفہ نے کینیڈا کے سابق وزیراعظم کے سامنے مغربی دنیا کو بتایاکہ انہیں انصاف کرنا چاہئے اور دنیا کے مسائل میں اپنے کردار پر غور کرناچاہئے۔ خلیفہ وقت نے بالکل درست فرمایاکہ دنیا کے مسائل کا ذمہ دارکسی ایک فریق کو نہیں ٹھہرایاجاسکتا۔
٭ کونسلر Shane Keating نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا؛ میرا تعلق آئر لینڈ سے ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ تنازعات کی بہت سی وجوہات ہیں اور صرف مذہبی تعلیمات کو موردِ الزام نہیں ٹھہرا یاجاسکتا۔خاص طور پر جو حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے اسلحہ کی تجارت کے حوالہ سے بات کی ہے کہ کس طرح یہ بہت ساری جنگوں کا باعث بن رہی ہے اور کتنی معصوم جانوں کا ضیاع ہو رہاہے، یہ بہت اہم بات ہے۔
٭ Kelly صاحبہ نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا؛ سچ بتاؤں تو میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ کس قدر اہم پروگرام میں شرکت کرنے جارہی ہوں۔ میں صرف اپنی دوست کو خوش کرنے آئی تھی لیکن میں بہت ہی خوش ہوں کہ میں آگئی۔ میں نے کبھی ایسا پروگرام نہیں دیکھا جس میں ہر طرف مثبت سوچ ہو اور جماعت احمدیہ کے امام کا پیغام بہت ہی اعلیٰ ہے۔ مجھ جیسے کم علم کو بھی یہ بات اچھی طرح سمجھ آگئی ہے کہ اسلام ایسا مذہب ہے جو ہر قوم، نسل اور مذہب کو خوش آمدید کہتا ہے۔ چنانچہ ہمیں ہرگز اسلام سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ضرورت ہے تو اس بات کی کہ ہم مسلمانوں کو بہتر طور پر جاننے کی کوشش کریں۔
غیر مسلم سکالرز کے جو حوالہ جات پیش کئے گئے وہ مجھے بہت اچھے لگے ہیں کہ کس طرح انہوں نے اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے اسلام کے پیغمبر کو امن پسند ثابت کیا ہے۔
٭ Carmenصاحبہ بیان کرتی ہیں کہ؛ پرحکمت اور آنکھیں کھول دینے والا پروگرام تھا۔میں عموماً بہت باتیں کرتی ہوں لیکن مجھے الفاظ نہیں مل رہے کہ میں اپنے تأثرات بیان کرسکوں۔
خلیفہ نے مجھے بہت متاثرکیا ہے، جس طرح سب مہمانوں کو خوش آمدید کہا، سب کا شکریہ ادا کیا، یہ بہت دل موہ لینے والا انداز تھا۔ خلیفہ نے جو بہت ہی پرحکمت خطاب کیا اور بتایا کہ مسلمانوں کی طرف سے بھی غلطیاں ہورہی ہیں اور اسی طرح غیر مسلم دنیا سے بھی غلطیاں ہو رہی ہیں اور یہ کہ ہمیں ایک دوسرے کی غلطیوں سے سیکھنا چاہئے نہ کہ ایک دوسرے پر الزام لگائیں۔ خلیفہ نے بتایا کہ کس طرح مسلمانوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ جنگ کریں اور جنگ کے دوران بھی انہوں نے معصوم لوگوں مثلاً مذہبی علماء یا معصوم خواتین اور بچوں پر حملہ نہیں کیا۔اور یہ بھی بیان کیا کہ کس طرح اقوامِ متحدہ کو جس طرح انسانیت کی حفاظت کرنی چاہئے تھی، وہ نہیں کررہی۔یہ باتیں بہت متاثر کُن تھیں۔
٭ Bryan Littlechief صاحب اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں؛ جس طرح خلیفۃالمسیح نے امن کے قیام پر اپنے خطاب کو مرکوز رکھا، یہ بہت ہی اچھا انداز تھا۔میں اسلام کے بارے میں بہت کم جانتاتھا، ڈرتا تھا اور میڈیا میں منفی کوریج کی وجہ سے مخمصے کا شکار تھا۔میں سوچا کرتا تھا کہ کیا قرآن واقعی فساد کی تعلیم دیتا ہے؟ آج بالآخر مجھے اپنے سوالات کا جواب مل گیا ہے۔ خلیفہ نے قرآنِ کریم کے حوالے پیش کئے اور ثابت کیا ہےکہ اسلام امن کا مذہب ہے۔ پہلے میں جب بھی سفر کے دوران کسی مشرقِ وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے فرد سے ملتا تو ڈرتا تھا کہ وہ دہشتگرد حملہ نہ کردے، لیکن مجھے آج معلوم ہوا ہے کہ اسلامی تعلیم سے خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔خلیفہ نے جو پیغام دیا ہے، ہمیں اس پیغام کی بہت ضرورت ہے، کیونکہ دنیا میں بہت فساد پیدا ہوچکے ہیں۔خلیفہ نے سب کو بتایا کہ ہمیں نفرت کا مقابلہ ہمدردی اور پیار سے کرنا ہے۔ خلیفہ بہت روحانی شخصیت ہیں۔
٭ Ehab Aliصاحب بیان کرتے ہیں؛ میں نَو مسلم ہوں اور یہ پہلا موقع ہے کہ میں احمدیوں کے کسی پروگرام میں شرکت کرر ہا ہوں۔مجھے آپ کے خلیفہ کی باتیں سن کر اور انہیں دیکھ کر بہت خوشی ہورہی ہے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ آپ یہاں صرف احمدیوں کا دفاع کرنے نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کا دفاع کرنے آئے ہیں، اسلام کی تعلیمات کا دفاع کرنے آئے ہیں۔لہٰذا یہ تمام مسلمانوں کے لئے خدمت ہے اور اس کے لئے میں خلیفہ کا احسان مندہوں۔ خاص کر جس طرح خلیفہ نے قرآنِ کریم کی تعلیمات پیش کرکے ہمارے مذہب کا دفاع کیا ہے، یہ بہت ہی متاثر کن ہے، کیونکہ یہی کتاب ہماری مستند ترین کتاب ہے۔ آج مجھے قرآنِ کریم کی بہت سی آیات کی بہتر انداز میں سمجھ آئی ہے اور میں نے سیکھا ہے کہ یہ آیات کس طرح پیش کرنی ہیں۔آپ کو ایسے پروگرام دنیا کے تمام حصوں میں کرنے چاہئیں۔
٭ Bravinder Singh Sahota صاحب بیان کرتے ہیں؛ میں خلیفۃ المسیح کے خطاب سے بہت متاثر ہوا ہوں۔مرزا مسرور احمد بہت ہی مخلص رہنما ہیں جو دنیا کے تنازعات کو کلیۃً ختم کرنا چاہتے ہیں۔اس حوالہ سے ان کے الفاظ سچائی پر مبنی ہیں اور دنیا کی موجودہ صورتحال کی اہم ترین ضرورت ہیں۔ دنیا میں بہت بے چینی ہے کہ اسلام پرامن مذہب ہے یاانتہاپسندی کو فروغ دیتا ہے؟ اور کسی ایسی شخصیت کی ضرورت تھی ، جو ان سوالات کے جواب دے اور دنیا کو حقیقت بتائے۔ تمام عالمِ اسلام میں خلیفہ کے علاوہ کوئی بھی ان سوالات کے جواب دینے کو تیا رنہیں۔ آپ نے نہایت وضاحت کے ساتھ بتایا کہ اسلام شدت پسندی کو فروغ نہیں دیتا بلکہ رسولِ کریم ﷺ نے زندگی بھر جھگڑے سے اجتناب کیا اور جب ظلم کی انتہا ہوگئی تو اُس وقت دفاع کے طور پر جنگ کی۔
مجھے اب اسلام کی اصل تعلیمات سے آگاہی حاصل ہوئی ہے اور خلیفہ جیسی عظیم شخصیت کو دنیا بھر میں قیام ِ امن کے لئے کوششیں کرتے دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔مجھے خوشی ہوئی ہے کہ جس طرح آپ نے مسلمان انتہاپسندوں کی کھل کر مذمت کی ہے۔ خلیفہ کے الفاظ نہایت سیدھے سادے لیکن جرأت اورحکمت سے بھرے ہوئے ہیں۔
کیلگری میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے پروگراموں کی غیر معمولی کوریج ہوئی اور لکھوکھہا لوگوں تک اسلام احمدیت کا پیغام پہنچا۔
کیلگریCalgary میں میڈیا کوریج
کیلگری میں دو مختلف پروگراموں کے ذریعہ میڈیا میں وسیع پیمانے پر کوریج ہوئی۔
پیس سمپوزیم میں درج ذیل میڈیا اداروں نے شمولیت کی اور کوریج دی۔
1۔ CBC News
2۔ Global News
3۔ NewsTalk 770ریڈیو سٹیشن
4۔ اس کے علاوہ 7 دیگر ریڈیو سٹیشنز نے بھی کوریج کی۔
اس طرح پیس سمپوزیم کی کوریج کے ذریعہ مجموعی طور پر 1.5 ملین افراد تک پیغام پہنچا۔
پیس سمپوزیم کے علاوہ کیلگری میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ایک انٹرویو بھی ہوا اور ایک پریس کانفرنس کا بھی انعقاد ہوا جس میں درج ذیل میڈیا کے نمائندگان شامل ہوئے؛
اورپریس کانفرنس میں درج ذیل میڈیا سے تعلق رکھنے والے جرنلسٹس نے شرکت کی۔
1۔ Canadian Press
2۔ The Calgary Herald
3۔ The Calgary Sun
4۔ Metro News
5۔ CBC News Calgary
6۔ CTV News Calgary
7۔ Global News
8۔ City TV
9۔ Radio Canada
10۔ CBC Radio Calgary
11۔ AM 660 News
12۔ RED FM
علاوہ ازیں 660 نیوز ریڈیو اور City TV کے نمائندہ نے بھی حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز کا انٹرویو لیا۔
اس طرح کیلگری میں اس انٹرویو اور پریس کانفرنس کے ذریعہ مجموعی طور پر 5 ملین لوگوں تک پیغام پہنچا
12 نومبر2016ء بروز ہفتہ
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح چھ بجکر پینتالیس منٹ پر مسجد بیت النور میں تشریف لا کر نمازفجر پڑھائی۔ نماز کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔
صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دفتری ڈاک، رپورٹس اور خطوط ملاحظہ فرمائے اور ہدایات سے نوازا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ مختلف دفتری امور کی انجام دہی میں مصروف رہے۔
پروگرام کے مطابق دس بجکر پچاس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لائے۔ مکرم مبارک احمد ظفر صاحب ایڈیشنل وکیل المال لندن، مکرم عابد وحید خان صاحب انچارج پریس اینڈ میڈیا آفس اور خاکسار عبدالماجد طاہر نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دفتری ملاقات کی سعادت حاصل کی اور مختلف امور اورمعاملات پر حضور انور نے ہدایات عطا فرمائیں۔
انفرادی و فیملی ملاقاتیں
بعدازاں فیملی ملاقاتوں کا پروگرام شروع ہوا۔ آج کے اس سیشن میں 53 خاندانوں کے 225 افراد نے اپنے پیارے آقا سے ملاقات کی سعادت حاصل کی۔ ان فیملیز کا تعلق درج ذیل چار جماعتوں سے تھا۔ ایڈمنٹن (Edmonton)، Lloydminister Fort McMurray، Vancouver
ایڈمنٹن سے آنے والی فیملیز 325 کلومیٹر، لائیڈ منسٹر سے آنے والی فیملیز 570 کلومیٹر، Fort McMurray سے آنے والی 780 کلومیٹر اور وینکوور (Vancouver) سے آنے والی فیملیز 950 کلومیٹر کا طویل فاصلہ طے کرکے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کے لئے پہنچی تھیں۔ ان سبھی فیملیز نے اپنے پیارے آقا کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلباء اور طالبات کو قلم عطا فرمائے اور چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائے۔
ملاقاتوں کا یہ پروگرام دو بجکر پچاس منٹ تک جاری رہا۔ بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد میں تشریف لا کر نماز ظہر وعصر جمع کرکے پڑھائیں۔
اعلان نکاح و خطبۂ نکاح
نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے پانچ نکاحوں کا اعلان فرمایا۔
عزیزہ عدیلہ نعیم چوہدری بنت مکرم نعیم بشیر چوہدری صاحب کا نکاح عزیزم ریحان احمد وحید ابن مکرم نعیم احمد وڑائچ صاحب مربی انچارج ہالینڈ کے ساتھ طے پایا۔
عزیزہ فریحہ مومن صاحبہ بنت مکرم عبدالشاد مومن صاحب کا نکاح عزیزم عادل محمد ابن مکرم ادریس محمد صاحب کے ساتھ طَے پایا۔
عزیزہ افشاں محمود چوہدری بنت مکرم خالد محمود چوہدری صاحب کا نکاح عزیزم آصف احمد ابن مکرم مصباح الدین احمد صاحب کے ساتھ طے پایا۔
عزیزہ سارہ ملک بنت مکرم شکراللہ ملک صاحب کا نکاح عزیزم مصور احمد ابن مکرم سرفراز خان صاحب کے ساتھ طے پایا۔
عزیزہ عائشہ منور صاحبہ بنت مکرم منور احمد صاحب کا نکاح عزیزم فہد اقبال چٹھہ ابن مکرم اقبال احمد چٹھہ کے ساتھ طے پایا۔
ان نکاحوں کے اعلان کے بعد حضور انور نے فرمایا:
یہ نکاح جو میں نے اعلان کئے ہیں یا تو دونوں واقف نَو ہیں یا ایک فریق ان میں سے واقف نَو ہے۔ عموماً جیسے یہ آیات تلاوت کی جاتی ہیں ان میں سے ہر نئے شادی کرنے والے جوڑے کے لئے یہ ہدایت ہے کہ ایک دوسرے کے رشتے کا خیال رکھو۔ ایک دوسرے پر اپنا اعتماد بحال کرو، ہمیشہ سچائی پر قائم رہو اور اپنے کل کو بھی دیکھو کیسی ہے؟ پس یہ باتیں ہر قائم ہونے والے رشتہ کو یاد رکھنی چاہئیں۔ اگر اعتماد قائم کریں گے تو رشتے قائم رہنے والے ہوں گے۔ جو سچائی پر قائم ہوں گے اور ’’قول سدید‘‘ سچائی ہے۔ کوئی بات ایک دوسرے سے چھپانی نہیں ہے۔ رحمی رشتے ہیں، لڑکے کو اپنی ہونے والی بیوی یا بیوی کے رحمی رشتوں کا خیال رکھنا ہوگا۔ ان کا ادب و احترام کرنا ہوگا اور لڑکی کو بھی اپنے سسرالی رشتوں کا ادب و احترام کرنا ہوگا۔ تب ہی رشتے قائم رہتے ہیں۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صرف دنیا پر نظر نہ رکھو بلکہ اپنی کل کو بھی دیکھو۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا حساب لینا ہے۔ ہمیشہ اس دنیا میں نہیں رہنا۔ آگے کی بھی زندگی ہے اور تقویٰ پر چلتے ہوئے آئندہ کی زندگی کا خیال رکھو اور تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنی آئندہ نسلوں اور بچوں کی کل کو سنوارو۔ ان کو دین پر قائم کرو۔ ان کو دنیاوی تعلیم و تربیت کے ساتھ دینی تعلیم وتربیت بھی دو تب ہی کامیاب شادیاں ہوں گی اور آئندہ نسلیں بھی کامیابی سے پروان چڑھیں گی۔ جو دین کی خادم ہوں گی اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وارث بنیں گی۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کو دنیاوی نعمتیں بھی عطا فرمائے گا۔ پس ہر قائم ہونے والے رشتہ کو ان باتوں کا خیال رکھنا چاہئے۔ اللہ کرے کہ ان خاندانوں میں قائم ہونے والے یہ رشتے ہر لحاظ سے بابرکت ہوں اور ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنے والے ہوں۔
اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کروائی۔
بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فریقین کو شرف مصافحہ بخشا۔ اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔
پروگرام کے مطابق حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز پانچ بجکر پچاس منٹ پر اپنے دفتر تشریف لائے اور مدرسہ حفظ القرآن میں تعلیم حاصل کرنے والے ایک طالبعلم عزیزم ناصف مبشر سے قرآن کریم کا کچھ حصہ سنا۔
تصاویر
بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد کی لانی Lo میں تشریف لے آئے جہاں کیلگری ریجن کی مجالس عاملہ اور جماعتی عہدیداران اور کارکنان نے درج ذیل تیرہ گروپس کی صورت میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ تصاویر بنوانے کی سعادت پائی۔
مجلس عاملہ جماعت Edmonton ویسٹ
مجلس عاملہ جماعت Edmonton ایسٹ
مجلس عاملہ جماعت وینکوور (Vancouver) اور صدران حلقہ
مجلس عاملہ جماعت کیلگری اور صدران حلقہ
مجلس عاملہ انصاراللہ ایڈمنٹن ایسٹ
مجلس عاملہ انصاراللہ ایڈمنٹن ویسٹ
مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ کیلگری ریجن
مجلس عاملہ انصاراللہ کیلگری ریجن
مجلس عاملہ جماعت Airedrie
مجلس عاملہ جماعت Chestermere
مجلس عاملہ جماعت Fort McMurray
Calgary Tour Team
کیلگری قافلہ ڈرائیورز+ حفاظت خاص ٹیم
تصاویر کے پروگرام کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد کے ہال میں تشریف لے آئے۔ جہاں چھ بجکر بیس منٹ پر واقفات نَو بچیوں کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کلاس شروع ہوئی۔
واقفاتِ نَو کی کلاس
پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو عزیزہ فائزہ فاروق صاحبہ نے کی اور اس کا انگریزی ترجمہ ثمینہ جاوید صاحبہ نے پیش کیا۔
= اس کے بعد عزیزہ سابحہ صدف صاحبہ نے آنحضرت ﷺ کی درج ذیل حدیث مبارکہ پیش کی کہ آنحضرت ﷺ نے ایک بار فرمایا ہر نبوت کے بعد خلافت ہوتی ہے۔
= بعدازاں عزیزہ سدرہ صاحبہ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا درج ذیل اقتباس پیش کیا۔
صوفیاء نے لکھا ہے کہ جو شخص کسی شیخ یارسول اور نبی کے بعد خلیفہ ہونے والا ہوتا ہے تو سب سے پہلے خدا کی طرف سے اس کے دل میں حق ڈالا جاتا ہے۔ جب کوئی رسول یا مشائخ وفات پاتے ہیں تو دنیا پر ایک زلزلہ آجاتا ہے اور وہ ایک بہت ہی خطرناک وقت ہوتا ہے مگر خداتعالیٰ کسی خلیفہ کے ذریعہ اس کو مٹاتا ہے اور پھر گویا اس امر کا ازسرنو اس خلیفہ کے ذریعہ اصلاح و استحکام ہوتا ہے۔
آنحضرت ﷺ نے کیوں اپنے بعد خلیفہ مقرر نہ کیا۔ اس میں بھی یہی بھید تھا کہ آپ کو خوب علم تھا کہ اللہ تعالیٰ خود ایک خلیفہ مقرر فرما دے گا۔ کیونکہ یہ خدا کا ہی کام ہے اور خدا کے انتخاب میں نقص نہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اس کام کے واسطے خلیفہ بنایا اور سب سے اول حق انہی کے دل میں ڈالا۔
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 524-525)
= اس کے بعد عزیزہ عائشہ صدف صاحبہ نے درج ذیل نظم خوش الحانی سے پڑھی۔ ؎
خلیفہ کے ہم ہیں خلیفہ ہمارا
وہ دل ہے ہمارا آقا ہمارا
= بعدازاں عزیزہ فائزہ ماہم، ماریہ عثمان اور مہوش آفتاب نے درج ذیل عنوان پر ایک پریزینٹیشن دی ’’خلافت احمدیہ اور افراد جماعت کے درمیان محبت، ایک بے مثال روحانی تعلق‘‘۔
اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے واقفات نَو کو سوالات کرنے کی اجازت عطا فرمائی۔
٭ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے واقفاتِ نَو سے دریافت فرمایا کہ حضورانور نے جلسہ کینیڈا کے موقع پر جو عورتوں سے خطاب فرمایاتھا اس کے پوائٹنس کسی کو یاد ہیں؟ آپ لوگ یہاں سے مہنگاٹکٹ خرید کر جلسہ میں گئی تھیں تو کچھ تو یاد ہونا چاہئے۔
اس پر ایک واقفہ نَو نے عرض کیا:۔ حضور نے فرمایا تھا کہ اگر ہر عورت اپنی ذمہ داریاں اداکرنے والی ہو تو وہ اپنی بچوں کی اچھی تربیت کرنے والی بھی ہوتی ہے ۔ جب کوئی عورت اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرے گی تو ہرلڑکا اچھا بیٹا، اچھا باپ اور اچھا خاوند ہوگا۔اسی طرح ہر لڑکی اچھی بیٹی ، اچھی بہو ، اچھی ساس ، اچھی نند بنے گی۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ اور اس طرح پھرامن قائم ہو جائے گا۔ گھروں کے اندر جھگڑے نہیں ہوں گے۔
٭ اس کے بعد ایک واقفہ نَو نے سوال کیاکہ حضورانور کی سب سے پسندیدہ Sushi کونسی ہے ؟
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ میں نے کبھی نام نہیں دیکھے لیکن سوشی کی تقریباً ساری قسمیں ہی کھا لیتا ہوں۔
٭ ایک طالبہ نے سوال کیاکہ میاں بیوی کے رشتہ میں privacy کی کیا حدود ہیں؟چوری چھپے ایک دوسرے کی باتیں سننا اور ایک دوسرے کی چیزوں کی تلاشی لینا وغیرہ ٹھیک ہے؟
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا؛۔ یہ چیزیں غلط ہیں۔ اصل چیز اعتماد ہے ۔ نکاح کے خطبہ میں جو آیات پڑھی جاتی ہیں ان میں دوسری یا تیسری ہدایت یہی ہے کہ سچائی پہ قائم رہو۔ سچائی سے مراد قولِ سدید ہے یعنی ایساقول جس میں کسی بھی قسم کی بات کو TWIST کرنے والی چیز نہ ہو ۔ اگر قولِ سدید آجائے توپھر کسی قسم کا کوئی تجسس نہیں رہتااور نہ ہی کسی کی تلاشی لینے کی ضرورت پڑتی ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ ویسے بھی اگررشتوں کے درمیان اعتماد نہیں ہے تو رشتے قائم نہیں رہ سکتے ۔ میاں بیوی کا رشتہ اعتماد کا رشتہ ہوتا ہے۔ ایک دوسرے پر confidence ہو نا چاہئے ۔ اصل چیز ہی اعتماد ہے اور اگر دونوں طرف سےاس کا خیال رکھا جا رہا ہو تو پھرسب ٹھیک ہے۔ تلاشی لینے یا اس قسم کی چیزیں اسی وقت پیدا ہوتی ہیں جب اعتماد نہ رہے۔ اور جب رشتوں میں اعتماد نہ رہے تو پھر دراڑیں پڑجاتی ہیں اور جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں۔ اس لیے میں اکثر جوڑوں کو ہمیشہ کہا کرتا ہوں تم میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے اپنی آنکھ اور زبان اور کان بند کرلو۔ اگر تمہیں کوئی خیال بھی آئے تو تم نے دوسرے کی برائیاں نہیں تلاش کرنی۔ اگر برا خیال ذہن میں آئے تو اپنی آنکھ بند کرلو اور اچھائی دیکھنے کے لئے آنکھ کھول لو ۔اگرتمہیں اپنے خاوند کی کوئی بات بری لگے اور تم اس پر کوئی comment کرنا چاہتی ہو تو بہتر ہے خاموش ہو جاؤ۔ اسی طرح اگر میاں بھی خاموش ہو جائے تو بہترہے۔ اگر کوئی اچھی بات ہو تو دونوں ایک دوسرے کی اچھی باتوں کو appreciate کرو اور ان کی تعریف کرو۔ بعض دفعہ لوگ کسی بری بات کو بڑھا چڑھا کرآگے بیان کرتے ہیں۔ اگر کوئی تمہارے خاوند کے خلاف ایسی بات کرے جس کے ذریعہ وہ تمہیں تمہارے خاوند کے خلاف کررہا ہو تو ایسی صورت میں کان بند کرلو اور اسے کہہ دو کہ میں یہ بات نہیں سنوں گی۔ اسی طرح اگر کوئی خاوند سے اس کی بیوی کے بارہ میں بات کرے تو اسے نہیں سننی چاہئے۔
٭ اس کے بعد ایک واقفہ نَو سوال کیاکہ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز روزانہ کتنی مرتبہ قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں؟
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ ویسے تو مختلف وقتوں میں اپنے کاموں کے لئے کئی مرتبہ قرآن شریف کو دیکھنا پڑھتا ہے۔ لیکن صبح مَیں کم از کم آٹھ نو رکوع ضرور پڑھ لیتا ہوں۔ فجر کی نماز سے پہلے بھی اور فجر کی نماز کے بعد بھی ۔
٭ اس کے بعد ایک واقفہ نے پوچھاکہ اگر تیسری جنگِ عظیم ہوتی ہے تو اس کے کینیڈا پر کیااثرات ہوں گے؟
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ اس کااثر تو ساری دنیا پر ہوگا۔ظاہر ہے کینیڈا بھی اس میں involved ہوگا ۔ آجکل تم لوگ جوpoppy لگائے پھرتے ہویہ اسی وجہ سے ہے کہ دوسری جنگِ عظیم میں کینیڈا کے کئی ہزار آدمی مارے گئے تھے حالانکہ کینیڈا براہِ راست اس میں involve نہیں تھا۔ تو اب جو جنگ ہوگی اس میں سارےملک involved ہیں ۔ آپ لوگوں نے عراق میں بھی فوجی بھیجے۔پھر سعودی عرب سے جواسلحہ کی deal ہوئی ہے اس میں بھی کینیڈا نے کئی بلین ڈالر کے ہتھیار اور ammunition بھیجا۔ اس سے ظاہر ہے کہ اس میں کینیڈا بھیinvolved ہے ۔ کینیڈا چاہے جتنابھی دور ہے لیکن جنگ کا کچھ نہ کچھ اثر تواس پر بھی ہو گا ۔ لیکن یہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو عقل دے اور کوئی بھی ملک ایٹم بم کا استعمال نہ کرے۔ ورنہ اگلی نسلیں crippled ہو جائیں گی جو بڑی خطر ناک چیز ہے ۔
٭ ایک واقفہ نَو نے سوال کیاکہ میں بہت چھوٹی تھی جب ہماری فیملی ملاقات ہوئی تھی۔دوبارہ ملاقات کس طرح ہوسکتی ہے؟
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ اب ماشاء اللہ جماعت اتنی بڑھ گئی ہے ۔ تم نے تو چھوٹی عمر میں ملاقات کر لی تھی لیکن بہت سارے لوگ ہیں جنہوں نے کبھی بھی نہیں کی ۔ ان کو بہر حال پہلے چانس ملے گا۔
٭ اس کے بعد ایک واقفہ نَو نے عرض کیاکہ میں وقفِ نَو کی تحریک میں شامل ہوں اور ایک مربی کی بیوی بھی ہوں۔ اس لئے مجھ پر نفس کا جہاد لازم ہے۔ لیکن بعض اوقات ایسی کیفیت طاری ہو جاتی ہے کہ نفسانی خواہشات کو دبانے کی کوشش تو کرتے ہیں لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی وہ خواہشات غالب ہو جاتی ہیں۔ تو ایسا کیا کرنا چاہئے کہ ہم آسانی سے ان خواہشات کو دبا سکیں تاکہ وہ ہم پہ غالب نہ آئیں۔
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ ہر وقت یاد رہنا چاہئے۔ پھر ہر وقت ذہن میں رکھو کہ تم نے وقف کیا ہو ا ہے ۔ واقف زندگی کی بیوی بھی وقف ہوتی ہے ۔ تم تو واقفہ نَو بھی ہو اس لئے تمہاراتو دوہرا وقف ہے ۔ ایک واقفہ نَو کی حیثیت سے وقف اور دوسرا واقف زندگی کی بیوی کی حیثیت سے ہے ۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ پھر اگر ایسی خواہشات آتی ہیں جو دنیاوی قسم کی ہوں جیسے دنیا کے پاس پیسہ ہے اور ہمارے پاس نہیں ہے ۔ فلاں تو فلاں چیز خرید سکتاہے اور ہم نہیں خرید سکتے۔ فلاں بڑے گھر میں رہتاہے اور میں چھوٹے گھر میں رہتی ہوں۔ اس طرح بہت ساری خواہشات ہوتی ہیں تو اس وقت استغفار پڑھنا چاہئے ۔ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرو ۔ استغفار کشائش پیدا کردیتا ہے اور دوسرا قناعت بھی پیدا کردیتا ہے۔ یہ میں اپنے تجربہ سے کہہ رہاہوں۔ میں گھانا میں رہا ہوں اور وہاں جیسے حالات کہیں بھی نہیں تھے۔ تم لوگوں کا الاؤنس تو مہینہ چل جاتاہے لیکن ہمارا الاؤنس پندرہ دنوں میں ختم ہو جاتا تھا۔ پھر ہمیں پتا ہے ہم کس طرح گزارا کر تے تھے۔ میں نے کبھی کہیں سے پیسے نہیں منگوائے۔ نہ گھر سے اور نہ کہیں اور سے۔ جس طرح بھی ہوا گزارا کرلیا اور میری بیوی بچوں نے بھی ساتھ دیا۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ تو پہلی چیز یہی ہے کہ اس قسم کے خیال ہی نہیں آنے چاہئیں۔ ہمیشہ یہ ذہن میں رکھوکہ میں نے وقف کیا ہے اورواقفِ زندگی تو سپاہی ہوتاہے۔ جب کوئی سپاہی یا فوجی میدانِ جنگ میں جاتا ہے تو یہ نہیں سوچتا کہ لوگ تو گھروں میں آرام کر رہے ہیں اور میں یہاں گولی کے سامنے کھڑا ہوں اور لڑائی کر رہا ہوں اورمجھے گولی بھی لگ سکتی ہے اور میں مر بھی سکتا ہوں ۔ پس اسی طرح واقف زندگی کو بھی نہیں سوچنا چاہئے اور اس کا سب سے بڑا ہتھیار یہ ہے کہ نمازوں اور عبادتوں کے علاوہ استغفار کیا کرے۔ جب بھی اس قسم کے خیالات آئیں تو استغفار شروع کردو ۔ اس سے حالات بھی بہتر ہو جاتے ہیں اور قناعت بھی پیدا ہوجاتی ہے ۔
٭ اس کے بعد ایک واقفہ نَو نے سوال کیاکہ کیا حضورانورClimate Change پہ believe کرتے ہیں؟
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ ساری دنیا کاclimate change تو ہو رہا ہے لیکن یہ climate changeاتنا خطر ناک نہیں جتنا یہ extremists اور terrorists خطر ناک ہوگئے ہیں۔ اب جب دنیا کی آبادی بڑھتی ہے تو لوگ deforestation کرتے ہیں یعنی جنگل کاٹتے ہیں۔ یہاں کیلگری میں بھی بہت ساری نئی development ہو گئی ہے کیونکہ لوگوں کی آبادی بڑھ رہی ہے ۔ آبادی بڑھنے کی وجہ سے صرف درخت نہیں کٹ رہے بلکہ کاریں بھی زیادہ چل رہی ہیں جس کی وجہ سے کاربن emission زیادہ ہوتی ہے۔ پھر آپ لوگوں کے گھروں میں گیس چلتی ہے وہ بھی ماحول کو pollute کر رہی ہے ۔تویہ ساری چیزیں climate پر اثر تو ڈال رہی ہیں اور خطر ناک بھی ہیں لیکن اتنی خطر ناک نہیں جتنے terrorist خطر ناک ہیں۔
٭ ایک واقفہ نَو نے عرض کیا کہ جتنی بھی شادی شدہ واقفات ہیں آپ ان کے لئے کچھ نصیحت فرما ئیں کہ وہ کس طرح اپنی گھریلو ذمہ داریوں اور اپنے وقف میں balance create کر سکتے ہیں؟
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ جو تو واقفینِ زندگی کی بیویاں ہیں وہ توخود بھی وقف ہیں۔ دوسرا میاں بیوی کے تعلقات کی بات ہے تو میں نے اس کی نصیحت کردی ہے۔ تیسری بات یہ کہ جو واقفاتِ نَو غیر واقفین نَو کی بیویاں ہیں انہیں کیا کرنا چاہئے؟ تواس حوالہ سے یاد رکھیں کہ چاہے آپ کی شادی واقف نَو سے ہوئی ہےیا کسی ایسے آدمی سے جو دنیا کے کام کر رہا ہے آپ کو ہمیشہ یہ احساس ہوناچاہئے کہ ہم وقف نَو ہیں اور ہم نے دین کو دنیا پر مقدم کرنا ہے۔ یہ توایک عام احمدی کے لیے بیعت کا تقاضا ہے کہ اس نے دین کو دنیا پرمقدم رکھنا ہے ۔ اس لئے اگر کوئی دینی کام ملتا ہے تو اس کو کرنا چاہئے۔ اگر کوئی نہیں ملتا تو خود راستے explore کریں کہ ہم کس طرح دین کی خدمت کر سکتے ہیں ۔ آپ اب پڑھی لکھی ہیں تو اخباروں میں article لکھیں۔ اسلام کے متعلق لوگوں کے جو شکوک ہیں انہیں ختم کریں ۔ جماعتی رسالوں میں article لکھیں۔ اپنے رسالوں میں تربیت کے بارہ میں مضمون لکھیں ۔ اسلام کے بارے میں دنیا کو بتائیں۔ اگر وقت ہو تو لٹریچر تقسیم کریں۔ اپنے دوستوں کا دائرہ بڑھائیں اور ان کو اسلام کے بارے میں بتائیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ باقی گھرکے کام کرنے کے علاوہ گھر میں بیٹھ کر اپنا دینی علم بڑھاتی رہیں ۔لیکن یہ نہیں کرنا کہ خاوند گھر آئے تو کھانا بھی نہ پکا ہو۔ بچے سکول سے آئیں تو ان کو کہہ دیاکہ جاؤ فریج میں سے کیلا یا سیب نکال کر کھالو یا ٹوسٹ پر مکھن لگا کر کھا لو ۔ بیوی کا کام ہے کہ جب خاوند گھر میں آئے تو گھربھی صاف ستھرا ہو اور کھانا بھی پکا ہو۔ بچے سکول سے گھر آئیں تو ان کو پتہ ہو کہ ماں کے پاس جائیں گے تو ہمیں محبت بھی ملے گی ، پیار بھی ملے گا اور بھوکے سکول سے آئے ہیں تو ماں نے اچھا کھانا پکا یا ہوگا ۔ تو یہ ساری چیزیں balance کرنی ہیں ۔ گھرکا ماحول ڈسٹرب نہیں ہونا چاہئے۔ اگرکسی اور کام کے لئے وقت نہیں ملتا تو کم از کم گھر بیٹھ کر اپنے دینی علم کو بڑھائیں۔ قرآن کریم پڑھیں ، تفسیر پڑھیں ، دینی کتابیں پڑھیں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھیں۔ اگر اردو نہیں آتی تو جو کتابیں انگلش میں ہیں وہ پڑھیں ۔ تو یہ ساری چیزیں آئندہ بچوں کی تربیت میں کام آئیں گی۔ لیکن یہ بہانے نہیں ہونے چاہئیں کہ صبح سے شام تک لجنہ کی میٹنگز ہورہی تھیں اس لئے باقی کام نہیں کرسکے۔لجنہ میٹنگز میں گپیں زیادہ مارتی ہیں اور کام تھوڑے کرتی ہیں۔ اور لجنہ کو بھی چاہئے کہ اگر میٹنگ کے لئے ایک گھنٹہ مقرر کیا ہے تو وہی رکھیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ مَیں باقی تنظیموں کو بھی کہتا ہوں کہ اب تو مسجدیں بن چکی ہیں اور بڑے بڑے سنٹر ہیں۔ اس لئے اگر خدام، انصار اور لجنہ ایک ہی دن میں ایک وقت پر میٹنگ کرلیں تو آپ کے آنے جانے کا خرچ بھی کم ہوجائے گا۔ اگر دور سے آنا ہے تو وقت بھی بچ جائے گا اور پٹرول کا خرچ بھی کم ہوجائے گا۔ اور خاوند بھی نہیں چڑے گا کہ تم نے کیا مصیبت ڈالی ہوئی ہے ہر ہفتہ اجلاس ہو جاتا ہے۔ یا بیوی خاوند سے کہے گی کہ تم نے کیا مصیبت ڈالی ہے ہر روز خدام الاحمدیہ تمہیں بلا لیتی ہے ۔ تو یہ ساری چیزیں آپ لوگوں نے حالات کے مطابق خود adjust کرنی ہیں تاکہ آپ لوگوں کے گھر بھی نہ خراب ہوں اور ساتھ ساتھ دین کی خدمت بھی ہوتی رہے ۔
٭ ایک واقفہ نَو نے سوال کیاکہ اگرنماز میں صرف عورتیں ہوں اور امام بھول جائے تو عورت کو صرف تالی بجانے کی اجازت ہے لیکن امام کواگر پھر بھی یاد نہ آ رہا ہو تو کیا عورت بتا سکتی ہے؟
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ جہاں صرف ایک ہی اما م ہے اور ساری عورتیں ہی ہیں تو پھروہ خاص حالات بن گئے۔ ان حالات میں اجازت ہے۔ اگر گھر میں آپ کا بھائی نماز پڑھارہاہے یا ابا پڑھارہے ہیں یا ماموں یا چچا پڑھارہے ہیں اور پیچھے ساری عورتیں ہیں تو پھر اگر وہ بھول جائیں تو یاد کرواسکتے ہیں۔
٭ ایک واقفہ نَو نے سوال کیاکہ اگر کسی بات پر ساس سسر اور husband دونوں different opinion رکھتے ہوں تو کس کی بات سننی چاہئے ؟
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا؛۔ اگر کوئی ایسا مسئلہ ہے کہ گھر میں جھگڑا پیدا ہونے کا ڈر ہو توپھر ہرلڑکی نے اپنے خاوند کی بات سننی ہے ۔ آپ نے اپنے خاوندوں سے شادی کی ہے اس لئے اس کی بات سنو۔ لیکن ساس سسر سے بدتمیزی سے بات نہیں کرنی ۔ ان کو غصہ چڑھے اور وہ ڈانٹیں تو کان بند کر لو ۔ لیکن عورت کو خاوند کی بات سننی چاہیے اور پھر جب معاملہ ذرا ٹھنڈا ہو جائے تو پھر آرام سے ، پیار سے خاوند کو سمجھاؤ کہ اگر ہم ماں باپ کی بات بھی مان بھی لیتے تو کوئی حرج نہیں تھا۔
٭ ایک واقفۂ نَو نے سوال کیاکہ اگر ایک گھر میں دو واقفینِ نَو لڑکے ہوں اور ان میں سے ایک مربی اور دوسرا مربی نہیں ہے تو کیا وہ جو مربی نہیں ہے اسے کہنا چاہئے کہ مربی زیادہ successful ہے۔
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ اگر دونوں واقف نَو ہیں اور ایک مربی بن گیا ہے اور دوسرا کم پڑھا ہوا ہے ۔ یا اس نے پڑھائی ختم کرکے کوئی skill سیکھ لی، یا پلمبر بن گیا یا الیکٹریشن بن گیا تو اس صورت میں اس کو اس قسم کی باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔ یہ غلط چیز ہے۔ ہر ایک کا اپنا دماغ ہو تاہے۔ ہاں اگر وہ نکما بن کر گھر میں بیٹھا ہوا ہے تو پھر ماں باپ کو ضرور کہنا چاہیے کہ جاؤ اورکچھ کام کرو ۔ لیکن اگر کام کر رہا ہے یا اس نے کوئی ہنر سیکھ لیا ہے تو پھر اس کوکچھ کہنا غلط ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ وقف نَو کے لحاظ سے دونوں برابر ہیں۔ لیکن اس وقت برابر تھے جب ماں باپ نے وقف کیاتھا۔ لیکن جو مربی بن گیا اس کا قدم آگے بڑھ گیا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کوجو صلاحیتیں دی تھیں وہ ان کو استعمال کرکے پڑھائی مکمل کر کے فیلڈ میں آگیا ۔لیکن دوسرے نے grade 10 بھی پاس نہیں کیا تو وہ وقف نَو کی حیثیت سے برابر ہے لیکن جماعت کے کام کے لحاظ سے برابر نہیں ہے۔ باقی جہاں تک یہ بات ہے کہ ایک پیچھے رہ گیااور دوسرا اوپر چلا گیا تو کیا سارے انسان برابر ہوتے ہیں؟ بحیثیت انسان تو برابرہوتے ہیں لیکن ان میں سے ایک employer ہوتا ہے اور دوسرا employee ہوتا ہے۔ دونوں برابر تو نہیں ہوتے۔ ہیں تو دونوں انسان لیکن ایک اپنی صلاحیت اور قابلیت کی وجہ سے آگے بڑھ گیا اور industry چلا رہا ہے اور دوسرا مزدور رہ گیا۔
واقفات نَو کی یہ کلاس سات بج کر بیس منٹ تک جاری رہی۔ اس کے بعد سات بجکر پچیس منٹ پر واقف نَو بچوں کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ کلاس شروع ہوئی۔
(باقی آئندہ)