مصالح العرب (قسط ۴۴۴)
(عربوں میں تبلیغ احمدیت کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے مسیح موعود کی بشارات، گرانقدر مساعی اور ان کے شیریں ثمرات کا ایمان افروز تذکرہ )
مکرم علاء عثمان صاحب (2)
قسطِ گزشتہ میں ہم نے مکرم علاء عثمان صاحب آف سیریا حال جرمنی کی ایمان افروز داستان کا ایک حصہ نذر قارئین کیا تھا ۔جس میں ہم نے ان کے خاندان کی قبول احمدیت کا واقعہ اور سیریا میں 2011 ءمیں شروع ہونے والے فسادات میں ان کے خاندان پر ڈھائے جانے والے مظالم کا کچھ تذکرہ کیا تھا۔اس قسط میں اسی المناک داستان کو آگے بڑھاتے ہیں۔ مکرم علاء عثمان صاحب بیان کرتے ہیں کہ:
میں دمشق میں رہتا تھا جبکہ میرے والدین اور سسرال ہماری آبائی بستی حوش عرب میں رہائش پذیر تھے۔میں ہردو ہفتوں کے بعدبیوی بچوں کو لے کر بستی کا چکر لگاتاتھا۔یہ بستی حکومت مخالف گروہوں کے زیر تسلّط آگئی تھی اور ان کے بڑے سرغنوں میں میرا بڑا بھائی بھی تھا جوکئی سال پہلے ہوش کی عمر سے ہی جماعت سے علیحدہ ہوگیا تھا۔
سیاہ دن
کئی ماہ تک تو میں بسہولت اپنے اور اپنی اہلیہ کے والدین سے ملنے کیلئے آتا جاتا رہا۔ پھر اسکے بعد وہ سیاہ دن آیا جب حوش عرب سے واپس آتے ہوئے مجھے گورنمنٹ کی عسکری پوسٹ پر روک لیا گیا اورمجھے میری اہلیہ اور بچوں کے سامنے گرفتار کرکے میری اہلیہ سے کہا گیا کہ وہ گاڑی چلا کر بچوں کو گھر لے جائے۔میری بیوی اور بچوں نے دہائیاں دیں، التجائیں کیں کہ کم از کم گرفتاری کا سبب تو بتا دیں ، لیکن ہر قسم کی سیس نوائی اکارت گئی اور یوں ہم جدا ہوگئے۔
ایک گھنٹے کے بعد مجھے اسی چیک پوسٹ کے عقب میں ایک کمرے میں لے جا یا گیا جہاں مجھ سے پہلے گرفتار ہونے والے دو اشخاص سے پوچھ گچھ ہو چکی تھی۔ ان کی حالت دیکھ کر میرا دل بیٹھ گیا۔ انہیں اس قدر تعذیب کا نشانہ بنایا گیا تھا کہ ان کے جسموں سے خون رِس رہا تھا۔ ادھ موئی حالت میں وہ زمین پر پڑے کراہ رہے تھے۔
میں انہیں دیکھ کر اپنے انجام کے بارہ میں سوچ ہی رہا تھا کہ چند فوجی آئے او رانہوں نے بغیر کوئی بات کئے اور بغیر کوئی سوال پوچھے مجھے لاتوں،مکّوں اورڈنڈوں سے نہایت بے رحمی سے مارنا شروع کردیا۔شاید اس طرح ان کی تسلی نہ ہوئی تو انہوں نے میرے جسم کو بجلی کے تاروں سے مار مار کے چھلنی کردیا۔ کچھ ہی دیر کے بعد میرے اعصاب جواب دے گئے اور میں بھی زمین پر ڈھیر ہوگیا۔اس کے بعد میری آنکھوں پر پٹّی باندھ دی گئی اور کچھ دیر کے بعد شاید ان کا کوئی آفیسر آیا جو ہمیں ایک گاڑی میں ڈال کر کسی نامعلوم مقام پرلے گیا۔
اس مقام پر ہماری مارکٹائی اور تعذیب کا دوسرا دور ہوا جس کے ساتھ سوال وجواب کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔گو میرا جسم چور چور تھا، سوچنے اور بولنے کی سکت نہیں تھی، ایسے میں ان کے پوچھے جانے والے سوالوں سے یہ سمجھنا مشکل نہ تھا کہ ان کے ارادے کیا ہیں او رکونسا جرم میرے کھاتے میں ڈالنا چاہتے ہیں۔انہوں نے پوچھا کہ تمہاری بستی حوش عرب پر کون کون سے گروہ قابض ہیں ؟ کن کن ٹی وی چینلز کے ساتھ تمہارا رابطہ ہے؟ اور کن کن مسلح گروہوں اور اشخاص کو تم جانتے ہو؟ اس سوال کے پوچھنے کے وقت ان کی طرف سے تعذیب شدید ہوگئی تھی۔لیکن میں نے کسی بھی سوال کے جواب میں غلط بیانی نہیں کی، اور صبر سے ان کا ظلم سہتا رہا۔ نیز حکومت کے خلاف مسلح گروہو ں میں شامل ہونے والے جن اشخاص کو میں جانتا تھاان کے نام بھی انہیں بتادیئے تاہم میرا خیال ہے کہ ان سب کو وہ پہلے ہی جانتے تھے۔ ان اشخاص میں میں نے اپنے بھائی کا نام بھی بتایا جو حکومت کے خلاف مسلح گروہوں میں شامل ہو چکا تھا۔
موت کے سائے
میں نے اپنے بارہ میں کسی حکومت مخالف گروہ یا کسی بیرونی ٹی وی چینل کے ساتھ تعلق ہونے سے انکار کیا تو شاید انہیں اس بات کا یقین نہ آیا۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ میرا چھوٹا بھائی حکومت مخالف مظاہروں میں شریک ہونے کی بنا پر قید ہو چکا تھا جسے بعد میں ٹارچر کر کے مار دیا گیا۔ اسی طرح بڑا بھائی جو کہ غیر احمدی تھا وہ بھی حکومت مخالف گروپس کا سرکردہ رکن بن گیا تھا۔ اس وجہ سے میرے بارہ میں توقع کی جارہی تھی کہ اور نہیں تو میں اپنے چھوٹے بھائی کے قتل کے انتقام کی خاطر ہی حکومت مخالف طاقتوں سے رابطہ میں ہوں گا۔چنانچہ انہوں نے مجھ سے اپنا مزعومہ’’سچ‘‘ اگلوانے کے لئے ایک او رحربہ استعمال کیاکہ میرے کپڑے اتار کر مجھے ٹھنڈے پانی میں ڈال دیا۔یہ شدید سردی کے ایا م تھے۔ جب میرا جسم فریز ہونے کو پہنچ گیا تو مجھے نکال کر پھر مارنا شروع کردیا۔میں ان کے سوالوں کے جواب میں صرف اتنا ہی کہہ سکاکہ جو کچھ میرے پاس معلومات تھیں وہ تو میں نے آپ کو بتادی ہیں اب اس کے بعد اگر آپ جان سے ماردینے کی دھمکی دے رہے ہیں تو میں یہی کہتا ہوں کہ ایسا کرنا ہے تو کرگزریںکیونکہ اس طرح لمحہ لمحہ مرنے کی کیفیت سے تو رہائی مل جائے گی۔
یہ سن کرانہوں نے مجھے چھوڑ دیا اور میری آنکھوں سے پٹی اتار کر کہا کہ کپڑے پہن لو۔ میں نے ایک نظر اپنے جسم کو دیکھا تومیری نظر آنسوؤں سے بھیگ گئی کیونکہ میرے جسم کا کوئی حصہ تعذیب کے آثار سے خالی نہ تھا۔
مقتل نما زنداں
وہ رات میں نے جیل میں گزاری جہاں اور بھی قیدی تھے جن سے بات کر کے پتہ چلا کہ ہم کس مقام پر ہیں۔ اگلے روز کئی قیدیوں کے ساتھ میرا نام بھی پکارا گیا اور پھرہماری آنکھوں پر پٹی باندھ کر گاڑی میں ڈال لیا گیا۔ایک دفعہ پھر ہمیں اپنی منزل کا علم نہ تھا۔ لیکن ایک چوکی پر ہماری گاڑی پر سوار ایک اہلکار نے کچھ بولا جس سے ہمیں معلوم ہوگیا کہ ہم کہاں جارہے ہیں۔ جس شاخ کا نام اہلکار نے لیا تھاوہ ظلم اور سختی میں مشہور تھی۔ یہ نام سنتے ہی ہمارے دل کانپنے لگ گئے لیکن اس وقت سوائے صبر کے ہمارے ہاتھ میں کوئی حیلہ نہ تھا۔اور ہمیں توقع تھی کہ وہاں پہنچ کر زخم زخم جسموں پر مزید چرکے لگائے جائیں گے۔لیکن وہاں پہنچ کر خلاف توقع ایسا کچھ نہ ہوا بلکہ سرسری سوالوں کے بعدہمیں زمین دوزجیل خانے میں ڈال دیا گیا۔
جیل کے جس کمرے میں مجھے ڈالا گیاوہ انتہائی چھوٹا سا کمرہ تھا جس میں مجھ سے پہلے بارہ لوگ موجود تھے۔ اس جیل میں ایسے چالیس کمرے تھے جن میں اسی طرح ٹھونس ٹھونس کر انسان بھرے ہوئے تھے۔کمرے میں گندگی کے ساتھ ساتھ مردہ جسموں سے اٹھنے والی بدبووافر تھی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ روزانہ جیل کے ان کمروں میں تعذیب اور ظلم کی تاب نہ لاتے ہوئے کئی قیدی جان کی بازی ہار جاتے تھے ، کئی بدقسمتوں کو خطرناک بیماریاں بھی ظلم وستم کی اس قید سے آزاد نہ کرسکتیں تو جان دے کر انہیں اس مقتل نمازنداں سے رہائی ملتی۔
رہائی اور حسابِ سود وزیاں
تین روز اسی جیل میں رہنے کے بعد مجھے مزید تحقیق کے لئے بلایا گیا۔میری آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ یہاں پرمجھ سے وہی سوال پوچھے گئے جو پہلی بار مار مار کر پوچھے تھے۔پھر ان سوالوں کے جوابات پر مجھ سے دستخط کروا کے مجھے جیل میں واپس بھیج دیا گیا اور پھر22دن تک اسی حبس زدہ اور بدبودار کمرے میں گزرانے کے بعدمجھے دوبارہ بلایا گیااور میرے اہل خانہ کے دینی اور دنیوی رجحانات لکھوائے گئے۔ اس کے دوروز بعد ہمیں بتایا گیا کہ تم آزاد ہو۔ ہم حیران تھے کہ ایسا کیونکر ممکن ہوگیا؟ پھر کچھ ہی دیر میں ہمیں پتہ چلا کہ ہمیں حکومت نے اپنے مخالف گروپس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلہ میں رہا کیا ہے۔
میں 27دنوں کے بعد گھر پہنچا توتقریباً ایک کلو روزانہ کے حساب سے میرا 25کلو وزن کم ہوگیا تھا۔رہائی کے بعد دوماہ تک بستر پر ہی میرا علاج ہوتا رہاکیونکہ مجھے خطرناک بیماریاں لگ گئی تھیں خصوصًا میرے پاؤں میں ایسی انفیکشن ہوگئی تھی جس سے پاؤں کا گوشت کھایا جارہا تھا۔ اور اگر میں چند روز مزید جیل میں رہتا تو میرا پاؤں کاٹ دیا جاتا۔
بڑی غلطی
آہستہ آہستہ میری صحت ٹھیک ہوگئی ۔ سابقہ تجربہ کی بناء پر میں اپنی بستی ’’حوش عرب‘‘ نہ گیا جبکہ میری اہلیہ اور بچے وقتًا فوقتًا آتے جاتے رہے۔ کچھ عرصہ کے بعد اس علاقہ کے حالات بھی خراب ہوگئے جس میں ہم رہائش پذیر تھے۔ جب روز مرہ بمباری اورچوریوں وقتل کے واقعات بڑھنے لگے تو مجبورًا ہمیں اس محلہ سے نکلنا پڑا۔ بہت مشکل سے قریبی علاقے میں ایک کمرے پر مشتمل چھوٹا سا گھر کرائے پر لیا اور اس میں پانچ ماہ گزار کر وطن سے ہجرت کا پروگرام بنایا اور میں ترکی چلا گیا۔ وہاں جاکر گھر تلاش کیا اور پھر اہل خانہ کو بلالیا۔ کچھ عرصہ وہاں رہنے کے بعد ہمیں محسوس ہوا کہ ترکی زبان سے ناواقفیت ہمیں یہاں تنہائی کے احساس سے دوچارکررہی ہے۔ چنانچہ باوجود اپنے ملک کے خراب حالات کے میں نے دمشق واپس جانے کا فیصلہ کیا اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔
دمشق میں آکر میں نے ایک محفوظ مقام پر کرائے کا گھر لیا اور گھر سے ہی اپنی ویب سائٹ او ردیگر کام چلانے لگا۔ میری ویب سائٹ ٹیکنالوجی کی خبروں اورگیمز وغیرہ کے لئے کافی مشہور تھی اورمجھے اس سے اچھی خاصی آمدنی ہوجاتی تھی او ریہ سلسلہ خدا کے فضل سے اب تک جاری ہے۔
مصیبتوں کے درمیاں
دمشق میں رہتے ہوئے مجھے سال گزر گیا اور 2014ءکے رمضان المبارک میں میں نے گاڑی خریدی تو میرے اہل خاندان مجھ پر بستی میں آنے کے بارہ میں دباؤ ڈالنے لگے۔ ان کے تسلی دلانے پر میں نے عیدپر اپنے گاؤں جانے کا پروگرام بنالیا۔ میں بڑی احتیاط سے ہر عسکری پوسٹ گزرتا ہوا راستہ طے کرنے لگا کیونکہ معمولی غلطی بے رحمانہ قتل کاسبب بن سکتی تھی۔ عسکری حلقوں میں میری بستی حکومتی نظام کے مخالف گروپس کا گڑھ سمجھی جاتی تھی اس لئے گو مجھے شکی نظروں سے دیکھا جاتا تھا لیکن الحمد للہ میں 10سے زائد چیک پوسٹوں سے گزر کر بستی میں داخل ہوگیا۔
میں بستی تک تو پہنچ گیا لیکن میرا دل طرح طرح کی فکروں کی آماجگاہ ہی رہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ نیشنل ڈیفنس کے بعض عناصر نے مجھے یہاں آتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ وہ مجھے اچھی طرح جانتے تھے نیز انہیں یہ بھی علم تھا کہ میرا ایک بھائی حکومت مخالف گروپ کا اہم رکن ہے۔ چنانچہ وہی ہوا جس کا ڈر تھا کیونکہ انہوں نے مجھے اپنے مرکز میں بلوا لیا اور اس بستی میں آنے کا سبب پوچھا۔میرا ایک رشتہ دار انٹیلی جینس کے شعبہ میں کام کرتاتھا اور اس وقت وہاں موجود تھا ۔ میں اسے اپنے ساتھ لے گیا۔اس نے وہاں جاکر گواہی دیتے ہوئے میرے بارہ میں کہا کہ اس کااپنے حکومت مخالف بھائی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اور انٹیلی جینس کے شعبہ نے اس کے بارہ میں تحقیق کی ہے او راس کے ذمہ کوئی جرم نہیں ہے۔
نیشنل ڈیفنس والوں نے یہ سفارش قبول کر لی اور مجھے واپس جانے دیا۔ باہر نکل کر میرے رشتہ دار نے مجھ سے کہا کہ میری نصیحت ہے کہ تم دمشق واپس چلے جاؤ۔کیونکہ مجھے محسوس ہوا ہے کہ انہوں نے گو تمہیں چھوڑ دیا ہے لیکن وہ تمہیں پکڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں کیونکہ تمہارے اوپر یہ بھی الزام ہے کہ تم نے حالیہ فسادات شروع ہونے سے پہلے الجزیرہ چینل میں کام کیا ہے جو آج کل حکومت کے خلاف رپورٹس دکھارہا ہے۔
میں نے عید کے بعد دمشق واپس جانے کا فیصلہ کیا تو اچانک میری ایک بیٹی بشدت رونے لگ گئی۔ وہ مجھے کہتی تھی کہ پاپا دمشق واپس نہ جاؤ کیونکہ میرا دل کہتا ہے کہ وہاں کوئی مصیبت تمہاراانتظار کررہی ہے۔لیکن میری اہلیہ اس بات پر مصر تھی کہ ہمیں جلد سے جلد دمشق واپس لوٹ جانا چاہئے۔ چنانچہ میں نے اپنی اہلیہ کی بات مان لی اور بیٹی کو سمجھا بجھا کے واپس چلنے پر راضی کرلیا۔
ہم واپس دمشق تو خیر وعافیت سے پہنچ گئے لیکن اس کے ایک روز بعد مصیبت ہمیں ہر طرف سے گھیر چکی تھی۔ انٹیلی جینس کے کچھ لوگ میرے گھر میں داخل ہوئے اور باربار یہ جملہ دہرانے لگے کہ تم نے فون پر کسی سے کیا بات کی ہے۔در اصل یہ ان کا پرانا طریقہ ہے جو بے گناہوں کی گرفتاری کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
(باقی آئندہ)