امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ کینیڈا 2016ء
واقفینِ نَو بچوں کی حضور انور ایدہ اللہ کے ساتھ کلاس۔ حضور انور ایدہ اللہ کے ساتھ دلچسپ مجلس سوال و جواب۔
واقفین کے سوالات کے جواب۔ اہم نصائح اور زرّیں ہدایات۔
تقریب آمین۔ انفرادی و فیملی ملاقاتیں۔ کینیڈا سے روانگی اور لندن میں ورودمسعود۔
12 نومبر2016ء بروز ہفتہ
(حصہ دوم)
واقفین نَو بچوں کی
حضورانور ایدہ اللہ کے ساتھ کلاس
پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو عزیزم سیدذکی احمد جنود نے کی اور اس کا اردو ترجمہ عزیزم مدثر احمد نے پیش کیا۔
اس کے بعد عزیزم سائیب احمد چوہدری نے آنحضرت ﷺ کی حدیث مبارکہ کا عربی متن پیش کیا۔ جس کا درج ذیل اردو ترجمہ عزیزم لبید احمد نے پیش کیا۔
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ذکر الٰہی کرنے والے اور ذکر الٰہی نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی طرح ہے۔ یعنی جو ذکر الٰہی کرتا ہے وہ زندہ ہے اور جو نہیں کرتا وہ مردہ ہے۔
(بخاری کتاب الدعوات باب فضل ذکر اللہ تعالیٰ)
صحیح مسلم کی روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: وہ گھر جن میں خداتعالیٰ کا ذکر ہوتا ہے اور وہ گھر جن میں خداتعالیٰ کا ذکر نہیں ہوتا ان کی مثال زندہ اور مردہ کی طرح ہے۔
(مسلم کتاب الصلوٰۃ باب استحباب الصلوٰۃ)
اس کے بعد عزیزم علی شاہان بٹ نے حضرت اقدس مسیح موعود کا منظوم کلام ؎
کس قدر ظاہر ہے نور اس مبدء الانوار کا
بن رہا ہے سارا عالم آئینہ ابصار کا
پیش کیا۔
٭ بعد ازاں عزیزم اوصاف احمد دانیال نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا درج ذیل اقتباس پیش کیا؛
’’زبانی اقرار کے ساتھ عملی تصدیق لازمی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ خدا کی راہ میں اپنی زندگی وقف کرو اور یہی اسلام ہے اور یہی وہ غرض ہے جس کے لئے مجھے بھیجا گیا ہے۔ ……..۔ اسلام کا منشاء یہ ہے کہ بہت سے ابراہیم بنائے۔ پس تم میں سے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ ابراہیم بنو۔ میں تمہیں سچ سچ کہتاہوں کہ ولی پرست نہ بنو۔ بلکہ ولی بنو اور پیرپرست نہ بنو بلکہ پیر بنو۔‘‘ (ملفوظات جلد دوئم صفحہ 138و139)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:
’’میں خودجو اس راہ کا پورا تجربہ کار ہوں اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور فیض سے میں نے اِ س راحت اور لذت سے حظ اُٹھایاہے۔ یہی آرزو رکھتاہوں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں زندگی وقف کرنے کے لئے اگر مَرکے پھر زندہ ہوں اور پھر مروں اور زندہ ہوں تو ہر بار میرا شوق ایک لذت کے ساتھ بڑھتاہی جاوے۔ پس میں چونکہ خود تجربہ کارہوں اور تجربہ کرچکاہوں اور اس وقف کے لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ جوش عطافرمایاہے کہ اگر مجھے یہ بھی کہہ دیاجاوے کہ اس وقف میں کوئی ثواب اور فائدہ نہیں ہے بلکہ تکلیف اوردُکھ ہوگا تب بھی میں اسلام کی خدمت سے رُک نہیں سکتا۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 370)
٭ اس اقتباس کے پڑھے جانے کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کلاس میں موجود عمر کے لحاظ سے بڑے لڑکوں سے دریافت فرمایاکہ کسی کو اس کی سمجھ آئی ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے کیا فرمایاہے؟
اس پر ایک لڑکے نے عرض کیاکہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام اس اقتباس میں فرماتے ہیں کہ آپ کواپنی زندگی خداتعالیٰ کے لیے وقف کرنی چاہئے۔ اور جو لوگ وقف کرتے ہیں ان کے پیچھے اس طرح نہیں پڑنا چاہیے کہ یہ بہت بڑے ولی اللہ ہیں۔
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا؛۔ یہ جوفقرہ ہے ’ولی پرست نہ بنو، ولی بنو۔ پیرپرست نہ بنو، پیربنو۔اس کا کیا مطلب ہے؟
اس پر لڑکے نے عرض کیاکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ آپ ایسے لوگوں کے پیچھے پڑیں اوران کے وسیلے سے خداکوپانے کی کوشش کریں آپ خودکوشش کرکے وہ درجہ حاصل کرنے کی کوشش کریں۔اورخداسے آپ کا براہِ راست تعلق ہوناچاہئے۔
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ ٹھیک ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ میں تکبر پیدا ہوجائے کہ میں ولی بن گیا ہوں اور بہت اونچا ہوگیا ہوں اور اب لوگ میرے پاس آیاکریں اور دعا کروایا کریں۔ بلکہ اس کامطلب یہ ہے کہ اپنے اندر وہ خصوصیات پیداکریں جوولیوں میں ہوتی ہیں،جو نیک لوگوں میں ہوتی ہیں۔اوران کی خصوصیات کیا ہیں؟ وہی جو پہلےبیان ہوئیں۔یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خصوصیات۔اورآپ علیہ السلام کی خصوصیات کاقرآن مجید میں ذکرہے اِبْرَاہِیْمَ الَّذِیْ وَفّیٰ۔کہ وہ بڑے وفادار تھے۔ انہوں نے خداتعالیٰ سے وفاکی اوراتنی وفاکی کہ اپنے بیٹے کوبھی قربان کرنے کے لئے تیارہوگئے۔اپنی بیوی کوجنگل میں چھوڑنے کوتیارہوگئے۔تویہ وفاؤں کے معیار ہیں!
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ اس لیے ایک واقف نواور واقف زندگی کویہ نہیں سوچنا چاہیے کہ میں فلاں جگہ جاؤں یا مجھے فلاں جگہ بھیجا جائے۔ اس کو مکمل طور پراپنی وفاکااظہارکرناچاہئےکہ جماعت اور خلیفۂ وقت مجھے جہاں بھیجیں گے میں وہاں چلاجاؤں گا اور جن حالات میں بھی رہناپڑے میں وہاں رہوں گا۔اورجن حالات میں بھی گزارا کرناپڑے میں کروں گا۔اس بات کا میں نے اپنے خطبہ میں بھی ذکرکیاتھا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ پیسے ملیں گے تووقف رکھوں گا، نہیں ملیں گے تونہیں رکھوں گا۔بعض دفعہ واقفین زندگی کوایسی جگہوں میں بھیجناپڑتاہے مثلاً افریقن ممالک میں یا غریب ملکوں میں جہاں بڑی مشکل سے گزارہ ہوتا ہے۔ لیکن ایک وقف نَو کایہ کام ہے کہ وہ ہر خدمت کے لئے اپنے آپ کو تیارکرے۔
٭ بعد ازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دریافت فرمایاکہ آپ میں سے کتنے ایسے ہیں جو اپنی پڑھائی کے بعد بھی اپنے وقف کو جاری رکھنا چاہتے ہیں؟ اس پر کلاس میں موجودتمام واقفینِ نَو نے اپنے ہاتھ بلند کئے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دوبارہ استفسار فرمایاکہ جہاں بھی جماعت بھیجے گی کیا آپ لوگ وہاں جانے کے لئے تیارہو؟
اس پر تمام واقفینِ نَو نے اثبات میں جواب دیا۔
٭ اس کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباس ’ولی پرست نہ بنو۔ ولی بنو۔ پیر پرست نہ بنو، پیربنو ‘ کے حوالہ سے فرمایاکہ اس کا مطلب ہے کہ بجائے اس کے کہ آپ لوگوں کے پاس دعاکروانے جاؤآپ کا خدا تعالیٰ سے اپنا تعلق اتنا ہوناچاہیے کہ خود بھی اپنے لئے دعائیں کرسکیں ۔ اپنی عبادتوں کے معیار بھی بڑھاؤ اور نیک لوگوں کی خصوصیات کواپنے اندربڑھاؤ۔
٭ اس کے بعد ایک واقفِ نَو نے سوال کیاکہ یورپ اور کینیڈا وغیرہ میں جو self assisted death کی اجازت ہے اس کے بارہ میں ہمارا کیا نظریہ ہے؟
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ اس کو یورپ میں mercy killingکہتے ہیں۔یہ غلط ہے۔اللہ تعالیٰ نے جتنی زندگی دی ہےچاہے وہ تکلیف دہ زندگی ہووہ گزرانی چاہیے۔اِن ممالک میں اب وہ قدریں نہیں رہیں اس لیے ایسی باتیں سامنے آتی ہیں۔ جب بچے دیکھتے ہیں کہ ماں باپ اب بوڑھے ہوگئے ہیں اوربیمارہوگئے ہیں تو وہ ان کواٹھا کرold people housesمیں پھینک آتے ہیں ۔اورایسی جگہوں کاحال یہ ہے کہ ہیومن رائٹس والوں نے جب جاکرایسی جگہوں کے جائزے لیے ہیں تو مختلف آرٹیکلزمیں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایسے اداروں کااسٹاف بوڑھوں سے بڑی بری طرح سے برتاؤ کررہا ہوتا ہے۔بعض ایسے مریض جو تکلیف میں ہوتے ہیں اورتکلیف کی وجہ سے جب شور مچاتے ہیں تو بعض جگہ ایسے کیسز بھی ملے ہیں کہ ان اداروں کے سٹاف نے ایسے مریضوں کے منہ کے اوپر تولیہ رکھ دیاتا کہ آوازیں نہ آئیں ۔اورجوattendant ہوتے ہیں وہ رات کو ان کی دیکھ بھال کرنے کی بجائے آپس میں تاش کھیلتے رہتے ہیں۔توجب اس طرح کی صورتحال ہوتی ہے اورتکلیف برداشت نہیں ہوتی، خاص طورپرکینسر کے مریضوں سے یا دوسری ایسی بیماریاں جو زیادہ تکلیف دہ ہیں تو mercy-killing کروالیتے ہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ یہ یورپ میں بھی بعض جگہوں پر ہے مثلاً آسٹریا میں لوگ ایسا ٹیکہ لگواکر یا دوسرے طریق سے اپنے آپ کو مروالیتے ہیں۔ لیکن سارے ملکوں میں نہیں ہے۔بہرحال یہ غلط طریقہ ہے۔جب تک زندگی ہوگزارنی چاہئے اوربچوں کو بھی ماں باپ کاخیال رکھناچاہئے تاکہ ان کے احساسات و جذبات مجروح نہ ہوں کہ وہ اپنے آپ کو مارنا چاہیں بلکہ بڑوں کی دعائیں لینی چاہئیں۔اوراگر یہ قدریں قائم ہوجائیں تو میرانہیں خیال کہ پھربوڑھے اس طرف رخ کریں گے۔بہت سی جگہوں پر ہمارے خدام جاتے ہیں اور وہ بتاتے ہیں کہ بوڑھے کہتے ہیں کہ ہمیں تو کوئی پوچھتا بھی نہیں۔کئی کئی مہینے ان کے رشتہ دارانہیں پوچھنے نہیں آتے۔اورہمارے لوگ جب جاتے ہیں تووہ لوگ بڑے خوش ہوتے ہیں۔اس لیے آپ لوگ بھی خدام الاحمدیہ کے شعبہ خدمت خلق کے تحت جایا کریں۔ انصاراللہ اورلجنہ کوبھی میں نے کہاہواہےکہ جایاکریں اور لوگوں کے دل بہلایاکریں۔
٭ اس کے بعد ایک واقف نَو نے سوال کیاکہ جس طرح ریجائنا میں مسجد محمود 100 فیصد رضاکارانہ طور پر بنائی گئی ہے کیا مستقبل میں بھی ایسی مساجد بنائی جائیں گی؟
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آپ یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ ساری مسجد سو فیصد رضاکارانہ طورپر بنی ہے۔ بعض ایسے کام تھے جو پروفیشنلز کے کرنے والے تھے۔اس لیے باہرسے بھی پیسے دے کر کام کروایا گیا۔ لیکن اس کا اکثرحصّہ رضاکاروں کے ذریعہ بنا ہے۔ آئندہ بھی جہاں چھوٹی مسجدیں بننی ہیں اورجہاں غریب جماعتیں ہیں وہاں لوگ دوسری جگہوں سے جاکر والنٹیئر کرسکتے ہیں۔ اب تویہاں بہت سارے نئے ریفیوجیز اور immigrants آگئے ہیں جن کے پاس جاب وغیرہ بھی نہیں ہے اورفی الحال ان کاگزارہ اس طرح ہی ہورہاہے۔ اگروہ اپناوقت دیں اوران جگہوں پر جاکرکام کریں تواچھی بات ہے۔یہ تو یہاں کی لوکل انتظامیہ کاکام ہے کہ ایسے لوگ تلاش کریں ۔ ایک روح پیدا کرنی چاہئے کہ سو فیصد تو نہیں لیکن جس حد تک رضاکارانہ کام ہوسکتاہے وہ کیا جائے۔دنیا میں اورجگہ بھی ہوتا ہے۔ یوکے میں بھی ہوتاہے ، جرمنی میں بھی ہوتا ہے۔ اور ملکوں میں بھی لوگ والنٹیئرکرتے ہیں۔ اگر والنٹیئرکرلیں تواچھا ہے سستی بن جائے گی۔اب ریجائنا کی مسجد محمود کے بارہ میں ٹھیکیدار کہتے تھے کہ ساڑھے تین سے چار ملین تک خرچ ہوجاناتھا۔جبکہ 1.6ملین میں ساراکام ہوگیاہے۔صرف میٹریل خریدا ہے اور کچھ کاموں کے لئے پروفیشنلزکوپیسے دیئے۔تواس طرح قریباً3/1پیسے بچ گئے۔
٭ ایک خادم نے سوال کیا کہ حضورانور تبرک کے طورپر انگوٹھی یا کوئی اور چیز دیتے ہیں اس تبرک کی کیا حقیقت ہوتی ہے؟
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا؛۔یہ تواپنے اپنے اعتقادکی بات ہے۔جن کو اعتقاد ہوتاہے وہ لے لیتے ہیں اور جن کواعقتاد نہیں ہے وہ نہ لیں ۔یہ کوئی ضروری اورلازمی چیزتونہیں ہے۔لوگ سمجھتے ہیں کہ تبرک ایک تعلق کااظہارہوتاہے۔مجھ سے کوئی تبرک مانگے تو کوشش کرتاہوں کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی انگوٹھی کے ساتھ لگاکراسے تبرک کردوں۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کویہ بھی الہام ہواہے کہ ’’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔‘‘تووہ برکت آپ علیہ السلام کی انگوٹھی میں بھی ہے۔ اس الہام کا ایک مطلب ظاہری طورپربھی ہے۔اصل بات تویہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم پر عمل کیاجائے اوروہ برکات حاصل کی جائیں جوآپ علیہ السلام کی تعلیم میں ہیں۔لیکن ظاہری طورپربھی پوراکرنے کے لیے کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بعض کپڑوں کے ٹکڑے ہیں یا اسی طرح دوسری چیزیں ہیں ان سے ظاہری طور پر بھی تبرک کیاجاتاہے۔
٭ ایک خادم نے سوال کیاکہ وقف نواوروقفِ زندگی میں کیا فرق ہے؟
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ پہلی بات تویہ ہے کہ وقف نوجب اپنی تعلیم مکمل کرکے اپنے آپ کوپیش کردیتاہے تووہ وقفِ زندگی بن جاتاہے ۔وقف کامطلب ہے کہ دین کی خاطراپنے آپ کوپیش کردینا۔اوراس کے بعد اپنی کوئی مرضی نہیں رکھنی۔ اپنے آپ کو جماعت کے سپرد کردینا ہے۔ اور وقف نووہ ہیں جن کوماں باپ یاخاص طورپرمائیں پیدائش سے پہلے ہی وقف کردیتی ہیں۔اورجب بچہ پیدا ہوتا ہے توپھروہ بتاتی ہیں کہ ہمارابچہ پیداہوگیاہے اوروہ اس اسکیم میں شامل ہوجاتے ہیں جوحضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے جاری کی تھی کہ مائیں پیدائش سے پہلے اپنے بچے پیش کریں۔وقف نواس تحریک کانام رکھا گیا۔ اور جب کوئی واقف نَو بڑا ہوکراپنی پڑھائی مکمل کرکے اپنے آپ کوپیش کردیتاہےتووقف زندگی بن جاتاہے۔
دوسرے وقف زندگی وہ ہیں جن کوبچپن میں پیش نہیں کیاگیالیکن بڑے ہوکرخودانہوں نے اپنے آپ کووقف کیااورجماعت کوپیش کردیا۔جس طرح میں نے کیایااوربہت سے سارے لوگ کرتے ہیں۔ اُس وقت وقف نوکی تحریک تو نہیں تھی۔ لیکن میں نے جماعت کے لئے زندگی وقف کی تھی کہ جماعت جوچاہے مجھ سے کام لے لے ۔توجب جماعت کاکام کرتے ہیں تووقف زندگی ہوجاتے ہیں۔
٭ ایک واقفِ نَو نے سوال کیاکہ اللہ سب سے زیادہ معاف کرنے والاہے۔یہاں تک کہ ایک آدمی نے سو قتل کیے اس کوبھی اللہ نے معاف کردیا۔اورقرآن کریم میں لکھاہے کہ اگرکوئی ایک انسان کوقتل کرے تو گویااس نے ساری انسانیت کوقتل کردیا۔تواگراللہ تعالیٰ اس قدر معاف کرنے والاہے توپھرلوگ دوزخ میں کیونکرجائیں گے؟
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ اسی سے اندازہ کرلو کہ اللہ تعالیٰ اتنا معاف کرنے والا ہے لیکن اس کے باوجودلوگ دوزخ میں چلے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اتنے زیادہ حد سے بڑھے ہوئے ہوتے ہیں کہ ان کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے حصہ ہی نہیں ملتا۔ لیکن یہ بھی قرآن شریف میں لکھاہواہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہرچیزپہ حاوی ہے۔ یعنی بہت وسیع ہے۔ ہر چیز پر پھیلی ہوئی ہے۔اس لیے اللہ تعالیٰ کہتاہے کہ ایک وقت آئے گاجب دوزخ بالکل خالی ہوجائے گی اور سارے جنت میں چلے جائیں گے۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم پہلے گناہ کریں اورپھرضروردوزخ میں جائیں اورپھرجنت میں جائیں۔اللہ تعالیٰ نےفرمایاہے کہ یہ نیکی کاراستہ ہے اور یہ برائی کاراستہ ہے ۔اگر نیکیاں کرتے رہوگے تو میری نعمت سے حصہ لیتے رہوگے ۔اوراس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ نے کرناہے کہ کس نے جنت میں جانا ہے اور کس نے دوزخ میں جاناہے۔ انسان اس کا فیصلہ نہیں کرسکتا۔ کہتے ہیں کہ دوشخص تھے اور ان میں سے ایک نمازیں نہیں پڑھتاتھایاگناہ کرنے والاتھااورصحیح طرح ایمان پر قائم نہیں تھا۔دوسراشخص اپنے آپ کوبڑانمازی سمجھتاتھا۔دونوں کی آپس میں گفتگوہورہی تھی۔جو اپنے آپ کو بڑا نمازی سمجھتاتھا اس نے دوسرے سے کہا کہ تم توایسے ہواور ویسے ہو۔ اس لئے تم دوزخ میں جاؤ گے اور میں بڑانیک ہوں مَیں جنت میں جاؤں گا۔اب یہ توکسی کونہیں پتہ کہ کس نے دوزخ میں جاناہے کس نے جنت میں جاناہے۔کیونکہ یہ فیصلہ تووفات کے بعداللہ تعالیٰ نے کرناہے۔خیرجب وہ دونوں فوت ہوگئے اور اللہ تعالیٰ کے حضور پہنچے تو وہ شخص جو اپنے آپ کو نیک کہتاتھا اور دوسرے شخص کو کہتاتھاکہ تم دوزخ میں جاؤ گے اور تمہارے اندر فلاں فلاں برائیاں ہیں اس شخص کو اللہ تعالیٰ نے کہا کہ تم کون ہوتے ہویہ فیصلہ کرنے والےکہ فلاں جنت میں جائے گا اور فلاں دوزخ میں؟ تمہیں اپنی نیکیوں پر زیادہ مان ہے اور تم سمجھتے ہوکہ میں بہت نیک آدمی ہوں تو اصل حقیقت یہ ہے کہ تمہارے اندر تکبر ہے۔ اور تکبر بہت بڑی برائی ہے۔اس لیے اس گناہگارکوتومیں جنت میں ڈال رہاہوں اورتمہیں میں جہنم میں ڈال رہاہوں۔اس لیے کوشش یہی ہونی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کوراضی کیا جائے۔اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے۔اس کو کسی کی پرواہ نہیں ہے کہ کون دوزخ میں جاتاہے کون جنت میں جاتا ہے۔ ہاں اس کی رحمت بہت وسیع ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ جو شخص اپنے آپ کو نیک سمجھتاتھا اس نے دوسرے کے جذبات کوٹھیس پہنچائی اوریہ فیصلہ کردیاکہ تم دوزخ میں جاؤ گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اُسے جنت میں ڈال دیااوربظاہر نیک کام کرنے والادوزخ میں۔ کیونکہ اس میں تکبر تھا۔ اس لئے کوشش یہی کرنی چاہیےکہ ہروہ نیکی کی جائے جواللہ تعالیٰ کوراضی کرنے والی ہواورجس میں عاجزی ہو۔ یہ فیصلہ مرنے کے بعدہوگاکہ کون کہاں جاتاہے۔اللہ تعالیٰ کی رحمت بڑی وسیع ہے۔تو اس وسیع رحمت کو توکوئی چیلنج نہیں کرسکتا۔تمہاراسوال یہ تھا کہ جب اللہ تعالیٰ کی رحمت اتنی وسیع ہے تو پھرلوگ دوزخ میں کیوں جاتے ہیں؟ تو اس کا جواب یہی ہے کہ لوگ جب گناہوں کی انتہاکردیتے ہیں تب دوزخ میں جاتے ہیں۔ لیکن یہ بھی اللہ کی رحمت ہی ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ دوزخ خالی ہوجائے گی۔یہ حدیث میں آیاہے ایک وقت آئے گا جب دوزخ خالی ہوجائے گی اورجنت بھرجائے گی۔
٭ ایک واقفِ نَو نے سوال کیاکہ کیا واقفین نَو کو پولیس میں جانے کی اجازت ہے؟
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ اگرتو ملک کوبہت زیادہ ضرورت ہے تواجازت لے کر چلے جائیں۔ اگرواقفین نَو نے ایسی فیلڈ کی پڑھائی کی ہو تو میں اجازت دے دیاکرتاہوں کہ چلے جاؤ۔لیکن اگروقف قائم رکھناچاہتے ہوتوپھراس عہدکے ساتھ جاؤ کہ جب بھی ہماری ضرورت ہوگی تو ہم پولیس یا جس شعبہ میں بھی کام کررہے ہوں گے وہاں سے استعفیٰ دے کرجماعت کی خدمت کے لیے آجائیں گے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ دوسرایہ کہ پولیس میں جاکرپولیس والے نہیں بن جانا یعنی ان کی طرح حرکتیں نہیں کرنے لگ جانا۔اُن کے ماحول میں نہیں ڈھل جانا۔بلکہ پولیس میں رہ کر بھی اپنی پانچوں نمازوں کی حفاظت کرنی ہے۔پانچ نمازیں پوری طرح پڑھنی ہیں۔قرآن کریم کی تلاوت کرنی ہے۔اس کاپوری طرح ترجمہ سیکھناہے۔دین کی کتابیں پڑھنی ہیں۔اپنے دینی علم کوبڑھاناہے ۔اوراپنے جمعے اورعیدیں سوائے اس کے کہ کسی غیر معمولی حالات میں ملکی مفاد کی خاطر ڈیوٹی لگادی جاتی ہے کبھی ضائع نہیں کرنیں۔ تو اگر یہ سب کرسکتے ہو توپھر اجازت لے کر پولیس میں جاسکتے ہو۔ بغیراجازت کے نہیں۔
٭ اس کے بعد ایک واقفِ نَو نے سوال کیاکہ لاہوری جماعت کس طرح علیحدہ ہوئی تھی؟
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی وفات کے بعد جواس زمانہ کے بزرگ تھےجن میں مولوی محمدعلی صاحب، خواجہ کمال الدین صاحب اورصدرالدین صاحب وغیرہ اوراس طرح کےبہت سارے لوگ شامل تھےان لوگوں کایہ نظریہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعدساری طاقت انجمن احمدیہ کے پاس آجانی چاہئے۔لیکن حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے اس وقت حالات کو کنٹرول کیا اورانہیں سمجھایا کہ خلافت کانظام ہی چلے گا۔ خیر اُن حالات میں تو ان لوگوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی بزرگی کی وجہ سے تسلیم کرلیا ۔غالب خیال یہی ہے۔ لیکن جب 1914ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا انتخاب ہوا۔ اس وقت دوبارہ اِن لوگوں نے کہا کہ انجمن خلافت کے اوپرحاوی ہے اورخلیفہ وقت انجمن کے ماتحت ہے۔یہ اسی طرح ہے جیسے کسی ملک کی نیشنل عاملہ اٹھ کر کہہ دے کہ خلیفہ وقت ہمارے ماتحت ہے۔ سو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے کہاکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رسالہ الوصیت میں بڑاواضح لکھا ہوا ہے کہ میرے بعد خلافت کانظام جاری ہوگا۔ہرنبی کے بعدخلافت کانظام جاری ہوتا ہے اور خلیفہ وقت خدا کی طرف سے مقرر کیا جاتا ہے۔اوروہی نظام کو چلائے گا۔ اس پر وہ لوگ چھوڑ کر علیحدہ ہوگئے۔مولوی محمدعلی صاحب ان کے لیڈرتھے اور باقی سب ان کے ساتھ چلے گئے۔ اس زمانہ کے جتنے بڑے بڑے علماء تھے وہ چلے گئے اور انجمن کاخزانہ بھی ساتھ لے گئے۔لیکن جوعام لوگ تھے انہوں نے حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی بیعت کرلی اورخلافت کا نظام جاری ہوگیا۔حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ قادیان میں رہے اور یہ لوگ علیحدہ ہوکر لاہور چلے گئے کہ ہم خلافت کو نہیں مانتے۔ انہوں نے وہاں جاکرانجمن احمدیہ قائم کرلی اوراپناعلیحدہ ایک گروہ بنالیا۔اس کو لاہوری گروہ بھی کہتے ہیں۔پیغامی بھی کہتے ہیں۔تواس طرح یہ لاہوری جماعت قائم ہوئی تھی۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ لیکن آہستہ آہستہ جماعت احمدیہ خلافت کے تحت بڑھتی رہی اوراب بڑھتے بڑھتے دنیا میں کہیں سے کہیں پہنچ گئی ہے۔ اب جماعت احمدیہ کروڑوں میں ہے اور 209 ملکوں میں پھیل چکی ہے۔اوردوسری طرف وہ لوگ آہستہ آہستہ ختم ہوتے جارہے ہیں حالانکہ وہ سارے امراء تھے۔ بلکہ بہت سارے لاہوریوں میں سے بھی ایسے ہیں جو بیعت کرکے اب جماعت میں شامل ہورہے ہیں۔ان کی کچھ تعداد فجی میں ہے اوراس طرح بعض دیگر ملکوں میں بھی ہیں لیکن چندایک لوگ رہ گئے ہیں۔پاکستان میں بھی بہت تھوڑے ہیں۔جب میں فجی اور نیوزی لینڈگیاتھا اس وقت بھی ان میں سے بہت ساروں نے بیعت کی تھی۔کئی ایسے بھی تھے جن کے بیوی بچوں نے بیعت کرلی تھی لیکن خاوند نے نہیں کی۔ مگر خاوند بھی جماعت کے خلاف نہیں ہے۔توآہستہ آہستہ ان کی تعداد کم ہوتے ہوتے نہ ہونے کے برابررہ گئی ہے۔اورجماعت احمدیہ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
٭ ایک واقفِ نَو لڑکے نے سوال کیاکہ واقفین نَو کاآرٹس میں تعلیم حاصل کرناکیساہے؟
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ ہاں پڑھ لو۔کوئی حرج نہیں۔پہلے بتادوکہ میں یہ پڑھنا چاہتا ہوں۔
٭ ایک واقفِ نَو نے سوال کیاکہ جب میں کسی ٹیسٹ میں پاس ہونے کی دعاکرتاہوں تو پاس ہوجاتا ہوں۔ اس طرح پتہ لگ جاتاہے کہ دعاقبول ہوگئی ہے۔ نمازکے بعدکیسے پتہ چلتاہے کہ دعاقبول ہوئی یانہیں؟
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ اگرتوتمہاری دعادل سے نکلی ہے اورتم نے روکے مانگی ہے اوردعاکرنے کے بعدسجدہ سے سراٹھاتے ہی تمہاری تسلیّ ہوگئی ہے اور تمہیں لگاکہ ہاں میری آوازاللہ کوپہنچ گئی تواس کامطلب ہے کہ تمہاری دعاقبول ہوگئی ہے۔ ٹیسٹ وغیرہ کے علاوہ اور بھی دعائیں ہوتی ہیں جن کا اللہ کوپتہ ہوتاہےکہ کونسی تمہارے حق میں بہتر ہے۔ اگر دو optionsہیں تو اللہ تعالیٰ کوپتہ ہے کہ تمہارے لئے کونسی آپشن بہترہے۔ دعاکے بعد دل کوتسلی ہوجاتی ہے اس کانتیجہ بہترہی نکلے گا۔ اللہ تعالیٰ خود ہی اچھا نتیجہ نکال دیتاہے۔ پھر دعاکے دوران ہی دل کی تسلی ہوجاتی ہے اورایک ایسی حالت آجاتی ہے کہ آپ کو احساس ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دعا سن لی ہے یا کم ازکم اللہ تعالیٰ تک بات پہنچ گئی ہے اور وہ سن لے گا۔
٭ اس کے بعد ایک واقفِ نَو خادم نے سوال کیا کہ جسٹن ٹروڈو(وزیراعظم کینیڈا) کی حضورسے ملاقات ہوئی تھی۔اس حوالہ سے کچھ خلاصہ بیان فرمادیں۔
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ خلاصہ تو پہلے ہی خبروں میں آچکاہے۔ اُس نے یہی کہا تھاکہ ہم ایک دوسرے کو پرانے جاننے والے ہیں اور جماعت احمدیہ بڑے اچھے کام کررہی ہے ۔ملک کی بڑی خدمت کررہی ہے اورہم اسے سراہتے ہیں۔ اورمیرے متعلق بھی اس نے ایک دو لفظ کہے تھے۔میں نے اس کا شکریہ اداکردیاتھا۔اوراس کے بعدیہ بھی کہ 2010ء میں لاہور میں ہمارے بہت سے لوگ شہید ہوئے تھے ان کی فیملیز کو یہاں بلایا ہے۔ اسی طرح سیرین ریفیوجیز آرہے ہیں ۔اس حوالہ سے میں نے ان کا شکریہ ادا کیا تھا۔ اس کے علاوہ کچھ جنرل باتیں ہوئی تھیں۔
اس کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہاب نماز کا وقت ہوگیاہے۔ اس لئے آخری سوال ہے۔
٭ اس کے بعد ایک واقفِ نَو خادم نے کہاکہ میرا سول انجینئرنگ میں آخری سمسٹر ہے۔ جماعت کو اس فیلڈ میں سب سے زیادہ مدد کس ملک میں چاہئے؟
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ تم پہلے اپنی تعلیم مکمل کرکے تجربہ حاصل کرو۔کسی کمپنی میں کام کرو اورپھروقف کرو۔اس کے بعد جماعت نے فیصلہ کرناہےکہ تمہیں کہاں بھیجنا ہے۔یہ فیصلہ آپ نے نہیں کرناکہ کس ملک میں جانا ہے۔ جہاں بھی ضرورت ہوگی وہاں بھیج دیں گے۔اس لئے پہلے تعلیم مکمل کرکے کم از کم دو سال تجربہ حاصل کریں اور پھر اپنے آپ کو پیش کریں۔ اگر تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس فیلڈ میں جاب نہیں ملتی تو کوئی odd جاب نہیں کرنی بلکہ مجھے بتاناہے۔ میں تمہیں پھر کسی اور جگہ بھجوادوں گا۔
واقف نَو بچوں کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ یہ کلاس آٹھ بجکر بیس منٹ پر ختم ہوئی۔
بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کلاس میں شامل ہونے والے بچوں اور نوجوانوں کو قلم عطا فرمائے اور ہر ایک کو شرف مصافحہ سے نوازا۔
تقریب آمین
اس کے بعد پروگرام کے مطابق آمین کی تقریب کا انعقاد ہوا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل چالیس بچوں اور بچیوں سے قرآن کریم کی ایک ایک آیت سنی اور آخر پر دعا کروائی۔
روحان احمد خان، اسماعیل جاوید ملک، ایان احمد، انیق رانا، امثال احمد، علیم احمد، ایان ملک، عقیل احمد رانا، کبیر اشرف باجوہ، سمیر گوندل، جلیس احمد احسن، سعید احمد سہیل، عزیر احمد مانگٹ، تاشف ممتاز، ہاشم جاوید
سائرہ عاطف، فائزہ اقبال، قانتہ خلود، سبیکہ احمد، سندس بھٹی، نائلہ خان، عدنان رئیس، ماہا ظہور ورک، ماہ رخ داؤد، زوہا نائلہ ملک، خدیجہ منصور، دانین رفعت سید، امۃالعلوم، روشنا ماہل، امینہ احمد، سلمیٰ علشباہ ورک، بارعہ احمد، عائشہ حنان رانا، عدیلہ ملک، زنیرہ احمد، مہ نور ورک، فاتحہ اعجاز، نشا منان، مدیحہ بشیر مرزا، عزیزہ عطیہ بھٹی۔
تقریب آمین اور دعا کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نما زمغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے
13 نومبر2016ء بروز اتوار
کیلگری (کینیڈا) سے روانگی
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح چھ بجکر پینتالیس منٹ پر مسجد بیت النور میں تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔
صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دفتری ڈاک، خطوط اور رپورٹس ملاحظہ فرمائیں اور ہدایات سے نوازا۔
آج 42 ایام پر مشتمل دورہ کینیڈا کا آخری دن تھا۔
انفرادی وفیملی ملاقاتیں
پروگرام کے مطابق صبح گیارہ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لائے اور فیملیز ملاقاتیں شروع ہوئیں۔ آج فیملی ملاقاتوں کے اس آخری سیشن میں 37 خاندانوں کے 160 افراد نے اپنے پیارے آقا سے ملاقات کی سعادت پائی۔ ملاقات کی سعادت پانے والی ان فیملیز کا تعلق کینیڈا کی جماعتوں ٹورانٹو، ایڈمنٹن (Edmonton)، لائیڈ منسٹر اور وینکوور سے تھا۔
ایڈمنٹن سے آنے والی فیملیز 325 کلومیٹر، لائیڈ منسٹر سے آنے والی 570 کلومیٹر، وینکوور سے آنے والی فیملیز 950 کلومیٹر اور ٹورانٹو سے آنے والی فیملیز 3700 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے پہنچی تھیں۔ ان سبھی نے اپنے پیارے آقا کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔ حضور انور نے ازراہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلباء اور طالبات کو قلم عطا فرمائے اور چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائے۔
ملاقاتوں کا یہ پروگرام ایک بجکر بیس منٹ تک جاری رہا۔
بعدازاں مکرم عطاء القدوس صاحب ایڈووکیٹ (امریکہ) چیئرمین قضابورڈ امریکہ نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دفتری ملاقات کا شرف پایا۔
کیلگری میں مسجد بیت النور کے علاقہ سے 25 کلومیٹر کے فاصلہ پر جماعت کا 154 ایکڑ رقبہ پر مشتمل قطعہ زمین ہے۔ اس پر ایک کالونی تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ ایک گیلری میں اس سارے منصوبہ کو مختلف چارٹس کی شکل میں آویزاں کیا گیا تھا اور مختلف تعمیراتی حصوں کو علیحدہ علیحدہ دکھایا گیا تھا۔
دفتری ملاقات کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشریف لا کر اس منصوبہ کے نقشہ جات اور مختلف تعمیراتی حصے دیکھے۔ اس منصوبہ میں رہائشی ایریا ہے جس میں بڑی تعداد میں مکانات کے علاوہ پندرہ سے بیس منازل پر مشتمل فلیٹس بھی ہیں۔ ایک بڑی مسجد اور کمیونٹی ہال کی تعمیر بھی اس منصوبہ میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ جماعت کا مرکزی کمپلیکس دفاتر وغیرہ بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ آفسز اور Light Industrial ایریا بھی ہے۔ Business Park بھی ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بڑی تفصیل سے اس منصوبہ کا جائزہ لیا اور انتظامیہ سے ساتھ ساتھ مختلف امور دریافت فرمائے۔
بعدازاں دو بجکر دس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد کے ہال میں تشریف لے آئے جہاں پروگرام کے مطابق آمین کی تقریب ہوئی۔
تقریب آمین
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے درج ذیل 35 بچوں اور بچیوں سے قرآن کریم کی ایک ایک آیت سنی اور آخر پر دعا کروائی۔
کامران کاشف، راحیل احمد، احمد کامران راشد، قاصد احمد ادریس، شایان احمد، دانش مصور، سرمد احمد طاہر، سبحان سہیل، علی البراقی، عبداللہ چوہدری، تفرید نعیم، عاطف حلیم چوہدری، شجار احمد، محمد ابراہیم، جاذب احمد، عمرشایان۔
لائبہ تنویر تاج، وجیہ سرفراز چٹھہ، ثناء شہزاد میاں، عطیۃ الحی خالد، مصباح خالد، رشمین احمد، روشنک رشید چوہدری، لائمہ نواز، زوہا چوہدری، زہراء ظہور ورک، مومنہ خواجہ، عائزہ احمد چوہدری، عروبہ احمد، سدرہ بھٹی، شازمہ کاشف، غزالہ رشید، فریحہ سہیل، منال فاطمہ، Wahnia احسان۔
تقریب آمین کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نماز ظہر و عصر جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔
پانچ بجکر دس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد بیت النور کیلگری میں تشریف لا کر نماز مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں۔ (کیلگری میں غروب آفتاب کا وقت چار بجکر پچاس منٹ پر ہے)
نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کچھ وقت کے لئے اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی کیلگری سے لندن روانگی کا وقت قریب آرہا تھا۔ ہزاروں کی تعداد میں کیلگری اور گردونواح کی جماعتوں کے احباب و خواتین اپنے پیارے آقا کو الوداع کہنے کے لئے مسجد کے بیرونی احاطہ میں جمع تھے۔
چھ بجکر دس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد کے بیرونی احاطہ میں تشریف لے آئے اور کچھ عرصہ اپنے عشاق کے درمیان کھڑے رہے، ایک طرف بچیاں الوداعی نظمیں پڑھ رہی تھیں تو دوسری طرف مرداحباب نعرے بلند کررہے تھے۔ ہر ایک کی نظریں حضورانور کے چہرۂ مبارک پر مرکوز تھیں۔ ان انتہائی مبارک اور بے انتہا برکتوں کے حامل لمحات سے ہر چھوٹا بڑا اور مرد و عورت سیراب ہورہا تھا۔ حضور انور اپنے عشاق کے درمیان رونق افروز تھے اور انتہائی قریب تھے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا کینیڈا کا یہ چھٹا دورہ تھا اور آج یہ پہلا موقع تھا کہ ان الوداعی لمحات کی بھی کوریج کے لئے کینیڈا کا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا مسجد پہنچا ہوا تھا۔ اس سے قبل پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ روانگی کے لمحات کو بھی میڈیا نے کوریج دی ہو۔
اس موقع پر TV چینل CTV News اور TV چینل Global News ریڈیو چینل News Talk 770، اخبار Calgary Herald اور اخبار Calgary Sun کے جرنلسٹ اور نمائندے موجود تھے۔ جو اس موقع پر کوریج کر رہے تھے۔
اب جدائی کے لمحات قریب آرہے تھے۔ الوداعی نغمات اور فلک شگاف نعروں کی جگہ رقت آمیز مناظر نے لے لی تھی۔ چھ بجکر بیس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دعا کروائی اور اپنا ہاتھ بلند کرکے سب کو السلام علیکم کہا اور کیلگری کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے لئے روانگی ہوئی۔ جونہی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی گاڑی مسجد سے روانہ ہوئی تو ہزاروں ہاتھ فضا میں بلند ہوئے۔ ہر طرف سے السلام علیکم اور خدا حافظ، فی امان اللہ کی آوازیں آرہی تھیں۔ سبھی کے چہرے اداس تھے اور آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ اس روح پرور ماحول میں حضور انور کی گاڑی مسجد کے احاطہ سے آہستہ آہستہ چلتی ہوئی مین روڈ پر آگئی۔ مقامی پولیس کا ایک دستہ قافلہ کو Escort کر رہا تھا۔ چھ بجکر پینتیس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ایئرپورٹ پر تشریف آوری ہوئی۔
حضور انور کی ایئرپورٹ پر آمد سے قبل سامان کی بکنگ اور بورڈنگ کارڈ کے حصول کی کارروائی مکمل ہوچکی تھی۔ جونہی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز گاڑی سے باہر تشریف لائے تو پروٹوکول آفیسر نے حضور انور کو خوش آمدید کہا اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سپیشل لاؤنج میں تشریف لے آئے۔
مکرم امیر صاحب کینیڈا ملک لال خان صاحب اور نائب امیر کینیڈا ڈاکٹر سید محمد اسلم داؤد صاحب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کو الوداع کہنے کے لئے لاؤنج میں ساتھ آئے اور بعدازاں جہاز کے دروازہ تک چھوڑنے آئے۔
سات بجکر چالیس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جہاز پر سوار ہوئے۔ برٹش ایئرویز کی پرواز BA0102 رات آٹھ بجکر بیس منٹ پر کیلگری (کینیڈا) سے ہیتھرو ایئرپورٹ لندن (یوکے) کے لئے روانہ ہوئی اور آٹھ گھنٹے پانچ منٹ کی مسلسل پرواز کے بعد اگلے روز 14 نومبر بروز سوموار برطانیہ کے مقامی وقت کے مطابق دوپہر گیارہ بجکر پچیس منٹ پر جہاز ہیتھرو ایئرپورٹ پر اترا۔ (برطانیہ کا وقت کیلگری سے سات گھنٹے آگے ہے)۔ جہاز کے دروازہ پر پروٹوکول آفیسر نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کو خوش آمدید کہا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سپیشل لاؤنج میں تشریف لے آئے۔ جہاں مکرم رفیق احمد حیات صاحب امیرجماعت یوکے، مکرم صاحبزادہ مرزا وقاص احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ یوکے، مکرم اخلاق احمد انجم صاحب وکالت تبشیر اور مکرم میجر محمود احمد صاحب افسر حفاظت خاص نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو خوش آمدید کہا اور شرف مصافحہ حاصل کیا۔ امیگریشن افسر نے اسی لاؤنج میں آکر پاسپورٹ دیکھے۔
مسجد فضل لندن میں ورود مسعود
یہاں ایئرپورٹ سے قریباً بارہ بجے روانہ ہو کر پونے ایک بجے مسجد فضل لندن میں ورود مسعود ہوا۔ جہاں احباب جماعت مردوخواتین کی ایک بہت بڑی تعداد نے اپنے پیارے آقا کو خوش آمدید کہا۔ جونہی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز گاڑی سے باہر تشریف لائے۔ مکرم عطاء المجیب راشد صاحب مربی انچارج یوکے نے حضور انور کو خوش آمدید کہتے ہوئے شرف مصافحہ حاصل کیا۔ مسجد کے بیرونی احاطہ میں ایک طرف خواتین اور بچیاں کھڑی تھیں اور دوسری طرف مرد احباب تھے۔ باہر سڑک پر بھی لوگوں کا ایک بڑا ہجوم تھا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ بلند کرکے سب کو السلام علیکم کہا اور اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک بجکر بیس منٹ پر مسجد بیت الفضل لندن میں تشریف لا کر نماز ظہر وعصر جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔
اس طرح آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا کینیڈا کا یہ تاریخی اور عظیم الشان اور غیرمعمولی اہمیت اور دوررس نتائج کا حامل دورہ اللہ تعالیٰ کے بے انتہا فضلوں اور برکتوں کو سمیٹتے ہوئے عظیم الشان کامیابیوں اور کامرانیوں کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی معیت میں جن خوش نصیب افراد کو اس تاریخی اہمیت کے حامل سفر پر جانے کی سعادت نصیب ہوئی۔ ان کے اسماء بغرض ریکارڈ درج ہیں1۔حضرت سیدہ امۃ السبوح صاحبہ مدظلہا العالی (حرم سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز)۔2۔مکرم منیر احمد جاوید صاحب پرائیویٹ سیکرٹری۔ 3۔مکرم مبارک احمد ظفر صاحب ایڈیشنل وکیل المال لندن۔ 4۔مکرم عابد وحید خان صاحب انچارج پریس اینڈ میڈیا آفس لندن۔ 5۔مکرم سید محمد احمد ناصر صاحب نائب افسر حفاظت خاص لندن۔ 6۔مکرم ناصر احمد سعید صاحب (شعبہ حفاظت)۔7۔مکرم سخاوت علی باجوہ صاحب (شعبہ حفاظت)۔8۔مکرم محسن اعوان صاحب (شعبہ حفاظت)۔9۔مکرم منور احمد خان صاحب (شعبہ حفاظت)۔10۔خاکسار عبدالماجد طاہر (ایڈیشنل وکیل التبشیر لندن)۔ علاوہ ازیں یوکے سے مکرم ناصر احمد امینی صاحب اور مکرم سجاد احمد ملک صاحب نے بھی قافلہ کے ساتھ شامل ہونے کی سعادت پائی۔ یوایس اے سے مکرم طارق ہارون ملک صاحب (سٹاف ممبر ریویو آف ریلیجنز) نے بھی کینیڈا قیام کے دوران قافلہ میں شمولیت کا شرف پایا۔امریکہ سے ڈاکٹر مکرم تنویر احمد صاحب اس دورہ کینیڈا کے دوران بطور ڈاکٹر ڈیوٹی پر قافلہ کے ساتھ رہے۔ اللہ تعالیٰ یہ سعادت ان سب کے لئے مبارک فرمائے۔
اس کے علاوہ MTA انٹرنیشنل لندن (یوکے) کے درج ذیل ممبران نے اس دورہ کے دوران، خطبات جمعہ، تقاریر، مساجد کی افتتاحی تقاریب، ریسیپشن کی تقاریب، پارلیمنٹ کی تقریب، حضور انور کے انٹرویوز اور پریس کانفرنسز اور جملہ پروگراموں کی ریکارڈنگ اور وہاں سے Live ٹرانسمیشن کے لئے اس دورہ میں شمولیت کی سعادت پائی مکرم منیر احمد عودہ صاحب، مکرم عدنان زاہد صاحب، مکرم سلمان عباسی صاحب اور مکرم عطاء الاول عباسی صاحب۔ مکرم عامر سفیر صاحب ایڈیٹر رسالہ ریویو آف ریلیجنز (یوکے) بھی اپنے رسالے کے لئے ایک پروگرام کے تحت اس سفر میں ساتھ رہے۔ مکرم محمد طاہر ندیم صاحب مربی سلسلہ (عربک ڈیسک یوکے) بھی عربی زبان میں تراجم اور عرب احمدیوں کے مختلف پروگراموں کے لئے اس دورہ میں ساتھ رہے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے سبھی احباب نے بڑی مستعدی اور خوش اسلوبی کے ساتھ اپنے مفوضہ فرائض سرانجام دیئے۔ فجزاھم اللہ تعالیٰ احسن