گناہ اور توبہ کی حقیقت (ارشادات عالیہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام )
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
’’گناہ کی یہ حقیقت نہیں ہے کہ اللہ گناہ کو پیداکرے اور پھر ہزاروں برس کے بعد گناہ کی معافی سُوجھے۔ جیسے مکھی کے دو پَر ہیں۔ ایک میں شفااور دُوسرے میں زہر۔اسی طرح انسان کے دوپَر ہیں۔ ایک معاصی کا دوسرا خجالت، توبہ ، پریشانی کا۔ یہ ایک قاعدہ کی بات ہے جیسے ایک شخص جب غلام کو سخت مارتا ہے تو پھر اُس کے بعد پچھتاتا ہے۔ گویا کہ دونوں پَراکٹھے حرکت کرتے ہیں۔ زہر کے ساتھ تریاق ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ زہر کیوں بنایا گیا ؟ تو جواب یہ ہے کہ گویہ زہر ہے ، مگر کُشۃ کرنے سے حکم اکسیر کا رکھتا ہے۔اگر گناہ نہ ہوتا تو رعونت کا زہر انسان میں پڑ جاتا اور ہلاک ہوجاتا۔ توبہ اس کی تلافی کرتی ہے۔ کبر اور عُجب کی آفت سے گناہ انسان کو بچائے رکھتا ہے۔ جب نبی معصوم ؐ ستّر بار استغفار کرے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ گناہ سے توبہ وہی نہیں کرتا جو اس پر راضی ہو جاوے اور جو گناہ کوگناہ جانتا ہے وہ آخر اُسے چھوڑے گا۔
حدیث میں آیا ہے کہ جب انسان باربار رورو کر اللہ سے بخشش چاہتا ہے تو آخر کار خدا کہہ دیتا ہے کہ ہم نے تجھ کو بخش دیا۔ اب تیرا جوجی چاہے سو کر۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ اس کے دل کو بدلا دیا اور اب گناہ اُسے بالطبع بُرا معلوم ہوگا۔ جیسے بھیڑ کو مَیلا کھاتے دیکھ کر کوئی دوسراحِرص نہیں کرتا کہ وہ بھی کھاوے، اسی طرح وہ اِنسان بھی گناہ کی حرص نہ کرے گا جسے خدا نے بخش دیا ہے۔ مسلمانوں کو خنزیر کے گوشت سے جوبالطبع کراہت ہے، حالانکہ اور دوسرے ہزاروں کام کرتے ہیں جو حرام اور منع ہیں تو اس میں حکمت یہی ہے کہ ایک نمونہ کراہت کا رکھ دیا ہے اور سمجھادیا ہے کہ اسی طرح انسان کو گناہ سے نفرت ہوجاوے۔‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ 3-4۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)