متفرق مضامینمضامین

پانی لاگ اور مسلمان

( ماخوذ از ارشادات حضرت الحاج مولانا نو ر الدین خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ)

’’کسی نے کہا کہ پانی لاگ بھی ہوجاتا ہے؟‘‘


اس پر حضرت مولانا نو ر الدین خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نےفرمایا۔

’’آہ! پانی لاگ اب مسلمانوں ہی کو ہوتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ ان کو پانی لاگ نہ ہوتی تھی۔ ایک مسلمان فاتح نے مغربی ساحل افریقہ پر پہنچ کر سمندر میں گھوڑا ڈال دیا اور پرواہ تک بھی نہیں کی کہ یہ سمندر ہے۔ ایک سپہ سالار افریقہ کے صحراء میں ایک چھاؤنی بنانا چاہتا تھا۔ وہ جگہ کی تلاش اور مناسب موقع کی تلاش کرتا ہوا اس جگہ پہنچا جہاں قیروان ہے۔ وہاں پہنچ کر تمام ملک میں گشت کے بعد اسی جگہ کو پسند کیا اور کہا کہ یہ عمدہ جگہ ہے یہاں سے افریقہ کے ہر طرف گھوم سکتے ہیں مگر وہاں بڑی دلدل تھی۔ اس کے علاوہ درندے جانور کثرت سے ہیں۔ شیر ہیں، چیتے ہیں، سانپ ہیں۔ گویا وہ مصائب کا ایک جنگل ہے۔ اس نے اپنے آدمیوں کو کہا کہ یہاں چھاؤنی بناؤ۔ آدمیوں نے کہا کہ یہاں کیونکر ٹھہر سکتے ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ کون کہتا ہے کہ یہاں نہیں ٹھہر سکتے۔ یہ کہہ کر ان کے سامنے گھوڑے کو چکر دیا اور کہا سنو او درندو! اور چرندو! محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ یہاں کیمپ بنانا چاہتے ہیں تم یہاں سے نکل جاؤ۔آج کوئی اس کا نام سپریچولزم یا مسمریزم کہہ دے مگر سچ یہ ہے کہ یہ ایمان کی قوت ہے۔ لکھا ہے کہ اس کی آواز سنتے ہی شیرنیاں اپنے بچوں کو لے کر بھاگ گئیں اور قیروان میں چھاؤنی بن گئی اور اتنی بڑی جگہ میں کہ میرے پاس ۴ جلدوں میں صرف وہاں کے علماء کا ذکر ہے۔ اس بات کے بیان کرنے سے مقصد یہ ہے کہ جب مسلمانوں کی ایمانی قوت بڑھی ہوئی تھی ان کے حوصلے وسیع اور ارادے بلند تھے دنیا کی کوئی تکلیف اور مصیبت ان کے ارادہ کو پست نہ کرسکتی تھی۔ وہ تکلیف اور مصیبت کو جانتے ہی نہ تھے مگر اب جبکہ ان کی ایمانی حالت کمزور ہوگئی ہے ان کے حوصلے اور ہمتیں بھی پست ہوگئی ہیں۔ ان میں سستی اور کاہلی آگئی ہے اور اب وہ ہر امر میں پانی لاگ سمجھنے لگے ہیں۔ آج پانی لاگ انگریزوں کو کیوں نہیں ہوتا؟ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو وہ ہمت ،عزم اور استقلال دیا ہے کہ وہ ان باتوں کی پرواہ نہیں کرتے۔ ایک سرد ملک کے رہنے والی قوم کس جرأت اور دلیری کے ساتھ افریقہ میں جاتی ہے اور ذرہ نہیں گھبراتی۔ دنیا کے دور دراز حصوں میں پھیل گئے ہیں اور پھیلتے جاتے ہیں۔ جیسے آج ان کو پانی لاگ نہیں ہوتی، اسی طرح پر ایک زمانہ تھا کہ مسلمانوں کو بھی نہیں ہوتی تھی۔ ایمان کی قوت مضبوط ہو تو پھر کوئی تکلیف کوئی مصیبت رہتی ہی نہیں۔ اس لیے کہ مومن کی تو شان ہی یہی ہے کہ وہ لا یحزن ہوتا ہے۔ پس تم بھی مومن بنو میں تو یہی چاہتا ہوں کہ تم سب کو خوش دیکھوں۔ میں آپ خدا کے فضل سے خوش رہتا ہوں اور بہت ہی خوش رہتا ہوں۔ یہ خوشی تمہیں صرف ایمان سے مل سکتی ہے۔ اگر ایمان مضبوط ہو تو پھر کیا غم؟ ترقی کرو اور سستی چھوڑدو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دعا سکھائی ہے۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْکَسَلِ (صحیح البخاری کتاب الجہاد والسیر باب ما یتعوذ من الجبن)۔ کسل اور عجز دو لفظ ہیں۔ عجز کے معنی ہیں اسباب ہی مہیا نہ کریں۔ اور کسل مہیا شدہ اسباب سے کام ہی نہ لیا جاوے۔ پس تم کسل اور عجز چھوڑ دو اور اس کے لیے دعاؤں سے کام لو۔ یہ بڑا ہتھیار ہے اور ایسا ہتھیار کہ جس قدر اس کو چلاؤ اسی قدر زیادہ کارگر اور مفید ہوتا جاتا ہے۔ میں نے اس کو خود تجربہ کیا ہے اور اپنے تجربہ کی بنا پر تم کو کہتا ہوں۔

دو عجیب خط

فرمایا: دو خط میں نے عجیب دیکھے ہیں۔ ایک ہلاکو خاں کا اور ایک چنگیز خاں کا خط جو اس نے شاہ خوارزم کو لکھا تھا جو مسلمان کہلاتا تھا۔ قرآن مجید کی ایک آیت نُوَلِّیۡ بَعۡضَ الظّٰلِمِیۡنَ بَعۡضًۢا(الانعام 130:) کو تم ہمیشہ مدنظر رکھو۔ جب انسان بداعمالی اور نافرمانی کرتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اس پر ایسے حاکم بھیج دیتا ہے۔ بعض لوگ شکایت کیا کرتے ہیں کہ مجھے اپنے افسر سے دکھ پہنچا، وہ استغفار کریں اور اپنی حالت کی خود اصلاح کریں۔ اگر وہ خود متقی اور خداترس ہوں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں کسی سخت گیر افسر کے ماتحت نہیں رکھے گا بلکہ اگر وہ شخص فطرتاً سخت گیر بھی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی فطرت میں تبدیلی کردے گا۔ میں اسی کو مفید سمجھتا ہوں۔ تم نہ مقامی حکام کی کبھی شکایت کرو نہ کسی اور کی۔ اپنی اصلاح کرو یہی بہترین طریق ہے۔ غرض وہ دو خط عجیب ہیں۔ یہاں ایک کتاب ہے جس میں درج ہیں۔ ہلاکو خاں اور اس کی اولاد نے جو خط مکہ معظمہ لکھا اس میں ایک فقرہ ہے نَحْنُ قَوْمٌ خُلِقْنَا مِنْ غَضْبِ اللّٰہِ یعنی ہم ایک ایسی قوم ہیں کہ ہم اللہ کے غضب سے پیدا ہوئے ہیں۔ رحم کو نہیں جانتے۔ میں یقین رکھتا ہوں جب ایک قوم کی حالت خراب ہوگئی اور خداتعالیٰ کے حضور اس پر سزا کا فتویٰ جاری ہوگیا تو ہلاکو خاں کو اس پر مامور کردیا۔ چنگیزخاں نے شاہ خوارزم کو لکھا کہ حدیث میں آیا ہے اُتْرُکُوْا تُرْکَ۔ مغول سے جنگ نہ کرو۔ پھر قرآن مجید میں ارشاد الٰہی یوں ہے وَقَاتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَکُمۡ (البقرۃ191:) جو تم سے جنگ کریں تم ان کا مقابلہ کرو۔ ہم نے کسی ملک پر چڑھائی نہیں کی پھر تم نے ہمارے تاجروں کو مار ڈالا اور لوٹ لیا یہ معاملہ قرآن اور حدیث کے خلاف ہوا۔ اگر کسی احمق نے کیا ہے تو آپ ان سے روپیہ لے کر ہمارے تاجروں کے ورثاء کو بھیج دو اور اپنے قانون کے موافق ان کو سزا دے دو مگر وہاں کون سنتا تھا۔ چنگیزخاں نے سمجھا تھا کہ بڑا نرم جواب دیں گے مگر وہاں الٹا اثر ہوا۔ انہوں نے ان وکلاء کو جو خط لے کر گئے تھے ان کو بھی پکڑ لیا۔ چنگیز خاں نے پھر لکھا کہ ان کا کوئی قصور نہیں انہیں چھوڑ دو۔ اس کا بھی جواب نہ دیا۔ جب مسلمان ایسے ہوگئے تو پھر تم نے سنا یا پڑھا ہوگا کہ چنگیز خاں نے کیا کیا۔ خوارزم وہاں سے بھاگ کر سندھ آیا اور پھر ایران بھاگا۔ خدا کی بات سچی ہوگئی نُوَلِّیۡ بَعۡضَ الظّٰلِمِیۡنَ بَعۡضًۢا ۔میری نصیحت کو یاد رکھو سکھ پاؤ گے کہ کسی ادنیٰ سے ادنیٰ حاکم کا بھی تعلق ہو اور تمہیں کوئی دکھ پہنچے تو اپنی تبدیلی کرو اور استغفار کرو ۔ جب تک تم اپنی حالت نہیں بدلو گے سکھ نہیں ملے گا اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوۡا مَا بِاَنۡفُسِہِمۡ ؕ وَاِذَاۤ اَرَادَ اللّٰہُ بِقَوۡمٍ سُوۡٓءًا فَلَا مَرَدَّ لَہٗ ۚ وَمَا لَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِہٖ مِنۡ وَّالٍ (الرعد:12)

(ارشادات نور جلد سوم صفحہ 1تا 4)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button