خطبہ جمعہ مورخہ 21؍اپریل 2017ء
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 21؍اپریل 2017ء بمطابق21؍شہادت 1396 ہجری شمسی بمقامRaunheim، فرینکفرٹ، جرمنی
اللہ تعالیٰ کا یہ فضل و احسان ہم پر ہے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانا ہے۔ آپ کی بیعت میں شامل ہوئے ہیں۔ اس بات کو جہاں ہمیں اپنے ایمانوں میں بڑھنے کا ذریعہ ہونا چاہئے کیونکہ اگر ماننے کے بعد ہم اپنے ایمان اور یقین میں نہیں بڑھتے تو اس ماننے کا کوئی فائدہ نہیں۔ وہاں بغیر کسی احساس کمتری کے اور بزدلی کے احساس کے ہمیں کھل کر اسلام کا پیغام پہنچانا چاہئے۔
ہمارے احمدی یہاں کے لوگوں سے ملنے جلنے اور بہتر اخلاق غیروں کو دکھانے میں تو بہت بہتر ہیں۔ لیکن عبادت اور اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کے وہ معیار نہیں ہیں جو ایک احمدی کے ہونے چاہئیں۔ اسی طرح آپس کے تعلقات کے معیار میں بھی کمی ہے۔ عہدیداروں کے لوگوں کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آنے میں بھی کمی ہے۔ مختلف جگہوں پر شکایتیں آتی ہیں۔ اور لوگوں کا عہدیداروں کے لئے دل میں عزت کے جذبات رکھنے کے معیار کو بہتر کرنے کے لئے بھی ضرورت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جس جماعت کو قائم کرنے آئے تھے وہ صرف اعتقادی اصلاح کرنے والی نہیں تھی بلکہ ہر سطح اور ہر لحاظ سے عملی اصلاح کرنے والی جماعت تھی۔ پس اس لحاظ سے ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ ہم اس کے حصول کے لئے کوشش کر رہے ہیں یا نہیں؟
جماعتی تقریبات میں شامل ہونے والے غیر مسلم مہمانوں کو جب حقیقی اسلامی تعلیمات سے آگاہ کیا جاتا ہے تو اس کا ان پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ بعض مہمانوں کے ایسے تأثرات کا تذکرہ
میڈیا کی خاص طور پر یہ کوشش ہوتی ہے کہ اسلام کی اچھی تصویر کبھی دنیا کے سامنے پیش نہ ہو۔ اس لئے ہمارا کام ہے کہ ہم اس پیغام کو
جو محبت، پیار اور صلح اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کرنے والا پیغام ہے اس کو پھیلانے کی کوشش کرتے چلے جائیں۔
کتاب ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کے غیروں پر گہرے اثرات کا تذکرہ۔ جب پڑھے لکھے لوگوں سے تعارف ہو تو انہیں یہ کتاب ضرور دینی چاہئے۔
اب حقیقی علم اور اسلام کی صحیح تصویر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا علم کلام پڑھ کر ہی مل سکتی ہے۔ یاد رکھیں جو فیصلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کئے ہیں وہی اصل فیصلے ہیں اور آپ کے علم کلام کی بنیاد پر جو تفسیریں جماعت میں خلفاء نے کی ہیں وہی حقیقی تفسیریں ہیں، انہیں پڑھیں اور اپنا علم بڑھائیں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اس زمانے کے حَکَم اور عدل بن کر آئے تھے۔ ہمیں یہ بات ہر وقت اپنے سامنے رکھنی چاہئے۔
پہلی بات تو یہ کہ ہمیں کسی احساس کمتری کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں ۔دوسری بات یہ بھی یاد رکھنی چاہئے کہ جو لٹریچر اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چھوڑا ہے اس کو پڑھنا اور اس سے علم حاصل کرنا حقیقی اسلام کے بارے میں ہمیں بتاتا ہے۔ پس جہاں خود پڑھیں وہاں دوسروں کو بھی دیں جن کے ساتھ گہرا واسطہ ہے۔ جو سعید فطرت ہیں انہیں لٹریچر دینا ضروری ہے اور روزمرّہ کے مسائل اور معاملات میں انہی کے حوالے ہمیں دینے چاہئیں اور یہ ضروری ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب اور ارشادات میں ہر قسم کے سوالوں کے جواب دئیے ہوئے ہیں۔ اس لئے مَیں نے یہ کہا تھا
اور مَیں کہتا ہوں کہ مطالعہ کرنا چاہئے۔ اسلام کی برتری ثابت کرنے کے لئے ہمیں اس مطالعہ کی بہت ضرورت ہے۔ فقہی مسائل ہیں یا روزمرّہ کے
معاملات سے تعلق رکھنے والی باتیں ہیں یا علمی مسائل ہیں یہ سب باتیں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لٹریچر میں مل جاتی ہیں
اور خلفاء نے اس کو مزید کھول کر بیان کیا ہے۔ پس اس طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے اسے پڑھیں اور اس پر غور کریں۔
اسی طرح جو معاشرتی برائیاں ہیں جیسا کہ میں نے پہلے بھی مختصر ذکر کیا ہے کہ آپس میں محبت پیار اور بھائی چارے کے بعض لوگوں میں وہ معیار نہیں جو ہونے چاہئیں بلکہ بغض، حسد اور کینہ پایا جاتا ہے۔ پس اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی ہر ایک کو ضرورت ہے۔ دوسروں کو نہ دیکھیں کہ کوئی کیسا ہے۔ اپنی اصلاح کریں۔ اپنے آپ کو دیکھیں۔
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔
اللہ تعالیٰ کا یہ فضل و احسان ہم پر ہے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانا ہے۔ آپ کی بیعت میں شامل ہوئے ہیں۔ اس بات کو جہاں ہمیں اپنے ایمانوں میں بڑھنے کا ذریعہ ہونا چاہئے کیونکہ اگر ماننے کے بعد ہم اپنے ایمان اور یقین میں نہیں بڑھتے تو اس ماننے کا کوئی فائدہ نہیں۔ وہاں بغیر کسی احساس کمتری کے اور بزدلی کے احساس کے ہمیں کھل کر اسلام کا پیغام پہنچانا چاہئے۔
بعض نوجوانوں میں بعض دفعہ یہ خیال پیدا ہو جاتا ہے لڑکوں اور لڑکیوں دونوں میں کہ مسلمانوں کی جو حالت ہے اور جو فتنہ اور فساد ان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اس لحاظ سے اس وجہ سے اسلام کے بارے میں زیادہ بات نہ کریں۔ گو اکثریت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی ایکٹو (active) ہے اور جو لیف لیٹنگ(leafleting) وغیرہ کی رپورٹس آتی ہیں اس میں اظہار ہوتا ہے کہ کافی حصہ لیا گیا ہے لیکن ایک ایسی تعداد بھی ہے جو کسی نہ کسی لحاظ سے بعض دفعہ احساس کمتری کا شکار ہو جاتی ہے ۔ مسلمان کہلانا تو ہے کیونکہ مسلمان ہیں لیکن اس کا زیادہ اظہار نہیں کرتے جس طرح ہونا چاہئے۔ حالانکہ دوسرے مسلمانوں کے عمل سے تو ہمیں مزید جرأت پیدا ہونی چاہئے کہ اسلام کی حقیقی تصویر دنیا کو دکھائیں اور بتائیں کہ جو اس وقت مسلمانوں کی حالت ہے یہ اسلام کی سچائی کی دلیل ہے۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ ایک زمانہ آئے گا جب مسلمانوں میں بگاڑ پیدا ہو گا، فتنہ و فساد ہو گا، نام نہاد علماء اس کے ذمہ دار ہوں گے۔ (الجامع لشعب الایمان للبیہقی جزء 3 حدیث 1763 مطبوعہ مکتبۃ الرشد ناشرون 2004ء)۔ مسلمانوں پر دنیاداری غالب ہو جائے گی۔ اور اس وقت مسیح موعود اور مہدی معہود کا ظہور ہو گا اور وہ اسلام کی حقیقی تصویر دنیا کے سامنے پیش کرے گا۔ اسلام کے حقیقی پیغام کو وہ دنیا میں پھیلائے گا۔ اور ہم احمدی وہ ہیں جو اس مسیح موعود کے ماننے والے ہیں اور حقیقی اسلامی تعلیم جس کے خوبصورت انداز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں دکھائے اور سکھائے ان پر عمل کرنے والے ہیں۔ پس کسی احساس کمتری کی ضرورت نہیں ہے۔
اسی طرح بعض لوگ ان مغربی ممالک میں آ کر دنیاداری کے ماحول کے زیر اثر دنیا کے ماحول میں زیادہ ڈوب گئے ہیں اور زبانی تو دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا عہد کرتے ہیں لیکن حقیقت میں عمل اس سے مختلف ہیں۔ ہمارے احمدی یہاں کے لوگوں سے ملنے جلنے اور بہتر اخلاق غیروں کو دکھانے میں تو بہت بہتر ہیں۔ لیکن عبادت اور اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کے وہ معیار نہیں ہیں جو ایک احمدی کے ہونے چاہئیں۔
اسی طرح آپس کے تعلقات کے معیار میں بھی کمی ہے۔ عہدیداروں کے لوگوں کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آنے میں بھی کمی ہے۔ مختلف جگہوں پر شکایتیں آتی ہیں۔ اور لوگوں کا عہدیداروں کے لئے دل میں عزت کے جذبات رکھنے کے معیار کو بہتر کرنے کے لئے بھی ضرورت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جس جماعت کو قائم کرنے آئے تھے وہ صرف اعتقادی اصلاح کرنے والی نہیں تھی بلکہ ہر سطح اور ہر لحاظ سے عملی اصلاح کرنے والی جماعت تھی۔ پس اس لحاظ سے ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ ہم اس کے حصول کے لئے کوشش کر رہے ہیں یا نہیں؟
جرمنی میں جوں جوں مسجدیں بن رہی ہیں اور جماعتیں قائم ہو رہی ہیں جماعت کا تعارف بڑھ رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی ہم پر دنیا کی تنقیدی نظر بھی بڑھتی جائے گی۔ یہ قدرتی بات ہے کہ جب ہماری تعداد بڑھے گی تو دنیا سے تعارف بھی ہو گا اور جب دنیا سے تعارف ہو گا تو تنقیدی نظر بھی بڑھے گی اور بڑھتی جا رہی ہے۔ پس یہ چیز ہم سے مطالبہ کرتی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنی عملی حالتوں کے معیار کو بڑھائے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کے مقصد کو پورا کرے۔
مَیں ہمیشہ کہتا ہوں اور پھر یاد دہانی کرواتا ہوں کہ کم از کم 99.9 فیصد احمدیوں کو ان ملکوں میں آ کر آباد ہونے کی اجازت ملنا ان کی کسی ذاتی خوبی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ احمدیت کی وجہ سے ہے اور اس لحاظ سے یہاں آ کر آباد ہونے والا ہر احمدی احمدیت کا خاموش مبلغ بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں کے اکثر احمدیوں کے اچھے نمونے اور اچھے تعلقات کی وجہ سے لوگوں پر جماعت کا اچھا اثر ہے جس کا اظہار مختلف موقعوں پر ہو جاتا ہے۔
گزشتہ چند دنوں میں یہاں مختلف شہروں میں مسجدوں کے افتتاح اور مسجدوں کی بنیاد رکھنے کے پروگرام ہوئے، ان کا موقع ملا اور وہاں مقامی لوگوں کی شمولیت اور لوگوں کا جماعت کے بارے میں جو اظہار خیال تھا، جو اپنے خیالات انہوں نے پیش کئے اور انتظامیہ اور مقامی سیاستدانوں کے بھی جو خیالات تھے جس کا انہوں نے اظہار کیا وہ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مقامی احمدیوں کا مقامی لوگوں پر اچھا اثر ہے۔ لیکن مجھے یہ بھی احساس ہوا کہ اسلام کی حقیقی تعلیم کا جس طرح تعارف لوگوں میں ہونا چاہئے تھا اس طرح نہیں ہے۔ کیونکہ جب میں ان موقعوں پر اسلام کی تعلیم کے حوالے سے باتیں کرتا ہوں یا جب بھی میں نے ان لوگوں سے باتیں کیں بہت سے لوگوں نے یہی کہا کہ اسلام کی اس حقیقی تعلیم کا ہمیں نہیں پتا تھا، ہمیں علم نہیں تھا۔ سب لوگوں نے برملا اس بات کا اظہار کیا کہ اسلام کی خوبصورت تعلیم کے یہ پہلو تو ہم سے چھپے ہوئے تھے۔ ہمارے ذہنوں میں تو اسلام کا وہی تصور ہے جو میڈیا ہمیں دکھاتا ہے۔
یہ بھی انہوں نے اظہار کیا کہ بیشک بعض احمدی ہمارے واقف ہیں اور ان کی دعوت پر ہم یہاں آ تو گئے ہیں لیکن ہمارے ذہنوں میں تحفظات تھے۔ کسی کا ذاتی تعلق پیدا ہونا اور تعلق رکھنا ایک بالکل مختلف چیز ہے اور جماعتی طور پر کسی کو فنکشن میں بلانا اور لے کر آنا اور جماعت کے حوالے سے بات کرنا بالکل اور چیز بن جاتی ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ٹھیک ہے یہ میرا دوست ہے جو انفرادی طور پر اچھا ہو گا لیکن پتا نہیں بحیثیت جماعت ان کی کیا حالت ہے اور ان لوگوں کے کیسے خیالات ہیں۔ یہ بھی کہیں شدت پسند تو نہیں ہیں؟ اس لئے ان لوگوں کے ذہنوں میں تحفظات تھے۔ یہ عمومی تأثر اور ایسے تحفظات مَیں نے دنیا کے ہر ملک کے غیر مسلموں میں دیکھے ہیں کہ پتا نہیں اگر ہم مسلمانوں کے اس فنکشن میں گئے تو کیا ہو گا؟ شاید دہشتگردی کا سامنا کرنا پڑے۔ لیکن یہ بھی انہوں نے کہا کہ آپ کے فنکشن میں شامل ہو کر ہمیں پتا چلا کہ ہماری سوچیں بالکل غلط تھیں اور آپ کی باتیں سن کر ہمیں پتا چلا۔ یہ مجھے انہوں نے کہا اور مختلف جگہوں پر اپنے خیالات کا اظہار کیا کہ یہ باتیں سن کر ہمیں پتا لگا کہ اسلام ایک پُرامن اور محبت کرنے والا مذہب ہے، محبت پھیلانے والا مذہب ہے۔ اور چند لوگوں کے عملوں کو اسلام کی طرف منسوب نہیں کرنا چاہئے۔
یہاں بھی مختلف فنکشنز پر اور دنیا میں اَور جگہ بھی ایسے لوگ ملتے ہیں جیسا کہ مَیں نے کہا اور یہ اظہار کرتے ہیں، یہاں بھی ان دنوں میں بعض لوگوں نے اظہار کیا کہ آپ کی باتیں سن کر ہمارے اسلام کے متعلق صرف شبہات ہی دور نہیں ہوئے، جو شبہات یا تحفظات تھے صرف وہی دور نہیں ہوئے بلکہ اگر ہمیں کبھی کسی مذہب کی طرف آنے کی طرف توجہ پیدا ہوئی تو جماعت احمدیہ مسلمہ کی طرف ہی آئیں گے۔ ہم سے اسلام کی باتیں سن کر لوگ کس طرح اپنے خیالات بدلتے ہیں اس کی چند مثالیں مَیں دیتا ہوں۔
پہلی مسجد غالباً والڈ شٹ (Waldshut) کی تھی، وہاں آئے ہوئے ایک صاحب سائمن کلاس (Klaus) کہنے لگے کہ میرا آج اسلام کے بارے میں تصور بالکل بدل گیا ہے۔ جہاد کے حقیقی معنوں کا آج مجھے پتا چلا ہے۔ جہاد کے ان حقیقی معنوں کے بعد کوئی وجہ نہیں کہ جہاد کا لفظ سن کر ڈرا جائے بلکہ اس میں کوئی خوف والی بات ہی نہیں ہے۔ کہتے ہیں یہاں آنے سے پہلے میرا خیال تھا اور میں ڈر رہا تھا کہ یہاں مجھ پر دہشتگرد حملہ بھی ہو سکتا ہے اس لئے میں نے دعوت کے بعد پہلے نہ آنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن پھر میرے ایک دوست جس نے جماعت کے بارے میں کچھ انٹرنیٹ پر معلومات حاصل کی تھیں اور ویڈیو بھی دیکھی تھی اس نے مجھے بتایا کہ یہ لوگ بڑے پُرامن ہیں اس لئے ان کے فنکشن پر چلے جاؤ کوئی حرج نہیں۔ لیکن کہتے ہیں پھر بھی مَیں خوفزدہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ لیکن میں شکر کرتا ہوں کہ آج میں اس فنکشن میں شامل ہو گیا اور شامل ہو کر مجھے پتا چلا کہ تم لوگ زندگیاں لینے والے نہیں بلکہ زندگیاں دینے والے ہو۔ انسانی ہمدردی اور خدمت خلق کے کاموں کی وجہ سے دنیا کو زندگیاں دینے والے ہو۔
ایک ڈاکٹر فرانز تھے کہتے ہیں کہ آج میں نے وہ اسلام دیکھا ہے جو نفرت کے ذریعہ سے نہیں بلکہ محبت کے ذریعہ سے پھیل رہا ہے۔
دوسری مسجد کا جہاں افتتاح ہوا وہاں بھی ایک خاتون کہنے لگیں کہ جو باتیں آج میں نے سنی ہیں کبھی کسی مسلمان لیڈر سے نہیں سنیں۔ ایک خاتون کہنے لگیں کہ آج مجھے پتا چلا ہے کہ اسلام ایک پُر امن اور رحم کرنے والا مذہب ہے اور مجھے پتا چلا ہے کہ اسلام ہمسایوں کے حقوق کی کتنی حفاظت کرتا ہے۔
ایک سیرین مسلمان فنکشن میں شامل ہوئے۔ کہنے لگے کہ آج کا دن میرے لئے بڑا جذباتی دن ہے۔ یہاں آنے سے پہلے مجھے بتایا گیا تھا یا عام طور پہ یہی تصور تھا کہ احمدی مسلمان نہیں ہیں اور ان کا قرآن بھی مختلف ہے۔ لیکن آج مجھے پتا چلا ہے کہ وہ سب جھوٹ ہے اور احمدی اسی قرآن کو پڑھتے ہیں اور عمل کرتے ہیں اور اسی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتے ہیں جسے باقی مسلمان مانتے ہیں۔ اور پھر مجھے ملنے کے بعد کہا کہ خلیفہ وقت کو ملنے کے بعد اب عین ممکن ہے کہ میں احمدی ہو جاؤں۔
یہی خیالات یہاں جب اس جگہ پر سنگ بنیاد رکھا گیا ہے یہاں آئے ہوئے مہمانوں کے تھے اور اسی طرح کے ماربرگ میں تھے۔ ماربرگ یونیورسٹی کی وائس چانسلر کہنے لگی کہ اس وقت میں مکمل طور پر جذبات سے مغلوب ہوں۔ جماعت احمدیہ کے خلیفہ کی بات سن کر اور خاص طور پر (جو میں نے وہاں اپنے ایڈریس میں دو جنتوں کا تصور پیش کیا تھا اور اسلام کی تعلیم بتائی تھی کہ اس دنیا کی بھی جنت ہے اور اگلے جہان کی بھی جنت ہے تو کہتی ہیں) دو جنتوں کا یہ جو تصور ہے کہ اس دنیا کی جنت بھی ہے اور اگلے جہان کی جنت۔ اس کی وضاحت سے مَیں بہت متاثر ہوئی ہوں اور یہ بھی کہ کس طرح اس دنیا کی جنت حاصل کی جا سکتی ہے جو اگلے جہان کی جنت کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ اسی طرح یہ بھی انہوں نے کہا کہ مجھے آج بانیٔ اسلام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور اسلام کی ابتدائی تاریخ کا بھی پتا چلا ہے اور یہ بھی کہ کس طرح اسلام حقوق کی ادائیگی کی تعلیم دیتا ہے۔ کہنے لگی کہ اگر یہ سب کچھ دنیا سمجھ لے تو دنیا میں ا من اور محبت اور بھائی چارہ قائم ہو جائے۔ یہ اس قدر جذباتی ہو رہی تھیں کہ جنہوں نے ان سے بات کی ہے وہ کہتے ہیں کہ روتے ہوئے کہنے لگیں کہ اس سے زیادہ اب میں بول نہیں سکتی، میرے میں بولنے کی طاقت نہیں ہے۔
اب ایک عیسائی خاتون ایک مسلمان فنکشن پہ آتی ہے۔ پہلے اس کو اسلام کی تعلیم کا پتا نہیں، تعارف نہیں بلکہ امیر صاحب نے مجھے بتایا کہ ان کو تعارف نہیں اور تلاش کر رہے تھے ان کو کہ کہاں
ہیں۔ وائس چانسلر ہیں، پڑھی لکھی خاتون ہیں لیکن اس کے بعد باتیں سنیں تو اس قدر جذباتی ہیں کہ اپنے جذبات کو کنٹرول نہیں کر سک رہیں۔ تو ایسی خوبصورت اسلام کی تعلیم ہے اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ ہمیں کسی بھی قسم کا کوئی احساس کمتری ہو، کوئی کمپلیکس ہو۔
ایک خاتون مس ایسٹر (Esther) کہنے لگیں کہ آج تمہارے خلیفہ نے میرے ان تمام سوالوں کے جواب دے دئیے ہیں جو یہاں میں اپنے دل میں رکھ کر لائی تھی۔ کہنے لگی کہ اس بات کا خوف ہے کہ آج میں نے اتنی خوبصورت باتیں سنی ہیں اور یہ سن کر میں گھر جا رہی ہوں لیکن کوئی بعید نہیں کہ کل اسلام کو بدنام کرنے والا کوئی شخص اٹھے اور اسلام کے نام پر کوئی دہشتگرد حملہ کر دے اور لوگ اس کی طرف متوجہ ہو جائیں گے اور پھر اس پُرامن پیغام کو بھول جائیں گے۔ یہ مجھے درد ہے، یہ مجھے تکلیف ہے۔
تو یہ احساسات ہیں جو لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو رہے ہیں۔ اسی طرح کے بیشمار تبصرے ہیں۔ ہر جگہ اس طرح کے تبصرے آئے اور جیسا کہ اس خاتون نے کہا کہ لوگ پُر امن پیغام کو بھول جائیں گے اور یہ حقیقت ہے کہ اسی طرح ہوتا ہے اور میڈیا کی خاص طور پر یہ کوشش ہوتی ہے کہ اسلام کی اچھی تصویر کبھی دنیا کے سامنے پیش نہ ہو۔ اس لئے ہمارا کام ہے کہ ہم اس پیغام کو جو محبت، پیار اور صلح اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کرنے والا پیغام ہے اس کو پھیلانے کی کوشش کرتے چلے جائیں۔
اسلام کے نام پر ہر منفی عمل کے بعد جو یہ بعض نام نہاد مسلمان کرتے ہیں ہمارا کام ہے کہ مثبت تعلیم دنیا کے سامنے پیش کریں۔ جو لوگ اور مہمان جو مختلف فنکشنز پر آئے تھے یا جن سے لوگوں کے تعلقات ہیں ان سے اب مسلسل رابطہ بھی رکھیں۔ ان لوگوں پر جو اثر ہوا ہے یہ سب کیوں ہوا ہے؟ کیا وجہ ہے اس کی؟ آخر ہم بھی وہی قرآن پڑھتے ہیں جو دوسرے مسلمان پڑھتے ہیں۔ ہم بھی نمازیں اسی طرح پڑھتے ہیں جس طرح دوسرے مسلمان پڑھتے ہیں۔ اسی شریعت کو مانتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری اور آپ کو آخری نبی مانتے ہیں۔ یہ سب اثر اس لئے ہوا کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانا اور جیسا کہ میں نے کہا آپ علیہ السلام نے اسلام کی حقیقت کھول کر ہمارے سامنے رکھی کہ یہ حقیقی قرآنی تعلیم ہے جسے پھیلانا ہر احمدی کا فرض ہے۔
پس جہاں ہمیں اپنے اندر عملی تبدیلیاں پیدا کرنے کی ضرورت ہے وہاں ہمیں آپ علیہ السلام کے لٹریچر کو پھیلانے کی بھی ضرورت ہے اور یہ ہمارا کام ہے بلکہ ہماری ذمہ داری ہے۔
جیسا کہ میں نے بتایا کہ ماربرگ میں مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا وہاں بہت سے مہمانوں میں یونیورسٹی کے پروفیسر اور طلباء بھی شامل تھے، وائس چانسلر بھی آئی ہوئی تھیں جن کے خیالات میں نے بتائے ہیں۔ وہاں یونیورسٹی کے دو مصری پروفیسر بھی آئے ہوئے تھے جو اسلامیات اور عربی پڑھاتے تھے۔ میرے پوچھنے پر ایک نے بتایا کہ وہ اسلامیات میں اسلامی فلاسفی پڑھاتے ہیں۔ تو مَیں نے انہیں کہا کہ کیا آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی پڑھی ہے؟ کہنے لگے نہیں۔ تو میں نے انہیں کہا کہ یہ ضرور پڑھیں کیونکہ اس کے بغیر اسلامی اصول کی فلاسفی کی گہرائی کا علم ہو ہی نہیں سکتا۔ چاہے جتنا مرضی آپ ادھر ادھر سے علم حاصل کرتے رہیں۔ مجھے حیرت ہوئی کہ نیشنل سیکرٹری اشاعت صاحب انہیں ساتھ لائے ہوئے تھے اور یونیورسٹی میں ان میں سے ایک کے شاید سٹوڈنٹ بھی رہ چکے ہیں یا ہیں لیکن بہرحال دونوں سے واقفیت ان کی بہت گہری تھی۔ لیکن یہ جاننے کے باوجود کہ کیا وہ پڑھاتے ہیں، کس subject میں ان کو دلچسپی ہے انہوں نے ان کو یہ کتاب نہیں دی۔ بہرحال میں نے انہیں کہا کہ فوراً انہیں یہ کتاب دینے کا انتظام کریں۔ کل ان کا ایک خط بھی مجھے آ گیا کہ یہ کتابیں انہوں نے ان کو بھیج دی ہیں۔ ان کو عربی میں یہ کتاب بھیجنی چاہئے تھی۔ اپنی زبان میں ان کو زیادہ سمجھ آئے گی۔ یہ ایسی کتاب ہے کہ جس کے بارے میں بہت سے عرب مجھے لکھتے ہیں کہ اس کو پڑھ کر ہمیں اسلام کی حقیقت کا صحیح پتا لگا۔ کئی عیسائی بھی اور دوسرے لوگ بھی مجھے لکھتے ہیں کہ اس نے ہماری کایا پلٹ دی ہے۔ مکرم مصطفی ثابت صاحب مرحوم جماعت کے بہت بڑے عالم بھی تھے۔ بڑا گہرا علم تھا ان کا بلکہ اسلام کا بھی بڑا گہرا علم رکھنے والے تھے۔ وہ بھی یہی کہتے تھے ان کو احمدیت میں لانے میں سب سے زیادہ کردار اس کتاب نے ادا کیا ہے۔ پس جب پڑھے لکھے لوگوں سے تعارف ہو تو انہیں یہ کتاب ضرور دینی چاہئے۔
ہمارے بعض یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے لڑکے اور لڑکیوں کا یہ خیال ہے کہ شاید پرانے فقیہوں اور عالموں کو پڑھ کر یا پرانے اماموں اور اولیاء کے ذکر پڑھ کر ان کا علم بہت بڑھ گیا ہے اور ان کی علمیت کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اس بارے میں شاید ان کا علم بڑھ گیا ہو لیکن ان سے زیادہ علم غیر احمدی علماء کا ہے۔ اس لئے صرف اس کو پڑھ کر یہ نہ سمجھیں کہ آپ عالم بن گئے۔ یہ کیڑا اگر کسی کے دماغ میں ہے تو اسے نکال دینا چاہئے۔ پرانے علماء اور اولیاء کو اب چھوڑیں۔ اب حقیقی علم اور اسلام کی صحیح تصویر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا علم کلام پڑھ کر ہی مل سکتی ہے۔ یاد رکھیں جو فیصلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کئے ہیں وہی اصل فیصلے ہیں اور آپ کے علم کلام کی بنیاد پر جو تفسیریں جماعت میں خلفاء نے کی ہیں وہی حقیقی تفسیریں ہیں، انہیں پڑھیں اور اپنا علم بڑھائیں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اس زمانے کے حَکَم اور عدل بن کر آئے تھے۔ ہمیں یہ بات ہر وقت اپنے سامنے رکھنی چاہئے۔ اس لئے جو کچھ آپ نے فرمایا ہے وہی سچ ہے اور اسلام کی تعلیم کی حقیقت ہے۔ اس لئے یہ نہ سمجھیں کہ دوسروں کی کتابیں پڑھ کر، علماء کی کتابیں پڑھ کر، فقیہوں کی کتابیں پڑھ کر، پرانے اماموں کی کتابیں پڑھ کر آپ عالم بن گئے۔ عالم اس وقت تک نہیں بن سکتے جب تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابیں نہیں پڑھتے۔
اللہ تعالیٰ نے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس زمانے کی اصلاح کے لئے بھیجا ہے تو آپ کو براہ راست علم بھی عطا فرمایا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’جو شخص ایمان لاتا ہے اسے اپنے ایمان سے یقین اور عرفان تک ترقی کرنی چاہئے نہ یہ کہ وہ پھر ظن میں گرفتار ہو۔ یاد رکھو ظن مفید نہیں ہو سکتا۔ خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا (یونس37:) ‘‘کہ وہم اور ظن جو ہے حق کے مقابلے میں کوئی کام نہیں آ سکتا۔ فرمایا کہ ’’یقین ہی ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو بامراد کر سکتی ہے۔ یقین کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔ اگر انسان ہر بات پر بدظنی کرنے لگے تو شاید ایک دم بھی دنیا میں نہ گزار سکے‘‘۔ آپ اس کی ایک مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’ وہ پانی نہ پی سکے کہ شاید اس میں زہر ملا دیا ہو۔ بازار کی چیزیں نہ کھا سکے کہ ان میں ہلاک کرنے والی کوئی شئے ہو۔ پھر کس طرح وہ (زندہ) رہ سکتا ہے‘‘۔ فرمایا کہ ’’یہ ایک موٹی مثال ہے‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ’’ اسی طرح پر انسان روحانی امور میں اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔‘‘ فرمایا ’’اب تم خود یہ سوچ لو اور اپنے دلوں میں فیصلہ کر لو کہ کیا تم نے میرے ہاتھ پر جو بیعت کی ہے اور مجھے مسیح موعود، حَکَم عدل مانا ہے تو اس ماننے کے بعد میرے کسی فیصلے یا فعل پر اگر دل میں کوئی کدورت یا رنج آتا ہے تو اپنے ایمان کا فکر کرو۔‘‘ فرمایا کہ ’’وہ ایمان جو خدشات اور توہّمات سے بھرا ہوا ہے کوئی نیک نتیجہ پیدا کرنے والا نہیں ہو گا۔ لیکن اگر تم نے سچے دل سے تسلیم کر لیا ہے کہ مسیح موعود واقعی حَکم ہے تو پھر اس کے حُکم اور فعل کے سامنے اپنے ہتھیار ڈال دو‘‘۔ خاموش ہو جاؤ۔ جو کہا گیا ہے اس کو مانو ’’اور اس کے فیصلوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھو تا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک باتوں کی عزت اور عظمت کرنے والے ٹھہرو‘‘۔ فرمایا کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کافی ہے۔ وہ تسلی دیتے ہیں کہ وہ تمہارا امام ہوگا‘‘ (جو مسیح موعود آئے گا وہ تمہارا امام ہو گا اور) ’’وہ حَکَم عدل ہو گا۔ اگر اس پر تسلی نہیں ہوئی تو پھر کب ہو گی۔‘‘ فرماتے ہیں ’’یہ طریق ہرگز اچھا اور مبارک نہیں ہو سکتا کہ ایمان بھی ہو اور دل کے بعض گوشوں میں بدظنیاں بھی ہوں۔ مَیں اگر صادق نہیں ہوں تو پھر جاؤ اَور صادق تلاش کرو۔ اور یقیناً سمجھو کہ اِس وقت اَور صادق نہیں مل سکتا۔ اور پھر اگر کوئی دوسرا صادق نہ ملے اور نہیں ملے گا تو پھر میں اتنا حق مانگتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو دیا ہے۔ جن لوگوں نے میرا انکار کیا ہے اور جو مجھ پر اعتراض کرتے ہیں انہوں نے مجھے شناخت نہیں کیا اور جس نے مجھے تسلیم کیا‘‘ (بیعت میں آگیا) ’’اور پھر اعتراض رکھتا ہے وہ اَور بھی بدقسمت ہے کہ دیکھ کر اندھا ہوا‘‘۔ یہ بہت بڑی اہم چیز ہے کہ مانا بھی اور پھر بعض شبہات دل میں ہوں تو پھر دیکھ کر اندھا ہو گیا اور زیادہ گنہگار بن گیا۔ فرمایا کہ’’ اصل بات یہ ہے کہ معاصرت بھی رتبہ کو گھٹا دیتی ہے۔‘‘ ایک ماحول میں رہتے ہیں، ساتھ ساتھ رہتے ہیں وہاں پتا نہیں لگتا کہ انسان رتبہ اور مقام پہچان سکے اس لئے آپ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مثال بیان فرماتے ہیں کہ’’ اس لئے حضرت مسیحؑ کہتے ہیں کہ نبی بے عزت نہیں ہوتا مگر اپنے وطن میں‘‘۔ فرمایا کہ ’’اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ ان کو اہلِ وطن سے کیا کیا تکلیفیں اور صدمے اٹھانے پڑے تھے۔ سو یہ انبیاء علیہم السلام کے ساتھ ایک سنت چلی آتی ہے ہم اس سے الگ کیونکر ہو سکتے ہیں‘‘۔
پس یہ جو بعض لوگ اعتراض کر دیتے ہیں احمدیت پہ اعتراض کرنے والے یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے پر اعتراض کرنے والے کہ ان کی قوم کے علماء نے ان کو ردّ کر دیا اور احمدیوں کے خلاف فیصلہ دے دیا کہ یہ غیر مسلم ہیں۔ اس میں عرب بھی شامل ہیں، دوسری قوموں کے بھی شامل ہیں۔ تو یہ دلیل ان کے لئے کافی ہے کہ ہر جگہ، ہر زمانے میں، ہر قوم میں جب نبی آیا تو اس کو اس کے لوگوں نے ہی ردّ کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ’’اس لئے ہم کو جو کچھ اپنے مخالفوں سے سننا پڑا یہ اسی سنّت کے موافق ہے‘‘۔ بلکہ نبی کی یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت جو ہے یہ آپ کی سچائی کی دلیل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی اور انبیاء کی یہ سنت ہے کہ اسی طرح ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ’’ مَایَاْتِیْھِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَھْزِءُ وْنَ (یٰس31:) کہ کوئی رسول ان کے پاس نہیں آتا تھا مگر وہ اس کا استہزاء کرتے تھے۔ اس کی ہنسی اڑاتے تھے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’افسوس اگر یہ لوگ صاف نیت سے میرے پاس آتے‘‘ (مخالفین کو مخاطب ہو کر فرمایا کہ اگر صاف نیت سے میرے پاس آتے) ’’تو مَیں ان کو وہ دکھاتا جو خدا نے مجھے دیا ہے اور وہ خدا خود ان پر اپنا فضل کرتا اور انہیں سمجھا دیتا۔ مگر انہوں نے بخل اور حسد سے کام لیا۔ اب مَیں ان کو کس طرح سمجھاؤں‘‘۔ لیکن ہم جو ماننے والے ہیں ہمارا کام ہے کہ جب ہم آ گئے، ہم نے
مان لیا تو پھر اس خدا سے اپنا تعلق پیدا کریں، دنیا داری میں نہ پڑ جائیں یہ دنیا عارضی ہے ۔ اس لئے ہمیں اگلے جہان کی بھی فکر کرنی چاہئے۔ آپ نے فرمایا کہ ’’جب انسان سچے دل سے حق طلبی کے لئے آتا ہے تو سب فیصلے ہو جاتے ہیں۔ لیکن جب بدگوئی اور شرارت مقصود ہو تو کچھ بھی نہیں ہو سکتا…..‘‘۔ فرمایا کہ ’’حجج الکرامہ میں ابن عربی کے حوالے سے لکھا ہے کہ مسیح موعود جب آئے گا تو اسے مفتری اور جاہل ٹھہرایا جائے گا اور یہاں تک بھی کہا جاوے گا کہ وہ دین کو تغیر کرتا ہے۔ اِس وقت ایسا ہی ہو رہا ہے۔ اِس قسم کے الزام مجھے دئیے جاتے ہیں۔ ان شبہات سے انسان تب نجات پا سکتا ہے جب وہ اپنے اجتہاد کی کتاب ڈھانپ لے‘‘۔ خود نہ توجیہیں پیش کرتا رہے۔ وہ ایک طرف رکھ دے۔ فرمایا ’’اور اس کی بجائے وہ یہ فکر کرے کہ کیا یہ سچا ہے یا نہیں‘‘۔ یہ دیکھو اور اس بات کی فکر کرو اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگو کہ یہ سچا ہے کہ نہیں۔ آپ فرماتے ہیں ’’بعض امور بیشک سمجھ سے بالاتر ہوتے ہیں لیکن جو لوگ پیغمبروں پر ایمان لاتے ہیں وہ حسن ظن اور صبر اور استقلال سے ایک وقت کا انتظار کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پر اصل حقیقت کو کھول دیتا ہے ۔‘‘
فرمایا کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت صحابہ سوال نہ کرتے تھے بلکہ منتظر رہتے تھے کہ کوئی آ کر سوال کرے تو فائدہ اٹھاتے تھے ورنہ خود خاموش سر تسلیم کئے ہوئے بیٹھے رہتے تھے اور جرأت سوال کرنے کی نہ کرتے تھے۔‘‘ فرمایا کہ ’’میرے نزدیک اصل اور اسلم طریق یہی ہے کہ ادب کرے۔ جو شخص آداب النبی کو نہیں سمجھتا اور اس کو اختیار نہیں کرتا اندیشہ ہوتا ہے کہ وہ ہلاک نہ کیا جائے۔‘‘ (ملفوظات جلد 3 صفحہ 73 تا 75۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)۔ اپنوں کو بھی ساتھ نصیحت کر دی کہ بدظنیاں بھی نہیں ہونی چاہئیں۔ بلا وجہ کے سوالات نہیں ہونے چاہئیں۔
پہلی بات تو یہ کہ ہمیں کسی احساس کمتری کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا۔ بعض معاملات میں اگر پرانے بزرگوں اور اولیاء کی آراء ہیں تو وہ اس حَکم اور عدل کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتیں اگر ان کے مقابلے میں کوئی اپنی رائے پیش کی ہے یا اپنا فیصلہ دیا ہے۔ ان بزرگوں نے اپنے وقت میں اسلام کے لئے کام کیا اور بہت کام کیا اور ان پرانے بزرگوں نے امّت کو اپنے اپنے دائرے میں سنبھالنے کی کوشش کی لیکن اب جب خاتم الخلفاء اور خاتم الاولیاء اور مجدد آخر الزمان اور حَکم اور عدل آ گیا تو پھر جو اس کے فیصلے ہیں اور جو اس کا علم ہے اور جو اس نے اسلام کے بارے میں بتایا ہے وہی حق ہے باقی سب غلط ہے۔ اور ہم نے بیعت کے بعد اس کی تعمیل کرنی ہے۔ یہ ہمیں یاد رکھنا چاہئے۔ اور یہی حقیقی اسلام ہے جسے دنیا اس وقت پسند کرتی ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا لوگ ہمیں کیوں پسند کرتے ہیں اسی لئے کہ ہم اس اسلام کو پیش کرتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں سکھایا۔ اس کی چند مثالیں میں نے پیش کی ہیں۔ اَور بہت سی مثالیں ہیں۔
جیسا کہ مَیں نے یہ بھی کہا تھا دوسری بات یہ بھی یاد رکھنی چاہئے کہ جو لٹریچر اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چھوڑا ہے اس کو پڑھنا اور اس سے علم حاصل کرنا حقیقی اسلام کے بارے میں ہمیں بتاتا ہے۔ پس جہاں خود پڑھیں وہاں دوسروں کو بھی دیں جن کے ساتھ گہرا واسطہ ہے۔ جو سعید فطرت ہیں انہیں لٹریچر دینا ضروری ہے اور روزمرہ کے مسائل اور معاملات میں انہی کے حوالے ہمیں دینے چاہئیں اور یہ ضروری ہیں۔
پس ہر احمدی کو آپ علیہ السلام کے لٹریچر سے خود بھی زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنا چاہئے اور اسے آگے پھیلانا بھی چاہئے۔ ہمیں اس بات کی پرواہ نہیں اور نہ کرنی چاہئے کہ دنیا کیا کہے گی؟ غیرمسلم دنیا میں یا دنیاوی لوگوں میں ہمارے متعلق کیا خیالات پیدا ہوں گے۔ انبیاء اور اللہ تعالیٰ کے فرستادے آتے ہی اس وقت ہیں جب دنیا میں دنیاداری زیادہ ہو جائے اور دین میں بگاڑ پیدا ہونا شروع ہو جائے اور اکثریت دنیا میں پڑ کر دین کو بھول جاتی ہے اور آنے والوں کا کام ان کو صحیح راستے پر لانا ہوتا ہے۔ پس ہم نے مسیح موعود علیہ السلام کو مان کر دنیا کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا اس لئے مخالفت بھی ہو گی۔ دنیا والے اپنے دنیاوی فائدوں اور مزوں کے لئے قانون بناتے ہیں۔ اگر وہ قانون خدا تعالیٰ کے حکموں کے خلاف ہیں تو ہم نے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے دنیا کی اصلاح کرنی ہے اور انہیں صحیح راستہ دکھانا ہے۔ اس میں کسی قسم کے احساس کمتری کی یا ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے اور یہ کام حکمت سے کرنا ہے۔
پس ہمیں ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ جو غلط ہے اور جسے دین نے غلط کہا ہے اسے غلط ہم نے کہنا ہے۔ یہ بات ہر احمدی کو اپنے ذہن نشین کرنی چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو اپنے وقت کے لوگوں کو نبی کی مثال دے کے جو کہا تھا کہ زیادہ سوال نہیں کرنے چاہئیں اس لئے کہ اس سے کامل اطاعت ظاہر نہیں ہوتی۔ اس لئے فرمایا کہ دوسرے لوگ آ کر سوال کرتے ہیں تو پھر جواب پر ایمان لانے والوں کی بھی تسلی ہو جاتی ہے اور نبی کی قیافہ شناسی ایسی ہوتی ہے کہ آنے والوں کے سوالوں کے جواب ان کے ذہنوں کو سامنے رکھتے ہوئے دے دیتا ہے۔ اگر بعض آنے والے مجھے یہ کہہ سکتے ہیں، میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انتہائی ادنیٰ غلام ہوں کہ ہمارے ذہنوں میں جو سوال تھے اس تقریر نے ہمارے سوالوں کے جواب دے دئیے تو نبی کی تو قیافہ شناسی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس لئے ہر باریکی میں جا کر وہ جواب چاہنے والوں کو جواب دے دیتے ہیں۔ اس لئے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ جواب کوئی نہیں ہے۔ جواب ہیں لیکن ماننے والوں کا یہ بھی کام ہے کہ اطاعت کے معیاروں کو بھی بلند کریں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کامل اطاعت کی اور اس کا ذکر بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ (ماخوذ از آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 586)
آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجالس میں بیٹھتے تھے اور یہی روایات میں آتا ہے کہ سر جھکا کر بیٹھے رہتے تھے۔ کبھی خود نہ بولے، نہ سوال کیا۔ (ماخوذ از الفضل مورخہ 27 مارچ 1957ء صفحہ 5 جلد 46/11 نمبر74)۔ اور جب سوال کرنے والے آتے تھے تو ان سے آپ فائدہ اٹھایا کرتے تھے، نوٹ کیا کرتے تھے یا مجلس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اپنے جو ارشادات ہوتے تھے ان کو غور سے سنتے تھے اور ان سے فائدہ اٹھاتے تھے۔
یہ یاد رکھیں، پہلے بھی مَیں نے کہا کہ یہ بات نہیں کہ دین اسلام میں بعض سوالوں کے جواب نہیں ہیں۔ نہیں بلکہ ہر بات کا جواب ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب اور ارشادات میں ہر قسم کے سوالوں کے جواب دئیے ہوئے ہیں۔ اس لئے مَیں نے یہ کہا تھا اور مَیں کہتا ہوں کہ مطالعہ کرنا چاہئے۔ اسلام کی برتری ثابت کرنے کے لئے ہمیں اس مطالعہ کی بہت ضرورت ہے۔ فقہی مسائل ہیں یا روزمرہ کے معاملات سے تعلق رکھنے والی باتیں ہیں یا علمی مسائل ہیں یہ سب باتیں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لٹریچر میں مل جاتی ہیں اور خلفاء نے اس کو مزید کھول کر بیان کیا ہے۔ پس اس طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اسے پڑھیں اور اس پر غور کریں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بار بار اپنی جماعت کو نصیحت فرمائی ہے کہ انہیں کیسا ہونا چاہئے اور ان کے ایمان کی کیا حالت ہونی چاہئے۔ اس حوالے سے بھی مَیں آپ کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں تاکہ ہم میں سے ہر ایک بیعت کا حق ادا کرنے والا بن جائے۔ آپ اپنی جماعت کو ایک بڑی ضروری نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’آجکل زمانہ بہت خراب ہو رہا ہے۔ قسم قسم کا شرک، بدعت اور کئی خرابیاں پیدا ہو گئی ہیں ۔ بیعت کے وقت جو اقرار کیا جاتا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا یہ اقرار خدا کے سامنے اقرار ہے‘‘۔ غور کرنے والی بات ہے کہ یہ اقرار خدا کے سامنے اقرار ہے۔ ’’اب چاہئے کہ اس پر موت تک خوب قائم رہے ورنہ سمجھو کہ بیعت نہیں کی اور اگر قائم ہو گے تو اللہ تعالیٰ دین و دنیا میں برکت دے گا۔‘‘ فرماتے ہیں ’’اپنے اللہ کے منشاء کے مطابق پورا تقویٰ اختیار کرو۔ زمانہ نازک ہے۔ قہرِ الٰہی نمودار ہو رہا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے موافق اپنے آپ کو بنا لے گا وہ اپنی جان اور اپنی آل و اولاد پر رحم کرے گا۔‘‘ آجکل دنیا کے حالات جو بگڑ رہے ہیں اس پر غور کرتے ہوئے سب کو اللہ تعالیٰ کی طرف بہت زیادہ رجوع کرنا چاہئے۔ فرمایا ’’دیکھو انسان روٹی کھاتا ہے۔ جب تک سیری کے موافق پوری مقدار نہ کھا لے تو اس کی بھوک نہیں جاتی۔ اگر وہ ایک بھورہ روٹی کا کھا لیوے‘‘ (ایک ٹکڑا، ذرہ توڑ کر کھا لے) ’’تو کیا وہ بھوک سے نجات پائے گا؟ ہرگز نہیں۔ اور اگر وہ ایک قطرہ پانی کا اپنے حلق میں ڈالے تو وہ قطرہ اسے ہرگز نہ بچا سکے گا بلکہ باوجود اس قطرے کے وہ مرے گا‘‘۔ فرمایا کہ ’’حفظ جان کے واسطے وہ قدرِ محتاط جس سے زندہ رہ سکتا ہے جب تک نہ کھا لے اور نہ پیوے، نہیں بچ سکتا‘‘۔ ایک مقررہ مقدار ہے وہ زندہ رہنے کے لئے بہرحال کھانا ضروری ہے۔ فرمایا کہ ’’یہی حال انسان کی دینداری کا ہے۔ جب تک اس کی دینداری اس حد تک نہ ہو کہ سیری ہو، بچ نہیں سکتا۔ دینداری، تقویٰ، خدا کے احکام کی اطاعت کو اس حد تک کرنا چاہئے جیسے روٹی اور پانی کو اس حد تک کھاتے اور پیتے ہیں جس سے بھوک اور پیاس چلی جاتی ہے‘‘۔ فرمایا ’’خوب یاد رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی بعض باتوں کو نہ ماننا اس کی سب باتوں کو ہی چھوڑنا ہوتا ہے۔ اگر ایک حصہ شیطان کا ہے اور ایک اللہ کا تو اللہ تعالیٰ حصہ داری کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ شراکت داری کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔ فرمایا کہ ’’یہ سلسلہ اس کا اسی لئے ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی طرف آوے۔ اگرچہ خدا کی طرف آنا بہت مشکل ہوتا ہے اور ایک قسم کی موت ہے مگر آخر زندگی بھی اسی میں ہے۔ جو اپنے اندر سے شیطانی حصہ نکال کر پھینک دیتا ہے وہ مبارک انسان ہوتا ہے اور اس کے گھر اور نفس اور شہر سب جگہ اس
کی برکت پہنچتی ہے۔ لیکن اگر اس کے حصہ میں ہی تھوڑا آیا ہے تو وہ برکت نہ ہو گی۔ جب تک بیعت کا اقرار عملی طور پر نہ ہو بیعت کچھ چیز نہیں ہے۔ جس طرح سے ایک انسان کے آگے تم بہت سی باتیں زبان سے کرو مگر عملی طور پر کچھ بھی نہ کرو تو وہ خوش نہ ہو گا۔ اسی طرح خدا کا معاملہ ہے۔ وہ سب غیرت مندوں سے زیادہ غیرت مند ہے۔ کیا ہو سکتا ہے کہ ایک تو تم اس کی اطاعت کرو پھر اُدھر اس کے دشمنوں کی بھی اطاعت کرو۔ اس کا نام تو نفاق ہے۔ انسان کو چاہئے کہ اس مرحلہ میں زید و بکر کی پروا نہ کرے۔ مرتے دم تک اس پر قائم رہو‘‘۔ فرمایا کہ ’’بدی کی دو قسمیں ہیں۔ ایک خدا کے ساتھ شریک کرنا، اس کی عظمت کو نہ جاننا، اس کی عبادت اور اطاعت میں کسل کرنا ۔دوسری یہ کہ اس کے بندوں پر شفقت نہ کرنا، ان کے حقوق ادا نہ کرنے۔ اب چاہئے کہ دونوں قسم کی خرابی نہ کرو۔ خدا کی اطاعت پر قائم رہو۔ جو عہد تم نے بیعت میں کیا ہے اس پر قائم رہو۔ خدا کے بندوں کو تکلیف نہ دو۔ قرآن کو بہت غور سے پڑھو۔ اس پر عمل کرو۔ ہر ایک قسم کے ٹھٹھے اور بیہودہ باتوں اور مشرکانہ مجلسوں سے بچو۔ پانچوں وقت نماز کو قائم رکھو۔ غرض کہ کوئی ایسا حکمِ الٰہی نہ ہو جسے تم ٹال دو۔ بدن کو بھی صاف رکھو اور دل کو ہر ایک قسم کے بے جا کینے، بغض و حسد سے پاک کرو۔ یہ باتیں ہیں جو خدا تم سے چاہتا ہے۔ ‘‘ (ملفوظات جلد 5 صفحہ75 تا 76۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
اب یہ ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کس حد تک اپنے آپ کو بیہودہ اور مشرکانہ مجلسوں سے بچایا ہوا ہے۔ بہت سے ایسے ہیں جو کہیں گے کہ ہم تو ایک خدا پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم تو مشرکانہ مجلسوں میں نہیں بیٹھتے۔ لیکن یاد رکھیں کوئی مجلس ہو جیسے انٹرنیٹ ہے یا ٹی وی ہے یا کوئی ایسا کام ہے اور مجلس ہے جو نمازوں اور عبادت سے غافل کر رہی ہے وہ مشرکانہ مجلس ہی ہے۔
پس ہمیں اس گہرائی سے اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ آپ علیہ السلام نے خاص طور پر توجہ دلائی کہ پانچ وقت نمازوں کو قائم کرو اور نمازوں کو قائم کرنا۔ باجماعت نماز کی ادائیگی ہے اور باقاعدہ اور وقت پر ادائیگی ہے۔ میں نے جائزہ لیا ہے۔ مجھے تو یہاں بھی اس میں ابھی بہت کمزوری نظر آ رہی ہے۔ مجھے دعا کے لئے لوگ کہتے ہیں اور جب پوچھو کہ تم خود دعا کرتے ہو؟ نمازیں پڑھتے ہو؟ باقاعدہ پڑھ رہے ہو؟ تو جواب نفی میں ہوتا ہے اور یہ کہ کوشش کرتے ہیں۔ پس اگر دعا کے لئے کہنے والے کے اپنے اندر اپنی تکلیف کو دُور کرنے کے لئے دعا کا درد پیدا نہیں ہوتا تو دوسرے کو کس طرح پیدا ہو سکتا ہے کہ اس کے لئے دعا کرے۔ ہاں خود اگر اپنی دعاؤں کا حق ادا کر رہے ہوں تو پھر دوسروں کی دعائیں مدد کرتی ہیں۔ اور یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الصلوٰۃ باب فضل السجود والحث علیہ۔ حدیث 1094)
اسی طرح جو معاشرتی برائیاں ہیں جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی مختصر ذکر کیا ہے کہ آپس میں محبت پیار اور بھائی چارے کے بعض لوگوں میں وہ معیار نہیں جو ہونے چاہئیں بلکہ بغض، حسد اور کینہ پایا جاتا ہے۔ پس اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی ہر ایک کو ضرورت ہے۔ دوسروں کو نہ دیکھیں کہ کوئی کیسا ہے۔ اپنی اصلاح کریں۔ اپنے آپ کو دیکھیں۔ اپنی اصلاح کر لیں گے تو باقی برائیاں بھی دور ہو جائیں گی ۔ کوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ میں ہر لحاظ سے پاک ہوں۔ پس ہمیشہ ہمیں اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کے لئے استغفار کرتے رہنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور ہم حقیقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے کا حق ادا کرنے والے ہوں۔