مصالح العرب (قسط ۴۵۰)
(عربوں میں تبلیغ احمدیت کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے مسیح موعود کی بشارات، گرانقدر مساعی اور ان کے شیریں ثمرات کا ایمان افروز تذکرہ )
مکرم مصعب شویری صاحب(2)
گزشتہ قسط میں ہم نے مکرم مصعب شویری صاحب آف شام کے خاندان کے احمدیت کی طرف سفرکا کچھ احوال نذرِ قارئین کیا تھا۔ اس قسط میں اس سلسلہ کو مزید آگے بڑھاتے ہیں۔
خلیفہ ٔ وقت سے پہلا رابطہ
مکرم مصعب صاحب بیان کرتے ہیں:
غالباً 1993ء یا 1994ءکی بات ہے کہ مکرم محمد منیر ادلبی صاحب ہماری بستی میں آئے او رکہا کہ وہ لندن جارہے ہیں اورجس نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی خدمت میں خط لکھنا ہے لکھ کر مجھے دے دے تو میں حضورانور کی خدمت میں پیش کر دوں گا۔ ہمارا خلیفہ وقت کی خدمت میں یہ پہلا خط تھا۔مجھے یاد ہے کہ اس وقت چھوٹے بچوں نے بھی بڑے جوش وجذبہ سے خطوط لکھے اور خلافت سے اپنی محبت او راخلاص کا اظہار کیا۔
تقریباًتین ماہ کے بعد جب مکرم منیر ادلبی صاحب واپس آئے تو ان کے ہاتھوں میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی طرف سے ہمارے خطوط کے نہایت محبت بھرے جواب تھے۔ خلیفہ وقت کے ساتھ تعلق کی حلاوت کا یہ پہلا احساس تھا جونہایت خوبصورت اور غیرمعمولی تھا۔
شام کے حالات کے بارہ میں خبر
میں نے غالباً 2006ء میں ایک رؤیا میں دیکھا تھا کہ ہماری بستی میں شدید فساد برپا ہے اور لوگ دو گروہوں میں منقسم ہو کر ایک دوسرے پر پتھر برسا رہے ہیں ۔ایسے لگ رہا ہے جیسے ہر طرف پتھروں کی بارش ہورہی ہے، جبکہ ہم بچے ایک گلی میں کھڑے یہ سارا منظر دیکھ رہے ہیں۔
میں نے بستی کے پہلے احمدی مکرم احمد خالد البراقی صاحب کو یہ رؤیا سنایا تو انہوں نے کہا کہ اگر اس بستی کے لوگ اسی طرح حضرت امام مہدی علیہ السلام کی تکذیب اور آپ کی جماعت کی مخالفت کرتے رہیں گے تو ایک دن خدا کے غضب کے نیچے آئیں گے اور آپس میںقتل وغارتگری کے مرتکب ہوں گے۔ پھر انہو ںنے کہا کہ ہم سب کو مل کر دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت کے راستے کی طرف لے آئے اور اس خطرناک انجام سے بچائے ۔
اس رؤیا کے کئی سال بعد شام کے حالات خراب ہونے شروع ہوئے اور حکومت اور اس کے مخالف گروپوں کے مابین اس قدر گولہ بارود کا تبادلہ ہوا کہ ایسے لگتا تھا جیسے آسمان سے بموں اور میزائلوں کی بارش ہورہی ہے۔اس صورت حال کی وجہ سے جہاں پورا ملک تباہی اور بربادی کی تصویربن کررہ گیا وہاں انسانی خون اس قدر ارزاں ہوا کہ ملک کے چپّے چپّے پرلہو کے ساتھ ایسی دردناک داستانیں رقم کی گئیں جن کے تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ظلموں کا یہ سلسلہ وحشتناک طریقوں اور دہشتناک صورتوں میں ابھی تک جاری ہے۔
ظلم کا حصہ بننے سے بچنے کی دعا
ہمارے ملک میں ہر نوجوان کو ایک معیّن عمر کے دوران لازمی فوجی ٹریننگ کے لئے خود کو پیش کرنا پڑتا ہے۔ عام حالات میں یہ عرصہ ہر نوجوان کی زندگی کا مشکل ترین عرصہ ہوتا ہے لیکن شام میں ہونے والی خانہ جنگی کے دوران تو اس کی سنگینی اور بھی بڑھ گئی تھی ۔ کیونکہ دونوں اطراف سے ہی ظلم ہورہا تھااور میں نہیں چاہتا تھا کہ اس ظلم کا حصہ بنوں۔میں دعا کرتا تھا کہ خدایا تو مجھے اس لازمی ٹریننگ سے بچا اور میرے لئے بچاؤ کا کوئی راستہ پیدا فرما دے۔ اس کے لئے مَیں نے حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خدمت میں دعا کا خط بھی لکھا۔
سنگین حالات
2012ءسے لے کر 2014ء تک ہماری بستی کا علاقہ حکومت مخالف گروہوں کے زیر تسلط رہا۔ اس عرصہ میںحکومت اور ان دہشتگرد گروہوں کے مابین خونریز لڑائیاں ہوئیں جس کے بعد دہشتگرد گروہوں نے اپنی ظالمانہ کارروائیوں کو مزید تیز کردیا اوراردگرد کے لوگوں کو اندھا دھند قتل کرنے لگ گئے۔اس دوران یہ المناک واقعہ بھی پیش آیا کہ ہمارے ایک احمدی بھائی عبد المنعم المسلمانی صاحب جومحدود پیمانے پر پٹرول بیچ کر اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پال رہے تھے، ایک روز قریبی بستی سے پٹرول خریدنے گئے تو دہشتگردوں نے انہیںپکڑ لیا اورسیرین حکومت کی ایجنٹی کے الزام میں انہیں شہید کردیا۔شہید کے سوگواروں میںبیوی کے علاوہ تین بیٹے اور دوبیٹیاںتھیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت فرمائے اورجنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین۔
احمدیت چھوڑو یا بستی سے نکل جاؤ!
اس سے اگلے روز ہی یہ دہشتگرد ہمارے ہمسائے میں آئے اور میرے والد صاحب کو وہاں بلاکر کہا کہ تمہارے پاس تین دن ہیں۔ اس دوران یا تو تم بستی کی مسجد میں جا کر اپنے کفر سے توبہ کرکے اسلام قبول کرنے کا اعلان کرو،یا اس بستی سے ہمیشہ کے لئے چلے جاؤ، اگر یہ سب کچھ نہیں کرسکتے تو پھر قتل ہونے کے لئے تیار ہوجاؤ۔
ہم نے حضورانور کی خدمت میں دعا کا خط لکھا۔ اورمقامی جماعت کے صدر مکرم احمد خالد براقی صاحب کو بھی بتایا۔ انہوں نے کہا کہ تم صبح سویرے ہی یہاں سے نکل جاؤ۔ چنانچہ ہمارے خاندان اوررشتہ داروں پر مشتمل تقریباً بارہ تیرہ افراد پر مشتمل یہ قافلہ ایک ویگن میں بیٹھ کر قریبی گاؤں پہنچا۔ جہاں میرے سسر کے ایک غیراحمدی رشتہ دار کے گھرمیں ہم نے دو دن قیام کیا۔ اس نے ہماری ضیافت وغیرہ کا بہت زیادہ خیال رکھا۔دوروز کے بعد میرے علاوہ باقی سب احباب سیکیورٹی پوسٹوں سے گزرتے ہوئے بچتے بچاتے بخیریت دمشق پہنچ گئے۔ چونکہ مَیںلازمی فوجی ٹریننگ کے لئے متعلقہ حکومتی ادارہ میں وقت پر حاضر نہ ہو سکا تھا اس وجہ سے خطرہ تھاکہ پوسٹوں پر چیکنگ کے دوران مجھے گرفتار کر لیا جائے گا اس طرح دیگر احباب کے لئے کئی مشکلات پیدا ہو سکتی تھیں ، چنانچہ مَیں تقریبًا دو ہفتے کے بعد چھپ چھپا کے دمشق پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔
دمشق میں محترمہ اُمّ اکرم الشواء صاحب نے ایک ماہ تک ہماری ضیافت کی اور ہمیں اپنے گھر میں رکھا۔ فجزاھا اللہ احسن الجزاء۔
گرفتاری کے بعدرہائی کا یقین
میری منگنی ہو چکی تھی لیکن شادی کا دُور دُور تک کوئی امکان نہ تھا کیونکہ نہ میرے پاس رہنے کو جگہ تھی ، نہ خرچ کرنے کو مال،اور نہ ہی کوئی کام تھا،بلکہ سب سے بڑی روک یہ تھی کہ لازمی فوجی ٹریننگ نہ کرنے کی وجہ سے قانونی طو رپر مَیں شادی نہیں کرسکتا تھا،بلکہ ایسا کرنے کی صورت میں گرفتاری یقینی تھی۔
مَیں اپنے بہنوئی کے گھر میں بیٹھا انہی خیالوں میں گم تھا کہ وہاں پر سی آئی ڈی والوں نے چھاپہ مارکر مجھے ، میری والدہ اور میرے بہنوئی کو گرفتار کرلیا اور ساتھ لے گئے۔
ہماری گرفتاری کے بعد سب کا یہی خیال تھا کہ میرا بہنوئی اور میری والدہ تو جلد رہا ہو جائیں گے لیکن لازمی فوجی ٹریننگ نہ کرنے کی وجہ سے مجھے جیل ہوجائے گی جس کے بعد پھر سیدھا لازمی فوجی ٹریننگ کے لئے جانا ہوگا، اور دوران ِ گرفتاری ظلم وستم کی چکی میں پسنا اس سے سوا ہو گا۔
مجھے جیل میں تحقیق کے لئے بلایا گیا۔ میری آنکھوں پر پٹی باندھ کرگھٹنوں کے بل بٹھایا گیا تھا۔ میں نے ہر بات سچ سچ بتادی۔ نہ صرف اپنے احمدی ہونے کے بارہ میں بتایا بلکہ انہیں جماعت کے عقائد اورملک کی موجودہ صورتحال میں جماعت کے موقف سے بھی آگاہ کیا۔ نیز بلا جھجک یہ بھی بتا دیا کہ مَیں لازمی فوجی ٹریننگ سے بھاگا ہوا ہوں۔
مجھے علم تھا کہ اس جیل میں آنے والا کبھی صحیح سلامت واپس نہیں گیا۔ بلکہ اس جیل کے بارہ میں یہ بات مشہور تھی کہ اگر کوئی اس سے باعزت بری ہو کر بھی نکلے تو کم از کم اس قدر تعذیب کا نشانہ بن چکا ہوتا ہے کہ اپنے پاؤں پر چل کر اس جیل سے باہر نہیں آتا۔ لیکن یہ عجیب بات ہے ان تمام حقائق کے باوجود خدا تعالیٰ نے میرے دل میں اپنی جلد اور باعزت رہائی کے بارہ میں غیر معمولی یقین اور اطمینان ڈال دیا تھا ۔ شاید یہ یقین میرے دل میں اس خط کے بعد پیدا ہوا تھا جو میں نے اپنی گرفتاری سے کچھ عرصہ قبل حضو رانور کی خدمت میں ارسال کیا تھا اور اپنی بیکسی اور بے بسی کا ذکر کر کے شادی کے لئے غیب سے انتظام ہونے کے لئے دعا کی درخواست کی تھی۔ یہ خط لکھنے کے بعد مجھے یقین ہوگیا تھا کہ حضو رانور کی دعا میرے حق میں قبول ہو گئی ہے اور میری شادی کے راستے میں حائل ہر رکاوٹ جلد دور ہوجائے گی۔
مرحوم خالد البراقی صاحب کا ذکر خیر
اس جیل کے ساتھ نہایت دردناک یادیں وابستہ ہیں کیونکہ یہی وہ جیل ہے جس میں حوش عرب جماعت کے ایک خوبرو نوجوان مکرم خالد البراقی صاحب کو لایا گیا اور پھراس قدر ظلم کیا گیا کہ یہ نوجوان جان کی بازی ہار گیا۔مکرم خالد البراقی صاحب نہایت متقی اور نیک اور صالح نوجوان تھا بلکہ کئی امور میں میرا آئیڈیل تھا۔وہ میرا بچپن کا دوست اور خیر خواہ تھا۔ میں نے اس سے بہت کچھ سیکھا تھا۔ میں نے اس کی زبان سے کبھی کوئی برا لفظ نہیں سنا۔ ہر ایک سے محبت اور احسان کا سلوک کرنے والا یہ نوجوان بہت سی خوبیوں کا مالک تھا۔ اس کی وفات کی خبر سنتے ہی میری حالت غیر ہوگئی اور میں بہت رویا۔ میں آج تک اسے اپنی دعاؤں میں یادرکھتا ہوں کیونکہ اس نے مجھے نماز اور عبادت کے بارہ میں بعض ایسے مشورے دیئے تھے جو ہر نماز کے وقت مجھے یاد آجاتے ہیں اور پھر اس کے لئے خود بخود دعائیں نکلتی ہیں۔ وہ مکینیکل انجینئرنگ کی فیلڈ میں کام کرتا تھااور سنٹرل ہیٹنگ وشمسی توانائی کے کام کا ماہر تھا۔ مجھے اس فیلڈ میں بھی اس سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ اللہ تعالیٰ اسے غریق رحمت فرمائے ۔ آمین۔
معجزانہ طور پر شادی کا بندوبست
اپنی رہائی کے بارہ میں جیسا یقین خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا تھا اسی کے مطابق محض ایک ہفتے کے اندر اندر میری او رمیری والدہ صاحبہ کی ایسے باعزت طریق پر رہائی ہوئی کہ ہمیں نہ کسی نے برا بھلا کہا او رنہ ہی کوئی ٹارچر کیا گیا۔
معجزانہ رہائی کے بعد شادی کے بارہ میں بھی معجزانہ طور پر سب انتظام ہونے پر میرایقین مزید پختہ ہوگیا۔ چنانچہ میں اپنے بھائی کو ساتھ لے کراپنی لازمی فوجی ٹریننگ کو مؤخر کرنے کی درخواست دینے کے لئے متعلقہ آفس جا پہنچا۔ محض ایک سو ڈالرز کی ضمانت سے میری لازمی فوجی ٹریننگ مؤخرکر دی گئی۔ پھر مَیں نے اس عرصہ میں شادی کرنے کی اجازت کے لئے درخواست دی تو استثنائی طور پر مجھے شادی کرنے کی اجازت بھی مل گئی۔ جنگی حالات میں ایسا ہونا کسی معجزے سے کم نہ تھا۔
یوں نہایت کسمپرسی کی حالت میں میری شادی ہوگئی۔شادی کے بعد رہنے کے لئے میرے پاس کوئی گھر نہ تھا۔ یہ مشکل بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے حل کر دی، وہ یوں کہ اس دوران ہماری بستی کے حالات ٹھیک ہوگئے اور ہم اپنے گھر لوٹ آئے ۔والحمد للہ علیٰ ذلک۔
ہجرت کا فیصلہ
میری شادی کو ابھی دوماہ ہی گزرے تھے کہ حکومت کی طرف سے اعلان ہوگیا کہ کسی کی بھی لازمی فوجی ٹریننگ مزید مؤخر نہیں کی جائے گی۔ یہ سنتے ہی میں نے سوچا کہ اب میرے لئے اس ملک میں رہنا مشکل ہوجائے گا لہٰذا میںنے تمام امور کا اچھی طرح جائزہ لے کر ہجرت کا فیصلہ کرلیا۔اس فیصلہ میں کچھ تو میرے بھائیوں اور میری اہلیہ کے بھائیوں کی حوصلہ افزائی شامل تھی اور کچھ اس بات کا حوصلہ بھی تھا کہ ترکی میں میری بہن ،بہنوئی اور ان کا خاندان پہلے سے موجود تھا۔
چنانچہ بعض احباب کی مدد سے ہم بیروت پہنچے اور وہاں سے ترکی کے لئے روانہ ہوگئے۔ ترکی میںتین ہفتے تک اپنی بہن کے گھر رہنے کے بعد ہم نے علیحدہ گھر لے لیا اور میں نے ترکی میں مقیم ایک سیرین شخص کے ہاں نوکری کرلی جس نے شام کے حالات کی خرابی کے آغاز میں ہی یہاں آکر سیکنڈ ہینڈ فرنیچر اور کارپٹس وغیرہ کا کاروبار سیٹ کر لیا تھا۔ میرا کام اس کے سامان کی مرمت وغیرہ کرنا تھا۔ اس نے ہی مجھے گھر لے کر دیا تھا لیکن افسوس کہ اس شخص نے میرے ساتھ دھوکا کیا اور مجھے اس گھر کے لئے اپنی دکان سے پرانا سامان مہنگے داموں فروخت کیا ۔ پھر مجھ سے چودہ چودہ گھنٹے کام کروایا ۔میں نے اس کے پاس تین ماہ تک کام کیا جس کی اجرت کو اس نے اس نے اُس بوسیدہ سامان کی قیمت میں کاٹ لیا جو اس نے میرے گھر کے لئے دیا تھا۔
تین ماہ کے بعد مجھے ایک ترکی شخص کے پاس اچھا کام مل گیا اور گزر بسر نسبتًا بہتر ہونے لگ گئی۔
(باقی آئندہ)