اسلام کی نشا ٔۃ ثانیہ کے بارہ میں حضرت خاتم الانبیاء ﷺکی پیشگوئی اور وصیت
آنحضرت ﷺ نے موجودہ زمانہ کے فتنوں کی حیرت انگیز تفصیلات پر ہی روشنی نہیں ڈالی بلکہ امت مسلمہ کے عالمی عروج کی خبر دیتے ہوئے یہ پیشگوئی بھی فرمائی کہ مسلمانان عالم کی نشا ٔۃ ثانیہ امام مہدی کے ذریعہ قائم ہونے والے نظام خلافت سے وابستہ کی گئی ہے ۔چنانچہ حذیفہ ؓبن یمان کی حدیث میں آنحضور ؐ کی یہ پیشگوئی موجود ہے کہ ’’ثُمَّ تَکُونُ الْخِلَافَۃُ عَلٰی مِنْہَاج النُّبُوَّۃ‘‘۔ یعنی اس کے بعد خلافت علی منہاج النبوّۃ منصہ شہود پرآئے گی۔’’مجدد مذہب حنفیہ‘‘ اور گیارھویں صدی ہجری کے شہرہ آفاق مفکر اسلام حضر ت امام علی بن سلطان ہروی قاری (مدفون مکہ معظمہ ) نے اس کی شرح میں صدیوں قبل یہ لکھا کہ
’ خلافت علی منہاج النبوۃ کا قیام مسیح ومہدی کے مبارک زمانہ میں عمل میں آئے گا‘۔
( دیکھیں: مرقاۃ شرح مشکوٰۃ کتاب الفتن جلد 10 صفحہ 109 ناشر مکتبہ امدادیہ ملتان)
اس انقلاب آفرین پیشگوئی کے علاوہ رسول کائنات ﷺ نے آخری زمانہ کے ہر مسلمان کو پیغام دیاکہ :’’فَاِنْ رَئَیْتَ یَوْمَئِذٍ خَلِیْفَۃَ اللہِ فِی الْاَرْضِ فَالْزِمْہٗ وَاِنْ نُہِکَ جِسْمُکَ وَاُخِذَ مَالُکَ ‘‘۔
(مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 403حدیث حذیفہ بن یمان ۔مطبوعہ بیروت)
یعنی تمہارا فرض ہے کہ جب تم زمین میں کسی خلیفۃ اللہ کو دیکھو تو اس کے ساتھ پور ی طرح وابستہ ہو جائو خواہ تمہارے جسم کو لہو لہان کردیا جائے اور تمہاری جائیداد لوٹ لی جائے ۔
آنحضرت ﷺنے اس نہایت پُرحکمت پیغام میں’’ خَلِیْفَۃُ اللہِ‘‘ کالفظ استعمال کرکے واضح فرمادیا ہے کہ خلیفۃ اللہ ملاّ، صحافی یا سیاسی ادارے نہیں بلکہ عرش کا خدا ہی بنائے گا۔ نیز خلافت پر ایمان لانے والوں کو قبل از وقت انتباہ کردیا کہ اس زمانہ میں جو خوش نصیب نظام خلافت کے جھنڈے تلے جمع ہو نے کی سعادت پائیں گے انہیں جانی اور مالی قربانیوں کے نذرانے پیش کرنے ہونگے اور بالکل یہی کیفیت جماعت احمدیہ کی ہے جو مخبر صادق کی پیشگوئی کے عین مطابق 27؍مئی 1908ء سے خلافت علی منہاج النبوۃ کی برکتوں سے فیضیاب ہو رہی ہے ۔سیدنا حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنی کتاب ’’الوصیت‘‘ (24؍دسمبر1905ء)میںیہ خوشخبر ی دی کہ قدرت ثانیہ یعنی خلافت احمدیہ دائمی ہے۔ جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔ (صفحہ 6)۔نیز خلافت احمدیہ کے
شاندار نصب العین اور مستقبل کا ذکر درج ذیل الفاظ میں بیان فرمایا :
’’خدا تعالیٰ چاہتاہے کہ ان تمام روحوں کو جوزمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیںکیا یورپ اور کیاایشیا ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پرجمع کرے…سو تم اس مقصد کی پیروی کرو مگرنرمی، اوراخلاق اور دعائوں پر زور دینے سے ‘‘۔(صفحہ6)
ادارہ او۔ آئی ۔سی کو درجہ ٔخلافت دینے کا مضحکہ خیز نظریہ
خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے خلافت احمدیہ کی برکت سے کُل عالم نہایت تیزی سے دین حق کی تجلیات سیـ منورہو رہاہے۔ سعید روحوں کی کروڑوں پرمشتمل فوجیں سالانہ آنحضرت ﷺ کے جھنڈے تلے جمع ہو رہی ہیں۔ کتاب اللہ کے غیرملکی زبانوں میں تراجم نے ہر ملک میں زبردست انقلاب برپا کردیاہے اور ایم ٹی اے کی برکت سے ﴿جَآءَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِل﴾ کے ایما ن افروز نظارے دنیا کا ہر ملک اور ہر خطہ بچشم خود دیکھ رہاہے مگرخداکے قائم کردہ اس آسمانی نظام سے برگشتہ لوگ اپنی ذلت و رسوائی اور مجرم ہونے کا اعتراف بھی کررہے ہیں مگرخدائی سکیم سے فیضیاب ہونے کی بجائے خود ساختہ ’’نظام خلافت‘‘ کی بحالی کی ایک صدی سے نت نئی مضحکہ خیز تجویزیں پیش کررہے ہیں اور عجیب و غریب نظریات ایجاد کر رہے ہیں۔مثلاً پاکستان کے ایک فاضل ادیب چوہدر ی رحمت علی صاحب نے مسلمانان عالم کی زبوں حالی کا درد انگیز نقشہ کھینچتے ہوئے فرمایاہے کہ :
’’مسلمانوں کو اس کائنات کے مالک نے زمین پردے مار ا توکیوں…… مسلمانوں سے ایسی کیا خطا ہو گئی کہ اب معتوب و مغضوب یہودیوں سے ان کی ٹھکائی ہو رہی ہے … کیا یہ سخت گناہ گار اور مجرم نہیںہیں ۔اللہ تعالیٰ کی نہ مان کر یقینایہ مجرم ہیں اور اس جرم کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک مغضوب و مردود قوم کے حوالے کر رکھا ہے ‘‘۔
پھرلکھاہیـ: ’’نظام خلافت کو تباہ کرنے پر توپوری قوم مجرم ہے ۔مسلمانان عالم آج دنیا میں ذلت و رسوائی سے دوچار ہیں تو اسی لئے کہ انہوں نے دین حق سے روگردانی کررکھی ہے ۔حیف درحیف کس قدر نادان اور اپنے دشمن خود بنے ہوئے ہیں۔ حل اس کا ایک ہی ہے کہ نظام خلافت کوبحال کرکے پوری امت ایک جھنڈے تلے جمع ہو جائے … ۔ او ۔آئی۔ سی کے ادارے کوخلافت کا درجہ دے کرکسی ایک شخص کے ہاتھ میں پوری امت کی باگ ڈور تھما دی جائے جوموزون توہو۔
تمام مسلم ممالک کو صوبوں کی حیثیت دے کراسلام کی ایک ایسی مملکت واحدہ ہو ۔ یہی حل ہے ہماری تمام مشکلات و مسائل کا‘‘۔
(روزنامہ’’دن‘‘ لاہور۔ 21؍مئی 2002ء صفحہ5)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ،مصلح موعود ؓنے 28؍دسمبر 1946ء کو ـ جلسہ سالانہ کے دوران مسلمان عالم کو ان کی بے راہ روی کے خوفناک نتائج پرانتباہ کرتے ہوئے کھلے الفاظ میں فرما دیا تھا کہ ؎
جو چال چلـے ٹیڑھی جو بات کہی الٹی
بیماری اگر آئی تم اس کو شفا سمجھے
کیوں قعر مذلت میں گرتے نہ چلے جاتے
تم بوُم کے سائے کو جب ظل ہما سمجھے
غفلت تری اے مسلم کب تک چلی جائے گی
یا فرض کو تُو سمجھے یا تجھ سے خدا سمجھے
(الفضل انٹرنیشنل 26جولائی 2002ء)