مصالح العرب (قسط ۴۵۱)
مکرم مصعب شویری صاحب(3)
گزشتہ دوقسطوں میں ہم نے مکرم مصعب شویری صاحب آف شام کے خاندان کے احمدیت کی طرف ایمان افروز سفرکا کچھ احوال نذرِ قارئین کیا تھا۔ اس قسط میں اس سفر کے باقی واقعات پیش کئے جائیں گے۔
مکرم مصعب شویری صاحب لکھتے ہیں:
مجھے ترکی میں پہنچے ابھی چار ماہ ہی ہوئے تھے کہ شام سے میرا بھائی،بھابھی، دو برادرِ نسبتی اور میراہم زلف اپنی اہلیہ کے ساتھ ترکی پہنچ گئے۔ترکی میں ہر طرف سے سیرین لوگ آرہے تھے اور کام ملنا بہت مشکل تھا اور جو ملتا تھا اس کی اجرت بہت کم تھی۔اسی طرح علیحدہ گھر ملنا بھی بہت مشکل تھااور اگر مل جاتا تو اس کا کرایہ دینااس سے بھی زیادہ مشکل تھا۔ ان حالات کی وجہ سے یہ شام سے آنے والے میرے رشتہ دار میرے ساتھ میرے گھر میں ہی رہنے لگے۔ مَیں ،میرا بھائی اور میرا ہم زلف کچھ نہ کچھ کماتے تھے لیکن ہرماہ کے آخر پر سب کے ہاتھ خالی ہو جاتے تھے۔کئی ماہ تک جب یہ سلسلہ جاری رہا تو ہم نے سنجیدگی سے کسی اور ملک میں جانے کے بارہ میں سوچنا شروع کردیا۔
زندگی او رموت کا سفر
ہمیں یہ خبریں تو پہنچ رہی تھی تھیں کہ بعض یورپین ممالک نے سیرین مہاجرین کو کھلے دل سے قبول کرنا شروع کردیا ہے لیکن اس کے لئے ان ممالک تک پہنچنے کا مشکل ترین مرحلہ طے کرنا ہر ایک کا انفرادی کام تھا۔ اس کے لئے لوگوں نے جب سمندری راستوں کے ذریعہ یورپین ممالک کو طرف جانا شروع کیا تو کئی لوگ راستے میںحادثات کا شکار ہوگئے اور جب ان مہاجرین کی ہولناک موت کی خبریں آئیں تو پھر کئی ممالک نے ترکی وغیرہ میں موجود سیرین پناہ گزینوں کو باضابطہ طورپر امیگریشن دینے کا اعلان کیا۔
بہر حال میں ان دنوں کی بات کررہا ہوں جب لوگ ان ممالک تک پہنچنے کا مشکل ترین مرحلہ خود طے کرنے کی کوشش میں تھے۔ ہمیں بتایا گیا کہ ترکی اور یونان کے مابین ایک مقام پر ایک دریا ہے جسے پار کر کے یونان پہنچا جاسکتا ہے او رپھر وہاں سے یورپ کے کسی بھی ملک کی طرف سفرکرنا ممکن ہوسکے گا۔
ہم نے رخت ِسفر باندھا اور بیوی بچوں کو لے کر اس دریا کی جانب چل نکلے۔ ہم کل گیارہ افراد تھے او رہمارے پاس ربڑ کی ایک ہی کشتی تھی جس پر ایک وقت میں چار افراد سوار ہوسکتے تھے۔کئی دنوں تک سامان اٹھائے زرعی اراضی اور جنگلی علاقوں میں تکلیف دہ سفر کرنے کے بعد بالآخر ہم اس دریا تک جا پہنچے۔ ہمارا خیال تھا کہ یہ کوئی معمولی سا دریا ہوگا لیکن یہ تو خاصا وسیع دریا تھا اور اس میں پانی بہنے کی رفتار بہت تیز تھی جسے دیکھتے ہی ہمارا دل بیٹھ گیا۔
ہم میں سے سب سے ماہر پیراک کو ہم نے رسی سے باندھ کر اس دریا کو پار کرنے کے لئے اتارا تو وہ پانی کے تیز بہاؤ کا مقابلہ نہ کرسکااورہمیں مجبورًارسّی کھینچ کر اسے نکالنا پڑا۔
اس کے بعد قرعہ میرے، میرے بھائی عبد اللہ اور ایک اور دوست کے نام نکلا کیونکہ ہم پیراکی جانتے تھے۔ ہم نے دوسری سائیڈ پر پہنچ کر باقی احباب کو باری باری منتقل کرنا تھا۔ہم نے تیرنا شروع کیا اوربہت سی مشکلات کے بعد بالآخر تھک ہار کر دوسرے کنارے پرتو پہنچ گئے لیکن دریا کے تیز بہاؤ کی وجہ سے اس ٹارگٹ سے کئی سو میٹر دور چلے گئے جو ہم نے تیرنے سے قبل مقرر کیا تھا۔
میں نے باقی دو احباب سے کہا کہ تم واپس جاؤ اور دوسروں کو لانے کی کوشش کرو اور میں یہاں سے راستہ تلاش کرتا ہوں۔ میں نے وہاں گھاس پھوس اور درختوں کے جھنڈ کاٹ کر راستہ بنانے کی کوشش کی کہ اسی اثناء میں واپس جانے والے دونوں بھائیوں نے لائٹ کے ذریعہ اوربول کر بھی مجھے پیغام بھیجا کہ ان میں واپس آنے کی ہمت نہیں ہے اس لئے اب وہ اگلے روز کوشش کریں گے۔ گو کہ میں ابھی بھی ترکی کی حدود میں تھا لیکن مجھے اگلے روزتک اسی جھاؤ اور درختوں میں چھپ کر رہنا تھا تا دیگر احباب بھی آجائیں تو ہم یونان کی حدود میں داخل ہوں۔
میںساری رات وہاں سے راستہ ہی تلاش کرتا رہا تاآنکہ صبح ہو گئی اور بارڈر سیکیورٹی نے پٹرولنگ شروع کردی۔ پٹرولنگ کے دوران انہو ں نے دریا کے قریب موجود باقی احباب کو گرفتار کرلیا ۔ان میں سے کچھ سیکیورٹی والے میری طرف بھی آئے تومیں نے ان کی منتیں کیں کہ مجھے بھی گرفتار کرلو اور واپس لے جاؤ کیونکہ میری فیملی کے لوگ بھی گرفتار ہوچکے ہیں۔ لیکن انہوں نے میری ایک نہ سنی بلکہ وہ خود مجھے کہتے جاتے تھے کہ تم یونان کے قریب پہنچ چکے ہو ادھر چلے جاؤ۔میرا ایک ساتھی وہاں پر اپنے کپڑے چھوڑ گیا تھا میں نے وہ سب ہی پہن لئے او رسوچا کہ اگر میں یہیں بیٹھا رہا تو مرجاؤں گا۔ واپس جانے کے لئے دوبارہ دریا پار کرنا تو ناممکن تھا، اس لئے مجھے یہاں سے بہر حال آگے کو ہی نکلنا تھا۔چنانچہ میں نے قدآدم گھاس اور درختوں کی شاخوں اور کانٹوں کے درمیان سے راستہ تلاش کرنا شروع کیالیکن بمشکل دس میٹر کا فاصلہ طے کیا تھا کہ میری ہمت جواب دے گئی۔ میں نے ایک درخت پر چڑھ کر آگے کی طرف دیکھا تو دور دور تک کہیں کوئی راستہ دکھائی نہ دیا۔
میرے جسم کے ذرے ذرے میں تھکان خیمہ زن تھی اور میرے ہاتھ پاؤں پھول چکے تھے اورموت مجھے اپنے سامنے نظر آرہی تھی۔ میں وہاں گر گیا اور نہایت تضرع اور ابتہال کے ساتھ بآواز بلند دعا کی اے خدایا! اے مجبوروں اور بے سہاروں کی دعائیں سننے والے خدا!مجھے اس جگہ سے اپنے فضل سے نکال لے اور یہاں گمنامی کی موت مرنے سے بچالے۔
مجھے اس دعا کی قبولیت کا یقین ہوگیا اور اس بات نے میرے جسم میں نئی روح پھونک دی جس کی بدولت میں نے مزید آگے راستہ بنا کر چلنا شروع کردیا۔ بالآخر گرتے پڑتے تقریباً چھ گھنٹے کی جد وجہد کے بعد مجھے ایک راستہ دکھائی دیا۔ وہاں پر پہنچ کر میں نے سکھ کا سانس لیا اور پھر کچھ دیر اس راستے پر چلنے کے بعد مجھے بارڈر سیکیورٹی کی ایک چوکی نظر آئی ۔ وہاں جا کر میں نے اپنی کہانی سنائی اوران سے ترکی واپس بھجوانے کی درخواست کی ۔میں نے ذکر کیا تھا کہ سیرین مہاجرین کے لئے یورپین ممالک میں ایک نرم گوشہ تو موجود تھا اس لئے انہوں نے مجھے واپس ترکی بھجوادیا اوروہاں ترکی پولیس نے مجھے پکڑا اور اسی کیمپ میں بھیج دیا جہاں میری فیملی اور دیگر افراد کو ایک روز قبل پکڑ کر لے آئے تھے۔یوں اللہ نے اپنے فضل سے ہمیں دوبارہ ملا دیا۔
سفر یورپ میں کامیابی
ایک ہفتہ ہمیں وہیں پر کیمپ میں رکھنے کے بعد رہا کردیا گیا۔ رہائی کے بعد باقی احباب تو سفر سے تائب ہوگئے لیکن میں اپنے ترکی میں بدترین معاشی حالات کے پیش نظر وہاں سے نکلنے پر مصر رہا۔
چند دنوں کے بعد ہی ہمیں یورپ کی طرف جانے والی کشتی میں جگہ مل گئی۔ بیس پچیس افراد کو لے جانے والی اس کشتی میں ہم پچاس سے زائد افراد تھے اور سمندر میں دور دور تک سوائے خدا کے کوئی معین ومددگار نہ تھا۔ اس سفر کی لمبی داستان کو میں مختصر کرتے ہوئے اتنا کہتا ہوں کہ راستے میں کشتی کا انجن تین بار بند ہوگیا۔ دو بارتواسے ٹھیک کرنے میں معجزانہ طور پرکامیابی ہوئی لیکن تیسری بار انجن بند ہونے کی وجہ ایسی تھی جس کا ہمارے پاس کوئی توڑ نہ تھا۔ اس بار اس کا تیل ختم ہوگیا تھا۔یہ حالت دیکھ کر سب نے شور مچانا شروع کردیا اور قریب تھاکہ اس افراتفری کی وجہ سے کشتی الٹ جاتی۔ یہ دیکھ کرمیں نے سب سے کہا کہ یہ وقت دعا کا ہے اورپھر ہم نے ایسی پُرسوز دعا کرتے ہوئے کہا کہ اے خدایا تو بنی اسرائیل کے بارہ میں جانتا تھا کہ انہوں نے سمندر پار کرنے کے بعد تیرے حکموں کی نافرمانی کرنی ہے پھر بھی جب انہوں نے اخلاص کے ساتھ تجھے پکارا تو تُو نے انہیں بچالیا، ہم بھی گنہگار ہیں اور آگے بھی ہم سے غلطیاں سرزد ہوں گی لیکن اس وقت اخلاص کے ساتھ تیرے حضور جھکتے ہوئے عرض کرتے ہیں کہ ہمیں اِس مشکل سے نکال۔
دعا کے بعد کشتی کے پٹرول کا ٹینک ہلایا جلایا تو اس کے پیندے میں آدھا لیٹر پٹرول نکل آیا۔ لیکن یہ بھی ناکافی تھا۔تاہم انجن اسٹارٹ کیا تو کشتی چل نکلی۔ خدا کا ایسا فضل ہوا کہ کچھ دیر کے بعدہی ہم ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں سے ہمیں کچھ مچھیرے نظر آئے گو کہ وہ بہت دور تھے لیکن ہمارے اشاروں کو انہوں نے سمجھ لیا اور ایک مچھیرا کشتی دوڑاتا ہوا کچھ دیر میں ہم تک پہنچ گیااور ہماری کشتی کو اپنی کشتی سے باندھ کر کنارے تک لے گیا۔سب خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے اترے اور زمین پر سجدہ ریز ہوکر خدا تعالیٰ کے فضل اور نعمت کا شکر ادا کیا۔
بہر حال تقریباًدس دن کے سفر میں مختلف ملکوں سے ہوتے ہوئے ہم جرمنی پہنچ گئے۔ جرمنی میں ہمیں ہر سہولت دی گئی او ر تین ماہ کے عرصہ میں ہمیں گھر بھی مل گیا۔ وَلِلہ الحمد۔
جلسہ سالانہ اور لقائِ حبیب
اس کے بعد وہ دن بھی آگیا جس کا ہمیں مدتوں سے انتظار تھا۔ یعنی خلیفۂ وقت کی زیارت اور اس جلسہ میں شمولیت جس میں خلیفۂ وقت شامل ہوتے ہیں۔ میں نے اپنی زندگی میں ایسا جلسہ پہلی بار دیکھا تھا۔ ہزاروں کے مجمع کے کھانے پینے اور ٹھہرنے کے منظم بندوبست کے علاوہ سوال وجواب کی مجالس او ر علمی و تربیتی موضوعات پر غیر معمولی تاثیروالے خطابات اور تہجد ونمازوں میں رقت آمیز مناظر اس اجتماع کو ایک غیر معمولی روحانیت سے معمور کررہے تھے۔ ایسے لگتا تھا یہ جنت نما کوئی مقام ہے جہاں ہمیںتین روز کے لئے ٹھہرنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔
جلسہ کے بعد وہ گھڑی بھی آپہنچی جس کا ہر احمدی کو بشدت انتظار ہوتا ہے۔ یعنی حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ہماری ملاقات کا دن بھی آگیا۔ لوگوں کی کثرت کی وجہ سے اجتماعی ملاقات ہوئی جس کے بعد ہر فیملی کی حضور انو رکے ساتھ علیحدہ تصویر ہوئی۔ حضور انور کی مبارک مجلس میں گزارے جانے والے یہ مختصر لمحات میر ی زندگی کے خوبصورت ترین لمحات تھے ۔
ایک افسوسناک حادثہ
شروع سال2017ءمیں ایک ایسا حادثہ پیش آیا جس نے ہمیں ہلا کررکھ دیا۔ سیریا کے برے حالات کے باوجود میری اہلیہ کے والدین ابھی ہماری آبائی بستی حُوش عرب میں ہی رہ رہے تھے۔جنوری کے دوسرے ہفتے میں ایک رات گیس سے چلنے والا ہیٹر کھلا رہ گیا اور اس کی گیس پورے گھر میں پھیل گئی۔صبح کے وقت میری ساس مکرمہ سعدہ برتاوی صاحبہ ہیٹر کو چلانے کے لئے آئیں اور جونہی آگ جلانے کی کوشش کی تو ایک بڑا دھماکہ ہوا اوروہ آگ کی لپیٹ میں آگئیں۔اس حادثے میں ان کے جسم کا اکثر حصہ متاثر ہوا۔ گھر میں موجود میرے سسر اور سالی بھی آگ کی لپیٹ میں آئے ، گھر کے دروازے اور کمرے کی ایک دیواربھی گر گئی۔انہیں ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں بظاہر ان کی حالت سنبھل گئی او رہماری ان سے بات بھی ہوگئی۔ ایک ہفتے کے بعد انہیں ہارٹ اٹیک ہوگیا جس میں وہ جانبر نہ ہوسکیں اور محض 42سال کی عمر میں اللہ کو پیاری ہوگئیں۔اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
انہوں نے اپنے خاوند کے بعد 2004ء میں بیعت کی تھی لیکن اخلاص و وفا میں اپنے خاوند اور بچوں سے بہت آگے تھیں۔ بہت نیک، پارسا اور ہمدرد خاتون تھیں۔ ان کے میاں کوجب کسی کے ساتھ کوئی نیکی کرنے کا خیال آتا اور وہ اپنی اہلیہ سے اس کے بارہ میں بات کرتے تو وہ بتاتیں کہ مجھے بھی یہی خیال آیا تھا اور مَیں نے اس یقین سے اس پر عمل کر دیا ہے کہ آپ مخالفت نہیں کریں گے۔ خاوند ابھی سوچ رہا ہوتا تھا اور یہ نیکی کر چکی ہوتی تھیں ۔
میرے سسر 2009ء سے 2013ء تک گرفتار رہے اور اس دوران میر ی ساس نے بہت محنت کر کے بچوں کا پیٹ پالا اورگزشتہ قرض بھی ادا کئے۔
جب ہم ترکی سے یورپ جانے کی کوشش کررہے تھے تو ہمارے ہاتھ میں اس سفر کے لئے معقول رقم نہ تھی۔ اس دوران ہمارے ہاں بیٹے کی پیدائش بھی ہوئی تھی۔ چنانچہ میری ساس اپنے ایک بیٹے کو لے کر سیریا سے ترکی آئیں اوراپنے نواسے کو بھی دیکھا اور ایک خطیر رقم ہمارے حوالے کردی اورپھر ہماری روانگی سے ایک روز قبل سیریا واپس چلی گئیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت فرمائے اور کروٹ کروٹ جنت الفروس میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین
حضور انور نے ازراہ شفقت 24فروری 2017ءکے خطبہ جمعہ میں ان کا ذکر خیر فرما کران کی نماز جنازہ غائب پڑھائی۔ فالحمد للہ علیٰ ذلک۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنی رحمت کی ردا میں ڈھانپ لے اور ہمیں اور ہماری اولادوں کو جماعت اور خلافت سے ہمیشہ وابستہ رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
(باقی آئندہ)