خطبہ جمعہ مورخہ 12؍مئی 2017ء
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 12؍مئی 2017ء بمطابق12؍ہجرت 1396 ہجری شمسی بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے
دوسری دنیا تو انبیاء کی تاریخ پڑھتی ہے یا سنتی ہے، دوسرے مسلمان قرآن کریم میں انبیاء اور ان کے ماننے والوں کی باتیں پڑھتے اور سنتے ہیں اور
ابتدائی مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے واقعات اور ان کی مظلومیت کی باتیں پڑھتے ہیں یا اپنے علماء سے سنتے ہیں لیکن احمدی مسلمان وہ ہیں جو مسیح محمدی کو ماننے کی وجہ سے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کو ماننے کی وجہ سے، اسلام کی نشا ٔۃ ثانیہ کے لئے آنے والے اللہ تعالیٰ کے فرستادے پر ایمان لانے کی وجہ سے عملاً اس حالت سے گزر رہے ہیں جو دوسروں کے لئے شاید مذہبی مظالم کے پرانے واقعات اور داستانیں ہوں۔
ہم وہ لوگ ہیں اور ہمیں ایسا ہونا چاہئے کیونکہ ہم نے مسیح موعود کو مانا ہے جو دنیاوی آزمائشوں اور مخالفین کی دشمنیوں کی وجہ سے نہ صبر کا دامن ہاتھ سے
چھوڑنے والے ہیں، نہ اپنے ایمان سے پیچھے ہٹنے والے ہیں۔ ہم اس بات کا اِدراک رکھنے والے ہیں کہ ہمارے دکھوں کا مداوا صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ ہمیں تکلیف کے وقت دنیاداروں کے سامنے نہیں بلکہ سب طاقتوں کے مالک خدا کے سامنے جھکنا ہے۔ اس سے مدد مانگنی ہے۔ وہی ہے جو ہمیں
ہمارے صبر اور دعا کی وجہ سے ان مشکلات سے نجات دلانے والا ہے اور نجات دلائے گا انشاء اللہ ۔
ایک صابر اور اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والے مومن کے لئے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوشخبریاں ہی خوشخبریاں ہیں۔
قرآن و حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں مخالفتوں اور مظالم پر صبر کرنے اور دعاؤں سے کام لینے کی تاکیدی ہدایات کا تذکرہ
آجکل جماعت احمدیہ کے افراد پر مختلف ممالک میں سختی، پریشانی اور تکلیف کے جو حالات ہیں اس پر ہمارا کام ہے کہ صبر اور دعا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد مانگتے ہوئے
اس کے آگے جھکیں۔ وہی ہے جو ائمۃ الکفر کو پکڑ کر ہمیں ان سے بچانے کی، ان کے مکروں سے بچانے کی، ان کی تدبیروں سے بچانے کی سب سے زیادہ طاقت رکھتا ہے
اور جماعت کی تاریخ میں ہم یہی دیکھتے آئے ہیں کہ دشمن اپنی تمام تر طاقتوں اور وسائل کے باوجود بھی ناکام و نامراد ہی ہوا ہے اور جماعت کا قدم آگے ہی بڑھتا چلا گیا ہے۔
پاکستان میں بھی آجکل آزاد کشمیر میں پاکستانی مُلّاںکے زیر اثر وہاں کا مُلّاں بھی اور وہاں کے سیاستدان بھی احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی قرار داد کشمیر اسمبلی میں پیش کررہے ہیں بلکہ پیش ہوئی ہے۔ بہرحال یہ لوگ جو کچھ بھی کرنا چاہیں کر لیں۔ پاکستان کی اسمبلی نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے کر کیا حاصل کر لیا؟ کون سی جماعت کی ترقی رک گئی؟ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت تو نئی سے نئی وسعتوں کو حاصل کرتی چلی جا رہی ہے۔ لیکن افراد جماعت کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ صبر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد کے لئے دعا کرنا اور اس کے آگے جھکنا، اپنی نمازوں اور عبادتوں کی حفاظت کرنا ہر احمدی کا فرض ہے اور یہی چیز جو ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا مزید وارث بنائے گی۔
الجزائر، بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور عرب ممالک میں احمدیت کی مخالفت کا تذکرہ۔
گزشتہ دنوں بنگلہ دیش میں مولویوں کی طرف سے ہماری مسجد پر حملہ ہوا جس میں ہمارے مربی چاقوؤں اور خنجروں کے وار سے شدید زخمی ہوئے۔
بعض احمدیوں کے متعلق شکایت ہے کہ وہ تبلیغ کے دوران مخالف کے لئے سخت زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ اگر یہ بات سچ ہے تو بہتر ہے کہ وہ تبلیغ نہ کیا کریں۔ یہ تبلیغ انہیں اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے کے بجائے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب بنانے والی ہوتی ہے۔ اگر یہ صحیح ہے کہ سوشل میڈیا پر بعض احمدی
چِڑ کر غلط رنگ میں اور سختی سے ان لوگوں کے جواب دیتے ہیں تو غلط کرتے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اس طرح ہم صرف یہ ایک گناہ نہیں کر رہے
بلکہ اس گناہ کے بھی مرتکب ہو رہے ہیں کہ نئی نسل کو بھی احمدیت سے دُور کر رہے ہیں۔ بعض نوجوانوں میں خیال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے پاس دلیل نہیں تھی
شاید اس لئے ہم سختی سے جواب دے رہے ہیں حالانکہ یہ غلط ہے۔ پس ایسے لوگوں کو فوری طور پر اپنے رویّے بدلنے کی ضرورت ہے۔
مکرم پی پی ناظم الدین صاحب آف پینگاڈی کیرالہ، انڈیاکی وفات۔ مرحوم کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوٰۃِ۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ (البقرۃ:154) اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو (اللہ سے) صبر اور صلوۃ کے ساتھ مدد مانگو۔ یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
انسان کی زندگی میں بہت سے مسائل آتے ہیں جن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ذاتی طور پر بہت سی دنیاوی مشکلات میں سے انسان گزرتا ہے۔ ایسے حالات آتے ہیں جہاں سوائے صبر کے اور کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ مال، اولاد اور دنیاوی چیزوں کا نقصان ہوتا ہے۔ یا تو دنیا دار رو پیٹ کر ایسے حالات میں یہ نقصان برداشت کر لیتا ہے اور اکثر میں تو یہ برداشت نہیں ہوتا کیونکہ اس برداشت کرنے میں بھی ایک دنیا دار جیسے برداشت کررہا ہوتا ہے کئی کفریہ کلمات اور اللہ تعالیٰ سے شکوے کے الفاظ منہ سے نکل جاتے ہیں۔ یا بعض ایسے ہوتے ہیں جو دنیاوی نقصانوں کو برداشت نہ کرتے ہوئے بعض دفعہ دماغی توازن ہی کھو بیٹھتےہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو صرف اس لئے جان، مال کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے یا ذہنی اذیّتوں سے گزرنا پڑتا ہے یا جسمانی اذیتیں مار دھاڑ کی صورت میں برداشت کرنی پڑتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو مانتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کسی نبی اور اللہ تعالیٰ کے فرستادے پر وہ لوگ ایمان لانے والے ہوتے ہیں۔ گویا ان کے دنیاوی مالی نقصان بھی خدا تعالیٰ کی خاطر ہوتے ہیں۔ جانی نقصان بھی خدا تعالیٰ کے لئے ہوتے ہیں۔ لیکن وہ اس سب نقصان سے بغیر کسی شکوے کے گزر جاتے ہیں۔ ہاں اللہ تعالیٰ سے دعا ضرور کرتے ہیں کہ اے اللہ! اب جبکہ ہم پر یہ سب کچھ تیرے بھیجے ہوئے کو ماننے کی وجہ سے وارد کیا جا رہا ہے تو ہمارے صبر کی طاقتوں کو بھی بڑھا اور خود ہی ہماری مدد کو آ اور ان ظالموں کے ظلموں سے ہمیں بچا۔ تیری خاطر جس امتحان سے ہم گزر رہے ہیں اس میں ثبات قدم بھی عطا فرما۔
دوسری دنیا تو انبیاء کی تاریخ پڑھتی ہے یا سنتی ہے، دوسرے مسلمان قرآن کریم میں انبیاء اور ان کے ماننے والوں کی باتیں پڑھتے اور سنتے ہیں اور ابتدائی مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے واقعات اور ان کی مظلومیت کی باتیں پڑھتے ہیں یا اپنے علماء سے سنتے ہیں لیکن احمدی مسلمان وہ ہیں جو مسیح محمدی کو ماننے کی وجہ سے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کو ماننے کی وجہ سے، اسلام کی نشا ٔۃ ثانیہ کے لئے آنے والے اللہ تعالیٰ کے فرستادے پر ایمان لانے کی وجہ سے عملاً اس حالت سے گزر رہے ہیں جو دوسروں کے لئے شاید مذہبی مظالم کے پرانے واقعات اور داستانیں ہوں۔
بعض اور گروہ اور فرقے بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم بھی مذہب کی وجہ سے مخالفتوں اور دشمنیوں کا سامنا کر رہے ہیں لیکن یہ سب لوگ یہ جماعتیں یا گروہ جو ہیں، وہ موقع ملنے پر اپنے مخالفین اور دشمنوں سے اسی طرح ظلم کر کے بدلہ بھی لے لیتے ہیں جس طرح کے ظلم ان پر ہوئے ہوتے ہیں لیکن احمدی ہی ہیں جو مومن ہونے کا نمونہ دکھاتے ہوئے، قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیتے ہوئے، ظلموں پر صبر کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہیں ا ور اس سے مدد مانگتے ہیں۔ پس احمدی مسلمانوں میں اور دنیا کے دوسرے لوگوں میں یہ ایک بہت بڑا فرق ہے۔
ہم وہ لوگ ہیں اور ہمیں ایسا ہونا چاہئے کیونکہ ہم نے مسیح موعود کو مانا ہے، جو دنیاوی آزمائشوں اور مخالفین کی دشمنیوں کی وجہ سے نہ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے والے ہیں، نہ اپنے ایمان سے پیچھے ہٹنے والے ہیں۔ ہم اس بات کا اِدراک رکھنے والے ہیں کہ ہمارے دکھوں کا مداوا صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ ہمیں تکلیف کے وقت دنیاداروں کے سامنے نہیں بلکہ سب طاقتوں کے مالک خدا کے سامنے جھکنا ہے۔ اس سے مدد مانگنی ہے۔ وہی ہے جو ہمیں ہمارے صبر اور دعا کی وجہ سے ان مشکلات سے نجات دلانے والا ہے اور نجات دلائے گا انشاء اللہ ۔ وہ کبھی خالص ہو کر اپنی طرف جھکنے والوں کو خالی ہاتھ واپس نہیں کرتا۔ وہ جو اس کی خاطر، اس کی قائم کردہ جماعت کی خاطر قربانیاں دیتے ہیں انہیں ضرور جزا دیتا ہے۔ ہم تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پر عمل کرنے والے ہیں اور اس کا اِدراک رکھنے والے ہیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اس کا تمام معاملہ خیر پر مشتمل ہے اور یہ مقام صرف مومن کو حاصل ہے۔ اگر اس کو کوئی خوشی پہنچتی ہے تو یہ اس پر شکر بجا لاتا ہے، الحمد للہ پڑھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوتا ہے تو یہ امر اس کے لئے خیر کا موجب ہوتا ہے اور اگر اس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو یہ صبر کرتا ہے تو یہ امر بھی اس کے لئے خیر کا موجب بن جاتا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الزھد والرقائق باب المؤمن امرہ کلّہ خیر حدیث 7500)
اللہ تعالیٰ کے راستہ میں بڑی تکلیفیں پہنچنا یا بڑی بڑی تکلیفیں پہنچنا اور اس پر صبر اور دعا بندے کو خیر کا موجب بناتے ہی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ تو اپنے بندوں کو نوازنے والی وہ ہستی ہے جو چھوٹی سے چھوٹی تکلیف جو مومن کو پہنچتی ہے اس پر بھی اسے نوازے بغیر نہیں چھوڑتا۔ چنانچہ اس بات کو بیان فرماتے ہوئے ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان کو جو بھی تھکاوٹ، بیماری، بے چینی، تکلیف اور غم پہنچتا ہے یہاں تک کہ اگر اس کو کوئی کانٹا بھی چبھتا ہے تو اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ اس کی بعض خطائیں معاف کر دیتا ہے۔ (صحیح البخاری کتاب المرضی باب ما جاء فی کفارۃ المرض حدیث 5641)
پس یہ ہے ہمارا وہ رحیم و کریم خدا جو ایک مومن کو ذرا ذرا سی بات پر نوازتا ہے۔ ایک صابر اور اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والے مومن کے لئے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوشخبریاں ہی خوشخبریاں ہیں۔
پھر ایک اور موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صبر اور دعا کی اہمیت بتاتے ہوئے اور اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ کے سلوک کا ذکر فرماتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں بہنے والا قطرۂ خون اور رات کے وقت نفل پڑھتے ہوئے خشیت باری تعالیٰ کے نتیجہ میں آنکھ سے ٹپکنے والے قطرے سے زیادہ کوئی قطرہ اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کو کوئی گھونٹ غم کے اس گھونٹ سے زیادہ پسند ہے جو انسان صبر کرکے پیتا ہے۔ یعنی انسان کی مشکلات کے وقت غم کی جو حالت ہوتی ہے اس پر جب انسان صبر کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی خاطر صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو وہ صبر بے انتہا پسند آتا ہے۔ اور فرمایا اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کو غصہ کے گھونٹ سے زیادہ کوئی گھونٹ پسند نہیں ہے جو غصہ دبانے کے نتیجہ میں انسان پیتا ہے۔ غصہ کرنے والا گھونٹ نہیں، غصہ دبانے والا گھونٹ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ جلد 8 صفحہ 141 کتاب الزھد باب ما ذکر عن نبیناﷺ فی الزھد حدیث 108 مطبوعہ دارالفکر بیروت)۔ بہت سے مواقع آتے ہیں انسان غصہ دباتا ہے، صبر کرتا ہے اور صرف اللہ تعالیٰ کی خاطر صبر کرتا ہے تو اس سے وہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بنتا ہے۔
پس چاہے ذاتی معاملات ہوں جن کی وجہ سے کسی سے نقصان پہنچ رہا ہو یا جماعتی معاملات ہوں اگر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے، اگر اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اصول بیان فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنا اور صبر کا مظاہرہ کرنا اللہ تعالیٰ کا قرب دلاتا ہے۔ اور ایک روایت میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مقرب بندوں کے لئے بڑی غیرت رکھتا ہے اور دشمن کو پکڑتا ہے جو اس کو تکلیف اور نقصان پہنچانے والے ہوتے ہیں۔ (صحیح البخاری کتاب الرقاق باب التواضع حدیث 6502)
پس جس معاملے کو اللہ تعالیٰ اپنے ہاتھ میں لیوے اس کو بندے کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کیا ضرورت ہے۔ بلکہ یہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی طرف جھکنے والوں اور صبر کرنے والوں کے دشمنوں سے بدلہ لیتا ہے بلکہ ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب بندے پر ظلم کیا جائے اور وہ صبر سے کام لے تو اللہ تعالیٰ اسے عزت بخشتا ہے۔ (سنن الترمذی ابواب الزھد باب ما جاء مثل الدنیا مثل اربعۃ نفر حدیث 2325)۔ اور جسے خدا تعالیٰ عزت بخشے اس سے بڑا ایک بندے کے لئے کیا اعزاز ہو سکتا ہے۔
پس آجکل جماعت احمدیہ کے افراد پر مختلف ممالک میں جو سختی، پریشانی اور تکلیف کے حالات ہیں اس پر ہمارا کام ہے کہ صبر اور دعا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد مانگتے ہوئے اس کے آگے جھکیں۔ وہی ہے جو ائمۃ الکفر کو پکڑ کر ہمیں ان سے بچانے کی، ان کے مکروں سے بچانے کی، ان کی تدبیروں سے بچانے کی سب سے زیادہ طاقت رکھتا ہے اور جماعت کی تاریخ میں ہم یہی دیکھتے آئے ہیں کہ دشمن اپنی تمام تر طاقتوں اور وسائل کے باوجود بھی ناکام و نامراد ہی ہوا ہے اور جماعت کا قدم آگے ہی بڑھتا چلاگیاہے۔
مشکلات اور تکلیفوں کے دَور سے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو بھی گزرنا پڑا اور ان سے گزر کر ہی پھر کامیابیاں ملیں تو ہم کیا چیز ہیں جو بغیر کسی تکلیف برداشت کئے کامیابیاں حاصل کر لیں گے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس تکلیف دہ دور کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :
’’تیرہ برس کا زمانہ کم نہیں ہوتا۔ اس عرصہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جس قدر دکھ اٹھائے ان کا بیان بھی آسان نہیں ہے۔ قوم کی طرف سے تکالیف اور ایذا رسانی میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی جاتی تھی۔‘‘ فرمایا کہ ’’اور ادھر اللہ تعالیٰ کی طرف صبر و استقلال کی ہدایت ہوتی تھی‘‘۔ (ایک طرف تو قوم تکلیفوں پر تکلیفیں دئیے چلی جا رہی ہے دوسری طرف اللہ تعالیٰ کا حکم یہ تھا کہ صبر کرو اور استقلال دکھلاؤ۔) فرماتے ہیں کہ ’’اور بار بار حکم ہوتا تھا کہ جس طرح پہلے نبیوں نے صبر کیا ہے تُو بھی صبر کر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کمال صبر کے ساتھ ان تکالیف کو برداشت کرتے تھے اور تبلیغ میں سُست نہ ہوتے تھے بلکہ قدم آگے ہی پڑتا تھا‘‘۔ فرمایا ’’اور اصل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صبر پہلے نبیوں کا سا نہ تھا کیونکہ وہ تو ایک محدود قوم کے لئے مبعوث ہو کر آئے تھے اس لئے ان کی تکالیف اور ایذارسانیاں بھی اسی حد تک محدود ہوتی تھیں۔ لیکن اس کے مقابلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صبر بہت ہی بڑا تھا کیونکہ سب سے اوّل تو اپنی ہی قوم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالف ہو گئی اور ایذا رسانی کے درپَے ہوئی اور پھر عیسائی بھی دشمن ہوگئے‘‘۔ (ملفوظات جلد 7 صفحہ 198-199۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس جب ہم اس شخص کی بیعت میں آ کر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں اسلام کی نشاۃثانیہ کے لئے آیا ہے اور تمام مذاہب پر اسلام کی برتری ثابت کرنے کے لئے آیا ہے اور مسلمانوں کی بھی جو فرقہ بندیاں ہیں انہیں ختم کر کے ایک ہاتھ پر جمع کر کے اُمّت واحدہ بنانے کے لئے آیا ہے تو ہمیں بھی اپنوں اور غیروں، سب کی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ غیر تو اس وقت دنیا کے اکثر ممالک میں کھل کر اس طرح مخالفت نہیں کرتے جس طرح اسلام کے پہلے دَور میں مسلمانوں کو ان مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ بلکہ یہ لوگ جو غیر مسلم ہیں اگر وہ مخالفت کرتے ہیں تو بڑے طریقے سے اور بڑا سوچ سمجھ کر اسلام پر حملے کرنے کے ایسے طریقے اختیار کرتے ہیں جو یہ کہہ سکیں کہ دیکھو ہم نے ظلم کوئی نہیں کیا۔ لیکن مخالفتیں بہرحال کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کا دفاع بھی ہم نے اسی طریقے سے کرنا ہے۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ جو ہتھیار اسلام کے مخالفین اسلام کو ختم کرنے کے لئے استعمال کر رہے ہیں وہی ہم نے کرنے ہیں۔ اور وہ لٹریچر اور تبلیغ کا ہتھیار ہے۔ (ماخوذ از چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 93)
جب غیر مسلم دنیا میں اسلام پھیلنا شروع ہو گا تو پھر غیر مسلم ممالک بھی جماعت کی مخالفت کریں گے۔ جب وہ دیکھیں گے کہ یہاں کے مقامی لوگ بھی اسلام قبول کر رہے ہیں بلکہ بعض جگہ ایسے واقعات ہو بھی جاتے ہیں۔ شروع میں بعض چرچوں نے بڑی خوش دلی سے ہمیں اپنے فنکشن کرنے کے لئے جگہ دی لیکن جب دیکھا کہ لوگوں کا رجحان اس طرف بڑھ رہا ہے تو مخالفت شروع ہو گئی اور دینے سے انکار کر دیا۔ ان کو پتا لگ رہا ہے کہ یہ اسلام جو حقیقی اسلام ہے، جماعت احمدیہ جس کی تبلیغ کرتی ہے اور پھیلا رہی ہے یہ ایک وقت میں غلبہ حاصل کر لے گا اور یہ مقدر ہے کہ حقیقی اسلام جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے ہی پھیلنا ہے لیکن اس وقت مُلّاں جو ہے، مسلمان لوگ جو ہیں اور مسلمانوں کے مُلّاں اپنے منبر کے چھن جانے کے خوف سے ہر جگہ مخالفت میں پیش پیش ہیں۔ اسی طرح ظلم کر رہے ہیں جس طرح پرانے زمانے میں مذاہب پر کئے گئے۔ سیاستدان بھی اس خوف سے کہ مُلّاں کے پیچھے چلنے والا ووٹر ہمارے ہاتھ سے نہ جاتا رہے، ووٹ اور سستی شہرت کے لئے ان کے پیچھے چلتے ہیں ورنہ ان لوگوں کو تو مذہب کی الف، ب کا بھی پتہ نہیں۔ اکثریت شاید نماز بھی نہ پڑھتی ہو بلکہ شاید ہی کبھی جمعہ کی نماز پہ آتے ہوں اور عید کی نماز پڑھنے والے ہوں۔ لیکن اسلام کی غیرت کے نام پر احمدیوں پر حملے ضرور کرتے ہیں یا اسمبلیوں میں قانون پاس کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔
پاکستان میں بھی آجکل آزاد کشمیر میں پاکستانی مُلّاں کے زیر اثر وہاں کا مُلّاں بھی اور وہاں کے سیاستدان بھی احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی قرار داد کشمیر اسمبلی میں پیش کر رہے ہیں بلکہ پیش ہوئی ہے۔ بہرحال یہ لوگ جو کچھ بھی کرنا چاہیں کر لیں۔ پاکستان کی اسمبلی نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے کر کیا حاصل کر لیا؟ کون سی جماعت کی ترقی رک گئی؟ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت تو نئی سے نئی وسعتوں کو حاصل کرتی چلی جا رہی ہے۔ لیکن افراد جماعت کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ صبر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد کے لئے دعا کرنا اور اس کے آگے جھکنا، اپنی نمازوں اور عبادتوں کی حفاظت کرنا ہر احمدی کا فرض ہے اور یہی چیز جو ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا مزید وارث بنائے گی۔
پھر الجزائر میں مخالفت ہے جیسا کہ گزشتہ خطبوں میں کئی دفعہ مَیں ذکر کر چکا ہوں۔ احمدیت کی وجہ سے کئی لوگ جیل میں ہیں جن کو ایک سال سے تین سال تک کی سزا دی گئی ہے۔ درجنوں احمدیوں کی سزاؤں کے اعلان ہو چکے ہیں۔ ابھی تک جیل میں تو نہیں بھیجا لیکن کسی وقت بھی پکڑ کر ان کو جیل میں بھیجا جا سکتا ہے۔ مختلف قسم کی پابندیاں صرف اس لئے عائد ہیں کہ وہاں بھی مُلّاں کو احمدیت کی ترقی کھٹک رہی ہے اور ان سے یہ برداشت نہیں ہو رہا۔
اسی طرح بنگلہ دیش میں مسلسل مخالفت چلتی رہتی ہے۔ انڈونیشیا میں چلتی ہے۔ عرب ممالک میں چلتی ہے۔ لیکن گزشتہ دنوں بنگلہ دیش میں ایک جگہ جس کا نام شوھاگی ہے۔ ضلع میمن سنگھ کا یہ قصبہ ہے۔ یہاں کی ہماری مسجد پر مولویوں نے حملہ کیا اور ہمارے مربی مستفیض الرحمن صاحب کو چاقوؤں کے وار کرکرکے، خنجروں کے وار کر کے شدید زخمی کر دیا۔ اتنے کاری اور شدید وار چاقو کے ساتھ یا خنجر کے ساتھ کئے کہ سارا جسم ان کا چھلنی کر دیا۔ پیٹ میں بھی ایسی جگہ وار ہوئے۔ کہتے ہیں کہ ان کا گردہ بھی باہر آ گیا۔ گردن پر وار تھے۔ بس شَہ رگ کٹنے سے بچ گئی۔ لیکن دیکھنے والے بتاتے ہیں کہ ہر جگہ سے خون کے فوّارے نکل رہے تھے۔ بہرحال پولیس موقع پر پہنچ گئی۔ وہ آئی اور حملہ آوروں سے نکال کر انہیں لے گئی اور ہسپتال پہنچایا۔ جماعت کے افراد بھی پہنچ گئے۔ خدام فوراً پہنچے جنہوں نے خون دیا۔ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا کہ میڈیکل ایڈ پہنچ گئی۔ ہسپتال پہنچ گئے جہاں اچھے ڈاکٹر بھی تھے اور اچھا علاج بھی ہوتا رہا۔ کئی گھنٹے کا ان کا آپریشن ہوا۔ بہرحال کل تک کی جو اطلاع ہے اس کے مطابق stable تو ہیں لیکن ابھی حالت خطرے سے باہر نہیں۔ گو کہ تھوڑی سی ہوش میں بھی آ گئے ہیں اور ہوش میں آنے کے بعد بول تو نہیں سکتے تھے لیکن کاغذ قلم لے کر انہوں نے لکھ کر جو باتیں کی ہیں اس میں بھی یہی لکھ کر دیا کہ فلاں مربی صاحب کی حفاظت کا انتظام رکھیں کیونکہ ان کو بھی خطرہ ہے یا اپنے والدین کی فکر کا اظہار کیا اور اس تکلیف میں سے گزرنے کے باوجود بھی ایک مومن کی شان ہے کہ دوسروں کی فکر ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو صحت و سلامتی والی لمبی زندگی بھی عطا فرمائے اور کامل اور جلد شفا عطا فرمائے۔
بہرحال مخالفتوں کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پہلے ہی ہمیں یہ بتا دیا تھا کہ اگر احمدیت قبول کی ہے تو ان سختیوں سے بھی گزرنا پڑے گا۔ چنانچہ ایک موقع پر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’ ہماری جماعت کے لئے بھی اسی قسم کی مشکلات ہیں جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت مسلمانوں کو پیش آئے تھے۔ چنانچہ نئی اور سب سے پہلی مصیبت تو یہی ہے کہ جب کوئی شخص اس جماعت میں داخل ہوتا ہے تو معاً دوست، رشتہ دار اور برادری الگ ہو جاتی ہے یہاں تک کہ بعض اوقات ماں باپ اور بھائی بہن بھی دشمن ہو جاتے ہیں۔ السلام علیکم تک کے روادار نہیں رہتے اور جنازہ پڑھنا نہیں چاہتے ۔ اس قسم کی بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں‘‘۔ فرمایا کہ ’’مَیں جانتا ہوں کہ بعض کمزور طبیعت کے آدمی بھی ہوتے ہیں اور ایسی مشکلات پر وہ گھبرا جاتے ہیں۔ لیکن یاد رکھو کہ اس قسم کی مشکلات کا آنا ضروری ہے۔ تم انبیاء و رسل سے زیادہ نہیں ہو۔ ان پر اس قسم کی مشکلات اور مصائب آئیں اور یہ اسی لئے آتی ہیں کہ خدا تعالیٰ پر ایمان قوی ہو اور پاک تبدیلی کا موقعہ ملے۔ دعاؤں میں لگے رہو۔ پس یہ ضروری ہے کہ تم انبیاء و رسل کی پیروی کرو اور صبر کے طریق کو اختیار کرو۔ تمہارا کچھ بھی نقصان نہیں ہوتا۔ وہ دوست جو تمہیں قبولِ حق کی وجہ سے چھوڑتا ہے وہ سچا دوست نہیں ہے۔‘‘ (اس کی وجہ سے فکر کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ تمہارا سچا دوست نہیں ہے) ’’ورنہ چاہئے تھا کہ تمہارے ساتھ ہوتا۔ تمہیں چاہئے کہ وہ لوگ جو محض اس وجہ سے تمہیں چھوڑتے اور تم سے الگ ہوتے ہیں کہ تم نے خدا تعالیٰ کے قائم کردہ سلسلہ میں شمولیت اختیار کر لی ہے ان سے دنگا یا فساد مت کرو بلکہ ان کے لئے غائبانہ دعا کرو‘‘۔ (ہمارا رویّہ پھر بھی یہی ہو کہ دوسرے دشمنی کر رہے ہیں تو ہم نے ان کے پیچھے ان کے لئے دعا کرنی ہے۔فرمایا یہ دعا کرو)’’ کہ اللہ تعالیٰ ان کو بھی وہ بصیرت اور معرفت عطا کرے جو اس نے اپنے فضل سے تمہیں دی ہے۔ تم اپنے پاک نمونہ اور عمدہ چال چلن سے ثابت کر کے دکھاؤ کہ تم نے اچھی راہ اختیار کی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 7 صفحہ 203۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)۔ احمدیت قبول کر کے کوئی جرم نہیں کیا کوئی گناہ نہیں کیا کسی گند میں نہیں گئے بلکہ یہ اچھا رستہ ہے جو تم نے اختیار کیا۔
پس یہ وہ ردّعمل ہے جو ان حملوں کے بعد ہم نے دکھانا ہے اور ہمیں دکھانا چاہئے۔ بیشک قانونی چارہ جوئی ہم کرتے ہیں۔ دعا بھی ان کی اصلاح کے لئے کرتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی جو مجرم ہیں ان کے لئے قانونی چارہ جوئی بھی کرتے ہیں اور کریں گے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے لیکن کبھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے اور نہ چھوڑیں گے اور نہ چھوڑنا چاہئے اور ہر مصیبت اور مشکل میں اللہ تعالیٰ کے آگے ہی ہم جھکتے ہیں اور اسی کے آگے جھکیں گے انشاء اللہ۔
لیکن بعض دفعہ بعض لوگوں کے بارے میں مجھے شکایات ملتی ہیں کہ ان کو ایسی مشکلات بھی نہیں، یہاں بیٹھے ہوئے ہیں اور یہاں ان کو تبلیغ کے مواقع بھی میسر آتے ہیں۔ وہ بعض دفعہ براہ راست تبلیغ کرتے ہوئے بعض لوگوں کو یا سوشل میڈیا پر مولویوں کو تبلیغ کرتے ہوئے یا بعض دفعہ ان سے مناظرہ کرتے ہوئے ایسی سخت زبان استعمال کرتے ہیں جو احمدی کے شایان شان نہیں ہے۔ اور بعض لکھنے والے مجھے لکھتے ہیں کہ احمدیوں کے منہ سے ایسی گندی گالیاں اور ایسی گفتگو سن کر بڑی پریشانی ہوتی ہے جو ان لوگوں کے منہ سے اپنے مخالفین کے لئے، غیر احمدی مولویوں کے لئے یا جس سے مناظرہ کر رہے ہوتے ہیں اس کے لئے نکل رہی ہوتی ہیں۔ بہرحال یہ باتیں کسی طرح بھی ایک احمدی کو زیب نہیں دیتیں۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ یہ کہاں تک سچ ہے۔ مَیں نے خود تو نہیں دیکھا لیکن مجھے لکھنے والوں نے لکھا کہ جب ایسی گفتگو ہوتی ہے تو احمدیوں کے مقابلہ میں غیراحمدیوں کی زبان زیادہ نرم ہوتی ہے۔ اگر تو یہ بات سچ ہے تو پھر مَیں ایسے احمدیوں سے کہوں گا کہ بہتر ہے وہ تبلیغ نہ کیا کریں ۔ یہ تبلیغ ان کو اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے کے بجائے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب بنانے والی ہو گی۔ جیسا کہ حدیث میں بیان ہوا ہے اللہ تعالیٰ کو تو صبر اور غصہ کا گھونٹ پینے والا پسند ہے۔ ہم تو اعلان ہی یہ کرتے ہیں کہ غصہ آتا ہی انہیں ہے جن کے پاس کوئی دلیل نہ ہو۔ پس اگر ہمارے پاس دلیل ہے تو غصہ کا پھر کوئی جواز نہیں ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’دیکھو مَیں اس امر کے لئے مامور ہوں کہ تمہیں بار بار ہدایت کروں کہ ہر قسم کے فساد اور ہنگامہ کی جگہوں سے بچتے رہو اور گالیاں سن کر بھی صبر کرو۔ بدی کا جواب نیکی سے دو اور کوئی فساد کرنے پر آمادہ ہو تو بہتر ہے کہ تم ایسی جگہ سے کھسک جاؤ اور نرمی سے جواب دو۔ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص بڑے جوش کے ساتھ مخالفت کرتا ہے اور مخالفت میں وہ طریق اختیار کرتا ہے جو مفسدانہ طریق ہو جس سے سننے والوں میں اشتعال کی تحریک ہو۔ لیکن جب سامنے سے نرم جواب ملتا ہے اور گالیوں کا مقابلہ نہیں کیا جاتا تو خود اسے شرم آ جاتی ہے‘‘۔ (تو ہمارے لئے تو یہ تعلیم ہے کہ گالیاں بھی ہیں تو نرمی سے جواب دو۔) فرمایا کہ’’خود اسے شرم آ جاتی ہے اور وہ اپنی حرکت پر نادم اور پشیمان ہونے لگتا ہے۔‘‘ (کئی دفعہ ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ جن مخالفین کی نیک فطرت تھی ان کو شرم آئی۔ فرمایا کہ) ’’مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ صبر کو ہاتھ سے نہ دو۔ صبر کا ہتھیار ایسا ہے کہ توپوں سے وہ کام نہیں نکلتا جو صبر سے نکلتا ہے۔ صبر ہی ہے جو دلوں کو فتح کر لیتا ہے۔ یقیناً یاد رکھو کہ مجھے بہت ہی رنج ہوتا ہے جب مَیں یہ سنتا ہوں کہ فلاں شخص اس جماعت کا ہو کر کسی سے لڑا ہے۔ اس طریق کو مَیں ہرگز پسند نہیں کرتا اور خدا تعالیٰ بھی نہیں چاہتا کہ وہ جماعت جو دنیا میں ایک نمونہ ٹھہرے گی وہ ایسی راہ اختیار کرے جو تقویٰ کی راہ نہیں ہے۔ بلکہ مَیں تمہیں یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ یہاں تک اس امر کی تائید کرتا ہے کہ اگر کوئی شخص اس جماعت میں ہو کر صبر اور برداشت سے کام نہیں لیتا تو وہ یاد رکھے کہ وہ اس جماعت میں داخل نہیں ہے‘‘۔ فرمایا کہ ’’نہایت کار اشتعال اور جوش کی یہ وجہ ہو سکتی ہے‘‘ اگر کوئی بہت زیادہ غصہ دلائے اور جس سے جوش پیدا ہو یا اشتعال پیدا ہو تو اس کی یہی وجہ ہو سکتی ہے ’’کہ مجھے گندی گالیاں دی جاتی ہیں۔ تو اس معاملے کو خدا کے سپرد کر دو۔ تم اس کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔ میرا معاملہ خدا پر چھوڑ دو۔ تم ان گالیوں کو سن کر بھی صبر اور برداشت سے کام لو۔ تمہیں کیا معلوم ہے کہ میں ان لوگوں سے کس قدر گالیاں سنتا ہوں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ گندی گالیوں سے بھرے ہوئے خطوط آتے ہیں اور کھلے کارڈوں میں گالیاں دی جاتی ہیں۔ بے رنگ خطوط آتے ہیں جن کا محصول بھی دینا پڑتا ہے اور پھر جب پڑھتے ہیں تو گالیوں کا طومار ہوتا ہے۔ ایسی فحش گالیاں ہوتی ہیں کہ مَیں یقیناً جانتا ہوں کہ کسی پیغمبر کو بھی ایسی گالیاں نہیں دی گئی ہیں اور مَیں اعتبار نہیں کرتا کہ ابو جہل میں بھی ایسی گالیوں کا مادہ ہو۔ لیکن یہ سب کچھ سننا پڑتا ہے۔ جب مَیں صبر کرتا ہوں تو تمہارا فرض ہے کہ تم بھی صبر کرو۔ درخت سے بڑھ کر تو شاخ نہیں ہوتی۔ تم دیکھو کہ یہ کب تک گالیاں دیں گے۔ آخر یہی تھک کر رہ جائیں گے۔ ان کی گالیاں، ان کی شرارتیں اور منصوبے مجھے ہرگز نہیں تھکا سکتے۔ اگر مَیں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوتا تو بیشک مَیں ان کی گالیوں سے ڈر جاتا۔ لیکن مَیں یقیناً جانتا ہوں کہ مجھے خدا نے مامور کیا ہے پھر میں ایسی خفیف باتوں کی کیا پروا کروں۔ یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ تم خود غور کرو کہ اُن کی گالیوں نے کس کو نقصان پہنچایا ہے؟ ان کو یا مجھے؟ ان کی جماعت گھٹی ہے اور میری بڑھی ہے۔ اگر یہ گالیاں کوئی روک پیدا کر سکتی ہیں تو‘‘( جس زمانے میں آپ نے لکھا۔ فرمایا کہ اِس وقت) ’’دو لاکھ سے زیادہ جماعت کس طرح پیدا ہو گئی‘‘۔ (اور آج ان گالیوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں 209 ملکوں میں جماعت قائم ہے۔ فرمایا کہ ’’یہ لوگ ان میں سے ہی آئے ہیں یا کہیں اَور سے؟‘‘۔ (یہ جو گالیاں دینے والے تھے انہی لوگوں میں سے یہ لوگ آئے ہیں اور جماعت میں شامل ہوئے ہیں۔)’’ انہوں نے مجھ پر کفر کے فتوے لگائے لیکن اس فتویٔ کفر کی کیا تاثیر ہوئی؟ جماعت بڑھی‘‘۔ (کفر کے فتووں کا نتیجہ کیا نکلا؟ کہ جماعت بڑھ گئی۔)’’ اگریہ سلسلہ منصوبہ بازی سے چلایا گیا ہوتا تو ضرور تھا کہ اس فتویٰ کا اثر ہوتا۔‘‘ (اس جماعت کو بنانے کا اگر میرا کوئی منصوبہ ہوتا تو فتووں کا اثر ہوتا لیکن کوئی اثر نہیں ہوا۔ فرمایا) ’’اور میری راہ میں وہ فتویٰ کفر بڑی بھاری روک پیدا کر دیتا۔ لیکن جو بات خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو انسان کا مقدور نہیں ہے کہ اسے پامال کر سکے۔ جو کچھ منصوبے میرے مخالف کئے جاتے ہیں پہچان کرنے والوں کو حسرت ہی ہوتی ہے۔ مَیں کھول کر کہتا ہوں کہ یہ لوگ جو میری مخالفت کرتے ہیں ایک عظیم الشان دریا کے سامنے جو اپنے پورے زور سے آ رہا ہے اپنا ہاتھ کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ اس سے رک جاوے۔ مگر اس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ وہ رک نہیں سکتا۔ یہ ان گالیوں سے روکنا چاہتے ہیں مگر یاد رکھیں کہ کبھی نہیں رکے گا‘‘۔ فرمایا ’’کیا شریف آدمیوں کا کام ہے کہ گالیاں دے۔ مَیں ان مسلمانوں پر افسوس کرتا ہوں‘‘۔ فرمایا ’’مَیں ان مسلمانوں پر افسوس کرتا ہوں کہ یہ کس قسم کے مسلمان ہیں جو ایسی بے باکی سے زبان کھولتے ہیں۔ مَیں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ایسی گندی گالیاں میں نے تو کبھی کسی چوڑے چمار سے بھی نہیں سنی ہیں جو اِن مسلمان کہلانے والوں سے سنی ہیں۔ ان گالیوں میں یہ لوگ اپنی حالت کا اظہار کرتے ہیں اور اعتراف کرتے ہیں کہ وہ فاسق و فاجر ہیں۔ خدا تعالیٰ ان کی آنکھیں کھولے اور ان پر رحم کرے۔ ‘‘
(ملفوظات جلد 7 صفحہ 203 تا 205۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اگر یہ صحیح ہے کہ سوشل میڈیا پر بعض احمدی چِڑ کر غلط رنگ میں اور سختی سے ان لوگوں کے جواب دیتے ہیں تو غلط کرتے ہیں۔ اس طرح ہم صرف یہ ایک گناہ نہیں کر رہے بلکہ اس گناہ کے بھی مرتکب ہو رہے ہیں کہ نئی نسل کو بھی احمدیت سے دور کر رہے ہیں۔ بعض نوجوانوں میں خیال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے پاس دلیل نہیں تھی شاید اس لئے ہم سختی سے جواب دے رہے ہیں حالانکہ یہ غلط ہے۔جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ گالیوں کا جواب گالیوں سے دینے کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہمارے پاس دلیل نہیں ہے۔ پس ایسے لوگوں کو فوری طور پر اپنے رویّے بدلنے کی ضرورت ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بار بار مختلف طریقوں سے ہمیں سمجھایا کہ ہمیں صبر کا دامن پکڑے رہنا چاہئے اور اس وقت بھی مَیں آپ کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں۔ مَیں یہ بار بار اس لئے رکھ رہا ہوں تا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم سب پر واضح ہو جائے۔ فرمایا کہ:
’’ یہ مجھے گالیاں دیتے ہیں لیکن مَیں اُن کی گالیوں کی پرواہ نہیں کرتا اور نہ اُن پر افسوس کرتا ہوں کیونکہ وہ اس مقابلہ سے عاجز آ گئے ہیں اور اپنی عاجزی اور فرومائیگی کو بجز اس کے نہیں چھپا سکتے کہ گالیاں دیں۔‘‘ (دلیل ان کے پاس رہی نہیں۔ عاجز آ چکے ہیں اور اس لئے دلیل نہ ہونے کی وجہ سے وہ گالیاں دیتے ہیں۔) فرمایا کہ ’’کفر کے فتوے لگائیں۔ جھوٹے مقدمات بنائیں اور قسم قسم کے افترا اور بہتان لگائیں۔ وہ اپنی ساری طاقتوں کو کام میں لا کر میرا مقابلہ کر لیں اور دیکھ لیں کہ آخری فیصلہ کس کے حق میں ہوتا ہے۔ مَیں ان کی گالیوں کی اگر پرواہ کروں تو وہ اصل کام جو خدا تعالیٰ نے مجھے سپرد کیا ہے رہ جاتا ہے۔ اس لئے جہاں مَیں ان کی گالیوں کی پرواہ نہیں کرتا مَیں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ ان کو مناسب ہے کہ ان کی گالیاں سن کر برداشت کریں اور ہرگز ہرگز گالی کا جواب گالی سے نہ دیں کیونکہ اس طرح پر برکت جاتی رہتی ہے۔ وہ صبر اور برداشت کا نمونہ ظاہر کریں اور اپنے اخلاق دکھائیں۔ یقیناً یاد رکھو کہ عقل اور جوش میں خطرناک دشمنی ہے۔ جب جوش اور غصہ آتا ہے تو عقل قائم نہیں رہ سکتی۔ لیکن جو صبر کرتا ہے اور بردباری کا نمونہ دکھاتا ہے اس کو ایک نور دیا جاتا ہے جس سے اس کی عقل و فکر کی قوتوں میں ایک نئی روشنی پیدا ہو جاتی ہے اور پھر نور سے نور پیدا ہوتا ہے۔ غصہ اور جوش کی حالت میں چونکہ دل و دماغ تاریک ہوتے ہیں اس لئے پھر تاریکی سے تاریکی پیدا ہوتی ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد 3 صفحہ 180۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس اگر عقل و فکر کی قوتوں میں اضافہ کرنا ہے، دل و دماغ میں نور پیدا کرنا ہے تو غصہ اور جوش کو ہمیں ہر وقت دبانے کی ضرورت ہے تبھی اللہ تعالیٰ کے فضل مزید بڑھیں گے۔ جماعت احمدیہ کی ترقی کسی جوش اور غضب کے ظاہر کرنے سے نہیں ہوئی۔ اب تک جو ترقی ہو رہی ہے یہ تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو غلبہ دینا ہے۔ پس جب غلبہ اس نے دینا ہے اور اس کام میں برکت اس نے ہی ڈالنی ہے جو ہم تبلیغ کا بھی اور دوسرا کرتے ہیں تو پھر ہمیں اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
ہمیں ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی زندگی گزارنی چاہئے جس میں آپ نے فرمایا کہ:
’’ دنیوی لوگ اسباب پر بھروسہ کرتے ہیں۔‘‘ (ظاہری چیزوں پر بھروسہ کرتے ہیں) ’’مگر اللہ تعالیٰ اس بات کے لئے مجبور نہیں ہے کہ اسباب کا محتاج ہو۔ کبھی چاہتا ہے تو اپنے پیاروں کے لئے بلااسباب بھی کام کر دیتا ہے اور کبھی اسباب پیدا کر کے کرتا ہے اور کسی وقت ایسا بھی ہوتا ہے کہ بنے بنائے اسباب کو بگاڑ دیتا ہے۔‘‘ فرمایا ’’غرض اپنے اعمال کو صاف کرو۔‘‘ (ہمیں نصیحت فرمائی کہ اپنے اعمال کو صاف کرو) ’’اور خدا تعالیٰ کا ہمیشہ ذکر کرو اور غفلت نہ کرو۔ جس طرح بھاگنے والا شکار جب ذرا سست ہو جاوے تو شکاری کے قابو میں آ جاتا ہے اسی طرح خدا تعالیٰ کے ذکر سے غفلت کرنے والا شیطان کا شکار ہو جاتا ہے۔‘‘ (پس یہ مثال سامنے رکھو کہ جہاں شکار جو شکاری سے ڈر کے دوڑتا ہے اگر سست ہوا تو شکاری کے قابو میں آ جاتا ہے۔ اسی طرح انسان اگر اپنی عبادتوں میں، دعاؤں میں، اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے میں غفلت کرے گا تو پھر شیطان کا شکار ہو سکتاہے۔) فرمایا کہ’’ توبہ کو ہمیشہ زندہ رکھو۔‘‘ (یہ ضرور یاد رکھو کہ توبہ کو ہمیشہ زندہ رکھو)’’ اور کبھی مُردہ نہ ہونے دو۔‘‘ (استغفار بہت زیادہ کیا کرو) ’’کیونکہ جس عضو سے کام لیا جاتا ہے وہی کام دے سکتا ہے اور جس کو بیکار چھوڑ دیا جائے پھر وہ ہمیشہ کے واسطے ناکارہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح توبہ کو بھی متحرک رکھو تا کہ وہ بیکار نہ ہو جاوے‘‘۔ فرمایا کہ’’ اگر تم نے سچی توبہ نہیں کی تو وہ اس بیج کی طرح ہے جو پتھر پر بویا جاتا ہے۔ اور اگر وہ سچی توبہ ہے تو وہ اس بیج کی طرح ہے جو عمدہ زمین میں بویا گیا ہے اور اپنے وقت پر پھل لاتا ہے‘‘ ۔ فرمایا کہ’’ آجکل اس توبہ میں بڑی بڑی مشکلات ہیں۔‘‘ (وہاں قادیان میں آئے ہوئے کچھ لوگوں کو آپ یہ نصیحت فرما رہے تھے کہ جب تم یہاں سے جاؤ گے تو تمہیں بہت کچھ لوگوں سے سننا پڑے گا۔ لوگ بڑی باتیں کریں گے کہ تم نے ایک مجذوم، کافر، دجّال وغیرہ کی بیعت کی ہے۔) فرمایا کہ ’’ایسا کہنے والوں کے سامنے جوش ہرگز مت دکھانا۔ ہم تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے صبر کے واسطے مامور کئے گئے ہیں۔ اس لئے چاہئے کہ تم ان کے لئے دعا کرو کہ خدا تعالیٰ ان کو بھی ہدایت دے۔ اور جیسے کہ تم کو امید ہے کہ وہ تمہاری باتوں کو ہرگز قبول نہ کریں گے تم بھی ان سے منہ پھیر لو۔‘‘ فرمایا ’’ہمارے غالب آنے کے ہتھیار استغفار، توبہ، دینی علوم کی واقفیت، خدا تعالیٰ کی عظمت کو مدّنظر رکھنا اور پانچوں وقت کی نمازوں کو ادا کرنا ہیں۔ نماز دعا کی قبولیت کی کنجی ہے۔ جب نماز پڑھو تو اس میں دعا کرو اور غفلت نہ کرو اور ہر ایک بدی سے خواہ وہ حقوق الٰہی کے متعلق ہو خواہ حقوق العباد کے متعلق ہو، بچو۔ ‘‘ (ماخوذ از ملفوظات جلد 5 صفحہ 303۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس ہمارا کام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کریں اور اس کے حکموں پر چلنے کی کوشش ہمیشہ کرتے رہیں ۔اس کی راہ میں قربانیوں کو صبر اور استقامت سے برداشت کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صبر اور دعا کے ساتھ اپنی رضا کی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کے انعاموں کو حاصل کرنے والے رہیں۔
نماز کے بعد مَیں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو مکرم پی پی ناظم الدین صاحب آف پینگاڈی کیرالہ، انڈیا کا ہے جو 3؍مئی کو ٹرین کے حادثے میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ اپنی کار پہ جارہے تھے کہ وہاں ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ قرآن کریم کی نمائش کے حوالے سے ایک میٹنگ سے واپس آرہے تھے تو یہ حادثہ پیش آیا۔ بڑے مخلص انسان تھے۔ ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والے اور قادیان کے اجتماعات اور جلسہ سالانہ اور شوریٰ وغیرہ میں باقاعدگی سے شرکت کرنے و الے تھے۔ بڑے اَیکٹو ممبر تھے۔ اس وقت ضلعی سیکرٹری مال کی حیثیت سے بھی ان کو کام کی توفیق ملی۔ وفات کے وقت بھی بطور نائب صدر انصار اللہ بھارت خدمات انجام دے رہے تھے۔ یہ بڑا لمبا عرصہ دبئی میں رہے اور وہاں کے پہلے امیر جماعت کے طور پر انہوں نے خدمت کی توفیق پائی۔ ان کے بڑے وسیع تعلقات تھے اور ان تعلقات کو ہمیشہ جماعت کے لئے انہوں نے استعمال کیا۔ جماعتی نظام کی بے انتہا پابندی کرنے والے اور اپنے ساتھیوں سے بھی پابندی کرواتے تھے۔ عبادت کرنے والے، قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے، بڑے منکسر المزاج، بڑی نفیس طبیعت کے یہ مالک تھے۔ اور لوگوں کو بڑا فائدہ پہنچانے والے نافع الناس وجود تھے۔ بچوں کی بھی بڑے اچھے انداز میں تربیت کی۔ہمیشہ نیکی کی تعلیم دیتے، تلقین کرتے اور خلافت سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتے۔ مرحوم موصی بھی تھے۔ ان کی ایک بیٹی یہاں بھی رہتی ہے اور ایک بیٹا ان کا دبئی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کے بچوں کو بھی ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے اور خلافت اور جماعت سے وابستہ رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔