مصالح العرب (قسط ۴۵۴)
(عربوں میں تبلیغ احمدیت کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے مسیح موعود کی بشارات، گرانقدر مساعی اور ان کے شیریں ثمرات کا ایمان افروز تذکرہ )
مکرم عامر علی عامرصاحب(1)
’’بچپن سے لے کر جوانی تک میں اکثر ایک نہایت خوفناک خواب دیکھتا کہ کوئی چیز مجھے ایک اندھے گڑھے میں گرانے کے لئے بشدت دھکیل رہی ہے۔ میں گڑھے میں گرنے سے بچنے کے لئے پوری قوت سے اس کا مقابلہ کرتا اور پھر اسی کشمکش میں میری آنکھ کھل جاتی۔یہ خواب اس قدر خوفناک ہوتا تھاکہ اسے دیکھنے کے بعدمیں سو نہیں سکتا تھا۔ پھرعین جوانی کے ایّام میں میری زندگی میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے زندگی کا دھارا یکسر بدل دیا۔اندھیروں سے نور کی طرف میرا سفر شروع ہوگیا، ظلمتوں کے گڑھوں سے نکل کر مَیں نور کے مناروں کی طرف بڑھنے لگا۔اور پھر اس کے بعد دوبارہ وہ خوفناک خواب کبھی نہیں دیکھا۔‘‘
یہ الفاظ مکرم عامر علی عامر صاحب آف یمن کے ہیں۔ ان کی زندگی میں یہ انقلاب کیسے آیا؟ اس کا احوال بیان کرتے ہوئے وہ بیان کرتے ہیں کہ:
میرا تعلق یمن سے ہے جہاں میری پیدائش 1990ءمیں ایک سُنّی گھرانے میں ہوئی۔ مَیں بھی اپنے معاشرے کے دیگر بچوں کی طرح عمومی عقائدکے بارہ میں معمولی علم اورروایتی سوچ کے ساتھ پروان چڑھا۔ مجھے نہ تو دجّال کے بارہ میں زیادہ علم تھا، نہ ہی آخری زمانے کی دیگر علامات سے کوئی واقفیت تھی۔بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ مَیں نے کبھی ان امور کو گہرائی میں جا کر سمجھنے کی کوشش ہی نہ کی تھی۔
معمولی دینی حالت کے باوجود میری دلی خواہش تھی کہ کاش میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوتاتوآپ کی زیارت کا شرف حاصل کرتا اورآپ کی باتیں سننے کی سعادت پاتا۔
علماء کا مشکوک کردار
2011ء کے شروع میں’’ عرب سپرنگ ‘‘ کے نام سے فسادات کا آغاز ہوا تو یمن میں بھی صدر مملکت کو ہٹانے کے لئے مظاہرے شروع ہوگئے۔ اس مسئلہ پر علماء دو گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔ ایک گروہ صدر کے حق میں جبکہ دوسرا اس کے مخالف تھا ۔لیکن عجیب بات یہ تھی کہ دونوں فریق ہی اپنے اپنے موقف کی صداقت پر قرآن وحدیث سے دلائل پیش کررہے تھے۔ میں نے اس دھڑے بندی کو دیکھ کر کہاکہ دونوں میں سے ایک فریق ہی حق پر ہوسکتا ہے۔ پھر یہ کیسا تضاد ہے کہ دونوں فریق ہی قرآن وسنّت سے خود کو حق پر ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔اس بات نے مجھے دینی امور کے بارہ میں کسی قدر گہرائی کے ساتھ سوچنے پر مجبور کردیا۔
امام مہدی کے ظہور کی خبر
چند ایام کے بعدایک روزمیں اپنے محلّے میں سے گزر رہا تھا کہ میں نے بعض لوگوں کو آپس میں بحث کرتے ہوئے دیکھا۔ غور سے سننے پر معلوم ہواکہ دجّال اور جنّوں کے بارہ میں بحث ہورہی ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ان بحث کرنے والوں میں سے بعض احمدی ہیں او ران کا موقف ہے کہ امام مہدی اور مسیح موعودکی بعثت ہوچکی ہے اور دجّال بھی ظاہر ہوچکا ہے۔میں ان کی بات سننے کے لئے ایک باربیٹھا تو پھر ان کی مجلس کا ہی ہوکر رہ گیا۔میں روزانہ ان کی مجلس میں آبیٹھتا اور خاموشی سے ان کی باتیں سنتا رہتا۔
یہ شخص سچا ہے!!
اس مجلس میں بیٹھنے والوں میں ولید نامی ایک شخص بھی تھاجو احمدی تو نہ تھا لیکن احمدیوں کے موقف کی تائید کرتا تھا۔ ایک روز میں نے اسے اکیلا پا کر اس سے بات شروع کی تو اس نے جنّوں کا مضمون چھیڑ لیا۔ ہماری گفتگو طویل ہوئی تو وہ مجھے انٹرنیٹ کیفے میں لے گیا اور جماعت کی ویب سائٹ پر جا کر وہاں سے جنّوں کے موضوع پر کتاب کھول کر پڑھنے کے لئے کہا۔ محض چند صفحات کے مطالعہ نے مجھے ولید کے موقف کو ماننے پر مجبور کردیا۔
ویب سائٹ کی شکل میں میرے ہاتھ میں تو جیسے کوئی انمول چیز آگئی تھی۔میں نے اس ویب سائٹ سے آخری زمانے کی علامات اور ان کی تفسیربھی پڑھی جو مجھے بہت اچھی لگی۔ مجھے معلوم ہوا کہ خالدنامی ہمارا محلّے دار بھی احمدی ہو چکا ہے۔میری اس کے ساتھ جان پہچان تھی۔ میں نے اس سے راہ ورسم بڑھائی اور پھر اس کے ہاں آنے جانے لگا ۔ اس کے گھر میں مجھے ایم ٹی اے دیکھنے کا موقع ملا۔ ایم ٹی اے پر مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اللہ تعالیٰ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں قصائد سنے، اسی طرح ایسے قصائد بھی سنے جن میں حضور علیہ السلام نے زمانے کے فتنوں اوراسلام و مسلمانوں کی خستہ حالی کا ذکر کر کے یہ کہا ہے کہ اب خداتعالیٰ نے اسلام کی تائید کے لئے مجھے کھڑا کیا ہے اور مجھے اس امّت میں امام مہدی اور مسیح موعود بنا کر بھیجا ہے۔
میں یہ شعر سن کر بہت متاثر ہواکیونکہ ان میں معارف ربّانیہ او ردقائقِ نورانیہ کے علاوہ دین کے لئے غیر معمولی جوش اور جذبات کوبڑے حسن اور سلیقے سے پرویا گیا تھا۔
اسی طرح ویب سائٹ پر موجود اسراء ومعراج اور ناسخ ومنسوخ کا مضمون بھی میری توجہ کا مرکزبنا اور یہ تشریحات بھی میرے دل کو لگیں۔اور میرے دل کی گہرائی سے یہی آواز آئی کہ یہ شخص سچا ہے۔
’’کافر‘‘ اور ’’ساحر‘‘ لوگ
مجھے ویب سائٹ سے یہ بھی پتہ چلا کہ اس دعویدار اور اس کی جماعت پر کفر کے فتوے لگائے گئے ہیں۔ چونکہ احمدیت کے بارہ میں ہمارے محلے کے گلی کوچوں میں باتیں ہونے لگی تھیں اس لئے ہمارے محلے کی مسجد کے امام نے بھی احمدیت کے بارہ میں لوگوں کو خبردار کرنا اپنا فرض سمجھا اورخطبہ جمعہ میں اس جماعت سے بچنے کی تلقین کے ساتھ ساتھ احمدیت کی تکفیر کا فتویٰ بھی جاری کردیا۔ یہیں پر بس نہیں بلکہ ایک روز مَیں مسجد گیا تو دیکھا کہ مسجد کے نوٹس بورڈ پر رابطہ ٔ عالم اسلامی کا جماعت کی تکفیر سے متعلق فتویٰ چسپاں تھا۔ اس کے ساتھ یہ بھی لکھا تھا کہ احمدیوں کی بات سننا اور ان کے ساتھ بیٹھنا ناجائز ہے نیز ان کی کتب پڑھنا بھی خطرناک ہے کیونکہ یہ لوگ جادو کے ذریعہ عوام الناس کو رام کرلیتے ہیں۔
سچا مسیح موعود اور برحق امام مہدی
باوجود مذکورہ تنبیہ وتحذیر کے مَیں امام مہدی کے اس دعویدار کی حقیقت جاننے پر مُصر تھا۔ایک روز مجھے احمدی دوست خالد نے کہا کہ اگر تم حضرت امام مہدی علیہ السلام کی صداقت کے بارہ میں جاننا چاہتے ہوتو خدا تعالیٰ سے پوچھواور استخارہ کرو۔پھر اس نے مجھے استخارہ کا طریق بتایااور میں نے اس کے مطابق استخارہ شروع کر دیا۔
میں تہجد پڑھتا اور دیر تک سجدے میں دعائیں کرتا رہتا کہ خدایا تو مجھے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دے۔
استخارہ کرتے ہوئے چھ دن گزرے تھے کہ مَیں نے خواب میں خود کو کسی غیر معروف مقام پر دیکھا وہاں میرے والد صاحب بھی موجود تھے۔ انہوں نے مجھے خریداری کے لئے کچھ رقم دی۔ میں خریداری کے لئے اس مقام سے باہر آیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک گھوڑے پر سواربلندی سے اتر رہے تھے۔ میں انہیں دیکھ کر پھولے نہ سماتا تھا۔میں نے ان سے عرض کیا کہ میں تو آپ کی خدمت میں حاضری کے لئے انڈیا آنا چاہتا تھا لیکن میں یہ سفر اختیار کرنے سے قاصر رہا، الحمد للہ کہ آپ خود ہی یہاں تشریف لے آئے ہیں۔ یہ سن کر آپ گھوڑے سے اتر آئے۔ مَیں نے سورت فاتحہ پڑھنی شروع کردی۔ اس دوران حضو رعلیہ السلام میرے لئے دعا کرتے رہے ۔میں نے شرف مصافحہ حاصل کیا ۔ ایسے میں مجھے مسجد کے نوٹس بورڈ پر لگا فتویٰ بھی یاد آگیاجس میں کہا گیا تھا کہ احمدی لوگوں پر جادو کردیتے ہیں۔ چنانچہ خواب میں ہی مَیں دل میں کہتا ہوں کہ میں چوکنّا رہوںگا کہ کہیں میں اس جادو کا شکار نہ ہو جاؤں۔میں ابھی یہی سوچ رہا تھاکہ میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جسم آسمان کی جانب بلند ہونا شروع ہوا اور ان کے ساتھ میرا جسم بھی آسمان کی طرف بلند ہونا شروع ہوگیا۔ پھر کچھ پرواز کے بعد میں نے ایک ایسا نور دیکھا جس کے سامنے سورج کی روشنی بھی کم ہوگی ۔ اور مجھے محسوس ہواکہ ہم ملکوت اللہ میں داخل ہوگئے ہیں ۔پھر ہم وہاں سے ہو کر لَوٹے توشدت انوار کی وجہ سے میں بے ہوش ہوکر گرنے لگا تھاکہ حضور علیہ السلام نے مجھے سہارا دے کر سنبھال لیا۔ اس صورتحال میں نہ جانے کہاں سے میری بہن اور اس کے ساتھ ایک اور اجنبی عورت آگئی ۔ میری بہن نے حضو رؑ سے میرے بارہ میں پوچھا کہ اسے کیا ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اسے چار پانچ گھنٹے آرام کرنے د و پھر یہ ٹھیک ہوجائے گا۔ اس کے بعد حضور علیہ السلام وہاں سے تشریف لے گئے۔کچھ دیر کے بعد میں نے اپنے پیچھے نظر دوڑائی تو دیکھا کہ کچھ راہزن گھوڑوں پر سوارہاتھوں میں تیر تھامے ہمارے قتل کے درپَے ہیں۔ میں او رمیری بہن اور اجنبی عورت وہاں سے دوڑ لگادیتے ہیں۔ راہزنوں کے تیر ہمارے دائیں بائیں گرنے لگتے ہیں۔ ایسے میں ہمیں ایک سرنگ نظر آتی ہے اور ہم اس میں جا گھستے ہیں، اور ایک جگہ دبک کر بیٹھتے ہوئے اپنے چہروں کو اپنی جیکٹس کے ساتھ چھپا لیتے ہیں۔ ایسے میں دو اشخاص آتے ہیں او ر کہتے ہیں کہ ڈرو نہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں ۔ پھر وہ ہمیں ایک مقام کی طرف اشارہ کرکے دوڑنے کا کہتے ہیں اورہم اس جانب دوڑ لگادیتے ہیں۔ سرنگ سے نکل کرہم اپنے سامنے ایک گھر کو دیکھتے ہیں جس کا دروازہ کھلا ہوتا ہے۔ اور ہم اس گھر میں داخل ہوجاتے ہیں۔ اس وقت مجھے احساس ہوتا ہے کہ اب ہم ان شریروں سے نجات پاکے امن میں آگئے ہیں۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی اور جاگنے پرمیری زبان پر یہ الفاظ جاری تھے کہ یہی سچا مسیح موعود ہے اور یہی برحق امام مہدی ہے۔
قبول حق اور بیعت
اگلے روز مَیں نے لوگوں کو یہ رؤیا سناکریہ تبلیغ کرنا چاہی کہ امام مہدی کا یہ دعویدار سچا ہے اور خدا کی طرف سے ہے لیکن میری توقعات کے برعکس لوگوں نے الٹا مجھے ہی غلطی خوردہ کہنا شروع کردیا ۔ بعض نے کہا کہ تمہارارؤیا شیطانی ہے کیونکہ تم نے یہ رؤیا دن کے وقت نیند کے دوران دیکھا ہے جبکہ سچارؤیا صبح صادق کے وقت دیکھا جاتا ہے۔چونکہ اس رؤیا کی وجہ سے حق میرے دل میں راسخ ہوچکا تھا اس لئے مجھ پر ان کی باتوں کا اَور تو کوئی اثر نہ ہوا تاہم اس کے نتیجے میں مَیں نے تہجد اور نمازوں میں مزید تضرع اور ابتہال کے ساتھ دعائیں کرنی شروع کردیں۔
اس کے بعد مَیں نے تین ماہ تک جماعت کی بہت سے کتب پڑھیں اورایم ٹی اے کے بہت سے پروگرام دیکھے۔ پھر ایک روز میں اپنے احمدی دوست کے ساتھ نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے گیا۔یہ دراصل ایک اوراحمدی کا گھر تھا جس کی ایک منزل کو اس نے نماز سنٹر میں بدل دیا تھا۔وہاں پر میرے علاوہ تقریباًآٹھ احمدی احباب تھے۔ خطبہ جمعہ سن کر مجھے دلی اطمینان حاصل ہوا۔ایسے میں مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے صحابہ کرام کا زمانہ یاد آگیا جب وہ نہایت قلیل تعداد میں دارِ اَرقم میں جمع ہوتے تھے۔
استخارہ کے نتیجہ میں رؤیائے صالحہ کی وجہ سے میں دلی طورپر مطمئن ہو چکا تھااور مومنین کی اس قلیل تعداد کے ساتھ جمعہ کی نماز نے بھی میرے دل میں عجیب روحانی کیفیت پیدا کردی تھی اس لئے میں نے فورًا بیعت فارم پُر کردیا اور یوں جماعتِ مومنین کا حصہ بن گیا۔یہ 2012ء کے اواخر کی بات ہے۔
سبحان اللہ!
بیعت کرنے کے دوماہ کے بعد میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خواب میں دیکھا کہ آپ یمن میں ایک احمدی کے گھر کے ایک کمرے میں تشریف فرما ہیں جہاں ہم عمومًا اکٹھے بیٹھ کر دین کی باتیں کیا کرتے تھے اور ایم ٹی اے دیکھا کرتے تھے۔حضو رعلیہ السلام کے دستِ مبارک میں ایک قلم ہے اور آپ نہایت خوبصورت اور عریض خط میں ’’سبحان اللہ‘‘ کے الفاظ لکھتے ہیں اور پھر چھوٹے خط میں اس کی تشریح تحریر فرماتے ہیں۔میں خواب میں یہ منظر دیکھ کرحیران اورنہایت خوش ہوں۔
جب میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا گہرا مطالعہ کیا تو ان معارف سے آشنائی ہوئی جو حضور علیہ السلام نے اپنے قلم مبارک سے ان کتابوں میں لکھے تھے۔ خصوصًا سورت فاتحہ کی تفسیر پڑھ کر بے اختیار زبان سے ’’سبحان اللہ‘‘ کے الفاظ جاری ہوجاتے ہیں ۔ شاید یہی میرے اس مذکورہ رؤیا کی تعبیر تھی۔واللہ اعلم بالصواب۔
(باقی آئندہ)