ذریعہ معیشت میں تبدیلی
سیّد میر محمود احمد ناصر
مکہ کی معیشت زیادہ تر تجارت پر مبنی تھی۔ چین اورہندوستان کا تجارتی سامان بحری جہازوں کے ذریعہ آتا اور بحیرہ قلزم میں جہاز ٹھہر جاتےاور سامان خشکی پر اتار لیا جاتا۔ مکہ کے تاجر وہ سامان موسم کی بہتری پر مڈل ایسٹ لے جاتے جہاں رومن ایمپائر کا تسلط تھا۔ وہاں سے وہ سامان یورپ میں پھیل جاتا۔ لِاِيْلٰفِ قُرَيْشٍ ۔اٖلٰفِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتَآءِ وَ الصَّيْفِ (القریش2۔3)میں اس تجارتی نظام کی طرف اشارہ ہے۔مدینہ کی معیشت زیادہ تر باغبانی اور کچھ زراعت پر منحصر تھی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ ؐ کے صحابہؓ نے جب مکہ سے ہجرت مدینہ کی طرف فرمائی تو مکہ سےآنے والے جو تاجر تھے مثلاً حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ ان کے لئے معیشت کا مسئلہ بننا تھا آپ ؓ دونوں تو اچھے تاجر تھے اور مدینہ کی جتنی تجارت تھی اس پر قابض اہل کتاب کا مقابلہ کر سکتے تھے۔ مگر مکہ سے آنے والے عام مہاجر تو اہل کتاب تاجروں سے ٹکّر نہیں لے سکتے تھے۔ مدینہ کا بازار’ سوق‘ قینقاع اہل کتاب کے تسلّط میں تھا۔ نہ ہی مدینہ کی تجارتی منڈی مکہ جیسی وسعت رکھتی تھی۔
مکہ سے آنے والے مہاجروں کو اپنے ذریعہ معیشت بدلنے میں دو محرکات نے کام کیا۔ اورانہوں نے تجارت کے بجائے باغبانی اور زراعت کی طرف توجہ کی۔
ایک محرک تو قرآن شریف کی وہ آیات تھیں جن میں خوبصورت رنگ میں کھیت اور درختوں کی نشوونما کا ذکر ہے۔مثلاً فرماتا ہےاَفَرَءَيْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَ۔ ءَاَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَهٗ اَمْ نَحْنُ الزّٰرِعُوْنَ (الواقعہ64-65)کہ بتاؤ تو سہی تم جو بیج ڈالتے ہو کیا تو ہی اسی کی نشوونما کرتے ہو یا اس کی نشوونما ہم کرتے ہیں۔ نشوونما کے لئے جو لفظ استعمال کیا ہے وہ زراعت کا لفظ ہے او ر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کی زراعت کرنے والے ہم ہیں۔
سورة النمل میں فرماتا ہے اَمَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ اَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَنْۢبَتْنَا بِهٖ حَدَآىِٕقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُنْۢبِتُوْا شَجَرَهَا(النمل61) بتاؤ تو آسمان اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے اور کس نے تمہارے لئے بادل سے پانی اتارا ہے پھر ہم نے اس کے ذریعہ خوبصورت باغ نکالے ہیں۔ تم تو ان کا (ایک) درخت بھی پیدانہیں کر سکتے ہو۔ اس آیت میں بھی باغات کی خوبصورتی کا ذکر ہے اور ان کے درختوں کی نشوونما کو اللہ تعالیٰ اپنی طرف منسوب فرماتا ہے۔
درختوں کی عظمت او ر خوبصورتی کا قرآن شریف میں اس طرح بھی ذکر ہے۔اَوَ لَمْ يَرَوْا اِلَى الْاَرْضِ كَمْ اَنْۢبَتْنَا فِيْهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيْمٍ(الشعراء8)کہ کیا انہوں نے زمین کی طرف نہیں دیکھا کہ ہم نے اس میں کتنے معزز جوڑے اگائے ہیں اور سورة لقمان میں فرماتا ہےوَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَنْۢبَتْنَا فِيْهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيْمٍ(لقمان11) کہ ہم نے بادل سے پانی اتارا اور ہم نےاس (زمین) میں ہر طرح کے معزز جوڑے پیدا کئے۔ ان دونوں آیات میں درختوں اور نباتات کو معزز کے لفظ سے ذکر کیا گیا ہے جو غیر معمولی بات ہے پھر سورة ق میں فرماتا ہے وَ اَلْقَيْنَا فِيْهَا رَوَاسِيَ وَ اَنْۢبَتْنَا فِيْهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍۭ بَهِيْجٍ(سورة ق 8)کہ ہم زمین میں پہاڑ رکھتے ہیں اور اس میں بارونق جوڑے بناتے ہیں۔
درختوں اور نباتات کی خوبصورتی اور رونق کا بیان ہے۔ سورة یٰسین میں فرماتا ہے وَ اٰيَةٌ لَّهُمُ الْاَرْضُ الْمَيْتَةُ اَحْيَيْنٰهَا وَ اَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ يَاْكُلُوْنَ ۔وَ جَعَلْنَا فِيْهَا جَنّٰتٍ مِّنْ نَّخِيْلٍ وَّ اَعْنَابٍ وَّ فَجَّرْنَا فِيْهَا مِنَ الْعُيُوْنِ ۔لِيَاْكُلُوْا مِنْ ثَمَرِهٖ…(سورةیٰسین 34تا36) کہ ان کے لئے مردہ زمین میں نشان ہے ہم نے اس کو زندہ کیا اور اس سے دانے نکالے جس میں سے وہ کھاتے ہیں اور ہم نے اس میں کھجوروں اور انگوروں کے باغات بنائے اور اس میں چشمے بہائے۔ تا کہ وہ اس کا پھل کھائیں۔ سورة النحل میں فرماتا ہے۔هُوَ الَّذِيْ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً لَّكُمْ مِّنْهُ شَرَابٌ وَّ مِنْهُ شَجَرٌ فِيْهِ تُسِيْمُوْنَ۔يُنْۢبِتُ لَكُمْ بِهِ الزَّرْعَ وَ الزَّيْتُوْنَ وَ النَّخِيْلَ وَ الْاَعْنَابَ وَ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ۔ (النحل11-12)وہی ہے جس نے تمہارے لئے بادل سے پانی اتارا تمہارے لئے اس میں پینا ہے اور اس سے نباتا ت ہے جس میں تم چراتے ہو اس کے ذریعہ تمہارے لئے کھیت اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر طرح کے پھل پیدا کرنا ہے اس میں سوچنے والی قوم کے لئے نشان ہے۔
دوسرا زبردست محرک ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بابرکت ارشادات ہیں جن کے ذریعہ آپؐ نے اپنے صحابہؓ کو درخت لگانے اور زراعت کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی۔
آپؐ نے فرمایا کوئی مسلمان نہیں جو کوئی پودا لگائے یا کھیت لگائے اور پھر اس سے کوئی پرندہ کھائے یا کوئی انسان یا کوئی جانور مگر وہ اس (پودالگانے والے) کے لئے صدقہ ہو گا۔ (بخاری کتاب الحرث والمزارعة)
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص کوئی کتا رکھے تو اس کے عمل میں روزانہ ایک قیراط کی کمی ہو جاتی ہے سوائے اس کتے کے جو کھیت کی خاطر یا مویشی کی خاطر ہو۔
(بخاری کتاب الحرث والمزارعة)
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے (زمین ٹھیکہ پر دینےسے) منع نہیں فرمایا تھا ۔ہاں یہ فرمایا تھا کہ اگر تم سے کوئی اپنے بھائی کو زمین بغیر اجر کے لئے دے تو یہ بہتر ہے کہ اس پر ٹھیکہ وصول کرے۔
(بخاری کتاب الحرث والمزارعة)
زراعت کو ترقی دینے والا حضورﷺ نے ایک ایسا فیصلہ فرمایا جو غیر معمولی نوعیت کا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا مَنْ اَعْمَرَ اَرْضًا لَیْسَتْ لِاَحَدٍ فَھُوَ اَحَقُّ(صحیح البخاری‘‘ کتاب الحرث والمزارعة باب من احیا ارضا مواتا حدیث2335)کہ جو شخص کوئی ایسی زمین آباد کرتا ہے جو کسی کی ملکیت نہیں تو وہ اس کا سب سے زیادہ حق دار ہے۔ اس بات کو حضرت عمرؓ نے اس طرح بیان کیا مَنْ اَحْیَا اَرْضًا مَیِّتَةً فَھُوَ لَہُ (بخاری کتاب الحرث والمزارعة باب من احیا ارضا مواتا) کہ جو شخص کسی بنجر زمین کو آباد کرے تو وہ اس کی ملکیت ہو جائے گی اور حضرت عمرؓ نے اپنے عہد خلافت میں اسی کے مطابق فیصلہ فرمایا۔ حضرت علیؓ نے کوفہ میں اسی رائے کا اظہار فرمایا تھا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے آنے والے صحابہ کو زراعت کی طرف جس طرح توجہ دلائی اس کی ایک مثال اس روایت میں ملتی ہے۔ لکھا ہے
عَنِ ابْنِ عُمَرَاَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَقْطَعَ الزُّبَیْرَ حُضْرَ فَرَسِہٖ فَأَجْریٰ فَرَسَہُ حَتَّی قَامَ ثُمَّ رَمَی بِسَوْطِہِ فَقَالَ أَعْطُوہُ مِنْ حَیْثُ بَلَغَ السَّوطُ ۔(سنن ابی داؤدکتاب الخراج والفئ والامارة باب فی اقطاع الارضین حدیث 3072نیز مسند احمد بن حنبل) کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیرؓ کواس کے گھوڑے کی دوڑ کے مطابق زمین دی۔ اس نے اپنا گھوڑا دوڑایا یہاں تک کہ وہ کھڑا ہو گیا۔ پھر اس نے اپنا کوڑا پھینکا تو آپؐ نے فرمایا جہاں تک اس کا گھوڑا پہنچا ہے اس کو زمین دے دو۔ یہ زبیرؓ حضرت ابوبکرؓ کے داماد تھے۔