خطاب حضور انور

جلسہ سالانہ برطانیہ 2005ء کے موقع پر امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا Rushmoor Arena میں اختتامی خطاب (29؍جولائی2005ء)

یہ خدا تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ بندوں کو پیدائش کے بعد ان کے پیدائش کے مقصد سے بھی آگاہ کرتا ہے تا کہ وہ شیطان کے چنگل سے نکل کر آزاد ہو کر اپنی زندگی کے مقصد کو پہچانیں۔

اس دنیا کی زندگی کو ہی سب کچھ نہیں سمجھنا بلکہ تمام قسم کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ کرنی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ہیں اور بندوں کے حقوق بھی ہیں۔ اور ان تمام قسم کے حقوق ادا کرنے کے لئے بنیادی چیز یہ ہے کہ تم نمازوں کی طرف بھی توجہ کرو اور پھر نماز میں ہی ہمیں ایسی دعا سکھا دی جو ہر معاملے میں ہماری ہدایت اور رہنمائی اور اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے اور ایمان میں ترقی کے لئے ایک جامع دعا ہے اور یہ دعا بھی ہر نماز کی ہر رکعت میں اور جو نوافل ادا کرتے ہیں وہ نوافل کی ہر رکعت میں پڑھتے ہیں کیونکہ یہ پڑھنی ضروری ہے۔ اور اسی سے ہم ہر وقت اپنے قدم ہدایت کے راستے کی طرف بڑھانے کے قابل ہو سکتے ہیں کیونکہ اگر اس دعا کے مغز کو ہم سمجھ لیں تو یقیناً اللہ تعالیٰ پھر ہدایت کے راستے مہیا فرماتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق ان دعاؤں کو قبول فرماتا ہے اور ہر لمحہ رہنمائی فرماتا رہتا ہے۔ اور یہ دعائیں ہیں سورۃ فاتحہ میں جس کو ہم روزانہ کئی دفعہ پڑھتے ہیں۔

اِہْدِ نَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کی دعا کی جامعیت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی بیان فرمودہ نہایت پُر معارف اور لطیف تفسیر کے حوالہ سے
انعام یافتہ لوگوں کی راہ کو حاصل کرنے کے لئے افراد جماعت کو نصائح

ایک طرف تو ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس زمانے کے امام مسیح و مہدی علیہ السلام کو ہم نے مانا ہے۔ اور دوسری طرف ہمیں اپنی عبادتوں میں، اپنے عملوں میں، اپنے اخلاق میں، اپنے تعلق باللہ میں کوئی ترقی نظر نہ آتی ہو تو پھر یہ فکر لازمی ہے اور سوچنے کا مقام ہے کہ اللہ ہماری دعاؤں کو سن بھی رہا ہے یا نہیں۔ کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ دعاؤں کو سن رہا ہے تو پھر دعاؤں کی قبولیت کے اثرات نظر آنے چاہئیں۔ نیکیوں میں آگے بڑھنے کے نظارے نظر آنے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق کے نظارے نظر آنے چاہئیں۔ ہر روز قدم ہدایت کی طرف اٹھتا ہوا نظر آنا چاہئے۔

نمازوں کے بارے میں جب بعض لوگوں سے پوچھو، سوال کرو تو بڑی شرمندگی کی حالت میں کہتے ہیں کہ دو یا تین نمازیں ہم پڑھتے ہیں دعا کریں کہ ساری پڑھنی شروع کر دیں۔ ٹھیک ہے دعا تو ہونی چاہئے اور کی بھی جاتی ہے۔ اس دعا کے اگر اثر ظاہر نہیں ہو رہے اور اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی اور نیکیوں میں بڑھنے کی طرف توجہ پیدا نہیں ہو رہی تو پھر خوف کا مقام ہے۔

آج ہر احمدی یہ عہد کرے کہ ہم نے اپنی نمازوں کے معیاروں کو بھی اونچا کرنا ہے اور ہدایت کے تمام معلوم راستوں میں آگے سے آگے بڑھنے کے خدا کے مسیح سے کئے گئے عہد بیعت کے بعد اس کے لئے کوشش کرنی ہے۔ اپنی زبان کو دعا سے بوجھل کرنے کی بجائے اپنی زبانوں کو دعاؤں سے تَر رکھنا ہے۔ اپنے دلوں کو ہلکے سے ہلکے شرک سے بھی پاک رکھنا ہے۔ اپنے دلوں اور اپنے دماغوں سے تمام بدعتوں کو نکال کر باہر پھینکنا ہے۔ ہمارے کام، ہمارے کاروبار، ہماری دنیاوی دلچسپیاں، ہمارے معاشرے کے رسم و رواج جنہوں نے بدعتوں کے رنگ دھار لئے ہیں، ان کو ہم نے اپنے وجود سے نکال باہر پھینکنا ہے تا کہ خالص ہو کر اللہ کے حضور دعائیں کرنے والے بنیں۔ اور اللہ سے جب بھی ہم کسی چیز کے طالب ہوں تو وہ ہدایت کی راہیں ہوں تا کہ اللہ تعالیٰ کی حسنات، اللہ تعالیٰ کی برکات اللہ تعالیٰ کے فضل ہم ہمیشہ اپنے اوپر نازل ہوتا دیکھیں۔ اور ہماری ایک کے بعد دوسری نماز جو ہے، ہمارا ایک کے بعد دوسرا دن جو ہے ہمارے اندر پاک تبدیلیاں ظاہر کرتا ہوا نظر آئے۔

جماعت احمدیہ برطانیہ کے جلسہ سالانہ کے موقع پر29؍جولائی2005ء بروز جمعۃ المبارکسیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا Rushmoor Arenaمیں افتتاحی خطاب

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَالْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ۔(البقرۃ187)


یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ ہے کہ اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقیناً میں قریب ہوں۔ مَیں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ پس چاہئے کہ وہ بھی میری بات پر لبّیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تا کہ وہ ہدایت پائیں۔

اس میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ خوشخبری دی، ہمارے پیدا کرنے والے خدا نے یہ ضمانت دی کہ اے میرے بندو! اگر تم میری بندگی کا حق ادا کرتے ہوئے میری طرف آؤ گے، میرے سے سوال کرو گے، مجھ سے دعائیں مانگو گے تو مَیں تمہاری دعاؤں کا جواب دوں گا۔ تمہاری دعائیں قبول کروں گا لیکن تمہیں بھی میرا حق بندگی جو ہے وہ ادا کرنا ہو گا اور جو تعلیم مَیں نے تمہیں دی ہے اس پر تمہارا یقین کامل اور ایمان ہونا چاہئے۔ میرے تمام حکموں پر تمہیں عمل کرنے کی کوشش کرنی ہو گی اور پھر اس یقین اور ان شرائط کے ساتھ جب دعا کرو گے تو پھر مَیں تمہاری دعا سنوں گا۔ پس جب دعائیں کرو تو اس یقین کے ساتھ کرو کہ خدا تعالیٰ دعائیں سنتا ہے اور جب نمازوں کے لئے کھڑے ہو تو اس ایمان کے ساتھ کھڑے ہو کہ مَیں خدا کے سامنے حاضر ہوں اور خدا مجھے دیکھ رہا ہے اور جب اس طرح نمازیں ادا ہو رہی ہوں گی تو وہ یقینا ًاللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی ہوں گی اور ہدایت کے راستوں پر چلانے والی بھی ہوں گی۔ اور یہ ہدایت کے راستے کوئی محدود راستے نہیں ہیں بلکہ یہ بڑا وسیع مضمون ہے۔ اور اس کے لئے بھی خدا تعالیٰ نے ہمیں نماز میں ایک دعا سکھا دی ہے۔

پس یہ خدا تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ بندوں کو پیدائش کے بعد ان کے پیدائش کے مقصد سے بھی آگاہ کرتا ہے تا کہ وہ شیطان کے چنگل سے نکل کر آزاد ہو کر اپنی زندگی کے مقصد کو پہچانیں۔ اور پھر یہ کہ جب ہمیں اس طرف توجہ دلائی، ہمیں یہ تعلیم دی کہ تم نے اپنے پیدائش کے مقصد کو پہچاننا ہے۔ اس دنیا کی زندگی کو ہی سب کچھ نہیں سمجھنا بلکہ تمام قسم کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ کرنی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ہیں اور بندوں کے حقوق بھی ہیں۔ اور ان تمام قسم کے حقوق ادا کرنے کے لئے بنیادی چیز یہ ہے کہ تم نمازوں کی طرف بھی توجہ کرو اور پھر جیسے مَیں نے کہا نماز میں ہی ہمیں ایسی دعا سکھا دی جو ہر معاملے میں ہماری ہدایت اور رہنمائی اور اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے اور ایمان میں ترقی کے لئے ایک جامع دعا ہے اور یہ دعا بھی ہر نماز کی ہر رکعت میں اور جو نوافل ادا کرتے ہیں وہ نوافل کی ہر رکعت میں پڑھتے ہیں کیونکہ یہ پڑھنی ضروری ہے۔اور اسی سے ہم ہر وقت اپنے قدم ہدایت کے راستے کی طرف بڑھانے کے قابل ہو سکتے ہیں کیونکہ اگر اس دعا کے مغز کو ہم سمجھ لیں تو یقیناً اللہ تعالیٰ پھر ہدایت کے راستے مہیا فرماتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق ان دعاؤں کو قبول فرماتا ہے اور ہر لمحہ رہنمائی فرماتا رہتا ہے۔ اور یہ دعائیں ہیں سورۃ فاتحہ میں جس کو ہم روزانہ کئی دفعہ پڑھتے ہیں۔

اس ضمن میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’نماز کا مغز اور روح بھی دعا ہی ہے جو سُوۂ ر فاتحہ میں ہمیں تعلیم دی گئی ہے۔ جب ہم اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کہتے ہیں تو اس دعا کے ذریعہ سے اس نور کو اپنی طرف کھینچنا چاہتے ہیں جو خدا تعالیٰ سے اترتا اور دلوں کو یقین اور محبت سے منور کرتا ہے۔‘‘(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 241)

پس اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کی یہ دعا جو ہمیں سکھائی گئی ہے۔ اس کے پہلے اور پیچھے جو پوری آیتیں ہیں اگر ان پر بھی ہم غور کریں تو احساس ہوتا ہے کہ کس طرح یہ خدا تعالیٰ کا قرب دلانے والی اور اس پر ایمان اور یقین میں بڑھانے والی دعا ہے۔ اس میں ہم اللہ تعالیٰ کی صفات کا ذکر کر کے اس کی مدد کے طالب ہوتے ہیں۔ پھر انعام یافتہ لوگوں کا حوالہ دے کر اس سے راہ ہدایت کے طلبگار ہوتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی حاصل کرنے والوں اور گمراہوں کے حوالے سے ان عملوں سے بچنے کی دعا کرتے ہیں جو ایسے لوگوں نے عمل کئے۔ غرض کہ جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا یہ نماز کا مغز اور روح ہے اور اس کے ذریعہ سے جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نور کو ہم کھینچنا چاہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ سے اترتا ہے اور دلوں میں ایک یقین پیدا کر دیتا ہے اور اس یقین سے خدا تعالیٰ کی محبت میں اَور ترقی ہوتی ہے۔ ایمان میں اَور ترقی ہوتی ہے اور اس ترقی کے باعث ہدایت کے اَور راستے کھلتے چلے جاتے ہیں۔

پس اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کی یہ دعا،یعنی ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔ وہ راستہ جو نیک بندوں کا راستہ ہے۔ وہ راستہ جو انعام یافتہ لوگوں کا راستہ ہے۔ انعام یافتہ لوگ کون ہیں وہ نبی ہیں، صدیق ہیں، شہید ہیں، صلحاء ہیں، ہم ہر روز کئی مرتبہ کرتے ہیں کہ یہ راستے ہمیں دکھا اور ان چار لوگوں کی حالت کیا تھی جن کا ذکر کیا گیا ہے۔ کیا وہ ایک مقام پر آ کر کھڑے ہو گئے تھے۔ نہیں،بلکہ وہ ان نیک کاموں اور اللہ کا قرب پانے کے مقام میں ترقی کرنے والے تھے۔ ہدایت یافتہ ہو کر آگے ہدایت پھیلانے والے تھے۔ پس یہ دعا سکھانے کا مطلب ہے کہ ہم بھی جب یہ دعا کر رہے ہوں تو ذہن میں یہ رکھیں اور خدا تعالیٰ سے اس طرح دعا مانگ رہے ہوں گے کہ اے خدا تو نے ہمیشہ انعام یافتہ لوگوں کو ترقیات سے نوازا اور ان پر اپنی برکات کے دروازے کھولے۔ ان کو دین و دنیا کی نعمتوں سے مالا مال فرمایا۔ ان کو جس طرح تُو نے اپنے فضل اور رحم کی چادر میں لپیٹا ہم بھی تیرے عاجز بندے اس سوچ اور اس دعا اور اس طرح خالص ہو کر تیرے حضور جھکتے ہوئے یہ عرض کرتے ہیں کہ ہمیں بھی نواز۔ جس طرح ان انعام یافتہ لوگوں کو تُو نے نوازا تھا اور جس طرح ان لوگوں نے نیکیوں میں بڑھنے کے مضمون کو سمجھا تھا اور عمل کیا تھا اور تیرے فضلوں کے وارث بنے۔ اس طرح ہمیں بھی نیکیوں میں ترقی کرنے والا بنا۔ وہ نیکیوں میں بڑھنے والے وہ تھے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کا قرب پانے اور عبادتوں کے بھی اعلیٰ معیار قائم کرنے کے لئے کوششیں کیں۔ جنہوں نے اپنی نمازوں کی بھی حفاظت کی اور اپنی راتوں کو بھی نوافل سے سجایا۔ جنہوں نے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی بھی کوشش کی اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے حق ادا کرنے والوں کو بھی اپنی رضا سے نوازتا ہے۔ جنہوں نے یہ فکر بھی کی کہ جن اعلیٰ معیار اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے راستوں کو خود حاصل کر لیا ان سے اپنے بھائیوں اور دوسروں کو بھی آگاہ کریں۔ ان راستوں پر اپنے بھائیوں اور دوسروں کو بھی چلائیں۔ غرض کہ نیکی کے ہر میدان میں وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے انعام یافتہ ہیں نیکیوں میں آگے بڑھنے کے مضمون کو جس طرح سمجھتے رہے اور جس طرح اے اللہ تُو ان کی رہنمائی فرماتا رہا ہمیں بھی سمجھا اور ہماری بھی رہنمائی فرما۔

اس مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ یوں بیان فرمایا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ’’ ہم نماز میں یہ دعا کرتے ہیں کہ اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ۔ اس سے یہی مطلب ہے کہ خدا سے ہم اپنے ترقی ایمان اور بنی نوع کی بھلائی کے لئے چار قسم کے نشان چار کمال کے رنگ میں چاہتے ہیں۔ نبیوںؔ کا کمال، صدیقوںؔ کا کمال، شہیدوںؔ کا کمال، صلحاءؔ کا کمال۔ سو نبیؔ کا خاص کمال یہ ہے کہ خدا سے ایسا علم غیب پاوے جو بطور نشان کے ہو۔ اور صدّؔیق کا کمال یہ ہے کہ صدق کے خزانہ پر ایسے کامل طور پر قبضہ کرے یعنی ایسے اکمل طور پر کتاب اللہ کی سچائیاں اس کو معلوم ہو جائیں کہ وہ بوجہ خارق عادت ہونے کے نشان کی صورت پر ہوں اور اُس صدّیق کے صدق پر گواہی دیں۔ اور شہیدؔ کا کمال یہ ہے کہ مصیبتوں اور دکھوں اور ابتلاؤں کے وقت میں ایسی قوّتِ ایمانی اور قوّت اخلاقی اور ثابت قدمی دکھلاوے کہ جو خارق عادت ہونے کی وجہ سے بطور نشان کے ہو جائے۔ اور مرد صالحؔ کا کمال یہ ہے کہ ایسا ہر ایک قسم کے فساد سے دُور ہو جائے اور مجسّم صلاح بن جائے کہ وہ کامل صلاحیت اس کی خارق عادت ہونے کی وجہ سے بطور نشانی مانی جائے۔ سو یہ چاروں قسم کے کمال جو ہم پانچ وقت خدا تعالیٰ سے نماز میں مانگتے ہیں یہ دوسرے لفظوں میں ہم خدا تعالیٰ سے آسمانی نشان طلب کرتے ہیں اور جس میں یہ طلب نہیں اس میں ایمان بھی نہیں۔ ہماری نماز کی حقیقت یہی طلب ہے جو ہم چار رنگوں میں پنج وقت خدا تعالیٰ سے چار نشان مانگتے ہیں اور اس طرح پر زمین پر خدا تعالیٰ کی تقدیس چاہتے ہیں تا ہماری زندگی انکار اور شک اور غفلت کی زندگی ہو کر زمین کو پلید نہ کرے اور ہر ایک شخص خدا تعالیٰ کی تقدیس تبھی کر سکتا ہے کہ جب وہ یہ چاروں قسم کے نشان خداتعالیٰ سے مانگتا رہے‘‘۔(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 515-516)

تو فرمایا کہ اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْکی دعا میں ہمارے دو بڑے مقصد ہیں۔ نمبر ایک تو یہ کہ ہمارے ایمان میں ترقی ہو۔ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کا فہم اور ادراک حاصل ہو کہ مجھ پر ایمان لاؤ۔ ایمان کو گہرائی میں جا کر سمجھا جائے کہ ایمان کیا چیز ہے۔ پس جب ایمان کے تمام تقاضے پورے کر رہے ہوں گے تو تبھی مومن کہلا سکتے ہیں۔ جب خدا تعالیٰ کی تمام صفات پر کامل اور مکمل یقین ہو گا تو تبھی مومن کہلا سکتے ہیں۔ اور پھر یہ عرفان جو حاصل ہو اس میں ترقی کرتے چلے جانے والے ہوں۔ اور دوسرے یہ کہ بنی نوع کی بھلائی دل میں رکھتے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ نیکی اور بھلائی اور اس کی ہمدردی دل میں ہو۔ اس کے دکھوں اور تکلیفوں کو سمجھتے ہوں۔ تو فرمایا کہ ان دو مقاصد کے حاصل کرنے کے لئے ہم چار قسم کے نشان خدا تعالیٰ سے مانگتے ہیں۔ اور یہ مقصد جو ہے ہم کس طرح حاصل کرتے ہیں؟ یہ اللہ تعالیٰ پر کامل اور مکمل ایمان لانے اور اللہ تعالیٰ سے اس کی مخلوق کی خیر خواہی اور بھلائی چاہنے سے ملیں گے۔ تو فرمایا کہ یہ چار قسم کے لوگ ہیں جنہوں نے اعلیٰ معیار قائم کئے۔ تو ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ ان چار قسم کے لوگوں کے معیار حاصل کرنے کے لئے نشان ہمیں بھی دکھا۔ یعنی ہم بھی اس قابل ہو سکیں کہ یہ معیار حاصل کر سکیں۔

اس میں پہلی قسم کے لوگ نبی ہیں اور نبی کا تعلق باللہ تمام انسانوں سے زیادہ ہوتا ہے اور اس تعلق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ غیب کے اسرار، غیب کے راز اُن پر کھولتا ہے۔ ایک غیر معمولی علم سے ان کے دل کو منور کرتا ہے۔ ان کے سچائی کے نشان کے طور پر آئندہ ہونے والی باتوں سے انہیں آگاہ کرتا ہے۔ بعض غیب کی باتیں بھی انہیں بتا دیتا ہے۔ ایک عام آدمی اس مقام تک تو نہیں پہنچ سکتا کہ نبی کے برابر آ جائے لیکن عبادتوں کے اور اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کے ان راستوں پر چلنے کی وجہ سے جو خدا تعالیٰ نے اپنے نبیوں کے ذریعہ سے ہمیں سکھائے اور اب ان اعلیٰ معیاروں کے کمال پر اور ان اعلیٰ نمونوں پر حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے مہر لگائی اور ایک اُسوہ قائم کر کے ہمیں اس پر چلنے کی تلقین فرمائی۔ اگر ایک مومن چلے تو ایمانی حالت کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے سلوک کے نظارے دیکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے سینوں کو بھی کھولتا ہے جو کوشش کرتے ہیں اور اگر ترقی کی منازل طے کرتے رہے تو یہ سلسلہ جو ہے یہ بڑھتا چلا جاتا ہے اور خدا تعالیٰ ان پر بہت سی باتیں ظاہر فرما دیتا ہے۔

اور پھر آپ نے فرمایا کہ صدّیق کے کمال کا نشان یہ ہے کہ اس کا اللہ تعالیٰ کی کتاب کا گہرا علم ہو، ایمان ہو اور قرآن کریم کا گہرا علم ہو۔ کیونکہ اب یہی آخری شرعی کتاب ہے جس کی شریعت نے، جس کے احکامات نے تاقیامت قائم رہنا ہے۔ اس کتاب کے واقعات پر بھی، اس کی تعلیمات اور احکامات پر بھی، اس کتاب کی پیشگوئیوں پر بھی، اس کتاب کی صداقت پر بھی، اس کتاب کے انذار پر بھی اس کو، ایک مومن کومکمل اور کامل یقین ہو۔ تبھی وہ صدیق کے کمال تک پہنچ سکتا ہے۔ اور اس کا علم حاصل کرنے کی کوشش ہو۔ اس کے مطالب کو سمجھنے کی کوشش ہو۔ اس پر عمل کرنے کی کوشش ہو اور زبان حال سے یہ کہہ رہے ہوں کہ ہم ان لوگوں میں شامل ہوں جو اس کے ہر ہر لفظ پر سچے دل سے ایمان لاتے ہیں اور ہم گواہی دینے والے ہیں کہ ہم نے ان برکات سے فیض اٹھایا ہے جو اس کتاب کی ہیں اور پھر اس غیر معمولی علم کے حاصل کرنے کے لئے جو اس کتاب میں ہے اس دعا کی بدولت کہ ہمیں سیدھا راستہ دکھا، مزید علم کے دروازے کھلتے چلے جائیں۔

اور تیسری چیز آپ نے یہ فرمائی کہ جو ایک مومن کو نشانی کے طور پر حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے وہ ہے شہید کا کمال۔ اور شہید کا کمال یہ ہے کہ دکھوں مصیبتوں اور ابتلاؤں میں اپنے ایمان کے اعلیٰ معیار قائم کرے۔ کوئی خوف، کوئی طمع، کوئی لالچ، کوئی ابتلا تمہارے ایمان کو متزلزل نہ کر سکے، ہلا نہ سکے۔ بلکہ یہ چیزیں ایمان میں اضافے کا باعث بننے والی ہوں اور مشکلات اور ابتلا تمہارے ایمان کی مضبوطی کا نشان بن جائیں۔ ان ابتلاؤں میں تمہارے سے کوئی ایسی حرکت سرزدنہ ہو جو تمہارے اخلاق کے معیاروں پر داغ لگائے اور ان ابتلاؤں میں کبھی کوئی ایسا موقع نہ آئے جب تم بزدلی دکھاؤ، کمزوری دکھاؤ، تمہارے اندر بندوں کا خوف پیدا ہو جائے اور تم اپنے عہد بیعت سے پھر جاؤ۔ اور آپ نے فرمایا کہ یہ علامت بھی غیر معمولی شان کے طور پر تم میں ظاہر ہو تو سمجھا جائے گا کہ تم اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمکی دعا سے حصہ پا رہے ہو۔

اور چوتھی چیز آپ نے ہدایت یافتہ اور انعام پانے والے لوگوں کی یہ بتائی کہ ان میں مرد صالح کا کمال ہوتا ہے۔ اور مرد صالح وہ ہے جو مکمل طور پر صلاح بن جائے۔ اور صلاح کا مطلب ہے کہ اگر تم مشوہ دینے والے ہو تو نیک نیتی سے اگلے کے فائدے کو دیکھ کر مشورہ دو۔ اگر تم نصیحت کر رہے ہو تو تمہاری نصیحت نیکی اور نیک نیتی پر مبنی ہو۔ اور پھر یہ کہ جس ماحول میں تم رہ رہے ہو وہاں سے ہمیشہ امن، صلح اور آشتی اور محبت کا نعرہ بلند ہو رہا ہو۔ وہاں سے ہمیشہ پیار اور محبت کے چشمے پھوٹ رہے ہوں۔ وہاں سے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کے نعرے بلند ہو رہے ہوں۔ تمہارے اندر محسن انسانیت کی انسانیت کے مقام کو بلند کرنے کی تعلیم اور آپ کے عمل کی تصویر نظر آ رہی ہو۔ کبھی کوئی ظلم بھی تمہیں انسانیت سے گری ہوئی حرکت کرنے پر مجبور نہ کرے۔

پس یہ حقوق العباد کی ادائیگی بھی ایک احمدی کا طُرّۂ امتیاز ہونا چاہئے اور ہر احمدی کے ہر عمل اور ہر فعل میں اس کے نظارے نظر آ رہے ہوں تو پھر کہا جا سکے گا کہ انہوں نے اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ کے مضمون کو سمجھا ہے۔ تو دیکھیں کیا خوبصورت وضاحت فرمائی ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے۔ پس یہ نمونے قائم کرنے کے لئے ہم نے کوشش کرنی ہے۔

آجکل مختلف ممالک میں پاکستان میں، بنگلہ دیش میں، انڈونیشیا میں، ہندوستان کی بعض جگہوں پہ اور بعض اور جگہوں پہ بھی احمدیوں کو مشکلات میں ڈالا جا رہا ہے۔ بہت سی جگہوں پر احمدی ابتلا میں ہیں۔ لیکن خوش قسمت بھی ہیں کہ اس زمانے میں ہمیں اس زمانے کے امام اور مسیح ومہدی کو ماننے کی توفیق ملی ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے اور اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی دعاؤں کو سمجھنے اور ان کا ادراک حاصل کرنے کے راستے بھی ہمیں بتائے ہیں۔ پس انہی راستوں پر آج ہر احمدی نے چلنا ہے اور اپنی دعاؤں میں اس طرح اللہ تعالیٰ سے نشان مانگنے ہیں۔ اور جس طرح آپ نے فرمایا ہم نے ان معرفت کے مقامات پر قدم مار کر زمین کی پلیدگیوں سے اپنے آپ کو بچانا ہے۔

یہ چاروں قسم کے لوگ جن کی آپ نے ہمیں مثال دی ہے۔ انہوں نے ہمیشہ یہ دعا کر کے اپنے مقام کو مزید بلندیوں کی طرف لے جانے کی کوشش کی ہے اور جب ان کے نقش پر ہم نے چلنا ہے تو ہمیں بھی اپنے جائزے لینے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا مانگتے ہوئے جھکنا ہو گا کہ اے اللہ! ان کاملین کے نقش قدم پر ہمیں چلا اور ایسا نہ ہو کہ ہم ایک جگہ پر کھڑے ہو جائیں بلکہ ہمارا ہر قدم اور ہر لمحہ ترقی کی طرف بڑھنے والا ہو۔ جب اس طرح اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمکی دعا مانگی جا رہی ہو گی تو پھر اپنے جائزے لینے کی طرف بھی توجہ پیدا ہو رہی ہو گی اور جب اس طرح ہر کوئی اپنے جائزے لے رہا ہو گا اور ہر کوئی اس دعا اور اس سوچ کے ساتھ اپنے نفس میں جھانکے گا تو اس دعا کی برکات کے مزید راستے کھلتے چلے جائیں گے۔ اگر کچھ نظر نہیں آتا اور نمازوں میں صرف طوطے کی طرح رَٹے ہوئے الفاظ دہرا کر سلام پھیر کر بیٹھ جاتے ہیں تو پھر یہ نمازیں تو ہمیں پُرسکون بنانے کے بجائے ہمیں فکر میں ڈالنے والی ہونی چاہئیں۔ کیونکہ ایک طرف تو ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی ذات پر مکمل ایمان لانے والے ہیں۔ ایک طرف تو ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل ایمان لانے والے ہیں۔ ایک طرف تو ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس زمانے کے امام مسیح و مہدی علیہ السلام کو ہم نے مانا ہے۔ اور دوسری طرف ہمیں اپنی عبادتوں میں، اپنے عملوں میں، اپنے اخلاق میں، اپنے تعلق باللہ میں کوئی ترقی نظر نہ آتی ہو تو پھر یہ فکر لازمی ہے اور سوچنے کا مقام ہے کہ اللہ ہماری دعاؤں کو سن بھی رہا ہے یا نہیں۔ کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ دعاؤں کو سن رہا ہے تو پھر دعاؤں کی قبولیت کے اثرات نظر آنے چاہئیں۔ نیکیوں میں آگے بڑھنے کے نظارے نظر آنے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق کے نظارے نظر آنے چاہئیں۔ ہر روز قدم ہدایت کی طرف اٹھتا ہوا نظر آنا چاہئے۔

اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں’’جو شخص محض اللہ تعالیٰ سے ڈر کر اس کی راہ کی تلاش میں کوشش کرتا ہے اور اس سے اس امر کی گرہ کشائی کے لیے دعائیں کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے قانون (وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت70) یعنی جو لوگ ہم میںسے ہو کر کوشش کرتے ہیں ہم اپنی راہیں ان کو دکھا دیتے ہیں) کے موافق خود ہاتھ پکڑ کر راہ دکھا دیتا ہے اور اسے اطمینانِ قلب عطا کرتا ہے۔ اور اگر خود دل ظلمت کدہ اور زبان دعا سے بوجھل ہو اور اعتقاد شرک وبدعت سے ملوّث ہو تو وہ دعا ہی کیا ہے اور وہ طلب ہی کیا ہے جس پر نتائج حسنہ مترتب نہ ہوں ۔جب تک انسان پاک دل اورصدق و خلوص سے تمام ناجائز رستوں اور اُمید کے دروازوں کو اپنے اوپر بند کرکے خدا تعالیٰ ہی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا اس وقت تک وہ اس قابل نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت اورتائید اُسے ملے۔ لیکن جب وہ اللہ تعالیٰ ہی کے دروازہ پر گرتا اور اسی سے دُعا کرتا ہے تو اس کی یہ حالت جاذبِ نصرت اور رحمت ہوتی ہے ۔خدا تعالیٰ آسمان سے انسان کے دل کے کونوں میں جھانکتا ہے اور اگر کسی کونے میں بھی کسی قسم کی ظلمت یا شرک و بد عت کا کوئی حصّہ ہوتا ہے تو اُس کی دُعائوں اور عبادتوں کو اُس کے مُنہ پر اُلٹا مارتا ہے۔ اور اگر دیکھتا ہے کہ اس کا دل ہر قسم کی نفسانی اغراض اور ظلمت سے پاک صاف ہے تو اس کے واسطے رحمت کے دروازے کھولتا ہے اور اسے اپنے سایہ میں لے کر اُس کی پرورش کا خود ذمہ لیتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 396-397۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

تو دیکھیں اس سے دعا کرنے کا طریق اور اس کی روح کی مزید وضاحت ہو گئی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر خدا تعالیٰ سے ڈر کر تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے اس سے راہ ہدایت مانگو تو اللہ تعالیٰ ضرور ان کو اپنی راہیں دکھا دیتا ہے۔ پس یہ شرط ہے کہ دعا دل سے نکل رہی ہو۔ دل میں اللہ کا خوف قائم ہو تو اللہ تعالیٰ ضرور قبول فرماتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ضرور ایسی دعاؤں کو قبول فرماتا ہے اور ضرور ایسے لوگوں کو راستے دکھاتا ہے جو خدا تعالیٰ کا قرب دلانے والے راستے ہوں، جو اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے والے راستے ہوں۔ آپ نے فرمایا اگر نیت نیک ہے تو خود ہاتھ پکڑ کر راہ دکھا دیتا ہے۔ پہلا قدم تو یہ ہے کہ صاف دل ہو کر جب اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کی دعا کر رہے ہوں گے تو ضرور اللہ تعالیٰ راستہ دکھاتا ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو ایک جگہ فرمایا ہے کہ میں نے تو لا مذہبوں کو، جن کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، دین سے ہٹے ہوئے لوگوں کو جب یہ کہا کہ صاف دل ہو کر تم اللہ تعالیٰ سے اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمکی دعا مانگو ۔اگر ان الفاظ میں نہیں تو اپنے الفاظ میں ہدایت مانگ لو تو اللہ تعالیٰ تمہیں ہدایت کا راستہ ضرور دکھا دے گا۔ تو آپ فرماتے ہیں کہ میرے اس کہنے پر بعض لوگوں نے نیک نیتی سے تجربہ کیا اور فائدہ اٹھایا۔(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد اوّل صفحہ 35) اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمکی دعا ضروری تو نہیں کہ صرف مسلمان کے لئے ہے، غیر مسلم بھی اگر کرے گا اپنے الفاظ میں بیشک مانگیں تو اللہ تعالیٰ اسے راستہ دکھاتا ہے۔ نیکیوں کے کرنے کی توفیق عطا فرماتا ہے۔ تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ وہ خدا سے صاف دل ہو کر یہ دعا مانگے اور جب صاف دل ہو کر دعا مانگے گا تو خدا کا خوف اس کے دل میں ہو گا۔ اور خدا کا خوف اس کے دل میں ہو گا تو اللہ تعالیٰ ضرور ہدایت کے راستے بھی کھولے گا۔ اور آپ فرماتے ہیں کہ راستہ کس طرح دکھاتا ہے؟ ہاتھ پکڑ کر دکھاتا ہے۔ اس طرح یقین ہو جاتا ہے اور اطمینان قلب ہوتا ہے کہ انسان کو ماننے کے سوا چارہ نہیں رہتا۔ تو جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمکی دعا نیکیوں میں قدم بڑھانے کا باعث ہوتی ہے اور اس کو اگر خالص ہو کر مانگا جائے تو نیکیوں میں قدم بڑھتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی ذات کا فہم اور اِدراک حاصل ہوتا ہے اور ہونا چاہئے۔ تو یہ اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کے فیض کا پہلا قدم ہے اور جب یہ فیض حاصل ہو جائے تو پھر اگر نیت نیک ہو اور استقامت میسر آ جائے۔ یہ اطمینانِ قلب وقتی نہ ہو۔ پھر دنیا کی گندگیوں میں پڑ کر اس ہدایت کی راہ کو ضائع کرنے والے نہ ہوں تو پھر جب انسان یہ دعا کرتا ہے کہ اے اللہ یہ بات علمی طور پر تو مجھے سمجھ آ گئی کہ تیرا تقویٰ اختیار کرنا چاہئے۔ تیری عبادتوں کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ تیرے بتائے ہوئے حکموں پر عمل کرنا چاہئے۔ تیرے بندوں کے حقوق ادا کرنے چاہئیں لیکن عملی طور پر یہ باتیں مجھ میں اس وقت پیدا ہوں گی جب تیری طرف سے رہنمائی ہو گی اور ہدایت کے مزید راستے کھلیں گے اور مَیں خالص ہوتے ہوئے، تیرے حضور جھکتے ہوئے تجھ سے پھر راہ ہدایت مانگتا ہوں کہ مجھے ان راستوں پر چلا جو تیرے انعام یافتہ لوگوں کے راستے ہیں اور میرے ہر عمل اور میرے ہر فعل میں اس کی گواہی نظر آتی ہو تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا پھر اس قدم پر بھی اللہ تعالیٰ رہنمائی فرماتا ہے اور ہاتھ پکڑ کر اگلے مقام پر لے جاتا ہے۔ اطمینان قلب کے، دل کی تسلی کے، اللہ کے خوف کے معیار بدلنے لگتے ہیں۔

پس ہر احمدی جس کو اللہ تعالیٰ نے پہلے قدم سے دوسرے قدم پر آنے کی توفیق دی ہے اس نے اس زمانے کے امام کو مانا اور پہچانا ہے، علمی طور پر اس بات کا قائل ہو گیا کہ جس مسیح و مہدی نے آنا تھا وہ آ گیا اور ہم اس کی جماعت میں شامل ہو گئے۔ اب اس کو اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے، اس کا خوف دل میں قائم رکھتے ہوئے اس بات کا اہتمام کرنا چاہئے اور اس سے راہ ہدایت طلب کرنی چاہئے کہ وہ اس کی عملی تصویر بننے والے بھی ہوں۔ اپنی نمازوں کو سنوار کر پڑھنے والے بھی ہوں اور اپنے معاشرے کے حقوق کو بھی سنوار کر ادا کرنے والے ہوں۔ احسن طور پر ادا کرنے والے ہوں۔ تب پتا چلے گا کہ سیدھے راستے پر چلنے کی دعا کا ان پر کیا اثر ہوا ہے یا کیا اثر ہو رہا ہے۔

نمازوں کے بارے میں جب بعض لوگوں سے پوچھو، سوال کرو تو بڑی شرمندگی کی حالت میں کہتے ہیں کہ دو یا تین نمازیں ہم پڑھتے ہیں۔ دعا کریں کہ ساری پڑھنی شروع کر دیں۔ ٹھیک ہے دعا تو ہونی چاہئے اور کی بھی جاتی ہے اور یہ بنیادی دعا ہے۔ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا(الفرقان75)۔ لیکن ایسے لوگ جو ہدایت کا راستہ علمی اور ذہنی طور پر قبول کر چکے ہیں اور عملی طور پر بھی ان راستوں پر چلنے کی کوشش کر رہے ہیں اور کوشش شروع بھی کر دی ہے جیسا کہ وہ خود کہتے ہیں کہ ہم دو یا تین نمازیں پڑھتے ہیں ۔ ان دو یا تین نمازوں میں تو اللہ تعالیٰ سے اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ ۔ کی دعا مانگ رہے ہیں جو کم از کم نہیں تو پندرہ بیس دفعہ تو ضرور مختلف نمازوں میں اگر پڑھی جا رہی ہوں تو مانگی جاتی ہے۔ تو اس دعا کے اگر اثر ظاہر نہیں ہو رہے اور اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی اور نیکیوں میں بڑھنے کی طرف توجہ پیدا نہیں ہو رہی تو پھر خوف کا مقام ہے۔ مومن کا تو یہ کام نہیں کہ یہ ایک جگہ پر آ کر ٹھہر جائے۔ اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کا تو مطلب ہی یہ ہے کہ نیکیوں میں آگے قدم بڑھا۔ یہ تو ایک احمدی کے لئے لمحۂ فکریہ ہے کہ اگر وہ دو تین نمازوں کی ادائیگی پر ہی رکا ہوا ہے۔ اگر وہ نیکیوں میں قدم آگے بڑھانے میں رکا ہوا ہے۔ اس کو تو اپنا جائزہ لینا ہو گا کہ حقیقت میں دعا مانگ رہے ہیں یا صرف دعا کے الفاظ ہی دہرا رہے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی طرف بڑھنے کے لئے کی گئی دعا جو خود خدا تعالیٰ نے سکھائی ہے وہ نیک اثر کیوں نہیں ڈال رہی۔ جو دعا خدا تعالیٰ نے خود سکھائی ہے وہ اس کو قبول کیوں نہیں کر رہا جبکہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ تم دعا کرو میں قبول کروں گا۔ پس اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے مانگنے میں کوئی کمی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں اس طرف توجہ دلائی ہے ہمیں اپنے دلوں کو ٹٹولنا چاہئے۔ آپ کے الفاظ ہمیں جھنجھوڑنے والے ہیں۔ ہمیں ہلا دینے والے ہیں۔ فرمایا کہ

’’اگر خود دل ظلمت کدہ اور زبان دعا سے بوجھل ہو اور اعتقاد شرک وبدعت سے ملوّث ہو تو وہ دعا ہی کیا ہے اور وہ طلب ہی کیا ہے جس پر نتائج حسنہ مترتب نہ ہوں۔‘‘

پس ایک دعا کرنے والے کے لئے یہ غور کرنے کا مقام ہے، خوف کا مقام ہے۔ اندھیرے اور ظلمت کی جگہ تو کافر کے دل ہوتے ہیں۔ ایک مومن کا دل نہیں ہوتا ۔ ایک مومن کا دل تو خداتعا لیٰ کے نور کو سمیٹنے والا دل ہے۔ ایک مومن کا دل تو اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت پر چلتے ہوئے تقویٰ کی راہوں پر چلنے والا دل ہے۔ ایک مومن کا دل تو اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق ظلمات سے روشنیوں کی طرف آنے و الا دل ہے۔ اندھیروں سے روشنیوں کی طرف آنے والا دل ہے۔ ایک مومن کا دل تو اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا کرنے والا دل ہے اور اس کی مخلوق کے حقوق بھی ادا کرنے والا دل ہے۔ پس اس میں کبھی اندھیرے پناہ نہیں لے سکتے، کبھی ظلم نہیں پنپ سکتے جو اللہ تعالیٰ کے پیار کو جذب کرنے کی بجائے اس کے غضب کو بھڑکائیں۔

پس آج ہر احمدی یہ عہد کرے کہ ہم نے اپنی نمازوں کے معیاروں کو بھی اونچا کرنا ہے اور خدا کے مسیح سے کئے گئے عہد بیعت کے بعد ہدایت کے تمام معلوم راستوں میں آگے سے آگے بڑھنے کے لئے کوشش کرنی ہے۔ اپنی زبان کو دعا سے بوجھل کرنے کی بجائے اپنی زبانوں کو دعاؤں سے تَر رکھنا ہے۔ اپنے دلوں کو ہلکے سے ہلکے شرک سے بھی پاک رکھنا ہے۔ اپنے دلوں اور اپنے دماغوں سے تمام بدعتوں کو نکال کر باہر پھینکنا ہے۔ ہمارے کام، ہمارے کاروبار، ہماری دنیاوی دلچسپیاں، ہمارے معاشرے کے رسم و رواج جنہوں نے بدعتوں کے رنگ دھار لئے ہیں، ان کو ہم نے اپنے وجود سے نکال باہر پھینکنا ہے تا کہ خالص ہو کر اللہ کے حضور دعائیں کرنے والے بنیں۔ اور اللہ سے جب بھی ہم کسی چیز کے طالب ہوں تو وہ ہدایت کی راہیں ہوں تا کہ اللہ تعالیٰ کی حسنات، اللہ تعالیٰ کی برکات، اللہ تعالیٰ کے فضل ہم ہمیشہ اپنے اوپر نازل ہوتا دیکھیں۔ اور ہماری ایک کے بعد دوسری نماز جو ہے، ہمارا ایک کے بعد دوسرا دن جو ہے وہ ہمارے اندر پاک تبدیلیاں ظاہر کرتا ہوا نظر آئے۔ اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تنبیہ فرمائی ہے ہم ہمیشہ اس سے بچتے ہوئے اپنے اوپر تمام ناجائز راستوں اور امیدوں کے دروازے بند کر کے صرف اور صرف خدا تعالیٰ کے آگے ہاتھ پھیلانے والے، اس سے اس کا قرب پانے کی دعائیں مانگنے والے اور اس سے اس کی ہدایت کے راستوں پر قدم مارتے ہوئے ہر نیکی میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت حاصل کرنے والے ہوں۔ ہمیشہ ہم اپنے اندر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور نصرت کو جذب ہوتا ہوا دیکھیں اور خاص طور پر اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کی دعا ہم پر اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے نئے نئے راستے کھولتی چلی جائے اور ہماری زندگیوں میں ان پاک تبدیلیوں کا ٹھہراؤ نہ آئے جو ایک دفعہ پیدا ہو چکی ہیں ۔ اور یہ ٹھہراؤ کھڑے پانی کے تالاب کی طرح بدبودار پانی میں نہ بدل جائے بلکہ صاف اور شفاف نہر کی طرح ہو جس میں ہر آن اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور فضلوں کے چشموں کا پانی ملتا چلا جاتا ہے۔ ہدایت کے راستے کھلتے چلے جاتے ہیں جو ہماری زندگیوں کو بھی فائدہ پہنچانے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو بھی فائدہ پہنچانے والے ہوں۔

پس جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے جب ہم میں سے ہر ایک اس فکر اور سوچ کے ساتھ دعائیں کر رہا ہو گا۔ ایک فکر کے ساتھ اپنے عملوں کو سنوارنے کی کوشش کر رہا ہو گا تو اس کا شمار ان لوگوں میں ہو جائے گا جن کو نفسانی اغراض اور ظلمتوں سے خدا تعالیٰ پاک صاف کر دیتا ہے اور اپنی رحمت کے سائے میں لے لیتا ہے اور جب خدا تعالیٰ اپنے سائے میں لے لے گا تو پھر ہدایت کے راستے بھی کھلتے چلے جائیں گے اور دو تین نمازیں پڑھنے والے پانچوں نمازیں پڑھنے والے ہو جائیں گے اور پھر باجماعت پڑھنے کی کوشش کرنے والے ہو جائیں گے اور پھر نوافل کی ادائیگی کرنے والوں میں شامل ہو جائیں گے اور یوں ہر دن ترقی کی طرف لے جانے و الا دن ہو گا۔ پھر جب ان عبادتوں کے ساتھ ان انعام یافتہ لوگوں کے باقی عملوں پر بھی نظر ہوگی تو ایک غیر معمولی پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا ہوتی ہوئی ہر ایک کونظر آئے گی۔ اللہ تعالیٰ کے تمام احکام اور اس کی مخلوق کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہوئی اور ان کی ادائیگی کے لئے کوشش نظر آئے گی اور یوں ترقی کے راستے جیسا کہ میں نے کہا کھلتے چلے جائیں گے۔

پس جلسے کے ان دنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان جلسوں کے قیام کے مقصد کو سمجھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم اور دعاؤں سے حصہ پانے کے لئے ہر احمدی اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کے مضمون کو سمجھتے ہوئے اپنی زندگی گزارے۔ آج سے ہی ہر احمدی یہ عہد کرے کہ ہم نے ان راہوں کو حاصل کرنا ہے۔ جب ہم اس طرح اپنی زندگیاں گزارنے کے عہد کرتے ہوئے اس پر عمل کی کوشش کر رہے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ کا پیار بھی حاصل کرنے والے ہوں گے۔ اس کے فضلوں کے وارث بھی بن رہے ہوں گے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کے امن کی ضمانت بھی بن رہے ہوں گے۔

آج تمام دنیامیں جو معاشرے میں فساد نظر آ رہا ہے، کہیں خود کش بم حملے ہو رہے ہیں، کہیں معصوم جانیں ٹرینوں میں ضائع کی جا رہی ہیں، کہیں ہوٹل تباہ کئے جا رہے ہیں ان سب سے بچنے کے لئے ہم ہی ہیں جنہوں نے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کر کے ان کی اصلاح کی طرف توجہ کرنی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ سے دُور جانے اور بدظنیوں کی وجہ سے جو دلوں میں بغض اور کینے پیدا ہو گئے ہیں، اللہ تعالیٰ کو دل کی گہرائی سے ہدایت کا منبع نہ سمجھنے کی وجہ سے جو خدا تعالیٰ سے دُوری پیدا ہو گئی ہے، اللہ تعالیٰ کی طاقتوں کا ادراک نہ ہونے کی وجہ سے جو دلوں میں سختی پیدا ہو گئی ہے اس کو آج اگر کوئی دُور کر سکتا ہے اور اپنے عملی نمونے دکھا سکتا ہے اور دعاؤں سے اپنی اور معاشرے کی قسمت پلٹ سکتا ہے وہ صرف احمدی ہے۔ کیونکہ ایک احمدی ہی ہے جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل اللہ تعالیٰ کی ذات کا صحیح فہم اور اِدراک میسر آ گیا ہے۔ پس آج آپ کی دعائیں ہی ہیں جو نہ صرف ان برائیوں سے آپ کو اور آپ کی نسلوں کو بچانے والی ہوں گی اور ان دعاؤں کی قبولیت کی وجہ سے جو خالص ہو کر خدا سے ہدایت پانے کے لئے کی جائیں ہم نہ صرف اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو بچا رہے ہوں گے بلکہ دنیا کی ہدایت کا باعث بھی بن رہے ہوں گے۔ آپ کی دعاؤں اور عمل سے معاشرے کو بھی ہدایت کے راستے نظر آنے شروع ہو جائیں گے۔ معاشرے کو بھی ان خوبیوں کا پتا چل رہا ہو گا جن کی تعلیم ہمیں اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے دی ہے اور جس کو اس زمانے میں ایک عرصے کے بعد نکھار کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیش فرمایا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو توفیق دے کہ ان دعاؤں کے ساتھ خود بھی ہدایت کے راستوں پر چلنے والے ہوں۔ پاک تبدیلیاں پیدا کرنے والے ہوں۔ بلکہ اپنے ماحول کو اور بھٹکی ہوئی انسانیت کو بھی ہدایت کے راستے دکھانے والے ہوں اور تمام دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانے والے ہوں کیونکہ اب دنیا کی ہدایت اور امن کی ضمانت صرف یہی ایک جھنڈا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے اور جلسے کے یہ دن آپ میں انقلابی تبدیلیاں لانے والے ثابت ہوں اور ہم قبولیت دعا کے نظارے دیکھنے والے ہوں۔ ہم میں سے ہر ایک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کا بھی وارث بنے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ آمین۔ اب دعا کر لیں۔ (دعا)

٭٭٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button