مکرمہ سیّدہ ریاض فاطمہ صاحبہ
(سیّد ساجد احمد۔ فارگو۔ نارتھ ڈکوٹا۔ امریکہ)
میری والدہ محترمہ سیّدہ ریاض فاطمہ صاحبہ اہلیہ سید سجاد حیدر صاحب (مرحوم) چند سال کی بیماری کے بعد 85 سال کی عمر میں 23 مارچ 2017ء کی شام کو جیکسن وِل فلوریڈا (امریکہ) میں وفات پا گئیں۔ اِنَّالِلہ وَ اِنّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ 27مارچ کو ان کی نمازِ جنازہ میں نے پڑھائی جس میں جماعت کے احباب نے کثرت سے شمولیت فرمائی۔
مرحومہ کے والد سید سردار علی شاہ ولد سید ناظم علی شاہ صاحب اپنے خاندان میں پہلے احمدی تھے۔ انہوں نے مجھے میرے بچپن میں کئی دفعہ یہ دلچسپ واقعہ سنایا کہ ایک دفعہ ایک مناظرے میں غیر احمدی مناظر نے کہا کہ جو احمدی ہو جاتا ہے اس کی شکل مسخ ہو جاتی ہے۔ مشہور احمدی مناظر محترم عبدالرحمٰن صاحب خادم نے، جوجماعت میں بہت ہی معروف کتاب احمدیہ تبلیغی پاکٹ بک کے مصنف ہیں، سیدسردار علی شاہ صاحب کو کھڑا ہونے کو کہا اور غیراحمدی مناظر کو چیلنج کیا کہ اگر ان کی بات درست ہے کہ احمدی ہونے سے شکل مسخ ہو جاتی ہے تو وہ اپنے لوگوں میں سے سیّد سردار علی شاہ صاحب سے زیادہ حسِین غیر احمدی شخص کھڑا کریں۔ غیر احمدی مناظر نے کہا کہ یہ سیّد ہیں۔ خادم صاحب نے جواب دیا کہ سیّد کی غلط کام کرنے کی سزا تو دوسروں سے کہیں زیادہ ہونی چاہئے اور اگر تمہارا دعویٰ درست ہے تو ان کی شکل تو احمدیت کے قبول کرنے کی وجہ سے کسی بھی اور شخص کی شکل سے زیادہ خراب ہونی چاہئے۔ خادم صاحب کے اس جواب کا مخالف مناظر کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔
میری والدہ 1931ء میں کھاریاں میں پیدا ہوئیں اور سید سردار علی شاہ صاحب اور ان کی اہلیہ سیدہ رابعہ بی بی کی پہلی اولاد تھیں۔
اس زمانے کے دیہاتی ماحول میں تعلیم کا زیادہ رجحان نہ تھا۔ موٹے لفظوں میں لکھا قرآن پڑھ لیتی تھیں۔ اردو میں اپنا نام لکھ لیتی تھیں۔ حسبِ ضرورت معمولی اور مختصر عبارت بھی اردو میں لکھ لیتی تھیں۔خوش خطی میں لکھی کچھ تحریریں ذرا زور دے کر پڑھ لیتی تھیں۔ میرے ابا جان ادبی شوق رکھتے تھے۔ انہوں نے کئی دلچسپ منتخب اشعار اور نظمیں اپنے ہاتھ سے لکھ کر جمع کی ہوئی تھیں، جن میں سے کئی امی جان کو بہت پسند تھیں اور وہ انہیں کبھی کبھی بڑے شوق سے پڑھتی تھیں۔
آپ اپنے چھوٹے بھائی نثار شاہ کے لئے رشتہ دیکھنے کے لئے 1946ء میں قادیان جلسہ پر گئیں۔ یہ قادیان میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا آخری جلسہ سالانہ تھا۔ دیکھئے جلسے کی برکات اور فائدےکہ اس جلسے کے موقع پر ان کے بھائی کے نکاح کے ساتھ آپ کا نکاح بھی طے پا گیا۔ آپ دونوں بہت خوش قسمت تھے کہ آپ دونوں کے نکاحوں کا اعلان حضرت مسیحِ موعود کے پسرِ موعود اور مصلحِ موعود حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قادیان میں جلسہ کے مبارک موقع پر فرمایا۔
میرے والد شادی کے وقت رینجرز میں تھے۔یہ تقسیمِ ملک کا وقت تھا۔ کچھ لوگ طوعاً اور کچھ لوگ کرہاً ایک ملک سے دوسرے ملک جا رہے تھے۔ بھاگ دوڑ میں بہت سے لوگ اپنی قیمتی اشیاء پیچھے چھوڑ گئے یا لٹیروں سے واپس لی گئیں۔ ابا جان کی ایمانداری کے مدِّ نظر سونے کے زیورات کی حفاظت آپ کے ذمہ لگائی گئی تھی۔ بعد میں آپ محکمہ مال میں چلے گئے۔ آپ کا اکثر تبادلہ ہوتا رہتا تھا۔ والدہ صاحبہ نئے ماحول سے جلدی مانوس ہو جاتی تھیں اور نئے لوگوں سے اچھے روابط قائم کر لیتی تھیں لیکن ان کے ساتھ گپ شپ میں وقت ضائع نہیں کرتی تھیں اور گھر کے کام کاج میں ہر وقت مصروف رہتی تھیں۔ ہر چیز نظافت اور سلیقے سے رکھتی تھیں اور گھر کو خو ب صاف ستھرا رکھتی تھیں۔
آپ نے 1953ء اور 1974ء کے دونوں فسادوں کے دوران میں بڑے استقلال اور ثابت قدمی کے ساتھ بہادرانہ اپنے میاں کا ساتھ دیا اور باقی زندگی کے دوران میں بھی مسائل کا زیادہ علم نہ ہونے کے باوجود احمدیت کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رکھا۔
بچوں کو ان کی مرضی کے اچھے اچھے کھانے بنا کر دیتی تھیں۔ جب بارش ہوتی تو سیرہ بناتیں۔ کھانے موسم کے مطابق ہوتے اور بڑی محنت سے تیار کرتیں۔ مجھے یاد نہیں کہ کبھی آپ سے کھانا جلاہو یا خراب پکا ہو۔
اپنے ، اپنے میاں اور بچوں کے کپڑے خود ہی سیتیں۔ کپڑے بالکل ناپ کے مطابق ہوتے۔ اگر کچھ فرق ہوتا تو ادھیڑ کر دوبارہ سیتیں اور انہیں چین نہ آتا جب تک کہ کوئی نقص باقی نہ رہتا۔ سویٹر بھی بنتی تھیں اور کروشیا کا کام بھی کرتی تھیں۔ ہر سال موسم سرما کی تیاری میں تکیے رضائیاں دوبارہ زندہ کرتیں۔ صابن بھی خود ہی بنا لیتی تھیں۔ پرانے اخبار اور کاغذ بھی ضائع نہیں ہونے دیتی تھیں۔انہیں پانی میں نرم کر کے گھوٹ لیتیں اور ان سے پلیٹیں اور چھابے وغیرہ بنا لیتیں۔ کانوں اور تیلیوں کو آپس میں بُن کر چھابے اور دیگر خوبصورت سجاوٹ کی چیزیں بنا لیتی تھیں۔ محنت سے بے نقص کام کرنے کی کوشش کرنا مَیں نے آپ سے ہی سیکھا۔
جب ہم بچے تھے تو کہانیاں بھی سناتیں۔ نماز میں ہمیں ساتھ کھڑا کر لیتیں اور بلند آواز سے نماز کے الفاظ پڑھتیں تا کہ ہم ان کی نقل کرتے ہوئے نماز ادا کرنے کا طریقہ اچھی طرح سمجھ جائیں۔
میں جب کالج جاتا تھا تو بڑی محبت سے ساتھ لے جانے کے لئے پراٹھا بنا کر دیا کرتی تھیں۔ میرے خورد و نوش کا خوب خیال رکھتی تھیں اور روزانہ سکول جانے سے پہلے مزے دار ناشتے کے ساتھ بد مزہ کاڈ لِوَر آئل (مچھلی کے جگر کا تیل) بھی پینا پڑتا تھا۔ گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران میں میں سارا دن بیٹھک میں کرسی میز پر بیٹھ کر مطالعہ کرتا تھا۔ کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ دوپہر کا کھانا میرے پاس رکھ جاتیں اور میں کام میں اتنا مصروف ہوتا کہ کھاناکھانا بھول جاتا اور شام کو رات کا کھانا لے کر آتیں تو دوپہر کا کھانا وہیں ویسے ہی پڑا ہوتا جیسا کہ رکھ کر گئی تھیں مگر کبھی ناراض نہ ہوتیں اور اپنی محنت کے ضائع ہونے کی شکایت نہ کرتیں اور پرانا کھانا اٹھا کر لے جاتیں اور اس کی جگہ نیا کھانا رکھ جاتیں۔
والد صاحب حکومتی ملازم تھے۔ آمدنی کم اور محدود تھی۔ والد صاحب اپنے دفتری خرچ کے لئے کچھ روپے رکھ لیتے اور باقی ساری رقم انہیں دے دیتے۔ آپ اسے اس طرح سنبھال کر استعمال کرتیں کہ آمدنی لامحدود نظر آتی۔ وہ ابّا جان کا بینک تھیں۔ ابّا جان کو ضرورت پڑتی تو امی جان سے لے لیتے۔
آپ نے آخری عمر میں مجھے بتایا کہ میرے پیدا ہونے کے بعد مجھے بولنا سیکھنے میں بہت دیر لگی۔ انہوں نے ایک تکیے میں میرے لئے پیسے جمع کرنے شروع کر دیئے کہ جب میں بولنا شروع کروں گا تو جو بھی مانگوں گا، وہ مجھے خرید دیں گی۔ میں نے چلنا شروع کرنے کے بعد بولنا تو شروع کر دیا لیکن کبھی کچھ مانگا نہیں۔ اس سارے عرصہ میں آپ اس انتظار میں رقم جمع کرتی رہیں کہ جب بھی کچھ مانگوں گا تو مجھے لے دیں گی۔ جب میں نے کالج کے بعد یونیورسٹی میں جانا شروع کیا تو ایک روز سکوٹر کا ذکر کیا کہ اس سے آنے جانے میں آسانی ہو سکتی ہے۔ مجھے یہ خیال بھی نہ تھا کہ آپ کے پاس بھی کچھ رقم ہو سکتی ہے اور نہ اس خیال سے بات کی کہ کوئی مجھے سکوٹر لے بھی دے گا۔ آپ نے اسی وقت مجھے اس رقم سے جس کو آپ کسی کو بتائے بغیر میرے لئے جمع کرتی رہی تھیں مجھے میری پسند کا ایک بالکل نیا سکوٹر خرید دیا۔
سالوں ساتھ رہنے کے بعد ماں باپ کی بچوں سے علیحدگی بڑی مشکل ہوتی ہے۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے میرے نصرت جہاں سکیم میں افریقہ جانے کے لئے تین سال کے وقف کو قبول فرما لیا تو مجھے رخصت کرتے ہوئے میری والدہ نے مجھے صرف ایک ہی چند لفظوں پر مشتمل لیکن بڑی معنی خیز اور مفید نصیحت فرمائی۔ انہوں نے فرمایا بیٹا، مِٹ کے رہنا۔ یہ نصیحت بہت ساری اسلامی تعلیمات کا جامع خلاصہ ہے اور اس ایک فقرے میں حکمتوں کا دریا رواں دواں ہے جس پر عمل سے مجھے زندگی میں اکثر بہت فائدہ پہنچا۔
امریکہ آنے کے بعد انہوں نے امریکی شہری بننے کے لئے شہریت کا امتحان ضرور پاس کرنا تھا۔ میں نے ان کے کہنے پر اپنی اہلیہ کی مدد کے ساتھ انہیں ایک ٹیپ بنا کرد ی جس میں شہریت حاصل کرنے کے لئے متوقع انگریزی سوالوں کے جواب انگریزی میں ریکارڈ کردیئے۔ آپ نے دن رات محنت کر کے سب سوال و جواب پوری طرح سمجھ لئے اور شہریت کے امتحان میں غیرمتوقع طور پر کامیابی حاصل کرلی۔ شروع میں ہمارے پاس ٹھہرتی تھیں اور میری اہلیہ بشریٰ ان کی ہر معاملے میں مدد اور خدمت کرتی تھیں۔
آپ کی مرضی بہت تھی کہ حج پر جاتیں لیکن گھٹنوں کی معذوری کی وجہ سے نہ جا سکیں تو مجھے حج بدل کے لئے بھجوایا اور اتنی رقم دے دی کہ میں اور میری اہلیہ دونوں دو ہفتے سے زائد عرصے کے لئے حج پر جا سکے اور مکّہ اور مدینہ دونوں مقامات میں رہے اور مکّہ کے سب سے اعلی ہوٹل میں رہنے کا موقع میسر آیا۔ منٰی اور عرفات میں نہ صرف اپنے آبا اور اعزہ و اقارب کے لئے بلکہ اپنے بچپن سے لے کر اُس وقت تک کے ہر زمانے کےرِحمی، دینی، ذہنی اور معاشی تعلق رکھنے والے ایک ایک شخص کو یاد کرکے ان کی ہر قسم کی بہتری کے لئے دعا کرنے کا موقع میسر آیا۔
مرحومہ نماز و روزہ کی پابند، دعا گو اور بہت ملنسار تھیں۔ جب بہت ضعیف ہو گئیں تو جماعت کی تقریبات میں بیماری کی وجہ سے کار میں لیٹ کر تکلیف کے ساتھ جاتی تھیں، مگر انہیں جانا ضرور ہوتا تھا۔ آپ سب لجنات سے اچھے تعلقات رکھتی تھیں۔آپ کی وصیت کرنے کی بڑی خواہش تھی مگر عمر بڑی ہونے کی وجہ سے ان کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔
آپ کے بیٹے سید ساجد احمد، سید خالد احمد اور سید حامد احمد امریکہ میں رہتے ہیں اور آپ کی بیٹی لیڈی ڈاکٹر سیدہ ناصرہ عزیز فاطمہ پاکستان میں رہتی ہیں۔آپ کی عمر کے آخری سالوں میں حامد اور ان کی فیملی نے آپ کی خدمت کی سعادت حاصل کی۔اس سے قبل آپ بہت عرصہ خالد کے پاس رہیں۔
آپ کی وفات پر ہمارے نہایت ہی شفیق وہمدرد امام حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالٰی بنصرہ العزیز نے لندن میں آپ کی نماز جنازہ غائب پڑھائی اور اپنے پُر شفقت تعزیت نامے میں بڑی محبت سے تحریر فرمایا
آپ کی والدہ کی وفات کا بہت افسوس ہؤا ہے۔ انّالِلہ وَ اِنّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کو مغفرت اور رحمت کی چادر میں لپیٹ لے اور آپ کو ان کی جدائی کا صدمہ صبر سے برداشت کرنے کی توفیق دے۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند سے بلند تر فرماتا چلا جائے اور انہیں جنت میں اعلیٰ مقام دے اور سب لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ میری طرف سے اپنے تمام عزیز و اقارب سے بھی تعزیت کر دیں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کا حافظ و ناصر ہو۔ آمین۔