﴿ارشادات عالیہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام﴾
خدا تعالیٰ کسی مُرسَل کو زمین پر پیدا نہیں کرتا مگر فساد کے دفع کرنے کے لئے کہ جس نے زمین کو تباہ کر رکھا ہے۔ پس فسادوں کو غور سے دیکھو اے دانشمندو !
وہ لوگ جنہیں کتاب کا علم ہے اور سعادت سے حصہ رکھتے ہیں مجھ کو قبول کرتے ہیں اور دیر نہیں لگاتے۔ جب وہ قرآن کی بیان کی ہوئی علامتیں
اور خلیفہ کو دیکھتے ہیں جو خدا کی طرف بلاتا ہے تو سجدہ کرتے ہوئے اوندھے گر پڑتے ہیںاور اپنے قصوروں پر پشیمان ہوتے ہیں۔
الباب الثالث
’’ اے قوم! یہ کیسے بُت ہیں کہ جن پر اعتکاف کئے بیٹھے ہو۔ کیا خدا کے کلام کو ترک کرتے ہو ان باتوں کے عوض میں کہ ان کی حقیقت کی شناخت نہیں کرتے۔ تم پر اور تمہاری خود تراشیدہ باتوں پر افسوس۔ وہ قول اور ان کے قائل تمہارے نزدیک ثابت نہیں ہیںاور تم وہم کی پیروی کرتے ہو ۔ کیا گمان کو یقین پر اختیار کرتے ہو حالانکہ گمان حق سے مستغنی نہیں کرتا اور تم اس کے سبب سے بری نہیں ہو سکتے اور خدا نے بہ تحقیق وعدہ فرمایا ہے کہ اسی اُمّت میں سے خلیفہ مقرر ہوں گے۔ کیا تم انکار کرتے ہو۔ اور ہرگز وعدہ نہیں کیا ہے کہ تمہارا مسیح آسمان سے نازل ہووے اور اگر وعدہ کیا ہے ہمیں بھی قرآن سے دکھلاؤ اگرتم سچے ہو۔ اور خدا کا وعدہ سچا ہو چکا ہے کہ خاتم الخلفاء ہم میں سے ہوگا۔ کیا تم اس میں شک رکھتے ہو۔ پھر کونسی لڑائی بعد اس کے باقی رہ گئی۔ تمہیں کیا ہوگیاکہ ڈرتے نہیں۔اپنی آوازوں کو قرآن پر بلند نہ کرو۔ قرآن نے فیصلہ کردیا ہے جس میں کہ تم اختلاف کرتے تھے۔ کیا تم قرآن کے فیصلہ پر راضی نہیں ہوتے اور خدا زیادہ حق دار ہے کہ اس کا فرمودہ قبول کیا جائے اگر تم مومن ہو۔ اور خدا نے تمہارے اوّل اور آخر کو موسیٰ علیہ السلام کے سلسلہ کی مانند بنایا ہے۔ کیا تم شکر کرتے ہو۔ ابتدائے سلسلہ میں تم اپنے سردار اور نبی مثیل موسیٰ کی طرف نظر کرو۔ پس مثیل عیسٰی اس سلسلہ کے آخر میں کہاں ہے یاسلسلہ ناتمام رہ گیا اے فکر کرنے والو! کیاتم اس قوم کے فتنہ کو نہیں دیکھتے کہ ہر ایک بلندی سے دوڑتے ہیں اور تمہیں ان کے پیروں کے نیچے خدا نے ڈال دیا ہے بطور سزا کے پھر بھی رجوع نہیں کرتے۔ قریب ہے کہ تمہارا پروردگا ر تم پر رحم کرے افسوس کیوں نہیں سنتے۔ کیا امید رکھتے ہو کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں؟ یہ تمہاری امید کبھی بھی پوری نہ ہوگی۔ کیا امید رکھتے ہو کہ خدا تعالیٰ اپنا وعدہ خلاف کرے اور تمہاری خواہشوں کی پیروی کرے ۔اے باطل پرستو! اگر خدا تعالیٰ لوگوں کی خواہشوں کی پیروی کرتا تو توحید بالکل نیست و نابود ہو جاتی اور شرک پھیل جاتا اورمشرک بہت ہو جاتے۔اور خدا تعالیٰ کسی مُرسَل کو زمین پر پیدا نہیں کرتا مگر فساد کے دفع کرنے کے لئے کہ جس نے زمین کو تباہ کر رکھا ہے۔ پس فسادوں کو غور سے دیکھو اے دانشمندو ! افسوس ان پر کہ یہ لوگ دیکھتے ہیںکہ اسلام پر کیا بلا نازل ہو رہی ہے پھرنہیں دیکھتے اور اگر ان سے سوال کیا جائے کہ ایک شخص نے دعویٰ کیا کہ میں خدا کی طرف سے ہوں اور مسیح موعود میں ہی ہوں پھر اس نے صلیب کو ایسا توڑا کہ اس کی نظیر زمانہ گذشتہ میں پائی نہیں جاتی اور نہ آئندہ توقع ہے۔ اس کا نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا رکھا ہے؟ جواب دیں گے کہ اس کا نام مسیح اور ابن مریم خدا اور اس کے رسول کی زبان پر مقرر ہوا ہے اور بیان کیا گیا ہے کہ وہ اِسی اُمّت میں سے ہوگا۔ کہو کہ تعریف خدا کو ہی لائق ہے جس نے حق کو ظاہر کیا لیکن بہت لوگ نہیں جانتے۔ اے لوگو ! گمراہی کے دنوں کے کمال کی طرف نگاہ کرو اور خدا کے دنوں کا کفر مت کرواگر متقی ہو۔ کیا تم نے چاند اور سورج کا گرہن رمضان کے مہینے میں نہیںدیکھا۔تم کیوں ہدایت نہیں پاتے۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ طاعون کس طرح پھیل گیااور موت کی کثرت ہوئی۔ پس وہ اور یہ آسمان اور زمین کی گواہیاںہیں جیساکہ رسولوں نے خبر دی تھی اور جو کچھ آخری زمانہ کی خبروں کے متعلق قرآن میں اس کا ذکر آیا ہے سب جمع ہوگئے ہیں۔ اب تم کیوں نہیں جاگتے۔ اور جبکہ ثابت ہوگیا ہے کہ زمانہ کا آخر ہوگیا ہے پس آخری زمانہ کا خلیفہ کہاں ہے اگر پہچانتے ہو۔ اے منکرو! ایمان لاؤ یا نہ لاؤ وہ لوگ جنہیں کتاب کا علم ہے اور سعادت سے حصہ رکھتے ہیں مجھ کو قبول کرتے ہیں اور دیر نہیں لگاتے۔ جب وہ قرآن کی بیان کی ہوئی علامتیں اور خلیفہ کو دیکھتے ہیں جو خدا کی طرف بلاتا ہے تو سجدہ کرتے ہوئے اوندھے گر پڑتے ہیںاور اپنے قصوروں پر پشیمان ہوتے ہیں۔ اور دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھیں حق کے پہچاننے پر آنسو بہاتی ہیں اور ان کے دل سکینت حاصل کرتے ہیں اور خدا کے اتارے ہوئے پر ایمان لاتے ہیں اور روتے ہیں اور کہتے ہیںکہ اے ہمارے پروردگار! ہم نے پکارنے والے کو سنا اور رہنما کو پہچان لیا۔ پس ہمارے گناہوں کو بخش دے ہم توبہ کرتے ہیں۔ اورخدا کہتا ہے کہ آج تم پر کوئی تنبیہ نہیں تمہارے گناہ بخشے جائیں گے اور معزز بندوں میں داخل ہوگے۔‘‘
(خطبہ الہامیہ مع اردو ترجمہ صفحہ 96تا99۔شائع کردہ نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان۔ربوہ)