خطاب حضور انور

مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے نیشنل اجتماع کے موقع پر11؍جون2006ء بروز اتوارسیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا مئی مارکیٹ Mannheimمیں اختتامی خطاب

یہ جو ذیلی تنظیموں کے اجتماعات ہیں اس لئے منعقد کئے جاتے ہیں تا کہ مختلف پروگراموں میں حصہ لے کر خدّام اپنے دینی، علمی، روحانی معیاروں کو بہتر کر سکیں اور بہتر کرنے کی طرف توجہ دے سکیں اور ساتھ ہی مختلف کھیلوں کے پروگرام ترتیب دے کر اس بات کا بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ جسم کا جو حق ہے وہ بھی ادا کیا جائے کیونکہ صحت مند جسم ہو گا

تو زندگی کا جو اصل مقصد ہے یعنی عبادت، اس کا بھی حق ادا ہو سکتا ہے۔ اور پھر کھیلوں کے پروگراموں سے شائقین کی بھی اور پلیئرز(players) کی بھی ذہنی تفریح بھی

ہو جاتی ہے۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ صحت مند تفریح صحت مند جسم کے لئے ہے اور صحت مند جسم اللہ تعالیٰ کے احکامات کی بجا آوری کے لئے ضروری ہے۔

یہ عبادتیں ہی ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضل نے تمہیں باقی تعلیمات پر عمل کرنے کے قابل بنانا ہے

ہر احمدی کی ہر خادم کی اصلاح تب ہو گی ،اُس کا خدا سے تعلق تب پیدا ہو گا، دنیا کے کاروبار اور مصروفیتوں کے بُت تب ٹوٹیں گے جب آپ اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والے بنیں گے ورنہ اللہ اکبر کے نعرے بھی کھوکھلے ہیں اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے جو دعوے ہیں وہ بھی کھوکھلے ہیں۔

ہر حالت میں سچائی پر قائم رہنے اور جھوٹ سے بچنے، سنی سنائی بات کو آگے نہ پھیلانے، مومنوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے اور فتنہ پیدا کرنے والی باتیں نہ کرنے، صلہ رحمی کرنے اور پردہ وغیرہ امور سے متعلق قرآن و حدیث کی تعلیمات اور سنّت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کی روشنی میں اہم نصائح

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔


آج آپ کا یہ اجتماع اس وقت اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ یہ جو ذیلی تنظیموں کے اجتماعات ہیں اس لئے منعقد کئے جاتے ہیں تا کہ مختلف پروگراموں میں حصہ لے کر خدام اپنے دینی، علمی، روحانی معیاروں کو بہتر کر سکیں اور بہتر کرنے کی طرف توجہ دے سکیں اور ساتھ ہی مختلف کھیلوں کے پروگرام ترتیب دے کر اس بات کا بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ جسم کا جو حق ہے وہ بھی ادا کیا جائے کیونکہ صحت مند جسم ہو گا تو زندگی کا جو اصل مقصد ہے یعنی عبادت، اس کا بھی حق ادا ہو سکتا ہے۔ اور پھر کھیلوں کے پروگراموں سے شائقین کی بھی اور پلیئرز(players) کی بھی ذہنی تفریح بھی ہو جاتی ہے۔ اس لئے ہماری کھیلوں کے پروگراموں میں یہ مقصد اصل میں مدنظر ہوتا ہے۔ ہارنے یا جیتنے پر ان لوگوں کی طرح کے ردّعمل ظاہر نہیں ہوتے جو کھیل کو اپنی اَنا اور زندگی اور موت کا سوال بنا لیتے ہیں اور پھر ہارنے جیتنے پر بعض اوقات ٹیموں کی آپس میں لڑائیاں بھی ہو جاتی ہیں اور بعض ریفری کے فیصلوں پر بھی لڑائیاں ہو جاتی ہیں۔ ایک دوسرے کی ٹیم کے کھلاڑیوں کو شدید نقصان پہنچایا جاتا ہے یا اس کی کوشش کی جاتی ہے۔ پھر شائقین بھی جو جس ٹیم کی طرف ہوتے ہیں ہارنے جیتنے پر نعرہ بازی کرتے ہوئے ایک دوسرے سے الجھ جاتے ہیں۔ گراؤنڈز میں آ جاتے ہیں۔ سرپھٹول ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ تو کھیل میں یہ لغو حرکات اور لغویات جو ہیں یہ ہماری روایات میں نہیں ہیں اور کبھی بھی نہیں رہیں۔ ہم تو صحت مند جسم کے لئے صحت مند تفریح کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ یہ کوشش کی جاتی ہے کہ کھیلیں اس مقصد کے لئے ہوں اور اسی لئے ہماری گیمز میں سپورٹس مَین سپرٹ(Sportsman Spirit) کا اعلیٰ مظاہرہ ہوتا ہے اور نظر آنا چاہئے۔ یہی وسیع حوصلگی اور کھیل کو کھیل کی طرح سمجھنا یہی اصل مقصد ہے کہ کھیل بھی کھیلی جائے اور جسم کا حق بھی ادا کیا جائے اور یہی انسان کا اصل مقصد ہے کہ اس سے اس کو جماعت کے لئے کارآمد وجود بنایا جائے۔ عبادت کے لئے کارآمد وجود بنایا جائے۔ اس لئے ہمارے ہاں اگر کوئی ایسی حرکت ہو جائے کہ کسی نے کھیل میں نامناسب رویہ اختیار کیا ہو تو بڑی سخت سزا بھی دی جاتی ہے۔مَیں نئے نئے نوجوانوں کو یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ ہمیشہ ذہن میں یہ بات رکھیں کہ اُن کا جو مقصد ہے وہ ان کے مدّنظر ہونا چاہئے۔ جوانی کے جوش میں کبھی اپنی روایات کو بھول نہ جائیں۔ اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ صحت مند تفریح صحت مند جسم کے لئے ہے اور صحت مند جسم اللہ تعالیٰ کے احکامات کی بجا آوری کے لئے ضروری ہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جہاں مختلف طبقات کی تربیت کی طرف توجہ کی اور ہر پہلو سے ان کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلایا وہاں خدام الاحمدیہ کی بھی رہنمائی فرمائی۔ جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ ’’قوموں کی اصلاح نوجوانوں کی اصلاح کے بغیر نہیں ہو سکتی‘‘۔ (خطباتِ محمود جلد 19 صفحہ 194 خطبہ بیان فرمودہ یکم اپریل 1938ء) اسی لئے آپ نے خدام کی روحانی اخلاقی اور دینی تربیت کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر بھی فٹ رکھنے کے لئے ان کو پروگرام دئیے۔ دنیا میں ہر جگہ خدام الاحمدیہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے اجتماعوں میں ایسے پروگرام بناتی ہے۔ اطفال کے لئے بھی پروگرام بنتے ہیں تاکہ ہمارے بچے بھی ہر لحاظ سے تربیت یافتہ ہو کر نوجوانی کی عمر کو پہنچیں اور نوجوان بھی صحیح طور پر تربیت حاصل کر کے اپنے نفس کے جذبات کو، اپنے نفس کو کنٹرول میں رکھیں اور اس طرح اپنے ذہنوں کو مزید جلا بخشیں اور اپنی سوچوں کو گہرا اور بالغ کرنے کی کوشش کریں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے پیدا کرنے والے خدا کی پہچان کر سکیں۔ اور یہی راز تھا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خدام کو یہ نعرہ دینے کا کہ ’’قوموں کی اصلاح نوجوانوں کی اصلاح کے بغیر نہیں ہو سکتی‘‘۔ کہ نوجوان اپنی تربیت کر کے اپنے آپ کو اتنا صیقل کر لیں اتنا چمکا لیں کہ ہر خادم ہر احمدی نوجوان احمدیت کا ایک چمکتا ستارہ بن جائے اور پھر آگے جماعت کی ذمہ واریاں سنبھالنے کے قابل ہو سکے۔

پس یہ کھیلوں کے پروگرام یا علمی پروگراموں کے مقابلے اس لئے نہیں ہوتے کہ آپ مقابلے کے لئے تھوڑی بہت تیاری کر لیں اور مقابلہ جیت کر انعام لے لیں اور بعد میں نعرہ لگ جائے کہ فلاں ریجن زندہ باد اور فلاں ریجن زندہ باد۔ بلکہ یہ مقابلے اس لئے ہیں کہ یہ جو کھیلیں ہیں یہ آپ میں صحت مند تفریح کا احساس پیدا کریں اور نوجوان گھر میں بیٹھ کر ٹی وی پر فلمیں دیکھنے کی بجائے یا دوسری لغویات میں مصروف ہونے کی بجائے اپنی صحت کا خیال رکھیں تا کہ ان کے صحت مند جسم سے جماعت فائدہ اٹھا سکے۔

اور اسی طرح علمی مقابلے ہیں۔ وہ بھی اس لئے کئے جاتے ہیں کہ آپ کے ذہنوں میں علم کی جاگ لگائی جائے۔ قرآن کریم میں سے مختلف مقابلے کروا کر آپ کو اس قابل بنایا جاتا ہے کہ اس روحانی مائدہ سے، اس روحانی غذا سے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے اپنے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے اتاری ہے آپ اس پر غور کریں اور اس کے علم کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اس طرف مزید توجہ دیں۔ کیونکہ آج یہی ایک کتاب اور شریعت ہے جس کے احکامات پر عمل کر کے ہم اپنی اصلاح کر سکتے ہیں اور اصلاح کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکتے ہیں جو ایک عقل مند انسان، ایک مومن انسان کی زندگی کا مقصد ہونا چاہئے۔ اور پھر ان احکامات پر عمل کے طریقے کیا ہیں؟ کس طرح ان پر عمل کرنا ہے؟ کیا معیار ہیں جو حاصل کرنے ہیں؟ اس کے لئے ہمارے سامنے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا اُسوہ پیش فرمایا اور جس کے بارے میں ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرما دیا کہ اگر اپنی اصلاح چاہتے ہو، اگر ملک و قوم کا نام روشن کرنا چاہتے ہو ،اگر جماعت کی نیک نامی چاہتے ہو، اگر اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہو تو میری یہ تعلیم جو قرآن کریم میں دی گئی ہے اس پر عمل کرنے کے طریقے اور سلیقے میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت سے حاصل کرو کیونکہ یہ تمام ترقیات اب میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سب سے بڑا اور پہلا نمونہ ہمارے سامنے قائم فرمایا وہ عبادتوں کے اعلیٰ معیار کا ہے۔ کیونکہ یہ عبادتیں ہی ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضل نے تمہیں باقی تعلیمات پر عمل کرنے کے قابل بنانا ہے۔ اور آپ کی عبادتوں کے معیار کیا تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے پہلے ہی نوجوانی کی عمر میں بھی کس طرح غار حرا میں جا کر عبادت کیا کرتے تھے کئی کئی دن وہاں رہتے تھے اور عبادت میں مشغول رہتے تھے۔ اسی لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ جو نعرہ یہاں لکھا ہوا ہے کہ اصل میں تو جوانی کی عمر ہی وہ زمانہ ہے جس میں تہجد، دعا اور ذکر الٰہی کی طاقت ہوتی ہے۔ پس اس زمانے سے فائدہ اٹھانا چاہئے بجائے اس کے کہ اس کو لغویات میں ضائع کیا جائے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کی نبوت پر فائز ہونے کے بعد تو ایسی حالت تھی کہ ان کو الفاظ میں بیان ہی نہیں کیا جا سکتا۔ تبھی تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا تھا جب آپ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت اور نوافل کے بارے میں کسی نے پوچھا تو آپ نے جواب دیا کہ وہ اتنی لمبی اور پیاری اور حسین ہوا کرتی تھیں کہ اس نماز کی لمبائی اور حسن و خوبی کے متعلق مت پوچھو۔(صحیح البخاری کتاب التھجد باب قیام النبیؐ باللیل فی رمضان وغیرہ حدیث 1147) یعنی وہ چیز الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتی۔اور یہ تھا نمونہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا کہ میں نے جنّ و اِنس کو عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ اس کے بعد کس طرح ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس مقصد کے لئے انسان کو پیدا کیا ہے انسان کامل اس سے لمحہ بھر بھی غافل رہتا یا ادھر ادھر ہوتا۔ آپ کے اس طرح اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کے ذکر میں ہر وقت ڈوبے رہنے کی تعریف اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں فرمائی ہے۔ آپ سے یہ اعلان کروایا ہے کہ قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَايَ وَمَمَاتِیْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (الانعام163:)۔تو کہہ دے کہ میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔

پس یہ اعلان کروا کر ایک معیار اور نمونہ ہمارے سامنے رکھ دیا کہ جس کو تم نبی مانتے ہو جس کو نبی ماننے کا تمہارا دعویٰ ہے اس کی تو یہ حالت ہے۔ تم بھی اپنا سب کچھ اللہ کی خاطر کرنے کی کوشش کرو۔ اللہ کو ہی اپنا رب سمجھو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے اور یہاں تک پہنچایا ہے۔ اگر ہر ایک اپنی پہلی حالت پر غور کرے اور پھر دیکھے کہ ہمارے رب کے ہمارے پر کتنے احسانات ہیں تو اس کے احسانوں کے آگے جھکتے چلے جائیں گے اور پھر ہماری عبادتیں بھی خالص اللہ کے لئے ہو جائیں گی۔ ورنہ اگر دنیا کی چیزوں کو، اپنے کاروبار کو ربّ سمجھتے رہے اور اپنی نمازوں کی حفاظت نہ کی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ نماز کو چھوڑنا انسان کو شرک اور کفر کے قریب کر دیتا ہے۔(صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان اطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلوٰۃ حدیث 246)

پس ہر احمدی کی، ہر خادم کی اصلاح تب ہو گی ،اُس کا خدا سے تعلق تب پیدا ہو گا، دنیا کے کاروبار اور مصروفیتوں کے بُت تب ٹوٹیں گے جب آپ اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والے بنیں گے ورنہ اللہ اکبر کے نعرے بھی کھوکھلے ہیں اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے جو دعوے ہیں وہ بھی کھوکھلے ہیں۔ ہر احمدی کو چاہئے کہ اس کی حفاظت کی کوشش کرے۔ ہر خادم کو چاہئے کہ اس کی حفاظت کی کوشش کرے اور پہلے سے بڑھ کر اپنے نمازوں کے معیار کو بڑھائیں۔

پھر سچائی ہے ہر حالت میں سچائی پر قائم رہنا ہے۔ اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوۂ حسنہ کیا تھا؟ آپ کی سچائی کا معیار کیا تھا؟ وہ بلند مقام تھا کہ ابو جہل جو بدترین دشمن تھا، جو آپ کا سب سے بڑا دشمن تھا، اس نے بھی یہ گواہی دی کہ ہم تمہیں جھوٹا نہیں کہتے (سنن الترمذی ابواب تفسیر القرآن باب ومن سورۃ الانعام حدیث 3064) اور نہ کہہ سکتے ہیں کیونکہ آج تک ہم نے آپ کی ذات میں جھوٹ نہیں دیکھا۔ لیکن جس کو اللہ ہدایت نہ دے اس کو تو پھر کوئی ہدایت نہیں دے سکتا اور نہ وہ ہدایت پا سکتا ہے۔ یہ کہنے کے باوجود کہ کبھی جھوٹ نہیں دیکھا اس نے یہی کہا کہ ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے۔ تمہاری سچائی کے قائل ہونے کے باوجود ہم یہ ماننے کو تیار نہیں کہ آپ جو تعلیم لے کر آئے ہیں وہ سچی ہے۔ اس کو ہم جھوٹا ہی کہیں گے اور کبھی نہیں مانیں گے اور اسی لئے اس کا بدانجام بھی ہوا۔ اسی طرح اَور بہت سے واقعات ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ دشمن بھی ہمیشہ نبوت کے دعویٰ سے پہلے بھی اور بعد میں بھی آپ کی سچائی کے قائل رہے۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ماننے والوں کے سچائی کے معیار کیا دیکھنا چاہتے تھے؟ اس بارے میں ایک روایت بیان کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بڑے گناہ یہ ہیں۔ اللہ کا شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی قسم کھانا۔(صحیح البخاری کتاب الشہادات باب ما قیل فی شھادۃ الزور حدیث 2653) اور ایک روایت میں آپ نے فرمایا جھوٹی قسم کھانا جس کے ذریعہ سے انسان کسی مسلمان کا حق مارے یہ سب سے بڑا گناہ ہے۔(صحیح البخاری کتاب استتابۃ المرتدین والمعاندین وقتالھم باب اثم من اشرک باللہ … الخ حدیث 6920)

اب یہ دیکھیں آجکل بعض لوگ اپنا ناجائز طور پر حق لینے کے لئے یا کسی کا حق مارنے کے لئے، کسی دوسرے کو نقصان پہنچانے کے لئے غلط بیانی کر جاتے ہیں۔ بعض دفعہ بعض احمدی بھی کر جاتے ہیں چاہے اِکَّا دُکَّا ہی کیس ہوں۔ آپ نوجوان اور بچے اس بات کو یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے جھوٹ کو شرک کے برابر قرار دیا ہے۔ اس لئے ہمیشہ سچائی پر قائم ہوں اور سچ بولیں۔ اور سچائی کا جو وصف ہے یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں اس حد تک پیدا کرنا چاہتے تھے کہ آپ نے ایک دفعہ ایک عورت کو اپنے بچے کو اپنے پاس یہ کہہ کر بلانے پر کہ ادھر آؤ مَیں تمہیں ایک چیز دوں گی۔ فرمایا کہ اگر تم اس کو کوئی چیز نہ دیتی تو یہ جھوٹ بولنے والی بات تھی (سنن ابی داؤد کتاب الأداب باب فی التشدید فی الکذب حدیث 4991) اور پھر اس طرح بچہ بھی جھوٹ سیکھتا ہے۔

پس آپ جو نوجوان ہیں ہمیشہ یاد رکھیں کہ ذرا سی بھی غلط بیانی اگر خود کرتے ہیں یا جن کے چھوٹے بچے ہیں وہ اپنے بچوں کے سامنے کریں گے تو جھوٹ سکھانے والے بن جائیں گے ۔

پھر ایک بیماری ہے کہ زبان کے چسکے کے لئے، مزے لینے کے لئے ہر سنی سنائی بات مجلسوں میں یا اپنے دوستوں میں بیان کرنے لگ جاتے ہیں کہ فلاں شخص نے یہ بات کی تھی۔ فلاں عہدیدار نے یہ بات کی تھی اور اس کی اور فلاں قائد کی یا مہتمم کی یا فلاں ریجنل امیر کی بڑی آجکل ٹھنی رہتی ہے۔ حالانکہ بات کچھ بھی نہیں ہوتی۔ سوائے اس کے کہ اس سے فتنہ پیدا ہو کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ دوسرے شخص کی یا اشخاص کی جن کے متعلق باتیں کی جا رہی ہیں صرف بدنامی ہو رہی ہوتی ہے۔ اس بیہودگی کو روکنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی انسان کے جھوٹا ہونے کے لئے اتناہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات لوگوں میں بیان کرتا پھرے۔(صحیح مسلم مقدمہ الکتاب لامام مسلم باب النھی عن الحدیث بکل ما سمع حدیث 7)

پھر ایک بیماری ہے کسی بات کو دو آدمیوں کے درمیان اس طرح بیان کرنا جس سے دو مومنوں کے درمیان رنجش پیدا ہو یا پیدا ہونے کا خطرہ ہو۔ اور کئی دفعہ ایسے واقعات ہوتے ہیں جس سے ایک شخص اپنی بدفطرتی کی وجہ سے دو خاندانوں میں پھوٹ ڈال دیتا ہے، فتنہ پیدا کر دیتا ہے۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ عورتیں ایسی باتیں کرتی ہیں لیکن اب تو مردوں میں بھی یہ بیہودگی اور لغویات پیدا ہو چکی ہیں۔ بعض میںتو بہت زیادہ ہے جس سے دو خاندانوں کے تعلقات ختم ہو جاتے ہیں۔ لیکن اب تو اس حد تک یہ بڑھ چکی ہے کہ بعض دفعہ فکر پیدا ہو جاتی ہے۔ میاں بیوی میں پھوٹ ڈال دی جاتی ہے۔ تو ایسے فتنے پیدا کرنے والے شخص کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ آدمی بدترین ہے جس کے دو منہ ہوں۔(صحیح مسلم کتاب البر و الصلۃ والأدب باب ذم ذی الوجھین و تحریم فعلہ حدیث 6630) یعنی ایک کے پاس جا کے کوئی بات کی۔ دوسرے کے پاس جا کے کچھ بات کی تا کہ فتنہ پیدا ہو اور ایسا شخص بڑا منافق اور چغل خور ہے۔

پس ہمیشہ ایسی باتوں سے بچنا چاہئے۔ یہی عمر ہے بچوں کی بھی، نوجوانوں کی بھی جو جوانی میں داخل ہو رہے ہیں۔ ان کی بھی اور جو نوجو ابھی ان ہیں ان کی بھی کہ اس عمر میں برائیوں سے بچنے کی اپنے آپ کو جتنی عادت ڈال لیں گے اتنی زیادہ اصلاح کی طرف قدم بڑھتا چلا جائے گا۔ ہماری اصلاح کے لئے جو حکم ہے کہ نیکیوں میں آگے بڑھو اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

اور صحابہ اپنی اصلاح کے لئے ہر وقت انسان کامل صلی اللہ علیہ وسلم سے نیکیوں میں آگے بڑھنے کے راستے پوچھا کرتے تھے۔ جو بہت قریب رہنے والے تھے وہ تو آپ کے عمل کو دیکھ کر اپنی اصلاح کر لیا کرتے تھے جو زیادہ قریب نہیں ہوتے تھے۔ وہ جب مجلس میں آتے تھے تو آ کر آپ سے سوال پوچھا کرتے تھے۔

ایک دفعہ ایک شخص آپ کے پاس آیا اور عرض کی کہ مجھے کوئی ایسا گر بتائیں جو سیدھا مجھے جنت میں لے جائے۔( یہ نہیں تھا کہ مجھے کوئی ایسا گر بتائیں جس سے میری مالی حالت بہتر ہو جائے یا میرے خاندان کا وقار بلند ہو جائے۔ فکر تھی تو اپنی عاقبت کی۔) آپؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ نماز باجماعت پڑھو۔ زکوۃ دو اور رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرو اور حسن سلوک کرو۔(صحیح البخاری کتاب الأدب باب فضل صلۃ الرحم حدیث 5983)

اب رشتہ داروں سے صلہ رحمی اور حسن سلوک میں تمام رشتے آ جاتے ہیں۔ بعض نوجوان شادیوں کے بعد اپنی بیویوں یا ان کے ماں باپ یا بہن بھائی سے حسن سلوک نہیںکرتے۔ بعض لڑکوں کے ماں باپ کی طرف سے پابندیاں لگ جاتی ہیں۔ تو ایسے نوجوانوں کو اپنے ماں باپ کو بھی سمجھانا چاہئے کہ اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم جس کام کے کرنے سے جنت کی بشارت دے رہے ہیں آپ ہمیں اس سے روک رہے ہیں۔ تو جہاں اللہ اور رسول کے حکموں پر صحیح عمل نہ ہو رہا ہو وہاں ادب کے دائرے میں رہ کر بڑوں کو سمجھانا بھی ضروری ہے اورسمجھانے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔ اللہ کی رضا کی خاطر اور دعا کر کے جب آپ اپنے حالات کو بہتر بنانے کے لئے اس طرح سمجھائیں گے تو اللہ تعالیٰ اس میں برکت عطا فرمائے گا۔ باتیں تو بہت سی ہیں جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے پیش فرمائی ہیں، جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں وہ حکم دیا ہے اور جن کو چھوڑنے کی ہمیں تلقین فرمائی ہے اور ان اوامر و نواہی کے جو اعلیٰ نمونے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی قائم فرمائے اور مختلف وقتوں میں صحابہ کو بھی نصیحت فرمائی اور فرمایا کرتے تھے کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا لیکن یہ سب تو اس وقت بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔

آپ میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ قرآن کریم کو پڑھیں۔ ان احکامات کو سمجھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے ان کے نمونے دیکھیں۔ آپ نے اپنی مجالس میں اپنے ماننے والوں کو جو بتایا ہے اس کو سنیں اور پڑھیں اور زندگیوں کا حصہ بنائیں۔ درسوں میں، تقریروں میں، خطبات میں جو مختلف نصائح سنتے ہیں اور یہاں اجتماع پہ بھی آپ اس لئے اکٹھے ہوئے تھے کہ علمی اور روحانی پیاس بجھانے کی کوشش کریں ان پر بھی عمل کرنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ انسانی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جس سے ایک مومن کی زندگی کی اصلاح ہو سکتی ہو اور اللہ تعالیٰ نے اس کو بیان نہ فرمایا ہو اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں ہمارے سامنے اس کی وضاحت نہ فرمائی ہو۔ اگر ہم اتنا کچھ میسر آنے کے بعد بھی اس پر عمل نہ کریںتو یہ ہماری بدقسمتی ہو گی۔

ایک بات اَور ہے جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ جس کا تعلق گو کہ براہ راست عورتوں سے ہے لیکن مرد بھی اپنے کسی کمپلیکس یا کمزوری کی وجہ سے اس میں حصہ دار بن رہے ہیں ۔ اور وہ ہے پردہ۔

پردے کا، نظر کا پردہ کرنے کا حکم ویسے تو عورت مرد دونوں کو ہے۔ لیکن عورت کے لئے کچھ اس سے زائد بھی ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا پردہ کا تعلق براہ راست عورت کے ساتھ ہے لیکن مردوں کا تعلق اس طرح بنتا ہے کہ جب بہت ساری بچیاں بیاہ کر یہاں آتی ہیں۔ کچھ تو پیدا ہی یہاں ہوئی ہیں، پلی بڑھی ہیں اور بیاہ کر یہیں دوسرے گھروں میں جاتی ہیں۔ ان کے پردوں کے بارے میں تو ان کے ماں باپ کو چاہئے تھا کہ جب ان کے گھروں میں تھیں تو ان کی صحیح تربیت کرتے اور پردے کی اہمیت کے بارے میں بتاتے۔ لیکن اب شادی کے بعد حجاب اور اسلامی پردے کی پابندی کے بارے میں خاوندوں کا فرض ہے کہ انہیں پیار سے سمجھائیں تا کہ وہ اس حکم کی تعمیل کرنے والی ہوں۔ لیکن جو میں نے پہلے کہا تھا کہ پاکستان سے بیاہ کر آنے والی یا ہندوستان سے بیاہ کر آنے والی وہاں تو وہ برقع پہنتی آئی ہیں لیکن یہاں آ کر ان کے برقعے اتر جاتے ہیں اور پردہ بھی نام کا ہی رہ جاتا ہے۔ صرف گلے میں ایک ہلکا سا دوپٹہ رہ جاتا ہے۔ اور عموماً پتا کرنے پر یہی راز کھلتا ہے کہ اصل میں مردوں کی عقل پہ پردہ پڑا ہوا ہے اور اس وجہ سے یہ حال ہوا ہے۔ پتا نہیں لڑکوں کو، نوجوانوں کو یا مردوں کو اس کا کیا کمپلیکس ہے۔

یہ بھی شکایات ملتی ہیں کہ مرد اور نوجوان لڑکیوں کو کہتے ہیں، اپنی بیویوں کو کہتے ہیںکہ اگر باہر ہمارے ساتھ جانا ہے تو پھر نقاب اتار کر چلو۔ سکارف باندھ لو یا دوپٹہ لے لو۔ چادر کی حد تک بھی مناسب ہوتا ہے۔ لیکن حجاب، دوپٹہ تو آہستہ آہستہ بالکل ہی ختم ہو جاتا ہے۔ لوگ کیا کہیں گے کہ بڑا بیک ورڈ(backward) آدمی ہے۔ ایسا بیک ورڈ ہونے پر تو آپ کو فخر ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے ایک حکم کی تعمیل کرنے والے بن رہے ہیں۔ اور اگر لڑکیاں یہاں آ کر خود بھی یہ پردے اتارتی ہیںتو لڑکوں کا، مردوں کا کام ہے کہ ان کو کہیں کہ پردے کی پابندی کرو۔ بہت سے دوسرے کام تو زبردستی کروا رہے ہوتے ہیں۔ عورتوں پر، بچیوں پر غلط قسم کی سختیاں کر رہے ہوتے ہیں لیکن اگر اسلامی تعلیم پر عمل کروانے کے لئے بھی سختی کر دیں گے تو اس کا تو ثواب ہی مل رہا ہو گا۔

مختلف جگہوں پہ پردہ کے معیار ہیں۔ ایک نو احمدی لڑکی یا بچی ہے جو پہلے مسلمان نہیں ہے اور عیسائیت سے احمدی ہوئی ہےوہ اگر حجاب لیتی ہے، سکارف باندھتی ہے، کھلا کوٹ پہنتی ہے تو وہ اس کے لئے پردہ ہے۔ لیکن پردہ کے معیار تو آہستہ آہستہ بڑھنے چاہئیں جس طرح ایمان بڑھتا ہے نہ یہ کہ جو پہلے پردہ کے بڑھے ہوئے معیار تھے وہ کم ہونے شروع ہو جائیں۔ بہر حال مَیں یہ کہہ رہا تھا کہ اَور معاملوں میں جو سختی کرتے ہیں تو یہاں بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن سختی سے میرا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ چلو جی ہمیں تو اجازت مل گئی ہے اور اس بات پر اپنی بیویوں کو مارنا پیٹنا شروع کر دیں۔ تو بعضوں کا یہ حال بھی شروع ہو جاتا ہے کہ چلو اب ہمیں چھٹی مل گئی ہے۔ یہ مارنا پیٹنا تو ویسے ہی منع ہے۔ اس لئے اس کے بہانے کبھی تلاش نہ کریں اور اصلاح کی وہ کوشش کریں جو اصلاح کا اصل مقصد ہے۔ اور اصلاح پیار اور محبت سے ہی ہوتی ہے۔ کیونکہ بعض دفعہ یہ ناجائز قسم کی جو سختیاں شروع ہو جاتی ہیں اور مارنا پیٹنا جو ہے اس سے اولادیں برباد ہو رہی ہوتی ہیں۔ اس لئے اپنی اولادوں کا بھی خیال رکھیں۔ یہ بچے آپ کے بچے نہیں، جماعت کے بھی بچے ہیں۔ اس لئے اس لحاظ سے بھی ان کی تربیت کرنی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اپنی ہر قسم کی ذمہ داریاں نبھانے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ لوگ اپنے عہد کو پورا کرتے ہوئے جو اس زمانے کے امام کے ساتھ ہر ایک احمدی نے کیا ہے حقیقی معنوں میں ہر رنگ میں اپنی اصلاح کرتے ہوئے اپنے پیدا کرنے والے خدا سے تعلق جوڑنے والے ہوں اور اس کے حقیقی عبد بننے والے ہوں۔

شروع میں صحت جسمانی کی بات ہو رہی تھی جو مَیں نے کی تھی۔اب ضمناً آخر میں مَیں کہنا چاہتا ہوں کہ آج کی یہ رسّہ کشی میں نے ان سے زبردستی کروائی۔ اس سے یہ پتا لگ گیا کہ مرکزی عاملہ کی صحت بہت کمزور ہے۔ اس لئے ان کو اپنی صحت کا خیال رکھنا چاہئے کیونکہ ان کے سپرد زیادہ ذمہ واریاں ہیں۔ اورخدام الاحمدیہ کی ایک بات پہ میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بھی ہوں اور ان کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ نے سو مساجد کے لئے ایک اعشاریہ ایک ملین کا جو وعدہ کیا تھا وہ انہوں نے تقریباً پورا کر دیا ہے۔ الحمد للہ۔پہلے چند ہزار کی کمی تھی لیکن ابھی جو latest رپورٹ انہوں نے دی ہے اس کے مطابق جو وعدہ کیا تھا اس سے بڑھ گئے ہیں۔ الحمد للہ۔

دوسرے طبائع چونکہ مختلف ہوتی ہیں اور بعض ذہنوں میں خیال آ جاتا ہے اس لئے میں ایک وضاحت کر دوں کہ خدام الاحمدیہ نے سٹوڈنٹس کے لئے سرٹیفکیٹ ایشو کرنے کا ایک پروگرام رکھا تھا لیکن اصل میں ہمارا ایک نظام ہے۔ اور یہ جو مرکزی جماعتی نظام ہے اس کے زیر انتظام ہونا چاہئے۔ اس لئے میں نے اس کو روک دیا تھا۔ پہلےمیرا خیال تھا کہ شاید جماعت کے سیکرٹری تعلیم کی طرف سے یہ ہو رہا ہے۔ لیکن بعد میں جب وضاحت ہوئی تو مجھے پتا لگاکہ یہ خدام الاحمدیہ کی طرف سے ہو رہا ہے تو جماعت میں جو نظام ہے ہر نظام کو اس کا پابند رہنا چاہئے۔ اس لئے مختلف مضامین میں اچھی کارکردگی دکھانے ولے یونیورسٹیوں اور کالجز کے جو سٹوڈنٹس تھے ان کو آج یہاں جو سرٹیفکیٹ ایشو ہونے تھے ان کو مَیں نے ختم کر دیا ہے کہ وہ جلسے پر دیں۔ اس کے لئے مَیںنے امیر صاحب کو بتا دیا ہے کہ انتظام یہ ہو گا کہ جس طرح ہمیشہ جلسے پر وہ سرٹیفکیٹ دئیے جاتے ہیں وہ دئیے جائیں گے اور اس دفعہ ہو سکتا ہے کہ جرمنی کے جلسے پر میں شاید نہ آؤں کسی اور ملک میں جانا پڑ رہا ہےیا پڑے تو اس صورت میں پھر وہ سرٹیفکیٹ اور میڈلز جو ہیں وہ امیر صاحب دے دیں گے۔یا اگر سٹوڈنٹس چاہتے ہوں کہ انہوں نے میرے ہاتھ سے ہی لینے ہیں تو پھر وہ اگلے وزٹ تک انتظار کریں گے۔ آئندہ مل جائیں گے۔ اب دعا کر لیں۔ (دعا)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button