بدرسوم ۔گلے کاطوق
وحید احمد رفیق
قسط 2
کتاب اللہ کے خلاف
سب کچھ بدعت ہے
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں
’’کتاب اللہ کے برخلاف جو کچھ ہورہا ہے وہ سب بدعت ہے اور سب بدعت فی النار ہے۔ اسلام اس بات کا نام ہے کہ بجز اس قانون کے جومقرر ہے ادھر ادھر بالکل نہ جاوے۔ کسی کا کیا حق ہے کہ بار بار ایک شریعت بناوے۔‘‘
(ملفوظات جلد سوم صفحہ128 )
رسمیں گلے کاہار
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں
’’میَں دیکھتاہوں کہ ہمارے گھروں میں قسم قسم کی خراب رسمیں اور نالائق عادتیں جن سے ایمان جاتا رہتا ہے، گلے کا ہار ہورہی ہیں اور ان بُری رسموں اور خلاف شرع کاموں سے یہ لوگ ایسا پیار کرتے ہیں جو نیک اوردینداری کے کاموں سے کرنا چاہیے …سوآج ہم کھول کر بآواز بلند کہہ دیتے ہیں کہ سیدھا راہ جس سے انسان بہشت میں داخل ہوتاہے،یہی ہے کہ شرک اور رسم پرستی کے طریقوں کو چھوڑ کر اسلام کی راہ اختیار کی جائے اور جوکچھ اللہ جلّشانہ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اور اس کے رسول ﷺ نے ہدایت کی ہے ،اُس راہ سے نہ بائیں طرف منہ پھیریںنہ دائیں اور ٹھیک ٹھیک اسی راہ پر قدم ماریں اور اس کے برخلاف کسی راہ کو اختیار نہ کریں۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 84 )
رسوم ورواج اللہ کاباغی بنادیتی ہیں
حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
’’انسان میں ایک مرض ہے جس میں یہ ہمیشہ اللہ کا باغی بن جاتا ہے اور اللہ کے رسول اور نبیوں اور اس کے اولوالعزموں اور ولیوں اور صدیقوں کو جھٹلاتا ہے ۔ وہ مرض عادت، رسم ورواج اور دم نقدضرورت یا کوئی خیالی ضرورت ہے۔ یہ چار چیزیں میںنے دیکھا ہے ، چاہے کتنی نصیحتیں کرو جب وہ اپنی عادت کے خلاف کوئی بات دیکھے گا یا رسم کے خلاف یا ضرورت کے خلاف تو اس سے بچنے کے لئے کوئی نہ کوئی عذر تلاش کرے گا۔‘‘
(خطبات نور صفحہ650)
من گھڑت رسوم کے طوق
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اِنَّاجَعَلْنَا فِیْ اَعْنَاقِھِمْ اَغْلَالاً فَھِیَ اِلَی الْاَذْقَانِ فَھُمْ مُقْمَحُوْنَ یعنی ہم نے ان کی گردنوں میںطوق ڈالے ہوئے ہیںاور وہ ان کی ٹھوڑیوںتک چڑھ گئے ہیںاوروہ (دکھ سے بچنے کے لیے اپنی)گردنیںاونچی کررہے ہیں ۔
(سورۃ یٰسین آیت 9:)
اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں
’’اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ جب شریعت نازل نہیں ہوتی تو انسان اپنی من گھڑت رسوم کے طوق اپنی گردن میں ڈال لیتا ہے اور ان رسوم کی سختی بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ انسان اپنے سامنے کی چیز بھی نہیں دیکھ سکتا اور ان سے بچنے کے لیے آنکھیں بند کرکے اپنی گردن اونچی کرنے لگتاہے ۔یعنی آنکھیں کھول کر یہ بھی نہیں دیکھتا کہ میں بیہودہ رسوم میں جکڑا ہوا ہوں ،مگر تکلیف دور کرنے کے لیے کبھی کبھی اپنی گردن اونچی کرتاہے یعنی قوم سے چوری چھپے ان رسوم کی تکلیف سے بچنابھی چاہتاہے۔‘‘
(تفسیر صغیر صفحہ 570 حاشیہ)
جس کی فطرت زیادہ پاک ہوتی ہے
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں
’’فطرت انسانی کو تو اللہ تعالیٰ نے پاک بنایاہے لیکن اس میں رسم ورواج کا گند مل کر اُسے خراب کردیتا ہے ۔اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کے ذریعے سے پھر فطرت کے پاک تقاضوں کو جگادیتا ہے اور طبائع میں ایک ایسا جوش پیدا کردیتاہے کہ جس طرح تیز بھٹّی یا بڑھتے ہوئے سیلاب میں ہوتاہے ۔اس ہیجان کانتیجہ یہ ہوتاہے کہ طبائع کاجمود جاتا رہتاہے۔ایک طرف فطرت میں بیداری پیدا ہوجاتی ہے دوسری طرف رسوم و عادات کی محبت میں جوش آتا ہے۔ اس حرکت کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ بجائے فطرت صحیحہ اور رسوم وعادات کے ایک مِلے جُلے ڈلے کے یہ دونوں چیزیں الگ الگ ہوجاتی ہیں اور انسان کچھ عرصہ کے لیے دو متضاد جذبات کا حامل ہوجاتاہے ۔آخر جس کی فطرت زیادہ پاک ہوتی ہے وہ رسوم وعادات کی میل کو باہر نکال کر پھینک دینے میں کامیاب ہوجاتاہے اور جو سچی کوشش نہیں کرتا اس کی طبیعت پھر ٹھنڈی ہوجاتی ہے اور پھر رسوم وعادات کی جھاگ فطرت کے سونے سے مِل کر پہلے کی طرح ایک ناصاف ڈلا بن کر رہ جاتی ہے۔‘‘
(تفسیرکبیر جلد 3 صفحہ 405 )
خداتعالیٰ ہی کا ورتاوا قائم رہے گا
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں
’’پھر کئی قسم کی رسمیں اور بدعتیں ہیں جن کے کرنے کے لئے عورتیں مردوں کو مجبور کرتی ہیں اور کہتی ہیں اگر اس طرح نہ کیا گیا تو باپ دادا کی ناک کٹ جائے گی گویا وہ باپ دادا کی رسموں کو چھوڑنا تو پسند نہیں کرتیں ۔کہتی ہیں اگر ہم نے رسمیں نہ کیں تو محلہ والے نام رکھیں گے۔ لیکن خداتعالیٰ ان کا نام رکھے تو اس کی انہیں پرواہ نہیں ہوتی۔ محلہ والوں کی انہیں بڑی فکر ہوتی ہے ۔لیکن خدا تعالیٰ انہیں کافر اور فاسق قرار دے تو اس کا کچھ خیال نہیں ہوتا۔ کہتی ہیں یہ ورتا وا ہے۔ اسے ہم چھوڑ نہیں سکتیں۔حالانکہ قائم خدا تعالیٰ ہی کا ورتاوا رہے گا ۔باقی سب کچھ یہیں رہ جائے گا ۔ ‘‘
’’اوڑھنی والیوں کے لئے پھول‘‘
ارشادات حضرت مصلح موعودؓ صفحہ نمبر 38)
اسراف کی مختلف شکلیں
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں
’’یاد رکھنا چاہیے کہ اسراف کی شکلیں ہمیشہ بدلتی رہتی ہیں مثلاً اگر ایک شخص کی آمد دو چار ہزار روپیہ ماہوار ہے اور وہ پندرہ بیس روپے گز کا کپڑا پہنتاہے یا پانچ سات سوٹ تیار کرالیتاہے تو اُس کے مالی حالات کے مطابق اُسے ہم اسراف نہیں کہیں گے۔لیکن اگر خدانخواستہ اس کے بیوی بچے بیمار ہوجائیں اور وہ ایسے ڈاکٹر وں سے علاج کروائے جو قیمتی ادویات استعمال کروائیں اور ہزار میں سے پانچ سات سو روپیہ اس کا دوائوں پر ہی خرچ ہوجائے اور اس کے باوجود وہ اپنے کھانے پینے اور پہننے کے اخراجات میں کوئی کمی نہ کرے تو پھر اس کا یہی فعل اسراف بن جائے گا۔حالانکہ عام حالات میں یہ اسراف میں شامل نہیں تھا۔اِسی طرح جب بھی کسی خرچ کے مقابلہ میںدوسری ضروریات بڑھ جائیں تو اُس وقت پہلے خرچ کو اُسی شکل میں قائم رکھنا جس شکل میں پہلے تھا اسراف میں شامل ہوجائے گا۔ مثلاً اس زمانے میں اسلام کی اشاعت کے لیے ہمیں کروڑوں روپیہ کی ضرورت ہے۔مختلف ممالک اور اکناف سے آوازیں آرہی ہیں کہ ہماری طرف ایسے لوگ بھیجے جائیں جو ہمیں اسلام کی تعلیم سکھائیں ۔ایسالٹریچر بھیجا جائے جو ہمارے شبہات کا ازالہ کرے ۔ اگر اِس وقت ہماری جماعت کا کوئی فرد اپنے کھانے اور پینے اور پہننے کے اخراجات میں تخفیف نہیں کرتا اور زیادہ سے زیادہ روپیہ اسلام کی اشاعت کے لیے نہیں دیتا تو گو عام حالات میں اُس کا اچھا کھانا پینا اور پہننا اسراف میں شامل نہ ہو مگر موجودہ زمانہ میں اس کا اپنے کھانے پینے اور پہننے پر زیادہ خرچ کرنا یقیناً اسراف میں شامل ہوگا۔‘‘
(تفسیرکبیر جلد 6 صفحہ571 )
اسراف کی عادت کسی مومن کی راہ میں حائل نہ ہو
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں
’’ایک مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اخراجات کو ایک حد کے اندر رکھے تاکہ جب بھی قربانی کی آواز آئے وہ لبّیک کہتے ہوئے اُس کی طرف دوڑ پڑے اور اسراف کی عادت اس کی راہ میں حائل نہ ہو۔ ‘‘
(تفسیرکبیر جلد 6 صفحہ572 )
رسومات ،بدعات انسانی پائوں کی زنجیر
آپ مزید فرماتے ہیں
ــ’’وہ زنجیر کیاہے؟وہ رسوم ہیں جن کا تعلق قوم کے ساتھ ہوتاہے۔ مثلاً بیٹے کا بیاہ کرنا ہے تو خواہ پاس کچھ نہ ہو قرض لے کر رسوم پوری کرنی ہوتی ہیں ۔یہ زنجیر ہوتی ہے جو کافر کو جکڑے رہتی ہے اور وہ اس سے علیحدہ نہیں ہونے پاتا۔‘‘
(الازھار لذوات الخمار ارشادات حضرت مصلح موعود ؓ صفحہ180)
پھر فرمایا
’’فضول رسمیں قوم کی گردن میں زنجیریں اور طوق ہوتے ہیں جو اسے ذلت اور ادبار کے گڑھے میں گرادیتے ہیں۔‘‘
(خطبہ نکاح 27؍مارچ1931ء از خطبات محمود جلد3صفحہ301)
رسوم اور بدعات کی بجائے قرآنی راہ ہدایت
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ فرماتے ہیں
’’اگر تم قرب الٰہی چاہتے ہو تو رسوم اور بدعات کی بجائے قرآنی راہ ہدایت اور صراط مستقیم تمہیں اختیار کرنا پڑے گا۔ جب تک رسوم وبدعات کے دروازے تم اپنے پر بند نہیں کرلیتے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے دروازے تم پر کھل نہیں سکتے۔‘‘
(خطبہ جمعہ 09؍ستمبر1966ء از خطبات ناصر جلد1صفحہ378-379)
اپنا خود محاسبہ اور دوسروں کی نگرانی
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ فرماتے ہیں
’’پس ہر احمدی پر، ہر احمدی خاندان اور ہر احمدی تنظیم پر یہ فرض ہے کہ وہ خود بھی اپنے آپ کو رسوم اور بدعتوں سے بچائے رکھے ، محفوظ رکھے اور اس بات کی بھی نگرانی کرے کہ کوئی احمدی بھی رسوم ورواج کی پابندی کرنے والا نہ ہو اور بدعات میں پھنسا ہوا نہ ہو۔‘‘
(خطبہ جمعہ 09؍ستمبر1966ءاز خطبات ناصر جلد1صفحہ385)
توحید کے قیام میں ایک بڑی روک
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ فرماتے ہیں
’’ہماری جماعت کاپہلااورآخری فرض یہ ہے کہ توحید خالص کو اپنے نفسوں میںبھی اور اپنے ماحول میں بھی قائم کریںاور شرک کی سب کھڑکیوں کوبند کردیں۔ ہمارے گھروں میںصرف توحیدکے دروازے ہی کھلے رہیں اور شرک کی سب راہوںکوہم کلّیۃً چھوڑدیں اور توحید کی راہوںپربشاشت کے ساتھ چلنے لگیں۔ہم بھی اور ہمارے بھائی بھی اوربنی نوع انسان کے رشتہ سے جو ہمارے بھائی ہیںوہ بھی اِس توحید خالص کی تعلیم پرقائم ہوجائیں۔
توحید کے قیام میں ایک بڑی روک بدعت اور رسم ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہر بدعت اور ہر بدرسم شرک کی ایک راہ ہے اور کوئی شخص جو توحید خالص پر قائم ہونا چاہے وہ توحید خالص پر قائم نہیں ہوسکتا جب تک وہ تمام بدعتوں اور تمام بدرسوم کو مٹانہ دے۔ ہمارے معاشرے میںخاص طور پر اور دنیاکے مسلمانوں میں عام طور پر بیسیوں، سینکڑوں شاید ہزاروں بدرسمیں داخل ہوچکی ہیں۔احمدی گھرانوں کایہ فرض ہے کہ وہ تمام بدرسوم کوجڑسے اکھیڑ کر اپنے گھروں سے باہر پھینک دیں۔…رسو م تودنیامیںبہت سی پھیلی ہوئی ہیں۔…لیکن اس وقت اصولی طور پر ہرگھرانے کویہ بتادینا چاہتا ہوں کہ میں ہر گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر اور ہرگھرانے کومخاطب کرکے بدرسوم کے خلاف جہاد کااعلان کرتاہوں۔اور جو احمدی گھرانہ بھی آج کے بعد ان چیزوں سے پرہیز نہیں کرے گا اور ہماری اصلاحی کوشش کے باوجود اصلاح کی طرف متوجہ نہیں ہوگا وہ یہ یاد رکھے کہ خدا اور اس کے رسول اور اس کی جماعت کو اس کی کچھ پرواہ نہیں ہے۔ وہ اس طرح جماعت سے نکال کے باہر پھینک دیا جائے گا جس طرح دودھ سے مکھی۔پس قبل اس کے کہ خداکا عذاب کسی قہری رنگ میں آپ پر وارد ہو یا اس کا قہر جماعتی نظام کی تعزیر کے رنگ میں آپ پر وارد ہو اپنی اصلاح کی فکر کرو اورخداسے ڈرو اور اس دن کے عذاب سے بچو کہ جس دن کا ایک لحظہ کا عذاب بھی ساری عمر کی لذتوں کے مقابلہ میں ایسا ہی ہے کہ اگر یہ لذتیں اور عمریں قربان کردی جائیں اور انسان اس سے بچ سکے تو تب بھی وہ مہنگا سودا نہیں،سستا سودا ہے۔پس آج میں اس مختصرسے خطبہ میںہراحمدی کویہ بتاناچاہتاہوں کہ مَیںنے اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق اورجماعت احمدیہ میںاس پاکیزگی کوقائم کرنے کے لیے جس پاکیزگی کے قیام کے لیے محمدرسول اللہ ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام دنیاکی طرف مبعوث ہوئے تھےہربدعت اور بدرسم کے خلاف جہاد کااعلان کردیاہے اور مَیں امید کرتا ہوں کہ آپ سب میرے ساتھ اس جہاد میں شریک ہوں گے اور اپنے گھروںکوپاک کرنے کے لیے شیطانی وسوسوں کی سب راہوںکواپنے گھروں پر بند کردیں گے۔ دعائوں کے ذریعہ اورکوشش کے ذریعے اور جدوجہد کے ذریعہ اورحقیقۃً جوجہادکے معنے ہیںاس جہاد کے ذریعہ اورصرف اِس غرض سے کہ خداتعالیٰ کی توحید دنیا میں قائم ہو، ہمارے گھروںمیں قائم ہو، ہمارے دلوں میںقائم ہو، ہماری عورتوںاوربچوںکے دلوںمیں قائم ہو اور اس غرض سے کہ شیطان کے لیے ہمارے دروازے ہمیشہ کے لئے بند کردیئے جائیں۔اللہ تعالیٰ مجھے بھی اَور آپ کو بھی ہر قسم کی نیکیوںکی توفیق عطافرمائے۔‘‘
(خطبہ جمعہ 23؍جون1967ء از خطبات ناصر جلد1صفحہ758تا763)
رسموں سے آزاد ہونا ہمارے اپنے مفاد میں ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں
’’پس یہ ساری وہ رسمیں ہیں جن کے خلاف ہمیں جہاد کرنا ہے اور جماعت کو ان بوجھوں سے آزاد کرنا ہے ورنہ بہت سے جھگڑے بھی چل پڑیں گے ۔ رسمیں اپنی ذات میں بھی بیہودہ چیزیں ہیں اور آپ کو ان سے آزاد کرانا آپ کی اپنی بھلائی میں ہے لیکن اس کے نتیجہ میں پھر اور جو بداثرات پیدا ہوتے ہیں اس سے سوسائٹی پھٹ جاتی ہے۔ اختلافات بڑھ جاتے ہیں، نفرتیں پیدا ہوتی ہیں۔ دنیاداری بڑھ جاتی ہے، روحانیت کو بڑا شدید نقصان پہنچتا ہے ۔ ایک دوسرے کے بعد پے درپے رونما ہونے والے نتائج ہیں جو اپنے بداثرات میں آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔ اس لئے رسموں کو معمولی نہ سمجھیں اگر آپ ان سے صَرف نظر کریں گے تو یہ بڑھ کر آخر کار آپ پر قابو پاجائیں گی پھر یہ پیرِتسمہ پابن جائیں گی۔‘‘
(خطبہ جمعہ 16؍دسمبر1983ءاز خطبات طاہر جلد2صفحہ636)
اللہ اور رسول ہم سے کیا چاہتے ہیں؟
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں
’’جب رسمیں بڑھتی ہیں تو پھر انسان بالکل اندھا ہوجاتا ہے اور پھر اگلا قدم یہ ہوتاہے کہ مکمل طور پر ہواوہوس کے قبضہ میں چلاجاتاہے جبکہ بیعت کرنے کے بعد تو وہ یہ عہد کررہاہے کہ ہواوہوس سے باز آجائے گااور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی حکومت مکمل طور پر اپنے اوپر طاری کرلے گا۔اللہ اور رسول ہم سے کیا چاہتے ہیں، یہی کہ رسم ورواج اور ہواوہوس چھوڑ کر میرے احکامات پر عمل کرو۔‘‘
(شرائط بیعت اور احمدی کی ذمہ داریاں صفحہ93 )
نئی نئی بدعات ورسوم ردّ کرنے کے لائق ہیں
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں
’’…حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایاجن رسموں کا دین سے کوئی واسطہ نہیں ہے ، جو دین سے دور لے جانے والی ، اللہ اور اس کے رسول کے احکامات اور ارشادات کی تخفیف کرنے والی ہیں وہ سب مردود رسمیں ہیں۔سب فضول ہیں۔ردّ کرنے کے لائق ہیں۔پس ان سے بچو کیونکہ پھر یہ دین میں نئی نئی بدعات کو جگہ دیں گی اور دین بگڑ جائے گا۔جس طرح اب دیکھو دوسرے مذاہب میں رسموں نے جگہ پاکردین کوبگاڑ دیاہے۔خیر یہ تو ہوناہی تھاکیونکہ اس زمانے میںزندہ مذہب صرف اور صرف اسلام نے ہی رہنا تھا۔لیکن آپ جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ دوسرے مذاہب نے مثلاً عیسائیت نے باوجود اس کے کہ ایک مذہب ہے۔مختلف ممالک میں مختلف علاقوں میں اور ملکوں میں اپنے رسم ورواج کے مطابق اپنی رسموںکو بھی مذہب کاحصہ بنایاہوا ہے۔افریقہ میں بھی یہ باتیںنظرآتی ہیں۔پھر جب بدعتوںکاراستہ کھل جاتاہے تو نئی نئی بدعتیں دین میں راہ پاتی ہیں۔تو آنحضرت ﷺ نے ان بدعتیں پیداکرنے والوں کے لیے سخت انذار کیاہے،سخت ڈرایاہے۔آپ کو اس کی بڑی فکر تھی حدیث میں آتاہے فرمایامیں تمہیں ان بدعتوںکی وجہ سے، تمہارے ہواوہوس کاشکار ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ خوف زدہ ہوں مجھے ڈر ہے کہ اس کی وجہ سے دین میں بگاڑ نہ پیدا ہوجائے ۔تم گمراہ نہ ہوجائو۔‘‘
(شرائط بیعت اور احمدی کی ذمہ داریاں صفحہ96 )
اسلام کی تعلیم کے لیے ہماراراہنما قرآن شریف ہے
ایک جگہ آپ فرماتے ہیں
’’رسم ورواج سے بچنااور ہواوہوس سے بچنا اسلام کی تعلیم کاحصہ ہے اور اس تعلیم کوسمجھنے کے لیے ہمارے لئے رہنماقرآن شریف ہے۔اور اصل میں تو اگر ایک مومن قرآن شریف کو مکمل طورپراپنی زندگی کادستورالعمل بنالے تو تمام بُرائیاں خود بخود ختم ہوجاتی ہیں۔کسی بھی قسم کی ہواوہوس کاخیال تک بھی دل میں نہیں ہوتا کیونکہ یہ وہ پاک کتاب ہے جو ایک دستورالعمل کے طور پر شریعت کومکمل کرتے ہوئے،انسانی زندگی کے تمام پہلوئوں کااحاطہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے پاک دل پر نازل فرمائی اور پھر جہاں ضرورت تھی آنحضرت ﷺ نے اپنے عمل سے اپنے فعل سے اپنے قول سے اس کی وضاحت فرمادی اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایاکہ اس کو اپنے سر پر قبول کرو۔‘‘
(شرائط بیعت اور احمدی کی ذمہ داریاں صفحہ99 )
چھٹی شرط بیعت کوہمیشہ مدّنظر رکھیں
پھر فرمایا
’’اپنے آپ کو معاشرے کے رسم ورواج کے بوجھ تلے نہ لائیں۔ آنحضرت ﷺ تو آپ کو آزاد کروانے آئے تھے اور آپ کو ان چیزوں سے آزاد کیا اور اس زمانے میں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام کی جماعت میں شامل ہوکر آپ اس عہد کو مزید پختہ کرنے والے ہیں جیسا کہ چھٹی شرط بیعت میں ہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے لکھا ہے کہ اتباع رسم اور متابعت ہواوہوس سے باز آجائے گا یعنی کوشش ہوگی کہ رسموں سے بھی باز رہوں گا اور ہواوہوس سے بھی باز رہوں گا تو قناعت اور شکر پرزور دیں۔ یہ شرط ہر احمدی کے لئے ہے چاہے وہ امیر ہویا غریب ۔ اپنے اپنے وسائل کے لحاظ سے اس کو ہمیشہ ہر احمدی کو اپنے مدنظر رکھنا چاہیے۔‘‘
(خطبہ جمعہ 25؍نومبر2005ءاز مشعل راہ جلد5حصہ3صفحہ155)
ہر عمل محض للہ اور اسوہ رسول ﷺ پر عمل کرتے ہوئے کیاجائے
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں
’’آ ج کل دیکھیں مسلمانوں میں خوشیوں کے موقعوں پر بھی زمانے کے زیر اثر طرح طرح کی بدعات اور لغویات راہ پا گئی ہیں اور غموں کے موقعوںپر بھی طرح طرح کی بدعات اور رسومات نے لے لی ہے۔ لیکن ایک احمدی کو ان باتوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جو کام بھی وہ کر رہا ہے اس کا کسی نہ کسی رنگ میں فائدہ نظر آنا چاہئے اور ہر عمل اس لئے ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ نے جو حدود قائم کی ہیں ان کے اندر رہتے ہوئے ہرکام کرنا ہے ۔‘‘
(خطبہ جمعہ مورخہ 15-01-2010الفضل انٹرنیشنل5 فروری 2010 ء )
قال اللہ اور قال الرسول کو ہر ایک راہ میں دستور العمل بنانا چاہیے
آپ نے فرمایا
’’پس جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہمارا مقصد پیدائش بتایا ہے۔ ہر وہ عمل جو نیک عمل ہے جو خداتعالیٰ کی رضا کی خاطر ہے وہ عبادت بن جاتا ہے۔ اگر یہ مدّ نظر رہے تو تبھی اسی چیز میں ہماری بقا ہے اور اسی بات سے پھر رسومات سے بھی ہم بچ سکتے ہیں، بدعات سے بھی ہم بچ سکتے ہیں، فضول خرچیوںسے بھی ہم بچ سکتے ہیں، لغویات سے بھی ہم بچ سکتے ہیں اور ظلموں سے بھی ہم بچ سکتے ہیں ۔ یہ ظلم ایک تو ظاہری ظلم ہیں جو جابر لوگ کرتے ہی ہیں۔ ایک بعض دفعہ لاشعوری طور پر اس قسم کی رسم و رواج میںمبتلاہوکراپنی جان پر ظلم کر رہے ہوتے ہیں۔ اور پھر معاشرے میں اس کورواج دے کر ان غریبوں پر بھی ظلم کر رہے ہوتے ہیں جو کہ سمجھتے ہیں کہ یہ چیز شاید فرائض میں داخل ہو چکی ہے۔اور جس معاشرے میں ظلم اور لغویات اور بدعات وغیرہ کی یہ باتیں ہوں،وہ معاشرہ پھر ایک دوسرے کا حق مارنے والا ہوتا ہے اور پھرجیسا کہ مَیں نے کہا ایک دوسرے پر ظلم کرنے والا ہوتا ہے۔ لیکن اگر ہم ان چیزوں سے بچیں گے تو ہم حق مارنے سے بھی بچ رہے ہوں گے۔ ظلموں سے بھی بچ رہے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بھی بن رہے ہوں گے اور آج احمدی سے بڑھ کر کون ایسے معاشرہ کا نعرہ لگاتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور دوسروں کے حقوق قائم کرنے کی باتیں ہو رہی ہوں۔ آج احمدی کے علاوہ کس نے اس بات کا عہد کیا ہے کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا و ہوس سے باز آ جائے گا۔ آج احمدی کے علاوہ کس نے اس بات کا عہد کیا ہے کہ قرآن شریف کی حکومت کو بکلّی اپنے سرپر قبول کرے گا۔ آ ج احمدی کے علاوہ کس نے اس بات کا عہد کیا ہے کہ قال اللہ اور قال الرسول کو اپنے ہر ایک راہ میں دستور العمل بنائے گا۔
پس جب احمدی ہی ہے جس نے اللہ اور اس کے رسول اور قرآن کریم کے نورسے فیض پانے کے لئے زمانہ کے امام کے ہاتھ پر یہ عہد کیا ہے، شرائط بیعت میں داخل ہے، تو پھر اپنے عہد کا پاس کرنے کی ضرورت ہے۔ اس عہد کی پابندی کرکے ہم اپنے آپ کو جکڑ نہیں رہے بلکہ شیطان کے پنجے سے چھڑا رہے ہیں۔ خدا اور اس کے رسول کی باتوں پر عمل کرتے ہوئے ہم اپنے تحفظ کے سامان کر رہے ہیں۔ اپنی فہم و فراست کو جلا بخش رہے ہیں۔ اپنی عفت و پاکیزگی کی حفاظت کر رہے ہیں۔ اپنی حیا کے معیار بلند کر رہے ہیں۔صبر اور قناعت کی طاقت اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اپنے اندر زہد و تقویٰ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔اپنے ایمانوں میں مضبوطی پیدا کر رہے ہیں۔ اپنی امانت کے حق کی ادائیگی کی بھی کوشش کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی خشیت اللہ تعالیٰ کی محبت اور اللہ تعالیٰ کی طرف خالص ہو کر جھکنے کے معیار حاصل کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں تاکہ اپنے مقصد پیدائش کو حاصل کر سکیں۔ پس اگر اندھیروں سے نکلناہے اور نور حاصل کرنا ہے اور زمانہ کے امام کی بیعت کا صحیح حق ادا کرنا ہے تو دنیا داری کی باتوں کو چھوڑنا ہو گا۔ اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنی ہوں گی۔ اپنے آپ کو اعلیٰ اخلاق کی طرف لے جانے کے لئے جدوجہد کرنی ہو گی۔حیاء کا معیار بلند کرنے کا مَیں نے ذکر کیا ہے حیاء بھی ایک ایسی چیز ہے جو ایما ن کا حصہ ہے۔ آج کل کی دنیاوی ایجادات جیسا کہ مَیں نے شروع میں بھی ذکر کیا تھا، ٹی وی ہے، انٹرنیٹ وغیرہ ہے اس نے حیا کے معیار کی تاریخ ہی بدل دی ہے ۔کھلی کھلی بے حیائی دکھانے کے بعد بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ بے حیائی نہیں ہے۔ پس ایک احمدی کے حیا کا یہ معیار نہیں ہونا چاہئے جو ٹی وی اور انٹرنیٹ پر کوئی دیکھتا ہے۔ یہ حیا نہیں ہے بلکہ ہوا ؤ ہوس میں گرفتاری ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ مورخہ 15-01-2010 الفضل انٹرنیشنل5 فروری 2010 ء )
رسم ورواج کے طوق عبادات کے حق کی ادائیگی میں حارج
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں
’’پس ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے عہد کو نبھاتے ہوئے، اپنی بیعت کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے حقیقی ایمان لانے والوںمیں شامل ہوں۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم اس نبی کے ماننے والے ہیں جنہوں نے ہمیںصحیح راستہ دکھایا ۔ہمیں اچھے اور برے کی تمیز سکھائی۔ اگر اس کے بعد پھر ہم دنیاداری میں پڑ کر رسم و رواج یا لغویات کے طوق پھر اپنی گردنوں میں ڈالے رہیں گے تو ہم نہ عبادتوں کا حق ادا کر سکتے ہیں نہ نور سے حصہ لے سکتے ہیں۔
قرآن کریم میںایک جگہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے بارے میں یہ فرمایا کہ یَأْمُرُہُم بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہٰہُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْْہِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَیَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ (الأعراف158:)کہ جواس پر ایمان لانے والے ہیں وہ ان کو نیک باتوں کا حکم دیتا ہے اور انہیںبری باتوں سے روکتا ہے اور ان کے لئے پاکیزہ چیزیں حلال قرار دیتا ہے اوران پر ناپاک چیزیں حرام قرار دیتا ہے اور ان سے ان کے بوجھ اور طوق اتار دیتا ہے۔گردنوں میں جو پھندے پڑے ہوئے ہیں وہ اتار دیتا ہے جو پھندے پہلی قوموں میںپڑے ہوئے تھے، پہلی نسلوں میں پڑے ہوئے تھے اپنے دین کو بھول کر رسم و رواج میںپڑ کر یہودیوں اور عیسائیوں نے گلوں میں پھندے ڈالے ہوئے تھے۔ اب وہی باتیںبعض مسلمانوں میں پیدا ہو رہی ہیں۔ اگر ہم میں بھی پیدا ہو گئیں تو پھر ہم یہ کس طرح دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ہم اس وقت آنحضرت ﷺ کے پیغام کو دنیا میںپہنچانے کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں ۔ پس یہ طوق ہمیں اتارنے ہوں گے۔
پس اس بات کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں کہ ہم اس نبی پر بھی ایمان لائے ہیں جس نے ہمارے لئے حلال و حرام کا فرق بتا کر دین کے بارہ میں غلط نظریات کے طوق ہماری گردنوں سے اتارے ۔لیکن جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ باوجود ان واضح ہدایات کے پھر بھی بعض طوق اپنی گردنوں پر ڈال لئے ہیں۔‘‘
(خطبہ جمعہ مورخہ 15-01-2010الفضل انٹر نیشنل5 فروری 2010 ء )
بے احتیاطیوں میں بڑھنے سے یہ طوق ہمارے گلے پڑسکتاہے
آپ نے فرمایا
’’ ہم احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عہد بیعت کے بعد اس حقیقت کو دوبارہ سمجھے ہیں کہ یہ طوق اپنی گردنوں سے کس طرح اتارنے ہیں۔ اللہ کا احسان ہے کہ قبروںپر سجدے سے ہم بچے ہوئے ہیں۔ پیر پرستی سے عموماً بچے ہوئے ہیں۔ بعض جگہ اِکّا دُکّا شکایات آتی بھی ہیں۔ عمومی طور پر بعض غلط قسم کے رسم و رواج سے ہم بچے ہوئے ہیں لیکن جیسا کہ مَیں نے کہابعض چیزیں راہ پارہی ہیں اگرہم بے احتیاطیوں میں بڑھتے رہے تویہ طوق پھر ہمارے گلوں میں پڑ جائیں گے جو آنحضرت ﷺ نے ہمارے گلوں سے اتارے ہیں اور جن کو اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اتار نے کی پھرنصیحت فرمائی ہے اورپھرہم دین سے دور ہٹتے چلے جائیں گے۔ اب ظاہر ہے جب ایسی صورت ہو گی تو پھر جماعت سے بھی باہر ہو جائیں گے۔ کیونکہ جماعت سے تو وہی جڑ کر رہ سکتے ہیں جو نو ر سے حصہ لینے والے ہیں اور جو اللہ اور اس کے رسول اور کتاب سے حصہ لے رہے ہیں۔جو اللہ اور رسول اور اس کی کتاب سے حصہ نہیں لے رہے وہ نور سے بھی حصہ نہیں لے رہے۔ جو نور سے حصہ لینے کی کوشش نہیںکر رہے وہ ایمان سے بھی دور جارہے ہیں۔ تو یہ تو ایک چکر ہے جو چلتا چلا جاتا ہے۔ پس ہر وقت اپنی حالتوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ آنحضرتﷺ جو خود بھی نور تھے اور آسمان سے کامل نور آپﷺپر اترا تھا یہ دعا کرتے ہیں کہ’’ اے اللہ میرے دل اور میرے دیگر اعضاء میںنور رکھ دے۔‘‘
یہ دعا اصل میں تو ہمیں سکھائی گئی ہے کہ ہر وقت اپنی سوچوں اور اپنے اعضاء کو ،اپنے خیالات کو، اپنے دماغوں کو، اپنے جسم کے ہر حصہ کو اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق استعمال میں لانے کی کوشش کرو اور اس کے لئے دعا کرو کہ ذہن بھی پاکیزہ خیال رکھنے والے ہوں اور عمل اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش کرنے والے ہوں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے کہ ایمانوں میں مضبوطی پیدا کرنے والے ہوں۔ اللہ اور اس کے رسول کے قول پر عمل کرنے والے ہوں ۔رسم و رواج سے بچنے والے ہوں۔ دنیاوی ہو او ہوس اور ظلموں سے دور رہنے والے ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ کے نور سے ہم ہمیشہ حصّہ پاتے چلے جائیں۔ کبھی ہماری کوئی بدبختی ہمیں اس نور سے محروم نہ کرے۔‘‘
(خطبہ جمعہ مورخہ 15-01-2010 الفضل انٹر نیشنل5 فروری 2010 ء )