دلچسپ اور ایمان افروزواقعات
[حضرت مولوی محمد حسین صاحب المعروف سبز پگڑی والے کی تصنیف ’ میری یادیں‘ حصہ دوم سے ماخوذ بعض دلچسپ اور ایمان افروز واقعات ذیل میں ہدیہ قارئین ہیں۔ ان واقعات سے جہاں غیر احمدیوں کی طرف سے مخالفت اور عناد کا پتہ چلتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے احمدی مبلغین اور داعیان الی اللہ کی نصرت و تائید اور ان کے اموال و نفوس میں برکت اور دشمنوں کی ذلّت ورسوائی کا بھی علم ہوتا ہے۔(مدیر) ]
سولہ گلی گوئی میں ایک غیر احمدی گھرانے کے ساتھ انصاف اور ان کا قبول احمدیت
اس علاقہ میں ایک احمدی مُلّاں اللہ دتہ صاحب رہتے تھے۔ اور ایک ان کے داماد تھے۔ ان کے ہمسائے میں غیراحمدی دوست رہتے تھے اور انہوں نے بھینس رکھی ہوئی تھی۔ ایک دن وہ بھینس مُلّاں اللہ دتہ صاحب کے داماد کی مکئی کی فصل میں گھس گئی اور کچھ فصل کو بھی نقصان پہنچا۔ اس کی بیوی نے دیکھ لیا یہ گئی اور جاکر بھینس کو نکالا۔ بعدہٗ جب مُلّاں اللہ دتہ صاحب کے داماد کو پتہ چلا تو وہ بھاگا ہوا گیا اور اس عورت کو برا بھلا کہنے لگا اور اسے گرا کر مارا۔ اس عورت نے اپنے خاوند کو جاکر بتایا کہ ایسے ہوا ہے۔ وہ کہنے لگا کہ ان کے آجکل مولوی صاحب آئے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس جاکر ساری بات بتائو کہ اس نے زیادتی کی ہے۔ اور اگر مولوی صاحب نے اس کے ساتھ کوئی رعایت کی تو ہم سمجھیں گے کہ یہ لوگ بھی ہمارے جیسے ہی ہیں۔ اور اگر انصاف کیا تو ہم سمجھیں گے کہ وہ حق پر ہیں۔ اس لڑکی کے سُسر کا گھر بھی قریب ہی تھا۔ وہ، اس کا خاوند اور وہ لڑکی خود تینوں میرے پاس آگئے۔ انہوں نے مجھے آکر بتایا کہ مولوی صاحب یہ معاملہ ہوا ہے۔ میں نے اسے بلوایا تو وہ نہ آیا۔ اس پر اس کے سُسر مُلّاں اللہ دتہ صاحب کو بہت غصہ آیا کہ مولوی صاحب نے اس کے داماد کو بلایا ہے اور وہ نہیں آیا۔ اس نے اور لڑکوں کو بھیجا کہ جاکر اسے بازوئوں سے پکڑ کرکھینچ لائو۔ وہ لڑکے اسے کھینچ کرلے آئے۔ میں نے کہا تم نے یہ حرکت کیوں کی ہے؟ بھینس اس نے جان بوجھ کر تو نہیں چھوڑی تھی اور نہ بھینس کوئی پڑھی لکھی ہی تھی کہ دیکھ کر پہچان جاتی۔ وہ توکسی اَور کا بھی کھیت ہوتا تو اس میں اس نے چلے جانا تھا۔ مگر وہ لڑکی دوڑی گئی۔ اس کے جانے تک اس نے تین چار مکئی کے پودوں کو توڑ دیا۔ تم تو یہ کر سکتے تھے کہ ان پودوں پر جو بھٹے لگے ہوئے تھے ان کے پیسے اس سے لے لیتے۔ مگر تم نے اسے کیوں مارا۔اگر تیری بیوی ہو اور اس کا خاوند بھینس کے ایسا کرنے پر یہی سلوک اس سے کرے جو تم نے اس شخص کی بیوی سے کیا ہے تو تم کیا کروگے؟بتائو؟ وہ چُپ رہا۔ میں نے اسے دس روپے جرمانہ کر دیا اور کہا کہ ابھی ادا کرو۔ کہنے لگا کہ میرے پاس اس وقت نہیں ہے۔ مُلّاں اللہ دِتّہ صاحب جو اس کے سُسر تھے انہوں نے اپنے پاس سے اس کی ادائیگی کردی اور ساتھ ہی اس سے کہا کہ اس لڑکی سے معافی بھی مانگو۔ وگرنہ تمہاری کمر پر پتھر رکھوا کر دھوپ میں لٹا دوں گا۔ تم نے اس طرح کیوں کیا؟ ان پر اس کا بہت اچھا اثر ہوا اور وہ کچھ دیر بعد احمدی ہوگئے۔
یُوپی ہندوستان میں آریوں سے مناظرہ
اس علاقہ میں ایک گائوں تھا دھرم پورہ وہاں آریوں نے مسلمانوں سے مناظرہ کا چیلنج دے دیا او روہاں کے غیر احمدی مسلمانوں نے قبول کر لیا۔ انہوں نے اپنے مولویوں سے مشورہ کیا کہ ہم نے چیلنج تو قبول کر لیا ہے اب ہمیں کوئی ایسا مولوی بتائیں جو خوب ان کے مذہب کا بھی علم رکھتا ہو اور ان کا مقابلہ کرے۔ وہ کہنے لگے بات یہ ہے کہ ایسا مولوی تو ایک قادیانی ہے اسے جاکر ملو۔ وہ میرے ہیڈکوارٹر سے قریباً ایک سو میل دُور رہتے تھے۔ وہ بذریعہ بس میرے پاس پہنچے اور آکر ساری بات بتائی کہ آریہ ہمیں ہندو کرنے آئے تھے اور انہوں نے یہ یہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اور قرآن کریم پر اعتراض کیے ہیں جن کا ہمیں بہت دکھ ہوا کہ ہم تو رسول پاکؐ کو ماننے والے ہیں۔ ہم نے انہیں برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ اس پر انہوںنے مناظرے کا ہمیں چیلنج دیا جو ہم نے منظور کر لیا۔ ہمیں ہمارے مولویوں نے آپ کا پتہ دیا ہے سو ہم چلے آئے ہیں۔ پرسوں ہمارا اُن سے مناظرہ کا وقت ہے۔ ان کے ایک مولوی نے پہلے میرا ایک مناظرہ سنا ہوا تھا۔
خیر مَیں نے کہا بہت اچھا میں چلوں گا۔ دو آدمی تھے۔ رات میرے پاس ہی رہے۔ صبح ہم اکٹھے چل پڑے۔ بس کے ذریعہ کا ٹھگڑھ پہنچے۔ وہاں سے دوسری بس تبدیل کرنی تھی اور آغا گڑھ جا کر وہاں سے آگے دھرم پور جانا تھا۔ وہاں جب ہم بس تبدیل کرکے دوسری میں بیٹھ گئے تو دوسپاہی اور ایک انسپکٹر پولیس بار بار مجھے دیکھیں۔ آخر انسپکٹر صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ذرا باہر تشریف لائیں۔ مَیں نے کہا ہماری بس چلنے والی ہے اور ہم نے مناظرہ پر جانا ہے۔ آپ مسلمان ہیں اور ہمیں ہی روک رہے ہیں۔ شام تک ہم نے وہاں پہنچنا ہے۔ وہ کہنے لگا کہ جب تک مَیں اجازت نہ دوں یہ بس روانہ نہیں ہو سکتی اس لئے آپ اتریں۔ مَیں اتر آیا۔ مجھے ایک سائیڈ پر لے جا کر کہنے لگا کہ آپ کا دولت خانہ کہاںہے؟ مَیں نے کہا قادیان میں۔ آپ احمدی ہیں؟ مَیں نے کہا جی ہاں۔مَیں احمدی ہوں۔ کہنے لگا مجھے آپ کی ضرورت ہے۔ میںبھی خدا کے فضل سے احمدی ہوں اور میں بی اے پاس ہوں۔ جبکہ میری بیوی ایف اےپاس ہے۔ اسے میںنے تبلیغ کروانی ہے۔ میری تو وہ کوئی بات سنتی نہیں۔ مَیںنے کہا بہت اچھا مناظرہ سے واپسی پر۔ کہنے لگا آپ کب واپس آئیں گے؟میں نے کہا پرسوں یا ترسوں۔ چوتھے دن اور ایک دن آپ کے پاس ٹھہر جائوں گا۔ وہ کہنے لگا مَیں آپ کا یہیں انتظار کروں گا۔ میرے سپاہیوں کی یہیں ڈیوٹی ہوتی ہے۔ مَیں ان سے بھی کہہ دوں گا کہ آپ کو یاد کروادیں۔
شام ہم دھرم پور پہنچے۔ لوگ بہت خوش کہ ہمارا مولوی آگیا۔ پہلے بڑ ے گھبرائے ہوئے تھے۔ غیر احمدی مولوی بھی کہتا تھا کہ اگر انہیں یعنی مجھے پتہ چل گیا تو وہ ضرور پہنچیں گے کیونکہ وہ تو پنجاب سے اسی ڈیوٹی پر آئے ہوئے ہیں اور وہ تو ایسا شکار ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ انہوں نے بہت ہی آرام میں مجھے رکھا۔ اعلیٰ کھانا، اعلیٰ بستر۔ صبح نو بجے کا وقت ہوگا کہ وہ آریہ آگئے۔ ہم بھی ناشتہ کر چکے تھے۔ وہ آکر کہنے لگے کہ ہم وقت مقررہ پر پہنچ گئے ہیں۔ لہٰذا مناظرہ کے لئے آجائیں۔ ہم بھی پہنچ گئے۔ان کا جو لیکچرر تھا اس نے کہیں مجھے پہلے دیکھا ہوا تھا اور وہ مسمریزم کا بڑا ماہر تھا۔ اس مناظرہ کی اطلاع آگرہ میںبھی تھی لہٰذا وہاں سے ڈاکٹر فضل کریم صاحب جو کافی لمبی داڑھی رکھا کرتے تھے وہ بھی پہنچ گئے۔ عین مناظرہ کے وقت پہنچے تھے۔ مَیںنے انہیں صدر بنا لیا۔ خود مناظرہ کے لئے سٹیج پر کھڑا ہو گیا۔ ان کا جو سوامی تھا مجھ سے کہنے لگا آپ تو قادیانی ہیں؟ مَیں نے کہا قادیانی ہونا کوئی جرم ہے۔کہنے لگا نہیں، میں نے ویسے ہی پوچھا تھا۔ ہمارا تو ان سنّیوں سے جھگڑا ہے۔ مَیں نے کہا نہیں، کفر اور اسلام کا جھگڑا ہے۔ نہ کسی سُنّی سے ہے اور نہ کسی شیعہ سے۔ بلکہ یہ تو سیدھا سیدھا کفر اور اسلام کا جھگڑا ہے۔آپ اپنی ویدک تعلیم کو عالمگیر تعلیم ثابت کریں۔ مَیں قرآن پاک کی تعلیم کو عالمگیر ثابت کروں گا۔ آخر اسے ماننا پڑا۔ وہ باربار میری طرف توجہ کرکے آنکھیں نہیں جھپکتا تھا اور ٹکٹکی باندھ کر میری طرف دیکھ رہا تھا۔ میں نے بھی ایک منٹ دیکھا پھر دو منٹ دیکھا۔ بعدہٗ میں نے بھی سامنے مقابلہ پر اس کے نظر ٹکا دی۔ مَیںنے کہا پنڈت صاحب آپ کی وہ کونسی کتاب ہے؟ اس نے جھٹ کتا ب کی طرف دیکھا۔ اس طرح اس کی نظر خود ہی ہٹ گئی۔ وہ جو مجھ پر اثر ڈالنا چاہتا تھااور اس کشش کو بھی میں سمجھتا تھا یہ ساری نظر کی کھیل ہوتی ہے۔ ڈاکٹر فضل کریم صاحب بھی دیکھ رہے تھے۔ وہ بھی سمجھ گئے کہ یہ پنڈت بار بار مسمریزم کرنا چاہتا ہے۔ مجھے کہنے لگے ٹھیک کیا ہے۔ پہلی فتح تو ہماری ہو گئی ہے۔ اب انشاء اللہ ہماری ہی فتح ہے۔ تین ٹرمیں اس نے لیں۔ چوتھی کے وقت بیٹھ گیا اور مجھ سے کہنے لگا کہ میں اپنے بڑے پنڈت کو لائوں گا پھر آپ سے مناظرہ ہوگا۔ مََیں نے کہا یہ بڑے چھوٹے پنڈت کا سوال نہیں ہے۔ یہ تو کفر اور اسلام کا سوال ہے۔ آپ کی کتاب عالمگیر نہیں ہے اور نہ اس کا دعویٰ ہی ہے کہ مَیں عالمگیر تعلیم رکھتی ہوں۔ قرآن کریم کی تعلیم عالمگیر ہے اور اس کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ میں ساری دنیا کے لئے ہوں۔ مَیں ساتھ آیات پڑھ کر اس کی تصدیق بھی کر دیتا تھا۔ خیر وہ لاجواب ہو گیا۔ وہاں ان کا صدر وہاں کے راجے کا بیٹا کرشن پال تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ اس کے پنڈت کو جواب نہیں آرہا تو وہ کھڑا ہو کر کہنے لگا کہ مولوی صاحب ہمارا پنڈت آپ سے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتا اس لئے آپ اس وقت اس مناظرہ کو ملتوی کر دیں اور مہربانی کریں۔ مَیں نے کہا جو طاقت نہیں رکھتے وہ اسے ملتوی کریں۔ مَیں تو اللہ کے فضل و کرم سے طاقت رکھتا ہوں۔ مجھے اسے ملتوی کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ کہنے لگا اچھا تو ہم اسے ملتوی کرتے ہیں۔ مَیں نے کہا ٹھیک ہے تو پھر کب مناظرہ ہوگا؟ کہنے لگا یہ بعد کی باتیں ہیں۔ پھر کبھی موقع دیکھ کر ہم آپ کو اطلاع کر دیں گے آپ ہمیں اپنا ایڈریس لکھوا دیں۔ مَیں نے انہیں اپنا ایڈریس لکھوا دیا۔ ہمارے صدر مناظرہ ڈاکٹر فضل کریم صاحب بہت خوش ہوئے۔ کہنے لگے کہ مَیں یہ دیکھ کر بڑا حیران ہوا تھا کہ آپ نے کتنی جلدی پہچان لیا کہ یہ مسمریزم کے ذریعہ آپ پر اپنا اثر ڈالنا چاہتا ہے اور آپ نے ڈٹ کر اس کا مقابلہ کیا اور آخر اسے شکست ہوئی۔ اس کی توجہ جو بار بار آپ پر ڈال کر آپ کو مرعوب کرنا چاہتا تھا ٹوٹ گئی۔ اور اس بات سے کہ کتاب کا حوالہ کتاب میں سے حاصل کرتے ہیں وہ اسی پر ہی ناکام ہوگیا۔ ہم واپس مناظرہ کی جگہ سے آگئے اور گائوں والوں سے واپس جانے کے لئے اجازت چاہی۔ مگر وہ کہنے لگے کہ ہم نے تو دودن اَور آپ کو نہیں جانے دینا۔ ہمارے احمدیوں میں سے وہاں پر کوئی بھی نہیں تھا۔ میں نے کہا اچھا پھر کل کا دن اَور رہ لیتا ہوں کیونکہ اگلے گائوں میں بھی مناظرہ کے لئے چوتھا دن مقرر کیا ہوا تھا۔ وہاں ٹھہر کر خوب انہیں اسلام کی خوبیاں، حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے ثبوت، قرآن کریم کی شان، اسلام کی صداقت کے ثبوت (سمجھائے) غرضیکہ بہت ان پر محنت کی۔ وہ خوب پکے مسلمان ہوئے۔ انہیں باقاعدہ نمازیں پڑھنے کی تاکید کی کیونکہ وہ نمازوں وغیرہ میں بہت کمزور تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ کے پاس نہ تو اسلام کے بارے میں اتنا علم ہے اور نہ آپ لوگ نماز پڑھتے ہیں۔ آپ کے کمزور ایمان کی وجہ سے یہ آریہ لوگ آپ کے پاس باربار آجاتے ہیں تاکہ آپ کو مرتد کر سکیں۔ کہنے لگے کہ اب ہم پکّے مسلمان ہو گئے ہیں۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ آئندہ سے ہم باقاعدہ نمازیں پڑھیں گے اور جو کمی ہے اسے دُور کریں گے۔ ان کے مولوی صاحب سے مَیں نے وعدہ لیا کہ اب آپ نے ان کو پکّے رکھنا ہے۔ چوتھے دن صبح کی گاڑی سے وہاں سے روانہ ہو کر دس بجے کے قریب کاٹھگڑھ پہنچ گئے۔ جو اُن کا صدر کرشن پال تھا وہ ہماری بڑی عزت کرنے لگا۔ کہنے لگا کہ ہمارا تو خیال تھا کہ یہاں جو ان کا مولوی ہے وہ مقابلہ کرے گا مگر وہ کہاں بیچارہ مناظرہ کر سکتا تھا۔ وہ مجھ سے مصافحہ کرکے چلے گئے۔ جس وقت کاٹھگڑھ بس پہنچی تو وہاں اڈّے پر وہی انسپکٹر صاحب کھڑے تھے۔ کہنے لگے مَیں پندرہ منٹ سے آپ کا انتظار کر رہا تھا۔
کاٹھ گڑھ میں ایک احمدی پولیس انسپکٹر کی بیوی کو تبلیغ اور اس کی بیعت کا ذکر
چونکہ مَیں اس انسپکٹر سے وعدہ کرکے آیا تھا اسی لئے میں نے کاٹھ گڑھ کا ہی ٹکٹ لیا تھا اس سے آگے جانے کا نہیں لیا تھا۔ بہر حال بس سے اتر گئے۔ انسپکٹر صاحب نے سپاہیوں سے کہا کہ ان کا سامان اٹھا لو۔ میرے پاس کتابوں کا صندوق تھا وہ دونوں طرف سے اٹھا کر لے گئے۔ اور ہم دونوں بھی ساتھ ساتھ جا رہے تھے کہ راستہ میں انسپکٹر صاحب نے مجھے بتایا کہ میری بیوی اہلحدیث ہے۔ میرے گھر میں الفضل اخبار آتا ہے اور ساتھ ہی اہلحدیث کا اخبار بھی۔ وہ الفضل اخبار اٹھا کر میری چارپائی پر رکھ دیتی ہے اور پڑھتی نہیں۔ میں اس سے کہتا ہوں کہ مَیں تیری اخبار پڑھ لیتا ہوں۔ تُو اسے کیوں نہیں پڑھتی اور تم الفضل اخبار پر اعتراض کرتی رہتی ہو۔ وہ جواب دیتی ہے کہ یہ مذہبی بات ہے۔ میرا دل نہیں چاہتا، مَیں نہیں پڑھتی۔ میرا اپنا اخبار آتا ہے۔ مَیں اہلحدیث ہوں مَیں وہی پڑھوں گی۔ میںنے کہا میں جو تمہارا پڑھ لیتا ہوں۔ کہتی ہے بیشک پڑھیں، میںنے نہیں پڑھنا۔ اتنی زیادہ وہ متعصّب ہے اور اسے تبلیغ کرنی ہے۔ میں نے کہا اللہ ہی رحم کرے۔ جو خاوند کی بات سننے کے لئے تیار نہیں ہے مَیں تو سادہ لباس میں ایک سادہ سا آدمی ہوں میرا اس پر کیا اثر پڑ سکتا ہے۔ مَیںنے دعا کی کہ مولا کریم مَیں نے تو تیرے مامور کی باتیں سنانی ہیں اس لئے اس پر اثر پیدا کردینا اور یہ کام اپنے فضل سے اپنے ذمّہ لے لینا۔ دعا کرتے کرتے گھر پہنچ گئے۔ گرمی بہت تھی۔ گھر پہنچ کر وہ وردی تبدیل کر رہے تھے سخت پسینہ آیا ہوا تھا۔ ان کی بیٹھک میں جاکر بیٹھے تھے کہ تھانے سے سپاہی دوڑا ہوا آیا اور کہنے لگا جناب عالی سپرٹنڈنٹ پولیس تھانے آئے ہیں وہ آپ کو یاد کر رہے ہیں۔ وہ کہنے لگا یہ تو بڑا کام خراب ہو ا ہے۔ مولوی صاحب وہ تو ہمارا بڑا افسر ہے مجھے اب جانا ہی پڑےگا۔ وہ تین گھنٹہ ٹھہرا کرتا ہے پھر چلا جاتا ہے۔ آپ کو اگر بعد میں کسی چیز کی ضرورت ہو تو فلاں نام کا ہمارا نوکر ہے اسے آپ آواز دے دینا وہ آپ کی ضرورت پوری کر دے گا۔ یہ کہہ کر وہ تو تھانے چلے گئے۔ اسے گئے ہوئے قریباً پندرہ منٹ ہوئے ہوں گے مَیں اکیلا بڑا گھبرایا کہ اتنا وقت یہاں اکیلا کیا کروں گا۔ آخر میں نے اس نوکر کو آواز دی۔ اس پر اس کی بیوی کہنے لگی کہ مولوی صاحب آپ کو کیا چاہئے؟ خود پوچھنے لگی۔ بیٹھک میں مَیں بیٹھا ہوا تھا۔ ایک دروازہ باہر گلی میں کھلتا تھا دوسرا صحن میں کمرہ کے ساتھ بھی تھا۔ میںنے کہا بہن صاحبہ مَیںنے بچے کو بلایا ہے۔ کہنے لگی نہیں آپ کو پانی چاہئے یا دودھ چاہئے ؟مَیں نے کہا پانی چاہئے۔ اچھا میں ابھی لاتی ہوں۔ اُسے تو میں نے بازار بھیجا ہوا ہے کچھ خریدنے کے لئے‘۔ وہ خود پانی کا گلاس لے آئی۔ اس نے دروازہ تھوڑا سا کھولا اور مجھے گلاس پکڑا دیا۔ میں نے تھوڑا سا پی کر اسے واپس کر دیا۔ پیاس تو مجھے بہت تھوڑی ہی تھی۔ اس کے ساتھ اتنی بات تو ہو گئی۔ میں نے کہا بہن صاحبہ آپ کو کس وقت فرصت ہوتی ہے؟ کہنے لگی مجھے تو مولوی صاحب فرصت ہی فرصت ہے آپ نے جب کھانا کھانا ہوگا آپ بتا دیں میں اُسی وقت نوکرانی کو بلائوں گی اور وہ کھانا تیار کرکے آپ کو بھیج دے گی۔ مَیں نے کہا بہن صاحبہ مجھے ایک تکلیف ہے اگر کہو تو مَیں اسے پیش کردوں۔ کہنے لگی۔ فرمائیے کیا ہے؟ مَیں نے کہا کہ آپ اس بات کو محسوس کر رہی ہیں کہ آپ کے میاں احمدیت میں کیوں شامل ہوگئے کیونکہ یہ سچی چیز نہیں ہے۔ اور ہم اس پر حیران ہیں کہ آپ اہلحدیث ہو کر احمدیت سے باہر کیوں ہیں۔ کیونکہ ہم بھی احمدیت میں داخل ہونے سے پہلے اہلحدیث ہی تھے اور ان میں سے تھے کہ ہمارے ساتھی جو مولوی ثناء اللہ صاحب کے استاد تھے۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے پڑھتے رہے ہیں۔ ان کے استاد کے وہ ساتھی تھے۔ تو ہمیں یہ سمجھ ہے کہ اہلحدیث ہونے کی وجہ سے تو آپ نے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ کہنے لگی آپ کو کیسے سمجھ آگئی؟ مَیں نے کہا آپ کو احمدیت پر اعتراض ہوں گے؟ کہنے لگی بہت سے۔ میں نے کہا جو بہت سے ہیں ان میں کچھ بڑے ہوں گے اور کچھ چھوٹے ہوں گے کہ سارے ایک ہی سائز کے ہیں؟ کہنے لگی دونوں قسم کے ہیں۔ میں نے کہا جو سب سے بڑا ہے پہلے وہ ہمیں بتائیں تاکہ ہم اس پر غور کریں۔ اور اگر وہ واقعی اعتراض جائز ہوا تو ہم فوراً اس پر غور کریں گے۔ ہم نے جہنم میں جانے کی قسم تو نہیں کھائی ہوئی۔
کہنے لگی مجھے بڑے بڑے دو اعتراض ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ مرزا صاحب کا مباہلہ ہوا اور مرزا صاحب فوت ہو گئے اور مولوی صاحب ابھی تک موجود ہیں۔
دوسرا مرزا صاحب نے کہا تھا کہ محمدی بیگم میرے نکاح میں آئے گی مگر وہ پہلے ہی فوت ہوگئے اور وہ ان کے نکاح میں بھی نہیں آئی بلکہ کسی اور کی بیوی بنی۔ اس لئے ہم کیسے مان لیں کہ مرزا صاحب سچے ہیں۔ کیونکہ مباہلہ میں فیصلہ ہو گیا اور مرزا صاحب کی پیشگوئی غلط نکلی۔ معلوم ہوا کہ وہ خدا کی طرف سے نہیں تھے۔
میںنے کہا بہن صاحبہ معاف کرنا یہ تو دونوں پیشگوئیاں ایسے طریق پر پوری ہوئی ہیں کہ ہمارے ایمان تازہ کر گئی ہیں۔ انہی کی وجہ سے تو ہم احمدی ہوئے ہیں۔ کہنے لگی یہ کیسے ہوا مرزا صاحب تو مبا ہلے کے نتیجہ میں فوت ہو گئے اور محمدی بیگم ان کے نکاح میں نہیں آئی تو آپ کا ایمان تازہ کیسے ہوگیا۔
مَیں نے کہا آپ کو صحیح نہیں بتایا گیا۔ آپ نے پہلا اعتراض مولوی ثنا ء اللہ صاحب کے مباہلہ کے بارے میں کیا ہے۔ ہم ان کے استاد کے خوب واقف ہیں جن کے یہ شاگرد رہے ہیں اور وہ مولوی محمد حسین بٹالوی تھے۔ مَیںنے بھی بسم اللہ انہی سے پڑھی تھی۔ اس لئے ہم مولوی صاحب کو بہت بہتر جانتے ہیں۔ ایسا مباہلہ تو ہوا ہی نہیں اور نہ کسی نے کیا ہے۔ وہ تو دعائے مباہلہ ہے۔ حضرت مرزا صاحب نے فرمایا کہ آئو خدا سے فیصلہ کروالیتے ہیں اور دعا لکھ کر مولوی ثناء اللہ صاحب کو بھجوائی کہ اسی کے نیچے جو تمہارا خیال ہے اس کی منظوری کا یا نا منظوری کا وہ لکھ دو اور اپنے اخبار میں شائع کروا دو۔ مولوی صاحب کو جب یہ چٹھی پہنچی جو مباہلہ کے لئے تھی تو انہوں نے اسے پڑھ کر اپنے ہی اخبار اہلحدیث میں جواب دیا۔ پہلے وہ ساری دعا درج کی اور اس کے نیچے لکھ دیا کہ یہ جو شیطان کی آنت سے بھی لمبی دعا ہے یہ مجھے منظور نہیں اور نہ کوئی دانا اسے منظور کر سکتا ہے۔ مَیں نے کہا بہن صاحبہ ذرا اسے سمجھیں۔ وہ حیران ہو کہ کہنے لگی کہ مولوی ثنا ء اللہ صاحب نے یہ کہاں لکھا تھا؟ میں نے کہا جہاں سے آپ نے دعا پڑھی ہے وہ آپ کو معلوم ہے؟ کہنے لگی وہ تو اب بہت پرانی بات ہے وہ اخبار ضائع ہو گیا۔ میںنے کہا آپ نے پھر ساری نہیں پڑھی۔ انہوں نے لکھا تھا کہ مجھے یہ مباہلہ منظور نہیں ہے اور نہ کوئی دانا اسے منظور کر سکتا ہے۔ کہنے لگی کہ اگر آپ یہ کہیں سے مجھے دکھا دیں تو میں یہ سمجھوں گی کہ واقعتاً مولوی صاحب زیادتی کرتے رہے ہیں۔
اگلے دن قربانی کی عید تھی ۔مَیں نے اپنے پاس یہ سارے ریکارڈ رکھے ہوتے تھے۔ مَیںنے فوراً اہلحدیث والا اخبار نکال کر اسے دکھایا اور کہا بہن صاحبہ اسے خود پڑھ لیں۔ جب اس نے خود پڑھا تو اس کے پائوں سے زمین نکل گئی۔ کہنے لگی کہ وہ تو کہتے تھے کہ میں نے مباہلہ کیا اور یہاں کہتے ہیں کہ اسے تو کوئی منظور ہی نہیں کر سکتا اور یہ تمہاری دعا مجھے منظور ہی نہیں۔ وہ تو نامنظور کر چکے ہیں۔ وہ اخبار پڑھ کر مجھے اس نے واپس کر دیا۔ کہنے لگی اچھا اسے چھوڑ یں۔ مَیںنے کہا اسے کہاں چھوڑیں۔ آیا میری بات سچی نکلی یا آپ کا خیال سچا نکلا۔ کہنے لگی نہیں آپ کی بات سچی نکلی۔ مَیںنے کہا بہت اچھا۔
دوسرا اعتراض کہ محمدی بیگم کی شادی مرزا صاحب سے نہیں ہوئی مرزا صاحب کوئی کنوارے نہیں تھے۔ ان کی شادی بڑے بزرگ خاندان میں دہلی میں ہوئی ہوئی تھی۔ مرزا صاحب کو نہ مزید شادی کی ضرورت تھی اور نہ وہ چاہتے تھے۔ انہوں نے یعنی لڑکی کے باپ نے آپ سے نشان طلب کیا تھا کہ اگر آپ کا دعویٰ سچا ہے تو کوئی نشان دکھائیں۔ اس پر مرزا صاحب نے اپنے خدا کے حضور دعا کی تو آپ کو یہ الہام ہوا کہ ان سے رشتہ کا مطالبہ کرو۔ مرزا صاحب نے انہیں لکھا کہ دیکھو نشان اگر آپ اپنی لڑکی محمدی بیگم کا مجھ سے نکاح کر دیں تو آپ کا گھر برکتوں سے بھر جائے گا اور اگر آپ نے کسی اور جگہ اسکا نکاح کیا تو آپ بہت جلد مرجائیں گے اور آپ کے گھر پر بہت تباہی آئے گی۔ اور جہاں آپ اس کی شادی کریں گے اگر وہ بھی میری مخالفت کرے گا تو وہ بھی تین سال کے اندر اندر مرجائے گا۔ یہی آپ کے لئے نشان ہے۔ یا تو میرے ساتھ نکاح کرکے رحمت خرید لو یا پھر دوسری جگہ نکاح کرکے خدا کا غضب خرید لو۔ بعد میں ہوا کیا کہ جس وقت یہ مطالبہ کیا گیا اس وقت لڑکی کی عمر نو اور دس سال کے درمیان تھی۔ آپ خود سمجھ سکتی ہیں کہ اس عمر میںنہ لڑکی جوان ہوتی ہے اور نہ کوئی خوبصورتی ہوتی ہے اور نہ مرزا صاحب کو شادی کی ہی ضرورت تھی۔ تو پھر یہ مطالبہ کیسا؟ یہ محض ایک نشان کے طور پر بات تھی۔ اب یہ نشان کسی طرح ظاہر ہوا۔ اس لڑکی کے والد نے جب اس کی عمر پندرہ یا سولہ سال کی ہوئی تو انہوں نے مرزا سلطان محمد سے نکاح کر دیا۔ اب جبکہ دوسری جگہ نکاح کر دیا تو کیا نشان ملنا چاہیے تھا؟ کہنے لگی کہ نکاح کرنے کے بعد لڑکی کے باپ کو مرجانا چاہئے تھا۔ میںنے کہا تین ماہ اور اکیس دن کے بعد اس کا باپ مر گیا تھا۔ اور اس کی بیوی جو اس لڑکی کی ماں تھی گویا احمد بیگ کی بیوی اس کا لڑکا محمد بیگ اور محمدبیگ کا لڑکا محمود بیگ اور محمدی بیگم کی بہن یہ سب کل گیارہ افراد تھے سب کے سب احمدی ہو گئے۔ تو جو کچھ مرزا صاحب نے کہا تھا وہ سچ نکلا یا نہیں۔
دوسری بات اس پیشگوئی کے متعلق بھی ایک پیشگوئی تھی کہ یہ اس قسم کی پیشگوئی ہے کہ
یَمُوْتُ وَ یَبْقٰی مِنْہُ کِلَابٌ مُتَعَدِّدَۃٌ
کہ اس بات پر لوگ کتوں کی طرح بھونکتے رہیں گے۔ اب ہم جہاں بھی جاتے ہیں اکثر جگہوں پر یہی لوگ کہتے ہیں کہ محمدی بیگم نکاح میں نہیں آئی تھی۔ جدھر جائو یہی سوال سنتے ہیں اور وہی پیشگوئی بار بار پوری ہو رہی ہے۔ اور بھی ہزاروں پیشگوئیاں ہیں لیکن ان سب کو چھوڑکر اسی کو باربار پیش کرتے ہیں۔ جبکہ خداتعالیٰ نے تو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ ایسا ہی ہوگا۔
وہ تو بیچاری یہ باتیں سن کے حیران ہوگئی۔ مَیںنے کہا جن کے متعلق پیشگوئی تھی اور جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہدایت کا سامان کرنا تھا ان سب کو تو ہدایت ہو گئی۔ وہ سارے احمدی ہو گئے اور اردگرد کے لوگ جن کانہ محمدی بیگم سے کوئی تعلق، نہ ان کی بہن سے تعلق، وہ ہی ان اعتراضوں میں کوشاں ہیں۔ وہ لڑکی ہنس پڑی۔ کہنے لگی مولوی صاحب آپ نے تو یہ سب کچھ سنا کر حیران کر دیا اور یہی دو اعتراض مجھے ہمیشہ کھٹکتے رہتے تھے۔ اور بھی چھوٹے چھوٹے کچھ اعتراضات ہیں۔ اور جہاں یہ دو بڑے اعتراض درست نہیں تھے تو پتہ چلا کہ چھوٹے چھوٹے اعتراضات بھی ویسے ہی ہوں گے۔ میں نے کہا بہن صاحبہ کوئی اور بھی اعتراض ہے تو میری طرف سے اجازت ہے۔ آپ خوشی سے بیان کریں۔ اور اب اگر ہم یہ نشان دیکھ کر احمدی ہو گئے ہیں تو مجھے آپ بتائیں ہم نے کیا بُرا کیا ہے؟ خاموش ہوگئی۔
میںنے جلدی سے بیعت فارم نکالا اور کہا کہ بہن صاحبہ یہ شرائط ہیں جو مرزا صاحب نے بیعت کے وقت ہم سے لی تھیں۔ مہربانی کرکے ذرا انہیں پڑھ لیں۔ اس نے وہ دس شرائط پڑھیں۔ میںنے کہا ان پر کوئی آپ کو اعتراض ہے۔ کہنے لگی کہ جو اسلام کا خلاصہ ہے اس پر میں کیسے اعتراض کرسکتی ہوں۔ مَیںنے کہا اچھا پھر ان سب کو ایک دفعہ دوبارہ پڑھو۔ پھر اس نے پڑھا۔ میں نے کہا شاید اب پڑھ کر کوئی اعتراض ذہن میں آیا ہو؟ کہنے لگی نہیں۔ اس میں اعتراض والی بات ہے ہی کوئی نہیں۔ میںنے کہا اب اس فارم کے دوسری طرف پلٹ کر دیکھیں کہ بیعت کے الفاظ کیا ہیں؟ اس نے وہ بھی پڑھے۔ مَیںنے کہا کیا اب بھی کوئی اعتراض ہے؟ کہنے لگی نہیں۔ کوئی اعتراض والی بات نہیں ہے۔ مَیںنے کہا تو پھر ہم نے جو بیعت کرلی تو اچھا کیا یا بُرا کیا؟ کہنے لگی اچھا کیا۔ میںنے کہا کہ ہم نے قرآن پاک اور حدیث کے ماتحت اللہ اور اس کے رسول سے ڈرتے ہوئے جب بیعت کرلی ہے تو آپ کو کیوں انکار ہے۔ کہنے لگی نہیں اب تو مجھے کوئی انکار نہیں ہے میں نے کہا پھر تم یہ فارم پُر کرو۔ وہ فوراً قلم لے آئی اور انگریزی میںفارم پُر کردیا۔ میںنے کہا اب اس کا جواب آپ کو قادیان سے آئے گا۔ آپ کو بہن صاحبہ بہت بہت مبارک ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر بہت بڑا رحم کر دیا ہے۔ کہنے لگی مولوی صاحب میں آپ کا بڑا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ اگر آپ نہ آتے اور یہ ساری باتیں نہ سناتے تو میں تو ساری زندگی کٹر اہلحدیث ہی رہتی۔ میںنے کہا کہ میں نے آپ کو پہلے بتایا تھا کہ ہم بھی کٹر اہلحدیثوں میں سے ہی احمدی ہوئے تھے۔ اور اسی وجہ سے ہی اسے زیادہ توجہ پیدا ہو گئی تھی۔ بہر حال وہ ایک بڑے گلاس میں گرم دودھ لے آئی مَیںنے کہا مجھے آدھا گلاس ہی د ینا۔ خیر وہ آدھا گلاس دودھ لے آئی۔ اور کہنے لگی باقی آدھا مَیں خود ہی پی لیتی ہوں۔ اس طرح میرا قریباً دو گھنٹہ وقت اس پر خرچ ہوا۔ آدھا گھنٹہ پہلے چُپ رہا اور بعد میں آدھا گھنٹہ چُپ رہنے کامل گیا۔ کچھ اور بھی باتیں اسے سنائیں۔
تین گھنٹہ کے بعد انسپکٹر صاحب پھونکیں مارتے آگئے۔ چونکہ گرمی بہت زیادہ تھی اور بہت پسینہ بھی آیا ہوا تھا۔ خیرپہنچ گئے اور کہنے لگے کہ جب میں یہاں سے روانہ ہو چکا تھا تو مجھے راستہ میں خیال آیا اور بڑی ذہنی کوفت بھی ہوئی کہ کیوں نہ مَیں آتے وقت مولوی صاحب سے کہہ آیا کہ میرے گھر والوں کو کوئی بات سمجھائیں۔ مَیں نے کہا آپ کی موجودگی میں تو اُن سے باتیں کر سکتا ہوں مگر آپ کی عدم موجودگی میں تو بات آپ کی بیوی سے نہیں کرسکتا۔ آپ ایسا کریں کہ یہ بیعت فارم آپ لے جائیں اور اسے کہیں کہ وہ اسے پڑھے۔ کہنے لگا وہ تو الفضل اخبار نہیں پڑھتی یہ کیسے پڑھے گی۔ میںنے کہا اگر نہیں پڑھتی تو اس کی مرضی۔ یہ میری طرف سے فارم دیںاور کہیں کہ مولوی صاحب نے یہ کا غذ دیا ہے آپ اسے ذرا پڑھ لیں۔ میں نے وہ فارم اسے کھول کر دیا۔ وہ دیکھ کر کہنے لگے یہ کیا بات ہے؟ اس پردستخط تو میری بیوی کے ہیں۔ مَیں نے پھر کہا کہ کن کے ہیں؟ ’یہ تو میری بیوی کے ہیں‘۔ وہ فارم لے کر اندر چلے گئے اور اپنی بیوی سے پوچھا کہ یہ دستخط آپ نے بیعت فارم پر کئے ہیں؟ کہنے لگی ہاں۔ کہنے لگا اب کیسے کردئیے؟ آپ تو الفضل اخبار کو ہاتھ تک نہیں لگایا کرتی تھیں مَیں کہتا تھا اسے پڑھ لو تو کہتی تھیں کہ آپ کی بیوی ہوں آپ کی ہر طرح خدمت گزار ہوں مگر مذہب کے معاملہ میں آپ نے دخل نہیں دینا۔ اب کیا اچانک ہوا؟ کہنے لگی میرے جو اعتراضات احمدیت پر تھے وہ مولوی صاحب نے حل کر دئیے اور مجھے ان کی سمجھ آگئی۔ اس لئے مَیں نے بیعت کر لی۔ ان کے میاں میرے پاس بہت ہی خوشی میں آئے اور کہنے لگے کہ میری تو زندگی سنور گئی آپ کی اس محنت سے۔ اور مَیں سمجھ رہا ہوں کہ میری تو آج شادی ہوئی ہے۔ میں نے کہا بہت اچھا ہم بھی کل آپ کا ولیمہ کھا کر ہی جائیں گے۔ انہوں نے اگلے دن ولیمہ ہی بنایا۔ یعنی زردہ پلائو اور فرنی غرضیکہ بہت خدمت کرکے مجھے واپس بھیجا۔