ارشادات عالیہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام
ان لوگوں پر افسوس جو خدا کے نشانوں کو اور اس کے دنوں کو دیکھتے ہیں پھر منہ پھیرتے ہیں۔ پھر جب ان سے کہا جاتا ہے
کہ خدا کے اس وعدہ پر جو سورۃ نور میں اور فاتحہ میں مذکور ہے ایمان لاؤ تو کہتے ہیں کہ کیا ہم جاہلوں کی طرح ایمان لائیں۔
خبردار کہ یہی لوگ جاہل ہیںلیکن بے شعور ہیں۔ اورجس وقت کہا جائے کہ خدا سے ڈرو اور خواہش کی پیروی نہ کرو۔
کہتے ہیں کہ ہم پرہیزگار ہیں۔ حالانکہ قرآن کو ظلم اور تکبّر سے چھوڑدیا ہے۔
بھلا دیکھو تو کہ اگر مَیں خدا کی طرف سے ہوا اور تم میری تکذیب کرتے رہے تو تمہارا انجام کیا ہو گا۔
’’اور تمہیں معلوم ہے کہ یہ طاعون وہی عذاب ہے جو یہود پر نازل ہوا پھر ان لوگوں پریہ عذاب خداکے غضب سے نازل ہو گاجو یہودیوںکی طرح ہو جائیں گے۔ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ (الفاتحۃ7:)کی آیت میں یہی بھید ہے۔ ان لوگوں پر افسوس جو خدا کے نشانوں کو اور اس کے دنوں کو دیکھتے ہیں پھر منہ پھیرتے ہیں۔ پھر جب ان سے کہا جاتا ہے کہ خدا کے اس وعدہ پر جو سورۃ نور میں اور فاتحہ میں مذکور ہے ایمان لاؤ تو کہتے ہیں کہ کیا ہم جاہلوں کی طرح ایمان لائیں۔ خبردار کہ یہی لوگ جاہل ہیںلیکن بے شعور ہیں۔ اورجس وقت کہا جائے کہ خدا سے ڈرو اور خواہش کی پیروی نہ کرو۔ کہتے ہیں کہ ہم پرہیزگار ہیں۔ حالانکہ قرآن کو ظلم اور تکبّر سے چھوڑدیا ہے۔ اور جس وقت حق کی طرف ان کو بلائیں غصّہ سے بھر جاتے ہیں اور اس سے زیادہ اور کیا جہالت ہے کہ پریشان باتوں کو مانا ہوا ہے اور قرآن کے وعدہ کو قبول نہیں کرتے۔ اور قرآن ایک ایسی کتاب ہے کہ باطل کو اس میں کسی طرف سے راہ نہیں۔ اور کیا ممکن ہے کہ یقین اور گمان برابر ہوجائیں۔ اور ثابت ہے کہ تمام حدیثیں ایک سو یا دو سو برس کے بعد جمع کی گئی ہیں اور مسلمانوں کے فرقے ان میں لڑتے جھگڑتے ہیںاور حقیقت میں قرآن میں کوئی شبہ نہیں اور وہی ہمارے نبی پر نازل ہواہے اور اس کے پاک منہ سے نکلا ہے۔ کیا اس میںتم کو شک ہے۔ پس کس حدیث پر قرآن کے بعد ایمان لاتے ہو۔کیا اس کتاب کو چھوڑ کر گمان کو اختیار کرتے ہو جس کی شان میں خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ ۔ الآیۃ ۔ اور کہتے ہیںکہ ہم نے اپنے بزرگوں کو ایک راہ پر پایا ہے اور ہم ان کے نقش قدم پرچلیں گے۔ دیکھ کہ کس طرح قرآن کو چھوڑنے کا اقرار کرتے ہیں۔ پھر دیکھ کہ کس طرح لڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حدیثیںہمارے عقائد کی نسبت متفق علیہ ہیں اور وہ صریح اس بات میں جھوٹے ہیںاور جانتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بہت حدیثیں قرآن سے موافق ہوتی ہیںاور جو موافق نہیں وہ بے شک موضوع ہے۔ اورمعصوم ہونا قرآن کی ہی خاص صفت ہے اورقصے منسوخ نہیں جیسا کہ تم کو خود اقرار ہے۔اب ثابت اور واضح حق سے کہاں بھاگو گے اور کب تک لڑو گے۔ بھلا دیکھو تو کہ اگر مَیں خدا کی طرف سے ہوا اور تم میری تکذیب کرتے رہے تو تمہارا انجام کیا ہو گا۔
اور خدا تعالیٰ نے مسیح علیہ السلام کی موت کی نسبت سورۃمائدہ میں خبر دی ہے اور حدیث میں ہے کہ ان کی عمر ایک سو بیس برس کی تھی اور نیز خدا نے سورۃ نور میں ہم کو بشارت دی ہے کہ خلیفے اِس اُمّت سے ہوں گے۔ پس ضروراسی طریق پر خاتم الخلفاء مسلمانوں میں سے پیدا ہوا اور وہی بغیر کسی شک کے مسیح موعود ہے۔ پس اگر تمہاری آنکھیں ہیں تو خدا نے ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کر دیا ہے۔ کیا اب اس سب کے بعد کوئی شک پرہیزگاروں کے لئے باقی رہ گیا ہے؟ ہم کو خدا نے حجت بالغہ دی ہے اور تمہارے ہاتھ میں خطاکاروں کے گھڑے ہوئے کے سوا اور کچھ نہیں۔ اور کہتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام دمشق کے مشرق کی طرف اترے گا۔ اور یہی ٹھیک ہے اگر سوچو اور مسیح مشرق کی زمین میں ظاہر ہوا ہے جیسا کہ دجال بھی اسی زمین میں ظاہر ہوا ہے۔ پس مسیح بھی مشرق میں ہوا اور دجّال بھی مشرق میں۔ اورمشرک شرک میں بڑھ گئے اور یہ ہمارا گاؤں دمشق کے مشرق کی طرف ہے۔ کسی جغرافیہ دان سے پوچھ لو اگر تم خود نہیں جانتے۔ اور یہ ہندوستان کا ملک حجاز کے ملک سے مشرق کی سمت ہے۔ پس سچ نکلا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اشارہ فرمایا تھاکہ دجّال اور مسیح مشرق میں ظاہر ہوں گے اور خدا کا وعدہ سچ اور حق ثابت ہوا۔ پس اے جلد بازو ! خدا کے ساتھ مت لڑو ۔تم دیکھتے ہو کہ لوگ عیسائی ہو گئے اور خدا کے دین سے پھر گئے ہیں۔ پھر کہتے ہو کہ خدا کی طرف سے کوئی رسول نہیں آیا۔ یہ تمہارا کیسا فیصلہ ہے! اور یہ ہندوستان کی زمین فتنہ اور فساد میں سب زمینوں سے بڑھ گئی ہے۔ کیا اس جیسی زمین کوئی اور تمہیں معلوم ہے؟ اگر سچے ہو تو اس زمین کا پتہ دو۔ اور بے شک آسمان اور زمین اور زمان اور مکان نے میری سچائی پر گواہی دی ہے اور اس صدی میں سے قریباً پانچواں حصہ گزر بھی گیا۔ اب اس کے بعد کون سی گواہی تم کو جگائے گی۔ اور نیز خدا نے تین سو کے قریب نشان ظاہر کر دیئے اور ان نشانوں کو ایک لاکھ سے زیادہ آدمیوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور اگر ان کو جھوٹا سمجھتے ہوتو ان جیسے گواہ لاؤ جو تمہارے حق میں گواہی دیں اگر اس دعوے میں سچ پر ہو اور یقیناً خدا کی مدد عین وقت پر تم کو پہنچی۔ کیا اسے ردّ کر دو گے۔ اور میری سچائی کی دلیلیں اس قدر ہیں کہ تم ان کو نہیں گن سکتے اور یقیناً جھوٹوں کو کوئی نشان اور کوئی مدد نہیں دی جاتی۔‘‘
(خطبہ الہامیہ مع اردو ترجمہ صفحہ 105تا109۔شائع کردہ نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان۔ربوہ)