حضرت مصلح موعود مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ بعض نامور غیر احمدیوں کی نظر میں
(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 23)
نامور ادیب ابو ظفر نازش رضوی کے قلم سے بلند پایہ خدمات کا ایمان افروز تذکرہ
پاکستان کے مشہور و معروف ادیب و فاضل اور محقق جناب ابوظفر نازش صاحب رضوی نے حضرت مصلح موعود ؓکی شاندار دینی خدمات پر حسب ذیل مقالہ میں تفصیلی روشنی ڈالی
اظہارِ حقیقت
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی زندگی کا ایک ایک سانس اسلام کی سربلندی کے لئے وقف تھا
’’حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدامام جماعت احمدیہ سے میری پہلی ملاقات دسمبر 1939ء کے پہلے ہفتہ میں بمقام قادیان ایک خا ص صورتحال کے تحت ہوئی۔ اور وہاں میرا قیام دسمبر کے اخیر تک رہا۔ اس عرصہ میں مجھے حضرت صاحب سے تین بار شرفِ ملاقات حاصل ہوا اور ہر بار مَیں ان کی مقناطیسی کشش سے نہایت متاثر ہوا۔ میں ایک پشتینی پختہ کار شیعہ ہوں اس لئے بظاہر میرا قادیان جانا اور پھر مہینہ بھر وہاں قیام کرنا ایک عجیب سی بات تھی مگر حالات کچھ ایسے تھے کہ میرا قادیان جانے کے بغیر چارئہ کار نہ تھا۔
میں اُس زمانہ میں دہلی میں مستقل طور سے مقیم تھا۔ بات یہ ہوئی کہ ان دنوں میری کچھ نظمیں یکے بعد دیگرے اخبارات و رسائل میں شائع ہوئیں جن سے انگریزی حکومت کے خلاف بغاوت کا پہلو نکلتا تھا۔ اس پر حکومت کی طرف سے میرے خلاف خفیہ تفتیش ہونے لگی اور مقدمات مرتب کئے جانے لگے۔ اسی اثناء میں میرا ایک نہایت معزز غیر مسلم دوست اپنے بعض دیگر اسی نوعیت کے افعال پر حکومت کے زیرِ عتاب تھا۔ اُس سلسلہ میں میرانام بھی خفیہ طور پر شامل تفتیش کر لیا گیا۔ چنانچہ میرے اُس غیر مسلم دوست کی گرفتاری عمل میں آئی مگر میری گرفتاری کسی وجہ سے چند گھنٹوں کے لئے ملتوی کر دی گئی۔ اِس پر میرے چند بااثر اور مخلص شیعی و سنّی دوست جو ملکی حالات سے زیادہ باخبر اور جماعتِ احمدیہ سے حسنِ ظن رکھتے تھے دہلی میں اکٹھے ہوئے اور میرے بچائو کی تدابیر پر بحث ہونے لگی۔ انہوں نے طویل بحث کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ وہ حکومت کے اعلیٰ ارکان سے مل کر میرا معاملہ رفع دفع کرانے کی کوشش کریں۔ مگر مجھے فوراً دہلی کو چھوڑ دینا اور چند دن کسی ایسے مقام پر چلا جانا چاہیئے جہاں کسی قسم کی چالاکی، شرارت اور جاسوسی کا امکان نہ ہو۔
اس سلسلے میں ان کی نظر قادیان پر پڑی اور مجھے مشورہ دیا کہ میں چند دن کے لئے وہاں چلا جائوں۔ چنانچہ میں کسی دوسرے دوست یا عزیز کو بتائے بغیر قادیان پہنچ گیا اور وہاں میں نے یہ ظاہر کیا کہ وہاں کی عظیم الشان لائبریری سے استفادہ کرنے کی غرض سے آیا ہوں۔ چونکہ اس مقصد کے لئے اکثر اعلیٰ علمی ذوق رکھنے والے افراد وہاں پہنچ جا یا کرتے تھے اس لئے میری بات پر یقین کر لیا گیا اور سچ مچ کسی نے زیادہ ٹوہ لگانے کی کوشش نہ کی۔میں پہلے دن ہی مطمئن ہو گیا ۔میرا قیام مہمان خانے میں ہوا۔ وہاں مجھے پتہ چلا کہ امام صاحب جماعت احمدیہ کے پرائیویٹ سیکرٹری جناب چوہدری بشیر احمد خان بی۔ اے۔ ایل ایل۔ بی ہیں (جو آجکل لاہور میں اوتھ کمشنر ہیں) وہ نہ صرف میرے شناسا تھے بلکہ میرے استاد بھی رہ چکے تھے۔ میں ان سے ملا تو وہ بے حد خوش ہوئے۔ میری خواہش پر انہوں نے حضرت صاحب سے میری ملاقات کا فوراً انتظام کر دیا۔
ملاقات کا انتظام ہوتے ہی میں دارالخلافت پہنچا اور جب چند سیڑھیاں طے کر کے اندر پہنچا تو حضرت صاحب گائو تکئے سے ٹیک لگائے قالین سے مفروش کمرے میں تشریف فرما تھے۔ میں رسمِ سلام ادا کرکے جب مصافحہ کر چکا تو مختصر سے وقفہ کے بعد آپ نے فرمایا۔
’’قادیان دارالامان ہے ۔یہاں آپ کو سو فیصد امن اور سکون میسر رہے گا‘‘
حضرت صاحب کے اس فقرے پر مجھے بہت تعجب ہوا۔ قادیان کو دارالامان تسلیم کر کے ہی میرے شیعی اور سنّی دوستوں نے مجھے وہاں بھیجا تھا۔ مگر حضرت صاحب کا میرے حالات سے قطعاً ناواقف ہوتے ہوئے مجھے خاص طور پر ’’امن‘‘ کا یقین دلانا بڑی ہی استعجاب انگیز بات تھی۔
قادیان کے سالانہ جلسے تک میرا معاملہ سلجھ چکا تھا مگر میں مزید چند روز قادیان میں قیام پذیر رہا۔ اس موقع پر میرے چند احمدی دوست بھی قادیان پہنچ گئے تو باقی دنوں کے لئے میری رہائش کا انتظام محترم چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے دولت کدہ پر ہو گیا۔ جہاں میں نے خلوص اور عقیدت کا بے نظیر نظارہ دیکھا۔ ان دنوں حضرت صاحب بے حد مصروف تھے پھر بھی میری ضروریات کے متعلق آپ دریافت فرماتے رہے۔
دوسری مرتبہ 1940ء میں مجھے ایک سیاسی مشن پر قادیان جانا پڑا۔ اس زمانے میں ہندو اپنی سنگھنی شرارتوں کا ایک خاص منصوبہ بنا رہے تھے۔ اس موقع پر مرحوم و مغفور امام صاحب جامع مسجد دہلی اور سیدی و مولائی خواجہ حسن نظامی صاحب اعلیٰ اللہ مقامہٗ اور دیگر چوٹی کے مُسلم اکابر نے مجھے نمائندہ بنا کر بھیجا کہ حضرت صاحب سے اس باب میں تفصیلی بات چیت کروں اور اسلام کے خلاف اس فتنے کے تدارک کے لئے ان کی ہدایات حاصل کروں۔ یہ مشن بہت خفیہ تھا کیونکہ ہندوستان کے چوٹی کے مسلمان اکابر جہاں یہ سمجھتے تھے کہ ہندوئوں کے اُس ناپاک منصوبے کا موثر جواب مسلمانوں کی طرف سے صرف حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ہی دے سکتے ہیں۔ وہاں وہ عام مسلمانوں پر یہ ظاہر کرنا بھی نہیں چاہتے تھے کہ وہ حضرت صاحب کو اپنا رہبر تسلیم کر چکے ہیں۔
میں اس سلسلے میں قادیان تین دن مقیم رہا۔ اور حضرت صاحب سے کئی تفصیلی ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں میں دو باتیں مجھ پر واضح ہو گئیں ایک یہ کہ حضرت صاحب کو اسلام اور حضور سرور کائنات علیہ السلام سے جو عشق ہے اس کی مثال اِس دور میں ملنا محال ہے۔دوسرے یہ کہ تحفظِ اسلام کے لئے جو اہم نکات حضرت صاحب کو سوجھتے ہیں وہ کسی دیگر مُسلم لیڈر کے ذہن سے مخفی رہتے ہیں۔ میرا یہ مشن بہت کامیاب رہا اور میں نے دہلی جا کر جو رپورٹ پیش کی اس سے مسلم زعماء کے حوصلے بلند سے بلند تر ہو گئے۔
اس کے بعد حضرت صاحب سے میری ایک ملاقات شملہ میں ہوئی۔ اس ملاقات کے دوران میں نے محض اپنی ذاتی حیثیت سے یہ تجویز پیش کی کہ کوئی ایسا فارمولا تلاش کر لیا جائے جس سے شیعہ اور احمدی فرقوں کے درمیان اشتراک عمل کی کوئی راہ پیدا ہو جائے۔ پھر رفتہ رفتہ اسلام کے دوسرے چھوٹے فرقوں کو شامل کر لیاجائے۔ یہاں تک کہ بالآخر اختلافِ عقائد کے باوجود تمام مسلم فرقوں میں تعمیری کاموں کے لئے اتحاد و اتفاق ہو جائے۔ میرے نزدیک اس کے دو فائدے تھے ایک یہ کہ اس طرح مسلمانانِ ہند بحیثیت مجموعی دشنمانِ اسلام کا ہر پہلو سے موثر اور نتیجہ خیز مقابلہ کر سکیں گے۔ اور دوسرے یہ کہ اسلام کے مختلف فرقے خدا اور رسول ﷺکانام درمیان میں لا کر ایک دوسرے پر جو کیچڑ اُچھالتے ہیں وہ بند ہو جائے گا۔ حضرت صاحب نے اصولی طو رپرمیری یہ تجویز بہت پسند فرمائی لیکن وہ ان دنوں بہت مصروف تھے اور یہ مسئلہ وقت طلب تھا اس لئے آپ نے مجھے قادیان آنے کی دعوت دی تاکہ وہاں اطمینان سے اس تجویز کے تمام پہلوئوں پر غور وخوض کیا جا سکے۔ میں نے یہ دعوت قبول کر لی مگر میری مصروفیتوں نے بعد میں مجھے قادیان جانے کی اجازت نہ دی۔
تشکیلِ پاکستان کے بعد مولانا عبدالرحیم صاحب درد مرحوم کی دعوت پر میں ربوہ میں ایک سالانہ جلسہ میں شریک ہوا اور کئی دوستوں سے ملاقی ہوا۔ اس موقع پر بھی حضرت صاحب سے میری ایک مختصر سے ملاقات ہو گئی مگر کوئی خاص گفتگو نہ ہو سکی۔
فروری 1956ء کے پہلے ہفتے میں حضرت مرزا ناصر احمد صاحب موجودہ امام جماعتِ احمدیہ کے ارشاد پر تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے پروفیسر خان نصیر احمد خان لاہور تشریف لائے اور مولانا عبدالمجید سالک مرحوم مغفور، چوہدری عبدالرشید تبسم ایم۔اے اور مجھے موٹر کار میں ربوہ لے گئے کہ وہاں ایک انعامی مقابلۂ تقاریر اور مشاعرہ کا انعقاد تھا جس میں ہماری شرکت ضروری سمجھی گئی۔ ربوہ میں اس روز شام کو پہلے انعامی مقابلۂ تقاریر ہوا جس میں ہم تینوں نے جج کے فرائض انجام دیئے اور پھر مولانا عبدالمجید سالک مرحوم و مغفور کی زیرِ صدارت مشاعرہ ہوا۔ یہ دونوں تقریبیں بہت کامیاب رہیں۔
دوسرے دن حضرت صاحب نے بعد دوپہر ہم تینوں کو چائے پر یاد فرمایا۔ میں حضرت صاحب سے گزشتہ ملاقاتوں میں ان کی بے مثال سیاسی بصیرت اور اسلام سے متعلق انتہائی غیرت کا تہ دل سے قائل ہو چکا تھا۔ لیکن اس چائے پر ان کی زندگی کا ایک اَور گوشہ میرے سامنے آیا جس سے میں ابھی تک ناواقف تھا۔ اس گوشے کا تعلق لطافتِ طبع اور ذوقِ ادب سے تھا۔ چائے شروع ہوئی تو چند نوجوانوں نے مووی کیمرہ سے حضرت صاحب سمیت ہم سب کی تصاویر لیں۔ اور چند منٹ تک یہ نوجوان اس کمرے میں موجود رہے پھر معلوم نہیں۔ وہ ازخود ہی چلے گئے یا حضرت صاحب نے اشارہ فرما دیا کہ وہ چلے جائیں۔بہرحال اب ہم تینوں ادیب تھے اور حضرت صاحب۔ اَور کوئی نہ تھا۔ باتوں باتوں میں گزشتہ رات کے انعامی مقابلۂ تقاریر اور مشاعرے کا ذکر آ گیا۔ مولانا سالک مرحوم نے حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کی غیرمعمولی انتظامی قابلیت کو بہت سراہا اور کہا کہ اگر اسی قسم کی متانت اور شائستگی قائم رہے تو ایسے ادبی اجتماع اکثر منعقد ہوتے رہنے چاہئیں ان کی افادیت بہت ہے۔ حضرت صاحب نے سالک صاحب مرحوم کی یہ تجویز پسند فرمائی۔ پھر ادبیات پر گفتگو شروع ہو گئی مجھے اس بات سے سخت حیرت ہوئی کہ حضرت صاحب کا ادبی ذوق نہایت منجھا ہوا اور انتہائی دقیقہ رس ہے۔ ادب کی نازک لطافتوں کا ذکر آیا تو معلوم ہوا کہ حضرت صاحب کو اِن پر صرف عبور ہی حاصل نہیں بلکہ یہ خود اُن کی طبیعت کا حصہ ہیں۔ کسی نظام کا سربراہ یا کسی قوم کا پیشوا ہونا جدا بات ہے اور انتہائی لطیف ادبی ذوق کا حامل ہونا قطعی طو رپر دوسری چیز ہے۔ پھر آپ کا اپنا کلام بھی بہت ہی بلند پایہ ہے۔
حضرت صاحب نے خواہش فرمائی کہ سالک صاحب اپنا کلام سنائیں۔ سالک صاحب نے پہلے تو معذرت چاہی۔ پھر امتثالِ امر کے طور پر انہوں نے اپنے نہایت بیش قیمت اور پاکیزہ اشعار سنائے جو مکمل دو غزلوں پر مشتمل تھے۔ سالک صاحب کاکلام حضرت صاحب نے بہ دل پسند فرمایا۔ پھر مجھے ارشاد ہوا میں نے بھی دو غزلیں پیش کیں۔ حضرت صاحب نے ان پر بھی اپنی خاص پسندیدگی کا اظہار فرماتے ہوئے میری حوصلہ افزائی فرمائی۔
بعدہٗ تبسمؔ صاحب کی باری آئی انہوں نے اپنی ایک دو غزل پیش کی جس کا مصرعہ اُولیٰ سماعت فرماتے ہی حضرت صاحب نے پہلو بدلا اور بالخصوص توجہ مبذول فرمائی۔ غزل کا مطلع یہ تھا ؎
اُسے کام کیا ہے سلوک سے کہ جو فیضیاب شہود ہے
جو نگاہ جلوہ شناس ہو تو نفس دلیلِ صعودہے
تبسّم صاحب نے یہ مطلع پڑھا تو حضرت صاحب بہت محظوظ ہوئے اور مکرّر پڑھنے کو فرمایا۔
پھر ہم نے حضرت صاحب سے درخواست کی کہ وہ اپنے کلام سے ہمیں مستفیض فرمائیں اِس پر حضور نے فرمایا۔’’آپ حضرات شاعری کی نیت سے شعر کہتے ہیںاِس لئے آپ شاعر ہیں۔ ہم جو کچھ کہتے ہیں وہ تبلیغ کی خاطر ہوتا ہے ہم اُسے شاعری نہیں سمجھتے‘‘۔
سالک صاحب یہاں بھی مزاح سے نہ چُوکے۔ فوراً بول اٹھے۔’’مَیں اور نازش غیر احمدی ہیں آپ ہمیں تبلیغ فرمائیے‘‘۔
اس پرحضرت صاحب مسکرائے اور ازراہِ کرم اپنے چند بلیغ اشعار فرما دیئے جنہیں سن کر ہم سب بہت لطف اندوز ہوئے۔
میری درخواست پر حضرت صاحب نے اپنی چھوٹی تقطیع کی ایک کتاب ’’کلامِ محمود‘‘ اپنے دستخط ثبت فرما کر مجھے مرحمت فرمائی جو اَب تک میرے پاس محفوظ ہے۔
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد سے میری آخری ملاقات 1960ء میں ہوئی۔ اُس وقت محترم حکیم یوسف حسن صاحب ایڈیٹر نیرنگ خیال بھی میرے ہمراہ تھے۔ ہم محض حضرت صاحب سے ملاقی ہونے ربوہ گئے تھے۔ ربوہ میں داخل ہوتے ہی ہم نے حضرت صاحب کے سیکرٹری کو ٹیلیفون پر اپنی آمد کی اطلاع دی تو چند ہی منٹ میں شیخ روشن دین صاحب تنویر ایڈیٹر ’’الفضل‘‘ ہمارے پاس پہنچ گئے۔ شیخ صاحب انتہائی مخلص آدمی ہیں۔ یہ جمعرات کا دن تھا۔ معلوم ہوا کہ حضرت صاحب کی طبیعت ناساز ہے آج ملاقات نہیں ہو سکے گی اور جمعہ کے دن ویسے ہی ملاقاتیں بند ہیں۔ ہم نے سیکرٹری صاحب سے عرض کیا کہ ہماری آمد کی اطلاع بہرحال حضرت صاحب تک پہنچا دیں۔ انہوں نے ایسا کرنے کا وعدہ کر لیا۔ ہم نمازِ عصر سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ سیکرٹری صاحب نے آ کر فرمایا کہ کل یعنی جمعہ کی صبح ہمیں حضرت صاحب نے چائے پر یاد فرمایا ہے۔ چنانچہ جمعہ کو صبح آٹھ بجے ہم حضرت صاحب کی خدمت میں پہنچا دیئے گئے۔ اس وقت حضرت صاحب علیل الطبع اور بہت کمزور تھے۔ آپ ایک بے بستر کی چارپائی پر استراحت فرما تھے۔ ہم کمرے میں داخل ہوئے تو آپ نے اٹھنے کی کوشش کی۔ میں نے عرض کیا کہ آپ یہ تکلیف نہ فرمائیں اور آرام فرما رہیں۔ اس پر آپ لیٹے رہے۔ ہم قریب ہی ایک صوفے پر بیٹھ گئے۔ مزاج پُرسی کے بعد آپ نے حکیم یوسف حسن صاحب سے فرمایا’’ آپ کا رسالہ نیرنگ خیال مدت سے ہمارے مطالعہ میں ہے آپ اسے زندہ رکھنے اور ترقی دینے کے لئے بڑے عزم و استقلال سے کام لے رہے ہیں جو قابلِ تعریف ہے‘‘۔
حکیم صاحب نے حضور کا بہت بہت شکریہ ادا کیا کہ آپ نیرنگ خیال میں بڑی دلچسپی لیتے ہیں۔ پھر حضور نے حکیم صاحب سے فرمایا’’آپ نے ایک دفعہ قادیان آ کر ہماری بچی کا علاج کیا تھا اس وقت بڑے بڑے ڈاکٹر اور حکیم مرض کی تشخیص نہیں کر سکے تھے۔ ہم نے آپ کو لاہور سے بلوایا تو آپ کے علاج سے بچی تندرست ہو گئی۔ یہ سب خداوند تعالیٰ کا فضل تھا‘‘۔
اب یہ اتنے لمبے عرصہ کا واقعہ تھا کہ اسے خود حکیم یوسف حسن صاحب بھی بھول چکے تھے۔ حضرت صاحب کے ارشاد پر حکیم صاحب نے حافظے پر زور دیا تو انہیں یہ واقعہ بمشکل یاد آیا۔ حکیم صاحب اور میں حضرت صاحب کی غیرمعمولی قوتِ حافظہ پر سخت حیران ہوئے بالخصوص اس لئے کہ اب حضرت صاحب بیمار بھی تھے۔ پھر حضرت صاحب میری طرف دیکھ کر مسکرائے اور حکیم صاحب سے فرمایا
’’نازش صاحب احمدی شیعہ ہیں۔ یہ ہمارے پرانے مخلص دوستوں میں سے ہیں۔ انہوں نے اپنا قلم ہمارے حق میں استعمال کیا ہے اس لئے کہ ہمارے مخالف ہم سے مخالفت محض برائے مخالفت کرتے رہے ہیں اور ہم ہمیشہ حق پر ہوتے رہے ہیں۔ نازش صاحب نے حق کی حمایت میں کوتاہی نہیں کی‘‘۔
حضرت صاحب اب مجھ سے مخاطب ہوئے فرمایا ’’آپ کے کتنے بچے ہیں؟ وہ کیا کیا کرتے ہیں؟ اگر وہ زیر تعلیم ہیں تو ان سب کو ربوہ بھیج دیں ہمارے یہاں ان کی رہائش اور خوراک کا سب انتظام ہو جائے گا۔ وہ شیعہ رہتے ہوئے یہاں اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں گے‘‘۔
میں حضور کی اس انتہائی مخلصانہ پیشکش سے بے حد متاثر ہوا اور بصمیم قلب شکریہ بجا لایا۔
افسوس کہ وہ وجود جو انسانیت کے لئے سراپا احسان و مروّت تھا آج اس دنیا میں نہیں۔ وہ عظیم الشان سپر آج پیوند زمین ہے جس نے مخالفین اسلام کی ہر تلوار کا وار اپنے سینے پر برداشت کیا مگر یہ گوارا نہ کیا کہ اسلام کو گزند پہنچے۔
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کی وفات سے جماعت احمدیہ یقینا بہت غمگین ہے کیونکہ اس کا وہ امام اور سربراہ رخصت ہو گیا جس نے اس جماعت کو بنیان ِمرصوص بنا دیا۔ لیکن اس جماعت سے باہر بھی ہزاروں ایسے افراد موجود ہیں جو اختلاف عقائد کے باوجود آپ کی وفات کو دنیائے اسلام کا ایک عظیم سانحہ سمجھ کر بے اختیار اشکبار ہیں۔ آپ نے دنیا کے بیشمار ممالک میں چار سو کے قریب مساجد تعمیر کرائیں۔ تبلیغ اسلام کیلئے تقریباً یکصد مشن قائم کئے جو عیسائیت کی بڑھتی ہوئی رَو کے سامنے ایک آہنی دیواربن گئے۔ مختصر یہ کہ حضرت صاحب نے اپنی زندگی کا ایک ایک سانس اپنے مولیٰ کی رضا اور اسلام کی سربلندی کیلئے وقف کر رکھا تھا۔ خدا ان سے راضی ہوا وہ خدا سے راضی ہوئے۔ اگر میں ایک شیعہ ہوتے ہوئے انہیں رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھتا ہوں تو یہ ایک حقیقت کا اظہار ہے محض اخلاقی رسم نہیں۔‘‘
حکیم یوسف حسن ایڈیٹر ’’نیرنگ خیال‘‘
کا بیان
ز مکرم نازش رضوی کے ساتھ مکرم حکیم یوسف حسن صاحب ایڈیٹر نیرنگ خیال لاہور بھی شرفِ ملاقات سے مشرف ہوئے تھے۔ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے وہ تحریر فرماتے ہیں کہ
’’اس کے بعد ہم رخصت ہوئے۔ نازش رضوی اور میں میرزاصاحب کے حافظہ اور اخلاق کی تعریف میں رطب اللسان تھے۔مرزا صاحب یقیناً بڑے علم دوست، علم نواز اور صلح کل کی طبیعت کے مالک تھے۔ہر شخص کی قابلیت اور خدمت کے مطابق اس کی حوصلہ افزائی کرتے اور سرپرستی فرماتے تھے۔‘‘
چوہدری محمد اکبر خان بھٹی
ایڈووکیٹ ہائی کورٹ کا خراجِ تحسین
ز ایک اور غیر احمدی دوست چوہدری محمد اکبر خان بھٹی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ لاہور تحریر کرتے ہیں
’’جناب مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کی ذات مرجع خلائق تھی۔وہ جب بھی لاہور آتے ان کی تقریر سننے والوں میں غیر احمدی، ہندو، مسلم سامعین کی تعداد احمدی حضرات کے مقابلہ میں کم نہ ہوتی تھی۔ خاص طور پر ان کا دلکش انداز تقریر دلوں کو مسخر کئے بغیر نہ رہتا تھا۔ مجھے بالخصوص ان کی ایسی تقریروں کا سماں یاد ہے جو احمدیہ ہوسٹل ڈیوس روڈ کے وسیع صحن میں شامیانے تلے ہوتی تھیں۔ وجیہہ مقرر مسلمان شرفاء کے مقبول لباس میں سفید پگڑی ،لمبا کوٹ اور شلوار میں ملبوس جب لب کشائی کرتا تو ایک عجیب شان بے نیازی سے کھڑا ہو جاتا۔ بایاں ہاتھ کمر کے پیچھے رکھ لیتا اور سوائے کبھی کبھی پگڑی کے شملے کو چھو لینے کے اس سے کوئی ایسی حرکت دیکھنے میں نہ آتی جو عام طور پر بولنے والوں سے اپنی بات پر زور دینے کے سرزد ہوتی رہی۔ وہ آواز کے نمایاں اتار چڑھاؤ کے بغیر روانی سے بولتا جاتا۔ اہم مسائل پر یوں گفتگو کرتا جیسے وہ انہیں زندگی کے عام مسائل (PROBLEMS) سمجھتا ہو۔ ایک مسئلے کو اٹھا کر دوسرے مسئلے میں پیوست نہ کرتا۔ بلکہ ایک بات پر سیر حاصل تبصرہ کرنے کے بعد پھر دوسری بات کرتا نہ آنکھیں مٹکاتا،نہ کولہے ہلاتا،نہ ہاتھ اور بازؤں سے بے پناہ فلک شگاف اشارے کرتا بس یہ کیفیت ہوتی جیسے کوئی اسے پیغام دے رہا ہو،اور وہ یہی پیغام سامعین تک بے کم وکاست پہنچا رہا ہو۔وہ مخالفین پر رکیک حملے نہ کرتا،نہ شعر خوانی کرتا،نہ چھیڑ خانی کرتا ،تین تین چار چار گھنٹے اس ربط اور ضبط سے بولتاجیسے کوئی کتاب پڑھ کر سنا رہا ہو۔ فقرے مکمل،دلائل معقول، احساس ذمہ داری حد کو پہنچا ہوا،تجاویز تعمیری،نکتہ چینی جائز،ہر تقریر میں ایک پیغام ہوتااور ہر پیغام پر عمل پیرا ہونے کے لیے واضح ہدایات سن کر مزا ہی آجاتا۔ بے اختیار دل میں یہ کیفیت پیدا ہوتی الحمدللہ ایک معقول اور فاضل آدمی کی باتیں سننے کاموقع ملا۔ مجھے اس کے مخالف مقررین کی مقررانہ حرکات سکنات کبھی بھی اتنی زیادہ مضحکہ خیز معلوم نہ ہوئیں جتنی کہ اس کی تقریر کو سننے کے فوراً بعد۔ ایک دفعہ میں دلّی دروازہ کے باہر ایک مسجد میں جناب مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کی تقریر سننے گیا۔نماز تو ان کے پیچھے نہ پڑھی کیونکہ سنا تھا کہ وہ عامۃالمسلمین کے ساتھ مل کر نماز نہیں پڑھتے۔ مگر نماز کے بعد ان کی تقریر نہایت غور سے سنی۔ عالمی مسائل سے لے کر ملکی مسائل تک ایسے انداز میں زیر بحث آئے کہ بایدشاید۔ اصل میں ان کی شخصیت ایسی جاذب تھی کہ آدمی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتاتھا۔ میںسمجھتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کے مخصوص حلقہ کے علاوہ بھی ان کی تجاویز عام مسلمانوں کے لیے مفید ہو سکتی تھیں ۔ اور اگر ان کو محض تعصب کی بناء پر قیادت کا وسیع میدان نہیں ملاتو اس سے ملّت اسلامیہ اور ملک دونوں کو نقصان ہی ہوا ہے۔اس سلسلہ میں اس امر کا تذکرہ خاص طور پر ایک تلخی اپنے اندر رکھتا ہے کہ کشمیر کمیٹی کی قیادت ان سے چھین لی گئی اس کے بعد مسئلہ کشمیر کا جو حشر ہوا وہ محتاج بیان نہیں۔
اس ضمن میں ایک واقعہ کا ذکر کرنا بھی شاید بے محل نہ ہو گا۔ہفتہ وار ’’پارس‘‘ کے ایڈیٹر لالہ کرم چند ایک دفعہ اخبار نویسوں کے وفد کے ساتھ قادیان کے سالانہ اجلاس میں شامل ہوئے وہاں سے واپس آئے تو یکے بعد دیگرے کئی مضامین میں مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کی قیادت، فراست اور شخصیت کاذکر ایسے پیرائے میں کیا کہ مخالفوں میں کھلبلی مچ گئی۔ مجھے خود کہنے لگے ہم تو ظفراللہ کو بڑا آدمی سمجھتے تھے۔ (سر ظفراللہ ان دنوں وائسرائے کے ایگزیکٹو کونسل کے ممبر تھے)مگر مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کے سامنے اس کی حیثیت طفل مکتب کی ہے۔ وہ ہر معاملے میں ان سے بہتر رائے رکھتا ہے اور بہترین دلائل پیش کرتا ہے ۔اس میں بے پناہ تنظیمی قابلیت ہے۔ ایسا آدمی بآسانی کسی ریاست کو بام عروج تک لے جا سکتا ہے۔لالہ کرم چند پارس کے یہ مضامین پارس میں شائع ہوئے تو ایک آریہ سماجی شاعر نے جل کر اپنے اخبار میں لکھا۔
تیرے گیت گائے ہوئے آ رہے ہیں
عجیب شے ہے مرزا تیری مہمانی
ظفر اللہ ہے قادیانی جنم کا
کرم چند دو روز کا قادیانی
لالہ کرم چند نے سن کر کہا۔
شنیدہ کے بود مانند دیدہ
تقسیم ملک کے بعد مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب نے لاء کالج لاہور کے مینارڈ ہال میں ملکی ترقی کے امکانات پر چند تقریریں کی تھیں۔ ان تقریروں میں انہوں نے ایک فاضل یونیورسٹی لیکچرار کی طرح نقشہ جات ،بلیک بورڈ اور گراف کی امداد سے بعض نکات کی وضاحت کی تھی۔مجھے ایک نکتہ یاد ہے اور وہ یہ کہ افسوس ہے کہ تقسیم ملک سے پہلے ان جزائر کی طرف توجہ نہ دی گئی جو ساحل ہند کے ساتھ ساتھ واقع ہیں ۔لکا دیپ اور سرندیپ بالا دیپ وغیرہ ان ساحلی جزیروں کی آبادی اکثر و بیشتر مسلمانوں پر منحصر ہے اور ان کی اہمیت دفاعی نقطہ نگاہ سے بہت زیادہ ہے۔ ارشادات سن کر سامعین میں عام تأثر یہ پایا جاتا تھا کہ کاش تقسیم کی کارروائی کے وقت خلیفہ صاحب کا اشتراک عمل حاصل کر لیا جاتا۔
بے جا تعصب اور خود فریبی نے قومی سطح پر مرزا بشیرالدین محمود احمد کی خداداد صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع ہاتھ سے کھو دیا۔اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے یہ حقیقت مجھ پر طالبعلمی کے زمانہ میں ہی منکشف ہو گئی تھی کہ آدمی کودشمنوں کے پروپیگنڈے سے اندھا دھند متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ میں مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب سے متعلق جن باتوں کو ان کے کارنامے سمجھنے پر علیٰ وجہ البصیرت مجبور ہوں وہ مختصراً یہ ہیں۔
اول ہائی کورٹ میں مخالف احمدیت کے تحقیقات کے سلسلے میں ان کا کردار اور فاضل جج کے سوالات کے جواب میں ان کی توضیحات ، لوگ حیران تھے کہ وہ ایسے ماحول کی مشکلات سے کیسے عہدہ برآ ہوں گے مگر انہوں نے دیگر مسائل کے علاوہ وحی کی حقیقت جیسے مافوق الفطرت مسائل پر ایسی توضیحات پیش کیں کہ سننے والے انگشت بدنداں رہ گئے۔
ایک جج نے نجی صحبت میں اعتراف کیا کہ انہیں اپنی ساری فضیلت کے باوجود ان مافوق الفطرت مسائل کے متعلق رتی بھر واقفیت نہیں تھی۔ مرزا محمود احمد کی توضیحات کو سن کر ان کے چودہ طبق روشن ہو گئے اور پہلی بار بعض اسلامی نظریات کا صحیح صحیح علم ہوا۔
ان کا دوسرا کارنامہ یہ ہے کہ وہ انگلستان کے سفر پر اپنی بیگمات کو ساتھ لے کر گئے اورجب تعدد ازدواج کے اسلامی نظریہ کے مخالف عیسائیوں نے بیویوں کے ساتھ انصاف کے امکانات کامسئلہ اٹھایاتو اس شیر نے مردانہ وار جواب دیا کہ اخبار نویس خواتین فرداًفرداً میری بیگمات سے ہی پوچھ کر دیکھ لیں ۔
میں نے اپنی شعوری زندگی میں بڑے بڑے مسلمان لیڈروں اور قائدین فکر کو بنیادی اسلامی نظریات کے متعلق معذرت کے انداز میں باتیں کرتے دیکھا ہے مگر خدا کی قدرت دیکھیے کہ مہذب اور متمدن دنیا کے مرکز لندن میں بیٹھ کر اپنے قول و فعل سے اسلامی نظریات کی مردانہ وار حمایت مرزا بشیرالدین محمود احمد ہی کے حصے میں آئی۔
ان کا تیسرا کارنامہ جسے ان کا آخری پیغام سمجھا جانا چاہیے یہ ہے کہ انہوں نے اہل مذہب کو عام اس سے کہ وہ عیسائی ہوں،یہودی ہوں، ہندو ہوں یا سکھ اس خطرے سے آگاہ کیا جو خدا پرستوں کو خدا کے نام سے بیزار تحریک کے ہاتھوں درپیش ہے۔ انہوں نے پکار کر کہا اے خدا پرستو! اے خدا کو ماننے والو! خدائی مذہب کے سر پر جو مہیب خطرہ منڈلا رہا ہے وہ ایک ایسی تحریک کا بنیادی اصول ہے جو اپنے خطرناک ہتھیاروں سے مسلح ہو کر خدا پر ایمان کی بنیاد ہی کو ڈھا دینے پر آمادہ ہے۔ اس تحریک نے تمہارے اندر اس حد تک نفوذ کر رکھا ہے کہ اب مسلمانوں کے بیٹے بیٹیاں مسلمان گھروں میں اور مسلمان کے دانشور مسلمانوں کی مجلسوں میں خدا ہی کے وجود کا انکار کرتے ہیں اور جب خدا ہی کے وجود کا انکا ر ہو گیا تو نبوت شریعت کے نقوش کس طرح دلوں میں قائم رہ سکتے ہیں۔ آؤ سب اہل مذہب لامذہبیت کے اس طوفان کا مقابلہ مل کر کریں ۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر خدا پر یقین رکھنے والے مرزابشیرالدین محمود احمد کی اس آواز پر ان کی زندگی میں کان دھرتے توخدا جانے اس شخص کی قائدانہ صلاحیت اور قوت ِتنظیم اس خطرے کے سیلاب کے آگے بند باندھنے کی کیسی کیسی مؤثرتجاویز کو جامۂ عمل پہناتی۔
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
المختصر ان کی زندگی ،ان کی وضع قطع ،ان کے لباس، ان کی تحریر و تقریر میں بے شمار خصوصیات ایسی تھیں جن پر اسلامی تحریک اور اسلامی معاشرہ بجا طور پر فخر کر سکتا ہے۔‘‘
٭…٭…٭