حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام اور آپ کے آریہ مخالفین
(منظور احمد۔ایم ایس سی ، پی ایچ ڈی۔ کراچی)
قسط نمبر 3
پنڈت لیکھرام صاحب
مرزا صاحب کے 20؍فروری 1886ء کی پسر موعود کی پیشگوئی کے جواب میں پنڈت صاحب نے جو 18؍مارچ 1886ء کو پیشگوئیاں کی تھیں اُن کا کچھ تذکرہ پیچھے آچکا ہے۔ پنڈت صاحب نے اِس اِشتہار میں مزید لکھا کہ
’’ہمارا شعلہ طور بھی تیار ہوتا ہے۔ ہم بھی اپنا الہام سنائیںگے اور غیب کی باتیں بتائیں گے۔ ‘‘
(پنڈت لیکھرام صاحب۔ کلّیات آریہ مسافر صفحہ 492-495)
’’ میں نے عرض کی کہ بارِ خدایا ایسے مکار(مراد مرزا غلا م احمد صاحب -ناقل) کو سزا کیوں نہیں دیتا جو بندگان ایزدی کو گمراہ کرتا ہے۔ فرمایا … تین سال میں سزا دی جائے گی … میں نے عرض کی کہ خدا وندا اِس نے اشتہار جاری کیا ہے کہ مجھ کو الہامات ہوتے ہیں۔ فرمایا ۔ محض جھوٹ ہے۔ ہم نے کوئی الہام یا پیشگوئی اِس کو نہیں بتلائی۔‘‘ (کلّیات آریہ مسافر صفحہ 495-496)
پنڈت صاحب نے اسی تسلسل میں یکے بعد دیگرے مرزا صاحب کے بارے میں کئی اور پیشگوئیاں کیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔ مثلاً
’’آپ کی ذریت بہت جلد منقطع ہو جائے گی۔ غائت درجہ تین سال تک شہرت رہے گی … خدا کہتا ہے چند روز تک قادیان میں نہایت ذلت اور خواری کے ساتھ کچھ تذکرہ رہے گا پھر معدوم محض ہو جائے گا۔‘‘
(کلّیات آریہ مسافر صفحہ 497)
مرزا صاحب نے 20؍فروری 1886ء کے الہام کی بنا پر جس موعود بیٹے کی پیشگوئی کی تھی اُس کے متعلق لیکھرام صاحب نے لکھا کہ
’’ابد تک آپ کے کوئی لڑکا پیدا نہ ہوگا جیسا کہ عرصہ ہوا بذریعہ اِشتہار مفصل شائع ہو چکا ہے۔‘‘
(کلّیات آریہ مسافر صفحہ 499-501)
’’پہلے یہ بھی اطمینان ہو گیا کہ 9 برس تک آپ اور آپ کی بیوی زندہ رہے گی؟ ہمارا الہام تو تین سال کے اندر اندر آپ سب کا خاتمہ بتلاتا ہے۔‘‘
(کلّیات آریہ مسافر صفحہ 499-501)
’’ ہمارا الہام یہ کہتا ہے کہ لڑکا کیا تین سال کے اندر اندر آپ کا خاتمہ ہو جائے گا اور آپ کی ذریت سے کوئی باقی نہ رہے گا۔‘‘ (ایضاً)
حضرت مرزا صاحب کی طرف سے پنڈت لیکھرام کی قہر الٰہی سے چھ سال کے اندر اندر موت کی خبر سے گھبرانے کی بجائے پنڈت صاحب میں پہلے سے بھی زیادہ بیباکی پیدا ہو گئی تھی۔ بجائے اس کے کہ وہ اپنی زبان و قلم کو لگام دیتا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف دشنام طرازی سے احترازکرتا وہ آریہ اعتقادات پر پختہ یقین کے ساتھ اسلام کے خلاف مرزا صاحب کے مقابلے کے لئے تیار ہو گیااور بڑی دھوم دھام اور تکبّر کے ساتھ پہلے سے بھی زیادہ تلخ کلامی شروع کر دی۔ مرزا صاحب کی طرف سے 1886ء والی پسر موعود کی پیشگوئی اور 1893ء والی چھ سال کے اندر عذاب الٰہی سے پنڈت لیکھرام کی موت کی پیشگوئی اور اس کے جواب میں پنڈت لیکھرام کی طرف سے مرزا صاحب کے ہاں ابد تک بیٹا نہ ہونے اور مرزا صاحب کی ذریت کے تین سال کے اندر اندر خاتمے کی پیشگوئیاں 1893ء سے 1897ء تک ہندوستان کے طول و عرض میں مختلف اخبارات، رسائل اور اشتہاروں کے ذریعے مسلسل مشتہر ہوتی رہیں اور شہرت پاتی رہیں۔ اسلام اور آریہ سماج کے درمیان ایک طرح کی جنگ کا طبل بج چکا تھا اور لوگ آریہ اور مسلمان سبھی شدید بے چینی سے نتائج کا انتظار کر رہے تھے۔
9؍جنوری 1897ء کو پنڈت لیکھرام نے لکھا کہ
’’اُس نے جبرائیل بھیج کرقادیانی کے کان میں ہماری موت کا الہام سنایا‘‘ (کلّیات آریہ مسافر صفحہ 433)
وقت گزرتا جا رہا تھا۔ ایک لحاظ سے پنڈت صاحب کی 18؍مارچ 1886ء کی مرزا صاحب کے خلاف پسر موعود کے نہ ہونے اور مرزا صاحب کی ذریت کے تین سال میں خاتمے کی پیشگوئیاں تو جھوٹی ثابت ہو ہی چکی تھیں اب درحقیقت ہر ایک کو مرزا صاحب کی پیشگوئی کے پورا ہونے کا انتظار تھا۔ پنڈت لیکھرام نے ہر طرح سے اپنی حفاظت کے انتظام کر رکھے تھے اور خاص طور پر دو تنخواہ دار سپاہی اپنے مکان میں تعینات کر لئے تھے۔ پنجاب پولیس کو خفیہ ہدایات کے ذریعے خبردار کر دیا گیا تھا کہ وہ پنڈت لیکھرام کی حفاظت کا خاص خیال رکھے کیونکہ بقول مسٹر کرسٹی (پنجاب پولیس)
’’گورنمنٹ کو مدّت سے معلوم تھا کہ پنڈت لیکھرام پر مخالفوں کی طرف سے ہر طرح کے حملے ہوں گے اور اس لئے پولیس کو خفیہ ہدایات رہتی تھیں کہ ہر جگہ اُن کی حفاظت کو مدِّ نظر رکھیں۔‘‘
(کلّیات آریہ مسافر صفحہ الف کالم 2)
خدا کے قہری نشان کا ظہور
حالات بتاتے ہیں کہ 1897ء کے آغاز ہی سے جب کہ حضرت مرزا صاحب کی پیشگوئی کو چار سال کے قریب عرصہ گزر چکا تھا حضرت مرزا صاحب اور پنڈت صاحب کے درمیان معرکے کے فیصلہ کن لمحات آن پہنچے تھے جن کو قریب تر لانے کے اسباب ہی پنڈت صاحب کے اپنے ہاتھوں پیدا ہو رہے تھے۔ اُن کے قرآن ، اسلام اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اِستہزاء میں تلخی بڑھ رہی تھی اور وہ حضرت مرزا صاحب کی پیشگوئیوں کا مسلسل تمسخر اُڑا رہے تھے۔ آخر خدا کے قہری نشان کے ظہور کا وقت آپہنچا جس کی مختصر روداد یوں ہے۔
اگرچہ عام طور پر ہندو مذہب کے مطابق ہندو پیدائشی ہوتا ہے اور کسی غیر مذہب والا ہندو مذہب میں داخل نہیں ہوسکتا مگر پنڈت لیکھرام صاحب وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے ہندوستان میں شُدھی کی داغ بیل ڈالی۔ پنڈت صاحب کا نکتہ نگاہ یہ تھا کہ ماضی میں ہندوستا ن کے مسلمان بادشاہوں نے زبردستی ہندوؤں کو مسلمان بنا لیا تھا جن کو پھر سے اپنے آبائی دھرم ہندو مذہب میں واپسی کے لئے شدھی کا آغاز کرنا چاہیے۔ اس کے نتیجے میں بقول پنڈت صاحب ایک مسلمان آکر ان سے ملتجی ہوا کہ میرے باپ دادا ہندو تھے جو مسلمانوں کے زیر اثر آکر مسلمان ہو گئے تھے اس نے پھر سے ہندو دھرم میں آنے کے لئے شدھی کی درخواست کی۔ پنڈت لیکھرام صاحب نے اس کے لئے 7؍مارچ 1897ء کی تاریخ مقرر کی۔ ہندوؤں کی طرف سے اس کے لئے زور شور سے جلسے ، جلوس اور خوشیاں منانے کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ ان دنوں پنڈت صاحب لاہور کے آریہ محلہ وچّھو والی کے ایک ایسے مکان میں رہائش رکھتے تھے جو تین منزلہ تھا اور گلی کا آخری مکان تھا۔ گلی آگے سے بند تھی اور مکان مکمل طور پر محفوظ تھا۔ انہی دنوں ماہ رمضان المبارک کے خاتمے پر 5؍مارچ 1897ء بروز جمعۃ المبارک مسلمانوں کی عید الفطر کا دن تھا۔ بیان کیا گیا ہے کہ پنڈت لیکھرام صاحب 6؍مارچ 1897ء بروز ہفتہ شام کے وقت اپنے مکان کی بالائی منزل پر ننگے بدن بیٹھے، پنڈت دیانند بانی آریہ سماج کی سوانح عمری لکھ رہے تھے اور وہ شدھی کا خواہاں شخص بھی کمبل اوڑھے پاس ہی بیٹھا تھا۔ اس دوران تصنیف کے کام سے تھک کر پنڈت لیکھرام صاحب کھڑے ہو گئے اور کھڑے ہوتے ہی انگڑائی لی جس پر اس شدھی ہونے والے شخص نے پنڈت صاحب کی بڑھی ہوئی توند پر خنجر کا بھر پور وار کیا کہ انتڑیاں پیٹ سے باہر نکل آئیں۔ پنڈت صاحب کی چیخ کی آواز کو سن کر پنڈت صاحب کی بیوی اور والدہ اس کمرے میں آگئیں۔ ان کے شور سے گلی اور محلے کے لوگ بھی جمع ہو گئے مگر ساری رکاوٹوں اور حفاظتوں کے باوجود کسی کو بھی پتہ نہ چل سکا کہ حملہ آور کدھر کو، کس طرح اور کہاں غائب ہو گیا۔ پنڈت جی کو زخمی حالت میں لاہور میو ہسپتال پہنچایا گیا جہاں انگریز ڈاکٹر پَیری کی پوری کوشش کے باوجود پنڈت صاحب آٹھ گھنٹے شدید کرب کے بعدہفتے اور اتوار کی درمیانی رات ایک دو بجے اس دار فانی سے چل بسے۔ اس واقعہ کے پس منظر اور اس کی تفاصیل کے بارے مشہور آریہ سماجی لیڈر پنڈت دیوپرکاش نے اس طرح لکھا کہ
’’13؍فروری یا 14؍فروری 1897ء کو ایک شخص لالہ ہنراج جی کے پاس گیا۔ پھر دوسرے روز دیانند کالج ہال میں دکھائی دیا۔ وہ پنڈت لیکھرام جی کو تلاش کرتا تھا۔ پھر پنڈت جی کو ملا تو اس نے عرض ظاہر کی کہ وہ پہلے ہندو تھا عرصہ دو سال سے مسلمان ہو گیا تھا۔ اب پھر اپنے اصل دھرم پر واپس آنا چاہتا ہے … وہ پنڈت جی کے ساتھ سایہ کی طرح رہنے لگا۔ کھانا بھی عام طور پر پنڈت جی کے گھر کھایا کرتا تھا یہاں تک کہ پنڈت جی یکم مارچ کو ملتان تشریف لے گئے۔ 5؍مارچ کو عید کا دن تھا قاتل نے اس دن پنڈت جی کے گھر، ریلوے سٹیشن، آریہ پرتی ندھی سبھا کے دفتر میں 18 یا 19 چکر لگائے مگر پنڈت جی 5؍مارچ کو ملتان سے نہ آسکے۔ اس سے اس ظالم کا ارادہ پنڈت جی کو عید کے دن شہید کرنا تھا۔ 6؍مارچ کو صبح پنڈت جی کے مکان پر پہنچا اور بعد ازاں پرتی ندھی کے دفتر سے ہوتا ہوا ریلوے سٹیشن گیا۔ اس روز پنڈت جی ملتان سے تشریف لے آئے۔ قاتل خلاف معمول کمبل اوڑھے ہوئے تھا اور بار بار تھوکتا تھا اور کانپ رہا تھا۔ یہ حالت دیکھ پنڈت جی نے سوال کیا کہ کیا بخار ہے؟ اس نے کہا۔ ہاں،ساتھ کچھ درد بھی ہے۔ تب پنڈت جی اُسے ڈاکٹر بشن داس کے پاس لے گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا اسے بخار وغیرہ تو کچھ نہیں لیکن خون میں کچھ جوش ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے پلستر لگانے کو کہا مگر اس مکّار نے انکار کر دیا اور کہا کوئی پینے کی دوا دیجئے۔ تب پنڈت جی نے ڈاکٹر صاحب کی اجازت سے اسے شربت پلایا۔ اس کے بعد پنڈت جی نے کچھ کپڑا خریدااور گھر کو چلے آئے اور وہ ظالم بھی ساتھ تھا … پنڈت جی چار پائی پر جا بیٹھے اور رشی دیانند کے جیون چرتر کے کاغذات مکمل اور مرتب کرنے میں مشغول ہو گئے اور سفّاک بھی بائیں طرف بیٹھ گیا۔ عین اس وقت جب پنڈت جی نے تھکاوٹ کے سبب اُٹھ کر سات بجے شام کے وقت انگڑائی لی اس وقت اس ظالم نے جو صبح سے موقع کی گھات میں تھا فوراً اُٹھ کر پنڈت جی کے پہلو میں چھرا گھونپ دیا جس سے انتڑیاں باہر نکل آئیں۔ پنڈت جی نے ایک ہاتھ سے انتڑیوں کو تھاما ایک سے چھری چھین لی۔ تب پنڈت جی کی ماتا اور دھرم پتنی اس کی طرف دوڑیں۔ اس وقت اس بے رحم ظالم نے پنڈت جی کی بوڑھی ماتا کو بیلنا اس زور سے مارا کہ وہ اچانک چوٹ لگنے کے سبب بے ہوش ہو کر گر گئیں اور وہ بے ایمان قاتل فرار ہو گیا۔ کچھ دیر کے بعد لوگ جمع ہوگئے اور پنڈت جی کو ہسپتال لے گئے اور آخر ایک بجے رات … آپ کی پاک روح قفس عنصری سے عالم جاودانی کی طرف پرواز کر گئی۔‘‘
(پنڈت دیوپرکاش۔ دافع الاوہام صفحہ 81)
پنڈت لیکھرام کے اس قتل کے واقعات آریہ سماجی مہاشہ سنت رام آشفتہ نے اپنی تصنیف پنڈت لیکھرام کی سوانح عمری میں یوں لکھے ہیں۔ متعلقہ حصے کے ہندی مندرجات کا اردوترجمہ درج ذیل ہے۔
’’14؍ فروری 1897ء کے دن جبکہ دیانند کالج کے ہال میں ایک شخص آپ کی تلاش کرتا ہوا دیکھا گیا اور آپ سے مل کر کہا کہ عرصہ دو سال سے مسلمان ہو گیا ہوں شُدھ کرلیں تو فوراً وعدہ کیا کہ ضرور شُدھ کریں گے حالانکہ صورت شکل خوفناک معلوم ہوتی تھی۔ اُس کی آواز مہیب لہجے لئے ہوئی تھی … آریہ بھائیوں نے بہتیرا مسافر سے کہا کہ یہ خوفناک شخص ہے اس کا ہر گز اعتبار نہ کریں۔ مگر آپ نے یہ کہہ کر کہ بھائی یہ دھرم گرہن کرنا چاہتا ہے سب کو ٹال دیا۔ سخت حیرانی پیدا ہوتی ہے کہ جب تمام لوگ اس بدمعاش کو خوفناک اور بھیانک بیان کرتے ہیں اور اس کو ریاکار اور دھوکاباز سمجھتے ہیں تو لیکھرام جیسا تجربہ کار اور جہاندیدہ شخص جس نے پولیس میں سالوں تک ملازمت کی تھی … کس طرح دھوکا کھا سکتا ہے… 6؍مارچ کا نامبارک دن ہے، بہادر مسافر ایک چارپائی پر بیٹھے ہوئے مہرشی دیانند کے جیون چرتر کے کاغذات مکمل کر رہے ہیں، سامنے وہی سفّاک بیٹھا ہے …آج اس کی حالت عجیب و غریب ہے، بدن کانپ رہا ہے، آنکھوں میں خون اُترا ہوا ہے، چہرہ دم بدم بدلتا جارہا ہے، اُتار چڑھاؤ جاری ہے، کبھی وہ باہر کی طرف دیکھتا ہے، کبھی کمبل کے اندر ہاتھ ڈالتا ہے۔‘‘
(مہاشہ سنت رام آشفتہ ۔ پنڈت لیکھرام کی سوانح عمری)
اس کے بعد کے واقعات کے مہاشہ سنت رام آشفتہ اور پنڈت دیوپرکاش کے بیانات ایک جیسے ہیں۔ وفات کے بعد پنڈت لیکھرام کی لاش چتا میں جلائی گئی اور راکھ (گوسالہ سامری کی طرح) دریائے راوی میں بہادی گئی۔
آریوں کا ردعمل
حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اور پنڈت لیکھرام پشاوری کے درمیان روحانی مقابلہ دراصل اسلام اور آریہ مذہب کے درمیان الٰہی نصرت کا مقابلہ تھا جسے برّاعظم ہندوستان کے سب مسلمان ، ہندو اور دیگر مذاہب کے لوگ بڑی دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔ دونوں نے اپنے اپنے مذاہب کی صداقت کے اظہار کے لئے ایک دوسرے کے مقابلے میں کئی پیشگوئیاں کیں اور دونوں نے ایک دوسرے کو جھوٹا بیان کیا اور خدا سے جھوٹے کی تباہی کی دعائیں کیں۔ لیکن تاریخ بتلاتی ہے کہ پنڈت لیکھرام کی پیشگوئیاں جن کا مختصر تذکرہ پچھلے صفحات پر کیا گیا ہے سب کی سب غلط نکلیں اور حضرت مرزا صاحب کی پنڈت صاحب کے بارے میں پیشگوئیاں بالکل درست ثابت ہوئیں اور وہ بالآخر حضرت مرزا صاحب کی اعلان شدہ پیشگوئی کے مطابق ہلاک ہو گیا اور وہ جس نے مرزا صاحب کے بارے میں الہام الٰہی کی بنیاد پر کہا تھا کہ ان کی ذریّت زیادہ سے زیادہ تین سال تک منقطع ہو جائے گی خود بے اولاد مر گیا اور اس کی اپنی ذریّت منقطع ہوگئی۔ جب کہ آج 121 سال گزرنے کے باوجود حضرت مرزا صاحب کی ذریّت نہ صرف منقطع نہیں ہوئی بلکہ ساری دنیا میں پھل پھول رہی ہے اور بڑھتی ہی جارہی ہے بعینہٖ جس طرح اﷲ تعالیٰ نے حضرت مرزا صاحب کو الہاماً کہا تھاکہ ’تیری ذریّت منقطع نہیں ہو گی بلکہ آخری دنوں تک سرسبز رہے گی‘۔
ہندوؤں کے لئے یہ آسان نہ تھا کہ خدا تعالیٰ کے اس قہری نشان کو تسلیم کر لیتے اور ہدایت پاتے۔ ہمیشہ کی طرح منکرین کی راہ کو انہوں نے بھی اختیار کیا اور پنڈت لیکھرام کی ہلاکت کا حضرت مرزا صاحب کو ذمہ دار ٹھہرایا اور خطرناک نتائج کی دھمکیاں دینی شروع کر دیں۔ پنڈت صاحب کی ہلاکت کے جلد بعد اخبار آفتاب ہند نے لکھا کہ
’’مرزا قادیانی خبردار‘‘۔ مرزا قادیانی بھی امروز و فرد کا مہمان ہے۔ بکرے کی ماں کب تک خیر منا سکتی ہے۔ آج کل اہل ہنود کے خیالات مرزا قادیانی کی نسبت بہت بِگڑے ہوئے ہیں … پس مرزا قادیانی کو خبر دار رہنا چاہیے کہ وہ بھی بکر عید کی قربانی نہ ہو جاوے۔‘‘
(اخبار آفتاب ہند۔ 18 مارچ 1897ء۔صفحہ5 کالم1)
اسی طرح لاہور کے پیسہ اخبار نے لیکھرام کے قتل کی خبر کے ساتھ لکھا کہ
’’قتل کی نسبت … بعض آریوں کو مرزا صاحب قادیانی کی سازش کا شُبہ ہے۔‘‘
(اخبار پیسہ اخبار لاہور۔ 13 مارچ 1897ء۔صفحہ10 کالم1)
حضرت مرزا غلام احمد صاحب کا ردّ عمل
حضرت مرزا غلام احمد صاحب نے پنڈت لیکھرام کے قتل اور آریوں کی دھمکیوں اور شُبہات پر اپنے ردِّ عمل کا تین طرح سے اظہار کیا۔
اوّل اظہار افسوس و تشکر
آپ نے فرمایا’’ اگرچہ انسانی ہمدری کی رُو سے ہمیں افسوس ہے کہ اُس کی موت ایک سخت مصیبت اور آفت اور ناگہانی حادثہ کے طور پر عین جوانی کے عالم میں ہوئی لیکن دوسرے پہلو کی رو سے ہم خدا تعالیٰ کا شُکر کرتے ہیں جو اس کے منہ کی باتیں آج پوری ہو گئیں۔ ہمیں قسم ہے اس خدا کی جو ہمارے دل کو جانتا ہے کہ اگر وہ یا کوئی اور کسی خطرئہ موت میں مبتلا ہوتا اور ہماری ہمدردی سے وہ بچ سکتا تو ہم کبھی فرق نہ کرتے … یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک نشان ہے کیونکہ اس نے چاہا کہ اس کے بندہ کی تحقیر کرنے والے متنبہ ہو جائیں۔‘‘
(مرزا غلام احمد قادیانی 1897ء۔ اشتہار9؍مارچ 1897ء۔ مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحات 336-337)
’’ہمارے دل کی اس وقت عجیب حالت ہے۔ درد بھی ہے اور خوشی بھی کہ اگر لیکھرام رجوع کرتا، زیادہ نہیں تو اتنا ہی کرتا کہ وہ بد زبانیوں سے باز آجاتاتو مجھے اﷲ تعالیٰ کی قسم ہے کہ مَیں اس کے لئے دعا کرتا اور مَیں اُمید رکھتا ہوں کہ اگر وہ ٹکڑے ٹکڑے بھی کیا جاتا تب بھی زندہ ہو جاتا۔ وہ خدا جس کو مَیں مانتا ہوں اس سے کوئی بات اَنہونی نہیں … اور خوشی اس بات کی ہے کہ پیشگوئی نہایت صفائی سے پوری ہوئی۔‘‘
(اشتہار 9؍مارچ 1897ء۔ مجموعہ اشتہارات جلد2 صفحہ352)
دوئم الزام تراشوں کو نصیحت
’’ہم کہتے ہیں کہ بیشک یہ گورنمنٹ کا فرض ہے کہ ہندو مسلمانوں کو دونوں آنکھوں کی طرح برابر دیکھے۔ کسی کی رعایت نہ کرے … جب ثابت ہو گا کہ لیکھرام کا فلاں قاتل ہے اور وہ گرفتار ہو گا تو ایسا ہی وہ بھی پھانسی پائے گا۔‘‘ (اشتہار 15؍مارچ 1897ء)
’’یہ بدگمانی کہ ان کے کسی مرید نے مار دیا ہو گا … یہ شیطانی خیال ہے … ہم بآواز بلند کہتے ہیں کہ ہماری جماعت نہایت نیک چلن اور مہذّب اور پرہیز گار لوگ ہیں۔ کہاں ہے کوئی ایسا پلید اور لعنتی ہمارا مرید جس کا یہ دعویٰ ہو کہ ہم نے اس کو لیکھرام کے قتل کے لئے مامور کیا تھا۔ ہم ایسے مُرشد کو اور ساتھ ہی ایسے مرید کو کُتّوں سے بدتر اور نہایت ناپاک زندگی والا خیال کرتے ہیں کہ جو اپنے گھر سے پیشگوئیاں بنا کر پھر اپنے ہاتھ سے، اپنے مکر سے، اپنے فریب سے، اُن کے پورا ہونے کے لئے کوشش کرے اور کراوے‘‘۔
(اشتہار 15؍مارچ 1897ء)
’’کس قدر حماقت ہے کہ ہمارے مخالف دِلوں میں خیال کرتے ہیں کہ کسی مرید کو بھیج کر لیکھرام کو قتل کرادیا ہو گا۔ مجھے اس بے وقوفی کے تصور سے ہنسی آتی ہے کہ ایسی بےہودہ باتوں کو اُن کے دِل کیونکر قبول کر لیتے ہیں۔ جس مرید کو پیشگوئی کی تصدیق کے لئے قتل کا حکم کیا جائے کیا ایسا شخص پھر مرید رہ سکتا ہے؟ کیا فی الفور اُس کے دل میں نہیں گذرے گا کہ یہ شخص جھوٹی پیشگوئیاں بناتا ہے اور پھر اُن کو سچی پیشگوئیاں ٹھہرانے کے لئے ایسے منصوبے استعمال کرتا ہے۔ ‘‘
(کتاب البریہ۔ روحانی خزائن جلد 13 صفحات 39)
سوئم اپنی بریت کا فیصلہ کُن اظہار
آریہ صاحبان کی طرف سے مسلسل حضرت مرزا صاحب پر پنڈت لیکھرام کے قتل کا الزام لگایا جاتا رہا۔ حضرت مرزا غلا م احمد صاحب کے گھر کی تلاشی بھی لی گئی لیکن ان پر لگائے جانے والے الزامات بے بنیاد نکلے۔ اس کے باوجود الزام تراشیوں کا سلسلہ بند نہ ہوا تو حضرت مرزا صاحب نے اپنی بریت کے اظہار کے لئے ایک فیصلہ کُن چیلنج دیا جس میں آپ نے آریہ صاحبان کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ
’’اگر اب بھی کسی شک کرنے والے کا شک دور نہیں ہو سکتا اور مجھے قتل کی سازش میں شریک سمجھتا ہے …تو میں ایک نیک صلاح دیتا ہوں کہ جس سے یہ سارا قصہ فیصلہ ہو جائے اور وہ یہ ہے کہ ایسا شخص میرے سامنے قسم کھائے کہ جس کے الفاظ یہ ہوں کہ
’’مَیں یقینا جانتا ہوں کہ یہ شخص سازش قتل میں شریک یا اس کے حکم سے واقعہ قتل ہوا ہے۔ پس اگر یہ صحیح نہیں ہے تو اے قادر خدا ایک برس کے اندر مجھ پر وہ عذاب نازل کر جو ہیبتناک عذاب ہو مگر کسی انسان کے ہاتھوں سے نہ ہو اور نہ انسان کے منصوبوں کا اس میں کچھ دخل متصور ہو سکے۔‘‘
’’پس اگر یہ شخص ایک برس تک میری بد دعا سے بچ گیا تو میں مُجرم ہوں اور اس سزا کے لائق کہ ایک قاتل کے لئے ہونی چاہئے۔ اب کوئی بہادر کلیجہ والا آریہ ہے جو اس طور سے تمام دنیا کو شبہات سے چھڑادے تو اس طریق کو اختیار کرے۔‘‘
(اشتہار 15؍مارچ 1897ء۔مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحات 253-252 )
شکوک و شبہات کو دور کرنے کے اس فیصلہ کُن آسان طریق کو اختیار کرنے کے لئے کوئی آریہ تیار نہ ہوا۔ لیکن مرزا صاحب نے از خود مئی 1897ء میں دو رسالے ’’سراج منیر‘‘ اور ’’استفتاء‘‘ شائع کئے جن میں ہندوستان کے سرکردہ ہندوؤں، عیسائیوں، سکھوں اور مسلمانوں کو نام بنام بھجوا کر ان سے پنڈت لیکھرام کے بارے میں اپنی پیشگوئی پوری ہونے یا پوری نہ ہونے کے بارے میں تصدیق طلب کی۔ تقریباً چار ہزار معزّز حضرات نے تصدیق کی کہ یہ پیشگوئی نہایت صفائی سے پوری ہو گئی۔ ان میں 279 معزّزین کے نام حضرت مرزا صاحب نے اپنی تصنیف ’’تریاق القلوب‘‘ (مصنفہ 1899ء) میں درج کردیئے۔
اسلام اور آریہ مذہب اور پیشگوئی پنڈت لیکھرام کی ہلاکت پر تبصرہ
حضرت مرزا غلام احمد صاحب نے 22؍مارچ 1897ء کو اپنے ایک اشتہار میں پنڈت لیکھرام کے قتل پر اپنے احساسات کا فیصلہ کُن اظہار اِن الفاظ میں کیا کہ
’’اسلام کے مذہب اور ہندوؤں کے مذہب کا خدا تعالیٰ کی درگاہ میں سترہ برس سے ایک مقدمہ دائر تھا۔ سو آخر 6؍مارچ 1897ء کے اجلاس میں اُس اعلیٰ عدالت نے مسلمانوں کے حق میں ایسی ڈگری دی جس کا نہ کوئی اپیل نہ مرافعہ … اب یہ واقعہ دنیا کو کبھی نہیں بھولے گا۔ آریہ صاحبان کو چاہئے کہ اب گورنمنٹ کو ناحق تکلیف نہ دیں۔ مقدمہ صفائی سے فیصلہ پا چکا … اگر چاہیں تو قبول کریں کہ شُدھ ہونے کا طریق صرف اسلام ہے جس میں داخل ہو کر انسان قادر خدا کے ساتھ باتیں کرنے لگتا ہے۔ زندہ خدا کا مزہ اُسی دن آتا ہے اور اسی دن اس کا پتہ لگتا ہے جب اِنسان لَااِلٰہَ اِلَّاﷲ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲ کا قائل ہوتا ہے۔ اُس خدا کے سوا باقی سب بیہودہ قصے ہیں کہ لوگوں کی غلطیوں سے قوموں میں رواج پاگئے ہیں … اسلام کا سچا اور قادر خدا ہمیشہ اپنے زندہ نشانات دکھاتا ہے۔‘‘
(اشتہار 22؍مارچ 1897ء۔ مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحات 376-375 )
قادیان کے آریہ حضرات اورحضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی
قادیان (ضلع گورداسپور۔بھارت) میں مسلمانوں، سکھوں اور عیسائیوں کے علاوہ اچھی خاصی تعداد میں آریہ ہندو بھی آباد تھے۔ ان میں سے کچھ مثلاً لالہ شرمپت اورملاوامل صاحب کے حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے ساتھ مدتوں سے ذاتی تعلقات تھے اور وہ حضرت مرزا صاحب کی شرافت ، نیک نفسی، پرہیز گاری اور متعدد پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے عینی گواہ تھے۔ لیکن پھر بھی وہ ہندوستان کے باقی آریوں کی طرح حضرت مرزا صاحب کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔ خاص طور پر پنڈت لیکھرام کی موت کے بعد ان کا رویّہ انتہائی معاندانہ ہو گیا تھا اور وہ ننگی گالیوں اور دھمکیوں پر اُتر آئے تھے۔ 6-1905ء میں قادیان کے آریوں نے ایک اخبار جاری کیا جس کا نام شبھ چنتک تھا۔ اس اخبار کا بڑا مقصد حضرت مرزا صاحب کو بدنام کرنا اور ان کے مشن کو ناکام بنانا تھا۔ سوم راج صاحب اس اخبار کے ایڈیٹر ، اچھر چند صاحب مینجر اور اس کا بھائی بھگت رام اس اخبار کا معاون کارکن مقرر ہوئے۔
قادیان کے آریوں کی طرف سے ایذا رسانی
اگرچہ اس اخبار کی کوئی اشاعت بھی دشنام طرازی سے خالی نہ ہوتی تھی لیکن بعض اوقات تو نوبت مغلّظات تک جاپہنچتی تھی۔ مثلاً اس اخبار نے اپنی 22؍اپریل 1906ء کی اشاعت میں لکھا کہ
’’یہ شخص (یعنی مرزا غلام احمد-ناقل) خود پرست ہے، نفس پرست ہے، فاسق ہے، فاجر ہے، اس واسطے گندی اور ناپاک خوابیں اس کو آتی ہیں۔‘‘
پھر 15؍مئی 1906ء کی اشاعت میں لکھا کہ
’’قادیانی مسیح کے الہاموں اور اس کی پیشگوئیوں کی اصلیت طشت از بام کرنے کا ذمہ اُٹھانے والا ایک ہی پرچہ شبھ چنتک ہے … مرزا قادیانی بد اخلاق، شہرت کا خواہاںاور شکم پرور ہے۔‘‘
اسی اخبار شبھ چنتک نے 22؍مئی 1906ء کی اشاعت میں لکھا کہ
’’کمبخت کمانے سے عار رکھنے والا، مکر ، فریب اور جھوٹ میں مشاق ہے۔‘‘
پھر 22؍دسمبر 1906ء کی اشاعت میں حضرت مرزا صاحب کے بارے میں لکھا کہ
’’ہم ان کی چالاکیوں کو ضرور طشت از بام کریں گے اور ہمیں اُمید بھی ہے کہ ہم اپنے ارادہ میں ضرور کامیاب ہوںگے … مرزا مکّار اور جھوٹ بولنے والا ہے۔ مرزا کی جماعت کے لوگ بد چلن اور بدمعاش ہیں۔‘‘
اس اخبار نے یکم مارچ 1907ء کی اشاعت میں لکھا کہ
’’ہم نے … پندرہ سال تک پہلو بہ پہلو ایک ہی قصبہ میں ان کے ساتھ رہ کر ان کے حال پر غور کی تو اتنی غور کے بعد ہمیں یہی معلوم ہوا کہ یہ شخص درحقیقت مکّار، خود غرض ، عشرت پسند، بد زبان وغیرہ وغیرہ ہے …نشان تو ہم نے اس مدّت تک کوئی نہیں دیکھا۔ البتہ یہ دیکھا ہے کہ یہ شخص ہر روز جھوٹے الہام بناتا ہے۔ ایک لاثانی بے وقوف ہے۔‘‘
حضرت مرزا غلام احمد صاحب کاردِّ عمل
آریوں کی طرف سے حضرت مرزا صاحب کی ایذا رسانی میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ 27؍دسمبر 1906ء کے دن جلسہ سالانہ قادیان کے موقعہ پر جب حضرت مرزا صاحب مسجد اقصیٰ قادیان میںنماز پڑھ رہے تھے تو ایک آریہ نے بے تحاشہ گالیاں دینی شروع کر دیں۔ حضرت مرزا صاحب اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
’’جب ہم مع اپنی جماعت کے جو دو ہزار کے قریب تھی اپنی جامع مسجد میں نماز میں مشغول تھے اور دُور دُور سے میری جماعت کے معزز لوگ آئے ہوئے تھے جن میں گورنمنٹ انگریزی کے بھی بڑے بڑے عہدیدار اور معزز رئیس اور جاگیردار اور نواب بھی موجود تھے توعین اس حالت میں … ایک ناپاک طبع آریہ برہمن نے گالیاں دینی شروع کیں اور نعوذُ باﷲ اِن الفاظ سے بار بار گالیاں دیتا تھا کہ یہ سب کنجر ایک جگہ جمع ہوئے ہیں۔ کیوں باہر جاکر نماز نہیں پڑھتے اور پہلے سب سے مجھے ہی یہ گالی دی۔‘‘
(قادیان کے آریہ اور ہم۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحات 420)
نماز کے اختتام پر حضرت مرزا صاحب نے اپنے ساتھیوں کی دلجوئی کی۔ اور کہا کہ خدا تعالیٰ دیکھتا ہے۔ وہ ظالم کو آپ سزا دے گا۔
حضرت مرزا صاحب کی تصنیف ’’قادیان کے آریہ اور ہم‘‘
حضرت مرزا غلام احمد صاحب کو اس بات کا بہت افسوس تھا کہ قادیان کے آریہ خصوصاً لالہ شرمپت اور ملاوامل صاحب حضرت مرزا صاحب کے کئی آسمانی نشانات کے عینی شاہد ہونے کے باوجود نہ صرف ان سے منکر تھے بلکہ حضرت مرزا صاحب کے خلاف بے حد گندے الزامات پر مبنی اشتہارات شائع کر چکے تھے جن میں سے کچھ کا ذکر پہلے آچکا ہے۔ وہ یہ بھی شائع کر چکے تھے کہ
’’یہ شخص محض مکار ، فریبی ہے اور صرف دوکاندار ہے، لوگ اس کا دھوکہ نہ کھائیں، مالی مدد نہ کریں، ورنہ اپنا روپیہ ضائع کریںگے۔‘‘
(قادیان کے آریہ اور ہم۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحات 425)
حضرت مرزا صاحب کو اس بات کا بھی ملال تھا کہ چونکہ یہ لوگ مدتوں سے ان کے ہم وطن اور ایک ہی قصبہ میں ہمسائیگی میں رہ رہے تھے اس لئے اس بات کا بھی کافی امکان تھا کہ ہمسائیگی کے باعث ان آریوں کا حضرت مرزا صاحب کو مکّار اور مفتری قرار دینا بہتوں کی گمراہی کا باعث بن سکتا تھا یا ان کے دلوں میں حضرت مرزا صاحب کے لئے شکوک و شُبہات پیدا کر سکتا تھا۔ چنانچہ حضرت مرزا صاحب نے 20؍فروری 1907ء کو ایک رسالہ ’’قادیان کے آریہ اور ہم‘‘ شائع کیا۔ اس رسالے میں حضرت مرزا صاحب نے بطور نمونہ اپنی چند پیشگوئیاں لکھ کر لالہ شرمپت اور ملا دامل کو چیلنج دیا کہ وہ خدا کی قسم کھا کر کہہ دیں کہ یہ پیشگوئیاں انہوں نے پوری ہوتے نہیں دیکھیں۔ نیز یہ کہ اگر وہ جھوٹ بول رہے ہیں تو خدا ان پر اور ان کی اولاد پر اس جھوٹ کی سزا نازل کرے۔ اس چیلنج کے ساتھ ہی حضرت مرزا صاحب نے لکھ دیا کہ
’’یہ لوگ اس طرح ہر گز قسم نہ کھائیںگے بلکہ حق پوشی کا طریق اختیار کریںگے اور سچائی کا خون کرنا چاہیں گے۔ تب بھی مَیں اُمید رکھتا ہوں کہ حق پوشی کی حالت میں بھی خدا اُن کو بے سزا نہیں چھوڑے گا کیونکہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کی بے عزتی خدا کی بے عزتی ہے۔‘‘
(قادیان کے آریہ اور ہم روحانی خزائن جلد 20 صفحات443)
اس دوران قادیان کے آریہ اخبار شبھ چنتک کی طرف سے حضرت مرزا صاحب کی اہانت بھی انتہا کو پہنچ چکی تھی اور لالہ شرمپت اور ملاوامل بھی سچائی کے اظہار سے کترا رہے تھے۔ انہی حالات میں حضرت مرزا صاحب نے اپنے رسالے ’’قادیان کے آریہ اور ہم‘‘ کے ٹائٹل کے اندرونی صفحہ پر کچھ اشعار لکھے جن میں آخری شعر یہ تھا۔
’’میرے مالک تُو ان کو خود سمجھا
آسماں سے پھر اِک نشان دِکھلا‘‘
(قادیان کے آریہ اور ہم۔ ٹائٹل اندرونی صفحہ)
یہ آریہ صاحبان حضرت مرزا صاحب کے پرانے شناسا تھے اور ان کی حضرت مرزا صاحب کے ساتھ اکثر صحبت بھی رہتی تھی۔ لیکن مذہبی تعصب کی بنا پر وہ حضرت مرزا صاحب کی سچی پیشگوئیوں کی شہادت دینے کے لئے تیار نہ تھے کیونکہ اس سے آریہ مذہب پر دھبہ لگتا تھا۔ حضرت مرزا صاحب 1882ء میں یہ الہامی پیشگوئی کر چکے تھے کہ (ترجمہ)
’’اے احمد! خدا نے تجھ میں برکت رکھ دی ہے … وہ لوگ جو تیرے پر ہنسی ٹھٹھا کرتے ہیں ان کے لئے ہم کافی ہیں … خدا کی مدد تجھ سے قریب ہے۔ وہ مدد ہر ایک دُور کی راہ سے تجھے پہنچے گی اور ایسی راہوں سے پہنچے گی کہ وہ راہ لوگوں کے بہت چلنے سے جو تیری طرف آئیںگے کہ جن راہوں پر وہ چلیں گے وہ عمیق ہو جائیںگے … تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم اپنی طرف سے الہام کریں گے … وہ زمانہ آتا ہے کہ لوگ کثرت سے تیری طرف رجوع کریں گے… اور ایسے لوگ بھی ہوںگے جو اپنے وطنوں سے ہجرت کر کے تیرے حجروں میں آکر آباد ہوںگے‘‘…’’ان پیشگوئیوں کو تم لکھ لو کہ وقت پر واقع ہوںگی۔‘‘
(مرزا غلام احمد قادیانی 1882ء۔ براہین احمدیہ حصّہ سوئم۔ صفحات238 تا242۔حاشیہ در حاشیہ نمبر1)
حضرت مرزا غلام احمد صاحب اِن آریہ صاحبان سے اپنی ملاقات مندرجہ بالا الہام سے پہلے اور بعد کے حالات پر اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
’’یہ دونوں آریہ صاحبان (لالہ شرمپت اور ملاوامل- ناقل) گواہ ہیں اور ان کو معلوم ہے کہ اس زمانے میں میری کیا حیثیت تھی ……میں کیسی گمنامی میں زندگی بسر کرتا تھا یہاں تک کہ کئی دفعہ یہ دونوں آریہ امرتسر میں میرے ساتھ جاتے تھے اور بجز ایک خدمتگار کے دوسرا آدمی نہیں ہوتا تھااور بعض دفعہ صرف لالہ شرمپت ہی ساتھ جاتا تھا۔ یہ لوگ حلفاً کہہ سکتے ہیں کہ اس زمانہ میں میری گمنامی کی حالت کس درجہ تک تھی۔ نہ قادیان میں میرے پاس کوئی آتا تھا اور نہ کسی شہر میں میرے جانے پر کوئی میری پرواہ کرتا تھا اور مَیں اُن کی نظر میں ایسا تھا جیسا کسی کا عدم اور وجود برابر ہوتا ہے۔
اب وہی قادیان ہے جس میں ہزاروں آدمی میرے پاس آتے ہیں اور وہی شہر امرتسر اور لاہور وغیرہ ہیں جو میرے وہاں جانے کی حالت میں صدہا آدمی پیشوائی کے لئے ریل پر پہنچتے ہیں بلکہ بعض وقت ہزار ہا لوگوں تک نوبت پہنچتی ہے۔ چنانچہ 1903ء میں جب میں نے جہلم کی طرف سفر کیا تو سب کو معلوم ہے کہ قریباً گیارہ ہزار آدمی پیشوائی کے لئے آیا تھا۔ ایسا ہی قادیان میں صدہا مہمانوں کی آمد کا ایک سلسلہ جواَب جاری ہے اُس زمانہ میں اس کا نام و نشان نہ تھا‘‘ ۔
(قادیان کے آریہ اور ہم۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحات 424 تا 428)
’’ پھر جب چند سالوں کے بعد ان پیشگوئیوں کے آثار شروع ہونے لگے تو مخالفوں میں روکنے کے لئے جوش پیدا ہوا۔ قادیان میں لالہ ملا وامل نے لالہ شرمپت کے مشورہ سے اشتہار دیا … کہ تالوگ رجوع سے باز آجاویں اور مالی امداد سے منہ پھیر لیں۔ مگر دنیا جانتی ہے کہ اس اشتہار کے زمانے میں میری جماعت ساٹھ یا ستّر آدمی سے زیادہ نہ تھی … زیادہ سے زیادہ تیس یا چالیس روپیہ ماہوار آمدنی تھی۔ مگر اس اشتہار کے بعد مالی امداد کا گویا ایک دریا رواں ہو گیا اور آج تک (فروری 1907ء- ناقل) کئی لاکھ لوگ بیعت میں داخل ہوئے اور اب تک ہر مہینہ میں پانچ سو کے قریب بیعت میں داخل ہو جاتا ہے … مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس قدر ترقی ہوئی کہ جیسا ایک قطرہ سے دریا بن جاتا ہے اور یہ ترقی بالکل غیر معمولی اور معجزانہ تھی حالانکہ نہ صرف ملاوامل نے بلکہ ہر ایک دشمن نے اس ترقی کو روکنے کے لئے پورا زور لگایا … اور خدا کی غیرت اور قدرت نے ان کے منہ پر وہ طمانچے مارے کہ ہر میدان میں ان کو شکست ہوئی‘‘ ۔
(قادیان کے آریہ اور ہم۔ روحانی خزائن جلد20 صفحات 424 تا 428)
اخبار شبھ چنتک کے کارندوں پرعذاب الٰہی کا ورود
اِنہی دنوں اخبار شبھ چنتک کی دریدہ دہنی اور حضرت مرزا صاحب کی اہانت کی کوشش اپنی اِنتہا کو پہنچ چکی تھی۔ ساتھ ہی سارے ہندوستان میں طاعون کی وبا تباہی مچار ہی تھی۔ حضرت مرزا غلام احمد صاحب نے ایک پیشگوئی کر رکھی تھی کہ وہ خود اور جو کوئی بھی ان کے گھر میں ہو گا طاعون سے محفوظ رہے گا۔ اس کو سن کر اچھر چند، مینجر شبھ چنتک نے لکھا کہ
’’لو مَیں بھی دعویٰ کرتا ہوں کہ میں طاعون سے نہیں مروں گا۔‘‘ (مرزا غلام احمد قادیانی 1907ء۔ حقیقۃالوحی تتمہ صفحہ593۔حاشیہ)
حضرت مرزا صاحب کے مقابل پر اچھر چند کا یہ قول خدا تعالیٰ کو ناگوار گزرا اور خدا کا غضب فوراً ہی اُن پر نازل ہونا شروع ہو گیا۔ چند دن کے اندر شبھ چنتک کا پورا عملہ طاعون سے ہلاک ہو گیا اور خداکے قہر نے ان کی اولاد اور اہل و عیال کو لپیٹ میں لے لیا۔ سب سے پہلے شبھ چنتک کے ایڈیٹر سومراج اور پھر بھگت رام ادارتی کارکن کی نرینہ اولادیں طاعون کا لقمہ بنیں۔ پھر بھگت رام اور اچھر چند چل بسے۔ سومراج نے اپنی اولاد اور دوستوں کی موت کا صدمہ اپنی آنکھوں سے دیکھا پھر وہ خود بیمار ہوا اور دوسرے روز وہ بھی راہی مِلک عدم ہوا۔
ان عبرتناک حقائق کی نشاندہی پنڈت سومراج نے ایک دوسرے آریہ اخبار ’’پرکاش‘‘ کے نام ایک خط میں کی جو ٹھیک اُسی دن شائع ہوا جس دن پنڈت سومراج خود فوت ہوا۔وہ لکھتے ہیں کہ
’’یکا یک مہاشہ اچھر چند کی اِستری اور عزیز بھگت رام برادر لالہ اچھر چند کا لڑکا بیمار ہوگئے۔ خیر اُن کی اِستری کو تو آرام ہو گیا لیکن لڑکا گذر گیا۔ اس تکلیف کا بھی خاتمہ نہیں ہوا تھا کہ میری اِستری اور میرا چھوٹا لڑکا عزیز شِوراج بیمار ہو گئے۔ میری اِستری کو ابھی بیماری ہے مگر ہونہار لڑکا پلیگ کا شکار ہو گیا۔ اس ہیبت کو ابھی بھول نہیں گئے تھے کہ ایک ناگہانی مصیبت اور سر آپڑی اور وہ یہ تھی کہ عزیز بھگت رام جس کے لڑکے کے گذر جانے کا اوپر ذکر کیا ہے بیمار ہو گیا اور چھ روز بیمار رہ کر ہمیشہ کے لئے داغ مفارقت دے گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم گوروکل میں بھی نہیں جاسکے اور اخبار بھی دو ہفتہ سے بند ہے۔‘‘
(اخبار الحکم قادیان۔ 17اپریل 1907ء صفحہ 5 کالم 2)
حضرت مرزا غلا م احمد صاحب ان آریہ صاحبان کی موت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
’’یہ ہے پاداش شرارتوں اور شوخیوں کی … یہ مت خیال کرو کہ ان تینوں کا طاعون سے مرنا ایک نشان ہے۔ بلکہ یہ تین نشان ہیں اور اب ہم منتظر ہیں کہ اب ان کا جانشین قادیان میں کون ہوتا ہے اور کب ان کی طرح میری نسبت اخبار میں شائع کرتا ہے کہ یہ شخص مکار اور کاذب ہے اور ہم نے اس کا کوئی نشان نہیں دیکھا۔‘‘
(مرزا غلام احمد قادیانی 1907ء۔ حقیقۃالوحی تتمہ صفحات 593-594)