تین عظیم الشان موعود
تحریرمکرم ملک سیف الرحمان صاحب (مرحوم)
’’ایک گھر کا مالک تھا جس نے انگورستان لگایا اوراُس کی چاروں طرف روندھا اور اس کے بیچ میں حوض کھود کے کولہو گاڑا اور برج بنایا اور باغبانوں کو سونپ کے آپ پردیس گیا اور جب میوہ کا موسم قریب آیا تو اُس نے اپنے نوکروں کو باغبانوں پاس بھیجا کہ اس کا پھل لاویں پر باغبانوں نے اُس کے نوکروں کو پکڑ کے ایک کو پیٹا اور ایک کو مار ڈالا اور ایک کو پتھرائو کیا۔ پھر اُس نے اور نوکروں کو جو پہلوں سے بڑھ کر تھے بھیجا۔ انہوں نے ان کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کیا ۔آخر اُس نے اپنے بیٹے کو اُن کے پاس یہ کہہ کر بھیجا کہ وَے میرے بیٹے سے دبیں گے۔ لیکن جب باغبانوں نے بیٹے کو دیکھا، آپس میں کہنے لگے وارث یہی ہے آئو اِسے مار ڈالیں کہ اس کی میراث ہماری ہوجائے اور اُسے پکڑ کے اور انگورستان سے باہر لے جا کر قتل کیا۔ جب انگورستان کا مالک آوے گا تو ان باغبانوں کے ساتھ کیا کرے گا ؟ وے اسے بولے ان بدوں کو بُری طرح مار ڈالے گا اور انگورستان کو اور باغبانوں کو سونپے گا جو اسے موسم پر میوہ پہنچاویں ‘‘۔
(متی باب 21آیت 33 تا 41)
جب سے دنیا میں تمدن اور مل جل کر رہنے کا آغاز ہوا ہے اُس وقت سے اللہ تعالیٰ کی یہ سنت چلی آرہی ہے کہ زمین میں جب ظلم وجور کا دور دورہ ہوتاہے اورفساد غالب آجاتا ہے، توازنِ زندگی بگڑ جاتاہے تو اللہ تعالیٰ انسانیت کو بچانے اور عدل و انصاف قائم کرنے کے لئے اپنی طرف سے ہادی اورمرسل بھیجتا ہے حضرت آدم ؑ سے لے کر خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلے اللہ علیہ وسلم تک ارسالِ رُسُل کے اس سلسلہ کو دنیا کا اکثر حصہ تسلیم کرتاہے ۔
سوا ل یہ ہے کہ جس گناہ اورفساد کی روک تھام کے لئے یہ سلسلہ جاری ہوا کیا وہ گناہ اورفساد اب ختم ہوگئے ہیں؟ قریباً تمام آسمانی کتب اس قسم کے گناہوں کی تفاصیل سے بھری پڑی ہیں جن کی وجہ سے بعثت انبیاء و مصلحین ہوئی اور اب بھی گناہوں اورفسادوں کے ایسے دور آتے رہتے ہیں اورسینکڑوں ایسی انسانیت سوز خرابیاں گھرائو کئے ہوئے ہیں جن سے معاشرہ کا امن وامان تباہ ہوجاتا ہے اوردنیا الامان الحفیظ پکار اٹھتی ہے یہی حالات ہوتے ہیں جن کی بنا پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور اورمرسل آتے ہیں جو تزکیہء نفس اورکتاب وحکمت کے ذریعہ بھٹکی ہوئی روحوں کو سیدھی اورکامیاب زندگی کی راہ دکھانے کا عملی فریضہ سرانجام دیتے ہیں ۔
ان مُرسَلین اورمصلحین میں سے بعض ’’خاص اورمعیّن وجودوں ‘‘ کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے سے خوشخبری دینے کی سنّت الٰہی بھی تمام آسمانی مذاہب میں مسلّم چلی آتی ہے۔ یعنی آسمان سے یہ خبر دی جاتی ہے کہ فلاں وقت اور ان علامتوں کے ساتھ ایک عظیم مصلح آئے گا جو دنیا کی ہدایت کا فریضہ سرانجام دے گا۔ اس الٰہی سنت کے بالمقابل گمراہ اور مریض دنیا کا طرزِ عمل ہمیشہ یہ رہا کہ جب بھی کوئی ایسا عظیم موعود ہادی اپنے صدق کی علامات کے ساتھ آیا دنیا کے ایسے عناصر نے اُس کا انکار کیا اوراپنے شدید ردّ عمل کا اظہار کیا اوراُس کے ساتھ تکبر اور استہزاء ، استعلاء اور افتراء کا معاملہ کیا ۔
ایسا اس لئے ہوتاہے کہ کسی پیشگوئی میں تمثیل اوراستعارۂ غیب اور خفا کی جو آمیزش ہوتی ہے اُسے یہ لوگ سمجھ نہیں سکتے اور اُس پیشگوئی کو ظاہر پر محمول کرتے ہیں اور اُس کے غلط معنے سمجھتے ہیں اور پھر اس غلط روش پر اصرار کی وجہ سے قبول حق سے محروم ہوجاتے ہیں۔
دنیا کا قدیم ترین مذہب ہندو مت ہے ۔اس مذہب کے ہادی حضرت کرشن مہاراج( کَانَ فِی الْہِنْدِ نَبِیٌّ اَسْوَدَ اللَّوْنِ اِسْمُہٗ کَاہِنٌ۔ ملفوظات جلد 10 صفحہ 143 مطبوعہ الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹڈ ۔ تاریخ ہمدان دیلمی ،باب الکاف (نوٹ) اس کتاب کا ایک قلمی نسخہ حیدر آباد دکن کے کتب خانہ میں موجود ہے ۔ ) کی طرف سے یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ … جب جب کُل جگ کا دَور ہوگا اور دنیا میں انتہائی پستی اور گراوٹ پیدا ہوگی تب تب وہ اس پاپ کو دور کرنے کے لئے پھر سے جنم لیں گے اور اس دنیا میں واپس آئیں گے ۔ (گیتا ادھیائے نمبر4شلوک نمبر 7،8)لیکن باوجود اس واضح پیشگوئی کے ہندو آج تک کسی عظیم ہادی کو کرشن کا اوتار نہ مان سکے کیونکہ ’’اوتار ‘‘ کا جو تصور ہندوئوں نے اپنے ہاں اپنایا اُن کے اس تصور کے مطابق کوئی ظہور کرشن کے معیار کا انہیں نظر نہ آیا اوراسی وجہ سے وہ کرشن مہاراج کے بعد ہر آنے والے عظیم مصلح کوماننے کی سعادت سے محروم ہوگئے ۔ یہی حال دنیا کے دوسرے قدیم مذاہب مثلاً مجوسیت اوربدھ مت وغیرہ کے ماننے والوں کا ہے ۔اُن کے ہاں بھی مصلحین کے آنے کی پیشگوئیاں ہیں لیکن ان پیشگوئیوں کے بارہ میں جو تصور ان کا قائم ہوا اُس کے عین مطابق وہ کسی عظیم ہادی کو نہ پاکر اُس کے صدق کے منکر ہوگئے ۔
یہودیت، عیسائیت اور اسلام تاریخی اور روایتی لحاظ سے زیادہ محفوظ مذاہب ہیںاوران میں اس قسم کی پیشگوئیاں بکثرت ہیں جن میں کسی عظیم موعود اورمصلح کے آنے کی خبر دی گئی ہے اوران کی تفصیلات کا معلوم کرنا نسبتاً زیادہ آسان بھی ہے اس لئے ان پیشگوئیوں کی حقیقت جاننے کے لئے کوئی مشکل پیش نہیں آنی چاہئے لیکن ضد اور ہٹ دھرمی اب بھی پیچھا نہیں چھوڑتی ۔
بائبل میں یہ پیشگوئی موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو مخاطب کرکے فرمایا ۔
’’میں تجھے برکت پر برکت دوں گا اورتیری نسل کو بڑھاتے بڑھاتے آسمان کے تاروں اور سمندر کے کناروں کی ریت کی مانند کردو ں گا اورتیری اولاد اپنے دشمنوں کے پھاٹک کی مالک ہوگی اور تیری نسل کے وسیلہ سے زمین کی سب قومیں برکت پائیں گی کیونکہ تو نے میری بات مانی ‘‘ ۔(پیدائش باب22 آیت17، 18)
اس پیشگوئی کی تفصیل کے دو حصے ہیں ۔ایک حصہ کا تعلق حضرت ابراہیم ؑ کے چھوٹے بیٹے حضرت اسحٰقؑ کے ساتھ ہے جس کے صدق ، جس کی عظمت اوربرکت کے یہودی اور عیسائی اب بھی قائل ہیں اوراس کے ساتھ بڑی عقیدت رکھتے ہیں ۔
اس پیشگوئی کے دوسرے حصہ کا تعلق حضرت ابراہیم ؑ کے بڑے بیٹے حضرت اسمٰعیل کے ساتھ ہے جس کی وضاحت بائبل نے اس طرح کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم ؑ کو مخاطب کرکے فرمایا ۔
’’اسماعیل کے حق میں بھی مَیں نے تیری سنی ۔ دیکھ میں اُسے برکت دوں گا اور اُسے برومند کروں گا اور اُسے بہت بڑھائوں گا … اور میں اُسے ایک بڑی قوم بنائوں گا۔‘‘
(پیدائش باب 17 آیت 20)
تاہم یہودی اور عیسائی پیشگوئی کے اس حصہ کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اور باوجود اس کے واضح ہونے کے محض تعصب اورضد، سوتیلا پن اورکینہ پروری کی وجہ سے نہ وہ حضرت اسماعیل ؑ کی عظمت کے قائل ہیں اور نہ ان کی نسل کی کوئی قدر کرتے ہیں بلکہ طرح طرح کی تاویلیں کرکے حضرت اسماعیل ؑ اور ان کی اولاد کو بنظر حقارت دیکھتے ہیں۔
یہ تو تکبر استعلاء اورا نکار کی ایک مثال ہے ورنہ تفصیل میں جائیں تو سینکڑوں ایسی مثالیں مل جائیں گی جن میں حق کے طالبوں کے لئے بڑی عبرت کے سامان ہیں تاہم … اس وقت تین ’’خاص عظیم مصلحین اور ہادیوں ‘‘ کا کسی قدر تفصیلی ذکر ہمارے مدّ نظر ہے ۔
پہلے عظیم موعود حضرت عیسیٰ ابن مریمؑ
ان میں سے پہلے عظیم موعود ’’حضرت عیسیٰ بن مریم‘‘ ہیں جن کی آمد کے بارہ میں بائبل کی واضح پیشگوئیاں موجود ہیں۔ مثلاً لکھا ہے ۔
’’ اے بنت صِیُّون تو نہایت شادمان ہو، اے دختر یروشلیم خوب للکار کیونکہ دیکھ تیرا بادشاہ تیرے پاس آتاہے ۔ وہ صادق ہے اورنجات اُس کے ہاتھ میں ہے۔ وہ حلیم ہے وہ گدھے پر بلکہ جوان گدھے پر سوار ہے ۔وہ قوموں کو صلح کا مثردہ دے گا اور اُس کی سلطنت سمندر سے سمندر تک اور دریائے فرات سے انتہائے زمین تک ہوگی‘‘
( زکریاہ باب9 آیت9، 10۔ متی باب21 آیت5 )
پھر لکھا ہے ۔
’’اُس روز گناہ اورناپاکی دھونے کو دائود کے گھرانے اور یروشلیم کے باشندوں کے لئے ایک سوتا پھوٹا نکلے گا‘‘ ۔( زکریاہ باب13 آیت1 )
ایک اورجگہ لکھا ہے
’’اُس کی قبر شریروں کے درمیان ٹھرائی گئی اوروہ اپنی موت میں دولت مندوں کے ساتھ ہوا ‘‘
(یسعیاہ باب53 آیت 9)
علاوہ ازیں بائبل کے بیان کے مطابق اس عظیم وجود کے لئے ایک اور بڑا نشان مقرر ہوا اور وہ یہ کہ اُس موعود کے آنے سے پیشتر ایلیا نبی نازل ہوگا جو رتھ سمیت آسمان پر چلا گیا تھا ۔
(2۔ سلاطین باب2 آیت 11’’ ایلیاہ بگولے میں ہو کر آسمان پر جاتا رہا ‘‘ )
وہ آکر اس موعود کے لئے راہ ہموار کرے گا چنانچہ لکھا ہے ۔
’’ دیکھو خداوند کے بزرگ اورہولناک دن کے آنے کے پیشتر میں ایلیا (الیاس) نبی کو تمہارے پاس بھیجوں گا اور وہ باپ کا دل بیٹے کی طرف اور بیٹے کا باپ کی طرف مائل کرے گا مبادا میں آئوں اور زمین کو ملعون کروں‘‘۔ ( ملاکی باب4 آیت5)
ان واضح پیشگوئیوں کے ہوتے ہوئے بھی جب وہ موعود آیا اکثر یہودیوں نے اُسے پہچاننے سے انکار کردیا کیونکہ انسانی طبیعت ہمیشہ عجوبہ پسند رہی ہے ۔ سادہ سی بات کو بھی افسانہ کا رنگ دے دیا جاتا ہے ۔
سواسی کے مطابق آنے والے مسیح کے بارہ میں بھی یہودیوں نے عجیب وغریب تصورات اپنا رکھے تھے مثلاً وہ سمجھنے لگے تھے کہ مسیح کے آنے سے پہلے ایلیا نبی خود آسمان سے نازل ہوگا اور مسیح کی تصدیق کرے گا۔ اسی طرح مسیحؑ کی زبردست روحانی قوت کے مقابلہ میں دشمن آناً فاناً تباہ اور برباد ہوجائے گا اور یہودیوں کو بیٹھے بٹھائے بادشاہی مل جائے گی اور مسیح ان کا بادشاہ بن کر ساری دنیا پر حکومت کرے گا اورآن کی آن میں اُن کی بگڑی بنادے گا۔ خود یہودیوں کو نہ کوئی قربانی دینی پڑے گی اور نہ کسی قسم کی جدو جہد کی ان کو ضرورت ہوگی اور بلا کسی محنت کے دنیا بھر کی نعمتیں ان کی جھولی میں آگریں گی لیکن جب مسیح ان کے ان غلط تصورات کے برعکس آیا اور اُس نے اپنے آپ کو اسرائیل کے لئے بطور نجات دہندہ پیش کیا تو یہودی مسیح کے اس دعویٰ کو سن کر سخت متعجب ہوئے اوربپھر کر شدید مخالفت پر اُتر آئے اورمسیح کو استہزاء کا نشانہ بنایا ۔ کانٹوں کا تاج بنا کر ان کو پہنایا ۔ٹھٹھا کیا اورمخول کے رنگ میں ان کے پیچھے پیچھے جاکر نعرے لگانے لگے کہ لوگو! دیکھو یہ ہمارا بادشاہ آیا ہے ۔خود بیکس اورلاچار لیکن دعویٰ یہ کہ وہ ہمارے لئے طاقت کا سر چشمہ ہے۔پاس نہ طاقت ہے اور نہ دولت اورآیا ہمیں حکومت دلانے اور دولتمند بنانے ہے اور نجات کامثردہ سنا رہا ہے ۔یہودیوں نے یہ اعتراض بھی کیا کہ اُس عظیم موعود سے پہلے ایلیا نبی نے آنا تھا وہ کہاں ہے ؟
حضرت مسیح نے یہودیوں کے اِن اعتراضات کے جواب میں فرمایا۔ اے ناسمجھو ! اگر تم میری مانو اوراطاعت کرو اورجو کچھ میں کہتا ہوں اُسے سنو تو اللہ تعالیٰ وہ تمہیں وہ ساری برکتیں دے گا جن کی تم آنے والے مسیح سے توقع رکھتے ہو اورجو قربانیاں ضروری ہیں انہیں میرے کہنے کے مطابق پیش کرو تو غیرمعمولی حالات میں تمہیں دشمن پر وہ غلبہ بھی حاصل ہوگا جس کی مثال تم نے گزشتہ قوموں میں نہیں دیکھی ہوگی ۔
رہا ایلیا نبی کا پہلے آنا اورآسمان سے نازل ہونا تو وہ ایک تمثیل ہے کیونکہ خود ایلیا نبی نے اپنے سابقہ وجود کے ساتھ آسمان سے نہیں اترنا وہ تو فوت ہوچکا ہے اس لئے اس کا آسمان سے نازل ہونا بطور تمثیل کے ہے جو یحییٰ بپتسمہ دینے والے کے روپ میں آگیا ہے ۔چنانچہ مسیحؑ نے یہودیوں سے کہا۔
’’مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو عورتوں سے پیدا ہوئے ہیں اُن میں یوحنا بپتسمہ دینے والے سے بڑا کوئی نہیں ۔۔۔۔۔۔چاہو تو مانو ،ایلیاہ جو آنے والا تھا وہ یہی ہے۔ جس کے سننے کے کان ہوں وہ سن لے ‘ ‘۔
(متی باب 11 آیت 11 تا15)
پھر لکھا ہے
’’میں تم سے کہتاہوں کہ ایلیاہ تو آچکا اور انہوں نے اس کو نہیں پہچانا بلکہ جو چاہا اُس کے ساتھ کیا‘‘ ( متی باب 17آیت 12)
مقام غور ہے کہ آخر صحیح اورسچ کیا نکلا و ہ جو یہودی کہتے تھے یا وہ جو مسیح ؑ نے کہا کیونکہ جو آنے والا تھا وہ تو عین وقت پر آیا ۔نشانوں کے ساتھ آیا لیکن یہودیوں نے اپنی نفسانی خواہشات اور ذاتی خود ساختہ تصورات کے مطابق نہ پاکر اُسے رد کردیا اوراُس کو نیست ونابود کرنے کے درپے ہوگئے ۔آنے والا آگیا اورسعادتمندوں اورسمجھداروں نے اُسے قبول بھی کرلیا اوربرکتوں پر برکتیں پائیں ( ان برکتوں اور ناشکری کی صورت میں اس پر سزا کا ذکر قرآن کریم کی سورۃ المآئدۃ کی آیت نمبر 112 تا نمبر 116 میں ہے ۔)
لیکن یہودیوں کے ایک حصہ نے نہ مانا اوراپنے مزعومہ موعود کا انتظار کرتے رہے اوراب تک انتظار کر رہے ہیں اور بِحَبْلٍ مِّنَ النَّاس کے سہارے زندہ ہیں۔
دوسرے عظیم الشان موعود۔ موعودِ اقوام عالَم حضرت اقدسمحمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم
دوسرے عظیم الشان موعود بلکہ موعود اقوام عالم سیّدولدِ آدم حضرت خاتم الانبیاء محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ آپ کے آنے کی پیشگوئی دنیا کے تمام آسمانی مذاہب میں موجود ہے۔ تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں صرف بائبل کی بعض پیشگوئیوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔
٭…بنی اسرائیل کے شارع نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مخاطب کرکے اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔
’’ میں اُن کے لئے اُن کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اوراپنا کلام اُس کے منہ میں ڈالو ں گا اورجو کچھ میں اُسے فرمائوں گا وہ سب اُن سے کہے گا تم اس کی سننا … جو کوئی میری اُن باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے گا تو میں اُن کا حساب اُس سے لوںگا ‘‘۔ (استثنا باب 18 آیت 18 ،19 (
٭…پھر لکھا ہے مرد خدا موسیٰ نے جو دعائے خیراپنی وفات کے وقت سے پہلے بنی اسرائیل کو بطور برکت دی وہ یہ ہے ۔
’’ خدا وند سینا سے آیا اور شعیر سے اُن پر طلوع ہوا ۔ فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا ۔ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا اور اُس کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشی شریعت ان کے لئے تھی ‘‘۔( استثنا باب 33آیت 2)
٭…حضرت سلیمان ’’اس محبوب عالمؐ ‘‘ کی یوں خبر دیتے ہیں
’’ میرا محبوب سرخ و سفید ہے ۔دس ہزار آدمیوں کے درمیان جھنڈے کی مانند کھڑا ہوتا ہے۔ … ہاں وہ محمدیم ہے۔(حضرت سلیمان نے اس پیشگوئی میں ’’ محمدیم ‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے لیکن اردو مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’ عشق انگیز ‘‘ کیا ہے حالانکہ یہ نام ہے اور نام کا ترجمہ کرنا غلط ہے۔ (
اے یروشلم کی بیٹیو ! یہ میرا پیارا ہے ۔یہ میرا جانی ہے‘‘ (غزل الغزلات باب 5 آیت 10 تا16 )
حضرت دائودؑ آپ کے حق میں اس طرح پیشگوئی بیان کرتے ہیں۔
’’وہ پتھر جسے معماروں نے رد کیا کونے کا سرا ہوگیا۔یہ خداوند سے ہوا جو ہماری نظروں میں عجیب ہے ‘‘۔
(زبور 118 آیت 22،23 )
٭…سلسلہ موسویہ کے آخری نبی اور عظیم موعود حضرت مسیح علیہ السلام آپؐ کی آمد کی یوں خبر دیتے ہیں
’’ یشوع نے انہیں کہا، کیا تم نے نوشتوں میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو راج گیروں نے ناپسند کیا وہی کونے کا سرا ہوا ۔ یہ خدا وند کی طرف سے ہے اورہماری نظروں میں عجیب ۔اس لئے میں تم سے کہتاہوں کہ خدا کی بادشاہت تم سے لے لی جائے گی اور ایک اور قوم کو جو اُس کے میوے لاوے دی جائے گی‘‘ (متی باب22 آیت 42، 43 ۔ اس پیشگوئی کا شروع کا حصہ آغاز مضمون دیکھیں۔)
٭…پھر ایک موقع پر مسیحؑ نے کہا
’’مَیں تم سے سچ کہتاہوں کہ میرا جانا تمہارے لئے فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جائوں تو وہ ’’مددگار ‘‘ (تسلّی دینے والا ) تمہارے پاس نہ آئے گا لیکن میں جائو ں گا تو اُسے تمہارے پاس بھیج دوں گا وہ آکر دنیا کو گناہ اورراستبازی اور عدالت کے بارہ میں قصور وار ٹھہرائے گا ‘‘
اسی تسلسل میں آپ مزید فرماتے ہیں۔
’’مجھے تم سے اَور بھی بہت سی باتیں کہنا ہیں مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کرسکتے لیکن جب وہ ’’روحِ حق‘‘ آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا اس لئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اورتمہیں آئندہ کی خبریں دے گا ‘‘
(یوحنا باب16 آیت 7 تا14 ۔ یوحنا کی اس پیشگوئی کے ترجمہ میں لفظ ’’مددگار ‘‘ ’’روح حق‘‘ قابل غور ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ حضرت مسیحؑ نے اصل لفظ کیا بولا تھا جس کا ترجمہ ’’مدد گار ‘‘یا ’’ روح حق ‘‘ وغیرہ کیا گیا ہے۔ اگر صحیح اور اصل لفظ کا پتہ لگ سکے تو حقیقت کھل کر سامنے آسکتی ہے۔ یونانی انجیل یوحنا میں یہ لفظ ’’پارا کلیٹوس‘‘ (PARACLETUS یا PARAKLETOS) ہے جو انگریزی میں ’’پارا کلیٹ ‘‘ (PARACLETE)بن گیاجس کا عربی تلفظ ’’فارقلیط‘‘ مروج ہوا۔ لیکن یہ یونانی لفظ ’’PERICLYTOS‘‘ ہے (پیریقلیطس یا بَرَقلیطس) بھی ہوسکتاہے جس کے معنے ’’تعریف کیا گیا‘‘ کے ہیں۔ اس طرح یہ گویا لفظ ’’محمد ‘‘کے ہم معنے ہے۔ بہرحال مسیح کا اصل لفظ سریانی زبان میں کیا تھا یہ سوال ابھی تشنۂ جواب ہے۔ سیرۃ ابن ھشام میں سریانی لفظ ’’ مُنْحَمَنَّا ‘‘ کوٹ (quote) کیا گیا ہے جو محمد کے ہم معنے ہے ۔ (سیرۃ ابن ھشام صفۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)-بائبل کی ان پیشگوئیوں کی تشریح اور مزید پیشگوئیوں کی تفصیل کے لئے دیکھیں تفسیر کبیر جلد1 صفحہ 370 زیر آیت مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ ۔ (البقرۃ 42:)
حضرت مسیح علیہ السلام کی اس پیشگوئی کا ذکر قرآن کریم کی سورۃ الصف میں اس طرح ہے ۔
وَ اِذْ قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْٓ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَیْکُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰۃِ وَ مُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْ بَعْدِی اسْمُہٗٓ اَحْمَدُ۔ فَلَمَّا جَآءَھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ قَالُوْا ھٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ۔(الصف7:)
اوریاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے اپنی قوم سے کہا اے بنی اسرائیل میں تمہار ی طرف اللہ کا رسول بن کر آیا ہوں ۔تو رات میں جوباتیںمیرے آنے سے پہلے بیان ہوچکی ہیں ان کو میں پورا کرنے والا ہوں اورایک ایسے رسول کی بھی خبر دیتا ہوں جو میرے بعد آئے گا جس کا نام ’’احمد‘‘(٭)ہوگا ۔ پھر جب وہ رسول دلائل لے کر آگیا تو وہ (بنی اسرائیل ) کہنے لگے۔ یہ تو کھلا کھلا جادو اور فریب ہے۔
(٭)(آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے دونام ہیں ایک ’’محمدؐ ‘‘ اوردوسرا ’’احمدؐ ‘‘۔ اگرچہ آپ کا نام ’’محمدؐ ‘‘ زیادہ مشہور ہے اور کلمہ میں بھی یہی نام استعمال ہوا ہے لیکن بمطابق قرآن کریم حضرت مسیح علیہ السلام نے آپ کا دوسرا نام ’’احمد ‘‘ لیا ہے جس میں اہل فکرو دانش کے لئے کئی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ فَہَلْ مِنْ مُّدَّ کِرْ؟ )
بائبل کی یہ پیشگوئیاں کس قدر واضح ہیں لیکن ہوا وہی جو ہمیشہ ہوتا چلا آیا ہے کیونکہ جب وہ موعود اقوام عالم آیا اورساری علامات کے ساتھ آیا تو دنیا کے بڑے حصہ بالخصوص اہل کتاب نے اُس کا صاف انکار کردیا حالانکہ اُن کی اپنی کتابیں اس آنے والے کی علامات سے بھری پڑی تھیں اور وہ اس کی آمد کے منتظر بھی تھے مگر اپنی غلط سوچ کی وجہ سے وہ اس کو نہ پہچان سکے اور ماننے کے لئے تیار نہ ہوئے تاہم جس نے آنا تھا وہ تو آگیا اور بڑی شان سے آیا اور منکر آج تک اُس کا انتظار کر رہے ہیں بلکہ اب تو انتظار کرتے کرتے بڑی حد تک مایوس ہوچکے ہیں اور طرح طرح کی تاویلات اورتحریفات کے سہارے گریز کی راہیں تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 12؍ اگست 1988ء میں سورۃ الحجر کی آیات 12 تا 16 کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ۔
’’سورۃا لحجر سے یہ چند آیات جو میں نے آج کے جمعہ کے لیے منتخب کی ہیںان کا ترجمہ یہ ہے کہ کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ اُن کے پاس کو ئی رسول آئے اور وہ اُس سے استہزاء کا سلوک نہ کریں یا جب کبھی بھی اُن کے پاس کوئی رسول آتا ہے ۔ وہ اس کے سوا کچھ نہیں کرتے کہ اُس سے تمسخر کرتے ہیں اور استہزاء کا سلوک کرتے ہیں۔کَذٰلِکَ نَسْلُکُہٗ فِیْ قُلُوْبِ الْمُجْرِمِیْنَ۔(الجر13:)اسی طرح ہم مجرموں کے دل میں یہ عادت داخل کر دیتے ہیں یعنی اُن کے مزاج میں، اُن کی عادات میں فطرت ثانیہ کی طرح یہ کجی داخل ہو جاتی ہے کہ جب بھی خدا کی طرف سے کوئی آئے اُس کے ساتھ استہزاء کا سلوک کرنا ہے لَایُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَ قَدْ خَلَتْ سُنَّۃُ الْاَوَّلِیْنَ (الجر14:) وہ ایمان نہیں لاتے ۔ بھیجے ہوئے پر ایمان نہیں لاتے اور اُن کے لیے اور اس سے پہلے لو گوں کی سنت اوراُن کی تاریخ ایک نمو نہ بن جاتی ہے یعنی اُس نمونے کے پیچھے چلنے والے ہیں۔گویا وہی لوگ ہیںجو گزشتہ زمانوں میں اسی قسم کی حرکتیں کر چکے ہیں اور اب دوبارہ ظاہر ہوئے ہیں۔تو اپنے سے پہلوں کی سنت پر عمل کر نے والے یہ لوگ ہیں اور اُس کے مقابل پر خدا کی بھی ایک سنّت ہے۔اُس کا بھی یہیں ذکر ہے فر مایا قَدْ خَلَتْ سُنَّۃُ الْاَوَّلِیْنَ۔حالانکہ یہ نہیں دیکھتے کہ اس سے پہلے اسی قسم کے لوگوں کے ساتھ خدا کی کیا سنّت جاری ہوئی تھی اور ان دونوں سنتوںمیں آپ کوئی تبدیلی نہیں دیکھیں گے۔ نہ ان بدکرد ار لو گوں کی سنّت میں تبدیلی دیکھیں گے جن کو خدا تعالیٰ نے اُن کے جرموں کی وجہ سے ایک غلط طرز عمل اختیار کر نے پر پابند فرما دیا ہے۔اُن کے دلوں میں جاگزین کر دی ہے یہ بات کہ تم اس لائق نہیں ہو کہ سچوں کو قبول کرو اس لیے تم جس حد تک تم سے ممکن ہے کج روی اختیار کرو ۔دوسری طرف سُنَّۃُ الْاَوَّلِیْنَسے مراد وہ سنّت ہے جو اوّلین کے بارے میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتی رہی ہے ۔جو اُن کے ساتھ خدا کا سلوک ہوتا رہا ہے ۔وہ اُن کی سنّت بن گیایعنی پہلے انکار کی سنّت اور پھر ہلاکت اور تباہی کی سنّت وَ لَوْ فَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَابًا مِّنَ السَّمَآءِ(الحجر15:) فرمایایہ وہ لوگ ہیں جن کے اوپر اگر ہم آسمان سے دروازے بھی کھول لیں ۔ایسے دروازے جن پر یہ چڑھ سکیں اور خود آسمان کی بلندیوں پر جا کر سچائی کا مشاہدہ کریں اور نشانات کو دیکھ لیںلَقَالُوْٓا اِنَّمَا سُکِّرَتْ اَبْصَارُنَا(الحجر16:)وہ یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد یہ کہیں گے کہ ہماری آنکھیں مد ہوش ہو گئی ہیں،ہماری آنکھوںکو نشہ چڑھ گیا ہے بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُوْرُوْنَ(الحجر16:)ہم توایسی قوم ہیں جس پر جادو کر دیا گیا ہے۔ان آیات میں دو مضامین بیان ہو ئے ہیں۔اگرچہ تسلسل ہے مضمون کا ،لیکن اس مضمون کو دو حصوں میں بیان فرمایا گیا ہے۔پہلا یہ کہ خدا تعالیٰ کی یہ سنّت ہے،خداتعالی کی یہ تقدیر ہے کہ بعض لوگ لازماًاس کے بندوں سے اُس کے بھیجے ہوؤں سے استہزاء کا سلوک کر تے ہیں اور اُن کا یہ رویہ اُن کا مقدر بنا دیا جا تا ہے۔ان کے دلوں میں یہ بات دا خل کر دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اُس سے ٹل نہیں سکتے،اُن کے مقدر میں یہ بات لکھی جا تی ہے۔ پہلاسوال تو یہ ہے کہ اگر خدا تعالیٰ خود انبیاء کے منکرین کو استہزاء کا طریق سکھاتا ہے اور اُن کے دلوںمیںیہ بات جما د یتا ہے ،نقش کر دیتا ہے کہ تمہیں بہرحال میرے بھیجے ہوؤں سے مذاق کر نا ہے اور استہزاء اور تمسخرکا سلوک کرنا ہے تو اُن کاپھر کیا قصور۔ لیکن اس سوال کا جواب اسی آیت میںاس کے آخری حصے میں بیان فرما دیا گیا فِیْ قُلُوْبِ الْمُجْرِمِیْنَہم یہ نصیبہ مجرموں کا بناتے ہیں۔اس سے ایک بات خوب کھل گئی کہ جب خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو بھیجا کرتا ہے بنی نوع انسان کی اصلاح کے لیے تو دراصل وہ قوم مجموعی طور پر بحیثیت قوم مجرم ہو چکی ہو تی ہے۔اُس میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں،استثناء بھی موجودہوتے ہیں لیکن ایک بھاری تعداد اُس قوم میں جرم کر نے والوں کی ہوتی ہے۔
پس دراصل جرم کی سزا میں صداقت سے محرو می بھی شامل ہے۔پس خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی ظلم نہیں ہوتا کہ ان لوگوں کو صداقت پہچاننے سے محروم کر دیا جاتا ہے۔فر مایا وہ مجر م ہیں اور اس قسم کے مجرم ہیںکہ اُس جرم سے باز آ نے والے نہیں۔ ایسے لوگوں کی سزا یہ ہے کہ وہ صداقت سے محروم کر دیئے جاتے ہیں۔پس اسی وجہ سے وہ صداقت سے محروم نہیں ہوتے کہ خدا تعالیٰ نے ان کے دل پر نقش کر دیا ہے کہ تم لازماً صداقت کا انکار کروگے بلکہ جرم کے نتیجے میں یہ اُن کو سزا ملتی ہے۔چنانچہ اس مضمون کو خوب کھول دیالَا یُؤْمِنُوْنَ بِہٖوہ کبھی بھی اُس خدا کے بھیجے ہوئے پر ایمان نہیں لائیں گے وَ قَدْ خَلَتْ سُنَّۃُ الْاَوَّلِیْنَاور ان سے پہلے ایسے لوگوں کی سنت گزر چکی ہے۔جو کسی صورت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مرسلین اور اُس کے پیغمبروںپرایمان نہیںلائے اوراسی حالت میںوہ ہلاک ہوگئے۔ دوسرا پہلو وَ لَوْ فَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَابًا مِّنَ السَّمَآءِمیںیہ مضمون بیان فرمایا گیا ہے کہ ان کا انکار اس وجہ سے نہیںکہ ان کوکو ئی نشان نہیں د کھایا جاتا لیکن اس مضمون کے اس حصے کو میں بعد میں بیان کروںگا۔پہلے اس پہلے حصے سے متعلق کچھ مزید باتیں میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا سنت میں دو پہلو ہیں۔ پہلوں کی سنت کیا ہے ۔وہ جوخودکرتے رہے تحقیر اور استہزاء اور تمسخر۔ یہ ایک ان کی سنت ہے اور ایک سنت و ہ ہے جو خدا نے اُن پر جا ری فرمائی اور وہ اُن کا بد انجام ہے۔
اس سے متعلق قرآن کر یم میں متعدد آیا ت ہیں جو اس مضمون کو مختلف رنگ میںکھول کھول کر بیان فر ما رہی ہیں جیسا کہ فرمایا قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ سُنَنٌ(آل عمران138:)وہی لفظ سنت ہے جس کیجمع استعمال فرمائی گئی یہاں۔فرمایا قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ سُنَنٌ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ(آل عمران138:)اس سے پہلے تم سے پہلے لوگوںکی سنّت تمہارے سامنے گزر چکی ہے اوراس سنّت کاایک حصہ یعنی اُن کی کج روی ،اُن کی بغاوت،اُن کا طغٰی یہ سب چیزیں تم پر روشن ہیں لیکن تم زمین پر پھر کے خوب سیر کر کے دیکھو تو سہی کہ اُن کی عاقبت کیسے ہوئی تھی۔ ان جھٹلانے والوں کا انجام کیا تھا۔پس سنّت میں یہ دونوں باتیں دا خل ہیںاُن کی بداعمالی، اُن کا انکاراورپھراُن کا انجام۔ چنانچہ سنن کے تابع ان دونوں مضامین کو قرآنِ کریم میں یہاں اکٹھا بیا ن فرما دیا ہے پھرفر مایا قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ ثُمَّ انْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ(الانعام12:)۔
اے محمد ﷺ مخاطب حضور اکرم ؐہیں۔ محمد کا نام تو ظاہر نہیں فرمایا گیا لیکن مراد یہی ہے کہ اے میرے رسول تو اُن سے کہہ دے، ان کو پیغام پہنچا دے سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ وہ خوب زمین میں سیر کریں اور پھر کر سیاحت کرکے پرانی قوموں کے انجام کامشاہدہ کریں ثُمَّ انْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَپھریہ دیکھیں سمجھیںکہ اس سے پہلے تکذیب کرنے والے جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا تھا پھر فرمایا۔ وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَ اجْتَنِبُوْا الطَّاغُوْتَ فَمِنْھُمْ مَّنْ ھَدَی اللہُ وَ مِنْھُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَیْہِ الضَّلٰلَۃُ۔ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ (النحل37:)کہ ہم نے ہر امت میںرسول مبعوث فرمائے تھے اور ان کو یہ پیغام دیا تھااَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَ اجْتَنِبُوْا الطَّاغُوْتَکہ اللہ کی عبادت کرواور طاغوت سے اجتناب کرو یعنی شیطانی طاقتوں سے الگ رہو فَمِنْھُمْ مَّنْ ھَدَی اللہُاُن میں سے بعض وہ تھے جن کو خدا نے ہدایت عطا فرمائیمِنْھُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَیْہِ الضَّلٰلَۃُ ایسے بھی تھے اُن میںجن پر گمراہی مقدرکر دی گئی جن کا مقدر ہوگئی گمراہی۔حَقَّتْکا مطلب ہے لازم ہوگئی۔ایسی تقدیر بن گئی جسے ٹالا نہیں جاسکتا۔ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ۔پس خوب زمین میں پھر کے سیاحت کر کے دیکھو اور دیکھوکہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہے یا کیا انجام تھا۔ پھر بیان فرمایا فَوَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَ۔(الطور12:)پس آج کے دن ہلاکت ہے سب جھٹلانے والوں کے لیے اَلَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ خَوْضٍ یَّلْعَبُوْنَ(الطور13:)وہ جو اپنی سر کشی اور گمراہی میں بھٹک رہے ہیں۔
اس مضمون کو بیان کر نے کے لیے آج میری توجہ ایک رؤیا کے ذریعہ مبذول کراوئی گئی ہے۔ رات میںنے رؤیا میں دیکھاکہ کچھ انگریز احمدی بیٹھے ہوئے ہیںاور ان میںسے ایک مجھ سے سوال کرتا ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃو السلام کی کسی تحریر کاجو آپ نے ترجمہ کیا ہے وہ مجھے درست معلوم نہیں ہوتااور وہ تر جمہ یہ بیان کرتا ہے۔انگریزی کا ایک محاورہ ہے history repeats itself کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ اُس ترجمے میںاس محاورے کا پہلا حصہ استعمال کرکے حضرت مسیح مو عودعلیہ الصلوٰۃو السلام نے دوسرا نتیجہ نکالا ہواہے۔ اردو میںبھی یہی ہے اور ترجمہ میں بھی یہی ہے کہ( اُن کے الفاظ اس قسم کے ہیں) تاریخ اپنے آپ کو ضرور دہراتی ہے اور خداتعالیٰ مجرموں کو ضرور سزا دیتا ہے۔ چنانچہ اس کا خواب میں مجھ پر یہ اثرہے کہ میں نے ترجمہ کیا ہے کہHistory repeats itself اور آگے مجھے یاد نہیں کہ الفاظ کیا تھے لیکن Punishmentکے لفظ تھے یاکوئی اور لفظ تھے لیکن مضمون یہی تھا۔اس لیے چونکہ خواب کے انگریزی الفاظ یاد نہیںمیں اس کو چھوڑتا ہوں لیکن بعینہٖ اس مضمون کومیں نے انگریزی میں بیان کیایعنی اُس کے نزدیک میری تحریر میں یہ بات تھی۔وہ کہتاتھا History repeatsکا یہ مطلب تو نہیںہے۔یعنی اعتراض یہ تھا کہ تم نے History repeatsکا دوسرا معنی کر دیا ہے حالا نکہ اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے ۔کچھ دوسرے انگریز احمدی ہیںوہ میری تائید میں بولتے ہیں۔وہ کہتے ہیں نہیں بالکل صحیح ہے، اس موقع پر یہی محاورہ استعما ل ہونا چاہئے تھا۔پھر میں اُس کو سمجھاتا ہوںاور میں اُسے کہتا ہوںدیکھو تم لوگوں کا جو دنیاوی محاورہ ہے وہ درحقیقت ایک سطحی بات تھی۔ اُس میں فی الحقیقت کو ئی بھی ٹھوس مضمون بیان نہیں ہوابلکہ اس کے نتیجے میںابہام پیدا کر دیا گیا ہے۔
بہت سے لوگ اس محاورہ کوسنتے ہیںتو یہ سمجھتے ہیںکہ گویاتار یخ بعینہٖ دوبارہ اپنے آپ کو دہراتی چلی جاتی ہے کوئی نئے نقوش دنیا میں ظاہر ہی نہیں ہوتے۔ ہمیشہ وہی چکر ہے جو اپنے آپ کودوبارہ ظاہر کرتا چلاجاتا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس محاورے میں جان ڈال دی ہے یہ متوجہ فرما کرکہ تاریخ اس طرح دہرایا کرتی ہے کہ خدا کی کچھ سنتیں ہیںجن میں تم کوئی تبدیلی نہیں دیکھو گے اور بد کرداروں اور مجرموں کے حق میںوہ سنتیں اس طرح ظاہر ہوا کرتی ہیں۔اس لیے اسstory کو تم کبھی بھی تبدیل نہیں کر سکتے یہ بہرحال اپنے آپ کو دہرائے گی۔ تو میں دیکھتا ہوں وہ جو تائید میں بولنے والے تھے ان کے چہرے بشاشت میںکھلکھلا اٹھتے ہیںکہ ہاں اب سمجھ آئی کہ یہ مضمون کیا ہے اور جن کی طرف جو ایک صاحب اعتراض کر رہے تھے ان کے اندر بھی ا عترا ض میں گستاخی نہیں تھی بلکہ ایک پوچھنے کا رنگ تھا۔اُن کے چہرے پر اُس طرح بشا شت تو نہیں آئی لیکن یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ بات سمجھ گئے ہیں۔
اس رؤیا سے مجھے خیال آیا کہ اس مضمون کے متعلق میںآج آپ کے سامنے کچھ بیان کروںاور آپ کو دعا کی طرف متوجہ کروںکیونکہ یہ بہت انذاری رؤیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس قوم کوآج ہم مخاطب کر رہے ہیں ، جس کو ہم نے مباہلے کی دعوت دی ہے بدقسمتی سے اُن کے مقدر میں خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا دن دیکھنا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ اس طرح میرے ذریعے پیغام نہ دیتا itself History repeats اس میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھو گے، مجرموں کو خدا ضرور سزا دے گا۔ اس لیے وہ آیات جو میں نے آپ کے سامنے پڑھ کر سنا ئی ہیںیہ وہی تاریخ ہے جو دہرائی جا رہی ہے جس کا ذکر خدا تعالی قرآن کریم میں بار بارذکر فرماتاہےفَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَاور تم خوب دنیا میںسیاحت کرو اور گھوم پھر کے دیکھو۔ تم دیکھو گے کہ مکذبین کی عاقبت اُن کا انجام بہت برا ہے۔ کَیْفَ میں یہ نہیں فرمایا کہ براہے مگر جب ایک چیز بہت ہی زیادہ درجے تک پہنچ جائے تو وہاں یہ کہنے کی ضرورت نہیںپڑا کرتی کے برا ہے یا اچھا ہے لفظکَیْفَ ہی بتا دیتا ہے کہ دیکھو دیکھوکیسا اُن کا انجام ہے۔ پس جب بدی حد کو پہنچ جائے تو اس کے لیے لفظکَیْفَ ہی استعمال ہوگااور جب کوئی خوبی حد کو پہنچ جائے تو اُس کے لیے بھی لفظ کَیْفَ ہی استعمال ہو گا لیکن دوسری آیت جوا لطور کی ہے اُس نے اس مضمون کو اور بھی کھول دیا۔ بیان فر مایا۔ فَوَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَہلاکت ہے اس دن اُن لوگوں کے لیے جنہوں نے تکذیب کی راہ اختیار کی ہے۔
ان آیات پر غور کر تے ہوئے انسان کا ذہن اس طرف بھی منتقل ہوتا ہے کہ سارے قرآن میں کہیںمو منین کے لیے ہلاکت کا ذکر نہیں آیا خواہ وہ غلط ہی ایمان لانے والے ہوں۔ڈرایاگیا ہے مکذّبین کو اُن کی تکذیب سے اور کہیں یہ نہیں فرمایا گیاکہ دیکھو غلطی سے فلاں لوگ ایمان لے آئے تھے ہم نے اُن کو ہلاک کر دیاہے۔ غلطی سے وہ لوگ ایک جھوٹے کو سچا سمجھ بیٹھے تھے ہم نے اُن کو تباہ کر دیا ہے ۔سارے قرآن میںایک بھی ایسی مثال نہیں ملتی کہ جس میں خدا تعالیٰ نے اس صورت حال سے متنبہ فر ما یاہو کہ دیکھو فلاں قوم نے غلطی سے ایک ایسے شخص کو قبول کر لیا تھا جس کو میں نے نہیں بھیجا تھا اور دیکھووہ کس طرح ہلاک کئے گئے اور کس طرح تباہ کئے گئے۔یہ خدا تعالیٰ کی رحمت اور اس کی شان ہے ایمان لانے والا اگر سچے دل سے ایمان لاتا ہے تو اس کے لیے کوئی خوف نہیں اور کوئی ہلاکت نہیں لیکن تکذیب کر نے والے کے لیے ہلاکتیں ہیںاور متعدد باران ہلاکتوںکا قرآنِ کریم میں اس طرح کھو ل کھول کر ذکر فر مایا گیا ہے کہ کسی پر یہ مضمون مشتبہ نہیں رہنا چاہئے ۔
(خطبات طاہر۔ جلد7صفحہ 547 تا553 خطبہ بیان فرمودہ مورخہ 12؍ اگست 1988ء)
(باقی آئندہ)