جلسہ سالانہ ۔ ایک عظیم رُوحانی مائدہ
(منصور احمد مسرور۔ ایڈیٹر اخبار بدر قادیان)
جلسہ سالانہ قادیان 2017 ء، بخیروخوبی اختتام پذیر ہواالحمد للہ۔موسم خوشگوار رہا۔ اگرچہ سردی میں شدّت تھی مگر بالخصوص جلسہ کے تینوں دن آفتاب نے آسمان میں اچھی طرح چمک کر مسیح موعودؑ کے مہمانوں کو سردی کا احساس ہونے نہیں دیا۔ چونکہ بہت سے مہمان خیموں میں بھی رہتے ہیں اور جلسہ کا بھی انتظام کھلے میدان میں ہوتا ہے اس لحاظ سے ہم اللہ کا جتنا بھی شکر کریں کم ہے کہ بارش کی تکلیف سے اس نے مہمانوں کو محفوظ رکھا۔ الحمد للہ علیٰ ذالک۔
جلسہ کا ماحول انتہائی رُوحانی ہوتا ہے۔ ہر شخص عبادت، ذکر الٰہی اور سیّدنا و مولانا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجنے میں مصروف ہوتا ہے۔ نماز تہجد باجماعت کا ان دنوں خاص اہتمام ہوتا ہے جس سے مہمان بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ امام الزمان مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کے روضۂ مبارک پر گریہ و زاری کے ساتھ دُعا کرنا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آپ کو سلام پہنچانا ایک ایسی دلگداز اور رُوح کو پگھلانے والی کیفیت سے ہمکنار کرتا ہے جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ہر ایک مہمان کی کوشش ہوتی ہے کہ بیت الدعا میں اُسے دعا کا موقع مل سکے اور اس کے لئےاپنی باری کے انتظار میں گھنٹوں کھڑا رہنا خوشی سے برداشت کرتا ہے۔ اسی طرح فرض نمازیں اور نوافل کی ادائیگی ،اور ہر طرف السلام علیکم اور وعلیکم السلام کی آوازیں اور مصافحہ اور معانقہ، یہ سب باتیں ماحول کو رُوحانیت سے بھر دیتی ہیں۔ علاوہ ازیں جلسہ کے تین دن دینی و علمی باتیں سننے کے خاص دن ہوتے ہیں۔
اس جلسے کی ایک بہت خاص بات یہ ہوتی ہے کہ حضور پُرنُور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جلسہ کے آخری روز ازراہِ شفقت جلسہ سے خطاب فرماتے ہیں۔ اس کے لئے ہم حضور کے بےحد مشکور و ممنون ہیں۔ حضور کا خطاب جلسہ کو ایک خاص شان عطا فرماتا ہے۔ mta کے ذریعہ ساری دُنیا اس جلسے میں شامل ہوجاتی ہے اور لندن اور قادیان ہر دو جلسوں کے مناظر مشاہدہ کرتی اور حضور پُرنور کے دیدار سے اپنی پیاس بجھاتی ہے۔ اور قادیان کے جلسہ گاہ میں ہزاروں کی تعداد میں مہمانوں کا انتہائی خاموشی اور شوق سے بڑی سکرین پر ٹکٹکی باندھ کر حضور کا خطاب سننا بہت ہی پرشوکت ، دلکش اور عاشقانہ منظر پیدا کر رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بے شمار رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے جلسہ کی بنیاد رکھ کر جماعت پراحسانِ عظیم فرمایا۔
سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دسمبر 1891ء میں ایک رسالہ ’’آسمانی فیصلہ ‘‘ تصنیف فرمایا ۔ اس رسالہ میں آپ نے مسلمان علماء کو جو آپؑکے شدید مخالف تھے رُوحانی مقابلہ کی دعوت دی اور اُن کے سامنے اس بات کے فیصلہ کے لئے کہ خدا تعالیٰ اور اس کی تائید و نصرت کس کے ساتھ ہے ، لاہور میں ایک انجمن کی تشکیل کی تجویز رکھی کہ لاہور میں ایک ایسی انجمن بنائی جائے جو جماعت اور جماعت کے مخالفین دونوں سے متعلق ایک سال تک اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے ریکارڈ رکھے اور پھر ایک سال بعد اس ریکارڈ کی روشنی میں یہ فیصلہ کرے کہ خدا تعالیٰ کس کے ساتھ ہے اور اس کی تائید و نصرت کس کے شامل حال ہے۔ آپؑنے 27 دسمبر 1891ء کو قادیان میں احبابِ جماعت کو جمع ہونے کی ہدایت فرمائی تاکہ جس انجمن کے بنانے کی آپؑنے تجویز رکھی ہے اس کی تشکیل کے بارے میں غوروخوض ہوسکے۔ ’’چنانچہ اس تاریخ کو مسجد اقصیٰ میں احباب جمع ہوئے۔ بعد نماز ظہر اجلاس کی کارروائی شروع ہوئی۔ سب سے قبل مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ نے حضرت اقدسؑ کی تازہ تصنیف آسمانی فیصلہ پڑھ کر سنائی ۔ پھر یہ تجویز رکھی گئی کہ مجوزہ انجمن کے ممبر کون کون صاحبان ہوں اور کس طرح اس کارروائی کا آغاز ہو۔ حاضرین نے بالاتفاق یہ قرار دیا کہ سرِدست یہ رسالہ شائع کردیا جائے اور مخالفین کا عندیہ معلوم کرکے بتراضی فریقین انجمن کے ممبر مقرر کئے جائیں۔ اس کے بعد جلسہ ختم ہوا اور حضرت اقدس سے دوستوں نے مصافحہ کیا۔ یہ جماعت احمدیہ کا سب سے پہلا تاریخی اجتماع اور پہلا سالانہ جلسہ تھا جس میں 75؍احباب شامل ہوئے تھے۔ ‘‘
(تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ 440)
مذکورہ کتاب ’’آسمانی فیصلہ‘‘ سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسہ کے بعد جنوری 1892ء میں شائع کی۔ کتاب کے شروع میں آپ نے اُن خوش نصیب 75؍احباب کے نام بھی درج فرمائے جو جلسہ میں شامل ہوئے تھے اور کتاب کے آخر میں آپؑنے اُنہیں اِن الفاظ میں دُعا دی
’’ اور اب جو 27 دسمبر 1891ء کو دینی مشورہ کے لئے جلسہ کیا گیا، اِس جلسہ پر جس قدر احباب محض للہ تکلیف سفر اُٹھا کر حاضر ہوئے خدا اُن کو جزائے خیر بخشے اور ان کے ہریک قدم کا ثواب اُن کو عطا فرماوے۔ آمین ثم آمین۔‘‘
(آسمانی فیصلہ،روحانی خزائن جلد 4، صفحہ353)
اِسی کتاب یعنی ’’آسمانی فیصلہ‘‘ کے آخر پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے احبابِ جماعت کو ’اطلاع‘ کے عنوان سے آئندہ ہر سال ماہ دسمبر میں سہ روزہ جلسہ کے انعقاد کی خبر دیتے ہوئے جلسہ میں حاضر ہونے کی نصیحت فرمائی ۔ آپ نے فرمایا
’’قرین مصلحت معلوم ہوتا ہے کہ سال میں تین روز ایسے جلسہ کے لئے مقرر کئے جائیں جس میں تمام مخلصین اگر خدا تعالیٰ چاہے بشرط صحت و فرصت و عدم موانع قویّہ تاریخ مقرر پر حاضر ہوسکیں۔سو میرے خیال میں بہتر ہے کہ وہ تاریخ 27 ؍ دسمبرسے 29 دسمبر تک قرار پائے یعنی آج کے دن کے بعد جو تیس دسمبر 1891ء ہے آئندہ اگر ہماری زندگی میں 27 دسمبر کی تاریخ آجاوے تو حتی الوسع تمام دوستوں کو محض للہ ربانی باتوں کے سننے کے لئے اور دعا میں شریک ہونے کے لئے اس تاریخ پر آجانا چاہئے۔‘‘
اس کے بعد جلسہ سالانہ 1892ء سے چند روز قبل یعنی ماہ دسمبر 1892ء کے شروع میں آپؑنے ایک اشتہار شائع فرمایا جس میں آپؑنے 27 دسمبر 1892ء کو قادیان میں منعقد ہونے والے جلسہ کی یاد دہانی کرواتے ہوئے احباب کو اس میں شامل ہونے کی نصیحت فرمائی۔ آپ نے فرمایا
’’ بخدمت جمیع احباب مخلصین التماس ہے کہ 27 دسمبر 1892ءکو مقام قادیان میں اس عاجز کے محبّوں اور مخلصوں کا ایک جلسہ منعقد ہوگا۔ اس جلسہ کے اغراض میں سے بڑی غرض تو یہ ہے کہ تا ہر ایک مخلص کو بالمواجہ دینی فائدہ اُٹھانے کا موقع ملے اور ان کے معلومات وسیع ہوں اور خدا تعالیٰ کے فضل و توفیق سے ان کی معرفت ترقی پذیر ہو … سو لازم ہے کہ اس جلسہ پر جو کئی بابرکت مصالح پر مشتمل ہے ہر ایک ایسے صاحب ضرور تشریف لاویں جو زادِ راہ کی استطاعت رکھتے ہوں … اللہ اور اس کے رسول کی راہ میں ادنیٰ ادنیٰ حرجوں کی پرواہ نہ کریں۔ خدا تعالیٰ مخلصوںکو ہریک قدم پر ثواب دیتا ہے اور اس کی راہ میں کوئی محنت اور صعوبت ضائع نہیں ہوتی۔ ‘‘
(اشتہار 7 دسمبر 1892ء، مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ340، 341)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز پر لبّیک کہتے ہوئے 327 عشاقِ مسیح، ماہ دسمبر میں جلسہ میں شمولیت کی خاطر قادیان دارالامان میں جمع ہوگئے۔ اس جلسہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پہلے روز پہلی اور دوسری دونوں نشستوں میں حاضرین سے خطاب فرمایا اور دوسرے روز مجلس شوریٰ کے اجلاس میں آپؑکی موجودگی میں متعدد اہم فیصلے ہوئے۔ خیال رہے کہ یہ جلسہ دو روزہ تھا۔
جلسہ سالانہ کا سال بہ سال ترقی کرنا ایک لازمی امر تھا کیونکہ سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر اس کی ترقی اور وسعت کی خوشخبری عطا فرمادی تھی۔پہلے اور دوسرے جلسہ سالانہ کی حاضری کا ذکر ہوچکا ہے۔1907ء کا جلسہ سالانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کا آخری جلسہ سالانہ تھا۔ اس کی حاضری 3000 تھی۔ یعنی پہلے جلسہ کے مقابل پر 40 گنا زیادہ ۔
1914ء کا جلسہ سالانہ سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خلافت کا پہلا جلسہ سالانہ تھا۔ اس کی حاضری تقریباً 4000 تھی۔ مرد 3500 اور خواتین کی تعداد 400 سے زیادہ تھی۔ 1964ء کا جلسہ سالانہ آپؓکی خلافت کا آخری جلسہ تھاجو کہ ربوہ میں ہوا تھا اس کی حاضری ایک لاکھ (100000)تھی۔
1983ء میں منعقد ہونے والا جلسہ سالانہ، ربوہ کا آخری جلسہ سالانہ تھا۔ اس کی حاضری دو لاکھ پچھہتّر ہزار (275000) سے زیادہ تھی۔گویا پہلے جلسہ سالانہ کے مقابلہ میں یہ حاضری تین ہزار چھ سو چھیاسٹھ (3666) گنا زیادہ تھی۔ ( تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ 445 تا 448 )
سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اشتہار 7؍ دسمبر 1892ء میں جہاں جلسہ سالانہ کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی ہے وہاں آپ نے جلسہ سالانہ کے متعلق عظیم الشان پیشگوئیوں کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ مثلاً آپ نے فرمایا’’خدا نے اس کے لئے قومیں تیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آملیں گی‘‘۔
یہ کتنی عظیم الشان پیشگوئی تھی جو بڑی صفائی کے ساتھ آج پوری ہورہی ہے اور آئندہ بھی ہوتی چلی جائے گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں
(1) یورپ اور امریکہ کے سعید لوگ اسلام کے قبول کرنے کے لئے تیار ہورہے ہیں… سو بھائیو یقیناً سمجھو کہ یہ ہمارے لئے ہی جماعت طیار ہونے والی ہے ۔ خداتعالیٰ کسی صادق کو بے جماعت نہیں چھوڑتا ۔ انشاءاللہ القدیر سچائی کی برکت ان سب کو اس طرف کھینچ لائے گی۔ خدا نے آسمان پر یہی چاہا ہے اور کوئی نہیں جو اس کو بدل سکے۔ (2) اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں ۔ یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے۔ (3) اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے۔ اور اس کے لئے قومیں تیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آملیں گی کیونکہ یہ اُس قادر کا فعل ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیشگوئیاں بڑی شان کے ساتھ آج پوری ہورہی ہیں اور آئندہ اس سے بھی زیادہ شان اور شوکت کے ساتھ پوری ہوتی چلی جائیں گی کیونکہ یہ جاری پیشگوئیاں ہیں۔
جلسہ سالانہ قادیان، جس میں صرف ہندوستان کے مختلف علاقوں سے 75عشاق مسیح حاضر ہوئے تھے، آج انٹرنیشنل جلسہ بن چکا ہے۔ اللہ کے فضل سےدُنیا کے بیسیوں ممالک سے لوگ انتہائی شوق کے عالم میں مسیح الزمان کی پاک بستی کے دیدار اور جلسہ سننے کے لئے قادیان دارالامان تشریف لاتے ہیں اور وہ حاضری جو پہلے جلسہ میں صرف 75 تھی اب ہزاروں میں پہنچ چکی ہے الحمدللہ ۔ اللہ کے فضل سے اب پوری دُنیا میں کثرت کے ساتھ جلسے منعقد ہوتے ہیں۔ ان جلسوں میں غیر احمدی اور غیر مسلم احباب بھی شامل ہوتے ہیں۔جلسہ کے رُوحانی ماحول سے وہ بے حد متاثر ہوتے ہیں۔ اور اگر جلسہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنفس نفیس شریک ہوں تو پھر حضور کے خطابات، حضور کے دیدار اور حضور کی ملاقات کا مہمانوں پر بہت ہی قوی اور معجزانہ اثر ہوتا ہے۔ جلسہ سالانہ برطانیہ 2017 ء میں شامل ہونے والے فقط دو مہمانوں کے تأثرات بیان کرکے ہم اپنی گفتگو کو ختم کرتے ہیں۔
ز جلسہ کا ماحول بہت روحانی تھا،خدمت کرنے والوں میں کون سی روحانی طاقت تھی جو ہر وقت ان کو اس مشقت کو بخوشی برداشت کرنے اور لطف اٹھانے اور اپنی ڈیوٹی پر مستعد رہنے پر تیار کرتی تھی۔ یقیناً یہ وہ روحانی طاقت تھی، جو اَب اس دنیا میں جماعت احمدیہ کے علاوہ اور کہیں نہیں ملتی، حضور انور کی عظمت کا اندازہ نہیں لگا سکتا۔ حضور انور سے ملاقات کرکے ایک پیار، محبت اور روحانی طاقت عطا ہوتی ہے۔ میرے لئے حضور سے ملاقات ایک ناقابلِ یقین تجربہ ہے۔ حضورانور کے خطابات عصرِ حاضر کے مسائل کا بہترین حل ہیں۔ (ہنگری کے ایک پروٹسٹنٹ چرچ کے پادری Gabor Tamas صاحب کا تأثر)
ز مَیں نے اس جلسہ کے ذریعہ اسلام کی نئی تصویر دیکھی ہے۔ مسلمانوں کی ایسی جماعت دیکھی جو باہمی محبت و الفت میں بے مثال ہے،جو اپنے ایمان کی عملی تصویر پیش کرتی ہے۔مَیں واپس جاکر اپنے حلقۂ احباب اور طلبا کو بتاؤں گا کہ جماعت احمدیہ اسلام کی حقیقی اور خوبصورت تعلیمات کو عملی طور پر پیش کرتی ہے۔ اور جو حقیقتاً اپنے ماٹو ’’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘‘ پر عمل پیرا ہے۔ (کوسٹاریکا کی نیشنل یونیورسٹی کے پروفیسر Sergio Moya صاحب کا تاثر )
سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں
’’جلسہ خاموش تبلیغ کا ذریعہ بن جاتا ہے۔یا ماحول جو ہے، وہ تبلیغ کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ تقریریں جو ہیں وہ تبلیغ کا ذریعہ بن جاتی ہیں اور لوگوں کے دلوں پہ اثر ڈالتی ہیں۔ اس لئے ہر احمدی کو اپنے عمل کو اس طرح بنانا چاہئے کہ غیروں پر بہترین اثر کرے۔ صرف دکھانے کے لئے نہیں بلکہ حقیقت میں ہمارا ہر عمل ہمارے دل کی آواز ہو، ہمارے عقیدے کی آواز ہو۔‘‘
(خطبہ جمعہ 9 ستمبر 2016بمقام فرینکفرٹ ،جرمنی)
اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔