ارشادات عالیہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام
جن کا یہ گمان ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر گئے ان کے ہاتھ میں کوئی دلیل نہیں بلکہ وہ جھوٹ بولتے ہیں۔
وہ خود یہ بات تراشتے ہیں۔ اس بارہ میں کوئی آیت اور حدیث پائی نہیں جاتی اور نہ اس بات کو عقل سلیم قبول کرتی ہے۔
کہتے ہیں کہ مسیح دوسرے آسمان پر اٹھا لیا گیا اور اس کی جگہ ایک دوسرا شخص سُولی دیا گیا۔ اس جھوٹ کو دیکھو جو انہوں نے تراشا ہے۔
کیا وہ اس واقعہ کے وقوع کے وقت حاضر تھے؟ یا اس کو قرآن اور حدیث میں دیکھا ہے؟ ہرگز ایسا نہیں ۔بلکہ خدا اور اس کے رسول پر
افترا کرتے ہیں اور نہیں ڈرتے اور اپنے دل میں نہیں سوچتے۔ عقل اس قصّہ کے مخالف ہے اور عقلمند ہرگز اس کی تصدیق نہیں کرتے۔
’’ اے دشمنوں کے گروہ! کیا کچھ آرزو تمہارے دل میں باقی ہے جو چاہتے ہو کہ پھر دوسری دفعہ میرے جیسے دوسرے شخص کی تکفیر اور تفسیق کرو اور اس کو ستائو حالانکہ تمہاری زبانوں اور تمہاری قلموں اور تمہارے فریبوں نے اس بات پر گواہی دے دی کہ تم نے میرے حق میں وہ سب کچھ پورا کر لیا ہے جس کا سورۃ فاتحہ میں اشارہ ہے۔ پس اے انتظار کرنے والو دوسرے مسیح پر رحم کرو اور اس عزت اور احترام سے اس کو معاف رکھو۔ کیا اتنے سے تمہارا پیٹ نہیں بھرا ؟کیا چاہتے ہو کہ مسیح ابن مریم آسمان سے نازل ہو اور اس سے وہی کرو جو اس سے پہلے یہودیوں نے اس کے ساتھ کیا اور اس طرح اس پر دو مصیبتیں اور دو تکفیریں اور دو ذلتیں جمع ہو جائیں اور دو لعنت بلکہ تین لعنت کا مزہ چکھے[ترجمہ ۔ ارشاد الٰہی غَیْرِالمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ کے مفہوم سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسیح موعود کے لئے یہ مقدر تھا کہ ان پر وہ لوگ لعنت کریں گے جو لاعلمی سے یہ کہتے ہیں کہ ہم وہ مسلمان ہیں جن پر اللہ غضبناک ہوا جس طرح یہود پر ہوا تھا۔پس اگر ہم یہ فرض کریں کہ مسیح موعود وہی مسیح ہے جس پر انجیل اتاری گئی تو اس صورت میں اس پر تین لعنتیں جمع ہو جائیں گی۔ یہو د کی طرف سے لعنت اور نصاریٰ کی طرف سے لعنت اور ان مسلمانوں کی طرف سے لعنت جو اس کے نزول کے وقت اس کی تکفیر اور تکذیب کریں گے ۔ گویا کہ نزول عیسیٰ کا راز لعنت کے معاملہ کی تکمیل اور مسلمانوں کو ان لوگوں میں شامل کرنا ہے جو لعنت کرتے ہیں۔] اور خدا اس پر ہرگزیہ تین لعنتیں جمع نہیں کرے گا جیسا کہ تم گمان کرتے ہو۔ اور ایک مسیح تو تمہیں میں سے تمہارے پاس آچکا اور تم نے اس پر وہ پیشگوئی پوری کر دی جو سورۃ فاتحہ میں تھی۔ پس وہی مسیح موعود ہے جس پر وہ پیشگوئی پوری ہو گئی۔ کہیں گے کہ ہم پوری خاکساری اور عاجزی سے اس کے پاس حاضر ہوں گے پھر کیونکر ہو سکتا ہے کہ ہم اسے کافر کہیں اور ستائیں حالانکہ ہم اس پر ایمان لائیں۔ کہہ دے کہ یہ خدا کی تقدیر ہے جو تمہارے میں سے ایک گروہ کی نسبت سورۃ فاتحہ میں لکھی گئی ہے۔ اور خدا کی تقدیر کبھی نہیں بدلتی۔ اے حدیث کی پیروی کرنے والو! کیا اب فاتحہ کو نہیں پڑھتے اور تم تو اس پر بہت اصرار کیا کرتے تھے۔ آج فاتحہ تم سے دشمنی کرتی ہے اور تم اس سے کرتے ہو اور اس کا التزام تمہاری جان پر سخت عذاب ہو گیا ہے۔ گویا کہ وہ ایک ناگوار گھونٹ ہے جسے نگلنا چاہتے ہو لیکن نگل نہیں سکتے۔ اور امید ہے کہ اب اس کے بعد تم اس سورۃ کو بغیر دَرد و اَلمَ کے نہ پڑھو گے اور جب غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ کا لفظ پڑھو گے تو تم کو اپنے اوپر سخت غصہ آئے گا اور پچھتاؤ گے اور جس وقت اسے پڑھو گے تمہاری جان اس سے سخت عذاب محسوس کرے گی۔ اس وقت تمہارے دل حسرت کی آگ سے کباب ہوں گے اور اکثر چاہو گے کہ کاش کہ ہم سورۃ فاتحہ کا پڑھنا چھوڑ دیتے۔
اَلْبَابُ الرَّابِعُ
جن کا یہ گمان ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر گئے ان کے ہاتھ میں کوئی دلیل نہیں بلکہ وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ کیا یہ بات خدا نے قرآن میں لکھ دی ہے اس لئے اس کی پیروی کرتے ہیں یا یہ بات رسول نے کہی ہے۔ پس وہ بھی کہتے ہیں۔ ہرگز ایسا نہیں ۔ بلکہ وہ خود یہ بات تراشتے ہیں۔ اس بارہ میں کوئی آیت اور حدیث پائی نہیں جاتی اور نہ اس بات کو عقل سلیم قبول کرتی ہے۔ اور کہتے ہیں کہ مسیح دوسرے آسمان پر اٹھا لیا گیا اور اس کی جگہ ایک دوسرا شخص سُولی دیا گیا۔ اس جھوٹ کو دیکھو جو انہوں نے تراشا ہے۔ کیا وہ اس واقعہ کے وقوع کے وقت حاضر تھے؟ یا اس کو قرآن اور حدیث میں دیکھا ہے؟ چاہیے کہ وہ مقام ہم کو بھی دکھلائیں اگر سچ کہتے ہیں۔ ہرگز ایسا نہیں۔ بلکہ خدا اور اس کے رسول پر افترا کرتے ہیں اور نہیں ڈرتے اور اپنے دل میں نہیں سوچتے۔ عقل اس قصّہ کے مخالف ہے اور عقلمند ہرگز اس کی تصدیق نہیں کرتے۔ کیونکہ وہ مصلوب شخص جو عیسیٰ کی بجائے سولی دیا گیا اگر وہ مومن تھا تو خدا نے کس طرح اسے چھوڑ دیا کہ وہ سُولی دیا جائے۔ حالانکہ تورات میں خدا نے فرمایا ہے کہ جو سولی دے کر مار دیا جائے وہ ملعون ہے۔ کیا خدا نے ایک ایسے بندہ کو ملعون کیا جس کی نسبت جانتا تھا کہ وہ مومن ہے۔ اس کی ذات ان باتوں سے پاک ہے جو وہ اس سے منسوب کرتے ہیں۔ اور خدا تورات میں ہر ایک مصلوب کو ملعون قرار دیتا ہے۔ اگرتم نہیں جانتے تو تورات والوں سے پوچھو۔ اور اگر وہ مصلوب شخص عیسیٰ کے دشمنوں میں سے تھا اور کافر تھا تو صلیب کے وقت کیوں چپ رہا اور اپنے آپ کو کیوں برَی نہ ثابت کیا اور اس کی بات کیوں پوشیدہ رہی۔ مصلوب صلیب پر تین دن تک بلکہ تین دن سے زیادہ تک زندہ رہ سکتا تھا۔ پس اِس قدر مہلت اس تحقیق کے لئے کافی تھی۔‘‘
(خطبہ الہامیہ مع اردو ترجمہ صفحہ 137تا141۔شائع کردہ نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان۔ربوہ)