متفرق مضامین

آزادکشمیراسمبلی کی جماعت احمدیہ کے خلاف حالیہ قرارداد پر تبصرہ

(اصغر علی بھٹی۔ نائیجر)

( اصغر علی بھٹی۔ نائیجر)

یہ اوائل1930ء کی بات ہے۔ لاہور کی سرزمین پر بریلویوں اور دیوبندیوں کا ایک یادگار مناظرہ ہونا طے پایا جس کے لئے حَکَم کے طور پر علامہ ڈاکٹر اقبال، پروفیسر اصغر علی روحی اور شیخ صادق حسن امرتسری بیر سٹرایٹ لاء جیسی قد آور شخصیات کے نام تجویز ہوئے جسے انہوں نے قبول کر لیا۔ دیوبندیوں کی طرف سے مولوی محمد منظور نعمانی اور بریلویوں کی طرف سے مولوی حامد رضا خاں(خلف اکبر مولوی احمد رضاخان) مناظرمقرر ہوئے۔

پو رے لاہور میں زور و شور سے اس مناظرے کے لئے تیاریاں جاری تھیں۔ اِرد گرد کے دیہات سے بھی علماء شہر میںپہنچ چکے تھے۔ہر مسجد میں مولوی حضرات اپنے اپنے فرقے کے لوگوں کے خون کوخوب گرما رہے تھے اور پیش وقت فتح کی نویدیں سنا رہے تھے۔ کتابوں کے چھکڑوں کے چھکڑے جمع ہو رہے تھے۔ گویا کہ ایک دنگل تھا جس کی تیار ی پوری حرارت کے ساتھ جاری تھی کہ اچانک بریلویوں کی طرف سے بلوہ کے خطرے کو بنیاد بنا کر معذرت کا اعلان کر دیا گیا۔

تصویر کا رخ بدل گیا۔ دیوبندی حضرات اِسے فتح مبین کے نام سے معَنْوَنْ کر کے فتح کے ڈھونگرے برسانے شروع ہو گئے۔ تو بریلوی حضرات اِسے گستاخانِ رسول کی حکومت سے ملی بھگت اور فسادی ہونے کی نوید سنانے لگ گئے۔اِس تمام ہنگامے میں مولوی منظور احمد نعمانی دیوبندی نے اپنا وہ بیان جو انہوں نے اِس مناظرے میں پڑھنا تھا تحریری شکل میں’’فیصلہ کن مناظرہ‘‘ کے نام سے شائع کر دیا۔ اور آغاز کے طور پر عقل اور عقل فہمی کے حوالے سے ایک دلچسپ تجزیہ پیش کیا۔

’بے چاری عقل کی بے عقلی اور اہل اللہ کی مخالفت‘

مولوی منظور نعمانی صاحب فرماتے ہیں

’’اس دنیا میں بعض واقعات اِس قدر عجیب و غریب اور بعید از قیاس ہوتے ہیں کہ عقل ہزار سرمارے مگر ان کی کوئی معقول توجیہہ کرنے سے عاجز ہی رہتی ہے ۔ … حضرات انبیاء علیہم السلام اور ان کی دینی دعوت کے ساتھ اُن کی قوموں نے عام طور پر جو سلوک کیا وہ بھی دنیا کے ایسے ہی عجیب و غریب اور بعید ازقیاس واقعات میں سے ہے۔خود اس دنیا کے پیدا کرنے والے اور چلانے والے خالق و پروردگار نے کتنے عجیب انداز میں اس پر حسرت کا اظہار کیا ہے۔یٰحَسْرَۃًعَلَی الْعِبَادِ مَایَاْتِیْہِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّاکَانُوْابِہٖ یَسْتَہْزِءُوْنَ۔(یٰس 31:) مثال کے طور پر صرف خاتم النبیین سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہی کی سرگزشت کو اِس نظر سے حدیث وسیر کی کتابوں میں دیکھ لیا جائے۔آپ مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے وہیں پلے بڑھے…بچپن ہی سے صورت میں دلکشی و محبوبیت اور عادات میں معصومیت تھی اِس لئے ہر ایک محبت و احترام کرتا تھا گویا آپ پوری قوم کو پیارے اور اُس کی آنکھ کے تارے تھے۔پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ اپنی قوم کو توحید اورا سلام کی دعوت دے۔ عقل کا فیصلہ اور قیاس کا تقاضا یہی تھا کہ پوری قوم جو پہلے سے آپ کی گرویدہ تھی اور آپ کو صادق و امین سمجھتی اور کہتی تھی وہ آپ کی اس دینی دعوت پر یک زبان ہو کر لبیک کہتی اور پروانہ وار آپ پر ٹوٹ پڑتی اور کم از کم مکّہ میں تو ایک بھی مکذّب اور مخالف نہ ہوتا۔ لیکن ہوا یہ کہ گنتی کے چند سعاد تمندوں کے سوا ساری قوم آپ کی تکذیب اور مخالفت پر متفق ہو گئی جو ہمیشہ سے صادق و امین کہتے رہے تھے وہی شاعر اور مجنون او ر ساحرو کذّاب کہنے لگ گئے۔ او ر آپ کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکانا اُن کا محبوب مشغلہ بن گیا۔بے چاری عقل حیران ہے ایساکیوں ہوا؟کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اِن دنوں مکّہ میں دماغوں کو خراب کر کے آدمیوں کو پاگل بنا دینے والی کوئی خاص ہوا چلی تھی جس کے اثر سے ساری قوم کی قوم پاگل ہو گئی تھی اور آپ کے ساتھ یہ جو کچھ اُس نے کیا وہ پاگل پن کی وجہ سے کیا۔

اِس کی دوسری مثال اُمّت میں لیجئے حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ،حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت علیؓ مرتضیٰ رضوان اللہ علیہم ۔یہ چاروں بزرگ رسول اللہ ﷺکے جلیل القدر صحابی ہیں اور اسلام اور پیغمبر اسلام کی تاریخ سے کچھ بھی واقفیت رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ اللہ و رسول کے ساتھ اُن کی وفاداری، ان کا اخلاص ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا تر ہے۔ لیکن غور کیجئے اس اُمّت کی تاریخ کا یہ کیسا عجیب و غریب اور ناقابل فہم واقعہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور ہی میں خود مسلمانوں میں ایسے مستقل فرقے پیدا ہوئے جن کی خصوصیت اور جن کا امتیاز صرف یہی ہے کہ ان کو رسو ل اللہ ﷺ کے ان جلیل القدر صحابہ کے ایمان ہی سے انکار تھا اور وہ معاذ اللہ ان کو کافرومنافق اور گردن زدنی کہنے پر مُصرّ تھے۔ اور اب تک بھی یہ فرقے دنیا میں موجود ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ مسلمانوں کا قدیم ترین فرقہ شیعہ کی خصوصیت اور اُس کا امتیاز ہی یہ ہے کہ حضرت ابوبکر ، عمر ،عثمان، کی عداوت و بد گوئی…اور ان پاک ہستیوں پر تبرّا بازی ان کا محبوب مشغلہ اور ان کے نزدیک کارِ ثواب ہے۔خلاف عقل مجادلانہ کج بحثیوں کو تو چھوڑ دیجئے اور پھر ٹھنڈے دل سے غور کیجئے کہ کیا کسی کی عقل بھی ان لوگوں کے اس طرز عمل کی کوئی معقول توجیہ کر سکتی ہے۔کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس فرقے والے سب پاگل اور عقل عام سے محروم ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ان میں بڑے بڑے تعلیم یافتہ بڑے بڑے دانشور اور ایک سے ایک ذہین و فطین ہر دور میں رہے ہیں اور آج بھی ہیں۔

یہی حال ان کے اصل حریف اور مدّ مقابل فرقہ یعنی خوارج و نواصب کا ہے۔ ان بدبختوں کے نزدیک سیدنا علی ؓ ایسے بددین، اس درجہ کے دشمن اسلام اور ایسے مجرم اور گردن زدنی تھے کہ ان کو ختم کر دینا نہ صرف کار ثواب بلکہ ان کے قاتل کے جنت میں پہنچنے کا یقینی ذریعہ تھا…شقی ابن ملجم سیدنا حضرت علی ؓ پر قاتلانہ حملہ کر کے گرفتار ہونے کے باوجود نعرے لگاتا تھا فزت و رب الکعبہ۔ …بتلائیے کہ عقل بیچاری اس گمراہی اور عقل باختگی کی کیا توجیہہ کرے؟…یہ فرقہ خوارج بھی پاگلوں اور ان پڑھ جاہلوں کا فرقہ نہ تھا بلکہ اُن میں بہت سے اچھے خاصے علم و فہم والے بھی تھے۔‘‘

(فیصلہ کن مناظرہ ،ص9تا14،زیر عنوان بریلی کا تکفیر فتنہ ماضی اور حال،ناشر دارا لانفاس کریم پارک3راوی روڈ لاہور)

پھر آپ نتیجہ کے طور پر اپنا فیصلہ سناتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آخر ایسا ہوتاکیوں ہے؟ آپ فرماتے ہیں

’’جب کوئی شخص حب مال یاحُبّ جاہ یا ایسے ہی کسی اور غلط جذبہ کے تحت کسی معاملہ میں اللہ کی ہدایت کی بجائے اپنے نفس کی خواہشات اور اپنے ذاتی جذبات و خیالات کی پیروی کا فیصلہ کر لیتا ہے تو کم از کم اس خاص معاملہ میں خدا ترسی، حق بینی کی صلاحیت اور فہم سلیم کی دولت اُس سے چھین لی جاتی ہے اور پھر بظاہر عقل و ہوش رکھنے کے باوجود اس سے ایسی ایسی حرکتیں سرزد ہوتی ہیں کہ عقل سلیم ان کی کوئی توجیہہ بھی نہیںکر سکتی ایسے ہی لوگوں کے متعلق قرآن کا بیان ہے’’ لَھُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَہُوْنَ بِھَاوَلَھُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِھَا وَلَھُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِھَا۔اُولٰٓئِکَ کَالْاَ نْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ‘‘

(فیصلہ کن مناظرہ،صفحہ15-14)

چند ہفتے قبل آخر کار وطن عزیز پاکستان میں مسلم لیگ نواز کی حکومت نے پاکستان میں سیالوی صاحب کے دربار پر اور آزاد کشمیر میں مُلّاں کے آستانے پر شریعت نافذ کرتے ہوئے جماعت احمدیہ کے حوالے سےمخالفت میں اُبال دے دیا۔ اس عظیم نفاذ شریعت کو دیکھتے ہوئے مشہور مذہبی سکالر اور کالم نگار جناب خورشید ندیم صاحب بھی کہہ اُٹھے ہیں کہ جناب شہباز شریف صاحب نے سیالوی صاحب کے گھٹنوں کو ہاتھ لگائے تو تب جا کر ہم جیسوں پریہ عظیم عقدہ وا ہوا ہےکہ سات دنوں میں شریعت کیسے نافذ ہوتی ہے؟

خاکسار نے وطن سے آنے والی اس خبر کو سنا تو مجھےدیوبندی دنیا کے سرتاج جناب مولوی منظور نعمانی صاحب کا ’’بے چاری عقل کی بے عقلی اور اہل اللہ کی مخالفت‘‘ کے حوالے سے دیا ہوا 1930ء کا مندرجہ بالا بیان یاد آگیا۔

آج مجھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ خدا ترسی اور فہم سلیم کی دولت کس کے نصیبے سے منہا ہو چکی ہے؟ حُبّ مال ، حُبّ جاہ اور نفسانی خواہشات کے دیوتا کہاں اور کس کے آنگن میں ننگا ناچنے میں مصروف ہیں؟اور نہ ہی یہ لکھنےکی ضرورت ہے کہ اللہ کی سرزمین پرکس کس کو اختیار ہے کہ وہ کسی کے کافر ہونے کا اعلان کرےاور کس کو اختیار ہی نہیں؟ اورمجھے یہ بھی نہیں یاد کرنا کہ کشمیر اور سر زمین کشمیر کے لئے جماعت احمدیہ کی کیاکیا خدمات ہیں اور آج اہالیان کشمیر نے کس نا سپاسی کا ارتکاب کرتے ہوئے اپنا نام محسن کشوں کی لسٹ میں کتنے نمبر پر لکھوالیا ہے؟ نہ ہی مجھے لکھنا ہے اور نہ ہی مجھے یاد کرنا ہے کیونکہ ایسی دنیا میں ایسا ہی ہونا چاہئے تھاور ایسا ہی ہوا۔ یہ ایک اَٹوٹ قانون قدرت ہے۔

جس ملک کا وزیر اعظم قومی اسمبلی کی کھڑکیاں بند کرکے چھپ کر لاکھوں لوگوں کے ایمان کا فیصلہ کر دیتا ہے مگر صرف چند دن بعد جب اس کے شراب پینے کے اعلان پر عدالت اس کی مسلمانی پر سوال اٹھا تی ہےتو چیخ اُٹھتا ہے کہ

’’ ایک اسلامی ملک میں ایک کلمہ گو کے عجز کے لئے یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہوگا کہ وہ یہ ثابت کرے کہ وہ مسلمان ہے …یہ ایک ہراساں کردینے والا مسئلہ ہی نہیں بلکہ ایک کربناک معاملہ بھی ہے۔یورلارڈ شپس یہ مسئلہ کیسے کھڑا ہوا ؟ آخر کس طرح ؟؟…خواہ کتنے ہی اعلیٰ عہدے پر کیوں نہ ہو لیکن دراصل اس معاملے میں دخل دینے کا کوئی استحقاق نہیں ہے …کسی فرد کسی ادارے اور کسی عدالتی بنچ کا یہ حق نہیں بنتا کہ و ہ ایک ایسے معاملے پر اپنی رائے دے جس پر رائے دینے کا اس کو کوئی حق حاصل نہیں۔ چونکہ انسان اور خدا کے درمیان کوئی بیچ کا واسطہ نہیں ۔ اللہ اور انسان کا معاملہ ہے اور اس کا فیصلہ خود وہ خدا روز حشر کرے گا۔مائی لارڈ!جیسا کہ مَیں اس سے پہلے کہہ چکا ہوں کہ ایک مسلمان کے لئے کافی ہے کہ وہ کلمے میں ایمان رکھتا ہو ۔ اس حد تک بات کی جا سکتی ہے کہ جب ابو سفیان مسلمان ہوا اور انہوں نے کلمہ پڑھا تو رسول اکرم ﷺ کے بعض صحابہ نے سوچا کہ اس کی اسلام دشمنی اتنی شدید تھی کہ شاید ابو سفیان نے اسلام کو محض اوپری اور زبان کی سطح پر قبول کیا ہو۔ لیکن رسول اکرم ﷺ نے اس سے اختلاف کیا اور فرمایا کہ جونہی اس نے ایک بار کلمہ پڑھ لیا تو وہ مسلمان ہو گیا‘‘۔

احسن اقبال صاحب ہو ں یا رانا ثناء اللہ صاحب، حامد زاہد صاحب ہوں یاذوالفقار علی بھٹو صاحب سبھی ایک وقت یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ جو اپنے منہ سے کلمہ پڑھ لے و ہ مسلمان ہے اسےکسی سے سرٹیفیکیٹ لینے کی ضرورت نہیں ’’خواہ کتنے ہی اعلیٰ عہدے پر کیوں نہ ہو لیکن دراصل اس معاملے میں دخل دینے کا کوئی استحقاق نہیں ہے …کسی فرد کسی ادارے اور کسی عدالتی بنچ کا یہ حق نہیں بنتا کہ و ہ ایک ایسے معاملے پر اپنی رائے دے جس پر رائے دینے کا اس کو کوئی حق حاصل نہیں۔ چونکہ انسان اور خدا کے درمیان کوئی بیچ کا واسطہ نہیں ۔ اللہ اور انسان کا معاملہ ہے اور اس کا فیصلہ خود وہ خدا روز حشر کرے گا‘‘۔ اور دوسرے لمحہ اسی منہ سے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ نہیں ہمیں اختیار ہے۔ ہم اللہ اور انسان کے درمیان کے ٹھیکیدار ہیں۔ احمدیوں کے لئے ہم روز حشر کا انتظار نہیں کر سکتے۔ ان کو اپنا کافر ہونا فوراًتسلیم کر لینا چاہئے کیونکہ ان کو ملک کی مقدس قومی اسمبلی نے دائرۂ اسلام سے خارج قرار دیا ہے۔

ایک طرف تو یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اس اسمبلی پر لعنت ہزار لعنت۔ یہ چوروں اور ڈاکوؤں کا مسکن ہے۔دوسری طرف کہہ رہے ہوتے ہیں کہ احمدیوں کو اپنا کافر ہونا تسلیم کر لینا چاہئے کیونکہ ان کو ملک کی، مقدس، قومی اسمبلی نے دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا ہے۔

ایک طرف کہہ رہے ہوتے ہیں کہ یہ مولوی ختم نبوت کا نام بیچ رہے ہیں۔ان مولویوں کی گھناؤنی اور مکروہ اخلاق باختہ اور غیر اسلامی حرکتوں اور جہاد افغان کے نام پر امریکہ سے ڈالرز لینے کا ذکر کرتے ہیں اور کسی کو حاجیوں کو لُوٹنےوالا بتا کر جیل میں ڈال رہے ہیں ۔ کہیں اسےمساجد میں بچوں سے بد فعلی کرنے والا بتا رہے ہیں تو کہیں پانچ پانچ چھ چھ سال کی بچیوں کا ریپسٹ (Rapist) اور قاتل دکھا رہے ہیں۔ مگر دوسرے لمحے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ احمدیوں کواپنا کافر ہونا تسلیم کر لینا چاہئے کیونکہ انہیں کو ملک کے علمائے کرام نے متفقہ طور پر دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا ہے۔

سچ ہی کہا تھا مولوی منظور نعمانی صاحب نے کہ’’جب کوئی شخص حُبّ مال یا حُبّ جاہ یا ایسے ہی کسی اور غلط جذبہ کے تحت کسی معاملہ میں اللہ کی ہدایت کی بجائے اپنے نفس کی خواہشات اور اپنے ذاتی جذبات و خیالات کی پیروی کا فیصلہ کر لیتا ہے تو کم از کم اس خاص معاملہ میں خدا ترسی، حق بینی کی صلاحیت اور فہم سلیم کی دولت اُس سے چھین لی جاتی ہے۔ اور پھر بظاہر عقل و ہوش رکھنے کے باوجود اس سے ایسی ایسی حرکتیں سرزد ہوتی ہیں کہ عقل سلیم ان کی کوئی توجیہ بھی نہیںکر سکتی۔ایسے ہی لوگوں کے متعلق قرآن کا بیان ہے’’ لَھُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَہُوْنَ بِھَاوَلَھُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِھَا وَلَھُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِھَا۔اُولٰٓئِکَ کَالْاَ نْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ‘‘

(فیصلہ کن مناظرہ،صفحہ15-14)

ایسے مفقود العقل اور مخبوط الحواس لوگوں سے بحث تو عبث اور بے فائدہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اَللّٰھُمَّ اہْدِ قَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ۔

مشہور کالم نگار جناب ہارون الرشید صاحب اپنے 8؍فروری 2018ءکےکالم’’ دین مُلّا فی سبیل اللہ فساد ‘‘ میں اپنے ایک مذہبی تنظیم کے اجتماع میں شمولیت کی داستان لکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مقرر نے حضرت عکرمہ بن ابو جہل کا قصہ بیان کیا کہ فتح مکہ کے بعد سمندر کا اُنہوں نےرخ کیا کہ دور دراز کی کسی زمین میں جا بسیں۔ کشتی کو طوفان نے آلیا تو مسافروں نے پروردگار کو پکارا یا اللہ یا اللہ۔ عکرمہ نے کہا کہ اپنے بتوں سے مدد کیوں نہیں مانگتے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے میں زمین و آسمان کے خالق کو ہی پکارا جاتا ہے ۔ آپ نے یہ سنا تو واپس لوٹ آئے۔ اپنے مرکزی خیال کو واضح کرنے کےبعد مقرر نے کہا کہ پاکستانی مسلمان مشرکین مکہ سے بھی بدتر ہیں۔ مصیبت اور موت میں بھی قبروں کو پکارتے ہیں۔مجھے یاد ہے کہ مشہور اہل حدیث مولوی جناب احسان الہی ظہیر صاحب نے بھی اپنی آ نکھیں بند کرنے سے پہلےپاکستان کے سواد اعظم کی تصویر کشی کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ

’’ان کے عقائد کا اسلام سے دور نزدیک کا کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ بعینہٖ وہی عقائد ہیں جو جزیرہ عرب کے مشرک اور بت پرست رسول اللہﷺ کی بعثت سے پہلے رکھتے تھے۔ بلکہ دور جاہلیت کے لوگ بھی شرک میں اس قدر غرق نہ تھے جس قدر یہ ہیں‘‘۔( البریلویہ صفحہ9)

بریلویوں کے امتیازی عقائد وہ ہیں جو دین کے نام پر بت پرستوں، عیسائیوں، یہودیوں اور مشرکوں سے مسلمانوں کی طرف منتقل ہوئے ہیں‘‘۔( البریلویہ صفحہ55)

’’کفار مکہ۔جزیرہ عرب کے مشرکین اور دَورِ جاہلیت کے بت پرست بھی ان سے زیادہ فاسد اور ردّی عقائد نہ رکھتے ہوں گے‘‘۔(البریلویۃ صفحہ65)

پاکستان کے انہیں درگاہوں کےمتولّی حضرات کاسات دن میں شریعت کے نفاذ کا دھمکی نما مطالبہ اور کشمیر اسمبلی میں جماعت احمدیہ کو کافر قرار دینے والے ان ’’ عظیم مسلمانوں ‘‘کو تاریخ کس لقب سے یاد کرے گی؟ وہ ایک مستقبل کا ملگجا ہے۔ مگر جناب مودودی صاحب جو ساری عمر انقلاب اسلامی کے لئے ’صالحین‘ کی فوجیں تیا ر کرنے میں ماہی بے آب کی طرح تڑپتے رہے۔ مگراپنی عمر رفتہ کے ساتھ ایک ڈھلتی شام اپنی ناکامیوں اور اپنی قوم کا نوحہ کہتے ہوئے دل کےکرب کوچھپا نہ سکے اور چیختے ہوئے گویا ہوئے

’’لوگ اسلام سے انحراف کرنے ہی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ ان کا نظریہ اب یہ ہو گیا ہے کہ مسلمان جو کچھ بھی کرے وہ اسلامی ہے۔ حتیٰ کہ وہ اگر اسلام سے بغاوت بھی کرے تو وہ اسلامی بغاوت ہے ۔ یہ سودی بینک کھولیں تو اس کا نام اسلامی بینک ہوگا ۔ یہ انشورنس کمپنیاں قائم کریں گے تو وہ اسلامی انشورنس کمپنی ہو گی۔ یہ جاہلیت کی تعلیم کا ادارہ کھولیں تو وہ مسلم یونیورسٹی ، اسلامیہ کالج یا اسلامیہ سکول ہوگا۔ ان کی کافرانہ ریاست کو اسلامی ریاست کے نام سے موسوم کیا جائے گا ۔ ان کے فرعون اور نمرود اسلامی بادشاہ کے نام سے یا دکئے جائیں گے۔ ان کی جاہلانہ زندگی اسلامی تہذیب و تمدن قرار دی جائے گی۔ ان کی موسیقی و مصوری اور بت تراشی کو اسلامی آرٹ کے معزز لقب سے ملقب کیا جائے گا۔ حتیٰ کہ یہ سب سوشلسٹ بھی ہو جائیں تو مسلم سوشلسٹ کے نام سے پکارے جائیں گے۔ ان سب ناموں سے آپ آشنا ہو چکے ہیں اب صرف اتنی کسر باقی ہے کہ اسلامی شراب خانے ، اسلامی قحبہ خانے ،اور اسلامی قمار خانے جیسی اصطلاحوں سے آپ کا تعارف ہو جائے‘‘

(مسلمان اور سیاسی کشمکش حصہ سوئم طبع اول صفحہ 26)

مودودی صاحب تو ڈھلتی عمر کے ساتھ اپنا بوجھ میاں طفیل صاحب کے کندھوں پر ڈال کر عازم امریکہ اور پھر وہیں سے راہی عدم ہو گئے ۔ مگرمیاںطفیل صاحب نے جو سرمایہ پیچھے چھوڑا اسے واقعی یہ حق حاصل تھا کہ وہ دوسروں کے ایمان تو کیا زندگیوں کے فیصلوں کے بھی مجاز مطلق ہوں ۔قوم کی مخبوط الحواسی کا ٹمپریچر بتاتے ہوئے میاں طفیل صاحب نے اپنے عاقبت نامہ کو یوں پڑھا تھا

’’قوم میں کس پراسلام لایا جائے؟کس پر اسلام نافذ کیا جائے؟قوم کا اس وقت کیاحال ہے؟کیا آپ نہیں جانتے…امر واقعہ یہ ہے کہ یہ قوم تو بالکل سڑگئی ہے۔ پیسے بغیر کوئی ووٹ دینے کے لیے تیار نہیں۔کوئی ناچ رہا ہو، کوئی زانی زنا کررہا ہو،کسی کو پرواہ نہیں۔ پیسہ ہوتو وہ لیڈربن جائے گا۔کسی کو امانت اور دیانت کی کوئی پرواہ نہیں نہ ضرورت۔ جتنا بڑا کوئی رشوت خور ہو،جتنا بڑا کوئی بددیانت ہو،جتنا بڑا کوئی سمگلر ہو،زانی ہو،بدمعاش ہو، اس کو ووٹ دیں گے۔اب آپ ہی بتائیں کس پراسلام نافذ کیا جائے؟۔آپ کے علماء کا کیا حال ہے؟ایک حلوے کی پلیٹ کسی مولوی صاحب کو کھلادیں جوچاہے فتویٰ لے لیں۔ ہر مولوی دوسرے کوکافر بنا رہاہے۔جماعت اسلامی50سالوں سے کام کررہی ہے۔مولانا مودودی جیسا شخص اس قوم کے واسطے سر کھپاتا رہا۔گیارہ کروڑ کی آبادی میں سے اس وقت بھی 5ہزار جماعت اسلامی کے ارکان ہیں وہ بھی چھوٹی برادریوں اور ذاتوں کے تعلق رکھنے والے یا دفتروں کے چپڑاسی۔ کوئی قابل ذکرآدمی جماعت اسلامی کے ساتھ نہیں‘‘۔

(بیدار ڈائجسٹ اگست1990ء صفحہ9۔ضیاء الحق شہید نمبر)

بقول مولانا عبدالماجد دریاآبادی ایڈیٹر صدق جدید وخلیفہ مجاز اشرف علی تھانوی

’’مبارک ہے وہ دین کا خادم جو تبلیغ واشاعتِ قرآن کے جرم میں قادیانی یا احمدی قرار پائے‘‘۔

(صدق جدید22دسمبر1961ء)

اوربقول مشہور عالم دین اور جماعت اسلامی کےسابقہ عہدیدارجناب مولوی عبد الرحیم اشرف مدیر المنبرلائل پور

’’ہر وہ چیز جو انسانیت کے لیے نفع رساں ہو اسے زمین پر قیام وبقا ہوتا ہے۔قادیانیت میں نفع رسانی کے جو جوہر موجود ہیں ان میں اوّلین اہمیت اُس جدوجہد کو حاصل ہے کہ جواسلام کے نام پر وہ غیر ممالک میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔یہ لوگ قرآن کو غیر ملکی زبانوں میں پیش کرتے ہیں۔تثلیث کو باطل کرتے ہیں۔ سید المرسلین کی سیرت طیبہ کو پیش کرتے ہیں۔ان ممالک میں مساجد بنواتے ہیں اور جہاں کہیں ممکن ہو اسلام کو امن وسلامتی کے مذہب کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔غیر مسلم ممالک میں قرآنی تراجم اور اسلام کی تبلیغ کاکام صرف اصول’’نفع رسانی‘‘کی وجہ سے قادیانیت کے بقا اور وجود کا باعث ہی نہیں ہے ظاہری حیثیت سے بھی اس کی وجہ سے قادیانیوں کی ساکھ ہے۔ایک عبرت انگیز واقعہ خود ہمارے سامنے وقوع پذیر ہوا۔ 1954ءمیں جب جسٹس منیر انکوائری کورٹ میںعلماء اسلامی مسائل سے دل بہلا رہے تھے اور تمام مسلم جماعتیں قادیانیوں کو غیر مسلم ثابت کرنے کی جدوجہد میں مصروف تھیں۔قادیانی عین انہیں دنوں ڈچ اور بعض دوسری غیر ملکی زبانوں میں ترجمہ قرآن مکمل کرچکے تھے اور انہوں نے انڈونیشیا کے صدر حکومت کے علاوہ گورنر جنرل پاکستان مسٹر غلام محمد اور جسٹس منیر کی خدمت میں یہ تراجم پیش کئے۔ گویا وہ بزبان حال وقال کہہ رہے تھے کہ ہم ہیں وہ غیر مسلم اور خارج از ملّت اسلامیہ جواس وقت جبکہ آپ لوگ ہمیں کافر قرار دینے کے لیے پر تول رہے ہو غیر مسلمانوں کے سامنے قرآن اُن کی مادری زبان میں پیش کررہے ہیں۔‘‘

(المنبر لائل پور2مارچ 1956ء صفحہ10)

بقول مولانا ارشد القادری ایڈیٹر جام نور جمشید پور بھارت

’’جماعت اسلامی جن لوگوں کو اسلام سے قریب تر کرتی ہے وہ ہزار بگڑنے کے باوجود کسی نہ کسی نہج سے اسلام کے ساتھ بہرحال کوئی تعلق رکھتے تھے لیکن قادیانی جماعت کا لٹریچر مغرب کے عیسائیوں کو جو اندر سے لے کرباہر تک اسلام کے غالی دشمن اور حریف ہیں۔انہیں اسلام سے قریب ہی نہیں کرتا اپنے طور پر اسلام کا کلمہ پڑھواتا ہے…یورپ،ایشیا،امریکہ اور افریقہ کے جن ملکوں میں قادیانی جماعت نے اپنے تبلیغی مشن قائم کئے ہیں۔جن کے ذریعہ وہ منظم طریقے پر بنام اسلام اپنے مذہب کا پیغام اجنبی دنیا تک پہنچا رہے ہیں کام کی وسعت کا اندازہ لگانے کے لیے صرف ان کے نام پڑھیے انگلینڈ۔ امریکہ۔ ماریشس۔ مشرقی افریقہ۔ مغربی نائیجیریا۔ انڈونیشیا۔ ملایا۔ اسپین۔ سوئٹزر لینڈ۔ ایران۔فلسطین۔ہالینڈ۔جرمنی۔جزائر غرب الہند۔ سیلون۔ بورنیو۔برما۔شام۔ لبنان۔ مسقط۔ پولینڈ۔ ہنگری۔ البانیہ۔ اٹلی۔

قادیانی جماعت کے تبلیغی سرگرمیوں اور دائر ہ عمل کی وسعتوں کا اندازہ لگانے کے لیے صرف اتنا معلوم کرنا کافی ہوگا کہ دنیا کی چودہ اجنبی زبانوں میں انہوں نے قرآن کریم کے تراجم شائع کئے ہیںان کی فہرست ملاحظہ فرمائیے

انگریزی۔ڈچ۔جرمنی۔سواحیلی۔ہندی۔گورمکھی۔ ملائی۔فینٹی۔انڈونیشین۔روسی۔فرانسیسی۔پرتگیزی۔ اطالوی۔ ہسپانوی‘‘۔(جماعت اسلامی صفحہ104و 106 -107 نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی کچا رشید روڈ بلال گنج لاہور)

(نوٹ یہ1977ء کی بات ہے۔اب تک 75 زبانوں میں مکمل تراجم قرآن کریم جماعت احمدیہ شائع کر چکی ہے اور مزید زبانوں میں تراجم کا کام جاری و ساری ہے۔ )

غالب مرزا حاتم علی بیگ مہر کو ایک خط میں لکھتے ہیں

’’ سنو صاحب ! شعراءمیں فردوسی،فقراءمیں حسن بصری اور عشاق میں مجنوں یہ تین آدمی تین فن میں سر دفتر و پیشوا ہیں ۔ شاعر کا کمال یہ ہے کہ فردوسی ہوجائے ۔فقیر کی انتہا یہ ہے کہ حسن بصری سے ٹکر کھائے اور عاشق کی نموو یہ ہے کہ مجنوں کی ہم طرحی نصیب ہو ‘‘

مولانا نیاز فتحپوری یہ عظیم فقرہ درج کرکے لکھتے ہیں ’’ اس میں اگر اضافہ کر دیا جائے کہ ایک صداقت پرست ، ایک حق شناس ،اور ایک بے لاگ تنقید کرنے والے کی انتہا یہ ہے کہ وہ کافر و مرتد بنا دیا جائے ۔ ملحد و بے دین کے نام سے پکارا جائے تو میرے لئے اس سے زیادہ فخر کا موقعہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ آج میں بھی اسی منزل میں ہوں اور ناشکری ہو گی اگر اس سے زیادہ کوئی اور سعادت طلب کروں۔ آج سےکئی صدی قبل جب قرآن کا مفہوم ایک مولوی کے مواعظ و ارشادات سے بلند تھا تب کفر اور الحاد کا مفہوم بھی کچھ اور تھا مگر آج غزالی اور رازی بھی زندہ ہوتے تو ان کا دامن بھی مولوی کے ہاتھ میں ہوتا۔لائو ساری دنیا کی بے دینی مجھے دے دو ،تمام عالم کا ارتداد میرے حوالے کردو اور کائنات کے ہر گوشے کا الحاد میرے قلب میںبھردو کہ اس دولت کے ساتھ تو مجھے جہنم بھی اس فردوس سے زیادہ عزیز ہے جہاں ایک مولوی مسلمان کو کافر بنائے بغیر نہیں جا سکتا۔‘‘

سابق وائس چانسلر جامعۃ اسلامیہ مدینہ منورہ جناب الشیخ عبد المحسن العباد صاحب نے ایک موقعہ پر فرمایا تھا کہ

’’ اگر دشنام طرازی اور سوقیانہ پن ہی روحانی عظمتوں کی دلیل ہو تو پھر ایسی روحانی عظمتوں کی حامل شخصیتیں عام بازار میں ایک ڈھونڈیں تو لاکھ ملتی ہیں ‘‘۔

احمدی جرائم

آج کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں ایک منہ زور وزیر اعظم جماعت احمدیہ پر تبرّا بازی کرتے ہوئے انہیں ملحد و کافربنانے میں مصروف تھا تو مجھے نیاز فتح پوری صاحب کا یہ نعرہ مستانہ جناب ثاقب زیروی صاحب کی آواز میں کشمیر کی وادیوں میںکچھ یوں گونجتا ہوا محسوس ہوا

میں فدائے دین ہُدیٰ بھی ہوں۔ در ِ مصطفےٰؐ کا گدا بھی ہوں

میری فرد جرم میں درج ہو میرے سر پر ہیں یہ گناہ بھی

سو آزاد کشمیر کے قانون ساز و ںکو ہمارا یہی جواب ہے کہ ہم مجر م ہیں، واقعی ہم مجرم ہیں اور ہمیں اپنے اسی جرم پر ناز ہے ۔جیساکہ بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا تھا۔

بعد ا ز خدا بعشق محمدؐ مخمرم

گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم

مشہور اہل حدیث عالم دین جناب عبدالغفور اثری صاحب مصنف حنفیت اور مرزائیت حضرت پیر غلام فرید صاحب آف چاچڑا ں شریف کے الفاظ میں احمدی جرائم کو یوں درج فرماتے ہیں

’’مرزا صاحب تمام اوقات خدا کی عبادت،نماز یا تلاوت قرآن شریف میں گزارتے ہیں۔اس نے دین کی حمایت میں کمر باندھی ہوئی ہے یہاں تک کہ اس دنیا کی ملکہ جو لندن میںرہتی ہے کو بھی دین محمدی ﷺ کی دعوت دی ہے اور روس فرانس وغیرہ کے بادشاہوں کو بھی اسلام کی دعوت دی ہے اور اس کی تما م محنت وکوشش یہی ہے کہ تثلیث اور صلیب کا عقیدہ مٹائے جو سراسر کفر ہے اور اللہ تعالیٰ کی توحید کو قائم کرے ۔علماء وقت کو دیکھو کہ مذاہب باطلہ کو چھوڑ کر ایسے شخص کے درپے ہوگئے ہیں جو بڑا نیک مرد اور اہل سنت وجماعت سے ہے اور صراط مستقیم پر ہے اور ہدایت کی تلقین کرتا ہے اس پر کفر کا فتوی لگا رہے۔اس کا عربی کلام دیکھو جس کا مقابلہ کرنا انسان کی طاقت سے باہرہے اور اس کی تمام کلام حقائق ومعرفت وہدایت سے بھری ہوئی ہے اور وہ اہل سنت وجماعت کے عقائد اور ضروریات دین کا ہرگزمنکر نہیں ہے‘‘۔(ارشادات فریدی حصہ سوم صفحہ69-70 مطبوعہ اگرہ1320ھ بحوالہ حنفیت اور مرزائیت از عبدالغفور اثری صفحہ48-49)

دوسرے مشہور دیوبندی عالم دین اور مرکزی راہنما تحفظ ختم نبوت موومنٹ جناب مولانا یوسف بنوری ایڈیٹر البینات احمدی جرائم کو یوں یاد کرتا ہے

’’قادیانی نہ صرف یہ کہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور کلمہ گو ہیں بلکہ انہوں نے اپنے نقطہ نظر کے مطابق ایک صدی سے بھی زیادہ مدت سے اپنے طریقے پر اسلام کی تبلیغ واشاعت کا جوکام خاص کر یورپ اورافریقی ممالک میں کیا اس سے باخبر حضرات واقف ہیں۔اور خود ہندوستان میں جو تقریباً نصف صدی تک اپنے آپ کو مسلمان اور اسلام کا وکیل ثابت کرنے کے لیے عیسائیوں آریہ سماجیوں کا انہوں نے جس طرح مقابلہ کیا تحریری اور تقریری مناظرے کئے وہ بہت پرانی بات نہیں…پھر ان کا کلمہ…ان کی اذان اور نماز وہی ہے جو عام امّت مسلمہ کی ہے۔ زندگی کے مختلف شعبوں کے بارے میں ان کے فقہی مسائل قریب قریب وہی پیش ہیں جو عام مسلمانوں کے ہیں۔ لیکن اثنا عشریہ(شیعہ) کا یہ حال ہے کہ ان کا کلمہ الگ ہے۔ان کا وضو الگ ہے۔ ان کی نماز اور اذان الگ ہے۔ زکوۃ کے مسائل بھی الگ ہیں۔نکاح اور طلاق وغیرہ کے مسائل بھی الگ ہیں حتیٰ کہ موت کے بعد کفن دفن اور وراثت کے مسائل بھی الگ ہیں‘‘۔


(ماہنامہ البینات کراچی جنوری فروری1988ء صفحہ96 )

ایک شیعہ ذاکراور عالم دین عرفان حیدری صاحب احمدی جرائم کی روداد پر یُوں سیخ پا ہے

’’ صرف قادیانیوں کے نام مسلمانوں جیسے نہیں ہوتے۔ ان کا کلمہ بھی مسلمانوں جیسا ہوتا ہے ٭ان کی آذان بھی مسلمانوں جیسی ہوتی ہے٭ ان کا فقہ بھی وہی جو سارے مسلمانوں کا اعظم فقہ ہے ٭ان کا طریق نماز بھی وہی ہے جو سارے مسلمانوں کا ہے ٭ان کا روزہ کھولنے کا وقت بھی وہی ہے ٭ان کی نماز بھی ویسی جو سارے مسلمانوں کا طریقہ نماز ہے ٭ان کے قرآن پڑھنے کا انداز بھی وہی جو سارے مسلمانوں کا انداز قراءت٭ان کا روزے کھولنے کا وقت بھی ویسا ۔ جو سارے مسلمانوں کا وقت ہے ٭ان کے ارکان حج بھی وہی جو سارے مسلمانوں کے ہیں٭ان کا نصاب زکوٰۃ بھی وہی جو سارے مسلمانوں کا ہے ٭ان کی توحید بھی وہی ۔ان کا لاالہ الا اللہ بھی وہی جو سارے مسلمانوں کا ٭ان کا خدا بھی تخت پر بیٹھتا ہے ٭ان کا خدا بھی مسکراتا ہے ان کا خدا بھی روتا ہےتوجب مسئلہ یہ ہے کہ مرزا غلام احمدنے کوئی نئی فقہ نہیںدیا اسی فقہ پر چل رہا ہے وہ بھی مقلد ہے۔وہی شریعت دے رہا ہے کوئی نئی شریعت نہیں لایا ۔وہی طریقہ نماز دے رہا ہے کوئی نیا طریقہ نماز نہیںلایا ۔وہی قرآن پڑھ رہا ہے کوئی نیا قرآن لے کر نہیں آیا۔اسی آیت سے استدلال کررہا ہے جس سے تمام مسلمان خاتم النبیین کا استدلال کرتے ہیں ۔اسی سورۃ سے استدلال کرتا ہے مَا کَانَ مُحَمَّدٌاَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖن(الاحزاب41:)۔ مرزا غلام احمد یہی کہتا ہے کہ میں کب خاتم النبیین کا انکا رکر رہا ہوں ۔ میں تو تمہارے ہی بتائے ہوئے طریقوںسے استدلال کر رہا ہوں۔ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء اگر انگوٹھی ہیں اس انگوٹھی کا نگین، خاتم میرا رسول ہے وہ میں بھی مانتا ہوں‘‘

(مولانا عرفان حیدری صاحب کی یہ ویڈیو تقریربر موضوع ’’شناختی کارڈ میں مذہب کا خانہ ضروری ہے‘‘ یُو ٹیوب ( youtube)پر Qadiyani And Non Qadiyani with Allama Irfan Haider Abidi part1,2,3 presented by shiamajlis موجود ہے۔اس تقریر کو شبیر کیسٹ ہاؤس نے ریکارڈ کیا ہے )

احمدیوں کو کافر کہنے والوں سے پھر سے کہتا ہوں کہ واقعتاً تمہیں احمدیوں کو اپنے سے ایسے ہی الگ کرنا چاہئے تھا کیونکہ عشق رسول ﷺ کے مخموروں اور قصور کے نعت خوانوں کی دنیا بھی اور ہے اور ان کے گناہ بھی اور۔ کرگس کا جہاں اور ہوتا ہے اور شاہین کا اور۔ جنگل میں ناچتے ہوئے مور اپنے پاؤں کو دیکھ کر کیوں روتا ہے وہ عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کی زبانی بھی سنئے

’’یہ اسلام جو تم نے اختیار کررکھا ہے کیا یہی اسلام ہے جو نبی نے سکھلایا تھا؟کیا ہماری رفتاروگفتار کردار میں وہی دین ہے جو خدا نے نازل کیا تھا؟یہ روزے اور نمازیںجو ہم میں سے بعض پڑھتے ہیںاس کے پڑھنے میں کتنا وقت صرف کرتے ہیں۔جومصلے پر کھڑا ہے وہ قرآن سنانا نہیں جانتا اور جو سنتے ہیں وہ نہیں جانتے کہ کیا سن رہے ہیں اور باقی23گھنٹے ہم کیا کرتے ہیں؟میں کہتا ہوں کہ گورنری سے لے کر گداگری تک مجھے ایک ہی بات بتلائو جو قرآن اور اسلام کے مطابق ہو۔ پھر میں کمیونزم سے کیوں لڑوں؟ہمارا نظام کفر ہے۔ قرآن کے مقابلے میں ہم نے ابلیس کے دامن میں پناہ لے رکھی ہے۔ قرآن صرف تعویذ اور قسم کھانے کے لیے ہے‘‘۔(احراری اخبار آزاد9دسمبر1949ء)

مسجد الحرام کے خطیب الشیخ محمد بن سبیل جن کے آقائوں نے جماعت احمدیہ کی عصمت و ایمان سے نمرودی خونی ہولی کھیلنے کے لئے دراہم و دینار میں ادائیگیاں کی تھیں وہ آج دامن پر لگے خونی دھبے دیکھ کر بیت اللہ شریف کے سایہ میں کھڑے ہوکر کہہ رہے ہیں۔

’’آج اکثر بلاداسلامیہ کے مسلمانوں کی کیفیت سخت الم انگیز ہے۔ مسلمان آنحضرتؐ اور صحابہؓ کی روش کا مخالف ہوچکا ہے۔کیا اکثرمسلمان ممالک میں ہمیں ایسے لوگ نظر نہیں آتے جو اسلام کی طرف منسوب ہوتے ہیں اور اپنے تئیں مسلم کہتے ہیں اور بایں ہمہ ان کا اسلام انہیں بڑے بڑے جرائم سے نہیں روکتا۔ان کا اسلام انہیںسُود اور لوگوں کے اموال کھانے اور فجور سے نہیں روکتا۔ ان کا اسلام انہیں کذب بیانی اور جھوٹی گواہی سے نہیں روکتا اور نہ ہی رقص گاہوں اور شراب خانوں سے منع کرتا ہے۔نہ اُن کا اسلام انہیں مسلمانوں کے معاملات میںدھوکا، چالبازی اور فریب دہی سے باز رکھتا ہے۔نہ ان کا اسلام انہیں نماز وروزہ کے چھوڑنے سے روکتا ہے ۔ وہ حق کو نفرت انگیز القاب کے ذریعہ بعض سادہ لوح لوگوں کے سامنے بدنما بتاتے ہیں۔اُن کا اسلام قرآن اور احادیث نبویہ کو پس پشت ڈال کر خودساختہ قوانین کے فیصلہ سے بھی انہیں نہیں روکتا۔ اور ان کا اسلام انہیں اس بات سے بھی نہیں روکتا کہ شریعت اسلامیہ کو عیوب اور نقائص کا تختہ مشق بنائیں۔وہ اشتراکی مذہب رکھتے ہیں۔وہ دہریوں کی مدد کرتے ہیں۔ اور خدا کے دین اور خدا کے مومن بندوں سے بیگانگی اختیار کئے ہوئے ہیں‘‘۔

(اخبار العالم الاسلامی 15شعبان1394ھ مطابق 3ستمبر 1974ء صفحہ13تا16)

آج کی تاریخ میںمولوی مخبوط الحواس نہ ہو تو کیا کرے۔ وہ مولوی جس کی برادر ی ،جس کی اولاد اور جس کی قوم سب ہی بقول مودوی صاحب مسلمان شرابی، مسلمان زانی، مسلمان جواری، مسلمان نمرود، مسلمان فرعون، مسلمان سودی ،مسلمان ڈاکو،مسلمان سوشلسٹ اور مسلمان مشرک بن چکی ہے۔

ایسے میں وہ شخص جو ’’تمام اوقات خدا کی عبادت، نماز یا تلاوت قرآن شریف میں گزارنے والا‘‘۔ ’’دین کی حمایت میں کمر باندھے ہوئے‘‘۔ ’’ جس کی تما م محنت وکوشش یہی ہے کہ تثلیث اور صلیب کا عقیدہ مٹائے جو سراسر کفر ہے اور اللہ تعالیٰ کی توحید کو قائم کرے‘‘۔ ’’بڑا نیک مرد اور اہل سنت وجماعت سے ہے اور صراط مستقیم پر ہے اور ہدایت کی تلقین کرتا ہے‘‘۔

ایسا شخص اور اس کی جماعت ان نام نہاد سرکاری مسلمانوں، شر پسند اور فتنہ انگیز مُلّانوں اور ان کے ہمنوا اور ہم قماش سیاستدانوں اور حکمرانوں کو زہر نہ لگے تو اور کیا لگے۔

اور اگر مذکورہ بالا صفات کے حامل عام مسلمان، اور ان کے مُلّاں و سیاستدان اور حکمران حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کی جماعت کو کافر قرار دیتے ہیں تو ان کے اس فتویٰ اور قانون کی اس دنیا میں بھی کسی صاحب عقل اور انصاف پسند کی نظر میں اخلاقی اور قانونی کسی پہلو سے بھی ایک کوڑی کی بھی حیثیت نہیں؟ اور عالم الغیب و الشہادہ خدا کے ہاں تو اس کی بالکل کوئی بھی حیثیت نہیں۔ واقعۃًکون مومن ہے اور کون کافر؟ اس کا فیصلہ تو اس احکم الحاکمین نے کرنا ہے جس کے حضور سب نے حاضر ہونا ہے اور جس کی ہر انسان کے پاتال تک نظر ہے اور وہ ہر ایک کی نیّتوں اور اعمال سے بخوبی واقف ہے۔

بات کو اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور مولانا جلال الدین رومی کے اقوال سےسمیٹتا ہوں۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا تھا ’’حق کا پرستار کبھی ذلیل نہیں ہوتا چاہے سارا زمانہ اس کے خلاف ہوجائے اور باطل کا پیروکار کبھی عزت نہیں پاتا چاہے چاند اس کی پیشانی پر نکل آئے‘‘۔اور حضرت مولانا جلال الدین رومیؒ کا قول ہے کہ ’’جس کے افعال شیطان اور درندوں جیسے ہوتے ہیں کریم لوگوں کے متعلق اسی کو بدگمانی ہوتی ہے‘‘۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button