متفرق شعراء
نظم
دل کی پاتال سے اٹھائی ہے
ہم نے جب بھی صدا لگائی ہے
زندگی اپنی کرکے اس کے نام
زندگی زندگی بنائی ہے
روحِ بیمار کا شفا پانا
پیرِ کامل کا دَم ، دوائی ہے
اک نظر ڈال کر ولی کرنا
اس کی ہی معجزہ نمائی ہے
منزلیں جو بھی ہم نے ماری ہیں
رہبرا ! تیری راہنمائی ہے
جو ادا کی تھی اوّلوں نے کبھی
رسم ہم نے بھی وہ نبھائی ہے
نام اپنا ہے باوفاؤں میں
عمر بھر کی یہی کمائی ہے
یہ مہک آسماں کا تحفہ ہے
جو مری روح میں سمائی ہے
ہم جو ٹھہرے ہیں وارثِ انعام
کھوئی میراث ہم نے پائی ہے
ہم نے جو مشعلیں جلائی ہیں
روشنی وہ حرا سے آئی ہے
آچکا ہے جو ، ماننے میں اُسے
خیر ہے سب ، ہر اِک بھلائی ہے
کل جو گمنام و بے ہنر تھا آج
اس کی شہرت جہاں پہ چھائی ہے
کہہ رہا ہے جو ’’ایک مردِ خدا‘‘
وہ تو نقارۂ خدائی ہے
ہم عجب ہیں ظفرؔ کہ خود ہم نے
ہر خودی خاک میں ملائی ہے
(مبارک احمد ظفرؔ)