افریقہ (رپورٹس)

نیوزی لینڈ کے شہر کرائس چرچ میں قرآن کریم کی کامیاب نمائش باوجود سخت مخالفت کے متعددافراد کی شرکت

(رپورٹ مبارک احمد خان)

نیوزی لینڈ کے لوگ یورپ کی طرح اسلام کے بارہ منفی خیالات رکھتے ہیں جس کی وجہ ان کے پادری اور متعصب میڈیا ہے۔ اس ماحول میں قرآن کریم کی نمائش کرنا اور یہاں کے عوام کو نمائش میں لانا جُوئے شیر لانے سے کم نہیں۔

جماعت احمدیہ قرآن کریم سے نہ صرف خود محبت کرتی ہے بلکہ ہمیشہ کوشش کرتی ہے کہ ہر ملک کے لوگ اس کی خوبصورت تعلیم کو جانیں اور اسے قبول کریں۔ اس مقصد کے حصول کے لئے جماعت احمدیہ نے سب سے پہلے قرآن کریم کے مختلف زبانوں میں تراجم کئے تا کہ مقامی لوگ اسے خود پڑھ کر سمجھ سکیں۔ نیوزی لینڈ جماعت نے بھی 2013 ءمیں ماؤری زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ مکمل کر لیا۔اور اس کے نسخے ماؤری لوگوں میں مفت تقسیم کئے ۔حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہٗ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے عظیم منصوبہ کے تحت، نیوزی لینڈ جماعت نے بھی قرآن کریم کی نمائش کا سلسلہ 2013ءسے شروع کیا اور اس وقت تک بارہ نمائشیں لگا چکی ہے۔

آغاز میں جماعت آکلینڈ شہر ہی میں نمائش لگاتی تھی لیکن حضور انور ایّدہٗ اللہ تعالیٰ کی ہدائت پر آکلینڈ کے قریب چھوٹے قصبوں میں نمائش شروع کی گئی جو کافی کامیاب رہی۔ چنانچہ مجلس انصاراللہ نے اگلی نمائش کرائس چرچ (Christchurch)میں لگانے کا فیصلہ کیا۔ یہ ایک غیر معمولی قدم تھا کیونکہ یہ شہر آکلینڈ سے ایک ہزار میل کے فیصلہ پر ہے۔وہاں پر قرآن کریم کےتراجم کے نسخے،باقی سامان اور مناسب تعداد میں احمدی احباب کو لے جانا ہماری چھوٹی سی جماعت کے لئے بہت مشکل نظر آ رہا تھا اوراخراجات بھی معمول سے کہیں زیادہ ہو نے کا اندازہ تھا۔ اس کے علاوہ اس شہر میں، جیسا کہ اس کے نام سے ہی پتہ چلتا ہے، لوگوں کو نمائش کے لئے آمادہ کرنا مشکل ترین کام تھا۔

لیکن ہمارا تجربہ ہے کہ جتنا مشکل کام ہو اتنی ہی زیادہ اللہ تعالیٰ کی نصرت ایسے کاموں کی تکمیل میں شامل ہو جاتی ہے۔ جماعت کی ورکنگ کمیٹی نے سیکرٹری تبلیغ مکرم مبارک منہاس صاحب کی قیادت میں میڈیا کے استعمال کی حکمت عملی اختیار کی۔ ایک تو فیس بُک پر اشتہار کے ذریعہ مقامی آبادی کو ٹارگٹ کیا گیا۔ اس سے2489 لوگوں تک پیغام پہنچا جن میں سے 173لوگوں نے مزید معلومات کے لئے رابطہ کیا۔ کچھ لوگوں نے اپنے تأثرات لکھے اور کچھ لوگوں نے اپنے آنے کی تصدیق کی۔ دوسرا طریق یہ استعمال کیا گیا کہ ای میل کے ذریعہ اہم شخصیات جیسے ممبران پارلیمنٹ، یونیورسٹی پروفیسرز اور چرچ لیڈرز(پادریوں) کو دعوت نامے ارسال کئے گئے۔ اس کے علاوہ بعض لوگوں کو فون کر کے دعوت دی ۔ اس کے علاوہ’’TheTrue Islam‘‘کی ویب سائٹ سے مقامی لوگوں کو مدعو کیا گیا۔ تقریب سے ایک ہفتہ پہلے میڈیا سے رابطہ کیا گیا۔اخبارات کے صحافیوں کو فنکشن کی اہم تفصیلات پریس ریلیز کی صورت میں ای میل کی گئیں اور ایڈیٹرز کو فون کر کے اس فنکشن کی اہمیت کے بارہ میں بتایا گیا۔ اس طرح نامور اخبارات نے دلچسپی لی اور اس تقریب کے بارہ میں آرٹیکل لکھے۔ نیوزی لینڈ کے جنوبی جزیرہ کے مشہور اخبار دی پریس (The Press) جس کی روزانہ تعداد اشاعت155000 سے زیادہ ہے، نے مولانا مستنصرقمر صاحب کا انٹرویو لیا اور تصویر کے ساتھ 12 فروری کو شائع کیا۔انہوں نے اس انٹرویو کی اہمیت کے پیش نظر اس کو آن لائن بھی شائع کر دیا۔ اسی طرح انڈین نیوز لنک نے بھی بہت اچھی کوریج دی۔

جمعرات 15 فروری،یعنی تقریب نمائش سے دو دن قبل، نیوزی لینڈ کے مشہور ریڈیو سٹیشن نیوز ٹاک زیڈ بی (Newstalk ZB )نے مولانا مستنصر قمر صاحب کابراہ راست انٹرویو لیا۔

اس میں اسلام کے بارہ میں سوالات کے جوابات دیئے گئے اور جماعت کا تعارف کروایا گیا۔ نیز قرآن کریم کی نمائش اور سیمینار کی تفصیلات بتانے کا موقع ملا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے توقع سے کہیں بڑھ کر پبلسٹی ہوئی۔ اور یہ سب اللہ تعالیٰ نے بالکل مفت میں کروا دیا۔ نمائش میں شامل ہونے والوں کی اکثریت اس میڈیا کوریج کی وجہ سے آئی۔

ان ذرائع سے جہاں عام پبلک کو قرآن کی اس نمائش کے بارہ میں معلومات موصول ہوئیں وہاں پر حاسد اور معاند لوگ بھی فعّال ہو گئے۔ انہوں نے فیس بک پر اس تقریب کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیا۔چند لوگوں نے تقریب کے خلاف احتجاج کرنے اور رکاوٹ ڈالنے کی دھمکیاں بھی دیں۔ حفاظتی اقدام کے طور پر پولیس کو مطلع تو کر دیا گیا لیکن ہمارا توکّل ہمیشہ سے دعا پر ہے کہ اللہ تعالیٰ خود حفاظت فرمائے گا۔ الحمد للہ کسی قسم کی کوئی پریشانی پیش نہیں آئی۔ کچھ شر پسند آئے ضرور لیکن سوالات پوچھ کر اور سیمینار سن کر چلے گئے۔ معلوم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے ان کی تسلی کردی اور جو غلط فہمیاں ان کے ذہن میں تھیں وہ دُور ہو گئیں۔

نمائش قرآن کریم کی تقریب کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا جو مکرم انس رحیم صاحب نے کی۔ اس کے بعد ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر ڈنکن ویب ( Dr. Duncan Webb )نے فیتہ کاٹ کر اس کا افتتاح کیا۔ڈاکٹر ڈنکن نے اسلامی تعلیمات کے کچھ خوبصورت پہلوؤں کے بارہ میں بات کی اور کہا کہ اخبارات میں جو یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام ایک انتہا پسند مذہب ہے، ہمیں ایسی باتوں پر یقین نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ ہمیں اس بات کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ آپ جیسے مسلمان جو ہماری کمیونٹی کا حصہ ہیں ایک امن پسند اسلام کی تعلیم کو پیش کر رہے ہیں۔

مکرم بشیر خان صاحب، نیشنل صدر جماعت احمدیہ نیوزی لینڈ، نے کہا کہ ہم یہاں پر قرآن کریم کی نمائش اس لئے کر رہے ہیں کہ عوام کو قرآن کریم کی خوبصورت تعلیم سے روشناس کروایا جائے تا کہ اسلام کے بارہ میں ان کی غلط فہمیاں دُور ہو جائیں۔

آپ کے بعد ممبر پارلیمنٹ پوٹو ولیمز(Poto Williams)نے اپنے ایڈریس میں محبت اور باہمی افہام و تفہیم کی اہمیت کی وضاحت کی اور کہا کہ ہمیں آپس میں محبت اور پیار سے رہنا چاہئے۔ بعد میں انہیں بتایا گیا کہ ہماری جماعت کا مشہور ماٹو ہے’’محبت سب کے لئے اور نفرت کسی سے نہیں‘‘ جو انہیں بہت پسند آیا۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے پارلیمنٹ کے ممبران، کونسلرز، مذہبی علماء اور مختلف پس منظر کے لوگوں سمیت 110 لوگ نمائش میں شرکت کے لئے آئے۔ ہال کو مختلف بینرز سے سجایا گیا تھا جن پر مختلف موضوعات کے متعلق اسلامی تعلیم اور قرآن کریم کی آیات کا ترجمہ درج تھا۔ ہال کے درمیان میں مختلف زبانوں میں تراجم قرآن کریم رکھے ہوئے تھے۔آنے والے ان کو بہت شوق سے دیکھتے اور پوسٹر پر دی ہوئی اسلامی تعلیم کے اقتباسات پڑھ کر بہت متأثر ہوتے۔ قرآن کریم کا ماؤری زبان کا ترجمہ خصوصی دلچسپی کا حامل رہا۔ بہت سے لوگوں نے اسلام میں عورتوں کے حقوق، دہشت گردی، انتہا پسندی اوراسلامی عقائد کے بارہ میں سوالات پوچھے۔

ہر دو گھنٹے کے وقفہ پر آنے والے لوگوں کے لئے ایک سیمینار کیا جاتا جس میں اسلامی تعلیم اور قرآن کریم کے بارہ میں اہم اعتراضات کی تفصیل بتائی جاتی۔ لوگوں کے سوالات کے تسلی بخش جواب دیئے جاتے۔

آنے والے لوگوں میں کچھ مقامی مسلمان بھی تھے جنہوں نے اس نمائش کو بہت سراہا۔ اسی طرح عیسائی اور دوسرے مذاہب کے لوگوں نے اس نمائش کے بارہ میں اچھے خیالات کا اظہار کیا۔ اکثر آنے والے افراد تعلیم یافتہ تھے۔کئی لوگ قرآن کریم اور کتب ’مسیح ہندوستان میں‘ (Jesus in India)، ’اسلامی اصول کی فلاسفی‘ اور احمدیت کے تعارف پر مشتمل جیسی کتب ساتھ لے کر گئے۔

نمائش میں آنے والے لوگوں کے تأثرات

ایک مسلم افغانی ٹیکسی ڈرایئورجو مکرم انس رحیم صاحب کو ایئرپورٹ چھوڑنے جا رہا تھا، نے پوچھا کہ وہ کس لئے یہاں آئے تھے؟ انس صاحب نے کہا کہ ایک نمائش کے لئے آیا تھا۔ ڈرائیور نے جھٹ کہا کہ قرآن کریم کی نمائش کے لئے؟ اور ساتھ ہی بتایا کہ مَیں نے اخبار میں اس بارہ میں پڑھا تھا۔ڈرائیور اس بات سے اتنامتأثر ہوا کہ اس نے انس صاحب سے ٹیکسی کا کرایہ لینے سے انکار کر دیا۔ اس نے کہا کہ آپ یہ بہت اچھا کام کررہے ہیں۔یہ میری طرف سے تحفہ سمجھیں۔اس نے انس صاحب کا فون نمبر لیا کہ وہ رابطہ میں رہنا چاہتا ہے۔

ایک شخص نے کہا کہ وہ اسلام میں کچھ عرصہ سے دلچسپی لے رہا تھا اور معلومات حاصل کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔ ایک دن ہمارا فیس بک پیج The True Islam سامنے آیا اور اس سے نمائش کا پتہ چلا۔ تب اس نےFollowکیا ۔ اس کے دوستوں نے اس کی مخالفت کی لیکن وہ اس کے باوجود آیا اور کتب لے کر گیا۔

دو نمائندے ثقافتی سنٹر Muticultural Learning Centre سے بھی آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے مولانا مستنصرقمر صاحب کو تحفہ دیا جو کہ ایک فریم کی ہوئی نظم تھی ۔ اس پر انگریزی، ماوری اور عربی میں لکھا ہوا تھا اور نیچے مولانا مستنصر قمر صاحب کا نام لکھا تھا۔جو شائد انہوں نے اخبار یا ریڈیو سے اخذ کیا تھا۔

اکثر لوگوں کو جب پتہ چلتا کہ یہ جماعت تعداد میں کم ہونے کے باوجود اس قدر بڑی نمائش ایک اعلیٰ پیمانے پر آرگنائز کر لیتی ہے تو بہت متاثر ہوتے۔

خدا کے فضل سے یہ ایک روزہ نمائش ہر لحاظ سے بہت کامیاب رہی اوربہت سے لوگوں کے اسلام اور قرآن کریم کے بارہ میں خدشات دور ہوئے اور احباب جماعت ایک نئی روح اور ولولے سے اگلی نمائش کی تیاریوں میں لگ گئے ہیں۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے اعلیٰ نیک مقاصد میں برکت عطا فرمائے اور آیندہ ہونے والے سب پروگرام بھی پہلے سے بڑھ کر کامیاب فرماتا رہے اور ان کے نیک اور شیریں ثمرات بھی عطا فرمائے۔ آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button