الفضل ڈائجسٹ
(مرتبہ محمود احمد ملک)
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔
مکرم بابومحمد بخش صاحب اور اُن کا خاندان
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 28 و 29؍جون 2012ء میں شاملِ اشاعت ایک مضمون میں محترم چوہدری حمید اللہ صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید ربوہ نے اپنے بزرگ والدین کا تفصیل سے ذکرخیر کیا ہے۔
آپ بیان کرتے ہیںکہ میرے والد محترم (بابو) محمد بخش صاحب 1895ء میں پیدا ہوئے اور نومبر 1983ء میں وفات پاکر بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں۔
ہمارے دادا مکرم فضل دین صاحب کی وفات 1909ء میں ہوئی۔ ایک صبح انہوں نے بہت خوشی سے ذکر کیا کہ رات مَیں نے خواب میں ایک بند عمارت دیکھی ہے۔ میں اُس کے اردگرد چکر لگا رہا ہوں لیکن اس کا دروازہ نہیں ملتا۔ بالآخر جب دروازہ مل جاتا ہے اور مَیں اندر داخل ہو جاتا ہوں تو کیا دیکھتا ہوں کہ سفید لباس میں ملبوس لوگ بیٹھے قرآن کریم کی تلاوت کر رہے ہیں۔ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ یہ کیا جگہ ہے؟ تو بتایا جاتا ہے کہ آپ بھی ایک ہفتہ بعد یہاں آجائیں گے۔ اس خواب میں اُن کے انجام بخیر کی خوشخبری تھی جس پر وہ بہت خوش تھے۔ اس خواب کے ایک ہفتہ کے بعد ان کی وفات ہو گئی۔
وفات سے پہلے انہوں نے اپنے تینوں بیٹوں کو الگ الگ اپنے پاس بلاکر کچھ بات کی۔ محترم والد صاحب چونکہ سب سے چھوٹے تھے، شادی بھی نہیں ہوئی تھی اور روزگار کی بھی کوئی صورت نہ تھی اور ہاتھ کچھ کھُلا بھی تھا۔ اس لئے آپ سے کہا کہ ’’مَیں تم کو اَدھ راہ میں چھوڑے جا رہا ہوں اور نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے پیٹ سے اُدھار کر لینا لیکن کسی سے اُدھار نہ لینا‘‘۔ (والد صاحب نے ہمیشہ اس نصیحت پر عمل کیا)۔
میرے والد محترم محمد بخش صاحب نے گورنمنٹ ہائی سکول بھیرہ سے آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ حافظہ غیرمعمولی تھا۔ جو تحریر ایک بار پڑھ لیتے وہ ذہن پر نقش ہوجاتی۔ ایک بار انسپکٹر سکول کے معائنہ پر آیا اور ان کی کلاس میں آکر یہ سوال کیا کہ بابر بادشاہ کی زندگی کا خلاصہ ایک فقرہ میں بتاؤ؟ آپ نے بابرؔ کے ہی اس قول کو بیان کردیا کہ’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘۔ (یعنی زندگی خوب اچھی طرح سے گزارو کیونکہ اس عالم میں دوبارہ نہیں آنا)۔
آپ کو اُردو کے علاوہ فارسی، عربی اور انگریزی زبان سے اچھی واقفیت تھی۔ صَرف اور نحو پر دسترس تھی اور دوسروں کو پڑھانے کا ہنر آتا تھا۔1911ء میں آپ نے لاہور سے Signaller کا کورس کیا۔ پھر Telegraphy کا بھی کورس کرلیا اور نہر لوئر جہلم سرکل میں بطور Signaller ملازم ہوگئے۔ یہ نہر منگلا ڈیم سے نکلتی ہے اور سرائے عالمگیر سے ہوتی ہوئی ہیڈ رسول پر آکر مختلف شاخوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ ربوہ کے قریب یکّو والے والی نہر، اس بڑی نہر کی آخری چھوٹی شاخوں میں سے ایک ہے۔ اس سرکل میں آپ مختلف مقامات پر بطور سگنلر کام کرتے رہے۔ ملازمت کے آخری سالوں میں آپ کا تقرّر سرگودھا میں بطور ہیڈسگنلر ہو گیا تھا۔ اور یہیں سے آپ 1945ء میں ریٹائرڈ ہوئے۔ اس وقت آپ سرگودھا میں جماعت کے سیکرٹری مال تھے اور بالعموم خطبہ جمعہ بھی دیا کرتے تھے۔
آپ کی شادی 1917ء میں اپنی تایازاد محترمہ عائشہ بی بی صاحبہ بنت مکرم عمر دین صاحب سے ہوئی۔ وہ 1901ء میں پیدا ہوئی تھیں اور ستمبر 1979ء میں بعمر 78 سال وفات پاکر بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہوئیں۔ خداتعالیٰ نے چار بیٹوں اور پانچ بیٹیوں سے انہیں نوازا۔
محترم محمد بخش صاحب نے 1929ء میں اُس وقت قبولِ احمدیت کا شرف پایا جب آپ بنگلہ بکھو والا ضلع سرگودھا میں متعیّن تھے۔ چند احمدی دوستوں کی تبلیغ پر حضرت مسیح موعودؑ کی کتابیں پڑھنا شروع کیں تو صداقت آشکار ہوگئی۔ پھر انہی دنوں ایک خواب بھی دیکھا جو ’’بشارات رحمانیہ‘‘ میں آپ کی تصویر کے ساتھ شائع شدہ ہے۔ خواب دیکھنے کے بعد آپ نے اپنی اور اپنی اہلیہ کی طرف سے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں بیعت کا خط ارسال کردیا۔
احمدی ہونے کے بعد آپ ایک مستعد داعی الی اللہ کی حیثیت سے ساری عمر احمدیت کا پیغام پہنچاتے رہے اور بہت سے لوگوں کی ہدایت کا باعث بنے۔ تاہم آپ کے احمدی ہونے پر گھر میں شدید مخالفت کا طوفان اٹھا اور حضرت مسیح موعودؑ کے بارہ میں بدزبانی کی جاتی۔ چنانچہ 1932ء میں آپ قادیان چلے آئے اور ایک سال بعد اپنی اہلیہ کے زیورات بیچ کر یہاں مسکن بنالیا۔ جب آپ قادیان جانے لگے تو رشتہ دار افسوس کا اظہار کرنے لگے۔ جس پر آپ کی ساس صاحبہ نے کہا کہ فکر نہ کرو جب چندے دے دے کر مقروض ہو جائیں گے تو خود ہی گاؤں واپس آجائیں گے۔ اگرچہ عام طور پر ہمارے ننھیال نے مخالفت نہیں کی چنانچہ میری پیدائش کے بعد ہماری نانی صاحبہ قادیان بھی آئیں۔ ہماری بڑی خالہ راج بی بی صاحبہ بھی قادیان آئیں اور حضرت مصلح موعودؓ کی بیعت کی۔ حضورؓ نے ان کی بیعت قادیان میں اپنے دفتر میں لی تھی۔ اُس وقت اُن کے علاوہ دفتر میں حضرت سیدہ اُمِّ ناصر صاحبہؓ، میری والدہ صاحبہ اور مَیں موجود تھے۔ ہمارے ماموں محمد رمضان صاحب بھی کسی وقت قادیان آئے تھے۔ وہ احمدیت کے مخالف نہیں تھے بلکہ کسی قدر مؤید تھے۔ ہمارے تایا بھی 1934ء میں قادیان آئے لیکن احرار کی کانفرنس میں شامل ہونے کے لئے۔ ہمارے والد صاحب کے ایک بھتیجے نے احمدیت قبول کی تھی اور ہماری بہن سے اُن کی شادی ہوئی۔
رشتہ داروں کے علاوہ معاشرتی طور پر بھی میرے والد صاحب کی سخت مخالفت ہوئی۔ چنانچہ ایک ہندو SDO نے آپ پر ناکام قاتلانہ حملہ بھی کروایا۔ آپ کے جانور بھی چوری کروا دئیے جو بعد میں مل گئے۔ آپ نے ان حالات کی اطلاع حضورؓ کی خدمت میں دی تو کچھ ہی عرصہ بعد اُس SDO کو فرضی دورے کرکے رقم خوردبرد کرنے کے الزام میں ملازمت سے برطرف کر دیا گیا۔ ایک ICS آفیسر کے لیے یہ ایک بہت بڑی سزا تھی۔ بعد میں اُس نے انارکلی میں فرنیچر کی دکان کھول لی اور وہ آپ کو اکثر سلام بھجواتا تھا اور دعا کی درخواست کرتا تھا۔
جب آپ کانڈی والا میں بسلسلہ ملازمت مقیم تھے۔ یہاں کینال کالونی کے عملہ سے آپ کی مذہبی گفتگو مستقلاً رہتی تھی۔ وہاں ایک ڈاکٹر صاحب تھے انہوں نے کہا کہ بہتر ہے ہمارے کسی عالم سے مناظرہ ہو جائے۔ والد صاحب نے کہا کہ کالونی سرکاری احاطہ ہے اعتراض ہو گا کہ سرکاری احاطہ میں مذہبی مباحثہ کیوں کیا اس لئے کہیں باہر رکھ لیں۔ غیراحمدیوں نے کہا کہ ہم مباحثہ کروانے والے ہیں، کیا ہم ہی شکایت کریں گے؟ آپ مطمئن رہیں۔ چنانچہ مناظرہ ہوا اور غیراحمدی مولوی کو شکست ہوئی اور جن کی وہ نمائندگی کر رہا تھا (یعنی کالونی کا عملہ) ان کو بھی شرمندگی ہوئی جس کا ردِّعمل یہ ہوا کہ انہوں نے افسرانِ بالا کو شکایت کر دی کہ آپ نے سرکاری احاطہ میں مذہبی مباحثہ کیا ہے۔ چند دنوں کے بعد ایک آفیسر تحقیقات کے لئے آگئے اور بیانات وغیرہ لے کر چلے گئے۔ سب کا خیال تھا کہ آپ کی برطرفی ہی ہوگی۔ اُس زمانہ میں سرکاری ملازمت کی بڑی قدر تھی اور ملازمت سے برطرفی نہ صرف ایک بڑا نقصان تھا بلکہ ایک قسم کی ذلّت کی علامت بھی تھی۔ آپ نے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی خدمت میں دعا کے لیے لکھا۔ حضورؓ نے فرمایا کہ آپ کو سرکاری جگہ پر مناظرہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ بہرحال کالونی والے والد صاحب کی برطرفی کے انتظار میں تھے۔ ادھر والد صاحب نے خواب دیکھا کہ آپ کے دفتر کے باہر پھولوں اور بلبوں سے لکھا ہوا ہے ’’انجام بخیر‘‘۔ اس پر آپ نے غیراحمدی ساتھی ملازموں کو بتا دیا کہ آپ کی شکایت کا کچھ نہیں بننا۔ چنانچہ کئی مہینوں کے بعد محکمہ کی طرف سے آپ کو خط ملا کہ آپ کو تنبیہ کی جاتی ہے کہ آئندہ آپ ایسے مباحثات سرکاری احاطہ میں نہ کریں۔
آپ نے 1936ء میں ملازمت سے رخصت لے کر تین ماہ تبلیغ کے لئے وقف کئے۔ آپ کی ڈیوٹی ضلع امرتسر میں وِیرووال کے علاقہ میں لگی۔ اس عرصہ میں آپ کی اہلیہ محترمہ کے ہاں ولادت متوقع تھی۔ وقف عارضی کے دوران اللہ تعالیٰ نے آپ کو بیٹے کی ولادت کی بشارت دی جو بفضلہٖ تعالیٰ پوری ہوئی۔
محترم بابو صاحب کی ملازمت کا سارا عرصہ انگریز سرکار کے دوران گزرا۔ انگریز افسر آپ کو بہت عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور آپ پر اعتما دکیا کرتے تھے۔ والد صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک انگریز افسر محکمہ نہر کے ایک ڈپٹی کلکٹر کے خلاف تحقیق کر رہا تھا۔ اس تحقیق میں آپ بھی بطور گواہ پیش ہوئے۔ اِس پر ڈپٹی کلکٹر نے اعتراض کیا کہ میں گزیٹڈ آفیسر ہوں جبکہ گواہ نان گزیٹڈ ہے اس لئے میرے خلاف یہ بطور گواہ پیش نہیں ہو سکتا۔ اس پر انگریز افسر نے زوردار الفاظ میں کہا کہ مَیں بھی جھوٹا ہوسکتا ہوں اور تُو بھی جھوٹا ہوسکتا ہے لیکن یہ شخص جھوٹا نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ آپ کی گواہی ہوئی اور اُس کے عین مطابق ہی اس انگریز افسر نے فیصلہ دیا۔
ملازمت کے دوران ایک دفعہ کسی شخص نے آپ کے پاس سونے کے کچھ پاؤنڈ (اُس زمانہ میں پاؤنڈ سونے کا ہوتا تھا اور روپیہ چاندی کا) امانت رکھے۔ سالہاسال گزر گئے اور اُس شخص نے آپ سے رابطہ نہ کیا۔ آپ نے کوشش کر کے قریباً بیس سال بعد اس کا کھوج نکا لا تو وہ کہنے لگا کہ مجھے تو یاد نہیں کہ میں نے آپ کے پاس کوئی امانت رکھوائی ہو۔ تاہم آپ نے وہ پاؤنڈ اس کو بھجوا دئیے۔
1945ء میں محترم محمد بخش صاحب ریٹائرڈ ہوکر قادیان آگئے اور صدر انجمن احمدیہ میں ملازم ہوگئے۔ کچھ عرصہ پرائیویٹ سیکرٹری کے دفتر میں کام کیا۔ اس دوران آپ کو ریاست بہاولپور سے بطور سگنیلر ملازمت کی پیشکش ہوئی تو حضورؓ کے مشورہ پر آپ وہاں چلے گئے۔
آپ نماز ،روزہ اور احکام شریعت کے سخت پابند تھے۔ جماعت کے بغیر نماز پڑھنے کا وہ تصور بھی نہ کر سکتے تھے۔ موسم کی خرابی ( بارش آندھی) کبھی آپ کے مسجد جانے میں روک نہ بنی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ بیمار تھے اور چل نہ سکتے تھے، لیکن بیٹھ کر اور گھسٹ گھسٹ کر مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے گئے۔
جب قادیان جاتے تو اکثر نمازیں مسجد مبارک میں جاکر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے پیچھے پڑھتے۔ آپ کی ایک بیٹی کی شادی کے موقع پر سب مہمانوں کو اس لئے انتظار کرنا پڑا کہ آپ نماز پڑھنے مسجد مبارک گئے ہوئے تھے۔ اسی طرح ایک دفعہ آپ کی ایک بیٹی بچے کی متوقع پیدائش میں تاخیر کی وجہ سے تکلیف میں تھیں تو آپ نے فوراً مسجد کا رُخ کیا اور کہا کہ مَیں وہاں جا کر دعا کرتا ہوں۔
آپ جوانی سے ہی صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے اور معمول تھا کہ پچھلی رات بہت جلدی اُٹھتے، مالش کرتے، دوڑ لگاتے، نہاتے اور پھر تہجد کی نماز ادا کرتے۔ مگدروں سے بھی ورزش کیا کرتے۔ صبح کی سیر کا معمول ساری زندگی جاری رکھا سوائے وفات سے پہلے دو دن کے جب بیماری کی وجہ سے ایسا نہ کرسکے۔ آپ کی سیر میں موسمی تغیر کبھی روک نہیں بنا۔ جب دارالنصر ربوہ میں رہائش تھی تو دُور تک دریا کے ساتھ ساتھ سیر کے لیے جاتے اور جب سورج چڑھ آتا تھا تو اشراق کے نوافل پڑھ کر گھر آتے۔
1953ء میں آپ نے دارالنصر شرقی میں مکان بنوایا تو اُس وقت محلہ بھر میں صرف پانچ یا چھ مکان تھے اور نماز مختلف گھروں میں ہوتی تھی۔ آپ 1954ء میں ریاست بہاولپور کی ملازمت چھوڑ کر مستقل ربوہ آگئے۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ جب مَیں ایم۔ اے کرکے 1955ء میں ربوہ آیا تو مسجد کی مقررہ جگہ کی بنیادیں بھری ہوئی تھیں۔ مَیں نے والد صاحب سے گزارش کی کہ روز صفیں اٹھا کر کبھی کسی جگہ اور کبھی کسی جگہ نماز کے لئے جاتے ہیں، مسجد والی جگہ پر ہی نماز پڑھنا شروع کردیں۔ یہ سلسلہ شروع ہوا تو آپ نے آبادی کمیٹی کے دفتر سے ان سب لوگوں کے پتہ جات اکٹھے کیے جن کے اس محلہ میں پلاٹ تھے اور مختلف اضلاع کا دورہ کرکے پلاٹوں کے مالکوں سے مل کر مسجد کے لئے عطایا اکٹھے کئے اور ٹھیکیدار ولی محمد صاحب سے ’مسجد احمد‘ کا پہلا برآمدہ بنوایا۔ چند سال بعد اس کا دوسرا برآمدہ بنا۔ بہرحال یہ مسجد آپ کی بنوائی ہوئی ہے۔ اُس زمانہ میں وہاں بجلی بھی نہیں تھی اس لیے فجر اور عشاء کے وقت آپ گھر سے لالٹین مسجد میں لے کر جایا کرتے تھے۔ قریباً 22سال تک محلہ دارالنصر کے سیکرٹری مال رہے اور بڑے شوق سے چندہ کی تحصیل کا کام کرتے تھے۔ خواہ کوئی کتنی دفعہ ہی آنے کے لئے کہتا، بُرا نہیں مناتے تھے۔ آخری عمر میں بینائی کمزور ہو جانے پر سیکرٹری مال کے عہدہ سے سبکدوش ہوئے۔ آپ اور آپ کی اہلیہ محترمہ تحریک جدید کے دفترِاوّل کے مجاہدین میں شامل تھے۔ 1944ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے جماعت کو سلسلہ کے لئے اپنی جائیدادیں وقف کرنے کی تحریک کی جس پر آپ نے اپنا مکان واقع دارالفضل قادیان سلسلہ کی ضروریات کے لئے وقف کر دیا اور ملک کی تقسیم کے بعد اس کا Claim بھی داخل نہیں کیا۔ 1979ء میں اپنی اہلیہ محترمہ کی وفات کے بعد مضمون نگار کے ساتھ رہائش اختیار کر لی اور نومبر 1983ء میں وفات پائی۔
آپ صاحب رؤیا، کشف اور الہام بزرگ تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً بتایا تھا کہ مَیں تجھے بھوکا ننگا نہیں رکھوں گا۔ پاکستان ہجرت کی تو ربوہ میں دس مرلہ کا پلاٹ کی قیمت پچاس روپے تھی جبکہ آپ کے پاس صرف تیس روپے تھے۔ چنانچہ کسی سے بیس روپے قرض لے کر پلاٹ خریدا۔ مکان بنانے کا سامان اللہ تعالیٰ نے اس طرح کیا کہ آپ نے احمدی ہونے سے پہلے زندگی کا بیمہ کروایا ہوا تھا۔ جب احمدی ہوئے تو بتایا گیا کہ یہ جائز نہیں۔ اگر بیمہ کی پالیسی کو منسوخ کرواتے تو اُلٹا جرمانہ دینا پڑتا۔ اور اصل روپیہ کے ایک حصہ سے بھی ہاتھ دھونے پڑتے ۔ چنانچہ فیصلہ ہو اکہ جب بیمہ Mature ہو تو اپنی اصل رقم اپنے استعمال میں لے آئیںاور زائد رقم اشاعتِ دین میں دے دیں۔ پاکستان بننے کے بعد بیمہ کی مدّت ختم ہوئی۔ کمپنی بمبئی کی تھی انہوں نے بیمہ کا چیک انڈین بنک کا بھجوایا۔ اب اس کو کیش کروانے کا مسئلہ تھا جس میں (اس وقت کے پاکستان۔ ہندوستان تعلقات کی بِنا پر) مشکلیں تھیں۔ چنانچہ ایک دوست نے آپ سے چیک خرید لیا کہ میں خود ہی کیش کروا لوں گا لیکن ایسا اتفاق ہوا کہ اس نے آپ کو اتنے ہی پیسے دئیے جتنے کہ آپ نے بیمہ کی اقساط کے طور پر دئیے تھے۔ چنانچہ اس رقم سے ربوہ میں مکان بنا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق آپ اور آپ کے بچوں کو چھت مہیا کر دی۔
جب ہندوستان کی تقسیم ہوئی تو آپ کے بیوی بچے قادیان میں تھے اور آپ جائے ملازمت پر تھے۔ آپ کا فیملی کے ساتھ رابطہ نہ تھا اور سخت پریشانی تھی۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ جیسے ریڈیو میں آواز آتی ہے، ہر وقت یہ آواز آتی رہتی تھی نَمنَعُکُمْ! (یعنی ہم تم کو بچالیں گے)۔ چنانچہ جماعتی انتظام کے تحت آپ کی فیملی 6؍اکتوبر 1947ء کو لاہور اور پھر آپ کے پاس ریاست بہاولپور میں پہنچ گئی۔ آپ جہاں ملازم تھے وہاں پُل کے دوسرے پار ہندوستان کی ریاست جسلمیرؔ ہے۔ آپ کو حکومت کی طرف سے یہ ہدایت تھی کہ ہندو اور سکھ جو ملک چھوڑ رہے ہیں ان کو بحفاظت ملک چھوڑنے دیا جائے۔ لیکن لوٹنے والے کب باز آنے والے تھے۔ بہرحال آپ نے اپنی جان کو بھی خطرہ میں ڈال کر مقدور بھر کوشش کی کہ لوگ بحفاظت ہندوستان چلے جائیں۔
آپ ذکر فرمایا کرتے تھے کہ آپ نے بہت سے انبیاء علیہم السلام کو رؤیا میں دیکھا۔ اسی طرح بتایا کہ چک 35 جنوبی ضلع سرگودھا کے حضرت چودھری مولابخش صاحبؓ اپنے گاؤں کے نمبردار اور باعزّت شخص تھے۔ ان کے خلاف کسی نے جھوٹا مقدمہ دائر کر دیا۔ اپنے دفاع کے لئے اُن کے پاس کوئی چیز نہ تھی اور سزا ہو جانا یقینی تھا۔ انہوں نے آپ سے دعا کے لئے کہا تو آپ نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے آپ کے کندھے پر تین دفعہ تھپکی دی اور ہر تھپکی کے ساتھ فرمایا کہ ’’تسکین!‘‘۔ خواب میں ہی آپ نے حضرت مسیح موعودؑ سے دریافت کیا کہ حضور اس کا کیا مطلب ہے ؟ حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ چودھری مولا بخش صاحب کی تین پیشیاں ہوں گی اور بَری ہوجائیں گے۔ چنانچہ فی الواقع اسی طرح ہوا۔
پارٹیشن سے پہلے آپ سرگودھا کی جماعت کی طرف سے ایک سے زیادہ مرتبہ شوریٰ کے نمائندہ منتخب ہو کر آئے۔ ربوہ سے بھی ایک دفعہ شوریٰ کے نمائندہ کے طور پر منتخب ہوئے اور تحریک جدید کے بجٹ کی سب کمیٹی کے ممبر بھی مقرر ہوئے۔
مضمون نگار (محترم چودھری حمیداللہ صاحب) کو اپنی زندگی خدمت دین کے لئے وقف کرنے کی سعادت ملی۔ آپ اپنے والدین کی قادیان ہجرت کرنے کے بعد پیدا ہونے والا پہلا بچہ تھے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ ہماری والدہ عائشہ بی بی صاحبہ تعلیم یافتہ نہ تھیں۔ احمدی ہونے کے بعد اپنی بڑی بیٹی سے قرآن مجید ناظرہ پڑھنا سیکھا۔ قادیان آنے کے بعد لجنہ میں یہ بھرپور تحریک تھی کہ عورتیں پڑھنا لکھنا سیکھیں۔ چنانچہ آپ نے پڑھنا لکھنا بھی سیکھا۔ بچوں کی بڑی اچھی تربیت کی۔ گھر داری کی خاصی مہارت اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ میں ودیعت کی گئی تھی اور محدود وسائل میں گھر کا نظام بہت عمدگی سے سفیدپوشی کو قائم رکھتے ہوئے چلاتی تھیں۔ آپ کو پھلدار اور پھولدار پودے لگانے کا بہت شوق تھا۔ آپ کا مجھ پر ایک بڑا احسان یہ بھی ہے کہ 1946ء میں جب مَیں ساتویں جماعت میں تھا تو زندگی وقف کی تھی۔ مئی 1947ء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان سے مڈل کا امتحان پاس کیا۔ اُس زمانہ میں مدرسہ احمدیہ میں داخلہ مڈل کے بعد ہوا کرتا تھا۔ والدہ صاحبہ مرحومہ نے مجھے ساتھ لیا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی حرم سیدہ اُمِّ وسیم صاحبہ مرحومہ کے گھر لے گئیں اور ان سے گزارش کی کہ یہ میرا بیٹا ہے اس نے مڈل کا امتحان پاس کر لیا ہے اب حضور سے دریافت کرنا ہے کہ یہ آگے مدرسہ احمدیہ میں داخل ہو یا سکول میں تعلیم جاری رکھے۔ انہوں نے فرمایا کہ مغرب کی نماز کا وقت ہو نے والا ہے اور حضور نے میرے گھر میں سے ہی گزر کر مسجد مبارک (کی بالائی منزل میں) نماز پڑھانے جانا ہے جب حضور آئیں تو آپ حضور سے دریافت کر لیں۔ چنانچہ کچھ دیر بعد حضور تیز قدمی کے ساتھ تشریف لائے۔ وضو کرنے کے لیے حمام، تولیہ، موڑھا وغیرہ موجود تھا۔ حضور نے پگڑی اور کوٹ اُتارا۔ وضو کیا اور دوبارہ کوٹ اور پگڑی پہن لی اور مسجد کی طرف تشریف لے جانے لگے تو والدہ صاحبہ نے مجھے حضور کی خدمت میں پیش کیا اور آئندہ تعلیم کے متعلق پوچھا تو حضور نے فرمایا کہ سکول میں تعلیم جاری رکھے۔ مَیں تو کم عمر تھا والدہ صاحبہ نے مجھے رستہ دکھا دیا کہ ہر قدم حضور سے پوچھ کر اُٹھانا ہے۔ چنانچہ اب تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس پر عمل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ وباللّٰہ التوفیق۔
…ژ…ژ…ژ…
سیرالیون میں میرے ابتدائی ایّام
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 31؍مئی 2012ء میں مکرم محمد صدیق شاہد صاحب گورداسپوری کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے سیرالیون میں اپنے ابتدائی ایّام کے احوال پر روشنی ڈالی ہے۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ خاکسار پہلی بار دسمبر 1952ء میں بطور مبلغ سیرالیون پہنچا تو اُن دنوں Bo میں جماعت احمدیہ سیرالیون کا سالانہ جلسہ منعقد ہو رہا تھا۔ جس میں چند منٹ کی تقریر میں مجھے سیرالیونی احمدیوں تک حضرت مصلح موعودؓ اور پاکستانی احمدیوں کا سلام پہنچانے کا موقع ملا۔ میرے دائیں بائیں مینڈے اور ٹمنی زبانوں کے ترجمان کھڑے تھے جو میرے ہر فقرہ کے بعد اس کا ترجمہ بیان کرتے۔ جلسہ کے آخری دن تمام حاضرین ایک جلوس کی شکل میں شہر کی سڑکوں سے نعرۂ ہائے تکبیر بلند کرتے ہوئے گزرتے تو یہ ایک ایمان افروز نظارہ تھا کیونکہ حضرت مسیح موعودؑ کو الہاماً بتایا گیا تھا کہ ’’مَیں تیرے خالص اور دلی محبّوں کا گروہ بھی بڑھاؤں گا اور اُن کے نفوس اور اموال میں برکت دوں گا اور اُن میں کثرت بخشوں گا‘‘۔
چند دن بعد مکرم چوہدری نذیر احمد صاحب رائیونڈی امیر و مبلغ انچارج کی ہدایت پر احمدیہ مرکز Bajibu کے لئے روانہ ہوا۔ پہلے بذریعہ گاڑی Balama تک پہنچا جس کی رفتار گیارہ بارہ میل فی گھنٹہ تھی۔ باقی سفر ایک ٹرک میں کیا جس میں چاولوں کی بوریاں لدی ہوئی تھیں۔
باجے بو جماعت کا قیام حضرت مولوی نذیر احمد علی صاحب کے ذریعہ قریباً 1939ء میں عمل میں آیا تھا جس کے صدر عزّت مآب پیراماؤنٹ چیف ناصرالدین گمانگا (M.B.E) تھے۔ (جن کا ذکر خیر قبل ازیں 15 مئی 1998ء کے شمارہ میں ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں مضمون نگار کے حوالہ سے ہی شامل اشاعت کیا جاچکا ہے۔)
چند دن بعد ایک قریبی گاؤں تبلیغ کے لئے جانے لگا تو صرف ڈیڑھ روٹی پڑی تھی۔ مَیں نے سوچا کہ ناشتہ کے طور پر کچھ پھل کھا لیتا ہوں تاکہ یہ روٹی رات کے کھانے میں کام آجائے (کیونکہ روٹی Balama سے منگوانی پڑتی تھی)۔ پھر خیال آیا کہ جس کے کام کے لئے نکل رہا ہوں، کیا وہ روٹی کا انتظام نہیں کرے گا۔ چنانچہ اس روٹی سے ناشتہ کیا اور پھر تبلیغی دورہ مکمل کرکے شام کو واپس پہنچا تو ایک شخص آیا اور بتایا کہ وہ بلاما سے آرہا تھا اور میرے لئے تحفۃً وہاں سے بارہ روٹیاں لیتا آیا ہے۔ سالن محترم گمانگا صاحب کی ایک بیوی کے ہاں سے آتا تھا۔
ایک روز چیف گمانگا صاحب میرے پاس آئے تو کہا کہ انہوں نے اپنی دوسری بیوی کو کھانا بھجوانے کا کہہ دیا ہے اور آئندہ پہلی بیوی کی طرف سے آنے والا کھانا نہیں لینا۔ چنانچہ مَیں نے ایسا ہی کیا۔ بعد میں انہوں نے بتایا کہ جو بیوی کھانا بھجوایا کرتی تھی وہ گاؤں کی ایک ایسی محفل میں شامل ہوئی ہے جس میں ناچ گانا ہو رہا تھا۔ چنانچہ انہوں نے یہ بات ناپسند کی کہ ایسی عورت جو گانے کی محفل میں شامل ہوئی ہو وہ ایک مبلغ سلسلہ کا کھانا بھی پکائے۔ بعد میں اُس بیوی نے اُن سے بہت معافیاں مانگیں اور کہا کہ آئندہ ایسی حرکت نہیں کرے گی۔ چنانچہ کچھ عرصہ بعد اُسے دوبارہ میرے لئے کھانا تیار کرنے کی اجازت مل گئی۔
چیف گمانگا صاحب نہایت مخلص اور فدائی احمدی تھے۔ انہوں نے اپنے لئے علیحدہ ایک کمرہ، برآمدہ اور بیت الخلاء تعمیر کروایا ہوا تھا جس میں کسی اَور کو جانے کی اجازت نہیں تھی لیکن اس کی ایک چابی مجھے دی ہوئی تھی۔
30نومبر 1953ء کو مَیں ایک نئے مقام مگبورؔ میں متعیّن ہوا۔ وہاں ایک پرانی جماعت قائم تھی، مسجد اور ایک پرائمری سکول بھی تھا۔ مشن کی عمارت کچّی اور خستہ حالت میں تھی جس کے ایک حصہ میں ٹیچر رہتا تھا، دو کمرے مبلغ کے لئے تھے جو گردوغبار سے اَٹے پڑے تھے۔ فرنیچر بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔ ایک میز اور لوہے کی چند ٹوٹی پھوٹی کرسیاں تھیں۔ بستر کے بغیر چارپائی تھی۔ بیت الخلاء نہیں تھا اور اس کے لئے سکول جانا پڑتا تھا۔ الاؤنس 9 پاؤنڈ ماہوار تھا جو باقاعدہ نہیں تھا۔ گزارہ کرنے کے لئے چندہ جمع کرنے اور کتابیں وغیرہ فروخت کرنے کی ہدایت تھی۔ 2فروری 1953ء کو سیرالیون کے انگریز گورنرجنرل مگبورؔ کے دورہ پر آئے اس موقع پر معززینِ شہر کو مدعو کیا گیا جن میں احمدی مبلغین بھی شامل تھے۔ لیکن ہمارے مشن کی حالت یہ تھی کہ سائیکل تک لینے کی گنجائش نہیں تھی۔ سامان سے لدے ہوئے ٹرکوں میں سفر کرکے تبلیغی دورے کرتے۔
…ژ…ژ…ژ…
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 7جون 2012ء میں شامل اشاعت مکرم خواجہ عبدالمومن صاحب کی ایک نظم میں سے انتخاب پیش ہے
عدو جب جَور کے تیروں کو مومن پر چلاتا ہے
خدا پھر اپنے بندوں کے لئے غیرت دکھاتا ہے
عدو کے سارے منصوبے خدا ناکام کرتا ہے
وہ ظالم کو پکڑ کر باعثِ عبرت بناتا ہے
’’خدا کے پاک لوگوں کو خدا سے نصرت آتی ہے‘‘
وہ مولا اپنے بندوں کی سدا عزت بڑھاتا ہے
’’غرض رُکتے نہیں ہرگز خدا کے کام بندوں سے‘‘
لگایا اُس نے جو پودا وہ ہر آں بڑھتا جاتا ہے