الفضل ڈائجسٹ
(مرتبہ محمود احمد ملک)
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔
محترم مسعود احمد خاں صاحب دہلوی
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18جون 2012ء میں مکرم پروفیسر ڈاکٹر پرویز پروازی صاحب کے قلم سے جماعت احمدیہ کے نامور صحافی اور صاحبِ اسلوب ادیب جناب مسعود احمد خان صاحب دہلوی کا ذکرخیر، مرحوم کی خودنوشت ’’سفرحیات‘‘ کے حوالہ سے، شامل اشاعت ہے۔
مکرم پروازی صاحب رقمطراز ہیں کہ بھائی مسعود احمد خاں کی خودنوشت پر لکھا ہوا میرا تبصرہ چھپا تو اُن کا فون آیا اور ہم دیر تک ربوہ کے اُس زمانہ کو یاد کرتے رہے جو اَب خواب و خیال ہوگیا ہے۔ نوّے برس سے اوپر ہونے کے باوجود اُن کی آواز میں تھکان تو نہیں تھی البتہ زورِبیان میں وہ توانائی نہیں تھی جو اُن کی شیوہ بیانی کا حصہ تھی۔ قہقہے میں وہ بانکپن بھی نہیں تھا جو اُن کے ساتھ مختص تھا۔ ہم دونوں باتیں کررہے ہوں تو وقت تھم جاتا تھا۔ انہیں تو پتہ نہیں ہمارے ساتھ گفتگو میں کوئی لطف آتا تھا یا نہیں مگر ہم تو ان سے باتیں کرکے زبان سیکھتے تھے۔
الفضل کے دفتر میں ہم اکثر تنویر صاحب سے ملنے کو جاتے تھے۔ شعر کہنے کے ناطے ان سے پہلے واقفیت ہوئی۔ پھر وہاں مسعود بھائی سے تعارف ہوا۔ کالج کی تقریبات کی رپورٹنگ کے لئے مسعود بھائی تشریف لاتے۔ پھر آپ نے یہ کام ہمارے سپرد کردیا کیونکہ ’’نوائے وقت‘‘ کا نمائندہ ہونے کی وجہ سے خبریں لکھنا تو ہمیں آتا ہی تھا۔
حیدرآباد دکن کے مرحوم سیٹھ محمد اعظم نے کالج کی بزم اردو کی ایک تقریب میں دکن کی تہذیبی قدروں کے موضوع پر مضمون پڑھا۔ سیٹھ صاحب اور مسعود بھائی نہ صرف ایک گلی محلے کے مکین تھے بلکہ دونوں تھے بھی صاحبِ ذوق، وضعدار اور ادب پرور، ادب دوست۔ سیٹھ محمد اعظم حیدرآباد دکن کے ایک لُٹے پُٹے وضع دار سیٹھ تھے۔ پرانے مخلص احمدی خاندان کے فرد۔ دکن میں اپنے ماضی کو کریدنے بیٹھے تو یادوں کے طوفان میں گھر گئے اور وہ وہ باتیں ایسے ایسے انداز میں بیان فرمائیں کہ سننے والے سر دھنتے رہ گئے۔ کسی کو احساس نہ ہوا کہ مقررہ وقت سے کہیں زیادہ وقت گزر چکا ہے۔ تقریب کا اختتام ہوا تو پرنسپل (حضرت مرزا ناصر احمد) صاحب نے فرمایا یہ سلسلہ تو بہت مفید اور خوب معلومات افزا سلسلہ ہے۔ اب اگلے اجلاس کے لئے دہلی کی تہذیب پر مضمون پڑھنے کے لئے مسعود احمد خاں دہلوی کو تکلیف دی جائے۔چنانچہ اگلے اجلاس میں ’’دہلی کے پرانے لوگ‘‘ کے موضوع پر مسعود بھائی نے معرکۃ الآراء مضمون پڑھا۔ تب ان کے جوہر کھلے کہ صرف لکھنے کے دھنی نہیں، پڑھنے اور تقریر کرنے میں بھی بے مثل ہیں۔ پھر ان کی تقریریں کالج کی بزم سے نکل کر جماعت کے جلسوں تک پہنچیں۔ جرمنی میں ہائیڈل برگ یونیورسٹی کی ایک تقریب میں مضمون پڑھا تو پروفیسر فتح محمد ملک صدارت فرما رہے تھے کہنے لگے ’صاحب! آپ کی زبان اور آپ کے لہجہ کے استناد کا تقاضا تو یہ تھا کہ آپ یہاں اس مسند پر تشریف فرما ہوتے جہاں میں بیٹھا ہوں‘۔ یعنی اپنے بھی اور پرائے بھی مسعود بھائی کے تبحر علمی کو مانتے تھے۔
مسعود احمد خاں دہلوی کی پانچ سو صفحے کی خودنوشت رواں دواں اور شگفتہ زبان میں لکھی گئی ہے جس میں قدم قدم پر دلّی کے شرفاء کی زبان پر چڑھے ہوئے محاوروں کا چٹخارا پڑھنے والے کو چونکائے بغیر نہیں رہتا۔ مصنف کے والد گرامی جناب محمد حسن آسان دہلوی کو تو دلّی والے ان کے چٹخارے دار اندازِ بیان کی وجہ سے ’’بلبلِ ہزار داستان محمد حسن آسان‘‘ کہا کرتے تھے اور اس کا ذکر مصنف نے ایک دوسری کتاب ’’نئی زندگی‘‘ میں کیا ہے۔
جناب مسعود احمد خاں دہلوی نے اس ماں کی گود میں پرورش پائی جو خود ادیب نہ تھیں مگر ان کی تعلیم و تربیت میں ادیبانہ رکھ رکھاؤ تھا۔ باپ دلّی کے ادبی اور علمی حلقوں کے جانے پہچانے آدمی تھے۔ اساتذہ صاحب ذوق اور عالم اور علم کے قدردان تھے۔ دادا سلسلہ احمدیہ میں بیعت ہوئے۔ باپ نے اپنی سب نرینہ اولاد کو پال پوس کر گریجوایٹ بنا کر سلسلہ کے سپرد یعنی زندگی وقف کردیا۔ مسعود احمد خاں دہلوی نے 1940ء میں دلّی یونیورسٹی سے گریجوایشن کیا اور 1946ء میں انگریز کی اچھی بھلی ترقی کے امکانات رکھنے والی ملازمت کو تج کر قادیان آگئے اور ساری عمر جماعت کی خدمت میں گزاردی۔
’’سفر حیات‘‘ ایک احمدی صحافی کی سرگزشت ہے اس لئے لامحالہ اس کی زبان جماعت احمدیہ کے علم کلام کی زبان ہے کیونکہ اس میں جماعت کی تنظیموں، اداروں، اخباروں اور ان سب پر مستزاد جماعت کے خلفاء کے ارشادات کا تذکرہ ہے۔ مگر اس خودنوشت کی زبان ایک دلّی والے کی زبان ہے جس میں دلّی والوں کی چاشنی اور مٹھاس تو موجود ہے مبالغہ موجود نہیں کیونکہ انہیں جماعت احمدیہ کی صحافت سے وابستہ کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے متنبہ کیا تھا کہ ’’زبان کے معاملے میں ہمارا خوبصورتی اور چاشنی کا معیار مختلف ہے… زبان کے معاملے میں ہم وادی والے قدرتی حسن کے قائل ہیں، مالی کے لگائے ہوئے مصنوعی حسن کو ہم چنداں اہمیت نہیں دیتے‘‘۔
کچھ عرصہ تک اخبار الفضل میں کام کرنے کے بعد کچھ دیر کے لئے وکالت تبشیر میں قائم مقام افسر بنائے گئے تو ایک رپورٹ لکھنے پر حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی طرف سے تنبیہ ہوئی کہ ’’الفضل میں آپ کے جو مضامین شائع ہوئے ہیں وہ مجھے پسند نہیں آئے۔ ان میں دلائل کم اور لفّاظی زیادہ تھی‘‘ ۔ اس تنبیہ سے بہت دل گرفتہ ہوئے مگر ایک اور احمدی ادیب قبلہ میر محمد اسماعیل صاحب نے تسلی دی کہ یہ سرزنش تو رہنمائی کا درجہ رکھتی ہے تو مسعوداحمد خاں دہلوی نے دلّی والوں کی لفاظی کو خیرباد کہہ دینے کی کوشش شروع کردی اور تقریباً نصف صدی تک جماعت کے اخبارات و رسائل کامیابی سے ایڈٹ کئے اور اپنی رپورٹنگ، اداریہ نویسی اور تصنیفی صلاحیتوںکا لوہا منوایا۔
رپورٹنگ کے سلسلہ میں سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کی ایک تقریر کا ذکر آپ نے فرمایا ہے کہ شاہ جی نے بڑی تحدّی سے الزام لگایا کہ ’’ربوہ میں اسلحہ کے انبار موجود ہیں۔ حکومت تحقیق کرلے اگر بخاری جھوٹا نکلے تو اسے سرعام پھانسی دے دی جائے‘‘۔ اگلے روز ہی اسمبلی میں کسی رُکن نے سوال کر دیا جس کا جواب قائدایوان میاں ممتاز محمد خاں دولتانہ نے یوں دیا کہ ’’جہاں تک حکومت کی معلومات کا تعلق ہے، ربوہ میں نہ تو کسی قسم کا غیرلائسنس یافتہ اسلحہ اور گولہ بارود موجود ہے اور نہ وہاں آتشیں اسلحہ بنایا یا تیار کیا جارہا ہے‘‘۔ یہ ممتاز دولتانہ وہی تھے جو جماعت کے خلاف 1953ء کی تحریک کے بانی مبانی تھے۔ ان کی زبان سے تردید کے باوجود قبلہ شاہ جی ہنستے بستے رہے اور اپنی غلط بیانی پر انہیں کوئی شرمندگی نہ ہوئی۔
ایک صحافی کی خودنوشت میں صحافیوں کا ذکر تو ہونا ہی چاہئے۔ م۔ش کا ذکر ہے۔ مولانا عبدالمجید سالک کا ذکرخیر ہے۔ چراغ حسن حسرت کا ذکر ہے۔
جہاں تک جماعت احمدیہ کے اس کہنہ مشق صحافی کی رپورٹنگ کا تعلق ہے اس کی ایک گواہی یہ ہے کہ ہمارے ڈویژن کے کمشنر قاسم رضوی کئی بار ربوہ تشریف لائے اور کالج کی بزم اردو میں تقریریں فرمائیں۔ پہلی بار بزم اردو کے افتتاح کے لئے تشریف لائے۔ وہ بڑے شگفتہ و شیوہ بیان مقرر تھے اور کبھی اپنے انفارمیشن افسروں کی لکھی ہوئی تقریر نہیں پڑھتے تھے۔ بزم اردو کے افتتاح کی رپورٹ روزنامہ الفضل میں شائع ہوئی تو مَیں نے اس کی ایک نقل کمشنر کے ملاحظہ کے لئے بھیجی۔ کچھ عرصہ کے بعد کسی اَور اجلاس کے لئے دعوت دینے کو میں انہیں ملا تو فرمانے لگے میری تقریر کی رپورٹ کس نے مرتب کی تھی؟ میں نے مسعود صاحب کا نام لیا۔ کہنے لگے جب میں ربوہ آؤں تو مجھے اس رپورٹر سے ضرور ملوانا۔ مَیں نے آج تک اپنی تقریر کی اتنی جامع و مانع اور زبان و بیان کے اعتبار سے بھرپور رپورٹ کبھی نہیں دیکھی۔ رضوی صاحب ربوہ تشریف لائے تو میں نے کالج کے سٹاف سے تعارف کے بعد انہیں مسعود احمد خاں دہلوی سے ملوایا۔ رضوی صاحب نے نہایت گرمجوشی سے مصافحہ کیا اور کامیاب رپورٹنگ پر انہیں خراجِ تحسین پیش کیا۔
احوال الرجال میں قریشی منظور احمد صاحب کا ذکر خیر ہے۔ قریشی صاحب بڑے کہنہ مشق اور ماہر ٹائپسٹ تھے۔ نسبت روڈ کے کونے پر ایک چھوٹے سے لکڑی کے کیبن میں اپنی ٹائپ کی مشین لے کر بیٹھتے تھے اور اسی ٹائپ کی حلال روزی سے آپ نے اپنے بیٹے کو ڈاکٹر بنایا۔ پھر اسے انگلستان سے ایم آر سی پی کروایا۔ ہارٹ سپیشلسٹ بنایا اور پھر وہ بیٹا ایسے وقت میں ربوہ میں خدمت کے لئے آ بیٹھا جب دوسرے ایم بی بی ایس ڈاکٹر بھی وہاں آنے سے کتراتے تھے۔ یہ ہارٹ سپیشلسٹ ڈاکٹر لطیف احمد قریشی ہیں۔ منظور احمد قریشی صاحب کے انتقال پر ہم نے اپنے تعزیتی مضمون میں لکھا تھا کہ قریشی منظور احمد صاحب نے1953ء کے انکوائری کمیشن کی کارروائی ٹائپ کرنے میں دن رات ایک کرکے جماعت کی خدمت کی۔
پھر ڈنمارک کے احمدی نوح ہانسن صاحب کا ذکر ہے۔ ہانسن صاحب اپنی کمپنی کی طرف سے ناگویا جاپان تشریف لائے تو امام عطاء المجیب راشد صاحب نے ہمیں حکم دیا کہ ہانسن صاحب اوساکا کی سیر کے لئے آنا چاہتے ہیں، ان کا خیال رکھا جائے۔ ہانسن صاحب تشریف لائے۔ ہمارے ہاں قیام فرمایا۔ ہم نے اپنی یونیورسٹی کے اپنے رفقاء کے علاوہ ڈینش زبان کے شعبہ کے اساتذہ اور وائس چانسلر کو بھی کھانے پر بلا کر ہانسن صاحب سے تعارف کروایا۔ وہ لوگ بہت حیران ہوئے کہ آپ جنوبی ایشیا کے رہنے والے ہیں۔ ہانسن صاحب پکے ڈینش ہیں۔ دونوں میں کیا قدرِ مشترک ہے؟ ہم دونوں نے کہا احمدیت۔ وائس چانسلر بہت حیران ہوئے کہ عقائد کا اشتراک ایسی گہری اخوّت بھی پیدا کرسکتا ہے!۔ احمدیت کی اخوّت کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی اطاعتِ امام کے ہم عینی گواہ ہیں۔ اس سلسلہ میں مسعود بھائی کی بات کی تصدیق کرسکتے ہیں کہ حضرت صاحب نے میاں صاحب کو طلب فرمایا تو بلاتوقف حاضر ہوگئے حالانکہ خضاب کررہے تھے اور ہاتھوں پر خضاب کے دھبے موجود تھے۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے حضرت مولانا نورالدینؓ کے بارہ میں لکھا ہے کہ جب مولانا 1905ء میں قادیان گئے تو ’’مرزا صاحب نے بلایا تو مولوی نورالدین خضاب کی وجہ سے ڈھاٹا باندھے آئے‘‘ ۔ امام کاارشاد سنتے ہی اس پر لبّیک کہنا ان بزرگوں کا اُسوہ تھا۔
خودنوشت میں منشی سبحان علی کاتب الفضل کے اخلاص کا ذکر ہے کہ انہوں نے اور ان کے بیٹوں نے رات بھرمحنت کرکے ایک ضرورتمند کا مقالہ صاف کرکے لکھ دیا اور اجرت تک نہ لی۔
…ژ…ژ…ژ…
صحرائے اعظم افریقہ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 30؍مئی 2012ء میں دنیا کے سب سے بڑے ریگستان ’’صحارا‘‘ کا تعارف شائع ہوا ہے۔ 86لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا صحرائےاعظم دس افریقی ملکوں میں منقسم ہے جو مراکش، تیونس، لیبیا، مصر، سوڈان، الجزائر، چاڈ، نائیجر، مالی اور ماریطانیہ ہیں۔ اس بے آب و گیاہ بنجر زمین میں چند نخلستان بھی ہیں۔ اگرچہ صحارا باقی براعظم افریقہ سے نشیب پر واقع ہے لیکن اس کے بعض میدانی علاقے سطح سمندر سے نیچے ہیں چنانچہ سب سے بڑا نشیبی میدان ’’قطارا‘‘ سطح سمندر سے 436 فٹ نیچے ہے۔ بعض لوگ صحارا کو ریت کا سمندر کہتے ہیں جس میں ریت کے طوفان ٹیلے بناتے اور ہموار کرتے رہتے ہیں۔ یہ ٹیلے ساڑھے سات سو فٹ کی بلندی تک ہوتے ہیں۔ دن کے وقت یہاں درجہ حرارت 183 فارن ہائیٹ ہو جاتا ہے۔ جبکہ رات انتہائی ٹھنڈی ہوتی ہے۔ اس صحرا میں آباد خانہ بدوش قبائل میں زیادہ تر بربرؔ نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ دیگر تین نسل کے لوگ مورز، ریگ اور ٹیڈا ہیں۔