درّہ شیرخان کے ایک مخلص اور باوفا احمدیمولانا فقیر محمد خان صاحب (مرحوم) کا ذکرخیر
(عبدالحمید۔ ربوہ)
مولانا فقیر محمد خانصاحب کی وفات سے کچھ عرصہ قبل مولانا کی خدمت میں خاکسار حاضر ہوا۔ فرمانے لگے حمید! اگلے سال میری آپ سے ملاقات نہ ہوگی۔ میرے آقا کی خدمت میں میری وفات کی اطلاع دے دینا اور نماز جمعہ کے بعد مسجد اقصیٰ میں میری نماز جنازہ غائب پڑھانے کی درخواست دے دینا۔
ان کے حکم کے مطابق خاکسار نے حضور کی خدمت اقدس میں اطلاع بھجوادی۔ ربوہ میں ان کی ہدایت کے مطابق خاکسار نے مکرم جناب ناظر صاحب اعلیٰ کی خدمت میں نماز جنازہ غائب کے ادا کرنے کے بارہ میں درخواست دے دی۔ 27 جنوری 1989ء کو جمعۃالمبارک کی نماز کے بعد مولانا فقیر محمد خان صاحب کی نماز جنازہ غائب ادا ہوگئی۔
اس سے قبل درّہ شیر خان میں مولانا صاحب نے اپنی وفات سے چند روز قبل چیئرمین صاحب جو کہ غیراحمدی ہیں، اُنہیں بُلاکر کہا کہ مَیں اللہ کے فضل سے احمدی ہوں اور میری وفات کا وقت قریب ہے۔ تو میری موت کے بعد آپ میری جماعت احمدیہ کوٹلی، گوئی، بھابھڑہ اور آرام باڑی والوں کو اطلاع دے دیں۔ اور آپ نے غیراحمدی بھائیوں سے کہا کہ اگر میری جماعت کا کوئی آدمی میرے جنازہ پر نہ آیا تو جنازہ کی نماز آپ لوگ نہ ادا کرنا بلکہ اِسی طرح دفن کردینا اور میری فوتگی اور تدفین کی اطلاع میرے مرکز ربوہ میں دے دینا۔
مولوی صاحب کی وفات سے ایک دن قبل بھابھڑہ اور آرام باڑی کی جماعتوں کے افراد مولانا صاحب کے پاس گئے تو مولانا نے فرمایا کہ آپ لوگ کل تیاری کرکے آنا۔ دوسرے دن مولانا صاحب وفات پاگئے۔ عین وفات کے وقت آرام باڑی، بھابھڑہ اور کوٹلی کی جماعتوں کے افراد مکرم مربی صاحب سلسلہ احمدیہ کی سربراہی میں مولانا کے پاس جاپہنچے۔ یہ منظر بڑا دیکھنے کے لائق تھا۔ دس ہزار غیراحمدیوں کی موجودگی میں جب جماعت احمدیہ کی تینوں جماعتوں کا وفد درّہ شیرخان پہنچا تو مولانا کے غیراحمدی بھائی نے یہ اعلان کیا کہ میرے بھائی جان مرحوم کے وارث احمدی ہیں۔ مَیں جنازہ اُن کے حوالے کرتا ہوں۔ احمدیوں نے فوراً غسل دیا۔ کفن پہنایا اور مولانا صاحب کے جسدخاکی کا سب کو آخری دیدار کروایا۔ اور پھر جماعت ہائے احمدیہ کے افراد نے نماز جنازہ کھُلے مقام پر ادا کرکے سپردخاک کردی۔
(نماز جنازہ احمدیوں نے ادا کی اور تجہیزوتکفین بھی احمدیوں نے ادا کی۔)
علاقہ درّہ شیرخان کی آبادی پچیس ہزار افراد کے لگ بھگ ہے۔ علاقہ کے ہر فرد کی آنکھیں اشکبار تھیں۔ مولانا صاحب نے پوری زندگی میں ہر معاملہ میں قول اور فعل سے ایک نمونہ دنیا کو دکھایا۔ 1974ء میں مولانا صاحب پر ایک ہیڈماسٹر نے 900 لڑکوں کو ساتھ لے کر حملہ کیا۔ مولانا صاحب اُن کے نرغہ میں تھے کہ ایک شخص اُس جلوس میں سے ہی نمودار ہوا۔ وہ شخص مسلح تھا اور ایک پورے لشکر کو کہا کہ جو کوئی مولانا صاحب کو نقصان پہنچانے کے ارادہ سے آگے آئے گا اُس کو فائر کرکے ختم کردوں گا۔ اُس شخص کا یہ کہنا ہی تھا کہ نوصد افراد کا لشکر تتّربتّر ہوگیا۔
اس کے بعد سردار اتفاق احمد خان نے راولپنڈی روانگی کے وقت مولانا کو پیغام دیا کہ آپ میری واپسی تک تائب ہوجائیں یا جان بچانے کے لئے صرف مسلمان ہونے کا اعلان کردیں۔ مولانا نے فرمایا مامور زمانہ آگیا ہے اور مَیں آپ کو مامور زمانہ کو ماننے کا کہتا ہوں۔ اور میرا تو وہی عقیدہ ہے جو آپ مانتے ہیں ۰۰۰۰۰۰ آ پ کے بزرگ اور آپ کے علماء مانتے چلے آئے ہیں۔
مولانا نے کہا کہ سردار صاحب! میرے تائب ہونے کا خیال دل سے نکال دیں۔
اِسی موقع پر سردار اتفاق خان علاقائی چیئرمین نے اپنے ایک خاص آدمی کو کہا کہ مَیں حکومت کو لکھ کر دے چکا ہوں کہ درّہ شیرخان کے علاقہ میں کوئی احمدی نہیں، اب آپ جاکر مولانا اور ان کے ساتھیوں کو بتادیں کہ اگر آپ لوگ احمدیت سے تائب نہ ہوئے تو جوتیوں کے ہار ڈال کر ربوہ روانہ کردیں گے۔
جب یہ پیغام مولانا کو پہنچا تو خوشی سے آنسو نکل آئے۔ لیکن ساتھ ہی فرمایا کہ اتفاق خان کو واپس آنا نصیب ہؤا تو تب ہی ہار ڈالے گا۔
خدا کی قدرت کہ ایک بسوں کی کمپنی کے مالک اور علاقہ کے رئیس کو راولپنڈی میں پیٹ کا درد ہوا اور ہولی فیملی ہسپتال میں تڑپ تڑپ کر فوت ہوگیا۔ بڑی مشکل سے اس کا جنازہ مل سکا اور جو تاریخ اُس نے مولانا کو جوتیوں کاہار پہنانے کی مقرر کی تھی، اُسی دن اُس کا جنازہ درّہ شیرخان پہنچا۔
حضورانور (حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ۔ ناقل) نے جو دعوت مباہلہ دی، مولوی صاحب ہر ایک کو کہتے کہ اب ظالموں پر اُن کے مظالم کے نتیجہ میں قدرت اپنا رنگ دکھائے گی۔ تو ان ہی دنوں میں درّہ شیرخان میں مولوی صاحب کے خلاف جلوس نکالنے والے ہیڈماسٹر اور اُس کے تین ساتھیوں کی ایک شدید حادثہ نے جان لے ڈالی۔ یہ وہ لوگ تھے جو درّہ شیرخان میں احمدیوں کے ازلی دشمن تھے۔ ان لوگوں نے وہاں احمدیوں کے خلاف ہر حربہ استعمال کیا لیکن ناکام رہے اور ہمیشہ ناکام ہی رہیں گے۔ انشاءاللہ۔
(بشکریہ اخبار ہفت روزہ بدر قادیان۔ 30 جولائی 1989ء۔ صفحہ 11)
(بشکریہ اخبار ہفت روزہ بدر قادیان۔ 30 جولائی 1989ء۔ صفحہ 11)