دلچسپ اور ایمان افروز واقعات ماخوذ از کتاب میری یادیں مصنفہ حضرت مولوی محمد حسین صاحبؓؤ(المعروف سبز پگڑی والے)صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام
حضرت مولوی محمد حسین صاحبؓ بیان کرتے ہیں
’’یوپی کے علاقہ سے واپسی پر مجھے گورداسپور کے ضلع میں متعین کیا گیا پھر مجھے لدھیانہ، انبالہ اور جالندھر کے تین ضلع دئیے گئے اور ساتھ ہی پٹیالہ،انڈیانہ اور جیند تین ریاستیں بھی میرے تبلیغ کے علاقہ میں شامل کی گئیں۔ میں نے قادیان سے پیدل چل کر جالندھر پہنچنے کا پروگرام بنایا۔ چنانچہ قادیان سے پیدل روانہ ہوا اور پنیٹاں پہنچا۔ وہاں سے عالم پور کوٹلے پہنچا۔ عالم پور کوٹلہ وہ جگہ تھی جہاں مولوی غلام رسول صاحب رہے ہیں۔ انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام پر قصص المحسنین کتاب لکھی تھی۔ بڑے عالم تھے۔ وہاں سے روانہ ہو کر گھیگھیاں گائوں پہنچا۔ جہاں کی زیادہ آبادی پٹھانوں کی تھی۔ وہ کہنے لگے کہ آپ ہمارے پاس ذرا رکیں ہم نے مرزا صاحب کے بارہ میں گفتگو کرنی ہے۔ وہاں کوئی احمدی گھر نہیں تھا۔ انہوں نے چارپائی مجھے بیٹھنے کو دے دی۔ مَیں بیٹھ گیا۔ انہوں نے بہت سے سوال کئے۔
ایک ان میں سے کہنے لگا کہ آنا تھا تو کیا اتنے چھوٹے سے گائوں میں ہی آنا تھا امام مہدی علیہ السلام نے اور مسیح نے؟ یہ کیا ڈھونگ رچایا ہوا ہے؟ میں نے کہا بات یہ ہے کہ جب آپ نے دعویٰ کیا تھا تو یہ کہا تھا کہ مجھے خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ میںہی امام مہدی ہوں اس لئے تم خدا سے کہہ سکتے ہو کہ چھوٹے سے گائوں میں کیوں بھیجا ہے۔ کسی بڑے شہر میں بھیجنا چاہئے تھا جس طرح مکہ والوں نے کہا تھا ’’قَرْیَتَیْنِ عَظِیْم‘‘ کسی بڑے شہر میں یہ آتا۔ مکہ میں تو تھوڑے سے گھر ہیں۔ یہ طائف میں آتا یا مدینہ میں۔ اس وقت انہوں نے بھی یہی سوال کیا تھا اور تم نے بھی یہی سوال دہرایا ہے۔ اگر وہ چھوٹے گائوں میں آکر سچے تھے تو یہ بھی چھوٹے گائوں میں آکر سچے ثابت ہوتے ہیں۔ یہ کوئی گھبرانے والی بات نہیں ہے۔ یہ تو سوال کا ایک جواب ہے۔
دوسرا یہ کہ یہ محمدی مسیح ہے۔ موسوی مسیح جہاں آئے ہیں وہاں تو سینکڑوں گھر ہیں کیونکہ یہ موسوی مسیح کی نسبت بڑا ہے۔ وہ موسوی مسیح تھا اور یہ محمدی مسیح ہے۔ موسیٰ علیہ السلام تو صرف بنی اسرائیل کے لئے آئے تھے اور یہ ساری دنیا کے لئے آئے تھے اس لئے جس جگہ پر انہیں بھیجا گیا ہے وہ مسیح ناصری کی نسبت بہت بڑا شہر ہے۔ غرضیکہ بڑی تفصیل سے باتیں ہوتی رہیں۔ اس کا کہیں بس نہ چلے وہ بہت شرمندہ سا ہو رہا تھا۔ آخر کہنے لگا کہ آپ کس طرح ان کے پاس پھنس گئے ہیں؟ میں نے کہا کمال بات آپ نے کی ہے۔ میں پہلے خود پھنسا ہوں اب لوگوں کوپھنساتا ہوں۔ میں نے جو کچھ دیکھا ہے وہ آپ نے نہیںدیکھا اور جو آپ نے نہیں دیکھا وہ ہم نے دیکھا ہوا ہے۔ اس لئے ہمیں وہ سچے معلوم ہوئے اور ہم نے ان کی بیعت کر لی۔ نشانات جو تھے وہ سارے پورے ہوگئے۔ اب آپ خود بتائیں یہ سارے نشانات کس کے لئے پورے ہوئے ہیں۔ کوئی اور بتادیں جس کے لئے سارے نشانات پورے ہوئے ہوں۔ کسی اور کا بتاتے بھی نہیں ہیں۔
وہ کہنے لگا کہ ہم نے سنا ہوا ہے کہ مسیح نے آسمان سے اترنا ہے۔ میں نے کہا یہ تو آپ نے سنا ہوا ہے۔ کبھی یہ قرآن میں بھی پڑھا ہے یا یہ کسی حدیث میں ہے کہ عیسیٰؑ آسمان سے آئیں گے۔
اسی مجلس میں ایک مُلّاں جی بھی بیٹھے ہوئے تھے کہنے لگے ابن مریم کون تھے؟ میںنے کہا جو بھی مریم کا بیٹا ہو وہ ابن مریم ہے یہ کونسی نئی بات آپ نے پوچھی ہے۔ حضرت عیسیٰ ؑ بھی ابن مریم تھے۔ چونکہ انہیں باپ کے بغیر اللہ نے پیدا کیا اس لئے ماں کی طرف منسوب ہوئے۔ یہ سن کر وہ کہنے لگے کہ ابھی ہم رہنے دیتے ہیں پھر کبھی آپ آئیں گے تو ہم کسی بڑے مولوی کو بلوالیں گے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ اس طرح مجلس برخواست ہوئی اور عصر کی نماز کا وقت ہو چکا تھا۔
نماز کے بعد دوبارہ سفر شروع کیا ابھی چھ میل ہی گیا تھا کہ شام ہو گئی۔ میرا خیال تھا کہ جالندھر کی سر حد تک پہنچ جائوں گا۔ میں سڑک کے کنارے چلتا جا رہا تھا کہ ایک طرف سے ایک آدمی آیا اور میرے قریب آکر کہنے لگا بھائی جی آپ نے کہاں جانا ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ فلاں گائوں جانا ہے۔ وہ کہنے لگا وہ تو بہت دُور ہے آپ کو بہت زیادہ دیر ہو جائے گی اور سخت اندھیرا بھی ہوگا۔ یہ راستہ خطرناک ہے یہاں کے لوگ بڑے خراب ہیں یہ کتابیں بھی چھین لیں گے اور آپ کو نقصان بھی پہنچائیں گے اس لئے آپ رات یہیں گزارلیں۔ میں نے کہا میرا تو کوئی واقف نہیں ہے۔ وہ کہنے لگا کوئی بات نہیں آپ رات میرے پاس ہی ٹھہر جائیں۔ وہ اس گائوں کا نمبردار تھا۔ میں اس کے ساتھ چل پڑا۔ گھر سے کچھ فاصلہ پر اس کی بیٹھک تھی۔ اس نے مجھے چارپائی وغیرہ دے دی اور میں بیٹھ گیا۔ خود وہ اپنے گھر چلا گیا تا کہ میرے کھانے کا انتظام کرے۔ تھوڑی دیر میں وہاں لوگ اکٹھے ہو گئے۔ شاید اسی نے لوگوں کو بتا دیا تھا کہ ایک مرزائی ہمارے قابو آیا ہواہے۔ مجھے اس سے فائدہ ہو گیا۔ میں دونوں نمازیں پڑھ کر فارغ بیٹھا تھا میں نے ان سے کہا کہ دوستو! کوئی بات پوچھنی ہے تو پوچھ لو۔ اتنے میں ان کا نوکر میری روٹی لے آیا۔ وہ سب کہنے لگے کہ پہلے آپ کھانا کھا لیں اتنے میں اور لوگ بھی اکٹھے ہو جائیں گے۔ اور ہم سب سے کہیں گے کہ کسی نے کوئی سوال پوچھنا ہو تو وہ پوچھ لے گا۔ ہم نے سنا ہے کہ بڑی دُور دُور سے لوگ وہاں آکر بیعتیں کرتے ہیں۔ آخر کوئی بات تو ہوگی۔ جس وجہ سے پڑھے لکھے ،اَن پڑھ ، دوکاندار ، ملازمت پیشہ اور ہر طرح کے لوگ جہاں بیعتیں کرتے ہیں آخر کوئی بات تو ہوگی۔ ہمارے کیوں نہیں کوئی کرتا؟ جب اس نے یہ کہا تو ایک آدمی نے جرأت کرتے ہوئے کہا کہ آپ یہ بتائیں کہ آنا تھا تو مغل نے ہی آنا تھا۔ کوئی سیّد آتا؟ میں نے کہا کہ یہ سوال آپ مجھ سے نہیں کر رہے۔ تو وہ کہنے لگا اور کس سے کر رہا ہوں۔ میں نے کہا یہ تو بھیجنے والے پر سوال ہو سکتا ہے کہ اس نے مغلوں میں کیوں بھیجا ہے۔ میں نے کہا کیا تمہیں پتہ ہے کہ یہ کون سے مغل ہیں جن کی سیّدوں کے ساتھ بھی رشتہ داریاں ہیں۔ مرزا صاحب کی بیوی سیّدانی ہیں۔ بڑا حیران ہو کر پوچھنے لگا کہ کیا یہ سچ ہے۔ میں نے کہا ہاں جا کر تحقیق کرلیں وہ سیّدانی ہیں۔ ان کے بیٹے بھی سیّدوں کے گھر بیاہے ہوئے ہیں۔ بلکہ مرزا صاحب کی بعض دادیاں بھی سیّد تھیں۔ یہ سن کر وہ چپ ہو گیا اور مزید کوئی سوال نہیں پوچھا۔ میں نے باقی لوگوں سے پوچھا کہ کسی اور نے کوئی سوال پوچھنا ہو تو پوچھیں۔ وہ کہنے لگے کہ ہم تو اَن پڑھ ہیں ہم کیا سوال پوچھ سکتے ہیں۔ صرف ایک بات ہے کہ ہم نے سنا ہوا ہے کہ امام مہد ی جب آئے گا تو وہ تلوار چلائے گا اورجو کوئی اسے نہیں مانے گا وہ اس کا سر قلم کر دے گا۔ میں نے کہا کس سے یہ سنا تھا ؟ کہنے لگا ہمارا مولوی یہ سنایا کرتا تھا۔ میںنے کہا وہ کہاں ہے اسے میرے پاس لائو ۔وہ کہنے لگے نہیں وہ تو فوت ہو چکا ہے۔میںنے کہا مہدی کے معنی ہیں خود ہدایت یافتہ اور لوگوں کو ہدایت دینے والا۔ یہ ہیں مہدی کے معنی۔ امام قاتل کا تو انہوں نے کہیں بھی نہیں لکھا کہ کوئی قاتل امام آئے گا۔ اگر تو کوئی اس کی بات مان لے تو درست و گرنہ وہ اس کی گردن کاٹ کر الگ کردے گا۔ ہدایت تو زندہ لوگوں کو ہوتی ہے جس کا سر قلم کردیا یعنی واصلِ نار کر دیا، کیا اس نے سب کو جہنمی بنانا ہے۔ ذرا عقل سے کام لو۔ غرضیکہ سارے چپ ہو گئے۔
نمبردار صاحب بہت ہوشیار آدمی تھے۔ مجھے معلوم ہوتا تھا کہ اس نمبردار پر بھی کافی اثر تھا وہ سب کو مخاطب کرکے کہنے لگا کہ سب مولویوں نے جو کفر کے فتوے دئیے ہیں ان کی یہ مثال ہے کہ ایک دفعہ ایک ذمّہ دار شخص کہیں جا رہا تھا اس نے راستہ میں ایک گائے کا بڑا خوبصورت بچہ دیکھا اور وہ خوب پہچانتا تھا کہ یہ بڑا ہو کر خوبصورت بیل بنے گا اس نے اس کی ٹانگوں اور جسم سے اندازہ لگا لیا تھا۔ وہ مالک سے پوچھنے لگا کہ کیا تم نے اسے بیچنا ہے۔ وہ کہنے لگا کہ بیچ دوں گا۔ وہ پوچھنے لگا کتنے پیسے لوگے؟ اْس نے جتنے پیسے بتائے اس نے وہ رقم دے کر بچھڑا خرید لیا اور اسے لے کر چل پڑا اس کی گردن میں چھوٹی سی رسّی ڈال لی۔ آگے چار ٹھگ راستہ میں بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے جب اس بچھڑے کو دیکھا تو پروگرام بنایا کہ کیوں نہ اسے اس سے چھین لیا جائے یہ تو خوبصورت بیل بنے گا۔ انہوںنے سوچا کہ اگر ہم نے طاقت سے اس سے چھیننا چاہا تو یہ تو شور مچا دے گا اور لوگ اکٹھے ہو جائیںگے۔ بہتر یہ ہے کہ اسے کسی اور طریقہ سے چھینا جائے۔ چنانچہ ان میں سے ایک تو وہیں کھڑا رہا اور دوسرا دو فرلانگ کے فاصلہ پر چلا گیا۔ تیسرا اس سے آگے دو فرلانگ کے فاصلہ پر چلا گیا اور چوتھا اس سے آگے دو فرلانگ کے فاصلہ پر چلا گیا۔ اس طرح وہ ایک میل کے فاصلہ پر پھیل گئے۔ جب وہ چلتا ہوا پہلے کے پاس سے گزرنے لگا تو وہ کہنے لگا تیرا برا ہو یہ بھیڑیا کہاں سے لائے ہو۔ شکر ہے کہ میں پیچھے ہٹ کر بچ گیا ہوں وگر نہ تُومجھے مروانے لگا تھا۔ وہ حیران ہوا کہ یہ کہاں سے بھیڑیا لگا ہے۔ میں تو گائے کا بچہ لایا ہوں۔ لیکن اسے یہ سوچ پیدا ہو گئی کہ اس نے بھیڑیا کیوں کہا ہے۔ کبھی وہ بچھڑے کو دیکھے اور کبھی رسّی کو اس طرح آگے پیچھے دیکھتا ہوا چلتا گیا اور یہ بھی سوچنے لگا کہ کہیں مجھ کو ہی غلطی تو نہیں لگ گئی۔ خیر چلتے چلتے اسی سوچ میں وہ دوسرے شخص تک پہنچا ہی تھا کہ وہ چھلانگ لگا کر اس کے پیچھے ہو گیا اور برا بھلا کہنے لگا کہ تم مجھے مروانے لگے تھے یہ بھیڑیا کہاں سے لائے ہو۔ وہ سوچ میں پڑ گیا کہ یہ کیا بات ہے۔ میں تو گائے کے پاس سے لایا ہوں۔ غرضیکہ مصیبت میں پڑ گیا اور سوچنے لگا کہ اگر یہ بھیڑیا ہوتا تو کیا مجھے وہ کچھ نہ کہتا۔ خیر وہاں سے بھی نکل کر آگے چلتا گیا اور اسے سوچ پیدا ہو گئی کہ پہلے نے بھی بھیڑیا کہا اور دوسرے نے بھی بھیڑیا کہا کیا میری ہی نظر کا تو قصور نہیں۔ یہ سوچتے ہوئے جب تیسرے شخص تک پہنچا تو وہ بھی چھلانگ لگا کر اس کے پیچھے ہو کر کہنے لگا کہ مجھے تو تم مروانے لگے تھے یہ بھیڑیا کہاں سے لائے ہو تیرا برا ہو۔ اب وہ مزید سوچ میں پڑگیا کہ معاملہ کیا ہے جو بھی مجھے ملتا ہے یہی کہتا ہے کہ بھیڑیا کہاں سے لائے ہو کبھی اسے دیکھے کبھی رسّی کو دیکھے اور کبھی اپنے آپ کو دیکھے۔ کبھی اس راستہ کو دیکھے جدھر سے وہ آرہا تھا سوچے کہ میں تو گائے کے نام پر لایا ہوں پھر اسی سوچ میں آگے پہنچا۔ چوتھا ٹھگ درخت پر فوراً چڑھ گیا اور اسے بہت برا بھلا کہنے لگا اور کہا کہ یہ تم نے بھیڑیا کیوں پکڑ رکھا ہے اسے کہاں سے لائے ہو تم تو مجھے مروانے لگے تھے۔ جب اس ٹھگ نے بھیڑیا کہا تو اس نے رسّی چھوڑ دی اور بھاگنے لگا کہ جو کوئی مجھے ملتا ہے وہ اسے بھیڑیا کہتا ہے یہ ضرور میری نظر کا قصور تھا۔ نمبردار کہنے لگا اسی طرح لوگ آپ کے ساتھ آکر کرتے ہیں۔ جو بھی آتا ہے کہتا ہے بڑا برا دعویٰ کیا ہے وہ آپ کوشش و پنج میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں نے کہا میں آپ کی مثال کو خوب سمجھا ہوں اور میں بہت سی جگہوں سے ایسے ہی بھگت آیا ہوں۔ مولویوںکی روٹیوں پر اثر پڑتا ہے جو بھی کوئی مولوی آتا ہے کہتا ہے توبہ توبہ اس کے ساتھ بات مت کرنا و گرنہ کافر ہو جائوگے۔ اس سے بات کرتے ہی کافر ہو جائوگے۔جتنے نبی آئے وہ کفار کو مسلمان بنانے آئے اور اگر کافروں کے ساتھ بات کرنے کا حکم نہیں تھا تو وہ ان کے پاس کیا لینے آئے تھے۔اس گفت وشنید کا ان پر بہت اچھا اثر ہوا۔
صبح ہوتے ہی میںنے دوبارہ پیدل سفر شروع کر دیا۔ اس زمانہ میں یہ سارے سفر پیدل ہی کرنے پڑتے تھے۔ وہاں سے کافی مسافت طے کرکے ’’کھنّے ‘‘گائوں پہنچا۔وہاں سے ٹرین پر سوار ہو کر ’’بیاس‘‘ کے اسٹیشن پر پہنچا اور وہاں سے سوار ہو کر ’’پھگواڑے ‘‘اور وہاں سے ’’نکودر‘‘پہنچا۔ وہاں ایک مولوی عبد اللہ صاحب تھے ان سے میں نے پوچھا کہ کیا یہاں کوئی احمدیوں کا گائوں ہے۔ کہنے لگا یہاں قریب ہی شاکر کا اسٹیشن ہے اور اس کے ساتھ ایک گائوں ہے اور وہاں مولوی فرزند علی صاحب رہتے ہیں۔ میں وہاں پہنچا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک پادری صاحب وہاں بیٹھے ہوئے ہیں اس کا نام امام دین تھا۔ پادری صاحب مولوی صاحب سے کہہ رہے تھے کہ میرے ساتھ مناظرہ کرو۔ میں خاموشی سے جاکر سلام کرکے بیٹھ گیا۔ مولوی فرزند علی صاحب پادری سے کہنے لگے کہ میں مسلمان آدمی ہوں اسلام کی باتیں تو جانتا ہوں لیکن آپ کی باتوں کا میں واقف نہیں ہوں اس لئے آپ جو باتیں کریں گے ان کا میں جواب دو ںگا۔ وہ کہنے لگا نہیں آپ میرے ساتھ باقاعدہ مناظرہ کریں۔ مولوی صاحب اسے کہنے لگے کہ پھر تم اس کی مجھے مہلت دو۔ کہنے لگا اچھا تو پھر پرسوں نو بجے آپ نے ’’گاندران‘‘ آنا ہوگا۔’’نکودر ‘‘ سے گاندران کافی دور جگہ تھی۔ مولوی صاحب کہنے لگے میں نے قادیان سے مولوی منگوانا ہے اور تم پرسوں کا وقت کہہ رہے ہو۔ میں اگر کل قادیان روانہ ہوا تو پرسوں شام تک واپس آسکتا ہوں۔ تم نے کس طرح پرسوں کا وقت رکھا ہے، تم دن بڑھائو۔ وہ کہنے لگا نہیں پھر میں نے وہاں سے چلے جانا ہے۔ اس لئے پرسوں نو بجے آنا ہوگا۔ میں نے مولوی صاحب سے کہا آپ مان لیں۔ اس سے پرسوں کا ہی وقت طے کر لیں کیونکہ ٹیلیگرام پندرہ بیس منٹ تک پہنچ جائے گی اور وہاں سے صبح تک آدمی آجائے گا کوئی فکر والی بات نہیں ہے آپ اس سے طے کر لیں۔وہ کہنے لگے کہ قادیان کوئی مولوی تیار بیٹھا ہوگا کہ ادھر ٹیلیگرام انہیں ملی اور وہ اسی وقت وہاں سے روانہ ہو جائیں۔ میں نے کہا وہاں بہت مبلغین ہیں اور فوراً وہ روانہ بھی ہو جائیں گے آپ زیادہ فکر نہ کریں۔ وہ کہنے لگے اگر پرسوں تک کوئی نہ پہنچا تو میں جھوٹا ٹھہروں گا۔ میں نے کہا اور اگر آگیا تو۔وہ کہنے لگا کہ پھر تو مناظرہ ہو جائے گا۔ کہنے لگا ٹھیک ہے۔ پادری ان سے تحریر لے کر اورا پنی دے کر رخصت ہو گیا۔
پھر میں نے ان سے کہا کہ بابا جی! آپ کو کوئی مبلغ قادیان سے منگوانے کی ضرورت نہیں ہے۔ مَیں انشاء اللہ خود ہی ان سے نمٹ لوں گا۔ وہ پوچھنے لگے آپ کون ہیں کہاں سے آئے ہیں اور کیا کام ہے۔ میںنے کہا کہ میں سلسلہ کا مبلغ ہوں اور میں ’’نکودر‘‘ سے مولوی عبداللہ کے پاس سے ہو کر آرہا ہوں۔ انہوںنے آپ کا ایڈریس دیا تھا اس لئے میں آپ کے پاس آیا ہوں اور یہاں جب میں نے آپ کو پادری سے بحث کرتے دیکھا تو میں نے یہ رائے دی کہ آپ منظور کر لیں اب میں جانوں یا پادری جانے آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ وقت پر پہنچ جانا۔ رات گزاری شام سے پہلے ایک تقریر بھی کی۔ صبح اٹھ کر میں ’’نکودر‘‘ مولوی عبد اللہ کے پاس پہنچا اور انہیں کہا کہ1916ءکا جو بائبل کا ایڈیشن ہے وہ اگر آپ مہیا کر دیں تو بڑی مہربانی ہوگی۔ کل نو بجے ’’گاندران‘‘ میں پادری سے مناظرہ ہے۔ وہ کہنے لگے میں کوشش کرتا ہوں کہ وہ مل جائے۔ وہ مشن میں گئے اور ان سے کہا کہ ہمیں بھی بائبل سے پیار ہے۔لہٰذا ہمیں 1916ء کی چھپی ہوئی بائبل چاہئے۔وہ کہنے لگا کہ بائبل تو نہیں ہے یہ عہدنامہ ہے جو 1916ءمیں چھپا تھا۔ کہنے لگے یہی دے دیں۔ وہ میرے پاس لے آئے اور مجھے یہی چاہئے تھا۔ رات مولوی صاحب کے پاس رہا اور سارے حوالے نکال کر نشانیاں رکھ دیں۔ صبح میں نے مولوی صاحب سے کہا کہ صبح کی گاڑی تو نو بجے جانی ہے اور میں نے صبح نو بجے وہاں پہنچنا ہے اس طرح گاڑی پر جانے سے وقت پر نہیں پہنچ سکوں گا۔ لہٰذا پیدل روانہ ہو گیا اور اس گائوں میں ان کے ڈیرے پر پہنچا۔ وہاں وہ پادری موجود نہیں تھا وہ کہیں کھانا کھانے گیا ہوا تھا۔ میں نے ڈیرے والوں سے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ یہاں پر آپ کا کوئی مناظرہ ہے۔ وہ کہنے لگے جی ہاں۔ میں نے کہا مجھے بھی بڑا شوق ہے کہ میں بھی سنوں اور میں بھی آگیا ہوں۔ انہوںنے چارپائی بچھا کر اس پر دری و تکیہ وغیرہ رکھ دیا۔ میں اس پر بیٹھ گیا۔ باباجی بھی نو بجے کی گاڑی سے پہنچ گئے لیکن انہیں بخار ہو گیا تھا میں نے اس چارپائی پر باباجی کو لٹا دیا۔ اتنے میں پادری آگیا اور باباجی سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ آپ کا مناظر آگیا ہے۔ اس نے کہا کہ مجھے تو بخار ہو گیا ہے اس لیے (میرے بارے میں کہا) کہ یہی آپ سے بات چیت کریں گے۔ وہ بڑا حیران ہوا کہ یہ بندہ تو اس دن بھی موجود تھا جس دن مناظرہ طے کیا تھا۔ پادری کا نام امام دین تھا اور حافظ قرآن بھی تھا۔ چار پانچ ایسے پادریوں سے میرے مناظرے ہوئے ہیں ان میں سے دو حافظ قرآن تھے۔ دوسرے کا نام حافظ قائم دین تھا۔ مناظرہ کے بارہ میں انہوں نے بہت اعلان کرائے ہوئے تھے۔ بہت بڑا گائوں تھا اور ادھر ہی ان کا گرجا بھی تھا اور ادھر ہی مناظرہ بھی ہونا تھا۔ چنانچہ ہندو،سکھ اور غیر احمدی سب اکٹھے ہو گئے اور مولوی عبداللہ صاحب بھی آگئے۔ پادری کہنے لگا کہ آپ کیا مناظرہ کریں گے۔ میں نے کہا انشاء اللہ تعالیٰ کریں گے۔ فوراً مذاق کے رنگ میں بولا کہ بڑا آیا ہے انشاءاللہ تعالیٰ۔ میں نے اسے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ حافظ قرآن ہیں۔ کہنے لگا ہاں۔ میں نے کہا قرآن کریم نے آپ کو عیسائی ہونے والی کونسی آیت بتائی ہے کہ اب حضرت محمدؐ کی ضرورت نہیں رہی اور آپ پھر پچھلے زمانہ میں جائیں۔ اور خدا کے بندے ایک ہانپتا ہوا بندہ بھی آگے کو جاتا ہے تم پیچھے کو گئے ہو بڑے افسوس کی بات ہے۔ اتنے بڑے نبی کو چھوڑ کر جس کے متعلق مسیح علیہ السلام کہتے ہیں کہ میں ان کے جوتوں کا تسمہ بھی کھولنے کے قابل نہیں اور تم اس کی طرف ہو گئے جو تسمہ بھی کھولنے کے قابل نہیں تھے۔ مجھے تو معلوم ہوتا ہے کہ تمہیں بسکٹ اور ڈبل روٹیاں کھینچ کر لے گئی ہیں۔ یہاں تو نماز تراویح تمہیں سال بعد پڑھانی پڑھتی تھیں تو کچھ ملتا تھا۔ یہاں پر ہر وقت ملتا رہتا ہے۔ کہنے لگا یہ آپ ذاتیات کی باتیں کر رہے ہیں۔ میں نے کہا آپ نے خود ہی کہا ہے کہ میں حافظ قرآن ہوں۔ تو ذاتیات تو آپ نے خود پیش کی ہے۔ میں اس پر جرح کرنے کا حق رکھتا ہوں۔ اب اس طرح کریں کہ یہ جو انجیل ہے کیا یہ ساری دنیا کے لئے ہے۔ کہنے لگا ہاں یہ ساری دنیا کے لئے ہے؟ میں نے کہا اس میں سے ایک ہی ایسی آیت اس بارے میں نکال دو۔ مسیحؑ تو کہتے ہیں کہ میں تو بنی اسرائیل کی گم شدہ بھیڑوں کو جمع کرنے کے لئے آیا ہوں اور قرآن تو کہتا ہے جسے تم نے کسی زمانہ میں حفظ کیا تھا کہ (رَسُوْلًا اِلٰی بَنِیْ اِسْرَآئیل) وہ تو صرف بنی اسرائیل کے لئے رسول تھے اور وہ خود بھی یہی کہتے ہیں کہ میں بنی اسرائیل کی گم شدہ بھیڑیں اکٹھا کرنے آیا ہوں۔انجیل بھی یہی کہتی ہے اور قرآن پاک بھی یہی کہتا ہے تو آپ نے ساری دنیا کا لفظ انجیل سے کہاں سے نکالا ہے۔ کہنے لگا کہ یہ مسیح کی تعلیم بتاتی ہے اسی لئے وہ ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔ میں نے کہا ساری د نیا میں پھیلنے کی یہ دلیل نہیں ہے۔ ساری دنیا نے تو اسے نہیں مانا۔ صرف عیسائیوں نے اسے مانا ہے۔ اور عیسائیوں نے بھی یہی مانا ہے کہ یہ مسیح ہے اور انجیل سے تو وہ واقف ہی نہیں ہیں صرف یہ پیدائشی عیسائی ہیں۔ امریکہ،برطانیہ اور دوسرے ملکوں میں یہ صرف عیسائی کہلاتے ہیں مگر یہ لوگ مذہبی نہیں ہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ کیا ساری دنیا اتنی ہی ہے۔ ہندوستان اتنا بڑا ملک ہے جہاں اتنی زیادہ آبادی ہے وہ تو انہیں نہیں مانتی۔ میں نے اسے کہا کہ مجھے صرف یہ بتائیں کہ عیسائی مذہب میں کیا خوبی ہے جو اسلام چھوڑ کر آپ کو اس مذہب میں جانا پڑا تا کہ میں بھی اس پر غور کر سکوں۔ کہنے لگا اس نے بڑی نرمی کی تعلیم دی ہے کوئی اگر ایک ’’گال‘‘ پر طمانچہ مارے تو دوسری گال آگے کردو۔ میں نے کہا یہ تو کسی کام کی تعلیم نہیں ہے۔ ایک عیسائی جج بیٹھا ہو اور اس کے سامنے ایک چور کا معاملہ پیش ہو اور وہ چور آگے بڑھ کر جج کے منہ پر طمانچہ مار دے تو کیا جج دوسرا گال اس کے آگے کر دے گا یا اسے جیل میں بھجوا دے گا۔ کیا اس تعلیم پر عمل ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب دو۔ اور اگر اس پر عمل ممکن نہیں تو وہ حکم کیسا ہوا جس بات پر عمل نہ ہو سکتا ہو۔ وہ حکم نہیں ہو سکتا۔ قرآن کہتا ہے کہ میری وہ تعلیم ہے جس پر ہر کوئی عمل کر سکتا ہے۔ کہنے لگا مسیح ؑتو گناہوں کا کفّارہ ہے وہ تو جان دے گیا ہے۔ میں نے کہا بہت اچھا کفّارہ ہو گیا۔ کہنے لگا ضرور۔ میں نے کہا کس طرح پتہ چلا۔ میں نے کہا انجیل جو یہ کہتی ہے کہ آدم نے گناہ کیا اور اسے سزا ملی کہ تو پسینے کی کمائی سے روٹی کماکر کھائے گا۔ حوّا نے گناہ کیا اسے سزا ملی کہ تو درد زہ سے بچہ جنے گی۔ ان دونوں کو یہ سزائیں ملی تھیں۔ اب جو مسیح ؑ گناہوں کا کفارہ ہو گیا اور یہ جو عورتیں مکانوں کی چھتوں پر بیٹھ کر باتیں سن رہی ہیں ان سے پوچھو کہ اب تو مسیح ؑ کو 2000 سال ہو گئے ہیں آیا تمہارا بھی کفارہ ہو گیا ہے تو کیا تمہیں بچہ پیدا کرنے سے پہلے درد زہ نہیں ہوتی۔ یہ اپنے بچوں کے سرپر ہاتھ رکھ کر بتائیں۔ اگر تو ہوتی ہے تو پھر تو گناہ قائم ہے پھر کفّارہ کس چیز کا ہوا۔ اور وہ جو صبح سویرے اٹھ کر سارے بازار میںجھاڑو دیتے ہیں اور محنت اور تکلیف سے پسینہ سے بھرے ہوتے ہیں کیا ان کا بھی کفّارہ ہوا ہے کہ نہیں۔ ہمیں جو عیسائی یہاں نظر آتے ہیں کوئی جھاڑو دے رہا ہے تو کوئی راجپوتوں یا جٹوں کی زمینوں پر ہل چلا رہے ہیں اور کوئی گندگی اٹھانے پر لگے ہوئے ہیں۔ اب تم مہربانی سے بتائو کہ انہیں پسینہ آتا ہے کہ نہیں۔ یہ باتیں سن کر اس پادری کو بھی پسینہ آرہا تھا کیونکہ گرمی کے دن تھے۔ میں نے کہا اپنا پسینہ بھی صاف کرلو۔ چنانچہ پتہ چلا کہ گناہ قائم ہے۔ ان باتوںکا اس پر اور سارے مجمع پر بہت اثر ہوا۔عورتوں کی طرف دیکھنے لگا کیونکہ دردزہ تو ہوتی ہے۔ اب پتہ چلا کہ مسیح کفارہ نہیں ہوا۔ قرآن کہتا ہے (وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِزْرَاُخْریٰ) کہ کوئی بھی ایک دوسرے کا گناہ نہیں اٹھاسکتا ، کسی قسم کا کوئی بوجھ ایسا نہیں اٹھا سکتا قرآن کی بات سچی ہے۔ دیکھ لو یہ بھی گنہگار موجود ہیں اور تم بھی گنہگار موجود ہو۔ مسیح ؑکا کفارہ کوئی نہیں ہوا۔ کہنے لگا بات یہ ہے کہ جس پادری نے آپ کے ساتھ مناظرہ کرنا تھا وہ نہیں آیا۔ میںنے کہا تو پھر آپ نے کیوں شروع کیا۔ تم مجھے آتے ہی کہہ دیتے کہ ہمارا پادری نہیں آیا۔ کہنے لگا کہ آپ نے پھر جرمانہ مانگ لینا تھا۔ میںنے کہا اگر اب آپ مناظرہ نہیں کرتے تو میرا تو جرمانہ آپ پر قائم ہوگیا۔ خیر وہاں شور پڑگیا۔ نعرہ تکبیر بلند ہونے لگا۔ مسلمان سب نعرے لگانے لگے وہ ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا۔ کہنے لگا کہ ہمیں خطرہ ہے کہ ہم پر حملہ نہ ہو جائے اس لئے ہمیں معافی دو۔ خیر اس طرح مناظرہ ختم ہو گیا اور مسلمان مجھے ساتھ لے گئے اور کہنے لگے ہمیں گفتگو سن کر مزہ آگیا ہے۔ یہ بھی بڑا اچھلتا تھا مگر آج پتہ نہیں اسے کیا ہوا تھا۔ آپ نے کیا پڑھ کر اس پر پھونک ماری تھی۔ انہوںنے مجھے اپنے پاس دو دن رکھا۔ سب غیراحمدی احباب تھے اور دو تین میری تقریریں بھی کروائیں اور بڑے پیار سے میری باتیں سنتے رہے۔ میں نے احمدیت کی تعلیم بھی انہیں سنائی اور کہا کہ آپ کو ان بیرونی خطرات سے بچنے کے لئے احمدیت میں داخل ہونا پڑے گا۔ یہ تمہارے میاں جی ان جیسے لوگوں کے ساتھ مقابلہ نہیں کرسکتے۔ پادری بھی کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ زندہ آسمان پر ہیں اور یہ بھی ایسا ہی مانتے ہیں۔وہ کہتے ہیںکہ جو زندہ نبی ہے اسے مانیں اور جو وفات یافتہ ہے جس کی قبر مدینہ میں ہے اسے مان کر کیا کریں گے۔آپ بتائیں کہ ان کے پاس عیسائیوں کے خلاف کیا جواب ہے۔ یہ ہر گز جواب نہیں دے سکتے۔ خدا کے فضل سے ان مسلمانوں نے میری اس تبلیغ سے بہت اچھا اثر لیا اور دودن تک مجھے وہاں سے جانے نہ دیا