انصار مدینہ کی یادیں تازہ ہوگئیں
(منصور احمد زاہد۔ مبلغ سلسلہ ساؤتھ افریقہ)
آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مدینۃالنبی صلی اللہ علیہ وسلم میں رہنے والے ابتدائی مسلمانوں نے جو اعلیٰ سلوک اپنے مکّہ سے آنے والے مہاجر بھائیوں کے ساتھ کئے وہ تو زبان زدعام ہیںاور اسلام کی ابتدائی تاریخ خصوصاً اخوّت اسلامی کا ایک سنہری باب ہے۔ سردست اس کی ایک ہلکی سی جھلک گھانا کے احمدی احباب کی دکھانا مقصود ہے جو اُن کی طرف سے شام اور پاکستان سے آئے ہوئے مہاجرین کے ساتھ سلوک کی ہے۔
جب شام میں خانہ جنگی کے حالات بدتر ہوتے چلے گئے اور عمومی زندگی کو خطرات لاحق ہوئے تو وہاں چند احمدی فیملیوں نے ہجرت کا فیصلہ کیا اور مرکز کی طرف سے اُنہیں گھانا جانے کا کہا گیا۔ خاکسار اُن دنوں گھانا کے ایک شہر ٹیچی مان میں بطور ریجنل مبلغ مقرر تھا چنانچہ اُن کی آمد سے قبل رہائش وغیرہ کے لئے مشورہ ہوا جس میں بستان احمد میں جماعت کی دو منزلہ عمارت کو تیار کیا گیا۔ خاکسار جن دنوں اکرہ میں قیام پذیر تھا اور جماعت کے پرنٹنگ پریس کا مینجر تھا کو بھی بستان احمد کی اسی بلڈنگ کے ایک حصّہ کو مکمل کروانے اور پھر چار سال سے زائد رہائش کا موقع ملا تھا۔ چونکہ یہ بلڈنگ ناکافی تھی اس لئے اکرہ سے قریبی شہر Kasoa میں مکرم عبدالوہاب صاحب (امیر) مرحوم کی صاحبزادی مکرمہ امۃالشکور صاحبہ نے بھی نَوتعمیر شدہ گھر پیش کردیئے چنانچہ شام سے آئے ہوئے گھرانے ان دو جگہوں پر آباد کردیئے گئے۔
غانا کے احمدیوں نے اس کے علاوہ حتی الوسع ان آنے والے بھائیوں کی ہر ضرورت کا خیال رکھا۔ کھانے پینے کے لئے خشک راشن بھی مہیا کیا۔
پاکستان سے بھی دو گھرانے بوجوہ وہاں کے نازک معاملات کے مہاجر ہوکر آئے۔ ایک فیملی کو الحاج ابراہیم بُونسو صاحب نے اپنے ایک عالیشان گھر کا ایک حصّہ دیا جسے خاکسار نے خود بھی دیکھا ہے۔ ایک اور فیملی کو کماسی کے ایک علاقہ میں ایک مقامی احمدی کی طرف سے بطور عطیہ دیئے گئے گھر میں رکھا گیا۔ ان پاکستانی گھرانوں کی بھی مقامی احمدیوں نے حتّی الوسع مدد کی۔ کئی مخیّر حضرات ہر ماہ خشک راشن اور دیگر سہولیات مہیا کرتے رہے۔ کئی مالی امداد بھی کرتے رہے۔
خاکسار نے جب ٹیچی مان کی جماعت سے ذکر کیا تو اُن میں سے بھی کئی احباب آگے آئے اور انہوں نے خشک راشن اور مال سے مدد کی جس کا مزید ضروری کھانے پینے کا سامان خرید کر ان مہاجرین کو پہنچایا گیا۔
ان تمام گھرانوں کے بچوں کے سکول کا بھی جماعت کی طرف سے انتظام کیا گیا۔ ان تمام مہاجرین کے ساتھ گھانا کے احمدی احباب نے جو سلوک کیا اُس نے اوّلین کے دَور کی یاد تازہ کردی اور حضرت مسیح موعودؑ کے فرمان ’’صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا‘‘ کا ایک اور خوبصورت پہلو اُبھر کر سامنے آیا۔ ہر چند کہ گھانا کے احمدیوں نے احمدیت صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعہ حاصل کی جس پر ایک صدی گزرنے کو ہے مگر جو رنگ انہوں نے اُس وقت حاصل کئے آج بھی اُن کی نسلوں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اجر عظیم سے نوازاے۔ آمین