حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف مُنیف ’’کشتی نوح‘‘کی تاثیرات، بار بار پڑھنے کی تاکید ۔کثرت اشاعت کی ہدایت۔’’کشتی نوح کا بار بار مطالعہ کرو اور اس کے مطابق اپنے آپ کو بنائو‘‘
عبدالسمیع خان۔ جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ فرمودہ 13 اپریل2018ءمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتاب ’’کشتی نوح‘‘ کو بار بار پڑھنے اور درسوں میں سننے اور سنانے کی ہدایت فرمائی ہے۔ اس حوالے سے یہ مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ نے کشتی نوح ایسے وقت (تاریخ اشاعت5؍اکتوبر1902ء) میں لکھی جب دنیا خدا سے دوری اور اخلاقی تباہی کی و جہ سے سخت غضب الہٰی کا شکار تھی اور خصوصاً ہندوستان ایک مامورمن اللہ کے انکار کی وجہ سے طاعون کا نشانہ بن رہاتھا۔
اس کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن و سنت کی روشنی میں اپنا پیغام درج کیا اور وہ تعلیم بیان کی جو احمدی جماعت کے لئے ضروری اور نجات کا باعث ہے۔آپ نے الہامی تصریحات کے مطابق اس کو ’’کشتی نوح ‘‘سے تشبیہ دی جو طوفان ضلالت سے مومنوں کو بچا سکتی ہے۔فرمایا
ایک طوفاں ہے خدا کے قہر کا اب جوش پر
نوح کی کشتی میں جو بیٹھے وہی ہو رستگار
(درثمین،صفحہ144)
اس کتاب سے ہزار ہا سعید روحوں نے فائدہ اٹھایا۔ ان میں وہ بھی تھے جو احمدی تھے اور اس تعلیم پر عمل پیرا ہو کر اس الہام کے تحت حفاظت الہٰی کے حقدار ہوئے کہاِنِّی اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ۔
(الہام8؍ اپریل1902ء ،تذکرہ صفحہ348)
یعنی میں ہر ایک کو جو تیرے گھر کی چاردیوار کے اندر ہے طاعون سے بچائوں گا۔
اور وہ بھی تھے جو احمدی نہیں تھے انہوں نے اس کتاب کے مطالعہ سے قبول احمدیت کی توفیق پائی اور رستگار ہو گئے۔
سعید روحیں
حضرت غلام حیدر صاحب ولد میاں خدا بخش صاحب سکنہ احمد نگر ضلع گوجرانوالہ بیان کرتے ہیں۔
سال1903ء میں مجھے نماز پڑھنے کا شوق ہوا۔ چنانچہ میں نے نماز پڑھنی شروع کی تو میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک بزرگ آدمی کے ہمراہ اس کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے خانہ کعبہ کا طواف کر رہا ہوں۔ اسی اثناء میں ایک چٹھی رساں نے مجھے کشتی نوح لا کر دی۔ اسے میں نے غور سے پڑھا، مخالفین نے شور مچانا شروع کیا اور مشورہ دیا کہ احمدیوں کی کتابیں نہ منگوائی جائیں۔ پھر میں نے قرآن شریف باترجمہ پڑھنا شروع کیا۔ کشتی نوح کو قرآن شریف کے تابع پاکر میں نے ارادہ کیا کہ اب مجھے بیعت کر لینی چاہئے۔ اس چٹھی رساں نے پھر مجھے حضرت صاحب کا فوٹو لا کر دکھایا۔ فوٹو کو دیکھ کر میں حیران رہ گیا کہ یہ فوٹو تو اسی شخص کا ہے جس کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر میں خانہ کعبہ کا طواف کر رہا تھا۔
(الفضل 21ستمبر2001ء،صفحہ1)
ملک حسن خان ریحان صاحب(ریٹائرڈ پنشنر پولیس) آف چھنی تاجہ ریحان تحصیل بھلوال بچپن سے ہی پنجوقتہ نماز کے عادی بلکہ تہجد گزار تھے۔ احمدی ہونے سے پہلے اپنے محکمہ کے ایک سینئر افسر سے جو احمدی تھے سخت درشت کلامی سے پیش آتے لیکن وہ ہمیشہ حسن سلوک سے پیش آتے۔ بالآخر احمدی افسر کا حسن اخلاق کا وار کارگر ثابت ہوا اور ان کے کہنے پر کہ جس بزرگ کو تم جھوٹا سمجھتے ہو اگر وہ اپنے دعویٰ میں سچا ہوا تو پھر تمہاری ریاضت اور عبادت کس کام کی ہے۔ اور خدا تعالیٰ کے سامنے حاضری کے وقت کیا جوا ب دو گے؟ اس پران کے دل میں خوف پیدا ہوا اور اپنے افسر سے حضرت مسیح موعودؑ کی کوئی کتاب طلب کی۔ انہوں نے کشتی نوح پڑھنے کو دی تو مزید تجسّس بڑھا اور ایک دو کتب مزید مطالعہ کرنے کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی خدمت میں بیعت کا خط لکھ دیا اور پھر آئندہ جلسہ سالانہ پر قادیان میں بیعت سے مشرف ہوئے۔ (الفضل 21جون2002ء)
مکرم میا ں عبدالقیوم صاحب لکھتے ہیں
میرے والد محترم مکرم میاں محمد عالم صاحب مرحوم نے خاکسار سے کئی بار ذکر کیا کہ انہوں نے 1901ء میں محکمہ پولیس میںملازمت کی تو بعض مخالفین کی زبانی اتنا معلوم ہوا کہ قادیان میں ضلع گورداسپور کے ایک مغل رئیس نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیاہے اور علماء نے ان کی سخت مخالفت کی ہے۔محکمہ پولیس کے عمومی ماحول کی وجہ سے محترم والد صاحب اس طرف زیادہ توجہ نہ دے سکے حتیٰ کہ1908ء میں حضرت مسیح موعودؑ کی وفات ہوئی اور ہندوستان بالخصوص پنجاب کے اخبارات میں حضور کا تذکرہ ہوا۔ تواس وقت مجھے احمدیت کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوا۔لیکن محکمہ کے پراگندہ ماحول کی وجہ سے اس سلسلہ میں قابل ذکر پیش رفت نہ ہو سکی۔ آپ1919ء کے لگ بھگ جب بطور ایس ایچ او چونترہ ضلع راولپنڈی ڈیوٹی پر تھے تو پیچش کی شدید تکلیف ہو گئی اور سول ہسپتال داخل ہونا پڑا۔ محترم ملک غلام نبی صاحب والد جنرل اختر علی ملک و جنرل عبدالعلی ملک ساکن پنڈوری علاقہ تھانہ چونترہ اس علاقہ کے معروف زمیندار رئیس اور مخلص احمدی دوست تھے۔ ایک دفعہ والد صاحب کی بیمار پرسی کے لئے ہسپتال تشریف لائے۔ حال احوال اور خیریت دریافت کرنے کے بعد واپسی پر سلسلہ احمدیہ کی کچھ کتب چھوڑ گئے۔والد صاحب اس وقت رو بصحت تھے انہوں نے ان کتب (کشتی نوح، فتح اسلام وغیرہ) کا مطالعہ شروع کردیا اور مزید معلومات حاصل کرنے کا تجسس ہوا۔ جب دوبارہ ملک صاحب موصوف ہسپتال تشریف لائے تو والد صاحب نے ان کتب کی افادیت کا ذکر کیااور مزید لٹریچر مطالعہ کے لئے منگوانے کی خواہش کی۔ چنانچہ محترم ملک صاحب نے مزید کتب کچھ اپنی طرف سے اور کچھ مرکز قادیان سے منگوا کر دیں۔ یہ سلسلہ مطالعہ اور باہمی ملاقاتوں کا بعد میں لمبا عرصہ چلا یہاں تک کہ ایک مرتبہ جب والد صاحب ایک غیر احمدی پولیس اہلکار کے ہمراہ دوپہر کے وقت راجہ بازار کی طر ف آرہے تھے تو را جہ بازار کے سرے پر واقع مسیحی دارالمطالعہ کے سامنے ایک یورپین پادری ایک ہجوم میں عیسائیت کے بارے میں تقریر کر رہا تھا۔ ان دو افراد کو دیکھ کر مجمع سے باہر آکر ان کو خو ش آمدید کہا اور تبلیغ شروع کر دی۔ وہ حضرت عیسیٰ ؑ کی زندگی اور بلند مقام کے بارہ میں تقریرکر رہا تھا کہ ہمراہی راجہ سکندر خان اے ایس آئی پولیس نے کہہ دیا کہ میرا دوست احمدی ہے حالانکہ اس وقت تک والد صاحب نے بیعت نہیں کی تھی۔ اس بات پر عیسائی پادری نے کہا میں احمدیوں سے بات نہیں کرتا اور چِق اٹھا کر لائبریری کے اندر چلا گیا۔باہر لوگوں کی کثیر تعداد منتظر کہ پادری صاحب ابھی آتے ہیں مگر وہ نہ آیا اور مجمع مایوس ہوکر منتشر ہوگیا۔ یہ غالباً1919ء کاذکر ہے۔والد صاحب فرماتے تھے کہ ہم دونوں پر اس بات کا گہرا اثر ہوا کہ احمدیت کے نام سے پادری لوگ کس قدر خوف زدہ ہیں اور جماعت احمدیہ کے لٹریچر نے عیسائی منّاد کا مؤثر اور منہ توڑ جواب دیا ہے۔ ہم دونوں جماعت احمدیہ کی تعلیمات سے مطمئن ہو کر بیعت کے لئے تیار ہو گئے۔ والد صاحب نے صبح ہی قادیان بیعت کے لئے خط لکھ دیا۔
(الفضل یکم اکتوبر2001ء صفحہ6)
مکرم چوہدری عزیز احمد چیمہ صاحب اپنے احمدیت قبول کرنے کے متعلق بتایا کرتے تھے کہ جب آپ آرمی میں تھے تو ایک دن ایک سینئر آفیسر نے آپ کو بلا کر کہا کہ آپ دیکھیں کہ ماتحت یونٹ وقفہ کا ٹائم کس طرح گزارتا ہے۔ آپ نے دیکھا کہ کچھ لوگ گانے بجانے میں مصروف ہیں۔ کچھ تاش کھیل رہے ہیں اور کچھ گپیں مار رہے ہیں۔ لیکن ایک کیمپ میں سے قرآن کریم کی تلاوت کی آواز آرہی تھی۔ آپ کچھ دیر کیمپ کے باہر کھڑے سنتے رہے اور پھر چلے گئے۔ لوگوں نے اس آدمی کو بتا یا کہ صاحب تمہارے کیمپ کے باہر کھڑے تھے۔ آج تمہاری خیر نہیں۔ چنانچہ وہ آپ کے پاس آیا تو آپ نے اس سے کہا کہ وہ آپ کو قرآن پاک پڑھنا سکھا دے کیونکہ آپ قرآن پڑھے ہوئے نہیں تھے۔ چنانچہ اس آدمی نے 30,25دن میں آپ کو قرآن پاک سکھا دیا۔ اسی دوران Partition ہو گئی۔ وہ آدمی چلا گیا اور آپ کے کمرے میں دو کتابیں ’’کشتیٔ نوح‘‘ اور ’’احمدیت‘‘ رکھ گیا۔ان سے آپ کو احمدیت سے واقفیت حاصل ہوئی۔
قیام پاکستان کے وقت برٹش گورنمنٹ نے آپ کو الاٹمنٹ آفیسر بنایا۔آپ کے والد صاحب نے آپ کو کہا کہ تمہارے پاس اتنا شاندار موقع ہے اس لئے سب سے پہلے تھوڑی بہت جائیداد اپنے نام کر و۔ لیکن آپ نے کہا کہ میں امانت میں خیانت نہیں کروں گا۔اس بات پر آپ کا آپ کے والد صاحب سے جھگڑا ہو گیااور آپ کچھ عرصہ قادرآباد اپنے سسرال چلے گئے۔ چونکہ آپ کے سسر صوبیدار میجر عبدالقادر اس وقت احمدیت کے نور سے فیضیاب ہو چکے تھے اور گھر میں جماعتی کتب کا ایک خزانہ بھی رکھتے تھے چنانچہ وہاں آپ کو احمدیت کو قریب سے پڑھنے اور جاننے کا موقعہ ملا۔ اس کا آپ پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ آپ نے وہیں 1950ء میں احمدیت قبول کی اور باقاعدہ بیعت بھی کر لی اور واپس گھر آنے پر اپنے قبول احمدیت کا اعلان کر دیا۔
(الفضل 10ستمبر2004ء،صفحہ3)
اس کا مصنف جھوٹا نہیں ہو سکتا
مکرم راجہ محمد مرزا خان صاحب لکھتے ہیں میری عمر تقریبا13,12 سال کی ہو گی کہ اپنے گائوں (موضع عادووال تحصیل پنڈ دادنخان ضلع جہلم) کے کھیتوں میں بشمول کچھ اور لڑکوں کے اپنے مویشی چرا رہا تھا۔ہم لڑکوں نے باہم کوئی کھیل کھیلنا شروع کر دیا جس کی وجہ سے مویشیوں کی طرف توجہ نہ رہی ۔تھوڑی دیر کے بعد دیکھا تو میرے مویشی کچھ فاصلے پر ہماری برادری کے ایک بزرگ راجہ حیات خاں کی فصل میں پہنچ گئے ہیں۔ میں مویشیوں کی طرف دوڑا۔ ادھر فصل کا مالک راجہ حیات خاں بھی اپنے ڈیرہ سے بھاگتا ہوا آیا اور میرے پہنچنے سے پہلے اس نے مویشیوں کو میری طرف دوڑا دیا اور مجھے پہچان کر نہایت غصے اور سخت ناراضگی کے لہجہ میں مجھے کہا’’اومرزیا قادیانیا‘‘ میں بچہ بھی تھا اور قصور وار بھی۔ خاموش اپنے مویشی لے کر واپس آگیا اور راجہ حیات خان اپنے ڈیرہ کی طرف چلا گیا۔
جب میں نے طعنہ کے الفاظ پر غور کیا تو یہ حصہ’’ او مرزیا‘‘ تو میں نے سمجھا کہ میرے نام کا حصہ بنتا ہے۔ مگر یہ ’’قادیانیا‘‘ اس نے کیا کہا ہے۔ کچھ سمجھ نہ آتی تھی کہ ’’قادیانیا‘‘ کیا ہوتا ہے اور اس نے میرے لئے یہ لفظ کیوں استعمال کیا ہے۔ کیونکہ اس قسم کا طعنہ اس سے پہلے زندگی میں کبھی سنا نہ تھا۔بہر حال یہ سخت الفاظ ہمیشہ کے لئے میرے ذہن اور قلب پر ثبت ہو گئے۔ مگر سمجھ نہ تھی کہ یہ ہے کیا۔ خیر وقت گزرتا گیا۔ اور جنگ عظیم دوم1939ء میں شروع ہو گئی۔ میں1940ء میں19سال کی عمر میں فوج میں بھرتی ہو گیا۔1942ء میں ہمیں اٹلی لے جایا گیا۔اس دوران مصر،لیبیا وغیرہ ممالک میں بھی رہے۔ اٹلی میں میرے ساتھ ایک دوست مکرم سید شبیر حسین شاہ صاحب حوالدار آف سیالکوٹ بھی رہتے تھے۔ایک دن ایسا ہوا کہ شاہ صاحب کے پاس میں نے ایک چھوٹی سی کتاب پڑی دیکھ کر اٹھا لی۔ جب اس کا ٹائٹل پیج دیکھا اس پر کتاب کا نام ’’کشتی نوح‘‘ اور مصنف کا نام’’ مرزا غلام احمد قادیانی‘‘ پڑھ کر وہ تقریباً دس سال پرانا راجہ حیات خاں کا طعنہ’’اومرزیا، قادیانیا‘‘ یاد آگیا اور وہ پرانا سارانقشہ آنکھوں کے سامنے پھر گیا اور اپنے دل میں کہا کہ یہ تو کوئی مرزا قادیانی ہے اور سچ مچ کا ہے اور ارادہ کیاکہ اس کتاب کو غور سے پڑھوں گا تاکہ پتہ چلے کہ یہ ’’مرزا غلام احمد قادیانی‘‘کون ہے اور انہوں نے اس کتاب میں کیا لکھا ہے تا کہ پھر مجھے یہ اندازہ ہو سکے کہ راجہ حیات خاں نے مجھے کس قسم کا طعنہ دیا تھا۔چنانچہ میں نے شاہ صاحب سے یہ کتاب پڑھنے کے لئے مانگ لی۔ اور نہایت غور سے اس کو محض اس غرض سے پڑھنا شروع کیا کہ کبھی موقع لگا اور زندگی رہی تو راجہ حیات خاں کو اس کا جواب دوں گا۔مگر مجھے کیا پتہ کہ خدا کی پاک تقدیر میرے ساتھ کیا سلوک کر رہی تھی اور کیا معلوم کہ خدا نے اپنے فضل سے اور محض اپنے ہی فضل سے راجہ حیات خاں کے طعنے کو میرے لئے تریاق بنا کرمجھے روحانی بیماریوں سے شفا بخشنے کا ارادہ فرما لیا ہوا تھا۔میں عین سچائی اور دیانت سے یہ کہتا ہوں کہ میں جوں جوں کتاب پڑھتا گیا۔ میری فطری سچائی(جو کہ ہر انسان کے اندر موجود ہے)کو ہدایت سے ایک قرب نصیب ہوتا چلا گیا۔ پوری کتاب پڑھنے کے بعد شرح صدر ہو گیا کہ اس کتاب میں درج تعلیم حق اور اس کا مصنف بھی کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا۔کیونکہ یہ کلام خود بول رہا ہے کہ یہ سچے کا کلام ہے چنانچہ اسی روز1945ء میں بیعت کا خط قادیان لکھ دیا۔
(الفضل 3؍اگست2006ء ،صفحہ5)
ایک اور مضمون میں لکھتے ہیں
پھر میں نے ’’کشتی نوح‘‘ مکرم سردار خان صاحب کو دی۔ہم دونوں اس سے قبل احمدیت سے بالکل بے خبر اور ناآشنا تھے۔ میں تو جو کچھ کتاب میں لکھا تھا اس سے اس قدر متاثرہوا کہ فوراً تحریری بیعت کر لی اور مکرم سردار خان صاحب نے بھی کچھ ماہ بعد تحریری بیعت کر لی۔
(الفضل 28جون 2001ء)
مکرم احمد علی احمدی صاحب سیکرٹری جماعت احمدیہ لدھیکے نیویں ضلع لاہور تحریر فرماتے ہیں کہ 9ستمبر 1927ء کو مسٹر سیمویل عصمت سپرنٹنڈنٹ بورڈنگ مشن ہائی سکول کلارک آباد ضلع لاہور میرے ذریعہ احمدی ہوئے۔ وہ قوم سہال سیال ضلع جھنگ کے باشندے ہیں۔انہوں نے اپنے حالات خود قلم بند کر کے مجھے دیئے ہیں جو یہ ہیں۔
’’میرے ماں باپ کے مرنے کے بعد مجھے جھنگ سے باہر کھیلتے ہوئے پادری پکڑ کر لے آئے۔ اور لائل پور مشن میں رکھا۔میر ی عمر 9 یا 10 سال کی تھی۔ پھر وہاں سے دو سال کے بعد گوجرانوالہ میں بھیجا گیا۔ جہاں سے چند ہفتوں کے بعد کلارک آباد ضلع لاہور میں بھیجا گیا۔اس تمام زمانہ میں مجھے بڑی حفاظت سے رکھا گیا۔ مسلمانوں سے میل جول تک بھی نہ ہونے دیا۔ پورے آٹھ سال ’کلارک آباد‘ میں گزارے۔ دوسال ہوئے۔ منادی کا کام بھی کرتا رہا۔ اور سپرنٹنڈنٹ بورڈنگ مشن ہائی سکول کلارک آباد کا کام بھی میرے ذمہ رہا۔
اب میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کی کئی ایک کتب مثلاً کشتی نوح وغیرہ کے مطالعہ کے بعد جو کہ میںخفیۃً کرتا رہا۔ احمدیت کو اختیار کرتا ہوں۔میں نے جہاں تک ہو سکا کامل تحقیقات کی ہے۔ احباب میری استقامت کے لئے دعا فرماویں۔
(الفضل12؍اکتوبر1927ء ،صفحہ9)
پورا ایمان رکھو
جناب محمد دین صاحب ہیڈ کنسٹبل پولیس گجرات حال رخصتی محمود آباد ڈاکخانہ کا لاگجراں ضلع جہلم لکھتے ہیں
مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کے ساتھ تحریر ذیل کرتا ہوں۔ اس وقت میری عمر قریباً پچاس سال ہے۔ عرصہ گزر چکا ہے۔جبکہ میری ابھی اوائل عمری کا زمانہ تھا۔ ازالہ اوہام اور کشتی نوح کا مطالعہ کرتا تھا۔ مجھے کشتی نوح کی عبارت (مریم صدیقہ سے عیسیٰ ؑ کا پیدا ہونا) کے متعلق شکوک پیدا ہوئے کہ اسی دوران میں رات کو خواب میں دیکھتا ہوںکہ موضع جادہ جو کہ ہمارے گائوں سے جانب غرب ہے کی طرف جار ہا ہوں۔ جب اپنے کھیت میں پہنچا تو میری داہنی طرف شمالی جانب سے آتا ہوا ایک بزرگ سفید ریش و سفید پار چات میرے قریب پہنچا۔ جس نے آتے ہی السلام علیکم کہہ کر فرمایا کہ دیکھ لڑکے تمہارے دل میں جوشکوک پیدا ہو رہے ہیںیہ محض شیطانی و ساوس ہیں۔ ان کو دل سے نکا ل دو اور مسیح موعود پر پورا پورا ایمان رکھو کہ یہ وہی مسیح موعود ہیں جس کی نسبت پہلے پیشگوئیاں ہو ئی ہیں۔ خبردار اس راستہ کو نہ چھوڑنا ۔
(بشارات رحمانیہ جلد اول،صفحہ102)
تمہارا مرزا ولی تھا
مکرم ڈاکٹر سید حمید اللہ نصرت پاشا صاحب اپنے والد محترم سید حضرت اللہ پاشا صاحب کے متعلق لکھتے ہیں
احمدی ہوتے ہی والد مرحوم نے سب سے پہلے اپنے والد،بھائی بہنوں اور دیگر اقارب کو دعوتی خط لکھے۔ ابتداء ً بہت شدید رد عمل تھا۔لیکن رشتہ داروں کی طرف سے قطع رحمی کی ہر کوشش کا جواب والد صاحب نے صلہ رحمی سے دیا۔ میرے ددھیالی عزیزوں کے سلوک اور میرے والد کے رویہ کا رشتہ آگ اور پانی کا رہا۔ بیعت سے وفات تک قریباً نصف صدی کا طویل عرصہ بھی والد صاحب کے حوصلے اور تحمل کو تھکانہ سکا۔ اختلاف اگرچہ قائم رہا لیکن مخالفت دھیرے دھیرے مدّھم پڑتی گئی۔
والد صاحب نے ایک مرتبہ میرے دادا سید صاحب حسینی صاحب کو حضرت مسیح موعودؑ کی تصنیف ’’کشتی نوح‘‘ پڑھنے کو دی۔ ایک خاص عبارت کو پڑھ کر وہ رہ نہ سکے اور بے ساختہ انہوں نے والد صاحب سے کہا’’واہ ! تمہارا مرزا تو ولی تھا۔‘‘(الفضل8مارچ2003ء)
کشتی نوح کا ادبی مقام
حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات مندرجہ ’’کشتی نوح‘‘ سے متاثر ہو کر اردو ادب کے ایک بہت بڑے نقاد جناب وقار عظیم نے ایک روز کلاس روم میں کہا کہ مرزا غلام احمد صاحب کی تحریر کسی ہم عصر سے کم نہیں لیکن ہم تعصب کی وجہ سے اس کو نظرانداز کرتے ہیں۔ وہ وقت قریب ہے کہ ادب میں سے تعصب نکال کر ادبی تصنیفات کا جائزہ لیا جائے گا۔(الفضل 29مارچ 1959ء صفحہ 3)
(بحوالہ ماہنامہ انصار اللہ مارچ 1973ء)
مطالعہ کی ترغیب
کشتی نوح اتنی پُرا ثر اور جامع کتاب ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صحابہ کو اس کتاب کے بار بار مطالعہ کی ترغیب دلاتے تھے۔
ہر احمدی کیلئے تین نصائح
8نومبر1902ء کو مونگھیرسے محمد رفیق صاحب بی اے اور محمد کریم صاحب تشریف لائے ہوئے تھے دونوں نے نماز فجر کے وقت حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی۔ بیعت کر چکے تو حضور نے فرمایا کہ
ہماری کتابوں کو خوب پڑھتے رہو تا کہ واقفیت ہو اور کشتی نوح کی تعلیم پر ہمیشہ عمل کرتے رہا کرو اور ہمیشہ خط بھیجتے رہو۔(ملفوظات جلد2،صفحہ502)
ایک نوجوان کو گناہوں سے بچنے کے ذرائع بتاتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا۔ ایک یہ بھی علاج ہے گناہوں سے بچنے کا کہ کشتی نوح میں جو نصائح لکھی ہیں ان کو روزانہ ایک بار پڑھ لیا کرو۔(ملفوظات جلد 2، صفحہ 399)
فرمایا الہام میں جو یہ آیا ہے اِلَّاالَّذِیْنَ عَلَوْ اِبِاْستِکْبَارٍ یہ بڑا منذر اور ڈرانے والا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ باربار کشتی نوح کو پڑھو اور قرآن شریف کو پڑھو اور اس کے موافق عمل کرو۔ کسی کو کیا معلوم ہے کہ کیا ہونے والا ہے۔ تم نے اپنی قوم کی طرف سے جو لعنت ملامت لینی تھی لے چکے۔ لیکن اگراس لعنت کو لے کر خدا تعالیٰ کے ساتھ بھی تمہارا معاملہ صاف نہ ہو اور اس کی رحمت اور فضل کے نیچے نہ آئو تو پھر کس قدر مصیبت اور مشکل ہے ۔
(ملفوظات جلد2،صفحہ407)
فرمایا مَیں نے بارہا اپنی جماعت کو کہا ہے کہ تم نرے اس بیعت پر ہی بھروسہ نہ کرنا۔ اس کی حقیقت تک جب تک نہ پہنچو گے تب تک نجات نہیں۔قشر پر صبر کرنے والا مغز سے محروم ہوتا ہے۔ اگر مرید خود عامل نہیں تو پیر کی بزرگی اسے کچھ فائدہ نہیں دیتی۔جب کوئی طبیب کسی کو کوئی نسخہ دے اور وہ نسخہ لے کر طاق میں رکھ دے تو اسے ہر گز فائدہ نہ ہو گا کیونکہ فائدہ تو اس پر لکھے ہوئے عمل کا نتیجہ تھا جس سے وہ خود محروم ہے۔’’کشتی نوح‘‘ کا باربار مطالعہ کرو اور اس کے مطابق اپنے آپ کو بنائو۔
(ملفوظات جلد2،صفحہ541)
حضرت مصلح موعودؓ کا ارشاد
سید نا حضر ت مصلح موعودؓ نے جلسہ سالانہ 1929ء پر کشتی نوح کے مطالعہ پر خاص زور دیا اور 1930ء میں ہر احمدی کو یہ کتاب پڑھنے کا ارشاد فرمایا ۔ آپ نے فرمایا
اگلے سال تمام کے تمام احمدی پڑھے لکھے یا اَن پڑھ حضرت مسیح موعود کی کتاب کشتی نوح پڑھیں یا سنیں۔ اسی طرح ہر سال ایک کتاب مقرر کر دی جایا کرے تو سب لوگ حضرت مسیح موعودؑ کی ساری کتب سے واقف ہو جائیں گے۔ آپ لوگ جو یہاں موجود ہیں سن لیں اور جویہاں نہیں انہیں سنادیں کہ اگلے سال کشتی نوح کا پڑھنایا سننا ہر ایک احمدی کا فرض ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ تین گھنٹہ میں ختم ہو سکتی ہے اور یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
(الفضل13 جنوری1930ء)
صحابہؓ کا طریق
چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بزرگ صحابہ کا یہی طریق تھا۔حضرت ماسٹر عبدالرحمان صاحب نے 8جولائی 1950ء کو اہل و عیال کے نام ایک وصیت تحریر فرمائی جو صرف دینی امور سے تعلق رکھتی تھی۔ اس وصیت میں آپ نے تاکید فرمائی کہ اگر تم صحابہ کی برکات سے حصہ لینا چاہتے ہو تو ہماری طرح کشتی نوح کا مطالعہ کیا کرو ۔میں اب بھی سال میں دو ایک مرتبہ اسے پڑھتا ہوں اور حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ مبارک میں ہم کشتی نوح پڑھ پڑھ کر بعض ہدایات کو خط کشیدہ کرلیتے تھے اور ہفتہ بعد دیکھتے کہ وہ نقص دور ہوا یا خوبی ہم میں پیدا ہوئی یا نہیں۔ اسی طرح صحابہ کیاکرتے تھے اور میں خود تو اپنے بعض عیوب اور کوتاہیوں کو خط کشیدہ کر کے اصلاح کیا کرتا تھا اسی لئے گھر میں اس کتاب کا اور کبھی دوسری کتب حضرت اقدسؑ کادرس دیتا تھا۔(اصحاب احمد جلد7،صفحہ3)
سچی کشتی نوح
ستمبر1902ء میں لندن میں ایک پادری جان ہیو سمتھ پگٹ نے مسیح ہونے کا دعویٰ کیا۔
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے ایک خط مسٹر پگٹ کو لکھ کر مزید حالات اس کے دعویٰ کے دریافت کئے تھے جس کے جواب میں اس کے سیکرٹری نے دو اشتہار اور ایک خط روانہ کیا تھا۔ حضرت مفتی صاحب نے 11نومبر1902ء کو وہ حضرت مسیح موعودؑ کو سنائے۔ پگٹ کے اشتہار کا جو عنوان انگریزی لفظو ں میں تھا اس کے معنے ہیں کشتی نوح۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا
اب ہماری کشتی نوح جھوٹی پر غالب آجائے گی۔ یورپ والے کہا کرتے تھے کہ جھوٹے مسیح آنے والے ہیں سوا وّل لنڈن میں جھوٹا مسیح آگیا۔ اس کا قدم اس زمین میں اوّل ہے۔ بعدا زاں ہمارا ہو گا جو کہ سچا مسیح ہے ۔
(ملفوظات جلد2،صفحہ512)
کشتی نوح کی اشاعت کثرت سے کی جائے
10نومبر1902ء کو مکرم خوا جہ کمال الدین صاحب نے نماز مغرب سے پیشتر حضور سے ملاقات کی اور پشاور اور کوہاٹ کا ذکرسنایا کہ وہاں پر اکثر اشتہارات جو کہ ضمیمہ شحنہ ہند میرٹھ میں حضور کی مخالفت میں شائع ہوئے ہیں اس نظر سے پڑھے جاتے ہیں کہ گویا وہ حضور کے اشتہارات ہیں اسی مغالطہ سے سرحد کے لوگوں کے دلوں میں آپ کے متعلق یہ خیالات ذہن نشین ہیں کہ نعوذ باللہ جناب نے روزے اپنے خدام کو معاف کر دیئے ہیں اور دیگر الزام لگائے گئے۔ غرض یہ اشتہار اس وضع اور عنوان سے لکھے ہوئے ہیں کہ عوام الناس کو دھوکا لگتا ہے اور یہی خیال کیا جاتا ہے کہ آپ کا مضمون اور آپ کی تحریر ہے۔
حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ کشتی نوح وہاں کثرت سے تقسیم کر دی جائے یہی کافی ہے۔
خوا جہ صاحب نے کہا ایک ذی و جاہت شخص کو میں نے دیکھا ہے کہ اس نے اسے پڑھ کر کہا کہ کتاب (کشتی نوح) تو عمدہ ہے اگر آخر میں مکان کے چندہ کا ذکر نہ ہوتا۔میں نے اسے جواب دیا کہ کیا تم سے بھی ایک پیسہ مرزا صاحب نے مانگا ہے؟ یا تم نے دیا ہے؟ حضرت مرزا صاحب نے تو ان لوگوں کو مخاطب کیا ہے جو ان سے تعلق ابنیت کا رکھتے ہیں۔کیا اگر ایک باپ اپنے بیٹوں سے دو ہزار اس لئے طلب کرے اسے ایک مکان بنانا ہے تو کیا یہ فعل اس کا قابل اعتراض ہو گا؟ اس پر وہ خاموش ہو گیا۔(ملفوظات جلد2،صفحہ508)
مخالفین کا رد عمل
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے طاعون کا ٹیکا لگانے سے متعلق گورنمنٹ انگریزی کی کوششوں کی تعریف کرتے ہوئے اپنی جماعت کو ٹیکا نہ لگوانے کی ہدایت کی تھی اور فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ میری تعلیم پر عمل پیرا ہونے والوں کی حفاظت فرمائے گا اور یہ میری صداقت کا نشان ہو گا۔ جماعت احمدیہ کو ٹیکا نہ لگوانے کی ہدایت پر مخالفین نے بڑا شور مچایا۔ مصری جریدہ اللواء کے ایڈیٹر مصطفیٰ کمال پاشا کو بھی جب حضور کی ہدایت معلوم ہوئی تو اس نے یہ اعتراض کیا کہ آپ نے ٹیکے کی ممانعت کر کے ترک اسباب کیا ہے اور یہ خلاف قرآن ہے۔
29نومبر1902ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام مجلس احباب میں جلوہ گر ہوئے اور احباب کے ہمراہ سیر کو چلے۔ گزشتہ شب سول ملٹری گزٹ اور پایونیئر کے حوالے سے ٹیکہ طاعون کے خطر ناک نتائج جو حضرت اقدس کو سنائے گئے تھے کہ ملکوال میں انیس موتیں ٹیکہ لگنے کے باوجود ہوئیں۔ اس پر فرمایا کہ
یہ بھی خدا تعالیٰ کی کتنی رحمت ہے۔ ہماری کشتی نوح میں صاف لکھا ہوا ہے کہ اگر آسمانی ٹیکہ کے علاوہ اور اس کے مقابلے پر کسی اور طرح سے زیادہ فائدہ ہو سکتا ہے تو ہمارا دعویٰ جھوٹا۔
اس ٹیکہ کے انتظام پر گورنمنٹ کا لاکھوں روپیہ صرف ہوتا ہے(مگر نتیجہ ظاہر ہے)۔ اس میں بھی خدا تعالیٰ کی حکمت ہے کہ ہماری کشتی نوح پر بڑے بڑے متعصب اخباروں نے حتی کہ مصر کے اللواء نے بھی مخالفت میں مضمون درج کیا کیا ان کی رُوسیاہی ہوئی یا نہیں؟حق کا رعب ایسا ہوتا ہے کہ منہ بند ہو جاتے ہیں۔ اب دیکھیں کہ اللّواء کیا لکھے گا اور اب بھی شرمندہ ہو گا یا نہیں؟
ایک دو دن اور ٹھہر جائیں اور دیکھ لیں۔ذرا طبیعت ٹھیک ہو جائے تو ان موتوں کے مفصل حالات دریافت کر کے پھو اللواء کو پیش کئے جائیں یہ اس کے لئے بڑا تازیانہ ہو گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طاقتیں ہیں اور اسی کا کام ہے۔ (ملفوظات جلد دوم ،صفحہ546)
نیز اس اعتراض کے جواب میں حضرت اقدس نے عربی زبان میں ’’مواھب الرحمٰن‘‘ کے نام سے کتاب تصنیف فرمائی جو جنوری1903ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں ایڈیٹر مذکور کے اعتراض کا مفصل و مدلل جواب دیتے ہوئے اپنے عقائد اور جماعت کے لئے تعلیم اور ان نشانات کا بھی ذکر فرمایا ہے جو گزشتہ تین سال میں ظاہر ہوئے تھے۔
علمی شعاعیں
حضرت مسیح موعودؑ کی اس معرکۃ الآ راء کتاب سے غیر احمدی مصنفین نے بھی خوب استفادہ کیا ہے اور حضور کا نام اور کتاب کا حوالہ دیئے بغیر اس کے معارف اپنی کتب میں درج کئے ہیں ۔ مثلاً مولانا سید نذیر الحق قادری صاحب کی کتاب ’’الاسلام‘‘ میں پنجگانہ نمازوں کے اوقات کی حکمت سے متعلق کئی اقتباس درج ہیں(صفحہ686 تا صفحہ688) یہی مضمون مولانا محمد اشرف علی تھانوی نے اپنی کتاب ’’احکام اسلام عقل کی نظر میں‘‘ میں بغیر حوالہ کے درج کیا ہے۔ (49تا51)
حضرت مسیح موعودؑ کے بعض پر زور اقتباسات جی ایم مفتی صاحب مدیر ہفت روزہ قائد مظفر آباد آزاد کشمیر نے عذاب الٰہی کے عنوان کے تحت 23اگست1973ء کو اپنے اداریہ میں قلمبند کئے۔ بزرگ کشمیری صحافی میرعبدالعزیز صاحب ایڈیٹر ہفت روزہ انصاف راولپنڈی نے اس سرقہ کا پول کھولا اور کشتی نوح اور اداریہ کے اقتباس کا عکس شائع کرتے ہوئے سخت گرفت کی۔
(انصاف 22اپریل1976ء ،صفحہ6)
مولانامحمد مکی صاحب ایڈیٹر The Muslim Digest جنوبی افریقہ نے جولائی، اگست 1990ء کے شمارہ میں ایک اداریہ لکھا جو کشتی نوح کے انگریزی ترجمہ سے ماخوذ تھا