خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 20؍ اپریل 2018ء
یہ جو تین باتیں ہیں یعنی دعوت الی اللہ کرنا، عمل صالح کرنا اور اطاعت اور فرمانبرداری کا نمونہ دکھا کر یہ اعلان کرنا کہ مَیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی تمام باتوں پر عمل کرنے والا یا عمل کرنے کی حتی المقدور کوشش کرنے والا ہوں۔ یہ باتیں ایسی ہیں جن میں سے پہلی بات ایک مومن کو دینی علم سیکھنے اور اسے دنیا کو سکھانے والا بناتی ہے۔ جو یہ سکھاتی ہے کہ دنیا کو بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ کے حق کیا ہیں اور تم نے انہیں کس طرح ادا کرنا ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ دوسروں کو بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر ایک دوسرے کے کیا حقوق رکھے ہیں اور تم نے انہیں کس طرح ادا کرنا ہے۔ دوسروں کو بتانے کی طرف تبھی توجہ پیدا ہوسکتی ہے جب دوسروںکے لئے ایک درد دل میں ہو۔ ان کو شیطان کے نرغے اور قبضہ سے بچانے کے لئے ایک تڑپ اور توجہ ہو۔
پھر دوسری خصوصیت یہ ہے کہ فرمایا کہ عمل صالح بجا لاؤ۔ یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حق ادا کرنے کی طرف نہ صرف توجہ دو بلکہ خود ایک مثال بن کر اپنا نمونہ دوسروں کے لئے قائم کرو ورنہ اگر اپنا عمل نہیں تو تمہارا دینی علم بھی بے فائدہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے کا عمل بھی اللہ تعالیٰ کی برکات اور بہتر نتائج سے خالی ہو گا۔
اور پھر تیسری خصوصیت یہ بیان فرمائی کہ حقیقی مومن یہ اعلان کرے کہ مَیں کامل فرمانبرداروں میں سے ہوں۔ یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکامات پرکامل ایمان لاتا ہوں اور نہ صرف ایمان لاتا ہوں بلکہ ان کو اپنی زندگی کا حصہ بناتا ہوں۔ مَیں دین کو دنیا پر مقدم کرنے والا ہوں اور رہوں گا۔
فرمانبرداری میں خلیفۂ وقت اور نظام جماعت کی اطاعت اور فرمانبرداری بھی آ جاتی ہے۔
عمل صالح اور نیک عمل اور تقویٰ کے معیار بھی اسی وقت حاصل ہوتے ہیں جب اطاعت اور فرمانبرداری کا معیار بھی بلند ہو گا۔
بعض دفعہ بظاہر نیک یا دین کا کام کرنے والے لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کا انجام نظر آتا ہے کہ اچھا نہیں ہوا۔
ہماری تبلیغ تبھی کامیاب ہو گی اور ہماری نیکیاں تبھی عملِ صالح کہلائیں گی جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد نظام خلافت کی بھی پوری اطاعت کرنے والے ہوں گے اور خلافت کے زیر انتظام جو نظام ہے اس سے بھی تعاون کرنے و الے ہوں گے۔ ہماری انفرادی اور اجتماعی کوششوں میں برکت تبھی پڑے گی جب جماعت کا ہر فرد اور ہر عہدیدار بھی، ہر کارکن بھی اور ہر مربی بھی نظام کو سمجھنے اور ایک دوسرے کے حق ادا کرنے والا ہو گا۔
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ اسلام کا خوبصورت پیغام دنیا میں پھیلنا ہے اور پھیل رہا ہے۔
اس کے بارہ میں آپ کو اللہ تعالیٰ نے متعدد الہاموں کے ذریعہ خوشخبری بھی دی ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ ایم ٹی اے کے ذریعہ سےاللہ تعالیٰ دنیا میں خود پیغام پہنچا رہا ہے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کے کام ہیں اور اس کے وعدے ہیں۔ یہ تو پورے ہوتے رہیں گے انشاء اللہ۔
اس میں ہمارا یا کسی انسانی کوشش کا کمال نہیں ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بہترین مومن کی نشانی یہ ہے کہ وہ دعوت الی اللہ کرے۔
پس اللہ تعالیٰ ہمیں اس کام میں حصہ دار بنانا چاہتاہے جو کام وہ خود کر رہا ہے، جس کے کرنے کا فیصلہ وہ کر چکا ہے۔ ہمیں تو اللہ تعالیٰثواب میں شامل کرنا چاہتا ہے۔ پس ہر احمدی کو اس بات کو اہمیت دینی چاہئے۔
افراد جماعت احمدیہ سپین کو خصوصیت کے ساتھ دعوت الیٰ اللہ کی طرف توجہ دینے کی تاکیدی نصائح اور اس سلسلہ میں اہم ہدایات۔
تبلیغ اور دعوت الیٰ اللہ کے حوالہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ارشادات کا تذکرہ
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔
وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔(حٰم السجدۃ34:) اس آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ اور بات کہنے میں ا س سے بہتر کون ہو سکتا ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک اعمال بجا لائے اور کہے کہ مَیں یقیناً کامل فرمانبرداروں میں سے ہوں۔
یہ آیت ایک کامل مثال ہے اور ان تمام خصوصیات کو سمیٹے ہوئے ہے جو ایک مومن کا خاصہ ہونا چاہئے۔ ایک حقیقی مسلمان سے زیادہ کون ان باتوں کو کرنے والا ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو یہ تین باتیں یا تین خصوصیات بتائی ہیں اگر کسی میں ہوں تو اس کی زندگی میں انقلاب پیدا ہو سکتا ہے اور ایسا شخص نہ صرف اپنی زندگی میں انقلاب پیدا ہو سکتا ہے بلکہ معاشرے میں بھی انقلاب پیدا کرنے والا بن سکتاہے۔ یہ جو تین باتیں ہیں یعنی دعوت الی اللہ کرنا، عمل صالح کرنا اور اطاعت اور فرمانبرداری کا نمونہ دکھا کر یہ اعلان کرنا کہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی تمام باتوں پر عمل کرنے والا یا عمل کرنے کی حتی المقدور کوشش کرنے والا ہوں۔
یہ باتیں ایسی ہیں جن میں سے پہلی بات ایک مومن کو دینی علم سیکھنے اور اسے دنیا کو سکھانے والا بناتی ہے۔ جو یہ سکھاتی ہے کہ دنیا کو بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ کے حق کیا ہیں اور تم نے انہیں کس طرح ادا کرنا ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ دوسروں کو بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر ایک دوسرے کے کیا حقوق رکھے ہیں اور تم نے انہیں کس طرح ادا کرنا ہے۔ دوسروں کو بتانے کی طرف تبھی توجہ پیدا ہوسکتی ہے جب دوسروںکے لئے ایک درد دل میں ہو۔ ان کو شیطان کے نرغے اور قبضہ سے بچانے کے لئے ایک تڑپ اور توجہ ہو۔ عبادالرحمٰن کے گروہ کو بڑھانے کے لئے ایک تڑپ ہو۔ جس میں یہ خصوصیت پیدا ہو جائے یا اللہ تعالیٰ کے قریب لانے کے لئے ایک جذبہ اور شوق ہو خاص طور پر ایسے حالات میں جبکہ شیطان کے منصوبے اور اللہ تعالیٰ سے دُور کرنے کے لئے مختلف دلچسپیوں کے سامان اپنی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں۔ ایسے حالات میں خدا تعالیٰ کا خوف رکھنے والا اور اس کے قرب کو تلاش کرنے والا ہی یہ کوشش اور جدوجہد کرسکتا ہے۔
پھر دوسری خصوصیت یہ ہے کہ فرمایا کہ عمل صالح بجا لاؤ۔ یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حق ادا کرنے کی طرف نہ صرف توجہ دو بلکہ خود ایک مثال بن کر اپنا نمونہ دوسروں کے لئے قائم کرو ورنہ اگر اپنا عمل نہیں تو تمہارا دینی علم بھی بے فائدہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے کا عمل بھی اللہ تعالیٰ کی برکات اور بہتر نتائج سے خالی ہو گا۔ جب یہ صورتحال ہو تو پھر دعوت الی اللہ کی تمام کوششیں بیکار گئیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی رضا بھی پھر حاصل نہ ہوئی ۔
اور پھر تیسری خصوصیت یہ بیان فرمائی کہ حقیقی مومن یہ اعلان کرے کہ مَیں کامل فرمانبرداروں میں سے ہوں۔ یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکامات پر کامل ایمان لاتا ہوں اور نہ صرف ایمان لاتا ہوں بلکہ ان کو اپنی زندگی کا حصہ بناتا ہوں۔ مَیں دین کو دنیا پر مقدم کرنے والا ہوں اور رہوں گا۔ فرمانبرداری میں خلیفۂ وقت اور نظام جماعت کی اطاعت اور فرمانبرداری بھی آ جاتی ہے۔ یہ کہنا کہ میں بڑی تبلیغ کر رہا ہوں، میرے پاس بڑا علم ہے، مجھے کسی نظام کی ضرورت نہیں ہے، یہ طریق اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے۔ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ ایک جماعت قائم کرنا چاہتا تھا اور اس نے قائم کر دی۔ پس اس کے ساتھ جڑنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ بیشک دعوت الی اللہ بڑی اچھی بات ہے لیکن یہ اعلان بھی ضروری ہے کہ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ کہ میں اطاعت کے اعلیٰ معیار قائم رکھتے ہوئے فرمانبرداری کا بھی اعلان کرتا ہوں۔
اسی طرح عمل صالح اور نیک عمل اور تقویٰ کے معیار بھی اسی وقت حاصل ہوتے ہیں جب اطاعت اور فرمانبرداری کا معیار بھی بلند ہو گا۔ بعض دفعہ بظاہر نیک یا دین کا کام کرنے والے لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کا انجام نظر آتا ہے کہ اچھا نہیں ہوا۔
پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک مومن کو، ایک عمدہ ترین بات کہنے والے کو بھی اعلیٰ نمونہ دکھانے والے کے معیار اس وقت حاصل ہوں گے اور نتیجہ خیز ہوں گے جب وہ یہ اعلان بھی کرے کہ مَیں فرمانبردار ہوتا ہوں۔ مَیں اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے نظام کی کامل فرمانبرداری اور اطاعت کرتا ہوں۔ اور ہم احمدیوں کے لئے یہ معیار جو کامل فرمانبرداری کے ہیں تبھی قائم ہوں گے، ہماری تبلیغ تبھی کامیاب ہو گی اور ہماری نیکیاں تبھی عملِ صالح کہلائیں گی جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد نظام خلافت کی بھی پوری اطاعت کرنے والے ہوں گے اور خلافت کے زیر انتظام جو نظام ہے اس سے بھی تعاون کرنے و الے ہوں گے۔ ہماری انفرادی اور اجتماعی کوششوں میں برکت تبھی پڑے گی جب جماعت کا ہر فرد اور ہر عہدیدار بھی، ہر کارکن بھی اور ہر مربی بھی نظام کو سمجھنے اور ایک دوسرے کے حق ادا کرنے والا ہو گا۔
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا ہے اور ان وعدوں کے مطابق بھیجا ہے کہ جن کاموں کی تکمیل آپ کے سپرد ہے وہ انشاء اللہ پورے ہونے ہیں۔ کچھ تو آپ کی زندگی میں پورے ہوئے اور کچھ آپ علیہ السلام کی زندگی کے بعد پورے ہونے تھے اور ہو رہے ہیں اور آپ کے ذریعہ سے اسلام کا پیغام بھی دنیا کے کونے کونے میں پہنچ رہا ہے اور آہستہ آہستہ پاک دل احمدیت اور اسلام کی آغوش میں آرہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کو جن مقاصد کے لئے بھیجتا ہے ان کو پورا فرماتا ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ :کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ (المجادلۃ22:) کہ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر چھوڑا ہے کہ مَیں اور میرا رسول غالب آئیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی متعدد بار یہ الہام ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھی الہاماً فرمایا۔ (تذکرہ صفحہ 84 ایڈیشن چہارم)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ :
’’یہ خدا تعالیٰ کی سنّت ہے اور جب سے کہ اس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اس سنت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے اور ان کو غلبہ دیتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے کہکَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ (المجادلہ 22:) ۔ اور غلبہ سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ رسولوں اور نبیوں کا یہ منشاء ہوتا ہے کہ خدا کی حجت زمین پر پوری ہو جائے اور اس کا مقابلہ کوئی نہ کر سکے۔ اسی طرح خدا تعالیٰ قوی نشانوں کے ساتھ اُن کی سچائی ظاہر کر دیتا ہے اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اس کی تخم ریزی انہی کے ہاتھ سے کر دیتا ہے‘‘۔
(الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 304)
پھر آپ فرماتے ہیں’’ خدا نے ابتدا سے لکھ چھوڑا ہے اور اپنا قانون اور اپنی سنّت قرار دے دیا ہے کہ وہ اور اس کے رسول ہمیشہ غالب رہیں گے۔‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے بارہ میں فرماتے ہیں کہ ’’چونکہ مَیں اس کا رسول یعنی فرستادہ ہوں مگر بغیر کسی نئی شریعت اور نئے دعوے اور نئے نام کے بلکہ اسی نبی کریم خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وسلم) کا نام پا کر اور اُسی میں ہو کر اور اُسی کا مظہر بن کر آیا ہوں اس لئے مَیں کہتا ہوں کہ جیسا کہ قدیم سے یعنی آدم کے زمانہ سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک ہمیشہ مفہوم اس آیت کا سچا نکلتا آیا ہے ایسا ہی اب بھی میرے حق میں سچا نکلے گا۔ ‘‘
(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 380-381)
پس جس پودے کو اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ دنیا کے ہر کونے میں لگانا چاہتا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اُتری ہوئی شریعت کا پودا ہے جس کی تکمیل اشاعت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں مقدر ہے۔ پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ جس راستبازی کو اللہ تعالیٰ دنیا میں پھیلانا چاہتا ہے اس کی تخمریزی اپنے رسولوں کے ہاتھوں کروا دیتا ہے اور یہ تکمیلِ اشاعتِ اسلام کا بیج اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ لگوا دیا بلکہ اس بیج کی بعض علاقوں میں ہری بھری فصلیں بھی آپ کو دکھا دیں اور پھر نظام خلافت کے ذریعہ سے آپ کے لگائے ہوئے بیج کے پودے دنیا میں پھیل رہے ہیں۔ گویا وہ بیج جو آپ کے ہاتھوں سے اللہ تعالیٰ نے لگوایا تھا اس کے پودے دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی پھیل رہے ہیں۔ جیسے زمیندار جانتے ہیں اور یہاں بھی زمیندارے کا بڑا رواج ہے کہ پودوں کی نرسری تیار کر کے پھر ان پودوں کو کہیں بھی لے جایا جا سکتا ہے اور وہاں لگایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح آپ کی قرآن کریم کے علم و معرفت کی تفسیر کی نرسری اور جس طرح آپ نے ہمیں اسلام کا پیغام قرآن کریم کی روشنی میں واضح کر کے بتایا دنیا کے کونے کونے میں پھیلایا جا رہا ہے اور دنیا اسلام کی خوبصورت تعلیم کی گرویدہ ہو رہی ہے۔
پس اس میں تو کوئی شک نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ اسلام کا خوبصورت پیغام دنیا میں پھیلنا ہے اور پھیل رہا ہے۔ اس کے بارہ میں آپ کو اللہ تعالیٰ نے متعدد الہاموں کے ذریعہ خوشخبری بھی دی ہے۔ ایک توکَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ کا ذکر ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی الہام ہیں۔ چند ایک بیان کرتا ہوں۔ مثلاً فرمایا یَنْصُرُکُمُ اللہُ فِیْ دِیْنِہٖ۔(تذکرہ صفحہ 574 ایڈیشن چہارم)۔ اللہ تعالیٰ اپنے دین میں تمہاری مدد کرے گا۔ یعنی جس کام کو آپ پھیلا رہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کا دین ہے وہ اسلام ہے۔پھر ایک الہام ہے کہ یَنْصُرُکَ اللہُ مِنْ عِنْدِہٖ۔ (تذکرہ صفحہ 39ایڈیشن چہارم) ۔خدا اپنی طرف سے تیری مدد کرے گا۔ پھر ایک الہام ہے کہ ’’میں تجھے زمین کے کناروں تک عزّت کے ساتھ شہرت دوں گا‘‘۔ (تذکرہ صفحہ 149 ایڈیشن چہارم)۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عزت قائم ہو گی اور اسلام کا پیغام پہنچانے کی وجہ سے قائم ہو گی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے قائم ہو گی۔ پھر یہ الہام ہے جو ہر جگہ کافی مشہور بھی ہے اور ہر جگہ کہا جاتا ہے۔ اس کا میں ذکر کرنا چاہتا تھاکہ ’’ مَیں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘۔ (تذکرہ صفحہ 260ایڈیشن چہارم)۔ ہر کوئی جانتا ہے، ہر کوئی کہتا ہے۔ پس اس میں تو کوئی شک نہیں کہ آپ کا پیغام دنیا میں پہنچنا ہے اور دنیا آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق اور ایک جری پہلوان کی حیثیت سے جانے گی اور جان رہی ہے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ ایم ٹی اے کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ دنیا میں خود پیغام پہنچا رہا ہے۔ مَیں پہلے بھی کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ ہمارے دنیاوی وسائل کبھی بھی اس بات کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے یا کم از کم اس وقت تک اس بات کے متحمل نہیں ہیں کہ ہم ٹی وی چینل چلائیں، چوبیس گھنٹے چلائیںا ور دنیا کی مختلف زبانوں میں پروگرام دیں اور دنیا کے ہر خطے میں اس کے پروگرام پہنچ رہے ہوں اور دنیا کے جو مختلف خطے ہیں، ان میں ہر خطہ میں، میرے خطبات کے ترجمے پہنچ رہے ہوں۔ چھ سات زبانوں میں ساتھ کے ساتھ رواں ترجمہ ہو رہا ہے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے گئے وعدوں کا نتیجہ ہے۔ اور پھر اس کے ذریعہ یعنی میرے خطبات کے ذریعہ اور پروگراموں کے ذریعہ اور ایم ٹی اے کے مختلف پروگراموں کے ذریعہ سعید فطرت لوگ احمدیت میں شامل ہو رہے ہیں۔
مجھے کئی لوگ لکھتے ہیں کہ کس طرح ایم ٹی اے پر آپ کے خطبات نے یا دوسرے پروگراموں نے ہم پر اثر ڈالا اور ہم نے احمدیت میں دلچسپی لی اور اللہ تعالیٰ نے احمدیت قبول کرنے کی توفیق دی۔ دو تین دن ہوئے Guadelope کے مربی کے ساتھ وہاں کے نو احمدی کا ایک پروگرام آ رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ احمدیت کا تعارف تو مجھے ہو گیا لیکن میں بیعت نہیں کر رہا تھا اور خطبات سننے کے بعد پھر تسلی ہوئی اور ان کے ذریعہ پھر مجھے بیعت کی بھی تحریک پیدا ہوئی۔ پس یہ تو اللہ تعالیٰ کے کام ہیں اور اس کے وعدے ہیں۔ یہ تو پورے ہوتے رہیں گے انشاء اللہ۔ اس میں ہمارا یا کسی انسانی کوشش کا کمال نہیں ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بہترین مومن کی نشانی یہ ہے کہ وہ دعوت الی اللہ کرے۔ پس اللہ تعالیٰ ہمیں اس کام میں حصہ دار بنانا چاہتاہے جو کام وہ خود کر رہا ہے اور جس کے کرنے کا وہ فیصلہ کر چکا ہے۔ ہمیں تو اللہ تعالیٰ ثواب میں شامل کرنا چاہتا ہے۔ پس ہر احمدی کو اس بات کو اہمیت دینی چاہئے کہ جو کام اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہوا ہے اس میں حصہ دار بن کر ثواب میں حصہ لیں۔ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنیں۔
پس آپ لوگ جو یہاں سپین میں ہیں وقت نکال کر مہینہ میں کم از کم ایک دو دن تبلیغ کے لئے دیں۔ یہاں کے لوگوں کی نفسیات کے مطابق تبلیغ کے مختلف طریقے تلاش کریں۔ ایک نو احمدی سپینش ہیں دو تین دن ہوئے مجھے ملنے آئے تو کہنے لگے کہ جس طرح ہمیں یہاں اسلام کی تبلیغ کرنی چاہئے ہم اس طرح نہیں کر رہے، جماعت نہیں کر رہی۔ بلکہ ان کے خیال میں ایک آدھ مربی کے علاوہ مربیان بھی سپینش نفسیات کو سمجھتے ہوئے تبلیغ نہیں کر رہے یا ان کو پتا نہیں کس طرح تبلیغ کرنی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم بیشک یورپ میں شمار ہوتے ہیں لیکن ہماری نفسیات یورپ سے کچھ مختلف ہے۔ یورپ کے لوگوں کی طرح آجکل کے حالات کی وجہ سے اسلام سے اور مسلمانوں سے ہم یہاں کے لوگ خوفزدہ بھی ہیں۔ یورپ کا اثر ہے۔ لیکن ساتھ ہی مسلمانوں کے ایک لمبا عرصہ سپین میں رہنے کی وجہ سے غیرمحسوس طریقے پر ہمارے اندر مسلمانوں سے تعلق کا جذبہ بھی ہے جسے ابھارنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر بعض علاقوں میں جیسے اندلس کا صوبہ ہے۔
پس ہمارے مرکزی تبلیغ سیکرٹری بھی اور جماعتوں کے تبلیغی سیکرٹریان بھی اور دوسرے عہدیدار بھی جہاں حالات کے مطابق منصوبہ بندی کریں وہاں ہر احمدی کو بھی خدام، انصار، لجنہ کو بھی تبلیغ کے لئے وقت دینا چاہئے۔ یہاں مسلمانوں کو سات آٹھ سو سال پہلے تلوار کے زور پر عیسائی بنایا گیا لیکن ہم نے محبت پیار اور اسلام کی خوبصورت تعلیم کے ذریعہ دلوں کو جیتنا ہے۔ جماعت کاتعارف، اسلام کا تعارف تو یہاں وسیع پیمانے پر اب ہو رہا ہے۔ ٹی وی چینل اور اخبار جماعت کے بارے میں لکھتے ہیں اور اس ذریعہ سے بھی ایک تبلیغ ہو رہی ہے۔ قرطبہ کے ایک اخبار کے ایڈیٹر یا شاید مالک مجھے ملنے آئے تھے۔ انہوں نے اخبار دکھایا کہ کس طرح میں جماعت کے بارے میں لکھتا ہوں اور پورا صفحہ لکھا ہوا ہے۔ لندن میں جب ہمارا پِیس سمپوزیم ہوا ہے تو وہاں بھی یہاں کے اخبار والے اور ٹی وی چینل کے نمائندے آئے ہوئے تھے۔ ٹی وی چینل کے نمائندے نے میرا انٹرویو بھی لیا اور پھر یہاں آ کر اپنے ٹی وی چینل پر جماعت کے بارے میں اور جماعت اسلام کی جو پُرامن تعلیم پیش کرتی ہے اس کے بارے میں ایک پروگرام بھی دکھایا۔ میرے انٹرویو کا کچھ حصہ بھی اس میں دکھایا۔ تو اب سپین کی وہ صورتحال نہیں ہے جو آج سے پینتیس چالیس سال پہلے تھی۔
آج اگر پیغام پہنچانے میں کمی ہے تو ہماری طرف سے ہے۔ پھر یہاں مختلف شہروں میں مراکو اور دوسرے عرب ممالک کے لوگ آ کر بس گئے ہیں۔ ان کے علاقوں میں عربی بولنے والوں کے ذریعہ سے تبلیغ کی جائے۔ عربی لٹریچر تقسیم کیا جائے۔ سپینش زبان میں لٹریچر کا جہاں تک تعلق ہے اور اسلام اور احمدیت کے تعارف پر مبنی لٹریچر کا جہاں تک تعلق ہے گزشتہ چند سال سے مَیں یُوکے اور جرمنی کے فارغ التحصیل طلباء جو شاہد کر کے میدان عمل میں آنے والے ہیں، ان کو میدان عمل میں بھیجنے سے پہلے یہاں بھیجتا ہوں اور وہ ہر شہر میں یہ لٹریچر تقسیم کرتے ہیں۔ میرے خیال میں شاید تین ملین سے زیادہ کی تعداد میں لٹریچر تقسیم ہو چکا ہو گا۔ نئے مربیان اور جامعہ کے وہ لڑکے جو یہاں آتے ہیں ان کا بھی عمومی تاثر یہی ہے کہ سپین کے لوگ زیادہ بہتر طریق پر لٹریچر وصول کرتے ہیں اور عموماً عزت اور احترام سے ملتے ہیں اور پڑھتے ہیں۔ بہت کم ہیں جو پھینکتے ہوں۔ عموماً دیکھتے ہیں، پڑھتے ہیں اور پھر جیب میں ڈال لیتے ہیں۔
اسی طرح ہماری ایک سپینش خاتون ہیںجو احمدی ہوئی ہیں اور لندن میں رہتی ہیں۔ وہاں ہمارے سیکرٹری نومبایعین کی اہلیہ ہیں۔ ان کا خاندان یہیں ہے۔ ماں باپ یہیں ہیں۔ وہ بھی یہاں آتی ہیں تو مختلف سکولوں میں یا یونیورسٹی میں، کالجوں میں جا کر تبلیغ کرتی ہیں۔ وہ لندن سے آ کے مواقع تلاش کر لیتی ہیں کہ کس طرح جماعت کا تعارف کروانا ہے اور اسلام کا پیغام پہنچانا ہے تو جو یہاں رہنے والے ہیں، مربیان ہیں وہ ایسے مواقع کیوں نہیں پیدا کر سکتے۔ پس یہاں رہنے والے احمدی عہدیداروں اور مربیان کو اس بارے میں ایک مضبوط اور مربوط پروگرام بنانا چاہئے۔ نواحمدی سپینش جس کا میں نے ذکر کیا ہے ان کو بھی میں نے یہی کہا تھا کہ تمہارے خیال میں تبلیغ کے جو بہترین طریقے ہو سکتے ہیں وہ مجھے لکھ کر بھجواؤ ۔ جب اس کا وہ مشورہ آئے گا تو وہ بھی یہاں بھجوا دوں گا۔ اگر وہ قابل عمل ہے اور آپ لوگوں کو سمجھ آتی ہے تو پھر اس کے مطابق عمل ہونا چاہئے۔ لیکن اصل چیز یہی ہے کہ آپس کے تعاون کی ضرورت ہے۔ ذاتیات سے ہٹ کر جماعتی مفادات کو مقدم رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے احمدی ہو کر اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں اور ایک خاص جوش، جذبے اور لگن سے ادا کرنی ہیں۔ صرف سال بعد نئے مربیان کے یہاں مہینہ کے لئے آ کر لٹریچر تقسیم کرنے سے مقصد پورا نہیں ہو گا۔ میں نے ان لوگوں کو اس لئے بھجوانا شروع کیا تھا کہ ایک تو آپ کی مدد ہو جائے گی کیونکہ یہاں افراد جماعت کی تعداد کم ہے۔ دوسرے اس طرح آپ کے دل میں بھی تبلیغ کا شوق پیدا ہو گا یا زبان صحیح طرح نہ آنے کی وجہ سے کم از کم تبلیغ کرنے کے لئے جو حجاب ہے وہ دُور ہو گا اور سب تبلیغ کے کام میں شامل ہو جائیں گے۔ جو مربیان نئے آتے ہیں ان کو تو زبان نہیں آتی لیکن پھر بھی ہر جگہ جاتے ہیں اور اپنا مقصد پورا کر لیتے ہیں۔
پس یہ احساس پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دعوت الی اللہ کا کام جو ایک حقیقی مومن کے سپرد کیا ہے اسے ہم نے بھی پورا کرنا ہے۔ ایک تڑپ اور جذبے سے اس میں حصہ لینا ہے اور اس کام میں سب سے زیادہ مربیان کا پہلے فرض ہے کہ وہ تبلیغ کے مختلف راستے تلاش کریں۔ افراد کو بتائیں اور افراد جماعت کو ساتھ لے کر چلیں۔ جو نیشنل سیکرٹری تبلیغ ہیں وہ تبلیغ کے بارے میں بڑے جذبے کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے کھل کر تو مجھے نہیں کہا لیکن لگتا ہے کہ انہیں بجٹ کا بھی مسئلہ رہتا ہے۔ افراد جماعت کے تعاون کا بھی مسئلہ رہتا ہے۔ پس یہ امیر جماعت کی بھی ذمہ داری ہے کہ اگر سیکرٹری تبلیغ اور مربیان اور افراد جماعت کو بجٹ کا مسئلہ ہے تو حل کریں، مجھے لکھیں۔ اور اس کے لئے امیر جماعت کا بھی کام ہے کہ بھرپور تعاون دیں۔ پہلے بھی تو اخراجات بہت سارے مرکز پورے کرتا ہے۔ یہی طریق ہے جس سے ہم اسلام کی کھوئی ہوئی شان دوبارہ قائم کر سکتے ہیں۔ یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا مقصد تھا۔ زمانے کی حالت کا نقشہ کھینچتے ہوئے اور اسلام کی موجودہ حالت کو سامنے رکھ کر اپنے دل کے درد کا ذکر فرماتے ہوئے اور یہ بتاتے ہوئے کہ اب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اسلام کی شان و شوکت دوبارہ قائم ہو، اسلام کی برتری دنیا پر دوبارہ ثابت ہو، مخالفین اسلام کے منصوبوں کو اللہ تعالیٰ تباہ کرنا چاہتا ہے اور تباہ کرنے والا ہے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھیجنے اور سلسلہ کو قائم کرنے کا انتظام فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ اب اس سلسلہ کی عظمت کو دکھا رہا ہے۔ ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’یہ زمانہ کیسا مبارک زمانہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان پُرآشوب دنوں میں محض اپنے فضل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے اظہار کے لئے یہ مبارک ارادہ فرمایا۔‘‘ (خدا تعالیٰ نے ان پرآشوب دنوں میں محض اپنے فضل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے اظہار کے لئے یہ مبارک ارادہ فرمایا) ’’کہ غیب سے اسلام کی نصرت کا انتظام فرمایا اور ایک سلسلہ کو قائم کیا۔ مَیں ان لوگوں سے پوچھنا چاہتا ہوں جو اپنے دل میں اسلام کے لئے ایک درد رکھتے ہیں اور اُس کی عزت اور وقعت اُن کے دلوں میں ہے وہ بتائیں کہ کیا کوئی زمانہ اس زمانے سے بڑھ کر اسلام پر گزرا ہے جس میں اِس قدر سبّ و شتم اور توہین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کی گئی ہو اور قرآن شریف کی ہتک ہوتی ہو؟ پھر مجھے مسلمانوں کی حالت پر سخت افسوس اور دلی رنج ہوتا ہے۔ اور بعض وقت مَیں اس درد سے بیقرار ہو جاتا ہوں کہ ان میں اتنی حس بھی باقی نہیں رہی کہ اس بے عزتی کو محسوس کر لیں۔ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ بھی عزت اللہ تعالیٰ کو منظور نہ تھی جو اس قدر سبّ و شتم پر بھی وہ کوئی آسمانی سلسلہ قائم نہ کرتا اور ان مخالفینِ اسلام کے منہ بند کر کے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی عظمت اور پاکیزگی کو دنیا میں پھیلاتا جبکہ خود اللہ تعالیٰ اور اس کے ملائکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں تو اس توہین کے وقت اس صلوٰۃ کا اظہار کس قدر ضروری ہے۔ اور اس کا ظہور اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کی صورت میں کیا ہے۔‘‘ (یعنی جماعت احمدیہ کو قائم کرکے۔) فرمایا’’ مجھے بھیجا گیا ہے تا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کھوئی ہوئی عظمت کو پھر قائم کروں اور قرآن شریف کی سچائیوں کو دنیا کو دکھاؤں اور یہ سب کام ہو رہا ہے۔ لیکن جن کی آنکھوں پر پٹی ہے وہ اس کو دیکھ نہیں سکتے حالانکہ اب یہ سلسلہ سورج کی طرح روشن ہو گیا ہے اور اس کی آیات و نشانات کے اس قدر لوگ گواہ ہیں کہ اگر ان کوایک جگہ جمع کیا جائے تو ان کی تعداد اس قدر ہو کہ رُوئے زمین پر کسی بادشاہ کی بھی اتنی فوج نہیں ہے۔ اس قدر صورتیں اس سلسلہ کی سچائی کی موجود ہیں کہ ان سب کو بیان کرنا بھی آسان نہیں۔ چونکہ اسلام کی سخت توہین کی گئی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے اسی توہین کے لحاظ سے اس سلسلہ کی عظمت کو دکھایا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 5صفحہ 13-14۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
اور ہم گواہ ہیں کہ یہ عظمت اللہ تعالیٰ دکھا رہا ہے۔ یہاں بھی پریس کی اور لوگوں کی توجہ پیدا ہوئی ہے اور دنیا کے بعض ممالک میں اس کے کھل کر اظہار بھی ہو رہے ہیں۔ پس یقیناً یہ باتیں جو ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بات کی تصدیق کرنے والی ہیں۔ اور جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے کام تو وہ خود کر رہا ہے لیکن اس میں ہمیں حصہ دار بنانا چاہتا ہے اس لئے اس میں حصہ دار بنیں اور بھر پور طریقے سے بنیں۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ ہمیں یہ بتاتے ہوئے کہ عمر بڑھانی ہے تو تبلیغ کے کام میں مصروف ہو جاؤ،فرماتے ہیں کہ :
’’سب آدمی اپنے اپنے کام اور غرض سے جس کے لئے وہ آئے ہیں واقف نہیں ہوتے۔ بعض کا اتنا ہی کام ہوتا ہے کہ چوپایوں کی طرح کھا پی لینا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اتنا گوشت کھانا ہے۔ اس قدر کپڑا پہننا ہے وغیرہ اور کسی بات کی ان کو پرواہ اور فکر ہی نہیں ہوتی۔ ایسے آدمی جب پکڑے جاتے ہیں تو پھر یک دفعہ ہی ان کا خاتمہ ہو جاتا ہے‘‘۔ فرمایا’’ لیکن جو لوگ خدمت دین میں مصروف ہوں ان کے ساتھ نرمی کی جاتی ہے اس وقت تک کہ جب تک وہ اس کام اور خدمت کو پورا نہ کر لیں‘‘۔ فرمایا کہ’’ انسان اگر چاہتا ہے کہ اپنی عمر بڑھائے اور لمبی عمر پائے تو اس کو چاہئے کہ جہاں تک ہو سکے خالص دین کے واسطے اپنی عمر کو وقف کرے۔ یہ یاد رکھے کہ اللہ تعالیٰ سے دھوکہ نہیں چلتا۔ جو اللہ تعالیٰ کو دغا دیتا ہے وہ یاد رکھے کہ اپنے نفس کو دھوکہ دیتا ہے۔ وہ اس کی پاداش میں ہلاک ہو جاوے گا‘‘۔ فرمایا کہ’’ پس عمر بڑھانے کا اس سے بہتر کوئی نسخہ نہیں ہے کہ انسان خلوص اور وفاداری کے ساتھ اعلائے کلمۃ الاسلام میں مصروف ہو جاوے اور خدمت دین میں لگ جاوے اور آجکل یہ نسخہ بہت ہی کارگر ہے کیونکہ دین کو آج ایسے مخلص خادموں کی ضرورت ہے۔ اگر یہ بات نہیں ہے تو پھر عمر کا کوئی ذمہ دار نہیں ہے۔ یونہی چلی جاتی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 6صفحہ 329-330۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے جو نصیحت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرمائی تھی وہی ہمارے لئے بھی ایک سنہری نصیحت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر حضرت علیؓ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ بخدا تیرے ذریعہ ایک آدمی کا ہدایت پا جانا تیرے لئے اعلیٰ درجہ کے سرخ اونٹوں کے مل جانے سے بہتر ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الجہاد باب من اختار الغزو بعد البناء حدیث 2942)
سرخ اونٹ اس زمانے میں بڑی قیمتی چیز سمجھی جاتی تھی۔ سرخ اونٹ رکھنے والا جو ہوتا ہے وہ امیر کبیر انسان سمجھا جاتا تھا۔ پس آپ نے فرمایا یہ دنیاوی مال و متاع جو ہے اس بات کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا کہ تم تبلیغ کرو اور کسی کی ہدایت کا ذریعہ بنو۔
پس بیشک یہاں دنیا کمائیں جو یہاں آئے ہوئے ہیں لیکن کچھ وقت تبلیغ کے لئے بھی ضرور دیں۔ میں نے تو مہینہ میں ایک دو دن کہا ہے اس سے زیادہ آپ لوگوں کو دینا چاہئے۔ اس سے دنیا بھی ملے گی اور اللہ تعالیٰ بھی راضی ہو گا۔ جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا کہ تبلیغ کرنے کی وجہ سے اپنا دینی علم بھی بڑھے گا۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کسی نیک کام اور ہدایت کی طرف بلاتا ہے اس کو اتنا ہی ثواب ملتا ہے جتنا کہ ثواب اس پر عمل کرنے والے کو ملتا ہے اور اس کے ثواب میںسے کچھ بھی کم نہیں ہوتا۔
(صحیح مسلم کتاب العلم باب من سنّ سنۃ حسنۃ … الخ حدیث 6804)
پس یہ اس آیت کی وضاحت ہے جو شروع میں تلاوت کی گئی تھی کہ اس سے بہتر اور کون ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف بلائے۔ بلانے والے کو بھی ثواب مل رہا ہے۔ نیکی کرنے کا بھی ثواب مل رہا ہے اور جس کو ہدایت مل رہی ہے اس کا بھی ثواب مل رہا ہے۔ دعوت الی اللہ کرنے والے کو دنیاوی انعام بھی ملا، عمر میں بھی برکت پڑی اور نیکی کا ثواب بھی ملا۔ پس اللہ تعالیٰ کے انعاموں کا وارث بننے کے لئے ہمیں ضرورت ہے کہ اس وقت تبلیغ اور دنیا کی ہدایت کے لئے وقت دیں۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں اس اہم خدمت جو اسلام کی خدمت ہے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ :
’’اب وقت تنگ ہے۔ مَیں بار بار یہی نصیحت کرتا ہوں کہ کوئی جوان یہ بھروسہ نہ کرے کہ اٹھارہ یا انیس سال کی عمر ہے اور ابھی بہت وقت باقی ہے۔تندرست اپنی تندرستی اور صحت پر ناز نہ کرے۔ اسی طرح اور کوئی شخص جو عمدہ حالت رکھتا ہے وہ اپنی وجاہت پر بھروسہ نہ کرے۔ زمانہ انقلاب میں ہے۔ یہ آخری زمانہ ہے۔ اللہ تعالیٰ صادق اور کاذب کو آزمانا چاہتا ہے۔ اِس وقت صدق و وفا کے دکھانے کا وقت ہے اور آخری موقع دیا گیا ہے۔ یہ وقت پھر ہاتھ نہ آئے گا۔ یہ وہ وقت ہے کہ تمام نبیوں کی پیشگوئیاں یہاں آ کر ختم ہو جاتی ہیں۔ اس لئے صدق اور خدمت کا یہ آخری موقع ہے جو نوع انسان کو دیا گیا ہے۔ اب اس کے بعد کوئی موقع نہ ہو گا۔ بڑا ہی بدقسمت وہ ہے جو اس موقع کو کھو دے‘‘۔ فرماتے ہیں کہ’’ نرا زبان سے بیعت کا اقرار کرنا کچھ چیز نہیں ہے بلکہ کوشش کرو اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگو کہ وہ تمہیں صادق بنا دے۔ اس میں کاہلی اور سستی سے کام نہ لو بلکہ مستعد ہو جاؤ اور اُس تعلیم پر جو میں پیش کر چکا ہوں عمل کرنے کے لئے کوشش کرو اور اس راہ پر چلو جو میں نے پیش کی ہے‘‘۔
(ملفوظات جلد 6صفحہ 263-264۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبہ میں بھی کہا تھا اور ’ کشتی نوح‘ کے حوالے سے جو بات کی تھی کہ’ کشتی نوح‘ میں ہماری تعلیم کا جو حصہ ہے وہ ضرور ہر ایک احمدی کو پڑھنا چاہئے بلکہ پوری’ کشتی نوح‘ ہی آپ نے فرمایا۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد 3 صفحہ 408)
ہمیں دعوت الی اللہ کی جو توفیق ملنی ہے، اور ہمیں اعمال صالحہ بجا لانے کی جو توفیق ملنی ہے اس کی طرف بھی یہ ہماری تعلیم والے جو ارشادات ہیں وہ رہنمائی کرتے ہیں اور یہی وہ تعلیم ہے جو ہمیں بہترین مومن بنا سکتی ہے۔
اعمال صالحہ کی طرف مزید توجہ دلاتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ :
’’اگرچہ عام نظر میںیہ دیکھا جاتا ہے کہ لوگ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کے بھی قائل ہیں۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی زبان سے تصدیق کرتے ہیں۔ بظاہر نمازیں بھی پڑھتے ہیں۔ روزے بھی رکھتے ہیں۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ روحانیت بالکل نہیں رہی اور دوسری طرف ان اعمال صالحہ کے مخالف کام کرنا ہی شہادت دیتا ہے کہ وہ اعمال، اعمالِ صالحہ کے رنگ میں نہیں کئے جاتے۔‘‘ (اللہ تعالیٰ کے جو حکم ہیں ان کے مخالف سارے کام کر رہے ہیں۔ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ جو کام مسلمان کر رہے ہیں وہ اعمال صالحہ نہیں ہیں اور جو بعض نیکیاں کر بھی رہے ہیں وہ صرف فرمایا) ’’ بلکہ رسم اور عادت کے طور پر کئے جاتے ہیں کیونکہ ان میں اخلاص اور روحانیت کا شمّہ بھی نہیں ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ ان اعمال صالحہ کی برکات اور انوار ساتھ نہیں ہیں۔ خوب یاد رکھو کہ جب تک سچے دل سے اور روحانیت کے ساتھ یہ اعمال نہ ہوں کچھ فائدہ نہ ہو گا اور یہ اعمال کام نہ آئیں گے۔ اعمال صالحہ اُسی وقت اعمال صالحہ کہلاتے ہیں جب ان میں کسی قسم کا فساد نہ ہو۔ صلاح کی ضد فساد ہے۔ صالح وہ ہے جو فساد سے مبرّا منزّہ ہو۔ جن کی نمازوں میں فساد ہے اور نفسانی اغراض چھپے ہوئے ہیں ان کی نمازیں اللہ تعالیٰ کے واسطے ہرگز نہیں ہیں اور وہ زمین سے ایک بالشت بھی اوپر نہیں جاتی ہیں کیونکہ ان میں اخلاص کی روح نہیں اور وہ روحانیت سے خالی ہیں‘‘۔
(ملفوظات جلد 6صفحہ 237۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
اعمال صالحہ کی حقیقت کیا ہے؟ اس کو بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :
’’یاد رکھو اللہ تعالیٰ روح اور روحانیت پر نظر کرتا ہے۔ وہ ظاہری اعمال پر نگاہ نہیں کرتا۔ وہ ان کی حقیقت اور اندرونی حالت کو دیکھتا ہے کہ ان کے اعمال کی تَہ میں خود غرضی اور نفسانیت ہے یا اللہ تعالیٰ کی سچی اطاعت اور اخلاص۔ مگر انسان بعض وقت ظاہری اعمال کو دیکھ کر دھوکہ کھا جاتا ہے۔ جس کے ہاتھ میں تسبیح ہے یا وہ تہجد اور اشراق پڑھتا ہے، بظاہر اَبرار و اَخیار کے کام کرتا ہے، (بڑی نیکی کی باتیں کر رہا ہے) تو اس کو نیک سمجھ لیتا ہے‘‘۔ (ایک انسان عام طور پر تسبیح جس کے ہاتھ میں ہو اس کو انسان دوسرا بڑا نیک سمجھتا ہے) ’’مگر خداتعالیٰ کو تو پوست پسند نہیں۔‘‘ (جو ظاہری چیزیں ہیں وہ پسند نہیںہیں۔) ’’یہ پوست اور قشر ہے اللہ تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا اور کبھی راضی نہیں ہوتا جب تک وفاداری اور صدق نہ ہو۔‘‘ (ظاہری چمک دمک، ایک چیز کی ظاہری حالت، اس کا ایک shell، باہر کا خول یہ چیزیں اللہ کو پسند نہیں ہیں بلکہ یہ راضی نہیں کرتیں۔) فرمایا ’’بے وفا آدمی کتّے کی طرح ہے۔ جو مردار دنیا پر گرے ہوئے ہوتے ہیں وہ بظاہر نیک بھی نظر آتے ہوں لیکن افعالِ ذمیمہ اُن میں پائے جاتے ہیں۔‘‘ (برے کام کرنے والے ہیں) ’’اور پوشیدہ بدچلنیاں ان میں پائی جاتی ہیں۔ جو نمازیں ریا کاری سے بھری ہوئی ہوںان نمازوں کو ہم کیا کریں اور ان سے کیا فائدہ ۔‘‘
(ملفوظات جلد 6صفحہ 239-240۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس ایسے دکھاوے کے جو اعمال ہیں انسان کے کچھ کام نہیں آ سکتے۔ ایسے عمل جس میں ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کے خوف اور اس کی رضا مدّنظر نہ ہو اس کا کوئی ثواب نہیں ہوتا۔ ایسی دعوت الی اللہ کرنے والوں کے نتائج بھی خاطر خواہ نہیں ہوتے چاہے وہ جتنی مرضی کوشش کر لیں۔ پس اس طرف بھی ہمیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
پھر اعمال صالحہ کثرت سے بجا لانے کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ :
’’پس جو شخص ایمان کو قائم رکھنا چاہتا ہے وہ اعمالِ صالحہ میں ترقی کرے۔ یہ روحانی امور ہیں اور اعمال کا اثر عقائد پر پڑتا ہے ۔‘‘ (اگر مضبوط ایمان ہونا ہے تو اعمال بجا لانے ضروری ہیں۔) ’’جن لوگوں نے بدکاری وغیرہ اختیار کی ہے ان کو دیکھو تو آخر معلوم ہو گا کہ ان کا خدا پر ایمان نہیں ہے۔ حدیث شریف میں اسی لئے ہے کہ چور جب چوری کرتا ہے تو وہ مومن نہیں ہوتا اور زانی جب زنا کرتا ہے تو وہ مومن نہیں ہوتا۔ اس کے یہی معنی ہیں کہ اس کی بداعمالی نے اس کے سچے اور صحیح عقیدے پر اثر ڈال کر اسے ضائع کر دیا ہے۔ ہماری جماعت کو چاہئے کہ اعمالِ صالحہ کثرت سے بجا لاوے۔ اگر اِس کی بھی یہی حالت رہی جیسے اَوروں کی تو پھر امتیاز کیا ہوا؟ اور خدا تعالیٰ کو اُن کی رعایت اور حفاظت کی کیا ضرورت ہے؟ خدا تعالیٰ اُسی وقت رعایت کرے گا جب تقویٰ، طہارت اور سچی اطاعت سے اسے خوش کرو گے۔ یاد رکھو کہ اس کا کسی سے کچھ رشتہ نہیں ہے‘‘۔ (یعنی اللہ تعالیٰ کا کسی سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔)’’ محض لاف اور یاوہ گوئی سے کوئی بات نہیں بنا کرتی‘‘۔ (فضول باتیں کرتے رہو یا دعوے کرتے رہو۔ ان دعووں کا کوئی فائدہ نہیں ہے جب تک وفا نہ ہو۔) فرمایا کہ ’’سچی اطاعت ایک موت ہے۔ جو نہیں بجا لاتا وہ خدا تعالیٰ سے شطرنج بازی کرتا ہے کہ مطلب کے وقت تو خدا سے خوش ہوتا ہے اور جب مطلب نہ ہو تو ناراض ہو گیا۔ مومن کا یہ دستور نہیں چاہئے۔ بھلا غورتو کرو کہ اگر خدا تعالیٰ ہر ایک میدان میں کامیابی دیتا رہے اور کوئی ناکامی کی صورت کبھی پیش نہ آوے تو کیا سب جہان موحّد نہیں ہوسکتا‘‘۔ (ایک خدا کو ماننے والا نہ بن جائے۔) ’’اور خصوصیت کیا رہے گی۔ اسی لئے جو مصیبت میں وفا اور صدق رکھے گا خدا تعالیٰ اسی سے خوش ہو گا‘‘۔
ملفوظات جلد 6صفحہ 366-367۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس اعمال صالحہ اس وقت اعمال صالحہ ہیں جب اطاعت بھی کامل ہو اور کامل اطاعت کے ساتھ بجا لائے جائیں۔ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے بجا لائے جائیں۔ جب اپنی خواہشات کی دیواروں کو مکمل طور پر گرا دیا جائے اور صرف اور صرف ایک مقصد ہو کہ ہم نے اپنے ہر عمل کے پیچھے خدا تعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق عمل کرنا ہے۔ اور سچی فرمانبرداری یہی ہے۔ یہ نہیں کہ جہاں مفاد حاصل ہو جائے وہاں اطاعت اور فرمانبرداری کا اعلان کر دیا۔ جہاں مرضی کے مطابق کام نہ ہو وہاں شکوے شروع ہو گئے۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ نظام سے بھی غیر ضروری شکوے نظام سے ہٹاتے ہیں۔ پھر دین سے بھی ہٹاتے ہیں۔ خلافت سے بھی دُور کرتے ہیں اور پھر انسان کو اللہ تعالیٰ سے بھی دُوری پیدا ہو جاتی ہے۔ ہم نے بعض لوگوں کا یہی انجام دیکھا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :
’’ہمارے غالب آنے کے ہتھیار استغفار، توبہ، دینی علوم کی واقفیت، خدا تعالیٰ کی عظمت کو مدّنظر رکھنا اور پانچوں وقت کی نمازوں کو ادا کرنا ہے۔ نماز دعا کی قبولیت کی کنجی ہے۔ جب نماز پڑھو تو اس میں دعا کرو اور غفلت نہ کرو اور ہر ایک بدی سے خواہ وہ حقوق الٰہی کے متعلق ہو خواہ حقوق العباد کے متعلق ہو بچو‘‘۔ (ملفوظات جلد 5 صفحہ303۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیغام کی اشاعت اور غلبہ کا حصہ بنائے۔ پیغام کو پہنچانے کا اور اشاعت کے غلبہ کا حصہ بھی بنائے۔ توبہ استغفار کرتے ہوئے، دعائیں کرتے ہوئے ہم تبلیغ کے کام کو سر انجام دینے والے ہوں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد بجا لانے والے ہوں۔ یہی حقوق ہیں جو اعمال صالحہ بجا لانے کی طرف متوجہ رکھتے ہیں۔ ہمارے ہر کام میں اللہ تعالیٰ کی رضا ہمارے پیش نظر ہو۔ اللہ تعالیٰ کے کامل فرمانبرداروں میں ہم شامل ہوں۔ اور جب ہم ان باتوں کی طرف اپنی توجہ رکھیں گے تو اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق انشاء اللہ تعالیٰ، اسلام کے غلبہ کے دن بھی دیکھنے والے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔