ارشادات عالیہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام
نزول کے لفظ میں جو حدیثوں میں آیا ہے یہ اشارہ ہے کہ مسیح کے زمانہ میں امر اور نصرت، انسان کے ہاتھ کے وسیلہ کے بغیر اور مجاہدین کے جہاد کے بغیر آسمان سے نازل ہوگی اور مدبرّوں کی تدبیر کے بغیر تمام چیزیں اوپر سے نیچے آئیں گی۔ گویا مسیح بارش کی طرح فرشتوں کے بازوؤں پر ہاتھ رکھ کر آسمان سے اُترے گا۔ انسانی تدبیروں اور دنیاوی حیلوں کے بازوؤں پر اس کا ہاتھ نہ ہوگا۔ اور اس کی دعوت اور حجت زمین میں چاروں طرف بہت جلد پھیل جائے گی۔
’’اور ہر ایک بلندی سے دوڑنے سے یہ مطلب ہے کہ ہر ایک مراد اور مقصود میں کامیابی اور شادکامی ان کو میسر آئے گی اور ہر ایک سلطنت اور ریاست ان کے تصرف میں آجائے گی اور یَمُوْجُ بَعْضُھُمْ فِیْ بَعْضٍ سے یہ مراد ہے کہ اس زمانہ میں تمام فرقوں میں جنگ کی آگ بھڑک اُٹھے گی اور پہاڑوں برابر سونا چاندی اسلام کے نابود کرنے کے لئے اور مسلمانوں کو اسلام کے دائرہ سے نکالنے کے لئے خرچ کریں گے اور اسلام کی توہین سے بھری ہوئی کتابیں تالیف کی جائیں گی اور بہت سے مقاموں میں خدا تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے کہ وہ دن اسلام کی غربت کے دن ہوں گے اور مسلمان اس زمانہ میں قیدیوں کی طرح زندگی بسر کریں گے اور تفرقہ اور پراگندگی کی ہوائیں اُن کے سر پر چلیں گی۔ پس وہ بکھر جائیں گے اور پراگندہ ہو جائیں گے اور یَمُوْجُ بَعْضُھُمْ فِیْ بَعْضٍ سے مراد یہ ہے کہ ایک فرقہ دوسرے فرقہ کو کھا جائے گا اور یاجوج ماجوج سربلندی پائیں گے اور تمام سطح زمین پر اُن کے نکلنے کی خبریں سننے میں آئیں گی اور اُن دنوں میں اسلام بوڑھی عورت کی طرح ہوگا اور اُس میں کسی طرح کی قوت اور عزت نہیں رہے گی اور ذلّت پر ذلّت اُس کو پہنچے گی اور قریب ہوگا کہ بغیر تجہیز و تکفین کے زمین میں گاڑ دیا جائے ۔ اور ایسی مصیبتیں اس کے سر پر پڑیں گی کہ پہلے زمانہ میں کسی کان نے اس جیسا نہ سنا ہوگا اور جاہلوں کے گروہ در گروہ دین کے دائرہ سے باہر نکل جائیں گے اور دین میں سے گروہ در گروہ جاہل لوگ لعنت کرتے ہوئے اور تکذیب کرتے ہوئے نکل جائیں گے اور تمام امور زیر و زبر کئے جائیں گے۔ اور شریعت اور شریعت والوں پر رنج اور مصیبتیں اُتریں اور اُس کا چاند دیکھنے والوں کی نظر میں پرانی ٹہنی کی طرح نظر آئے اور یہ وہ ذلّت ہے کہ اس سے پہلے ملّت کو نہیں پہنچی اور قیامت تک نہیں پہنچے گی۔جب اس حد تک معاملہ پہنچ جاوے گا تب آسمان سے نصرت اور خداتعالیٰ کی طرف سے بغیر تلوار اور بغیر نیزے اور لڑنے والوں کے عزت کے نشان اُتریں گے۔[حاشیہ ۔ حضرت عیسیٰ بن مریم نے نہ تو خود جنگ کی اور نہ جہاد کا حکم دیا ۔ پس اسی طرح مسیح موعود خدائے ذوالجلال سے اسی کے نمونے پر ہو گا اور اس میں راز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ بنی اسرائیل کے خاتم الخلفاء اور اسلام کے خاتم الخلفاء کو بغیر شمشیر و سنان کے مبعوث فرمائے تاکہ ان شبہات کا ازالہ کیا جائے جو پہلے سے عوام کے طبائع میں پیدا ہو چکے تھے اور تا لوگ جان لیں کہ اشاعتِ دین امرالٰہی سے ہوئی ہے نہ کہ گردنیں مارنے اور قوموں کے قتل کرنے سے۔ پھر عیسیٰ کے وقت میں یہودیوں اور مسیح موعود کے وقت میں مسلمانوں کی اکثریت تقویٰ سے محروم ہو گئی اور ربِّ وُدود کے احکام کی نافرمانی کرنے لگے تو الٰہی حکمت سے یہ بعید تھا کہ ان فاسقوں کے بدلہ کافروں کو قتل کیا جائے۔ پس اچھی طرح غور کر اور غافلوں میں سے نہ بن۔] اور اِسی کی طرف خداتعالیٰ کے اس قول میں اشارہ ہے وَ (آخر آیت تک) اے عقلمندوں کے گروہ یہ مسیح موعود کی بعثت سے مراد ہے ۔ [حاشیہ ۔ اور اسی طرح مسیح موعود کی طرف قرآن کریم میں بھی اشارہ کیا گیا ہے یعنی سورۃ تحریم میں اور وہ فرمان الٰہی یہ ہے۔ (اور عمران کی بیٹی مریم کی (مثال دی ہے) جس نے اپنی عصمت کو اچھی طرح بچائے رکھا تو ہم نے اس (بچے) میں اپنی روح میں سے کچھ پھونکا ۔(التحریم : 13)بلاشبہ روح سے یہاں مراد عیسیٰ بن مریم ہیں۔ چنانچہ آیت کا ماحصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا کہ اس امّت میں مسیح بن مریم کو لوگوں میں سے سب سے زیادہ خشیت اختیار کرنے والا بنائے گا اور اس میں اپنی روح بروزی رنگ میں ڈالے گا اور یہ تمثیلی صورت میں مسلمانوں میں سب سے زیادہ متقی کے لئے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ پس غور کر کس طرح اللہ نے اس اُمّت کے بعض افراد کو عیسیٰ بن مریم کے نام سے موسوم کیا ہے اور جاہلوںمیں سے نہ بن۔]اور نزول کے لفظ میں جو حدیثوں میں آیا ہے یہ اشارہ ہے کہ مسیح کے زمانہ میں امر اور نصرت، انسان کے ہاتھ کے وسیلہ کے بغیر اور مجاہدین کے جہاد کے بغیر آسمان سے نازل ہوگی اور مدبرّوں کی تدبیر کے بغیر تمام چیزیں اوپر سے نیچے آئیں گی۔ گویا مسیح بارش کی طرح فرشتوں کے بازوؤں پر ہاتھ رکھ کر آسمان سے اُترے گا۔ انسانی تدبیروں اور دنیاوی حیلوں کے بازوؤں پر اس کا ہاتھ نہ ہوگا۔ اور اس کی دعوت اور حجت زمین میں چاروں طرف بہت جلد پھیل جائے گی اس بجلی کی طرح جو ایک سمت میں ظاہر ہو کر ایک دَم سے سب طرف چمک جاتی ہے۔ یہی حال اس زمانہ میں واقع ہوگا۔پس سن لے جس کو دو کان دیئے گئے ہیں۔ اور نور کی اشاعت کے لئے صوُر پھونکا جائے گا اور سلیم طبیعتیں ہدایت پانے کے لئے پکاریں گی۔اُس وقت مشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب کے فرقے خدا کے حکم سے جمع ہو جائیں گے۔ پس اُس وقت دل جاگ جائیں گے اور دانے اس پانی سے اُگیں گے نہ کہ جنگ کی آگ اور خونوں کے بہنے سے۔ اور لوگ آسمانی کشش سے جو زمین کی آمیزش سے پاک ہوگی کھینچے جائیں گے۔ یہ خداتعالیٰ کی طرف سے قضا کے دن کا نمونہ ہوگا۔‘‘
(خطبہ الہامیہ مع اردو ترجمہ صفحہ 168تا173۔شائع کردہ نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان۔ربوہ)